10/7/24

ہندوستان میں سماجیات اور تاریخ کے جدید رجحانات، از عائشہ بیگم

 ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


سماجیات

ہندوستان کے ذیلی براعظم میں سماجیات کی تاریخ بہت ہی مختصر ہے۔ سب سے پہلے 1919 میں بمبئی یونیورسٹی میں سرپیٹرک گڈس کا تقرر بحیثیت سماجیات کے پروفیسر کے عمل میں آیا اور اس کے بعد دو ہی سال میں لکھنؤ یونیورسٹی میں پروفیسر رادھا کمل مکرجی 1921 میں سماجیات کے پروفیسر بنے۔اس اعتبار سے سماجیات کو اس ملک میںا ٓئے ہوئے ابھی ساٹھ برس بھی نہیں ہوئے لیکن یہ صحیح ہے کہ گذشتہ جنگ عظیم کے بعد سے سماجیات کو ہندوستانی جامعات میں بہت تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے۔ ملک کی آزادی سے پہلے سماجیات سے عدم دلچسپی کا سب سے بڑا سب برطانوی سامراج کی حکومت تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ خود برطانیہ میں سماجیات کو وہ عام مقبولیت حاصل نہیں ہے جو امریکہ اور دوسرے ممالک میںا س مضمون کو حاصل رہی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ انگریزوں نے ہندوستان میں بھی سماجیات سے اپنی عدم دلچسپی کو برقرار رکھا اور اس مضمون کو یہاں ترقی کرنے کا خاطرخواہ موقع نہیں ملا۔ جب ابتدا میں بمبئی اور لکھنؤ میں سماجیات کے پروفیسروں کا تقرر عمل میں آیا تو اس وقت بمبئی میں سماجیات کو شہریت کے ساتھ رکھا گیا اور لکھنؤ میں میں سماجیات، معاشیات کے نصاب کے ساتھ منسلک رہی۔ لیکن بہرحال ان ہی دونوں جامعات سے ابتدائی روشنی پھیلی۔ بمبئی یونیورسٹی میں سرپیٹرک گڈس کے بعد پروفیسر جی ایس گھورئے سماجیات کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر رادھا کمل مکرجی اور پروفیسر گھورئے صرف سماجیات کے سب سے پہلے پروفیسر ہی نہیں ہیں بلکہ حسن اتفاق سے یہ دونوں ایسی عظیم شخصیتیں تھیں جنھوں نے سماجیات کے میدان میں واضح اور بنیادی نقاط نظر کی داغ بیل ڈالی اور آج بھی ہندوستان کے مختلف گوشوں میں سینئر اساتذہ کا جو گروہ پایا جاتا ہے وہ ان دونوں عظیم شخصیتوں سے کسی نہ کسی طرح راست یا بالواسطہ طور سے مستفید ہوتا رہا ہے۔ پروفیسر گھورئے نے ہندوستان کی تاریخ کی قدامت اور اس کی روایات کو ہندوستانی سماجیات کے لیے سب سے اہم سرچشمہ قرار دیا اور پروفیسر مکرجی نے سماجی اقدار کی اہمیت اور اس کے بدلتے ہوئے رجحانات کو سماجیات کا اہم موضوع قرار دیا کیونکہ ڈاکٹر مکرجی کا یہ خیال تھا کہ مغربی اندازِ فکر اور مغربی تعلیم کے نتیجہ کے طور پر ہندوستانی اقدار میں بھی نئے رجحانات پیدا ہورہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ پرانے اقدار کی اہمیت بھی اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ اس لیے ان کی رائے میں ہندوستانی سماج کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اقدار کے ڈھانچے اور سماجی اعمال میں اس کی فعالی کا بغور مطالعہ کیا جائے جس کے بغیر مغربی اندازِ فکر ہندوستانی پس منظر کو سمجھنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ نئی تحقیقات اور جدید رجحانات کی روشنی میں کچھ لوگوں کو ان ابتدائی نقاطِ نظر سے اتفاق نہ ہو، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان ہی سماجیات دانوں نے اس ملک میں سماجیات کی راہ ہموار کی۔

