12/7/24

ماہر دکنیات: پروفیسر محمد علی اثر، مضمون نگار: نظیر احمد گنائی

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


پروفیسر محمد علی اثر کا شمار اردو ادب کے مشہور و معروف ماہرینِ دکنیات میں ہوتا ہے۔ وہ دکنی ادب کے سرکردہ محقق او رنقاد تسلیم کیے جاتے ہیں، وہ بیک وقت محقق، نقاد، ادیب، شاعر، استاد، مقرراور درج اول کے مخطوطہ شناس اور ماہر دکنیات ہیں۔ انھوں نے چار دہائیوں سے زیادہ دکنیات میں تحقیق و تنقید، تدوین متن اور دکنی ادب کی تفہیم و تقدیم میں اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دیے ہیں۔                

نام محمد علی اور تخلص اثر 22دسمبر 1949 میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حکیم شیخ محبوب تھا، محمدعلی اثر  نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد کی قدیم درس گاہوں مدرسہ تحتانیہ شاہ گنج، مدرسہ وسطانیہ و فوقانیہ اُردو شریف میں حاصل کی۔پھر انھوں نے دسویں جماعت کا امتحان اُردو شریف ہائی اسکول سے 1965 میں دوسری پوزیشن حاصل کرکے پاس کیا۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے انوارالعلوم کالج کا رُخ کیا اسی کالج سے گیارویں جماعت سے لے کر بی۔ اے کی ڈگری 1971میں حاصل کی۔ اس کے بعد عثمانیہ یونی ورسٹی کے آرٹس کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1974 میں ایم اے اردو میں نہ صرف کالج سے بلکہ پوری یونی ورسٹی سے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ ان کے تحقیقی مقالے ’غواصی شخصیت اور فن‘ شائع ہونے کے بعد انھیں براہِ راست جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اُردو میں پی ایچ۔ ڈی کے لیے داخلہ مل گیا۔ انھوں نے پروفیسر غلام عمر خاں کی زیر نگرانی ’دکنی غزل کی نشوونما‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کرجامعہ عثمانیہ سے ہی پی ایچ  ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1975میں ان کا عارضی تقرر جامعہ عثمانیہ میں ہوا۔ 1982میں مستقل لکچر بنائے گئے، 1987 میں ریڈر پھر 1998 میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 30 سالوں سے زیادہ عرصے تک وہ جامعہ عثمانیہ میں طالب علموں کو پڑھاتے رہے۔دسمبر 2009 میں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔

دکنی ادب کے شہ پاروں کی تحقیق، تدوین اور تنقید سے محمد علی اثر کا گہرا شغف اور والہانہ لگاؤ تھا۔ نامور ماہر دکنیات کے طور پر وہ اتنے معتبر و مستند ہیں کہ دنیائے اردو ادب میں جتنے بھی اسکالر ز دکنی ادب پر کام کر رہے ہیںوہ ان کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہیں۔دکنی ادب کی نثر عام قاری کے لیے دقیق معلوم ہوتی ہے۔ لیکن پروفیسر محمدعلی اثر کا انداز نگارش و طرز ترسیل اتنامانپا ہواہے کہ مشکل سے مشکل بات بھی کس طرح قارئین کے ذہن تک آسانی سے پہنچاتے ہیں۔یہ ان کی باریک بینی ہے کہ وہ اردو دان طبقے کے لیے مشکل کو آسان بنا کر عام فہم زبان میں پیش کرتے ہیں۔ اب تک ان کی تصانیف وتالیفات اور شعری مجموعے جو منظرِ عام پر آ چکے ہیں، ان کی تعداد پچاس سے زائد ہے، تحقیق و تدوین سے متعلق پروفیسرمحمد علی اثر کی کتابیں ہندوستان کی مختلف جامعات کے نصاب میں شامل کی گئی ہیں۔ ان کی مشہور تصانیف و تالیفات کی فہرست یوں ہے:

غواصی شخصیت اور فن  (تحقیق) 1977،مقالات (شعری مجموعہ)1980، شمع جلتی رہی  (رپورتاژ) 1980، دبستان گولکنڈہ ادب اور کلچر (مرتب) 1980، دکنی اور دکنیات (وضاحتی کتابیات ) 1982،دکنی غزل کی نشوونما 1986، دکن کی تین مثنویاں1987،دکنی شاعری تحقیق و تنقید (مضامین) 1988، کلیات ایمان  (تحقیق و تدوین) 1988، دکنی غزلوں کا انتخاب 1991، حرف نم دیدہ  (شاعری) 1992،تحقیقی نقوش1993، نوادرات تحقیق  (تحقیق و تنقید)1996،ڈاکٹر محی الدین قادری زور خصوصی مطالعہ 1999، مقالات اثر 2000،مثنوی اشتیاق نامہ (تدوین)2000، دیوان عبداللہ قطب شاہ 2000، نعت رسول ؐخدا  (نعتیہ شاعری) 2000،  انوار خط ِ روشن (نعتیہ شاعری)2003، نگارشات اثر (تبصرے و مقدمے) 2004، تحقیقات اثر  (تحقیق) 2005،خرابے میں روشنی (شاعری)2006، لفظوں کی مہک  (مرتب) 2007،اللہ ٗ  جل جلالہٗ  (مجموعہ حمد نعت)  2007، تحقیقات وتاثرات  (تحقیق و تنقید)2008،غواصی کا نایاب کلام (تدوین) 2009، مثنوی پند دل بند (تحقیق و تدوین) 2009،مثنوی نجات نامہ  2009، انکشافات (تحقیق و تنقید اور تدوین) 2009،رنگ،خوشبو، روشنی (مرتب)  2010، قدیم اردو غزل (تنقید و انتخاب)2001،انتخاب داؤداورنگ آبادی 2012، بصارت سے بصیرت تک  (تحقیقی و تنقیدی مقالات) 2012، دکنی ادب کی تحقیق 2012 مکاتیب مشاہیر 2013، انبساط ِفکر2014اشراق ادبیات دکن  2015، قطب شاہی دور میں اردو غزل 2015،روشن فلک  2015وغیرہ

محمد علی اثر نے جب لکھنا شروع کیا توان کی غزلیں اور مضامین 1975 سے باضابطہ طور پر ہندو پاک کے معروف رسائل و جرائد میں شائع ہونے لگے۔پھر ان کے قلم میں ایسی روانی آئی کہ انھوں نے اردو ادب کے لیے بڑا سرمایہ تیار کیا،کئی درجن کتابیں، مخطوطے اور اپنی شاعری کے کئی مجموعے منظر عام پر لائے۔انھوں نے حمد اورنعتیہ کلام بھی لکھا اور اپنی غزلوں میں حسن و عشق کے تذکرے بھی کیے۔ 

پروفیسر محمد علی اثر نے 1982 میں نظامس اُردو ٹرسٹ اور ادارہ ادبیات اردو کی چھٹی جلد مرتب کی۔اس کے بعد تذکرۂ مخطوطات کی پہلی، دوسری اور تیسری جلد پر ترمیم واضافے بھی کیے۔ 2007 میں نصیر الدین ہاشمی کی مرتب کتاب ’ کتب خانہ سالار جنگ کے اردو مخطوطات ‘ (جلد اول ) کو نظر ثانی اور ترمیم کے ساتھ مرتب کیا۔ پرفیسر محمد علی اثر صاحب کو جن اداروں،تنظیموںاور اکادمیوں نے ان کی تصنیفات وتالیفات اور کارناموں کو انعامات و اکرامات سے نوازا وہ یوں ہیں:  اترپردیش اردو اکادمی، بہاراردو اکادمی، مغربی بنگال اردو اکادمی، راجستھان اردو اکادمی، آندھراپردیش اردو اکادمی وغیرہ۔ مجموعی ادبی خدمات پر آل انڈیا میراکیڈیمی نے 1993، میں ’میرایورڈ‘ سے نوازا اور آندھراپردیش اردو اکیڈیمی نے ڈاکٹر زور ایوارڈ برائے تحقیق ’کارنامہ حیات ایوارڈ‘ 2004 میں سرفراز کیا۔

