4/7/24

عابد سہیل کی تنقید نگاری، مضمون نگار: محمد فہام الدین

 ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


صحت مند ادب کے لیے تنقید ضروری ہے۔ ادب اور تنقید کا رشتہ اٹوٹ سمجھا جاتا ہے۔ نقاد کا مطالعہ اور مشاہدہ گہرا ہونا چاہیے تاکہ وہ جس فن پارے پر تنقید کر رہا ہو اس کے بنیادی تقاضوں اور ا س کی باریکیوں سے اپنے قاری کو اچھی طرح واقف کراسکے۔ اس کا رویہ مخلصانہ اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے عابد سہیل ایک اہم تنقید نگار ہیں۔ تنقید نگاری میں ان کا نام ہمیشہ ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتا رہے گا۔ انھوں نے زیادہ تر اردو فکشن پر لکھا ہے۔ فکشن میں بھی اردو افسانے کو زیادہ ترجیح دی ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں لیکن ان کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ’فکشن کی تنقید چند مباحث‘ 2000 میں شائع ہوا۔ اس میں سات مضامین اور سات اردو اہم افسانوں کے تجزیے ہیں جو اس طرح ہیں:

 افسانہ کی تنقید۔ چند مباحث 1، افسانہ کی تنقید۔ چند مباحث2، افسانہ کی تنقید۔ چند مباحث3، تہذیب ثقافت اور افسانہ،  ویرانے: ایک مطالعہ، اردو افسانہ، مسائل اور رجحانات،  جدید ناول کا فن۔ ایک مطالعہ

افسانوں کے تجزیے:

پیتل کا گھنٹہ، افق اور عمود، تین مائیں۔ ایک بچہ، نیا قانون، مراسلہ، کھیل کا تماشائی، ٹیبل لینڈ

یہ مضامین اور تجزیے بقول مصنف 1968اور 1998 کے درمیان لکھے گئے تھے جسے برائے نام نظر ثانی کرکے کتابی شکل میں پیش کیے جارہے ہیں۔ اس کتاب میں انتہائی مبسوط پیش لفظ بھی ہے جس سے اردو فکشن خاص طور سے اردو افسانے پر عابد سہیل کے خیالات و نظریات کا پتہ چلتا ہے۔ اردو فکشن کی تنقید پر بعد میں توجہ دی گئی۔ پروفیسر وقار عظیم اور ممتاز شیریں نے پہلے اس طرف توجہ دی اس کے بعد شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، قمر رئیس اور وہاب اشرفی نے اس سلسلے کو مضبوط و مستحکم کیا۔ عابد سہیل اردو افسانے کی تنقید میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر تخلیق کار تھے۔ جب کوئی تخلیق کار تنقید کرتا ہے تو وہ ایک اچھے نقاد کے فرائض انجام دیتا ہے کیونکہ وہ تخلیقی کرب اور اس کی باریکیوں سے خود بھی گزرچکا ہوتا ہے۔ عابد سہیل ایک اچھے افسانہ نگار ہونے کے ساتھ اپنے مقبول رسالے ماہنامہ ’کتاب‘ کی ادارت بھی سنبھالتے تھے۔ اس دوران انھیں متعدد افسانوں میں سے معیاری افسانے کے انتخاب کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے بھی ان کا ناقدانہ شعور بیدار ہوا۔

فکشن کی تنقید او رمباحث‘ اپنے طرز کی ایک منفرد کتاب ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ کے الفاظ میں

’’بنیادی طور پر وہ ایک تخلیق کار تھے اور تخلیق کار کی تنقید جس طرح تازہ کار اور غیر رسمی ہونی چاہیے، یہ مجموعہ ایسی تنقید کی مثال ہے۔ تنقید کو انھوں نے اپنا پیشہ نہیں بنایا۔ مطالعے کا شوق، نئی نسل کے ادیبوں کی تحریروں کو خصوصی دلچسپی سے پڑھتے اور اپنی رائے بھی دیتے۔ ان کی رایوں میں ان کے مطالعے کی جھلک نظر آتی ہے۔ یادداشت اچھی پائی تھی اس لیے وقت ضرورت حوالے کا پیوند بھی لگا دیتے۔ کبھی مرعوب کرنے یا اپنی رائے کو بضد منڈھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہر بات عجز و انکساری سے شروع ہوتی اور خاکساری پر ختم ہوتی۔‘‘ 1

