5/7/24

راشد انور راشد: اداسی ایک خوبصورت احساس کا نام ہے، مضمون نگار: عتیق اللہ

ماہنامہ اردو دنیا ،جون2024


راشد انور راشد ان جدیدمعاصر شعرا میں سے ہیں جن کی شاعری کا تاثر میرے ذہن میں اتنا گہرا ہے کہ میں سب سے پہلے ہر اس رسالے میں مشمولات کی فہرست میں ان کا نام ڈھونڈتا ہوں جو مجھے موصول ہوتے ہیں۔ میں غزل اور نظم کے خانوں میں رکھ کر ان کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ شاعر ہیں اور شاعری کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ بے حدحساس، بے حد جذباتی ہیں اور شاعری کے ساتھ ان کی وابستگی بے لوث ہے، جسے تشہیر اور ڈگڈگی بجا کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ادیب کو تعلق ساز نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی میرا منشا یہ ہے کہ ادیب شہرت پسند نہیں ہوتا۔ تعلق سازی اور شہرت پسندی کو پتلی گلی سے نکلنے کا راستہ بنا کر اور اسی پر قناعت کرنے والے داد و تحسین کے جو تمغے حاصل کرتے ہیں ان تمغوں کی چکاچوند کے بارے میں اربابِ نظر یہ جانتے ہیں کہ اس میں کتنی دیرپائیت ہوتی ہے۔

راشد انور راشد کے کچھ جذباتی اور نجی مسائل ہوں گے جن کے باعث وہ ادبی رسائل میں بہت کم نظر آئے حالانکہ ان کے چوتھے شعری مجموعے بہ عنوان ’ایک قطرہ ہی سہی‘ کے مسودے کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ انھو ںنے جن سِروں کو مضبوطی سے پکڑرکھا تھا وہ اب بھی ان کی گرفت میں ہیں۔ مسودے میں ایک طویل ’اعتراف نامہ‘ بھی ہے لیکن مجھے تو ان کی شاعری سے مطلب تھا، سو پہلے سرسری طو رپر شروع سے آخری صفحے تک تمام غزلیںا ور نظمیں پڑھیں، کئی جگہ رکنا بھی پڑا، پل دو پل میں جو نقش ذہن میں قائم ہوا اسے سہارنے Sustain کرنے کی کوشش بھی کرتا رہا، لیکن پہلی قرأت پر میں بہت کم بھروسہ کرتا ہوں۔ اس لیے ہر تاثر کو گذشتنی کا نام دے کر ’اعتراف نامے‘ کی طرف رجوع ہوگیا۔ اعتراف نامہ کیا ہے کچھ ’آپ بیتی‘ ہے، کچھ شکایتیں ہیں، کچھ بہت محتاط طریقے سے اپنی بیماری کاذکر ہے۔ ان کے یہاں اضطراب کی وہ کیفیت ہے جو اس اعتراف نامے کے سنجیدہ قاریو ںکو تادیر بے چین رکھ سکتی ہے اور شاید اسے پڑھنے کے بعد وہ راشد کی شاعری کے مطالعے کے لیے فوری طور پر تیار ہی نہ ہوں۔ ویسے راشد نے اپنی تحریر کو ’مقدمے‘ کا نام بھی نہیں دیا ہے، کچھ باتیں اپنی شاعری اور معاصر شاعری کے بارے میں کہی ضرور ہیں لیکن صرف یہ کہنے سے کوئی خاص مقصدپورا نہیں ہوتا کہ  وہ ہنگامی اورلمحاتی شاعری سے کوسوں دور ہیں، جب تک کوئی جذبہ، کوئی خیال انھیں اندر سے بے چین اور مضطرب نہیں کرتا، وہ کبھی بھی قلم کا سہارا نہیں لیتے۔ اس طرح کے خیالات کی گونج ہمیں اکثر سنائی دیتی ہے۔ غالباً وہ یہ کہنا چاہتے ہیں یا یہ کہیے کہ ان کا مدعا یہ ہے کہ وہ شعر کہنے کے لیے ایسے کسی مصنوعی جذبے کو ترجیح نہیں دیتے جو ان کے اندر تحریک کا باعث ہو۔ بہرحال مصنوعی جذبے کی بھی ایک قدر ہے۔ ہمارے پاس ایسا کوئی آلہ نہیں ہے کہ منشائے شاعر کی تہہ تک پہنچ سکیں۔ قیاس کا عمل ضرور ایک دلچسپ مسئلہ ہے۔ راشد صاف ذہن رکھتے ہیں مکر و ریا کو کبھی پاس پھٹکنے نہیں دیتے، انانیت ضرور ان کی شخصیت کا خاصہ ہے جسے وہ مثبت انانیت کہتے ہیں۔ انانیت کے معنی قطعی یہ نہیں ہیں کہ ہم سب کے درمیان ہوکر بھی درمیان میں نہ ہوں۔ راشد کی حاضری اور غیرحاضری میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حساس لوگوں کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ بہت جلد اپنی ذات میں غرق ہوکر گم شدگی کی لطافتوں سے سیراب ہونے لگتے ہیں۔ راشد کی شاعری کے توسط سے میں نے ان میں اپنی دنیا آپ خلق کرنے کا سراغ پایا اور یہ بھی محسوس کیا کہ ان کی اپنی اخلاقیات، ان کی شاعری میں جا بجا اپنے لیے گنجائش نکال لیتی ہے، لیکن راشد آہنگ کی سطح کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں            ؎