اپنے فن، ادبی سفر اور کارناموں کے تعلق سے پروفیسر محمد علی اثر اپنی تصنیف ’ بصارت سے بصیرت تک‘ میں لکھتے ہیں کہ :

’’رب ِ کریم کے فضل و عطا اور حبیب کبریا ؐکے صدقے میں اپنے چار دہوں پر مشتمل ادبی سفر کے دوران، صرف تحقیق و تدقیق اور تدوین و ترتیب سے ہی سروکار نہیں رکھا بلکہ شعرو سخن کی مختلف اصناف، حمد و مناجات، نعت و منقبت، غزل، نظم، رباعی، قطعہ، نثری نظم، ثلاثی، ماہیا، ہائیکو وغیرہ پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ نیز مخطوطات اورمطبوعات کی توضیحی فہرستیں مرتب کی ہیں۔ بعض فہرستوں اور کتابوں پر نظر ثانی اور ترمیم و اضافے بھی کیے ہیں۔ اس طرح اب تک خاکسار کی پچپن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میں میری شخصیت اور فن پر لکھی جانے والی کتابیں شامل نہیں۔‘‘ 

(بصارت سے بصیرت تک، تحقیقی و تنقیدی مقالات، پروفیسر محمد علی اثر، فروری 2012، دہلی، ص7)

پروفیسر محمد علی پر جو کتابیں لکھی گئیں یا مرتب کی گئیں ان میں سے چند کا تذکرہ یہاں ضروری ہے جیسے :   ’ محمد علی اثر:ایک مطالعہ‘ ڈاکٹرمحمد عطا ء اللہ خاں، ’محمد علی اثر: شخص شاعر اور محقق‘ ڈاکٹر عتیق اقبال، ’محمد علی اثر کی حمدیہ و نعتیہ شاعری ‘ ڈاکٹرراحت سلطانہ، ’صاحب فکر و نظر محمد علی اثر ‘ ڈاکٹر امۃ الرحیم وغیرہ،اس کے علاوہ ان پر مختلف رسائل کے خصوصی گوشے شائع ہوئے۔ جن میںماہنامہ شاعر، ماہنامہ رنگ و بو، سہ ماہی ادبی محاذ، سہ ماہی شمس و قمر، ماہنامہ لفظ لفظ وغیرہ۔جامعاتی سطح پر محمد علی اثر کی ادبی خدمات اور ان کے کارناموں پر اسکالروں نے ڈگریاں حاصل کیں،اس ضمن میں ان پر کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے جیسے:  بہار یونی ورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ ’ محمد علی اثر کی ادبی خدمات‘ از سید بشارت علی، حیدرآباد یونی ورسٹی سے ایم فل کا مقالہ ’ محمد علی اثر... شخصیت شاعر‘ از شفیق سلطانہ، عثمانیہ یونی ورسٹی سے پی ایچ  ڈی کا مقالہ محمد علی اثر کے فن پر حمیرہ فاطمہ نے تحریر کیا۔ مرہٹواڑہ یونیورسٹی سے پی ایچ  ڈی کامقالہ’محمد علی اثر...حیات اورادبی خدمات‘ از ارفاق فاطمہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

پروفیسر محمد علی اثر نے اردو ادب کی متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ چاہے شعری ہو یا نثر ی لیکن ان کا اصل میدان تحقیق و تنقید رہا ہے۔تحقیق میں بے شمار چیزیں دلائل کے ساتھ انھوں نے پیش کی ہیں۔ تنقید میں انھوں نے بیباکی سے کام لیا ہے اور فن پاروں پر تنقیدی آرا پیش کی ہیں اور مصنف کی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے خامیوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ دکن کے مشہور و معروف شاعر محمد قلی قطب شاہ کی شاعرانہ عظمت، کمالات، مشاہدات اورفنی تجربات پر  محمد علی اثر نے کئی مضامین لکھے ہیں۔ان پر اپنی تنقیدی آرا بھی پیش کی ہیں اپنے ایک مضمون بعنوان’ محمد قلی کی شاعری‘  میں لکھتے ہیں :

