8/7/24

راشد انور راشد کی یاد میں، مضمون نگار: کوثر مظہری

 

2024ماہنامہ اردو دنیا، جون


تو یہ ہوا کہ ہواؤں کی زد پہ آ ہی گیا

سنبھلتا کیسے کہ کمزور ہوگیا تھا درخت           (راشد انور راشد)

راشد انور راشد میرا دوست، میرابھائی چلا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خوبصورت، خوب سیرت، خوش گفتار، خوش اطوار، خوش لباس، خوش نوا یعنی اس نوع کی انسانی زندگی اور ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے جو بھی صفاتی سابقہ لگانا چاہیں، آپ راشد انور راشد کے لیے لگا سکتے ہیں۔ کیا بتاؤں کہ کیا کچھ کھوگیا ہے۔ میرے اَن گنت لمحے ہیں اور ان لمحوں میں راشد انور کی یادوں اور ان یادوں سے بنی پرچھائیاں ہیں۔ 1993 سے لے کر 7؍ اپریل 2024 کی صبح تک آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے بعد جامعہ ملیہ میںا یڈہاک پر استاد ہوگئے تھے۔ 1999 سے 2000 تک کا زمانہ اور پھر کریم سٹی کالج جانے اور وہاں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آنے تک، ہمیشہ ہی ان سے ایک رابطہ قائم رہا۔ اتنی یادیں اور اتنی باتیں ہیں کہ سب گڈمڈ سی ہونے لگی ہیں۔ ممکن ہے بعض احباب میری اس بات پر یقین نہ کریں، لیکن دراصل جذبات سے جب عام زندگی میں بھی انسان مغلوب ہوتا ہے تو گفتگو بے ربط سی ہوجاتی ہے اور پھر اگر یہ سلسلہ دراز ہوا تو زندگی میں بھی بے ربطی سی آنے لگتی ہے۔

انسانی زندگی میں احساسات اور جذبات سے زیادہ میں نہیں سمجھتا کہ کسی اور چیز کی اہمیت یا معنویت ہوسکتی ہے۔  کسی کی زندگی سے ان مذکورہ اوصاف کو منہا کرکے دیکھیے کہ وہ شخص کیسا بے بس ہوگا اور اندر سے اس کے اندر خلاؤں کا کیسا پہاڑ کھڑا ہوجائے گا۔ اس لیے مجھے یہ کہنے میں ذرا  بھی تامل نہیں کہ راشد انور میرے جذبات و احساسات میں مدغم ہیں اور اس ادغام میںایک لمبے عرصے کا بھی عمل دخل ہے اور ان کی پرخلوص محبتوں کا بھی۔ وہ ہمیشہ مجھے خط لکھتے رہے۔ میں اگر گاؤں میں رہا تو دہلی سے اور جب وہ کریم سٹی کالج جمشیدپور چلے گئے تو وہاں سے اور ہمیشہ انھوں نے مجھے اس انداز میں مخاطب کیا: ’’پیارے کوثر بھائی، سلام قبول کیجیے!‘‘ میرے سامنے اس وقت ان کے تین پوسٹ کارڈ ہیں، کئی اور ہوں گے، کچھ تو گاؤں پر ہوں گے۔ سامنے رکھے پوسٹ کارڈ کا طرز تخاطب ایک سا ہے۔ لیکن اس ’پیارے کوثر بھائی‘ کو بدل کر وہ کیا لکھتے۔ اس میں جو پرخلوص محبت کی مٹھاس ہے، وہ کسی اور بھاری بھرکم اور اَدق الفاظ و تراکیب والے فقرے میں نہیں ہوسکتی۔ 15 فرو ری 2002 کے ایک خط میں جمشیدپور سے لکھتے ہیں: ’’آپ سے حد درجہ قربت کی بنا پر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں دہلی سے دور رہ کر بھی دہلی میں ہی ہوں۔‘‘

اب تو خط و کتابت کا سلسلہ ہی نہیں رہا، لیکن جس محبت اور یگانگت کا اظہار وہ خطوط میں کرتے رہے، اس حوالے سے میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں۔