عابد سہیل نے اس کتاب میں غیر رسمی اور غیر ادبی انداز سے افسانوی ادب کی فنی نزاکتوں کو زیر بحث لاکر اس کا پیش لفظ لکھا ہے۔ افسانہ کے متعلق سے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ وہ اس طرح ہیں۔

پھر کیا ہوا ‘ کی افسانوی ادب سے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔

افسانے میں سارا کھیل واقعے کا ہوتا ہے اور واقعہ چونکہ ’زمان و مکان‘ کا اسیر ہوتا ہے اس لیے اسے مستقبل قریب اور مستقبل بعید میں اس کی علاقہ مندی Relevance کیسے قائم رہتی ہے؟

افسانے کے لیے حقیقت کا التباس حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا نہ ہو کہ ’ایسا ہونا تو ممکن ہی نہیں‘ کیا یہ ممکن ہے کہ واقعہ حقیقت کو پوری طرح ڈھک لے۔

ہر صنف ادب کے کچھ نہ کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سے روگردانی کو کس حد تک برداشت کیا جائے گا؟ شعر کی دنیا چونکہ چھوٹی ہوتی ہے اس لیے اس میں لسانی یافتی سقم اور خیال ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں جب کہ افسانے میں ایسا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ افسانے میں خیال، زبان و بیان او رفن کی دوسری خامیوں اور خیال کے درمیان رشتے کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔

افسانے میں امکانات کی دنیا کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی سماپاتا ہے۔ متعلقہ امکانات کے باقی حصے سے اس کا کیا رشتہ ہوتا ہے؟

افسانہ نگار کے پاس جادو کی کون سی چھڑی ہوتی ہے جس کی وجہ سے قاری ماقبل اور مابعد زمان اور مکان کی تبدیلی اور اس کے عدم تعین کو قابل اعتنا نہ سمجھنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔

ایک اور سوال افسانے کی تعریف کا ہے۔ کیا جدلیاتی مادیت کی طرح کوئی ایسا اصل الاصول پیش کیا جاسکتا ہے جو اس کی کثیر الجہاتی میں بھی اپنی معقولیت قائم رکھ سکے۔

اس کتاب میں مصنف نے اردو فکشن پر طویل گفتگو کی ہے۔ یہ مباحثے سات مختلف عنوانات کے تحت لکھے گئے تنقیدی مباحث ہیں، جس میں افسانے کے مسائل اور رجحانات کو تخلیقی عمل کے پیمانے پر تولا گیا ہے۔ افسانے کی مبادیات سے متعلق کئی اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں اور ان کا ممکنہ جواب تلاش کرکے تخلیق پارے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عابد سہیل نے افسانے کے حوالے سے جن مسائل کو اٹھایا ہے مثلاً افسانے کی تعبیر و تفہیم کو ناقابل اعتنا سمجھنا، اسے دوسرے درجے کی صنف تصورکیا جانا، شعر کے ماڈل پر پرکھنا، افسانے کے مقابل شعری ادب کو فوقیت دینا، یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ شاہ نواز قریشی لکھتے ہیں:

’’فکشن کی تنقید میں انھوں نے جس منطقی انداز میں جس مدلل طریقے سے افسانوی ادب پر گفتگو کی ہے اس طرح سے اس سے اس سلسلے میں کبھی کوئی بات نہیں ہوئی، نہ اس انداز میں کبھی کچھ لکھا گیا۔ انھوں نے افسانوی ادب کی عملی تنقید کے اصول متعین کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ چنانچہ فکشن کی تنقید کو اگر افسانویت یعنی افسانوی ادب کی بوطیقا کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ ‘‘2