قلندر ہیں، ہمیں تو رسم درباری نہیں آئی

اداکاروں میں رہ کر بھی اداکاری نہیں آئی

پلٹنا جانتا ہوں میں بھی ہر شطرنج کی باری

تری تقدیر اچھی ہے، مری بازی نہیں آئی

——

غیر کی چھت کا ابھی تک نہ کیا اس نے طواف

اس پرندے کو در و بام سے پہچانا جائے

——

طے تھا پہلے سے، کوئی شور شرابا نہ ہوا

فیصلہ جو ہوا، چپ چاپ ہوا میرے خلاف

——

تم اپنے آپ سے ملتے نہیں کیا

کہیں بھی گھر میں آئینہ نہیں ہے

——

جب بولنے کا وقت تھا، تب چپ چپ سی لگ گئی

رہنا تھا جب خموش تو بولے عجیب لوگ

——

دل کا سیلاب ہے فوراً نہیں تھمنے والا

اس میں کچھ وقت لگے گا، ذرا مہلت دی جائے

——

جو بھی زمینیں بنجر تھیں، جب ان کو کیا زرخیز تو پھر

فصلیں آئیں آگ کی زد میں، پھول کھلانا بھول گئے

——

وہ ہوشیار لٹیرے تھے، جنگ جیت گئے

سبب یہی تھا کہ خانوں میں ہم بٹے ہوئے تھے

راشد کی غزلوں سے یہ چند اشعار نمونے کے طور پر میں نے منتخب کیے ہیں۔ ان میں ذات کے تجربے کا میلان سب سے حاوی ہے۔ کچھ اس دور کے انسانوں کی بے حسی اور بیگانگی کی اذیت رسانی کا احوال ہے، کچھ اپنی قلندرانہ صفتی اور کچھ اپنی اناگیری کی طرف اشارے ہیں۔ کہیں کہیں اس طرح کی کجی کا شائبہ بھی موجود ہے جو انسانوں کے باطن کی سیاحی اور ان پر باطن کے انکشاف کے بعد کا ممکنہ مرحلہ ہے، انسانوں کی دو لختی کے تجربے سے ہم سب گزر رہے ہیں اور راشد بھی ہم سب میں سے ایک ہیں۔ بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے تجربے میں شدت اور ناخوشی کی رمق زیادہ ہے۔ ان کے اظہار میں بیان کی صورتوں سے اس لیے بھی سابقہ پڑتا ہے کہ شدت کی رَو کبھی اس قدر غلبہ اختیار کرلیتی ہے کہ بیان پھر بیان ہی نہیں رہتا۔ اس سے ایک علیحدہ قسم کی حیرتو ںکا دہانہ کھل جاتا ہے اور بیان کی بیانیہ میں قلب ماہیت ہوجاتی ہے       ؎