اس نوع کے ذاتی تعلقات کے ساتھ ساتھ ادب سے ان کی گہری وابستگی کا اندازہ بھی ان خطوط سے لگایا جاسکتا ہے۔ وہ دھنباد سے نکلنے والے رسالے ’رنگ‘ کی مجلس ادارت سے وابستہ تھے۔ اس حوالے سے ایک خط (29 نومبر 2001) میں لکھتے ہیں ’’ادارہ ’رنگ‘ کو اپنے تاثرات سے ضرور نوازیں اور ’نئی سوچ، نیا ادب‘ نمبر کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ لکھنے کا ذہن بنا لیں۔ دہلی آکر دو تین مذاکرے بھی کرانے ہیں تاکہ خاص نمبر میں انھیں شامل کیا جاسکے۔‘‘

ایک اور خط (15 فروری 2002) میں لکھتے ہیں Examination Duty لگ جانے کی وجہ سے لکھنے پڑھنے کی فرصت نہیں مل پارہی ہے۔ شام کی کلاسزمیں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جس کی بنا پر ’استعارہ‘ کا مضمون مکمل کرنا دشوار ہوگیا ہے پھر بھی کسی طرح مکمل کرکے کوریئر ڈاک سے روانہ کردوں گا۔‘‘

خط کا ایک اور اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’کوثر بھائی! آپ پہلی فرصت میں، نیا ورق، نیا سفر، نئی ادبی دریافت کے پتے اور فون نمبر مجھے لکھ بھیجیں۔ چونکہ سارا اثاثہ فی الوقت بکھرا پڑا ہے، اس لیے کچھ رسالوں کے پتے دستیاب نہیں ہوپارہے ہیں۔‘‘

مذکورہ بالا دونوں اقتباسات سے ان کی ادب دوستی اور شعر و ادب سے ان کی گہری وابستگی کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ صلاح الدین پرویز کی ادارت میں سہ ماہی ’استعارہ‘ شائع ہوا کرتا تھا۔ حقانی القاسمی بھی اس سے وابستہ تھے۔ وہاں استعارہ کے دفتر میں جن شاعروں اور ادیبوں کو آتے جاتے اور بیٹھتے، گفتگو اور مباحثہ کرتے دیکھا، ان میں راشد انور بھی تھے۔ صلاح الدین پرویز ان پر بھروسہ کرتے تھے اور مضمون لکھوایا کرتے تھے۔ راشد صاحب بھی ان کا بے حد احترام کرتے اور ان کی فرمائش کو حکم کا درجہ دیتے ہوئے اس کی تعمیل بھی کرتے۔ ان کی ایک اہم کتاب ’نئے افسانے کا معنوی استعارہ‘ا سی زمانے کی کاوش ہے جو پہلے تو استعارہ کا فکشن نمبر کے عنوان سے چھپا اور پھر بعد میں راشد انور نے چالیس افسانوں کا تجزیہ مقدمے کی شکل میں تحریر کیا  جو کہ مکتبہ ’استعارہ‘ سے ہی کتابی شکل میں 2001 میں شائع ہوئی۔ اس پر کم لوگوں کی توجہ گئی۔ اس کا سبب یہ رہا کہ راشد انور کی شناخت ایک شاعر کی تقریباً بن گئی تھی۔ 2001 میں میری کتاب ’جواز و انتخاب‘ شائع ہوئی تھی جس میں راشد انور کی آٹھ منتخب غزلیں شامل تھیں، لیکن زیربحث کتاب کے مقدمے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں فکشن کی تفہیم و تعبیر کا بھی ملکہ تھا۔ یہاں اس کتاب کے مقدمے سے دو تین اقتباسات ملاحظہ کیجیے:

’’میں نے کوئی تنقیدی مضمون نہیں لکھا ہے، بلکہ قارئین سے مکالمہ کی گنجائش نکالی ہے۔‘‘

’’آج کے افسانوں میں رشتوں کی ڈور کو سنبھالنے کی کوشش ایک بار پھر دکھائی دینے لگتی ہے کیونکہ یہ ڈور اگر ٹوٹ گئی تو پھر کہانیوں میں کچھ بھی ایسا باقی نہیں رہے گا جس سے محسوسات کی دنیا میں ہلچل پیدا ہوسکے۔‘‘

’’آگے بہت کچھ چلے جانے کے طویل وقفے کے بعد پیچھے چھوٹے ہوئے مقامات ہمیں بہت تڑپاتے ہیں اور پھر ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہ جاتا، کیونکہ وقت ریت کی طرح مٹھیوں سے سرکتا چلا جاتا ہے۔‘‘

