8/7/24

راشد انور راشد کا شعری ارتکاز،مضمون نگار: خان محمد رضوان

 ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


بحیثیت تخلیق کار راشد انور راشد کی شخصیت متنوع پہلو سے مملو ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، نقاد اور مترجم کی حیثیت سے اپنی شناخت مستحکم کر چکے ہیں،باوجود اس کے ان کی اصل پہچان بطور شاعر ہی ہے۔ جب کہ عموماً تخلیق کار تخلیقیت کی تکثیریت میں گم ہو کر اپنی پہنچان نہیں بنا پاتے ہیں مگر راشد انور راشد کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ادب میں کمیت و کیفیت کا مسئلہ بہت زیادہ اثر انداز نہیں ہو تا بلکہ اصل مسئلہ تخلیق کار کے جبلی اور ادراکی پہلو کا ہوتا  ہے۔شعری اصول و ضوابط کے دائرے میں بطورشاعر محاکمہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری کا رنگ نظمیہ شاعری کے بالمقابل جدا ہے۔ نظموں کے مقابلے میں ان کی غزلوں کی تاثیر، رویہ، آہنگ اور اسلوب زیادہ پر اثر ہے۔ اس لیے میں انھیں جدید غزل گو شعرا میں اپنی نوعیت کا عمدہ اور منفرد شاعر تسلیم گردانتا ہوں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ تخلیق کار کو ہمہ جہت ہونا چا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ تخلیق کار کی ذات علمی اور فکری لحاظ سے پہلو دار ہونی چاہیے۔ مگر ہمہ پہلو شخصیت ہوتے ہوئے یک صنفی ہونا بہتر ہے کیونکہ اس طور پر اس کی تخلیق اور شخصیت دونوں کا اعتراف بہتر صورت میں ممکن ہو سکے گا۔اس امر کی روشنی میں جب ہم راشد انور راشد کی غزلوں کا بالا ستیعاب مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی ان کہی کہانی کے طور پر صنف غزل گوئی میں ندرت حاصل کی اور بیشتر مقامات پر ندرت اسلوب اور پر شکوہ بیانیہ کے ذریعے اپنے آپ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کیوں کہ غزل کم لفظوں میں اپنے اظہار کی فصاحت وبلاغت کا خوبصورت ذریعہ ہے اور نظم اپنے متعینہ موضوع کا احاطہ ہے۔ اس کے سہارے احساسات و جذبات کے غیر مختتم سیلاب اور لامتناہی احساسات کو پروناآسان ہوتا ہے۔اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر بطور نمونہ چند شعر پیش کرتا ہوں        ؎

ہم کو پتھر کے پگھلنے کا عمل دیکھنا ہے

 ڈوبتے ڈوبتے آواز لگائیں گے تمھیں

وہ مسئلہ ہے تو میری جبیں پہ روشن ہو

وہ کوئی حل ہے تو دل کو  قرار آئے بھی

پرندے آشیانوں سے پنا ہیں مانگا کرتے ہیں

بدلنے لگتا ہے آنکھوں کا منظر شام ہوتے ہی

بس ایک بار ترا عکس جھلملایا تھا

پھر اس کے بعد مراجسم تھا نہ سایہ تھا

بڑے ہی شوق سے اک آشیاں بنا یا تھا

میں کیسے دیکھوں اسے ٹوٹتے بکھرتے ہوئے

خواہشیں چاک پہ رکھی ہیں کہ صورت ابھرے

گرد کے ساتھ ملی ہے مرے ارمان میں خاک

کبھی تو شاخِ تعلق میں پھول آئیں گے

 کبھی تو سرد بدن کو  لہو پکارے گا

آہ  و  زاری چھوڑ اپنی ذات سے باہر نکل

قہقہے کی گونج بن کر آسمان پر پھیل جا

پاؤں کے نیچے سر کتی جا رہی ہے کوئی شے

سر کے اوپر دفعتاً گرنے لگا ہے آسماں

متذکرہ بالااشعار کی روشنی میںبخوبی یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ راشد انور راشد کا شعری کینوس زندگی کے مسائل اور واقعات و حوادث پر محیط ہے۔ ان کا اظہار یہ انداز حقیقت پسندانہ ہے، وہ اپنے باطن کے نہاں خانے میں ڈوب کر کرب جاں کا انکشاف عارفانہ لہجے میں کرتے ہیں،جس کی وجہ سے ان کی بیشتر غزلوں کی قرآت کے وقت نظموں جیسی مانوس خوشبو،خیالات کا تسلسل اور موضوع کی تہہ داری کا ادراک بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا سبک لہجہ اور لفظوں کا برتاؤ باطن کی پیچیدگیوں اور روح کی اذیت ناکیوں سے عبارت ہے۔

