10/7/24

اردو زبان و ادب ہندوستانی ثقافت کی آئینہ دار ہے : نجم بٹ

 ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


س:  زبانوں کی موت کی وجوہات کیا ہیں؟

ج:  بنی نوع انسان اپنی بات دوسروں تک صرف زبان کا سہارا لے کر ہی پہنچاسکتا ہے۔ اپنے خیالات، جذبات اور احساسات کو دوسروں تک پہنچانے یا پھر ان کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے، اسی لیے زبان کو انسانی خیالات و احساسات کا مجموعہ کہا گیا ہے۔ زبانیں کسی بھی فرد یا افراد کی وراثت نہیں ہوتی بلکہ زبان صرف بولنے والوں کی ہوتی ہے اس لیے اردو زبان کو زندہ رکھنے کے لیے ہم پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اِسے تقریری اور تحریری دونوں صورتوں میں لائیں تاکہ اردو ہمیشہ کے لیے زندہ رہے۔

س:  زبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے؟

ج:  زبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے کوئی ایک طریقۂ کار نہیں اختیار کیا جاسکتا۔ زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اس زبان کی رسائی محدود حلقے تک ہی نہ رہے بلکہ عام آدمی تک اس کی رسائی ہو۔ ورنہ اس زبان کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو ماضی میں کئی زبانوں کے ساتھ ہوا۔ ضروری ہے کہ کسی بھی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اسے روزگار کے ساتھ جوڑنا ازحد ضروری ہے۔ آج کے دور میں سب سے بڑا مسئلہ روزی روٹی کا ہے۔ اِسے روزگار کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ زبان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ہم آپس میں گفتگو کریں تو اردو زبان میں ہی کریں تاکہ ہماری اردو زبان زندہ رہے۔

س:  زبان کا تہذیب و ثقافت سے کیا رشتہ ہے؟

ج:  اردو زبان و ادب ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہے۔ ثقافت کے لغوی معنی: تہذیب، کسی قوم یا انسانی گروہ کی تہذیب کے اعلیٰ مظاہر جو اس کے مذہب، علم و ادب، نظام اخلاق اور فنون میں نظر آتے ہیں۔ اردو ادب میں ثقافت کا لفظ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں یہ لفظ عربی سے اردو میں منتقل ہوا۔ ثقافت ایک معاشرتی ورثہ ہے۔ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ یہ ہماری تہذیب بھی ہے۔ اردو زبان ہماری تہذیب اور ثقافت کی ضامن ہے۔

اردو ہندوستان کی دلکش اور گنگا، جمنی تہذیب کی علامت ہے۔ اردو زبان کا تہذیب اور ثقافت سے گہرا رشتہ ہے اور یہ زبان ہماری تہذیب کی عکاسی کرتی ہے۔ ہر زبان کے پس پشت ایک کلچر ہوتا ہے جس کی وراثت صدیوں پر مشتمل ہوتی  ہے۔ ہمارے شعرا و ادبا حضرات نے اپنی شاعری اور نثر دونوں میں اپنے کلچر کو پیش کیا ہے۔ نظیر، غالب، چکبست، آزاد، قلی قطب شاہ، منشی پریم چند  اس کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔

س:  کیا زبانوں کی موت سے انسانی وراثت کے تحفظ کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے؟

ج:  زبان سے تہذیب و ثقافت کی نشو ونما اور تشکیل ہوتی ہے۔ دراصل زبان اور تہذیب آپس میں لازم و ملزوم ہیں یہ آپس میں اس طرح جڑی ہوئی ہیں جس طرح روح اور جسم ہیں۔ کوئی بھی زبان ہو، اس کی اپنی ایک تہذیبی شناخت یا پہچان ہوتی ہے، اب رہی بات اردو کی، اس کا تو نام آتے ہی اس کی نفاست، نزاکت، لطافت، شائستگی، جاذبیت اور چاشنی وغیرہ دل و دماغ پر نقش ہوجاتی ہے۔ کسی بھی قوم یا انسانی گروہ کی پہچان صرف اس کی زبان سے ہوتی ہے، چونکہ اس کی زبان میں ہی تقریری یا تحریری شکل میں اس قوم یا انسانی گروہ کی وراثت موجود ہوتی ہے۔ اس صورت میں اگر اس کی زبان کی موت ہوجائے تو اس کی وراثت کی موت ہوجائے گی، اگر ہم انسانی وراثت کا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے زبان کا تحفظ کرنا ہوگا۔