ان اقتباسات کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ادب کا ایک سچا قاری ہے جو افسانوی متون کی چھان پھٹک کرتے ہوئے ان میں زندگی کے اصل حقائق کی جستجو بھی کرتا جاتا ہے اور وقت کی رفتار اور زمانے کی نبض پر بھی اس کی گہری نظر ہے۔ اس کتاب کا حوالہ میں نے اس لیے بھی دیا ہے کہ راشد انور کو دنیا اور آنے والی ادبی نسل کہیں محض شاعری کی آہنی دیوار میں قید نہ کردے۔ اس کے علاوہ بھی ان کی نثری کاوشوں میں مضامین کے کئی مجموعے ہیں۔ ادب کے تعلق سے، پرورش لوح و قلم، شعور نقد، مجروح سلطانپوری، لفظ آثار، منتخب نظموں کا تجزیاتی مطالعہ وغیرہ۔

2008 میں مضامین کا مجموعہ ’پرورش لوح و قلم‘ شائع ہوا۔ مجھے بھی یہ کتاب 24 اگست 2008 کو بطور تحفہ کے دیتے ہوئے راشد انور نے لکھا ’’پیارے کوثر بھائی کے لیے!‘‘ میرے حوالے سے ’پیارے کوثر بھائی!‘ والا فقرہ ایسا لگتا ہے ان کے دل کے صفحے پر نقش ہوگیا تھا۔ ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جو بھی خطوط انھوں نے لکھے یا مجھے اپنی کتابیں دیں، سب میں تخاطب کا اسلوب یہی رہا۔ کہرے میں ابھرتی پرچھائیں (عشقیہ نظمیں) پر البتہ یہ فقرہ درج ہے: ’’بڑے بھائی کوثرمظہری کے لیے‘‘ یہ  کتاب 2012میں شائع ہوئی تھی۔

بہرحال، بات راشد انور کی نثری تحریروں کی ہورہی تھی۔ ’پرورش لوح و قلم‘ میں 24 مضامین ہیں۔ کتاب کا انتساب ہے: ’’علی گڑھ کی خوشگوار ادبی فضا کے نام‘‘ علی گڑھ واقعتا ہمیشہ سے اردو ادب کو قیمتی لعل و گہر دیے ہیں۔ راشد انور کا بھی خواب تھا کہ وہ علی گڑھ جیسی معتبر ادبی فضا سے اپنی ذہنی و فکری ہم آہنگی قائم کرسکیں۔ انھوں نے وہاں آکر بہت کچھ سوچا اور لکھا۔ مضامین لکھے، شاعری کی، سمیناروں میں پرچے پڑھے، اپنی ایک پروقار شناخت بنائی۔ ادب پڑھنے کی غرض و غایت پر سوچتے رہے اور پھر ایک مضمون تحریر کیا، مجھ سے کوئی پوچھے کہ ادب کیوں پڑھتا ہوں تو شاید اس کا جواب ایک دو جملوں سے زیادہ کا نہیں ہو گا، لیکن انھوں نے ’ہم ادب کیوں پڑھتے ہیں؟‘ کے عنوان سے سات صفحات پر مشتمل ایک مبسوط مضمون لکھا ہے۔ اندازہ ہوا کہ وہ ’ادب‘ کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ یہاں بھی دو تین اقتباسات ملاحظہ کرلیجیے:

’’میں ادب کا مطالعہ اپنے آپ کو ازسر نو دریافت کرنے کے لیے کرتا ہوں۔‘‘ (ص 12)

’’جہاں تک ترجیحات کا معاملہ ہے پڑھنے پڑھانے کے ماحول سے متعلق ہونے کے باوجود مطالعۂ ادب کی حیثیت ہمارے نزدیک ثانوی ہوتی ہے۔‘‘ (ص 12)

’’ادب کے بہترین نمونوں کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے تطہیر نفس کے مرحلے سے گزرنے کی بارہا سعادت نصیب ہوئی ہے۔ ادب نے میرے سوئے ہوئے ضمیر کو ہمیشہ ہی جھنجھوڑا ہے۔‘‘ (ص 13)

’’ادب کا مطالعہ مجھے اخلاقی سطح پر بلند ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ مادہ پرستی کے دور میں اخلاقی قدروں کا زوال جس تیزی سے ہورہا ہے۔ اس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔‘‘ (ص 14)