سماجیات کے مختلف زاویہ ہائے نگاہ جو خود مغربی ممالک میں موجود رہے ہیں مثلاً بعض مفکرین اس بات سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ سماجی برتاؤ کے وہ بنیادی اصول دریافت کیے جائیں جن کو طبعی علوم کے نظریات کی جیسی مقبولیت حاصل ہو۔ دوسرا گروہ ایسے سماجیات دانوں کا پایا جاتا ہے جو سماج کے مخصوص اور مرکوز مسائل کے خورد بینی اور تجزیاتی مطالعہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ تیسرا گروہ ایسے سماجیات دانوں کا ہوتا ہے جو کسی سماج کی مختلف قوتوں اور طریق کے باہمی ربط اور اثرات کے مطالعہ کو اپنی تحقیقات کا مقصد قرار دیتے ہیں۔ یہ مختلف نقاط نظر انگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی، امریکہ غرض کہ ہر اس ملک میں نظر آتے ہیں جہاں سماجیات کو ترقی کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ ہندوستان میں بھی سماجیات کے مطالعہ اور تحقیق کے یہی مختلف رخ قرار دے جائیں لیکن ساٹھ سے کم کے مختصر عرصہ میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ اعلیٰ پائے کے اتنے سماجیات داں پیدا ہوسکیں جو اس ملک کے وسیع مسائل اور تمدنی پیچیدگیوں کا اطمینان بخش تجزیہ کرسکیں، لیکن اس کے باوجود گذشتہ تیس برسوں میں جو تحقیقاتی کام ہورے ہیں وہ انتہائی اہم اور نتیجہ خیز ہیں۔