را شد انور راشد کا حسّی ادراک بلا کا ہے۔یہ ادراک کا ملکہ انہیں حقیقت پسندی اور حق شناسی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ ان کی غزلوں میں خود پسندی، خدا پسندی اور مناظر فطرت و قدرت کے کئی عکس نمودار ہوتے ہیں۔ جب کہ ان کے بیشتر ہم عصروں میں اس کا واضح اظہار نظموں میں بہتر صورت میں ہوا ہے،مگر راشد انور راشد کی غزلوں میں اس کا برتاؤ بڑی خوبصورتی،دلکشی،دلربائی اور خوبی کے ساتھ ہوا ہے۔جسے ہم جدید شاعری کا عملی تجربہ کہہ سکتے ہیں۔ان کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ ان کے یہاں خیالات کا ایک انبوہ دست بستہ بیعت کیے ہوئے نظر آتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی شاعر کی زمین خشک نہ ہو، اس کا لہجہ ناہموار نہ ہو، خیالات میں تنوع پایا جاتا ہو افکار کی دنیا وسیع ہو اور اسلوب کی نیرنگی اس کی غلام ہو تب جاکر اس کا بیانیہ سبک روی کے ساتھ آگے بڑھتا جاتا ہے اور اپنے اظہار کی قوت سے نیرنگیِ اسلوب کے ساتھ اشعار گل بوٹے کی مانند نوک قلم سے نکلتے جاتے ہیں۔ راشد انور راشد کی پوری شاعری پڑھ جائیے آپ کو کہیں بھی یہ احساس نہیں ہو گا کہ ان کے تخلیقی عمل اور ان کے افکار و خیالات میں کسی بھی قسم کا تنافر در آیا ہے۔ جب کہ ایسا بہت ہی کم شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔جب کہ اکثر نئے شعرا کے یہاں خیالات کی دولختی اور فکری تنافر کثرت سے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ مگرراشد انور راشد کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے یہاں لفظوں کا برتاؤ خیالات کے مطابق من وعن خوبصورتی کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ خوبی جب کسی شاعر کے اندر پیدا ہو جاتی ہے تو یہ سمجھا جاناچاہیے کہ وہ مکمل شاعر ہونے کے امکانی مدارج کو پہنچ چکا ہے۔ لفظوں کا ٹریٹمنٹ ہی شعر کو شعر بناتا ہے اور اسے جمالیاتی کیفیت سے مہمیز بھی کرتا ہے        ؎