اس کتاب میں اور بھی کئی اہم مضامین ہیں جن کے حوالے سے گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن چونکہ یہ ایک تعارفی اور شخصی نوعیت کا مضمون ہے، اس لیے یہاں سب کچھ کا احاطہ ممکن بھی نہیں ہے۔ پاپولر لٹریچر، معاصر تنقید، نثری نظم، معاصر اردو غزل میں عشق کا تصور، علی گڑھ کے ترقی پسند نظم گو شعرا، آل احمد سرور کی تنقیدی بصیرت، پروفیسر مختارالدین احمد بحیثیت انشا پرداز، شہریار کی شاعری، منیب الرحمن کی نظمیں، قرۃ العین حیدر کا پہلا افسانہ، انتظار حسین کا تخلیقی سفر وغیرہ اہم مضامین ہیں۔ اسی طرح مضامین، انٹرویوز یادیں اور تراجم پر مشتمل ان کی کتاب آثار لفظ 2014 میں شائع ہوئی۔ 453 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بھی ان کی طبیعت اور ادبی میلان کے مختلف النوع پہلوؤں کو سامنے لاتی ہے۔ غزل پر، خورشید الاسلام، مجاز، جذبی، جاں نثار اختر، فیض، قمر رئیس، وغیرہ پر مضامین ہیں، ساتھ ہی انھوں نے ’ہندوستانی ثقافت کا آئینہ‘ کے عنوان سے بھی ایک طویل مضمون لکھا ہے۔ واضح ہو کہ ان کی ایک کتاب ’فنون لطیفہ‘ (2000) کے عنوان سے بھی چھپی تھی جس میں رقص، موسیقی اور مصوری وغیرہ کے حوالے سے مضامین تھے۔ ان میں سے بیشتر مضامین انگریزی مضامین سے اکتساب کردہ تھے اور تواتر کے ساتھ رسالہ آجکل میں چھپا کرتے تھے۔ حالانکہ یہ ان کا میدان عمل نہیں تھا، لیکن مدیر رسالہ کی فرمائش پر انھوں نے یہ سارے مضامین لکھے تھے۔ ’لفظ آثار‘ میں بھی دو تین مضامین مصوری اور ثقافت پر ہیں جو کہ تراجم کے باب میں ہیں۔ اسی کتاب میں سات انٹرویوز شامل ہیں۔ جذبی، قاضی عبدالستار، شمس الرحمن فاروقی، مظہر امام، الیاس احمد گدی، مخمور سعیدی، ظہیر انور کے انٹرویوز ہیں۔ فاروقی صاحب سے کیا گیا انٹرویو سب سے طویل ہے جو 30 صفحات پر مشتمل ہے۔ انٹرویوز کے بارے میں بھی تیرہ صفحات کا تمہیدی مضمون ہے۔ فنون لطیفہ والی کتاب میں محبوب الرحمن فاروقی اور زبیر رضوی کی تحریریں بھی پیش لفظ کے طور پر شامل کی گئی ہیں۔ انتساب ہے: ’’آجکل، ذہن جدید، شب خون اور جامعہ کے نام جن کی بدولت مجھے فنون لطیفہ کو سمجھنے کا موقع ملا‘‘ آپ نے غور کیا ہوگا کہ راشد انور راشد کے ادبی و تہذیبی مطالعے کا دائرہ کیسا توانا اور وسیع ہے۔ کیسا زرخیز اور پرجوش ذہن اور جذبہ تھا۔ آج جب ان کے ادبی کارناموں کو دیکھتا ہوں اور یہ سوچتا ہوں کہ اب راشد انور ہمارے درمیان نہیں تو ایک دم سے دھچکا سا لگتا ہے اور ان کی پرچھائیں آس پاس دائرہ در دائرہ گردش کرنے لگتی ہے۔ا یسا لگتا ہے جیسے کوئی ہوا سی چلنے لگی ہے جس میں ایک طرح کی نغمگی بھی ہے۔ یہ نغمگی راشد انور کی خوبصورت شخصیت کے سبب پیدا  ہوگئی ہے۔ سوچتا ہوں کہ یہ کہیں کہرے میں ابھرتی پرچھائیں تو نہیں! یعنی انسان چلا جاتا ہے لیکن شاید اس کی پرچھائیں یادوں کی شکل میں آس پاس گھومتی پھرتی رہتی ہے۔ کہیں یہ پرچھائیں مجسم نہ ہوجائے، لیکن میرا تو کیا، ہم سب کا ایمان ہے، بقول راشد انور           ؎