س:  کیا کسی زبان میں خواندگی، سائنسی، سماجی مواد کی کمی سے اس زبان پر منفی اثرات پڑتے ہیں؟

ج:  ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ اکیسویں صدی نے پوری دنیا کو بہت تیزی سے بدل ڈالا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جس میں مثبت یا منفی انقلاب برپا نہ ہوا ہو۔ آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی ہی ترقی کی ضامن ہے۔ بلاشبہ، سماج مختلف علوم و فنون اور زبانوں کا آئینہ دار ہوتا ہے، کسی بھی زبان میں خواندگی، سائنسی، سماجی مواد کی کمی سے اس زبان پر کسی نہ کسی طرح منفی اثرات پڑتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات ہوں یا ماہرِ تعلیم، اس بات پر متفق ہیں کہ دوسری زبانوں کے مقابلے میں بچہ اپنی مادری زبان میں پڑھائے جانے والے سبق کو آسانی سے ذہن نشین کرسکتا ہے اور اس پر اسے قدرت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ سرسیّد نے بھی سائنسی علوم کو اپنی مادری زبان میں منتقل کرنے کی وکالت کی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نصاب میں جدید اور سائنسی علوم و فنون کو شامل کیا جائے۔

س:  موجودہ دور میں اردو زبان کو خطرہ کس طرح لاحق ہے؟

ج:  اردو پڑھنے والوں کی تعداد روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔ عام آدمی بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخلہ دلوارہا ہے لیکن وہاں پر اردو اساتذہ کا کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا اور دوسری بات یہ کہ گورنمنٹ اسکولوں میں بھی اردو اساتذہ کی کمی ہے، جس کی وجہ سے اردو پڑھنے والے کم ہوتے جارہے ہیں، اس طرح سے اردو کا حلقہ محدود ہوتا چلا جارہا ہے اور نئی پود اردو سے نابلد ہوتی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ میں دو باتوں کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات یہ کہ اردو زبان کو نئی ٹیکنالوجی اور روزگار سے جوڑنے کی ازحد ضرورت ہے اور دوسرے یہ کہ موجودہ دور میں اردو زبان خود اردو والوں کی بے توجہی کا شکار ہے۔

س:  اردو کا مستقبل کیا ہے؟

ج:   اردو گنگا، جمنی تہذیب کی ایک بہترین مثال ہے، یہ ہندوستان کی پیداوار ہے۔ جیسے جیسے اس زبان کا دامن وسیع ہوتا گیا، ویسے ویسے اس نے دوسرے ممالک میں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور آج دنیا کے بیشتر ممالک میں اردو بولنے، سننے، سمجھنے، پڑھنے اور لکھنے والے موجود ہیں گویا اردو ایک عالمگیر زبان بن چکی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے علاقوں سے اردو ختم ہورہی ہے۔ جموں و کشمیر جس کی سرکاری زبان 2019 تک اردو تھی، آج اس کی یہ حالت ہے کہ یہاں کے بیشتر کالجوں سے اردو کو ختم کردیا گیا ہے۔ اس یونین ٹریٹری میں 139 سرکاری کالج ہیں لیکن چند کالجوں میں ہی اردو مضمون کو باقی رکھا اور بیشتر کالجوں سے اردو کو ختم کردیا۔

س:  کیا اردو کی تنظیمیں، زبان سے زیادہ ادب پر توجہ دے رہی ہیں اور زبان سے متعلق کتابوں کی اشاعت تقریباً رک سی گئی ہے؟