عابد سہیل بامقصد ادب کے حامی اور ترقی پسند نقطۂ نظر کے ہمنوا تھے۔ اس کتاب میں فکشن کی تنقید کے علاوہ ’تہذیب، ثقافت اور افسانہ‘ ’ویرانے ایک مطالعہ‘ اور ’جدید ناول کا فن : ایک مطالعہ‘کا تجزیاتی محاکمہ بھی پیش کیا ہے۔

تہذیب و ثقافت ہر قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے قوم کی شناخت ہوتی ہے۔ فکشن میں اس کی پیش کش ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ ہر ادیب اپنے فن کا خمیر ان تہذیبی و ثقافتی مٹی سے تیار کرتا ہے جن کی جڑیں سالہا سال کے آپسی میل جول اور بھائی چارے کے تحت فروغ پاتی رہی ہیں۔ تہذیب کی ترجمانی ادب کے ذریعے ہوتی رہی ہے۔ عابد سہیل نے اپنے مضمون ’تہذیب، ثقافت اور افسانہ‘ میں اسے اس طرح اجاگر کیا ہے:

’’مشترکہ تہذیب، ثقافت جس کی ارفع ترین شکل ہوتی ہے،  کے بغیر افسانہ کا وجود ممکن ہیں اور وہ اس تصور کا اس حد تک اسیر ہوتا ہے کہ شور زنجیر پا تک کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ یہ اسیری ہوتی ہی نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ افسانہ میں اس کی موجودگی اس طرح ناگزیر ہوتی ہے جس طرح لکھنے کے لیے کاغذ، قلم یا اس طرح کی کوئی دوسری چیز۔ ‘‘3

جیساکہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے،’فکشن کی تنقید چندمباحث ‘میں نظریاتی مباحث کے علاوہ اہم افسانوں کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنے تجزیے میں افسانہ نگاری کی شخصیت ان کے نظریات اور ان کے فن پر پوری روشنی ڈالی ہے۔ کردار، پلا ٹ اور وحدت تاثر، تجسس اور زبان و بیان کا انھوں نے پوری غیر جانبداری سے تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔ افسانے کا مطالعہ انھوں نے معروضی طریقے سے کیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے فن کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں پر نظر ڈالی ہے۔ فکشن کی تنقید چند مباحث میں انھوں نے فکشن کی تنقید کی جو سطح قائم کی تھی اور افسانوں کو پرکھنے اور جانچنے کے جن پیمانوں پر زور دیا تھا، ان افسانوں کے تجزیے میں ان کو پوری طرح برتا گیا ہے۔

فکشن کی تنقید چند مباحث‘ میں سات افسانوں کے تجزیوں کے علاوہ عابد سہیل کی کتاب ’افسانیات‘ جو ان کی وفا ت کے بعد 2017میں ان کی اہلیہ نصرت عابد سہیل نے شائع کروائی ہے۔اس میں بھی افسانے پر تنقیدی مضامین اور تجزیے ہیں جو اس طرح ہیں:

 آج کا افسانہ : چند زاویے، نئی حقیقت پسندی اور اردو افسانہ، قمر رئیس اور افسانے کی پرکھ۔ یلدرم سے رتن سنگھ تک،  تین افسانے : لائو، بالکونی اور منتھن، اقبال متین کے تین افسانے (ایک غیر رسمی مطالعہ)،  ’دھمک‘ ایک مطالعہ،  عبدالصمد کے افسانے۔ سیاہ کاغذ کی دھجیاں کی روشنی میںعابد سہیل نے افسانوںکا جائزہ لیتے ہوئے کئی ایسے نکات پیش کیے ہیں جو اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک اقتباس دیکھیے:

’’افسانے پڑھنے کا صحیح طریقہ تو وہی ہے جو عام قاری اختیار کرتا ہے۔ پڑھنا شروع کیا گرفت میں لیا تو باقی کام چھوڑ چھاڑ کر ختم کرکے ہی دم لیا، پڑھتے نہ بنا تو صفحے پلٹ دیے یا کتاب ہی واپس میز پر رکھ دی۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو نقاد یا مضمون نگار اپناتا ہے، خاص طور سے اس وقت جب اسے مصنف یا افسانے پر کچھ لکھنا ہو، فوری طور پر مستقبل قریب میں کبھی بھی ۔۔۔زبان و بیان کی ناہمواریوں پر نشان لگائے جارہے ہیں، کوئی واقعہ کوئی کردار یا مکالمہ اہم معلوم ہوا تو اس پر بھی نشان لگا دیا۔ ‘‘4

افسانیات‘ میں شامل مضامین پر نگاہ ڈالنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ عابد سہیل اردو تنقید میں بھی مضبوط پکڑ رکھتے تھے۔ آئیے چند مضامین پر نظر ڈالتے ہیں۔

آج کا افسانہ چند زاویے‘ میں فکشن میں موضوعات اور ان کی پیش کش میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تبدیلیاں دبے پائوں داخل ہوتی ہیں اور ان کی موجودگی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب چند نہایت ہی عمدہ اور بہت سی مقابلتاً کم عمدہ تحریریں مختصر وقفہ میں سامنے آتی ہیں ظاہر ہے یہ تحریر یں ایک دوسرے کے مماثل نہیں ہوتیں لیکن ان میں کچھ نئے اور مماثل پہلو ضرور ہوتے ہیں۔ ہم اسی لمحے کو ان تبدیلیوں کا نقطۂ آغاز تسلیم کرلیتے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ نئے فکری پس منظر سے کسب فیض کرنے والے افسانہ نگاروں نے کوئی ایسا افسانہ نہیں لکھا جس کے مطالعے سے ٹوبہ ٹیک سنگھ، کالو بھنگی، شکر گزار آنکھیں، لاجونتی، اپنے دکھ مجھے دے دو، چوتھی کا جوڑا اور ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ جیسے افسانے یاد آجائیں۔

قمر رئیس اور افسانے کی پرکھ‘ میں عابد سہیل نے لکھا ہے کہ ان کا شمار اردو فکشن کے معتبر نقادوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو فکشن کی چھان پھٹک میں کم وبیش پچاس سال گزارے۔ ترقی پسند نظریے سے ساری زندگی اپنا رشتہ قائم رکھا۔

قمر رئیس کی ترقی پسندی کے تعلق سے عابد سہیل کا خیال ہے کہ ان کی ترقی پسندی ایک سمندر ہے جس میں چھوٹی بڑی بہت سی ندیاں اپنی شناخت کھوکر ایک بڑی حقیقت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’افسانوی ادب پر قمر رئیس کی نئی تحریروں میں مجادلہ کے بجائے مفاہمت کی راہیں زیادہ واضح ہیں اور ا س طرح وہ اردو میں فکشن کے واحد نقاد ہیں جو ترقی پسندی کے بنیادی تصورات سے انحراف کرنے کے باوجود اردو افسانے کی اصلی روایت کو ایک بڑے کل (whole)کی طرح دیکھتے ہیں۔‘‘ 5

اقبال متین کے تین افسانے‘ (ایک غیر رسمی سا تنقیدی مطالعہ) میں عابد سہیل نے لکھا ہے کہ اقبال متین نقاد نہیں افسانہ نگار ہیں اس لیے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ افسانے کو کیسا ہونا چاہیے۔ انھوں نے نہ تو کردار کا ذکر کیا ہے نہ واقعے کا، نہ واقعات کا تو یہ بتایا کہ اس میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ اس کی زبان کیسی ہونی چاہیے۔ آغاز اور انجام کیساہونا چاہیے لیکن یہ کہہ کر کہ کہانی جب جنم لیتی ہے تو زندگی کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ ‘‘ انھوں نے بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ اس سلسلے میں مصنف نے اقبال متین کے ’میں بھی افسانہ، تم بھی کہانی‘ میں پیش کیے گئے ان کے خیالات کو بھی درج کیا ہے:

’’میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ کہانی جب جنم لیتی ہے تو زندگی کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ اور زندگی اپنی تجسیم کا عمل ایک جسم سے دوسرے جسم اور ایک ثانیے میں جاری و ساری رکھتی ہے۔ کہانی کار تنفس بھی زندگی کے محزون و مسرور سانسوں کا مرہون منت بھی ہے، جزوی لائنفک بھی۔ یوں نہیں ہے تو کہانی زندہ نہیں رہے گی اور گر یوں ہے تو کہانی کو کوئی نہیں مار سکتا۔ ‘‘6

عابد سہیل کا خیال ہے کہ اقبال متین نام و نمود سے ہمیشہ بے نیاز رہے۔ ایک طرح کی قلندری ان کے مزاج کا حصہ ہے اور شاید یہی سبب ہے کہ ساٹھ سال کی ادبی زندگی کے دوران بہت سارے اچھے افسانے لکھنے کے باوجود ان کے فن پر نقادوں نے بہت کم توجہ دی ہے۔

عبدالصمد کے ناول ’دھمک‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے عابد سہیل لکھتے ہیں کہ یہ ناول اپنی کمزور یوں، زبان کی طرف کم توجہ دیے جانے اور چند خام کرداروں کے باوجود قابل ذکر اور اہم ناول ہے اور کہیں بہتر کاوشوں کی بشارت دیتا ہے کیونکہ مصنف نے بعض ایسے موضوعات سے جو بڑی حد تک گھسے پٹے قرار دیے جاسکتے ہیں، خود کو آزاد کرلیا ہے اور زندگی کو نت نئے پہلوئوں سے دیکھنا اور تخلیقی حقیقت پسندی کا رویہ اختیار کرنا سیکھ لیا ہے۔

عابد سہیل نے عبدالصمد کے افسانوی مجموعہ ’سیاہ کاغذ کی دھجیاں‘ کے 13افسانوں کا تجزیہ ’عبدالصمد کے افسانے‘کے عنوان سے کیا ہے۔ ان 13افسانے کے بارے میں انھوں نے مجموعی طور پر جو رائے قائم کی ہے وہ یہ ہے کہ ’سیاہ کاغذ کی دھجیاں‘ کے افسانے مجموعی طور پر فصل بہار کا اثبات کرتے ہیں۔ ان کے افسانے کلائمکس یا کسی اچانک موڑ سے پیداہونے والے لطف پر انحصار نہیں کرتے۔ اس میں کوئی افسانہ ایسا نہیں ہے جس میں کسی نہ کسی مسئلے پر واقعات، کرداروں اور ان کے درمیان کے عمل اور رد عمل کے حوالے سے متوجہ نہ کیا ہو۔ ان تمام افسانوں میں سے کوئی افسانہ ایسا نہیں جو پورے افسانے پر چھا جائے۔ مصنف آگے لکھتے ہیں کہ عبدالصمد کے ان افسانوںمیں منظر نامے تقریباً مفقود ہیں۔ واقعات اور ان تبصروں کی فکری نہج کے سہاری تخلیق آگے بڑھتی ہے۔ افسانے کے حس میں اضافے کے لیے عبدالصمد شاعرانہ زبان کا سہارا نہیں لیتے۔ وہ کردار کے خدو خال روشن کرنے کے لیے مکالموں کے استعمال کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ زبان کے سلسلے میں وہ غیر محتاط رہتے ہیں جس سے افسانے کا مجموعی تاثر مجروح ہوتا ہے او رخیال کی زنجیر جگہ جگہ ٹوٹنے لگتی ہے۔

عابد سہیل نے اپنے اس مضمون میں عبدالصمد کو فکشن نگار کے ساتھ ساتھ افسانے کی تعلق سے بھی زرخیز اور بار آور ذہن مالک کہا ہے۔