جو گیا لوٹ کے آیا ہی نہیں سرحد سے

اب کسے دشت میں آواز لگاتی ہے ہوا

جی چاہتا ہے کہ راشد انور نے اپنے یک موضوعی شعری مجموعے ’گیت سناتی ہے ہوا‘ کے پیش لفظ بعنوان ’اعتراف‘ میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے چند سطریں پیش کردوں۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی تخلیقی حسیت کو فطرت کی کاریگری سے کس طرح ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ آسمان اور زمین کے درمیان جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی قدرت کاملہ پر دال ہے۔ ہوا کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’کرۂ ارض کے گوشے گوشے میں ہوا اپنی موجودگی سے زندگی کی رمق بکھیرنے میں مصروف رہتی ہے۔ ہوا کا سرگم قدرتی مظاہر کو مخصوص رقص  کے لیے مجبور کردیتا ہے۔ جب ہوا گیت سناتی ہے تو پھر ہر شے اس نغمے کو سننے میں محو ہوجاتی ہے کہ اس کا حیرت انگیز سُر ہمیں اپنے ہی باطن سے پھوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔‘‘ (گیت سنناتی ہے ہوا، 2015، ص 26)

راشد انور راشد کا ذہن مرتب اور منضبط تھا۔ وہ شاعری بھی یک موضوعی کرنے پر قادر تھے۔ ’گیت سناتی ہے ہوا‘ کی نظمیں او ر غزلیں دونوں، فطرت کی جلوہ سامانیوں کو ایک مرقع کی شکل میںپیش کرتی ہیں۔ اسی طرح ’کہرے میں ابھرتی پرچھائیاں‘ (2012) بھی عشقیہ مضامین کو محیط نظموں پر مشتمل ہے۔ اسے زبیر رضوی نے ایک عشقیہ اوپیرا سے موسوم کیا تھا۔ آج جب کہ شعری افق پر نثری نظموں جیسی اَدھ کچری شاعری کو بے جا طور پر چمکانے کی کوشش کی جارہی ہے، راشد انور کی پوری کتاب ’کہرے میں ابھرتی پرچھائیں‘ معرا کی ہیئت میں ہے، اس کا مطلب ہے کہ راشد انور ایک موزوں طبع ادیب تھے۔ ’شام ہوتے ہی‘ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ تھا۔ ’گیت سناتی ہے ہوا ‘ میں غزلیں بھی ہیں اور آزاد نظمیں بھی ہیں۔ جب وہ ممبئی ہاسپیٹل میں تھے تو اکثر دوران گفتگو اس بات کا اعادہ کرتے کہ ایک مجموعہ کلام تیار ہوگیا ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد علی گڑھ میں اجرا کراؤں گا، آپ کو تشریف لانا ہوگا!‘‘ میرا جواب ہوتا ’’اللہ کرے آپ جلد صحت یاب ہوجائیں، کتاب چھپے گی اور اجرا بھی ہوگا اور میں ضرور آؤں گا، نہیں آنے کا کیا سوال ہے۔‘‘ یہ بھی کہا کہ وارڈ نمبر 6 کے نام سے ایک فکشن ڈائری بھی لکھ رہا ہوں، اسے بھی چھپواؤں گا، وہ بہت پرجوش تھے اور شعر و ادب کے تئیںا یسا Commitment کہ شاید و باید۔ وہ درس و تدریس کے پیشے میں لکھتے پڑھتے رہنے کو عبادت کا درجہ دیتے تھے جس کا ذکر انھوں نے پرورش لوح و قلم کے اعتراف میں کیا ہے۔ شعبۂ اردو علی گڑھ کے کئی احباب نے بتایا کہ وہ کلاس میں پڑھائے جانے والے موضوعات کی تیاری کرتے اور کوشش کرتے تھے کہ کوئی کتاب بھی اس حوالے سے آجائے۔ ’منتخب نظموں کا تجزیاتی مطالعہ‘ (2008) بھی ان کی ایسی ہی کتاب ہے۔ ’پرورش لوح و قلم‘ اور ’آثار لفظ ‘ میں بھی طلبہ کے کام آنے والے بہت سے مضامین ہیں۔