ج:  اس سوال کے اندر ہی اس کا جواب چھپا ہوا ہے۔ اگر اردو کی تنظیموں اور اداروں کی بات کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زبان سے زیادہ توجہ ادب پر دی جارہی ہے۔ مشاعروں، سمیناروں، کانفرنسوں وغیرہ کے اہتمام میں ادارے اور تنظیمیں سرگرم رہتی ہیں۔ اس کے برعکس زبان سے متعلق کتابوں کی اشاعت میں کچھ کمی سی آرہی ہے جب کہ ادب کے ساتھ زبان پر بھی توجہ کی از حد ضرورت ہے۔ اس مادی دور میں لوگ اجتماعی مفاد کے بجائے ذاتی فائدہ ڈھونڈتے ہیں جو اردو زبان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

س:  زبان کی سطح پر جو بگاڑ پیداہورہا ہے اس کو روکنے کے لیے کون سی ترکیبیں استعمال کی جاسکتی ہیں؟

ج:  زبان کی سطح پر بِلاشبہ بگاڑ پیدا ہوتا جارہا ہے اس بگاڑ کو روکنے کے لیے کئی ترکیبیں عمل میں لائی جاسکتی ہیں۔ زبانیں صرف بولنے والوں کی ہوتی ہیں۔ فراٹے سے انگریزی بولنے والوں کو آج ذہین سمجھا جارہا ہے، حالانکہ ذہانت کو ناپنے کا آلہ انگریزی بولنا ہرگز نہیں۔ کسی بھی زبان میں گفتگو کرکے آپ ذہانت کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ ہمارے اردو کے شعرا و ادبا کیا کسی سے کم ہیں۔ میر، غالب، ولی، قلی قطب شاہ، اقبال، حسرت، حالی، پریم چند وغیرہ کا کوئی ثانی نہیں۔ ابتدائی درجے سے لے کر اعلیٰ سطح تک اردو میں معیاری کتابیں (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) تیار کرکے انہیں نصاب میں شامل کرائے جانے سے زبان کی سطح پر پیدا ہونے والے بگاڑ کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے رسم الخط کا خاص خیال رکھنا ہم سب کی ذمے داری ہے، اردو الفاظ یا اشعار کو اپنے ہی رسم الخط میں لکھا جائے۔ تیسرے یہ کہ اردو کتابوں کو خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ چوتھے یہ کہ ہم اردو کا اخبار خرید کر پڑھیں۔ ان چند باتوں پر عمل کرنے سے کسی حد تک اس بگاڑ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

س:  کیا کلاسیکیت، جدیدیت وغیرہ پر گفتگو سے زبان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے؟

ج:  کسی نہ کسی حد تک اردو میں کلاسیکیت اور جدیدیت پر گفتگو سے اردو زبان و ادب کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ زبان کو زندہ رکھنے میں کلاسیکیت بھی معاونِ ثابت ہوسکتی ہے۔

س:  آپ کے علاقے میں کتنے اردو میڈیم اسکول ہیں اور ان میں اساتذہ کی کتنی تعداد ہے؟

ج:  ہمارے علاقے میں اردو میڈیم کا کوئی بھی اسکول نہیں ہے۔ گورنمنٹ اسکولوں میں اردو کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے جب کہ پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد بھی کافی ہے۔ لیکن یہ سبھی انگریزی میڈیم کے اسکول ہیں بہرحال ان پرائیویٹ اسکولوں میں اردو ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔

س:  آپ کے علاقے میں کتنی لائبریریاں ہیں اور وہاں کون سے اخبارات اور رسائل آتے ہیں؟

ج:  ہمارے علاقے میں ایک ڈسٹرکٹ لائبریری ہے جس میں پرانی کتابوں کا ذخیرہ دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ میں بھی ایک بڑی لائبریری ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں پرانی اور نئی کتابیں ہیں۔ اس لائبریری میں اردو کی کتابوں کی تعداد دو ہزار چھ ہے۔ میں نے خود 2018 میں اردو کی کتابوں کی فہرست تیار کی تھی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج سرنکوٹ، گورنمنٹ ڈگری کالج مینڈھر اور مقدس ڈگری کالج مینڈھر میں بھی ان کالجوں کی اپنی لائبریریاں ہیں جن میں اردو کتابوں کی تعداد کافی ہے۔ اردو کے اخبارات میں اڑان، کشمیر عظمیٰ، لازوال، تسکین اور ہندسماچار یہاں متواتر آتے ہیں۔ رسائل میں ماہنامہ اردو دنیا، تہذیب الاخلاق اور آج کل یہاں ہر مہینے آتے ہیں۔

