5/7/24

جگدیش سہائے سکسینہ کی نظموں میں قومیت کا عکس، مضمون نگار: ناظر حسین خان

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


سکسینہ صاحب کا نام جگدیش سہائے سکسینہ اور تخلص سکسینہ ہے۔ آپ نے اپنے اس تخلص کا استعمال اپنی پوری شاعری میں صرف ایک جگہ نظم ’شمع‘ میں اس طرح سے کیا ہے          ؎

سکسینہ تجھ کو رشک جو آتا ہے شمع پر

افسوس تو ہے اپنی حقیقت سے بے خبر

ورنہ تری ضیا سے منور ہیں بحر و بر

تیرا وجود حسن و محبت ہے سر بسر

نظاّرہ سوز طور پہ تیرا جمال تھا

موسیٰ کی التجا نہ تھی تیرا سوال تھا

 آپ کی ولادت 4مارچ 1904 کو شاہجہانپور میں ہوئی۔ اس کی تصدیق خود انھیں کے قول سے ہوتی ہے:

’’میں شاہجہانپور میں 4مارچ 1904 کو پیدا ہوا۔‘‘

 آپ کا یہ قول آپ کے ایک قلمی نسخے جس کا عنوان ’کچھ اپنے قلم سے‘ سے لیا گیا ہے، اس قلمی نسخے میں آپ نے اپنے آبائی وطن، آبا و اجداد اپنی ولادت، تعلیم اور شاعرانہ زندگی اور دلچسپی وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ اپنے آبائی وطن اور آبا و اجداد کے حوالے سے اسی مضمون میں فرماتے ہیں:

’’مرے آبا و اجداد قصبہ کمپل ضلع فرخ آباد کے ساکن تھے۔ میرے دادا منشی گوکل کنوار بسلسلۂ ملازمت شاہجہانپور چلے آئے۔‘‘

شاہجہانپور میں اپنے والد کی تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے سکسینہ صاحب فرماتے ہیں:

’’انھوں نے میرے والد بابو ہری ہر سہائے کو انگریزی کی اعلی تعلیم دلوائی اور جب وہ گریجویٹ ہو گئے تو محکمۂ ججی میں ان کو ملازمت دلوا دی جہاں وہ بہت جلد ترقی کرکے منصرم ججی کے عہدے پر فائز ہو گئے۔‘‘  

اس قول میں لفظ انھوں نے سے مراد سکسینہ صاحب کے دادا ہیں۔سکسینہ صاحب اپنی تعلیم کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ آپ اپنی تعلیم کے حوالے سے فرماتے ہیں :

’’بچپن میں گھر پر مولویوں سے اردو فارسی پڑھتا رہا کیوں کہ کائستھوں میں اسی کا رواج تھا۔‘‘

 اس کے بعد سکسینہ صاحب اپنے بعد کی تعلیم اور پیشے تک کے سفر کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’بعدہٗ انگریزی اسکول میں داخل ہو گیااور 1922 میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا ، پھر الہ آباد چلا گیا۔ کائستھ پاٹھ شالہ سے ایف اے اور الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے اور ایل ایل بی کے امتحانات 24, 26, 28 عیسوی میں بالترتیب پاس کیے۔ اور پھر شاہجہانپور میں وکالت شروع کی۔‘‘

عام طور پر دیگر شعرا طالب علمی کے زمانے سے ہی شعر و شاعری کا آغاز کر دیتے ہیں، مگر سکسینہ صاحب نے تعلیم سے فراغت کے بعد شاعری کی طرف توجہ کی:

’’یوں تو شاعری کا مجھے بچپن سے شوق تھا لیکن تحصیل علم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد میں نے باقاعدہ شاعری شروع کی۔‘‘

سکسینہ صاحب نظموں کے شاعر ہیں، حالانکہ انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں، مگر ان کے شعری کارخانے میں نظموں کی تعداد زیادہ ہے۔ نظموں کے شوق کے حوالے سے آپ فرماتے ہیںکہ:

’’نظم کہنے میںمیری طبیعت خوب لڑتی تھی، اس کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے میں نے انیس،سرور جہان آبادی، علامہ اقبال اور چکبست کے کلام کا امعان نظر سے مطالعہ کیا۔‘‘

ان تمام استاد شعرا کے کلام کے اثرات بھی آپ کے کلام میںکہیں کہیں نظر آتے ہیں بالخصوص اقبال کا انداز آپ کی شاعری میں اکثر جگہوں پر دکھائی دیتا ہے، نہ صرف اردو کے شاعروں سے بلکہ آپ نے انگریزی کے شاعروں سے بھی اثر قبول کیا ہے۔ یہ قول ملاحظہ ہو:

’’انگریزی کے مشہور شاعروں کا کلام میں بی اے میں ہی پڑھ چکا تھا، اس سے بھی متاثر ہوا۔‘‘

جہاں تک شاعری میں اصلاح کا معاملہ ہے، آپ نے اپنی شاعری میں کسی سے اصلاح نہیں لی، بلکہ اپنے شوق اور استاد شاعروں کے کلام کے مطالعے سے اپنے کلام کو ایک سمت عطا کی۔ اس سلسلے میں سکسینہ صاحب یوں فرماتے ہیں:

’’اصلاح میں نے کسی استاد سے نہیں لی بلکہ ذوق سلیم کو اپنا رہبر بنایا۔ اساتذہ کا کلام پڑھنے سے شعر کا ایک خاص معیار میرے ذہن میں قائم ہو گیا تھاجس پر اپنے اشعار کو چانچ لیتا تھا۔‘‘

1928 میں ایل ایل  بی کرنے کے بعد جب تعلیم سے فراغت حاصل کر لی، اس کے بعد 1935سے مشہور میگزین ’زمانہ‘ سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا:

’’1935 میں میں نے اپنی نظمیں منشی دیا نرائن نگم ایڈیٹر زمانہ کو بھیجی۔ انھوں نے ازراہ کرم ان کو اوراق زمانہ میں جگہ دیکر میری ہمت افزائی کی ، پھر یہ سلسلہ چلتا رہا اور میں زمانہ کے خاص قلمی معاونین میں شامل ہو گیا۔‘‘

آپ نے 78 برس کی عمر پائی ۔ آ پ کے پوتے ڈاکٹر نرنجن سوروپ (ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ ریاضیات، کرائسٹ چرچ کالج کانپور) کے بقول آپ کی طبیعت خراب ہوئی اور دس سے پندرہ دن کے اندر ستمبر 1982 کو آپ اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ سکسینہ صاحب کے حوالے سے ڈاکٹر نرنجن صاحب فرماتے ہیں کہ آپ سے ایک بیٹی اور پانچ بیٹے ہوئے۔ بیٹی پانچوں بھائیوں میں سب سے بڑی تھی، ان سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں اور پانچوں بیٹوں سے کل ملا کر بارہ پوتے اور پانچ پوتیاں ہیں۔ آج یہ سبھی لوگ اپنی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب مزید کہتے ہیں کہ سکسینہ صاحب کو بچوں سے بہت محبت تھی، آپ بچوں کو ہمیشہ عزیز رکھتے تھے۔ جب بھی چھٹیوں میں بچے سکسینہ صاحب کے پاس چھٹی منانے یا کسی اور سلسلے میں آتے تو آپ ان بچوں سے انگریزی نظموں یا ادب کے حوالے سے باتیں کرتے اور ساتھ ہی ان بچوں کے تلفظ پر بہت زور دیتے، اگر کسی بچے سے تلفظ کی کوئی غلطی ہوتی تو اس کو فوراً درست کرتے تھے۔بچپن میں ہر کسی سے غلطیاں ہوتی ہیں، کبھی کبھی تو کچھ غلطیاں ایسی بھی ہوجاتی ہیںکہ گھر کے بڑے غصے میں آکر بچوں کو سزا دینے لگتے ہیں۔ خاص کر بزرگ حضرات کیونکہ ایک عمر گزر جانے کے بعد بزرگ حضرات چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کا خمیازہ بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے، مگر سکسینہ صاحب اس عمر میں بھی چڑچڑے پن کا شکار نہیں تھے، بچوں سے خواہ کتنی بھی بڑی غلطی ہو جاتی وہ ان کو سزا دینا یا مارنا تو دور، ان کو ڈانٹنے کے بھی مخالف تھے ۔ آپ کی غذا قلیل تھی۔ شام کے وقت اپنی غذا لینے کے بعد آپ اپنی اور دوسرے شاعروں کی غزلیں اور نظمیں گنگنایا کرتے تھے۔