دشواری یہ ہے کہ سماجیات ایک ایسا علم ہے جس کے تصورات کا تعلق سماجی حقیقتوں سے ہوتا ہے اور سماجی حقیقتیں ہر جگہ مختلف ہوتی ہیں۔ ہر جگہ کے حالات وہاں کا ماحول اور انسانی تعلقات ایسی کیفیت پیدا کرتے ہیں جو بالکلیہ اس شکل میں دوسری جگہ نہیں پائے جاتے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی خاص خطے یا علاقے کے نظریات یا نتائج کو اسی شکل میں دوسرے علاقہ کے سماج پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ دو مختلف سماجوں کے سیاسی اشکال میں مشابہت دریافت کرنا آسان ہے، مذہبی برتاؤ میں مماثلت تلاش کرنا ممکن ہے لیکن مجموعی سماجی برتاؤ میں اس قسم کی جامع مماثلت بہت مشکل ہے اس لیے جو بھی سماجیاتی تصورات دوسرے سماجوں میں اختراع کیے گئے ہیں یا دریافت ہوئے ہیں ان کا ہوبہو اطلاق  ہندوستانی سماج پر کرنا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ درآمد کردہ یہ تصورات مقامی سماجی زندگی کی صحیح توضیح کرنے سے قاصر ہوں گے۔ دراصل یہی مسئلہ سماجیات کا سب سے پیچیدہ مسئلہ ہے۔ سب سے بڑی دشواری ہندوستانی سماجیات دانوں کو یہی درپیش ہے کہ ہمارے پاس اپنے تحقیق کردہ تصورات موجود نہیں ہیں اور مستعار تصورات کو مقامی مسائل کی توضیح و تشریح کے لیے اگر استعمال کیا جائے تو ان کا تعلق اپنے مقامی حالات سے اتنا صحیح نہیں ہوتا۔ گویا ہندوستانی سماج کے تعلق سے سماجیات نقطہ نظر کے سہارے نئے تصورات کی دریافت ضروری ہے تاکہ ہندوستانی تمدنی پس منظرمیں سماجی حقائق کی بہتر اور صحیح ترجمانی کی جاسکے، لیکن یہ کام اتنا صبر آزما اور کٹھن ہے کہ ابھی تک اکثر سماجیات داں مغربی تصورات ہی کو معمولی رد و بدل کے ساتھ استعمال کرنے پر مجبور ہیں، لیکن ہماری سماجی تحقیقات اس وقت تک بلند اور معیاری نہیں ہوسکتیں جب تک کہ ہم اپنے تمدنی پس منظر کی روشنی میں سماجی برتاؤ کے اصول اور نظریات دریافت نہ کریں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں پروفیسر لوئی دیومان اور پروفیسر ڈی ایف پوکک نے ہندوستان میں سماجیات کی ترقی کے  لیے سب سے پہلی شرط یہ رکھی کہ قدیم ہندیات کے ماخوذات سے استفادہ کیا جائے کیونکہ ان کی رائے میں ہندوستان کے مختلف سماج اور تمدن مخصوص اداروں، رسوم و رواج اور سماجی برتاؤ کے مظہر رہے ہیں جن کے مطالعہ سے سماجی برتاؤ کی نئی نئی اشکال دریافت ہوسکتی ہیں اور جب تک ہندوی تمدنی پس منظر سے خاطر خواہ واقفیت نہ ہو اس وقت تک سماجیاتی تحقیقات بامقصد خطوط پر آگے نہیں بڑھائی جاسکتی۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ میں مشہور سماجیات دانوں مثلاً سوروکن، پارسنس اور مرٹن نے سماجی مطالعہ کے اہم پہلوؤں کو واضح کیا۔ سوروکن نے سماجی تمدنی عمل کے مرکزی خیال کو اہمیت دی۔ پارسنس نے سماجی عمل کا نظریہ پیش کیا جس کو مرٹن نے نئی جہتیں عطا کیں، لیکن ان تمام مفکرین کے نظریات مغربی ممالک کے سماج کی توضیح و تشریح کے لیے مفید ہونے کے باوجود، ہندوستانی سماج کی توضیح و تشریح کے لیے ناکافی ثابت ہوں گے۔ کیوں امریکہ کے برعکس ہندوستانی سماج کا ایک زائد رخ اس کا قدیم تمدنی اور روایاتی ڈھانچہ ہے۔ ہندوستانی سماجی برتاؤ کی جڑیں اس ڈھانچے اور ان روایات میں بہت گہری پیوست ہیں۔ اس لیے محض سماجی عمل اور ظاہری سماجی برتاؤ یا موجود اقدار کا مطالعہ ہندوستانی سماج کے تجزیہ کے لیے بہت سطحی اور ناکافی ہوگا۔ اس اعتبار سے ہندوستان میں سماجیات اور تمدنیات کو بالکلیہً ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ کہ سماجیات کی انفرادیت کو کسی دوسرے علم میں ضم کرنا مقصود نہیں ہے۔ سب سے بڑی دشواری اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستانی سماج کی روایاتی انفرادیت کے باوجود ہندوستانی سماجیات کو عالمی سماجیات سے علیحدہ نہیں رکھا جاسکتا۔ یہی  استدلال ڈاکٹر بیلی کا بھی رہا ہے۔ ڈاکٹر بیلی کا کہنا ہے کہ ہندوستانی سماجیات کو عالمی سماجیات ہی کا ایک حصہ رہنا چاہیے۔ البتہ ایسے مقامی تصورات کی دریافت سے اس کو بھی اعتراض نہیں ہے جو ہندوستانی سماجیاتی وحدت کی بہتر توضیح و تشریح کرسکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستانی سماج کی بہت سی خصوصیات مثلاً مذہبی اور تمدنی رواداری، ذات پات کا نظام، مشترک خاندان اور مکمل دیہی خودکار سماجی زندگی کی وحدتیں ایسی حقیقتیں ہیں جو بیسویں صدی میں ہندوستانی سماج اور تمدن کو انفرادیت عطا کرتی ہیں۔ ظاہرہے کہ جب ان سماجی حقیقتوں کا بغور مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے تو ایسی بے شمار باتیں دریافت ہوں گی جو دوسرے سماجی ماحول میں نہیں پائی جاتیں۔ لیکن اس قسم کی تمام تحقیقات اور تجزیے اس وقت تک علمی اہمیت کے حامل نہیں ہوسکتے۔ جب تک کہ اس ملک کے سماجیات داں تصور سازی کا فن نہ سیکھ لیں۔ مغربی اور ہندوستانی سماجیات دانوں میں بنیادی فرق یہی ہے۔ مغربی سماجیات داں بڑی آسانی کے ساتھ تصوراتی تشکیل کرسکتے ہیں— ہندوستانی سماجیات داں ان تصوراتی تشکیلوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن خود ابھی علمی ادراک ہی اس منزل پر نہیں پہنچے جہاں تصوراتی تشکیل ممکن ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سماجیات داں کو طریقہ ہائے تحقیق پر کامل عبور حاصل ہوجائے نیز وہ اپنے اس فن تحقیق سے استفادہ کی عملی صلاحیت بھی رکھتا ہو اور ساتھ ہی ساتھ اسے اپنے موضوع تحقیق کا صحیح ادراک ہوجائے تو اس کے بعد تصورات اور اصطلاحات کا وضع کرنا دشوار نہیں رہتا۔ ہندوستان میں سماجیات دانوں کو ابھی علمی اعتبار سے اتنی تربیت نہیں ملی ہے اور اتنا تجربہ نہیں ہوا ہے کہ وہ ہندوستانی سماج کے اصول اور تصورات وضع کرسکیں۔ دراصل اس نکتہ کا مقصد سماجیات دانوں پر کسی قسم کی حرف نمائی نہیں ہے لیکن یہ دراصل سماجیاتی تجزیہ کی ابتدائی منازل کا نتیجہ اور اس کا اعتراف ہے۔

