10/7/24

نفسیات جنوں، مصنف: برنارڈ ہارٹ، مترجم عبیدہ زمان

 ماہنامہ اردو دنیا ،جون 2024


 دماغی خلل کی تاریخ((The History of Mental Disarder

غیر معتدل دماغی مظاہر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کا ذکر مشرق اور مغرب کی انتہائی قدیم کتابوں میں بھی موجود ہے۔ عہدنامہ قدیم میں سوال (Saul) پر ارواح خبیثہ کے تسلط کے دوران متواتر افسردگی کے دورے پڑنے کا ذکر ہے، نیز بخت نصر کے ان ہذیانی دوروں کا ذکر بھی ملتا ہے جن میں وہ یہ یقین کرلیتا تھا کہ وہ جانور ہوگیا ہے، وہ بیل کی طرح گھاس کھاتا ہے، اس کا جسم جنت کی شبنم سے بھیگ گیا ہے یہاں تک کہ اس کے بال بڑھتے بڑھتے فرشتوں کے پروں کی طرح اور ناخون چڑیوں کے پنجوں کی طرح ہوگئے ہیں۔ مغرب کو دیکھیے تو ہومر (Homar) کے یہاں پاگل پن کا ذکر اکثر و بیشتر ملتا ہے مثلاً اجاکس (Ajax) کا ذکر ہے جس کو انتقام کی دیویوں نے اتنی اذیت دی کہ وہ اپنی ہی تلوار پر گرپڑا۔ یا یولیسس (Ulysses) کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس نے ٹروجن (Trojan) کی جنگ میں اپنی عدم شرکت کو حق بجانب قرار دینے کے لیے بناؤٹی جنون اختیار کرلیا تھا۔ اسی طرح ہاتف کی مشہور پیشین گوئیوں کو سراسر دھوکہ قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ کسی حد تک ان کی تشریح ہسٹیریا کی ان علامات کے طور پر کی جاسکتی ہے جو عہدحاضر میں بھی معمول میں دیکھنے میںا ٓتی ہیں۔

بنیادی طور پر انسانی ذہن تشریح و توجیہ کا متقاضی واقع ہوا ہے اسی لیے غیرمعتدل مظاہر کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کی تشریح کی کوشش بھی برابر ملتی ہے۔ جنون کی تاریخ میں ہر عہد کے معلومات و تصورات کے مطابق ان کوششوں کے تقاضے برابر محسوس کیے گئے ہیں۔ دیوانگی کے سلسلے میں اس قسم کی مختلف کوششوں کو ہم جنون سے متعلق نظریات کے نام سے موسوم کریں گے اور موجودہ باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان نظریات کے تاریخی ارتقا کا سراغ لگاتے ہوئے ہم دیوانگی کے متعلق اس موجودہ نظریے تک رسائی حاصل کرلیں جو اس کتاب کا مجموعی طور پر مدعا ہے۔

دیوانگی کے سلسلے میں زمانہ قدیم کی یادداشتوں میں پائے جانے والے متذکرہ بالا نظریات کو ’عفریتی‘ نظریہ (Demonological) کہہ سکتے ہیں۔ اس کے مطابق اس قسم کے مظاہر کسی روحانی وجود کے زیراثر خواہ وہ دیوتا ہو یا شیطان وقوع پذیر ہوتے تھے جو کبھی تو انسان کے جسم میں سکونت ہی اختیار کرلیتا ہے اور کبھی باہر رہ کر اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر یہ مظاہر اپنے زمانے کے مذہبی خیالات کے مطابق ہوتے ہیں تو یہ طے پاتا ہے کہ قابض روح نیک و شریف ہے اور پھر ایسے شخص کو بہت مقدس تصور کیا جاتا لیکن اگر ایسے شخص کے اطوار مروجہ اخلاقی اصولوں کے منافی ہوئے تو اس کو کسی خبیث عفریت کا شکار سمجھا جاتا ہے۔ جب تک اس نظریہ کو قبول عام حاصل رہا اس وقت تک فطرتاً مذہبی رسومات اور منترجنتر کا رواج واحد ذریعہ علاج کے طور پر باقی رہا۔

بہرکیف ہیپوکریٹس (Hippocrates) کی آمد کے ساتھ ہی یعنی تقریباً 460 قبل مسیح کے آس پاس یونان میں دیوانگی کے نظریہ میں بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔ بانیِ طب (Hippocrates) ہیپوکریٹس نے یہ اصول پیش کیا کہ بھیجادماغ کا آلہ ہے اور اسی عضو میں پیدا ہونے والی کسی خرابی کی وجہ سے پاگل پن پیدا ہوجاتا ہے۔ اس نے اپنے مریضوں کو (Aesculapius) اسکولیپس مندر سے باہر نکالا اور ان کا علاج عام طبی اصول کے مطابق کرنا شروع کیا۔