سکسینہ صاحب کے حالات زندگی قلمی یا ان کے پوتے کی زبانی شکل میں جو بھی ہمارے پاس موجود تھے اس میں سے ضرورت کے مطابق حوالے ہم نے استعمال کر لیے۔ اب آئندہ بحث ان کی شاعری میں نظموں کے حوالے سے نظموں میں موجود قومی عناصر پر ہوگی۔

’آب و رنگ ‘ سکسینہ صاحب کا پہلا اور آخری شعری مجموعہ ہے، حالانکہ اس کے علاوہ آپ کے شعری سرمایے میں کچھ اور تخلیقات بھی ہیں مگر وہ قلمی شکل میں، کتابی شکل میں نہیں آئی ہیں۔ یہاں پر بحث کا موضوع صرف انھیں تخلیقات کو بنایا گیا ہے جو ’آب و رنگ‘ کی شکل میں شائع ہو کر قارئین کے سامنے آچکی ہیں۔ اس سلسلے میں سکسینہ صاحب کے شعری مجموعے کی دوسری نظم’حسن اور فنا‘ کا یہ بند ملاحظہ فرمائیے         ؎

حیف! تیری نرم و نازک پتیاں

جن پہ نازاں ہیں عروس نوبہار

شام کو ہو جائیں گی نذرِ  خزاں

اے دل بلبل کی رنگیں آرزو

کہتے ہیں کہ اگر کسی بھی شاعر کی شاعری میں قومیت کے عکس کو محسوس کرنا ہو تو اس کی تخلیق میں اس کے ملک کے پھولوں، باغوں، وہاں کے موسم، تیوہاروں،  وہاں کے رہن سہن کے ذکر کے علاوہ وہاں کی ندیوں وغیرہ کے ذکر کوتلاش کریں۔ کیونکہ ان تمام چیزوں کا ذکر قومیت کے زمرے میں آتا ہے۔  اسی طرح نظم ’چاندنی رات‘ کا یہ بند ملاحظہ ہو        ؎

وہ دل آویز ترانہ جو کنارے جمنا

بانسری لے کے کنھیا نے کبھی گایا تھا

جس کی ہر تان تھی رادھا کے لیے ہوش ربا

ہاں وہی راگ ذرا گا کے مجھے تڑپاؤ

ہندوستانی تاریخ کے صفحوں کو یاد کرتے ہوئے ہمارا شاعر کہتا ہے کہ کبھی گزرے وقتوں میں جس طرح سے چاندنی راتوں میں کنہیا نے رادھا کے لیے جمنا کے کنارے بیٹھ کر بانسری کو بجایا اور گایا تھا اسی چاندنی رات میں آج میں اسی طرح سے اسی ترانے کو سن کر اسی کیفیت کو محسوس کرنا چاہتا ہوںجس کو رادھا نے محسوس کیا تھا۔اس کے علاوہ اسی مجموعے کی ایک اور نظم ’برج بھومی‘ کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے، جن میں برج کی سرزمین کے ساتھ ساتھ رادھا اور کنھیا جی کا ذکر بھی بہت ہی شاندار انداز میں دیکھنے کو ملتا ہے        ؎