اب کبھی لوٹ کے شاید وہ نہیں آئے گا

تھک گئی آنکھ مری دیکھ کے اس کا رستہ

سارے اداس چہروں پہ آنے لگا نکھار

جو بھی غبارِ درد  تھا  سب دھوگئی ہے شام

شاداب ہم لہو سے کریں گے اسے مگر

اپنے تمام وعدوں کو بھولی ہوئی ہے ریت

سبھی نے فتح کیا باہری سمندر کو

کوئی تو پار نہ کرپایا اندروں کی ندی

رقص جاری ہے امنگوں کا دیارِ دل میں

اب بھی محفوظ ہیں خوش رنگ خیالوں کے گلاب

 راشد انور راشد جس عہد سے تعلق رکھتے ہیں اس میں اچھے شعرا کی کمی نہیں ہے۔ ایک سے ایک  بوتے کے شاعر موجود ہیں، بلکہ بیشتر ایسے باصلاحیت شعرا ہیں جن کے اندر نمو پذیری کی کیفیت اس قدر بڑھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ  ان میں سے کون سب سے اچھا شاعر ہے، لامحالہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سبھی اچھے اور با کمال شاعر ہیں۔ اس عہد کے شعرا کا فکری،فنی،تخلیقی اور تخیلاتی دائرہ بے حد وسیع ہے، ان کے لہجے کی انفرادیت ہی ان کا اپنا شناخت نامہ ہے، خیالات کی ندرت ان کا امتیاز ہے، ان کی متخیلہ زمین سر سبز و شاداب ہے،ان کے یہاں موضوعات کا تنوع اس قدر بلیغ طور ہوا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔اور ان کا شعری منطقہ سورج کے گرد سر مئی ہالے کی مانند ابھرا ہوا ہے جو اپنے وجود کے ساتھ افق آسمان کو بھی منور کر رہاہوتا ہے۔ انہی جدت پسند شعرا کے وسیلے سے نئے عہد کے مضمرات کو مسخر کرنا دورِ نو کے تخلیق کار کے لیے آسان ہوگیا  ہے۔جدید عہد کے جدید  تصورات و نظریات کی تہیں اس طرح وا ہوتی جا رہی ہیں جیسے معجزاتی یا کشف و کراماتی عمل کا دخل ہو۔ اس لیے ہم کسی طور پر راشد انور راشد کے ہمعصروں کی صفات اور خصوصیاتِ جمیلہ سے روگردانی نہیں کر سکتے ہیں، کیوں کہ اس عہد کے شعرا نے اپنا محاسبہ اپنے ماقبل اور مابعد کے فکری و نظریاتی اساسی پہلوؤں کے تناظر میں کرتے ہوئے عہد جدید اور مابعد جدید عہد کے تعبیراتی جہان کا ایسا گوشوارہ تیار کیا ہے جس کی نظیر بمشکل ہی پیش کی جاسکتی ہے۔ ہمارے عہد کی نسل جس ہیجان اور ذہنی و فکری نارسائی میں مبتلا ہے وہ راشد کے ہمعصروں کے  یہاں نہیں ہے،بلکہ انھوں نے تو ہیجان کی دنیا سے باہر لاکر استعجاب کی دنیا کی سیر کرائی۔ کم و بیش یہی صورت حال ان کی نظمیہ شاعری کی بھی ہے۔ان کی نظموں میں بھی غزلوں کی ہی طرح جذب و انجذاب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔عصری حسیت اور داخلی کرب کا اظہار دونوں جگہوں پر ہوا ہے۔ غزلوں کی ہی طرح ان کی نظموں میں خود سپردگی اور فنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ بے خودی، محویت اور استغراق وجودیت کی سرشاری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہاں ایک خالص کیفیت والی نظم پیش کرتا ہوں دیکھیے شاعر نے کس خوبی کے ساتھ ایک کیفیت کو برتنے کی کوشش کی ہے ملاحظہ کریں      ؎

رات کی دستک سنتے ہی/اک خوف وہراس /گھر کے درودیوار سے /ظاہر ہوتا ہے /جب سے اس کی کوٹھی میں /خوابوں کی نیلامی جاری ہے /گہرے سناٹے /سر گوشی کرتے ہیں /خوابوں کے اندیشے پلتے ہیں

 راشد انور راشد کے یہاں جا بجا طور پر عقدہ لا ینحل کی جانب جست لگانے کی حوصلہ افزا سعی کا پتا ملتا ہے۔ اس طرح کا انفعالی سراغ  انہی شاعروں کے یہاں ملتا ہے جن کے اندر اعتراف ذات و کائنات کی شعوری اور لا شعوری کیفیت دونوں جگہوں پر پائی جاتی ہے۔ اس کا احساس ہمیں ان کی نظموں کے منفرد عنوانات اور پر کیف کیفیت سے بھی ہوتا  ہے۔ کیوں کہ فطرت کا اعتراف اور احساس جتنا مشکل ہے اس کا اظہار بھی ناممکنات میں سے ہے،مگر انھوں نے بے حد آسانی اور خوبی کے ساتھ اس معرکے کو بھی سر کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ راشد انور راشد کی نظموں میں مناظر قدرت کا اظہار اعتراف سے کہیں زیادہ پر اثر انداز میں ہوا ہے، ان کے یہاں نظموں کا حسی پہلو قابل دید ہے۔وجہ یہ کہ ان کی نظموں میں حسی سیاق نہ صرف منفر د بلکہ ندرت خیال اور کیفیت جمال سے مملو ہوکر ہوا ہے۔ اس پہلو سے وہ اپنے ہمعصروں سے کہیں آگے ہیں۔ کیوں کہ تغیر و تبدل کی حسیات کا مطالعہ جمالیاتی پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر کیا جائے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کا ادراک غیر محصوری ہے۔اور یہ صفت ایک جینوئن فنکار کی ہوتی ہے۔