اس نظریہ کو جس نے پہلی بار سائنسی طریقوں کی مدد سے دیوانگی کو دفع کرنے کی کوشش کی، اپنے زمانہ میں بارآور ہونا نصیب نہ ہوا بلکہ ’ایام جاہلیت‘ (Darkeages) کے ذہنی جمود میں تو سرے سے اس کا وجود ہی باقی نہ رہا۔

زمانۂ وسطیٰ کے یورپ میں فکر، ادب اور فن سب ایک طاقت ور کلیسا کے خدمت گزار ہوگئے تھے۔ وجہ یہ ہوئی کہ فلسفہ کی جگہ مسلک کلامی کو (Scholashicism) اور سائنس کی جگہ تصوف کو دے دی گئی تھی۔

دیوانگی کی ماہیت اور اسباب سے متعلق مروجہ نظریات قدرتی طور پر پلٹا کھاکر ایک بار پھر قدیم عفریتی نظریہ کی طرف لوٹ گئے اور یہ نظریہ کہ غیرمتوازن ذہنی علامات کسی نیک یا بدمافوق الفطرت ذریعہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، دوبارہ سر اٹھانے لگا بلکہ ازمنہ وسطیٰ  میں تو یہ خیال اپنی ترقی کی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔

اس زمانے  میں پھلنے پھولنے والے درویشوں اور مجذوبوں کے یہاں نظر آنے والی وہ علامتیں جو بے خودی یا وجدانی کیفیتوں کے نام سے موسوم تھیں، آج کے ذہنی مریضوں میں لگاتار دیکھنے میںا ٓتی ہیں حالانکہ ازمنہ وسطیٰ کے مروجہ عقائد کے ماتحت ان کو براہ راست دیوتا سے اتصال کا نتیجہ کہا جاتا تھا اور ایسے لوگوں کی بڑی تعظیم و تکریم ہوتی تھی۔

دماغی خلل کی مختلف صورتوں کی طبقہ بندی کالے جادو کے نام سے کردی گئی تھی۔ وسطی زمانے میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی، کالے جادو کا عہد تاریخ انسانی کا انتہائی دلچسپ باب ہے اور آج بھی حل طلب مسائل سے بھرا پڑا ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ کالے جادو، سبت (Sabath) اور بھوت پریت سے متعلق تقریبات اور رسم و رواج، یورپ کے ماقبل تاریخ والے مذہب یعنی اساطیری جرمن مذہب کی پس ماندہ یادگاریں ہیں جنھوں نے ایک مسلک کی شکل اختیار کرلیا اور اصل مذہب کے متوازی چلتے رہے۔ اس طرح کے مسلک اب بھی خصوصیت کے ساتھ دماغی طور پر کمزور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں، جادوگروں کے  اس گروہ میں سے بہتیرے اگر آج پاگل اور خبطی قرار دیے جائیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہ ہوگی، کچھ مخصوص علامات جن کو آج ڈاکٹر ہسٹیریا کی علامتیں مانتے ہیں۔ پہلے جادوگروں کی نشانیاں سمجھی جاتی تھیں اور ایسی کسی عورت یا مرد کے جادوگر ہونے میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی تھی جس میں یہ علامتیں موجود ہوتی تھیں۔ ان نشانیوں میں سے ایک ’شیطانی پنجہ‘ کے نام سے موسوم تھی۔ اس میں آسیبی شخص کے جسم کا کوئی حصہ بے حس ہوجاتا تھا۔ آج اس کو جدید ہسپتالوں میں ’ہسٹیریا کی بے حسی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کسی جادوگرکی روبکاری کے لیے طریقہ کار کا تعین اس بے حس حصہ کے وجود اور چند مزید نرالے تجربات کی مدد سے ہوجاتا  تھا۔ ان خوفناک اداروں کو یورپ میں بڑا فروغ اور استحکام حاصل ہوا، ان کا وجود اٹھارویں صدی تک قائم رہا۔ اس کی شدت کا اندازہ ہم کو اس حقیقت سے ہوسکتا ہے کہ صرف ٹریوز (Treves)کے علاقہ میں چھ ہزار پانچ سو لوگوں کو کالے جادو کے الزام میں پھانسی پر چڑھایا گیا۔

دماغی خلل کی کچھ ایسی صورتوں کو جنھیں کالے جادو یا مقدس روحانی اثرات کی طرف منسوب کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا، شیطانی آسیب قرار دے لیا جاتا تھا اور ایسے بدنصیب لوگوں پر بھوت پریت اتارنے کے تمام طریقے آزمائے جاتے اور اگر یہ طریقے کارگر نہ ہوتے تو ان کو قیدخانہ میں ڈال دیا جاتا یا سوسائٹی سے خارج کردیا جاتا تھا۔