’’ دکنی ادب کے بعض نقادوں نے محمد قلی کی شاعری کو الہامی قرار دیا ہے۔ لیکن محمد قلی کے ہاں نہ تو مضامین غیب سے آتے ہیں اور نہ ہی اس نے عرش سے ادھر کی باتیں کی ہیں وہ تو اسی عالم رنگ و بو کا ایک مغنی ہے۔  اس نے اپنے مشاہدات اور محسوسات کو سادگی اور حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہی اس کی شاعری کی اہم خصوصیت ہے۔ ‘‘  

(دکنی شاعری، تحقیق و تنقید، محمد علی اثر ،جنوری 1988، چھتہ بازار حیدر آباد، ص72)

دکنی شاعری کاوسیع مطالعہ کرتے ہوئے محمد علی اثر نے غواصی کے کلام پر اپنی ناقدانہ رائے پیش کی ہے مضمون ’ مثنوی سیف الملوک وبدیع الجمال اور اس کا مصنف‘ میں یوں رقم طراز ہیں :

’’ غواصی کی دیگر مثنویوں کی طرح ’سیف الملوک وبدیع الجمال‘ بھی فارسی تصنیف سے اخذ و ترجمے کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس مثنوی کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ شاعر نے اصل قصے کامن وعن ترجمہ نہیں کیا بلکہ صرف قصے کا ڈھانچہ مستعار لیا ہے۔ جزئیات و واقعات کی پیشکشی میں نہ صرف ترمیم و اضافے اور تغیر و تصرف سے کام لیا ہے بلکہ قصے کی دلچسپی، دلکشی اور اس کے آب و رنگ میں اضافہ کرنے کے لیے جگہ جگہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بڑی آزادی کے ساتھ بروئے کار لایا ہے اور اس قصے کو بڑی حد تک طبع زاد اور اُپچی بنادیا ہے۔ ‘‘  

( بصارت سے بصیرت تک، تحقیقی و تنقیدی مقالات، پروفیسر محمد علی اثر، فروری 2012، دہلی، ص79)

پروفیسر محمد علی اثر  نے نہ صرف دکن کے قلم کاروں کا مطالعہ کیا ہے بلکہ شمالی ہند کے ادیبوں پر بھی قلم اٹھایا ہے اور بہترین تحقیقی و تنقیدی مضامین قلم بند کیے ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے مضمون بعنوان ’نظیر اکبر آبادی کے واقعات حیات ‘ میں اثر صاحب لکھتے ہیں:

’’غزل اور مثنوی جیسی مروّجہ اصناف سخن سے ہٹ کر نظیر نے نظم کی مختلف ہیئتوں کو اپنے شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔ انھوں نے اردو نظم کو ایک ایسے دور میں ذریعۂ اظہار بنایا جب کہ تمام اصناف سخن پر غزل کی حکمرانی تھی۔ حالی اور آزاد  سے بہت پہلے تن تنہا انھوں نے اردو نظم کی روایت کا آغاز کیا تھا۔ نظیر کے کلام میں زندگی کی رنگارنگی اور حرارتِ شاعری کے روپ میں سمائی ہوئی ملتی ہے۔اردو شاعری کی تاریخ میں نظیر اپنے وجود سے خود ایک دبستان اور ایک عہد تھے جو انھیں سے شروع ہوکر انھیں پر ختم ہوتا ہے۔‘‘ 

( بصارت سے بصیرت تک، تحقیقی و تنقیدی مقالات، پروفیسر محمد علی اثر، فروری 2012، دہلی، ص  360)