یہ بات اوپر کہی جاچکی ہے کہ ہندوستان میں سماجیات کی ابتدا بہت دیرسے ہوئی جس کا ایک سبب تو یہ تھا خود انگلستان میںا س علم کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی گئی جتنی کہ دی جانی چاہیے تھی، اس لیے ہندوستان جو برطانوی سامراج کے زیراثر تھا وہاں بھی سماجیات کو ترقی کرنے کا موقع آزادی سے پہلے بہت کم رہا۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ برطانوی سامراج کی نوآبادیاتی پالیسی کی وجہ سے ہندوستانی مفکرین اور اساتذہ نیز عوام کو آزادانہ فکر اور علمی شعور کی وہ سہولتیں نہیں ملیں جو کسی علم کی ترویج اور ترقی کے لیے ضروری ہوتی ہیں، لیکن جیسے جیسے آزادی کی تحریک مضبوط ہوتی گئی سیاسی اور سماجی شعور بھی بیدار ہوتا گیا اور جب آزادی مل گئی تو اس کے بعد اس ملک کے سماجیات دانوں کو مسائل کا تجزیہ کرنے اور اس پر غور کرنے کے پورے مواقع ملے، چنانچہ فکر و نظر کے جو نئے طریق اختیار کیے گئے ان میں سے حسب ذیل پانچ کو خاص اہمیت حاصل رہی:

.1       ذات پات، آبادی، عقائد اور روایات کو سماجیاتی زاویہ نگاہ سے بحث و تحقیق کا موضوع بنایا گیا۔

.2       ہندوستان کے سماجی اداروں اور دیہی کمیونٹی کا سماجیاتی مطالعہ کیا جانے لگا۔

.3       دیہی سماج، رسوم و رواج اور اداروں کے تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ کی ابتدا ہوئی۔

.4       علاقائی معاشی مسائل نیز سماجی مسائل کا اعداد و شمار کی روشنی میں مطالعہ کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔

.5       سماجیات دانوں نے ہندوستانی تمدن کی ان روایات کے تجزیہ پر توجہ دی جو مغربی اور صنعتی سماج کے اثرات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

1947 تک سماجیات کا دائرہ بحث و تحقیق بہت محدود رہا۔ آزادی سے پہلے نہ تو شہری سماج کا بغور مطالعہ کیا گیا اور نہ ہی دیہی سماج کا۔ اسی طرح سماجی مسائل مثلاً جرائم کی چھان بین، اس کے اسباب کی تلاش اور اسی طرح سماج کے بے شمار امراض کی تحقیق و تفتیش پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، لیکن آزادی کے فوراً بعد جامعات اور تحقیقی اداروں میں سماجیات کو بڑی تیزی سے اس کا مقام ملنے لگا کیونکہ ہندوستانی مفکرین اور اساتذہ کو اس بات کا پوری طرح احساس ہوچکا تھا کہ سماجی تبدیلی یا سماجی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ان سماجی قوتوں اور طاقتوں کا مطالعہ  نہ کیا جائے جو سماجی حرکیات کے اہم عناصر ہوتے ہیں۔ جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ سماجی رجحانات میں کس قسم کے مثبت اور منفی طریق کار ہیں، نیز سماج میں وہ کون سی کمزوریاں ہیں جو مثبت تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں اس وقت تک سماجی تبدیلی یا بحیثیت مجموعی قومی معاشی ترقی کا کوئی منصوبہ نتیجہ خیز اور کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس احساس کے ساتھ ہی ہندوستان کی بے شمار جامعات میں سماجیات کے شعبے قائم ہونے لگے اور ملک کے مختلف حصوں میںا یسے تحقیقی ادارے قائم کیے گئے جو اس ملک کے پیچیدہ سماج کے بے شمار مسائل کا تحقیقی تجزیہ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے سماجیات دانوں نے حسب ذیل طریقے اختیار کیے:

.1       سماجی حالات کا تاریخی اور تقابلی مطالعہ۔

.2       فلسفیانہ اور سماجیاتی تجزیہ۔

.3       منطقی استدلال اور استنباط سے استفادہ۔

.4       سماجی ڈھانچہ اور سماجی ساخت کے عوامل اور ان کی کارکردگی کا جائزہ۔

.5       اعداد و شمار، مشاہدے اور حقیقی واقعات کے سروے سے سماجیاتی نتائج کا حصول۔

 

ماخذ: تاریخ اور سماجیات، مصنفہ: عائشہ بیگم،  دوسرا ایڈیشن: 2003، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...