سحر ہے جو رادھا کا رخسار روشن

تو شب برج کا گیسوئے عنبریں ہے

اس شعر میں شاعر رادھا کے رخسار کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شہربرج میں صبح کا جو اجالا دکھائی دے رہا ہے، وہ اصل میں سورج کی وجہ سے نہیں بلکہ رادھا کے روشن رخسار کی وجہ سے ہے، جس نے اپنی چمک کو پورے برج شہر میں بکھیرا ہے۔ جہاں ایک طرف شاعر برج کی صبح کی بات کرتا ہے وہیں دوسری طرف برج کی رات کی بات کرتے ہوئے رادھا کی گھنی اور کالی زلفوں کو وہاں کی کالی اور خوشبودار رات سے کنایہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ لفظ سحر اور شب کے استعمال سے تضاد کی ایک بہترین مثال بھی پیش کی ہے۔اس کے بعد سکسینہ صاحب کنہیا کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ          ؎

تجلی فگن شام کے آئینے  میں

کنھیا کا عکسِ جمال آفریں ہے

 شاعر اس شعر کے ذریعے کنہیا کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شام کے وقت شفق پر یعنی دور زمین و آسمان کے ملنے والی جگہ پر ڈوبتے ہوئے سورج کی دکھائی دینے والی خوبصورت لالی جو آسمان میں چاروں طرف بکھر کر اس کے حسن میں اضافہ کرتی ہے اصل میں سورج کی لالی نہیں بلکہ کنہیا کے چہرے کی لالی کی پرچھائیں ہے۔ سورج نے کنہیا کے چہرے کی لالی کے عکس کی ایک ہلکی سی جھلک کولے کر اپنے اندر لالی پیدا کی ہے۔

ہماری ہندوستانی تہذیب میں رادھا، کرشن، گوپیاں اور برج بھومی ان چاروں کا رشتہ اٹوٹ مانا جاتا ہے،  خواہ وہ شاعری ہو یا نثر جب بھی کوئی شاعر یا نثار اپنی تخلیق میں رادھا یا کرشن جی کا ذکر کرے گا، تو پھر اس کے فن پارے میں گوپیوں اور برج بھومی کے ذکر کا آنا بھی لازمی ہے۔ اسی نظم میں گوپیوں اور برج بھومی کا ذکر کرتے ہوئے چاروں یعنی رادھا ،کرشن،گوپیاں اور برج کے ذکر کی اس روایت کو تقویت پہنچاتا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ ہو         ؎

جدھر دیکھیے گوپیوں کا ہے جھرمٹ

کوئی سیم تن ہے کوئی مہ جبیں ہے

ہر طرف گوپیوں کا جھرمٹ ہے یعنی آپ ان کے درمیان گھرے ہوئے ہیںاور یہ گوپیاں جنھوں نے کنہیا کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ان میں کسی کا بدن چاندی کی طرح سفید ہے تو کسی کا چہرہ چاندی کی مانند روشن اور چمکدار ہے۔  اسی نظم میں سرزمین برج کے متعلق یہ اشعار ملاحظہ کریںجس میں شاعر اس سرزمین اور یہاں کے موسم کی تعریف کر رہا ہے         ؎

مقدس بہت برج کی سرزمیںہے

ہر اک ذرہ اس کا صنم آفرین ہے

شاعر برج کی سرزمین کو بہت ہی مقدس بتا رہا ہے، وہ اس شہر کے ایک ایک ذرّے کی تعریف کرتا ہے،یہاں کے موسم کی بھی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ          ؎

یہاں کی بہاریں ہیں جنت سے بڑھ کر

حقیقت میں یہ رشکِ خلدِ بریں ہے

سرزمین برج کی بہاریں جنت کی بہاروںسے بڑھ کرہیں، یہاں کی بہار کی تعریف میں شاعر مبالغے سے کام لیتے ہوئے کہتا ہے کہ برج کی بہاریں اتنی حسین ہیں کہ ان پر جنت بھی رشک کرتی ہے۔