اس پریشان کن صورت حال کی اصطلاح سائنس اور انسان دوستی جیسے فلاحی خیالات کی ترقی کی وجہ سے ممکن ہوسکی۔ سائنس جس نے انسان کے علم و دانش میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ ابتدا میں صرف مادی دنیا کی تحقیق میں لگی تھی، لیکن اس کے رائج کردہ معروضی طریقہ کار سے دور رس نتائج بھی متوقع تھے۔ مسلک کلامی (Scholasticism)کے زوال کے ساتھ ہی پاگل پن کے سلسلے میں ’عفریتی نظریہ‘ کا بھی خاتمہ ہوگیا اور بالآخر ماڈرن یورپ اس مقام تک پہنچ سکا جہاں ہیپوکریٹس ہزار سال سے بھی پہلے پہنچ چکا تھا۔ مختلف ذہنی کیفیات کا سبب ان اعمال کو بتایا گیا جو بھیجے میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں اور یہ اصول مقرر کیا گیا کہ دیوانگی اس طرح کی ایک دماغی بیماری ہے، جیسے کہ نمونیا پھیپھڑوں کی بیماری مانی جاتی ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل ہی میں دماغی خلل کے سلسلہ میں عضویاتی اسباب کا تصور پختگی سے قدم جماتا نظر آنے لگا تھا۔

اس کے بعد جو عبوری دور آیا اس کو ہم سیاسی دور کہہ سکتے ہیں۔ اس میں باوجودیکہ دماغی امراض کے مریضوں کو شیطان کی ملکیت نہیں سمجھا جاتاتھا پھر بھی ان کی سماجی حیثیت صفر کے برابر تھی۔ سوسائٹی کا صرف اتنا فرض سمجھا جاتا تھا کہ وہ ایسے افراد کی ایذا سے سماج کے اور لوگوں کو محفوظ رکھے، یہ زمانہ قید و بند اور ہتھکڑیوں کا زمانہ تھا، لوگ گندگی میں ڈوبے ہوئے ایسے تنگ و تاریک خوفناک سنگی قیدخانوں میں خس و خاشاک کے بستروں پر جن کو شاید ہی کبھی تبدیل کیا جاتا تھا اور جن کی وجہ سے چھوت کی بیماریوں کا خطرہ ہر وقت لاحق رہتا ڈال دیے جاتے تھے، جہاں جنگلی جانوروں کو رکھنے میں بھی تامل ہوتا، اور وہ ان عادی مجرموں کے رحم و کرم پر ہوتے تھے جن کے ذمہ ان کی دیکھ بھال ہوتی تھی اور یہ بدبخت مریض غلاموں کی طرح زنجیروں سے جکڑ دیے جاتے تھے۔‘‘

 اس عہد کے خیرات خانوں کی دردناک تصویرکشی جس طرح ہوگرتھ نے کی تھی، قلم اس کے بیان سے قاصر ہے۔