آخر میں راشد انور کی ایک اور کتاب کا ذکر ضروری ہے جو کہ کچھ لوگوں کی نظر میں متنازعہ بھی رہی ہے۔ وہ ہے ’قاضی عبدالستار : اسرار و گفتار‘ یہ کتاب قاضی صاحب سے کئی نشستوں میں کیے گئے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ یہ ایک طرح کی سوانح عمری ہے۔ 2014 میں یہ کتاب جب تیار ہوگئی تو انھوں نے مجھے فون کیا کہ کوثر بھائی اس نوعیت کی ایک کتاب ہے، اس کا نام تجویز کیجیے۔ میں نے ایک گھنٹے کے بعد انھیں واٹس ایپ پر بتایا تو فون کرکے اپنی خوشی کا اظہار کیا کہ یہ تو مقفیٰ ہوگیا۔ قاضی صاحب کو بھی یہ نام پسند آیا، لیکن اس کتاب کی اشاعت کے بعد قاضی صاحب کی صاف گوئی اور بے باکی کی سزا راشد انور کو بھی ملی، جن لوگوں کے بارے میں قاضی صاحب نے کچھ ایسی باتیں کہی تھیں، جو ان کے خلاف تھیں تو اس کی زد میں راشد بھی آئے، علی گڑھ میں ایک ایسا حلقہ بھی تھا جو راشد انور سے اس کتاب کی اشاعت کے بعد قدرے دوری بنا لی تھی، یعنی انھوں نے اپنی کتاب پرورش لوح و قلم (2008) میں انتساب کے طو رپر لکھا تھا ’’علی گڑھ کی خوشگوار ادبی فضا کے نام‘‘ اب وہ خوشگوار فضا ان کے لیے قدرے تکدر آمیز ہونے لگی تھی، لیکن راشد انور اپنی دھن کے پکے فنکار اور تخلیق کار تھے، سفر جاری رکھا اور تقریباً 25 کتابیں منظرعام پر آئیں اور ان کا لکھنے پڑھنے کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ البتہ جب ان کا پروموشن پروفیسرشپ کے لیے نہیں ہوا تو کچھ دنوں پریشان رہے۔ میں نے انھیں کافی سمجھایا کہ پروفیسر ہوجانے سے شناخت نہیں بنتی، لکھنے پڑھنے سے ہی بنتی ہے اور آپ ماشاء اللہ اپنی شناخت کے محتاج نہیںہیں۔ انھوں نے اپنا یہ شعر پڑھا تھا:

یہ واقعہ ہے مگر میں بیان کیسے کروں

مرے ہی سائے نے مجھ پر اٹھا لیا پتھر

خیر، اب تو راشد انور کیا گئے، ایسا لگتا ہے، علی گڑھ شعبۂ اردو کا ایک باب بند ہوگیا۔ کیسی اداسی ہوگی ان کے شعبۂ اردو والے کمرے میں، سوچیے تو سہی۔ حالانکہ وہ کمرہ کافی دنوں سے منتظر رہا ہوگا کہ ممبئی سے میرا رفیق، میرا مکین آئے گا اور پھر یہاں شعر و ادب اور طلبہ سے رونق پیدا ہوگی۔ تو کیا، اس کمرے کو کسی نے بتا دیا ہوگا کہ اب تمھارا دوست، تمھارا مکین لوٹ کرکے آنے والا نہیں؟ مجھے تو لگتا ہے جیسے ہی ممبئی میں راشد انور کی سانسوں کی ڈور ٹوٹی ہوگی، وہاں سے ایک ہوا کا جھونکا بے چینی کے عالم میںا ٓناًفاناً  علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں 7؍ اپریل کی صبح ساڑھے سات بجے ہی آکر اس کمرے کے پاس اداس کھڑا ہوگیا  ہوگا۔ دروازے نے پوچھا بھی نہیں ہو گا، بلکہ ان مجرد اشیا میں کبھی کبھی احساسات کی شدت ہم انسانوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یوں بھی ’گیت سناتی ہے ہوا‘ سے بھی لگتا ہے کہ راشد نے اپنا قاصد پہلے ہی ڈھونڈ کے رکھ لیا تھا۔ کیسا حسّاس تھا راشد انور! کہہ گیا ہے:

سبھی کو آنا ہے اک دن تری پناہوں میں

کسی بھی لمحے نہ آیا خیال اے مٹی

 

 

Prof. Kausar Mazhari

Dept of Urdu,

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 9818718524

kausmaz@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...