کوہِ ہمالہ کو ہماری اردو شاعری میں علامہ اقبال نے موضوع بنا کر نظم لکھا ہے، وہ اپنی نظم میں ہمالہ کی بلندی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں         ؎

اے ہمالہ ائے فصیل کشور ہندوستاں

چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں

ہمالہ کو اپنی نظموں کا موضوع سکسینہ صاحب نے بھی بنایا ہے۔ آپ نے اپنی نظم ’ہمالہ‘ میں ہمالہ کی بلندی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے         ؎

اے ہمالہ تو ازل سے ہے نگہبان وطن

سلسلہ تیرا ہے اک حدِّ خیابان وطن

رفعتوں سے تیری پیدا شوکت و شانِ وطن

تیری ہستی پر ہیں نازاں نوجوانانِ وطن

آسمانوں سے جو سرگرمِ سخن رہتا ہے تو

داستان عظمتِ ہندوستاں کہتا ہے تو

علامہ اقبال کی طرح سکسینہ صاحب بھی ہمالہ کی اونچائی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ تم اتنے اونچے ہو کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تم آسمانوں سے گفتگو کر رہے ہواور تمھاری اس گفتگو میں ہمارے اس ملک کی عظمت، شان و شوکت اور اس کی بڑائی کی ہی باتیں ہوتی ہیں۔ اسی نظم کا ایک اور بہت ہی پیارا سا بند ملاحظہ فرمائیے، جس میں ایک الگ ہی انداز میں ہمالہ کی تعریف کی گئی ہے         ؎

سلسلے پر پیچ تیرے راہِ الفت کی طرح

جن کی ہستی غیر فانی ہے حقیقت کی طرح

اوج میں اندیشۂ ارباب ہمت کی طرح

اور درازی میں شبِ تاریکِ فرقت کی طرح

حسن عالم سوز کی چینِ جبیں کہیے انھیں

شاہدِ قدرت کی زلفِ عنبریں کہیے انھیں

اس بند میں شاعر نے ہمالہ کی خوبی بیان کی ہے، کہتے ہیں جس طرح محبت کی راہوں میں بہت سی مشکلیں آتی ہیں ،اتار چڑھاؤ آتے ہیں، کتنی مشکلوں سے گزرنے کے بعد عاشق کہیں جا کر عشق کی منزل پر پہنچتا ہے۔

ٹھیک اسی طرح ہمالہ کی بلندی پر پہنچنے کے لیے بہت ہی مشکل راستوں سے ہو کر جانا پڑتا ہے تب جا کر اس کی بلندی پر پہنچنا لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ 

اپنے ملک کے موسم کی تعریف میں شاعر کی نظم ’شبنم‘ بھی قابل ذکر ہے۔اس نظم میں شاعر نے شبنم کے آنے کا انداز یوں بیان کیا ہے        ؎

جبکہ آدھی سے سوا رات گزر جاتی ہے

اک پری جانبِ گلزارِ جہاں آتی ہے

اس شعر میں سردی کے اس موسم کا ذکر ہے جب ہلکی ہلکی سی ٹھنڈ کی آمد ہوتی ہے ،ایسے میں کہرا یعنی شبنم کی بوندیں آدھی رات کے بعد آسمان سے زمین کی طرف آتی ہیں۔ اس شعر میں شاعر نے شبنم کی بوند کو پری سے تشبیہ دی ہے اور جس موسم اور جس مہینے کا منظر شاعر پیش کر رہا ہے اس موسم میں شبنم کی بوندیں رات میں ایک وقت گزر جانے کے بعد ہی آتی ہیں اور مشہور ہے کہ پریاں بھی آسمان سے رات میں ایک مخصوص وقت گزر جانے کے بعد ہی زمین پر آتی ہیں۔ دونوں کی مناسبت سے شاعر نے اپنے اس شعر میں تعلیل کی ایک بہترین مثال پیش کی ہے      ؎