پرانی تیغ تھی، لگتی تھی زنگ آلودہ

مرا خیال جو آیا تو صاف اس نے کیا

——

بدن کی مٹی بھی ہوجائے گی بہت زرخیز

جو زخم دل کا ہے، اس کو ہرا تو ہونے دو

——

خواہ اس جنگ کا اب کوئی نتیجہ نکلے

تجھ سے اب برسرِ پیکار سرِ عام ہوں میں

——

خبر سنائی گئی تھی کہ روشنی ہے وہاں

مگر شدید اندھیرا تھا، میں اکیلا تھا

——

ہم نے بنجاروں کو دیکھا تو یہ احساس ہوا

بے مکانی در و دیوار کی محتاج نہیں

——

ہوگئے سب کو آڑے ہاتھوں لینے میں معتوب

جرم یہی کیا کم تھا، لہجہ تھا بے باک ہمارا

——

خیال آیا کہ چہرہ تو صاف ہوجائے

ہمارے ہاتھ مگر دھول میں اَٹے ہوئے تھے

——

مرے ہی جسم سے باہر نکل رہا تھا کوئی

وہ میرے ہاتھ تھے اور خون میں رنگے ہوئے تھے

ان تمام اشعار میں کئی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ کہانی کی منطق ہی عجیب ہوتی ہے۔ کبھی ہونی اور کبھی انہونی لگتی ہے۔ ایک سے زیادہ کردار، ایک سے زیادہ آوازیں اور ان کی گونج ہوتی ہے۔ راشد جانتے ہیں کہ حقیقت کو حقیقت کے طور پر پیش کرنے میں جو طمانیت میسر آتی ہے اس کی لطافت ہی الگ ہوتی ہے لیکن وہ دھوکا بھی ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ حقیقت فہمی خود ایک مسئلہ ہے اور پھر شعر یا کہانی میں وضاحتوں کی نسبت پرچھائیو ںکی زیادہ اہمیت ہے۔ راشد نے اپنی بیشتر نظموں میں اپنے ان تجربوں کو بنیاد بنایا ہے جن کا تعلق ممبئی کے اسپتالی معمولات سے ہے۔

راشد کے جذبوں کے بارے میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ ہر راہ ان کی ذات سے ہوکر جاتی ہے جس طرح ان کی نظموں سے ان کی زندگی کے چند ایسے گوشوں کا ہمیں علم ہوتا ہے جو ان کے سوانح میں پورے ایک باب کی حیثیت رکھ سکتا ہے۔ غزل کے باب میں ہم سب جانتے ہیں کہ پوری آواز میں بات کرنے کے معنی اپنی بات کی قدر کھونے کے ہیں۔ راشد نے غالباً شعوری طور پر دبی ہوئی آواز میں پوری بات کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ ان میں وہ ایسے چاک بھی چھوڑ دیتے ہیں جن میں جھانک کر ہم ان کے باطن کی کشاکشو ںکا احوال بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ان غزلو ںکی ردیفیں نہ صرف خوب ہیں بلکہ ان کے ذریعے راشد کو سمجھنے کی بھی ایک صورت نکلتی ہے       ؎