افسانوی فن کے تعلق سے ان کی عملی تنقید اہمیت کی حامل تو ہے ہی لیکن بعد میں انھوں نے عبدالعلیم پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ’عبدالعلیم : منتخب تحریریں‘ 2008، ’عبدالعلیم ہندوستانی ادب کے معمار ‘ 2008 ’علیم شناسی ‘ مجموعۂ مضامین 2012اور ’کلیات عبدالعلیم‘ 2012یہ ہیں ان کی کتابوں کے نام جن میں پیش لفظ، حرف اولیٰ اور فکر و نظر کے تحت مصنف نے اپنی گراں قدر آرا پیش کی ہیں ایک مضمون ڈاکٹر عبدالعلیم بحیثیت مارکسی نقاد کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے جس سے عابد سہیل کی تنقید نگاری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

’’عبدالعلیم صاحب کا شمار صف اول کے مارکسی نقادوں میں کیاجاتا ہے کیونکہ انھوں نے ادب کے مارکسی نقطۂ نظر کی وضاحت جس مدلل اور غیر جذباتی انداز میں کی ہے اس کی کوئی دوسری مثال اردو تنقید میں نظر نہیں آتی۔ ان کی تنقید کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے نظریات کی وضاحت ہمیشہ مدلل اور سلجھے ہوئے انداز میں کی اور عبارت آرائی اور تشبیہوں اور استعاروں کو نفس مضمون پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ان کے مضامین اور خیالات میں کسی قسم کا الجھائو نہیں۔ وہ اپنے طرز بیان پر قادر تھے جس میں بھرتی کے الفاظ نہیں ہوتے۔ انھوں نے کم لکھا لیکن جو کچھ لکھا اس کی حیثیت قدر اول کی ہے۔‘‘7

عابد سہیل کی تنقید کی زبان صاف ستھری ہے۔ چونکہ وہ ایک اچھے افسانہ نگار تھے اس لیے زبان و بیان پر ان کی مضبوط پکڑ تھی۔ ان کا انداز تنقید اور اسلوب نگارش شگفتہ، شائستہ اور پر لطف ہوتا ہے جس کی وجہ سے قاری آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، انھیں کسی اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ درج ذیل اقتباس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے:

’’آج سارا منظرنامہ مختلف ہے۔ ملک کے بیشتر شہروں میں تانگوں کی جگہ موٹر کاروں، ٹراموں، بسوں اور پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی دوسری گاڑیوں نے لے لی ہے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں سیاسی، معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں نے منگو کوچوان کو تقریباً حرف غلط بنادیا ہے۔ اس سب کے باوجود ’’نیا قانون‘‘ آج بھی نہایت عمدہ افسانہ تصور کیاجاتا ہے۔ بظاہر اس افسانے میں وہ سارے عیب ہیں جن کے سبب بعض معیاروں کے مطابق اسے نہایت ہی معمولی درجہ کا افسانہ ہونا چاہیے تھا۔ ‘‘8

اس طرح دوسرے اصناف ادب کی طرح عابد سہیل کا تنقیدی شعور بھی بہت بالیدہ تھا۔ انھوں نے جو تنقیدی مضامین وغیرہ لکھے ہیں ان کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک اچھے تنقید نگار تھے۔ تنقید نگاروں کی فہرست میں ان کا نام روشن حروف میں لکھا جائے گا۔

حواشی

1        عابد سہیل کے افسانوں میں عصری حسیت: ڈاکٹر مسرت جہاں، 2019، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ص:80

2        عابد سہیل کی خاکہ نگاری، مطیع اصغر، 2017، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ص:86

3        فکشن کی تنقید چند مباحث۔ عابد سہیل 2000، پاریکھ آفسیٹ پرنٹنگ پریس، لکھنؤ، ص:10

4        افسانیات، عابد سہیل 2017، ایم آر پبلی کیشنز، دہلی، ص:86

5        ایضاً ص: 65

6        ایضاً، ص:88

7        علیم شناسی۔ مرتب عابد سہیل، 2012، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، ص:130

8        فکشن کی تنقید۔ چند مباحث، عابد سہیل، 2000، پاریکھ پرنٹنگ پریس، لکھنؤ، ص:160

 

Md. Fahamuddin

Research Scholar

Dept. of Urdu

Delhi University

Delhi- 110007

Cell.: 8368980594

fahamudin94feb@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...