نو بہ نو حسن مناظر کی تمنا اس کو

عرش سے کھینچ کر پستی کی طرف لاتی ہے

زمین کے خوبصورت مناظر کو دیکھنے کی خواہش میں شبنم آسمان سے زمین کی طرف کھنچی چلی آتی ہے۔ شبنم کا اوپر سے زمین کی طرف آنا ایک فطری عمل ہے لیکن شاعر اس کے شاعرانہ سبب کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شبنم کا آسمان سے زمین کی طرف آنا ایک فطری عمل نہیں ہے بلکہ زمین کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے آسمان سے زمین کی طرف آتی ہے، اس لیے اس شعر میں حسن تعلیل پایا جاتا ہے       ؎

اس میں کمزوریِ اخلاق ہے لیکن مضمر

روزِ روشن میں جو آتے ہوئے شرماتی ہے

شاعر کی ایک اور نظم ’نسیم سحر‘ سے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں شاعر نے ملک ہندوستان میں صبح میں چلنے والی ہوا کے ساتھ شبنم کا ذکر کیا ہے       ؎

پہن کر پانو میں شبنم کے گھنگھرو

چمن میں ناچتی پھرتی ہے ہر سو

کبھی سبزے کے اوپر لڑکھڑاتی

کبھی سنبل کے نیچے گنگناتی

کبھی کانٹوں سے دامن کو بچا کر

گلوں کو چوم لیتی  مسکرا کر

کبھی رقصاں کنارِ آب جو تھی

کبھی سوسن سے محوِ گفتگو تھی

کبھی غنچوں کو جا کر گدگداتی

کبھی نرگس سے وہ آنکھیں ملاتی

کبھی آغوش میں لے کر شجر کو

جوانی بخشتی ہر برگ و بر کو

سکسینہ صاحب نے ہندوستان کی آزادی پر بھی نظمیں لکھی ہیں۔ ’ترانۂ ہندی‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں         ؎

آزاد ہو گیا ہے اب گلستاں ہمارا

شاخِ کہن ہے ہم ہیں اور آشیاں ہمارا

پہلے بھی دلربا تھی اس کی بہارِ رنگیں

گلشن ہے آج لیکن جنت نشاں ہمارا

ہر پھول اب چمن کا جامِ جہاں نما ہے

کہتا ہے باغباں سے سارا جہاں ہمارا

اس پوری نظم میں شاعر کے ذریعے ہندوستان کے آزاد ہونے پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہمارا ملک آزاد ہو گیا ہے، اب قدیم ہندوستان جس کا وجود ایک زمانے سے ہے، میں ہم سبھی ہندوستانی اپنے لوگوں کے ساتھ خوشی سے رہ رہے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ہمارا ملک پہلے سے ہی خوبصورت ہے لیکن آج ملک کے آزاد ہونے پر ہمارے ملک کا جو ماحول ہے وہ کسی جنت سے کم نہیں ۔ ہمارے ملک کا ہر پھول یعنی ہر بچہ دنیا کے کونے کونے میں جا کر ہمارے ملک کا نام روشن کرتا ہے۔

اسی نظم کے چند اور اشعار ملاحظہ کریں جن میں شاعر نے ہندوستان کی آزادی کی خوشی مناتے ہوئے یہاں کی سرزمین کو رشیوں کی پاک زمین بتایا ہے        ؎