مری تباہی کا قصہ یہی پہ ختم کرو

بہت ہوا یہ تماشہ یہیں پہ ختم کرو

——

مشکلیں ہوتی ہیں آسان، چلو بات کریں

یونہی چپ چپ نہ رہیں جان، چلو بات کریں

——

غیروں کا احسان نہ لیں گے ہم دونوں

درد کی سرحد پار کریں گے ہم دونوں

——

تاک میں جو بھی لگے تھے، وہ اٹھے، میرے خلاف

چاہنے والے بھی اب دل سے ہوئے میرے خلاف

——

جو مجھے آنکھ دکھائے گا وہ پچھتائے گا

جب مرے نرغے میں آئے گا، وہ پچھتائے گا

——

بستر پر بے جان پڑا ہوں، آج بھی نیند نہیں آئی

کروٹ کروٹ چیخ رہا ہوں، آج بھی نیند نہیں آئی

——

کیسا ہے بے خودی کا نشہ ہم سے پوچھیے

بارش میں بھیگنے کا مزا، ہم سے پوچھیے

——

جانے کیوں قابو میں رہتا ہی نہیں ذہن مرا

پوچھتا ہوں تو بتاتا ہی نہیں ذہن مرا

——

نہ کسی کی بھی اطاعت میں رہا میرا قلم

سرخرو آج بہرحال ہوا، میرا قلم

——

میں حفاظت سے رکھو ںگا، چلی آ میری طرف

تجھ کو ضائع نہ کرو ںگا، چلی آ میری طرف

——

کسی بہانے وہ خواب ٹوٹا تو میں نے سوچا

طویل مدت کے بعد جاگا تو میں نے سوچا

اس طرح اکثر غزلوں میں راشد نے لمبی لمبی ردیفوں سے برجستگی کو خوب قائم رکھا ہے۔ غزل میں خارجی اور داخلی سطح فکر و خیال اور فضا کی شکل میں تسلسل کی صورت ضرور نکلتی ہے لیکن یہ نظمیں نہیں ہیں۔ راشد پرگو ہیں۔ قدرت نے انھیں غیرمعمولی تخلیقی صلاحیت سے نوازا ہے۔ وہ تجربہ برائے تجربہ اور عصری فیشن کے عصری مگر عارضی تقاضوں کو سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں لیکن ان کے اعتماد کے بھی کچھ تقاضے ہیں، جو ان کے نزدیک زیادہ قدرافزا ہیں۔

راشد کی غزل اور نظم دونوں ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ نظم آزادی زیادہ فراہم کرتی ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں ان رحم ناک تجربوں اور وارداتوں کو بیانیے کی شکل میں پیش کیا ہے مگر راشد کی جذباتیت خود ترحمی سے عاری ہے۔ شدت اظہار کی وہ کیفیت جو ان کی غزلوں میں ملتی ہے اس میں ضبطِ اظہار کے اسی تجربے سے ہم یہاں بھی دوچار ہوتے ہیں۔ نظمیں اکثر بغیر کسی تکلف کے شروع ہوجاتی ہیں جیسے ’حاجی اسمٰعیل و حاجی علّانہ سینی ٹوریم‘ لیکن جوں جوں نظم آگے کا رخ کرتی ہے انسلاکات کا ایک سلسلہ قائم ہوجاتا ہے۔ نظم اندر اور باہر سے پھیلتی چلی جاتی ہے۔ سینی ٹوریم کی پہچان بھی اسی کے ساتھ حاشیہ رسید ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسے Metanarrative کی وہ شکل کہہ سکتے ہیں جو بیانیہ اندر بیانیہ کہلاتی ہے۔ مختلف النوع تجربات وواقعات کا سلسلہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ذمے داری یادو ںکی نگرانی، میس مینیجر، جیسی نظموں کے بعد ماں تجھے یاد ہے نا!ماں کے نام ایک خط، آزمائش کا خوف، اچاروں کا ذائقہ، اور اسی طرح کی دوسری نظمیں ان کی معصوم یادوں کے بیانیے ہیں۔ اسپتال کے ماحول اور بیماری کے عالم میں تنہائی ماضی کا دروازہ کھول دیتی ہے اور سب سے پہلے جو تصویر ذہن کے اسکرین پر ابھر سکتی ہے وہ ’ماں‘ ہے۔ جو کسی نہ کسی موڑ پر رخصت بھی ہوجاتی ہے اور ماں ایک مستقل احساس کا روپ لے لیتی ہے۔ ان نظموں میں بے پایاں کسک اور اپنا پن ہے۔ اس احساس کے اظہار اور اظہار کے لمحوں سے گزرنا بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ راشد شدتِ اظہار کے ساتھ ضبطِ اظہار سے کہیں دامن کش نہیں ہوتے۔ یہ نظمیں اگر قاری کو اداس کرتی ہیں تو اداسی خود ایک خوبصورت احساس کا نام ہے۔

 

Ateequllah

C-29, Abshar

Johri Farm, Jamia Nagra

New Delhi- 110025

Mob.: 9810533212

ateequllahsyed@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...