 یہاں میں ایک مختصر نظم نمونے کے طور پر پیش کرتا ہوں ملاحظہ کریں          ؎

بجلیوں کے شور سے/ ذہنوں میں دہشت کی لکیریں/  یوں ابھرتی ہیں/ کہ جیسے ایک لمحے میں وہی دل دوز منظر/ سب کی آنکھوں میں سمائے گا/مسلسل بارشوں کا قہر جاری ہے/یوں لگتا ہے/وہی پچھلے برس کا واقعہ/ اس سال بھی ویران آنکھوں کو مسلسل خون کے آنسو رلائے گا

راشد انور راشد کے یہاں نظم اور غزل دونوں طرح کی شاعری میں جذبے اور احساس کا بڑا دخل ہے۔ ان کی شاعری اجتماعی حافظے یا عمومی حسیات کا میزان نہیں معلوم ہوتی ہے بلکہ  احساس کے ایک ایسے دھارے سے جڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے جس کا ادراک کم ہی لوگوں کو ہو پاتا ہے۔ ان کی پوری شاعری میں ایک خاص نوع کی کیفیت کا اظہار ہوا ہے۔ جس کو سمجھنے کے لیے صرف انسان ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ حساس اور زودحس انسان ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ان کے یہاں جذبہ و احساس کا اظہار جس بر ملا انداز میں ہوا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شاعری عقل کی کم جذبے کی اوپج زیادہ   ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ان کی ذاتی زندگی کا برتاؤ اور سلوک بھی یہی تھا، وہ جب کسی سے ملتے تو ہنستے، مسکراتے اور پرجوش انداز سے پیش رفت کرتے، جب ہم ان کی زندگی اور ان کے تخلیقی سرمائے کا تطابق کرتے ہیں تو یہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ ان کی زندگی اور تخلیقی سفر ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں، بلکہ مطابق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری شاعری میں حیات انسانیت کی حقیقتوں کا عکس نیرنگ انداز سے بکھرا پڑا ہے اور قدرت کی لازوال حقیقتوں کا اظہار مناظر فطرت کی مختلف النوع رنگوں کو بروئے کار لا کر کیا گیا ہے۔

راشد انور راشد جیسا بانکاشاعر آج ہمارے درمیان نہیں،قدرت نے اس شاعر کو گرچہ بہت کم مہلت عطا کی لیکن ادب میں اس کی بہتر سی مثالیں ملتی ہیں کہ پچیس تیس سال کی فنی ریاضت کے بعد درجنوں فنکار ادبیات عالم میں ایسے ملتے ہیں جنھوں نے اپنا ایسا نقش چھوڑا کہ آج بھی دھندلا نہیں ہوپایا، نام لینے کی ضرورت نہیں محض انگریزی، اردو اور ہندی میں درجن بھر سے زیادہ فنکاروں کی بات کی جاسکتی ہے،جنھوں نے اپنی قلیل عمر میں اپنے فن پاروں کے ذریعے لازمی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ راشد انور راشد کو بھی ہم بلا تردد اسی زمرے کی ایک کڑی کے طور پر لے سکتے ہیں۔آج راشد انور جسمانی طور پر روپوش ہوچکے ہیں،لیکن ان کی تخلیقات ابھی بھی روشن، تابندہ اور زندہ ہیں،اور آنے والے وقتوں میں بھی زندہ جاوید رہیں گی۔ 

 

Dr. Khan Mohd Rizwan

D-307, M.M.I.P

Abul Fazl Enclave, Jamia Nagar

New Delhi-110025

Mob: 9810862283

khanrizwan1990@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...