آزادیِ وطن کا نغمہ ہو یہ مبارک

ہوتا ہے جس کو سن کر دل شاد ماں ہمارا

اے مادرِ وطن اے رشیوں کی پاک بھومی

قدموں پہ تیرے صدقے یہ نقدِ جاں ہمارا  

دوسرے شعر میں شاعر اپنے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے مادر وطن! اے رشیوں کی پاک زمین! ہم تمہارے لیے اپنی جان کو بھی قربان کر دیں گے۔نظم کے چند اور اشعار ملاحظہ کریںجن میں شاعر ہندوستان کی تاریخی چیزوں کا ذکر بہت شاندار پیرایے میں کرتا ہے       ؎

ظاہر ہے شان تیری کوہِ ہمالیہ سے

کرتا ہے فخر اس پر ہر نوجواں ہمارا

گنگ و جمن کی موجیں دھوتی ہیں پانو تیرے

امرت سے سینچتی ہیں یہ گلستاں ہمارا

آنکھوں کا نور کہیے دل کا سرور کہیے

پرچم ہے آشتی کا قومی نشاں ہمارا

شاعر کے یہ تینوں اشعار تاریخی نوعیت کے حامل ہیں۔ ہندوستان کی شان ہمالہ سے ظاہر ہوتی ہے یعنی جس طرح ہمالہ تمام پہاڑیوں میں سب سے اونچی پہاڑی ہے ٹھیک اسی طرح ہمارے ملک کی شان اور عظمت بھی تمام ملکوں میں سب سے اونچی ہے۔ اپنے ملک کی اس شان و شوکت پر ملک کا ہر نوجوان فخر کرتا ہے۔ہمارے یہاں گنگا و جمنا دو ندیاں بہتی ہیں،شاعر نے ان دونوں ندیوں کے بہنے سے ایک خوبصورت شاعرانہ تعلیل اخذ کی ہے۔

’آب و رنگ‘ میں ایک اور نظم مہاتما گاندھی کے عنوان سے ہے، اس میں شاعر گاندھی جی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ         ؎

وطن کے واسطے زنداں میں تو اسیر ہوا

لٹا کے دولتِ ذاتی کو خود فقیر ہوا

غبارِ راہ بدن کے لیے عبیر ہوا

جگر کے داغ سے روشن تیرا ضمیر ہوا

تری حیات حقیقت میں جانِ ایماں تھی

کہ آتشِ غم و ایذاتجھے گلستاں تھی

ہم جانتے ہیں کہ گاندھی جی کی زندگی نہایت ہی سادہ گزری ہے ، تقریباً تمام شعرا نے ان کے اس طرز زندگی کو موضوع بنایا ہے۔ سکسینہ صاحب بھی گاندھی جی کی سادہ زندگی کو اپنی شاعری میں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں          ؎

غذا قلیل تھی تیری لباس تھا سادا

تری گدائی سے رتبہ بڑھا فقیری کا

اسی کو کہتے ہیں اعجازِ ترک و استغنا

کہ دیکھتی تھی ترے منہ کو دولتِ دنیا

امیدوارِ کرم سیم و زر تھے معدن میں

یہ چاہتے تھے کہ آجائیں تیرے دامن میں

اسی طرح پوری دنیا کو یہ معلوم ہے کہ گاندھی جی ہندو مسلم یکجہتی کے علمبردار تھے بلکہ وہ ان دونوں قوموں کے لوگوں کی تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، وہ ان دونوں قوموں کو ایک سمجھتے تھے۔ شاعر نے گاندھی جی کی اس خصلت کو نظم کے بند میں یوں پیش کیا ہے       ؎

تری نگاہ میں نوعِ بشر کی عزت تھی

خدائے پاک کے بندوں سے تجھ کو الفت تھی

اسی کے ذیل میں اہلِ وطن کی خدمت تھی

یہی تھی تیری پرستش یہی عبادت تھی

خدا کے سامنے آنکھیں نہ شرمسار ہوئیں

کہ دشمنوں کی مصیبت پہ اشکبار ہوئیں

 

Nazir Husain Khan

Dept of Urdu, Christ Church College

The Mall, Kanpur- 208001 (UP)

Mob.: 9935276442

Email.: nazirhusainkhan@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...