دیوانگی کے سلسلے میں انسانی ہمدردی کا سب سے پہلا قدم اٹھانے کا شرف انگلستان کو حاصل ہوا جب کہ اٹھارویں صدی کے اواخر میں سینٹ لیوک کی اصطلاحات لندن میں نافذ ہوئیں اور یورک میں پناہ گاہ کا قیام عمل میںا ٓیا، یہ وہ سنجیدہ کوششیں ہیں جن کے ذریعہ پاگلوں کے مادی ماحول کو بہتر بنانے کی حقیقی جدوجہد کی گئی۔ ہنیول (Hanwell) کے ڈاکٹر کونیلی (Dr. Conally) نے زنجیروں کا طریقہ ختم کروایا جو اب تک پاگل خانوں کے لوازم میں شامل تھا۔ اسی قسم کی اصلاحات فرانس میں پینل اور اسکورل کی قیادت میں کیے گئے اور اس وقت سے انسانی ہمدردی کی یہ مہم روزافزوں ترقی کرتی گئی۔ اب تمام دنیا اس کو تسلیم کرتی ہے کہ انسانی سلوک پاگلوں کا بھی حق ہے۔ آج کے پاگل خانوں کی صورت حال بدل چکی ہے اور وہ راحت رسانی اور حسن انتظام کا نمونہ ہیں۔ نظم و نسق اور برتاؤ کی اس تبدیلی میں ہر ہر قدم پر سائنس نے ساتھ دیا ہے۔ سائنٹفک طریقوں سے کام لینے سے بہت سے عملی میدانوں میں جو خاطر خواہ معلومات حاصل ہورہی تھیں ان کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اٹھارویں صدی میں یہ خیال زور پکڑنے لگا کہ جنون کا بھی سائنسی بنیادوں پر مطالعہ کیا جائے۔ اسی سلسلے میں سائنس کی ایک شاخ نے جس کو معالجات نفسی (سائیکٹیری) کہا جاتا ہے گزشتہ سو سال میں نمایاں ترقی کی ہے اور معلومات کا قابل لحاظ ذخیرہ اکٹھا ہوا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انیسویں صدی کے شروع میں عضویاتی نظریہ کو ساری دنیا میں تسلیم کیا جانے لگا تھا اور تحقیقات میں بھیجے کی بناوٹ اور اس کی تشریح کو مرکزی اہمیت حاصل ہوچکی تھی، اس سلسلے میں معلومات میں غیرمعمولی سرعت سے اضافہ ہوا۔ خوردبین کی مدد سے بھیجے کی ساخت کی وضاحت مع جزئیات کے کی گئی۔ دماغ کی عضویاتی تشریح میں تجرباتی طریقوں کے استعمال سے اور بھی اچھی پیش رفت ہوئی۔ اس ضمن میں قابل ذکر وہ دریافت ہے جس کے مطابق دماغ کے مختلف حصے بتائے گئے ہیں اور یہ کہ ہر حصے پر کسی خاص جسمانی فعل کا دار و مدار ہے۔ مثلاً سر اور جسم کی تمام حرکات و سکنات بھیجے کے اس حصے کے تابع ہیں جو حرکی خطہ (Mortar Area) کہلاتا ہے، اگر اس کا کچھ حصہ بیکار ہوجائے تو متعلقہ جسمانی حصہ فوری طو پر مفلوج ہوجاتا ہے۔

ان معلومات نے بڑا جوش و خروش پیدا کردیا۔ یہ خیال کیا جانے لگا کہ دماغی بدنظمی کی ماہیت ا ور اسباب کو جلد ہی منظرعام پر پیش کیا جاسکے گا، لیکن یہ امیدیں پوری نہ ہوسکیں تو رفتہ رفتہ یہ رائے قائم ہونے لگی کہ عضویاتی نظریہ اپنی اہمیت کے باوجود تمام مسائل کو حل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے اور مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کسی اور طریقہ کار کی گنجائش موجود ہے۔ بالآخر نفسیاتی نظریہ کی ترقی نے ایک طریقہ کار فراہم کردیا۔

نفسیاتی طرزِ فکر کی بنیاد اس نظریہ پر رکھی گئی کہ دماغی افعال کا بالواسطہ مطالعہ کیا جاسکتا ہے اور اس سلسلے میں بھیجے میں پیدا ہونے والی متعلقہ تبدیلیوں کا حوالہ دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جنون کو خالص نفسیاتی نقطہ نظر سے بھی بہت اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔

ابتدا ہی میں اس نظریہ کی ترویج کے دوران (Metaphysics) علم مابعدالطبیعیات، دینیات اور اخلاقیات کو نفسیات کے ساتھ خلط ملط کرنے سے بڑا نقصان پہنچا۔ مثال کے طور پر ہین روتھ (Heinroth) کے مطابق پاگل پن کا سبب گناہ ہے اور اس کے تدارک کے لیے مذہب پر اعتقاد حاصل ہونا لازمی ہے۔ لیکن بالآخر نفسیات خود کو تمام اجنبی ساتھیوں سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوئی اور اس طرح پاگل پن کا اپنے طور پر مطالعہ کرنے کے لیے اس کا راستہ صاف ہوگیا تھا۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا قدم انیسویں صدی کے نصف آخر میں فرانسیسی ماہرین نفسیات نے اٹھایا جس کا انجام (Janet) کے مستند تحقیقات پر ہوا۔ حالیہ برسوں میں ترقی کی رفتار بڑی تیز رہی ہے۔ کرپلن (Kraepelin)، فرائڈ (Freud) اور ینگ (Jung) کی تحقیقات نے جنون کے متعلق نفسیاتی نظریہ کو حقیقت کا روپ دے دیا۔

اس طرح آج دو اہم نظریے موجود ہیں ایک عضویاتی اور دوسرا نفسیاتی۔ جہاں تک موضوع کو برتنے کا سوال ہے ان دونوں نظریات کی راہیں ضرور جدا جدا ہیں لیکن دونوں کی مشترکہ بنیاد سائنسی طریقہ کے استعمال پر ہے۔

 

ماخذ: نفسیاتِ جنوں، مصنف: برنارڈ ہارٹ، مترجم: عبیدہ زمان،   دوسرا ایڈیشن :1999، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...