س:  آپ کے علاقے میں کتنی اردو تنظیمیں، ادارے اور انجمنیں ہیں اور وہ کس نہج پر اردو کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں؟

ج:  ہمارے علاقے میں ’تحریک بقائے اردو‘ کے نام سے ایک فعال تنظیم ہے جو اردو زبان و ادب کے لیے تن من سے خدمت کررہی ہے۔ اس کے علاوہ ’انجمن کاروانِ ادب‘ کے نام سے ایک انجمن بھی ہے جو مشاعرہ وغیرہ کراتی ہے۔

س:  آپ مقامی سطح پر اردو کے فروغ کے لیے کیا کوشش کررہے ہیں؟

ج:  کافی عرصہ سے میرا تعلق درس و تدریس سے ہے۔ آج کل میں گورنمنٹ شری پرتاپ کالج (کلسٹر یونیورسٹی) سرینگر میں اردو پڑھا رہا ہوں۔ میں نے جموں و کشمیر اور لداخ کے سولہ کالجوں (چار یونیورسٹیوں) میں اردو معلم کی حیثیت سے درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ہزاروں کی تعداد میں میرے شاگرد ہیں، ان میں سے بہت سارے اسکول ٹیچر اور لیکچرر تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے اور کچھ ریاستی سطح کا اعلیٰ مسابقاتی امتحان ’جموں و کشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروس‘ پاس کرکے اچھے عہدوں پر فائز ہیں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ میں نے حال ہی میں اپنے کالج میں ایک مشاعرہ کرایا جو کالج کا پہلا مشاعرہ تھا چونکہ یہ سائنس کالج ہے یہاں مشاعرہ کرانے کا کوئی جواز نہیں تھا لیکن نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت پہلی بار اس کالج میں سائنس والے طلبا و طالبات کو گریجویشن کی سطح پر کم از کم ایک میقات میں اردو پڑھنا ضروری قرار دیا گیا، اس لیے یہاں اردو پڑھانے کا پہلی بار اہتمام کیا گیا۔ اس قسم کے مشاعرے کرانے  کا میں مصمم ارادہ رکھتا ہوں جو اردو کے فروغ میں کارگر ثابت ہوں گے۔

س:  آپ کے ذہن میں فروغِ اردو کے لیے کیا تجاویز اور مشورے ہیں؟

ج:  آج کے دور میں سب سے بڑا مسئلہ روزی روٹی کا ہے اس مسئلے کو ہم کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ میرے ذہن میں اردو کے فروغ کے لیے چند تجاویز اور مشورے ہیں: (1) اردو کو روزگار کے ساتھ جوڑا جائے (2) دوسرے علوم کی کتابوں کے اردو میں تراجم کیے جائیں (3) یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ اردو کا شعبہ قائم کریں (4) اردو دان طبقے کو اردو کے تئیں ہمیشہ متحرک رہنا چاہیے۔

س:  اردو رسم الخط کی بقا کے لیے کیا کوششیں کی جاسکتی ہیں؟

ج:  رسم الخط اور زبان کا آپس میں ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ رسم الخط کو کسی بھی زبان کی روح کہا جاتا ہے۔ لہٰذا رسم الخط کو بچانا زباں کو بچانا ہے۔ اردو رسم الخط کی بقا کے لیے ہم اردو دان طبقے پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہم اپنے ہی رسم الخط کا استعمال کریں، اپنے بچوں اور احباب کو اس رسم الخط پر عمل کرنے کی تلقین کریں۔

س:  دوسری علاقائی زبانوں میں اردو کے فروغ کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟

ج:  ہمارے ملک کے ہر صوبے یا علاقے کی اپنی اپنی زبان ہے جو اس علاقے کی پہچان ہوتی ہے۔ مثلاً مہاراشٹر میں مراٹھی، گجرات میں گجراتی، پنجاب میں پنجابی، لداخ میں لداخی، کشمیر میں کشمیری، جموں میں ڈوگری، پہاڑی، گوجری وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اگر یہ دیکھا جائے کہ یہاں رابطے کی کون سی زبان ہوسکتی ہے تو بِلا جھجک ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ یہاں رابطے کی زبان ہندی یا پھر اردو ہی ہے جن کے ذریعے ہم ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں یا ایک دوسرے کی بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ لہٰذا اردو دان طبقے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اردو کو مشاعروں، ڈراموں، گیتوں، اخباروں وغیرہ کے ذریعے دوسرے علاقوں تک پہنچائے تاکہ ان علاقوں اور ان کی علاقائی زبانوں تک اردو کی رسائی ہو جو اردو کے فروغ کی ضامن بنے۔

س:  کیا آپ کے اہلِ خانہ اردو زبان لکھنا، پڑھنا اور بولنا جانتے ہیں؟

ج:  جی ہاں! میری والدہ اردو بول لیتی ہیں اور ان کے علاوہ میرے سبھی اہلِ خانہ اردو بولنے کے ساتھ ساتھ اردو لکھتے اور پڑھتے بھی ہیں۔

س:  آپ کے بعد کیا آپ کے گھر میں اردو زندہ رہے گی؟

ج:  جی ہاں! میرے بعد میرے اہلِ خانہ اردو کو زندہ رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔

س:  غیر اردو حلقے میں فروغِ اردو کے لیے کیا حکمتِ عملی اختیار کی جانی چاہیے؟

ج:  میں یہاں صرف ایک بات کی طرف آپ کی توجہ مرکوز کرانا چاہوں گا وہ یہ کہ ہر کس و ناکس شعر و شاعری سننا پسند کرتا ہے۔ شاعری سننے سے ہمارے کان حظ محسوس کرتے ہیں۔ میں لڑکپن سے ہی شاعری کا دلدادہ رہا ہوں اس لیے مجھے شاعری سننا اور سنانا بے حد پسند ہے۔ میرے شاگرد ہمیشہ مجھے اشعار سنانے کی ضِد کرتے ہیں اور میں ان کی یہ ضد پوری کرتا ہوں۔ یہ حکمتِ عملی بھی اردو کے فروغ میں ایک اہم کردار نبھاتی ہے۔

س:  آپ کے علاقے میں کتنے کالجز اور یونیورسٹیز ہیں جن میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے اور وہاں اردو پڑھنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟

ج:  ہمارے ضلعے میں تین گورنمنٹ کالج اور دو پرائیویٹ کالج ہیں (ایک ڈگری کالج اور ایک بی ایڈ کالج) ان سبھی کالجوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے یہاں اردو پڑھنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے چونکہ یہ اردو کی بیلٹ ہے۔ اب رہی بات یونیورسٹیز کی، جموں و کشمیر میں کل گیارہ یونیورسٹیز ہیں، ان میں دو سینٹرل یونیورسٹیز اور نو اسٹیٹ یونیورسٹیز ہیں۔ گیارہ میں سے چھ یونیورسٹیز میں اردو کے شعبے قائم کیے گئے ہیں اور ان میں اردو پڑھائی جاتی ہے اور یہاں اردو پڑھنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔

س:  ملکی سطح پر غیر سرکاری تنظیموں سے اردو کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کس طرح سے مدد لی جاسکتی ہے؟

ج:  ملکی سطح پر غیر سرکاری تنظیموں سے رابطہ کرکے انہیں اردو کے شیریں پن اور مٹھاس کا احساس دلانا ہے جب ان تنظیموں کو اس چیز کا احساس ہوجائے گا تب وہ خود اس کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں ہر جائز مدد کرنے کو ترجیح دیں گی۔

 

Dr. Najam Bhat 

Bafliaz Tehsil Surankote

District POONCH (J&K)

Cell.: 9419171639/ 7006374257

drnajambhat@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...