پروفیسر محمد علی اثر نے تحقیق و تنقید کے تقریباً ہر گوشے کو موضوع ِ بحث بنایا ہے۔ جہاں وہ کسی فن پارے کے ماخذ کو سامنے لاتے ہیںوہیں وہ کسی فن پارے کے اصل مصنف کی تلاش بھی کرتے ہیں۔ جہاں وہ کسی فن پارے پر تنقیدی رائے قائم کرتے ہیں وہیں وہ تنقید کے اصولوں اور تنقید کی شاخوں پر بھی بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تقاریظ اور تذکروں میں تنقید کے ابتدائی نقوش جو ملتے ہیں اس حوالے سے انھوں نے اپنا تحقیقی نقطۂ نظر بھی پیش کیا ہے۔جیسا کہ’اُردو کی پہلی تقریظ اور اس کا خالق‘مضمون میں وہ اردو تنقید کی ابتدائی شکل اورتنقیص کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’اُردو میں نقد وتنقید کے ابتدائی نمونے تقاریظ، تذکروں اور مشاعروں میں ملتے ہیں۔ جہاں تک تقریظ کی روایت اور اس کے مفہوم کاتعلق ہے۔ ایسی عبارت یا مضمون کو تقریظ کہا جاتا ہے جس میں کسی مصنف یاتصنیف کے زیادہ سے زیادہ محاسن اور خوبیوں کو اُبھارا جائے۔ اس کے برعکس اگر کسی فن پارے کے صرف معائب اور نقائص پر روشنی ڈالی گئی ہو اور اس کے محاسن اور خوبیوں کو نظر انداز کیا گیا ہو تو اُسے تنقیص کہیں گے۔ ‘‘ 

(بصارت سے بصیرت تک، تحقیقی و تنقیدی مقالات، پروفیسر محمد علی اثر، فروری 2012، دہلی، ص  23)

پہلے پہل فارسی میں ہی اردو تصانیف یا شعری مجموعوں پر تقریظیں لکھی گئی ہیں۔ غالب نے ہی اس روایت کو بدل ڈالا، انھوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں تقاریظ لکھی ہیں۔ غالب کی زبانِ ندرت اور انداز بیان میں تقریظ کا لطف ہی کچھ اور ہے۔پروفیسر محمد علی اثر کا ماننا ہے کہ مرزا غالب کو تقریظ لکھنے کا انوکھا انداز آج بھی تسلیم اور اپنی مسلم اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ غالب وہ واحد ادیب ہیں جنھوں نے فارسی اور اردو میں بھی تقاریظ لکھے ہیں۔

پروفیسر محمد علی اثر کی فنکارانہ صلاحیتوں کو اردو اد ب کی کئی سرکردہ شخصیتوں نے سراہا ہے اور ان پر اظہار خیال بھی پیش کیا ہے۔ چونکہ مقالے کی تنگ دامنی کو دیکھ کر یہاں وہ سب آرا پیش نہیں کی جاسکتی ہیں۔

اردو کے نامور ادیب جمیل جالبی ان سے کافی متاثر ہوئے، وہ لکھتے ہیں :

’’ڈاکٹر محمد علی اثر کی تحقیق میں گہرائی بھی ہے اور تنقیدی شعور بھی اور ایک اچھے مصنف کی طرح اپنی تحقیق کو اچھے اسلوب میں پیش کرنے کا سلیقہ بھی۔‘‘  

(ڈاکٹر محمد علی اثر،مکاتیب مشاہیر2013، تاثرات ِ مشاہیر اردو)

آخر میں پروفیسر حشمت فاتحہ خوانی کے وہ الفاظ جو انھوں نے’دکنی ادب کا ناقابل تلافی نقصان‘ کے عنوان سے پروفیسر محمد علی اثر کے سانحہ پر قلم بند کیے ہیں پیش خدمت ہیں :

’’ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے بعد دکنی ادب میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ انھوں نے ڈاکٹر زور کے بعد دکنی ادب کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اثر صاحب کا شمار نابغۂ روز گار شخصیات میں ہوتا ہے۔ سیکڑوں ڈاکٹرس، پروفیسرس، اساتذہ، ریسرچ اسکالرس، طلبا و طالبات نے استفادہ کیا۔باوجود ناسازی طبیعت کے وہ اس طرح رہنمائی کرتے، احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ صاحب فراش ہیں، بلاکے ذہین و فطین حافظہ، اتنا قوی کہ دکنی مخطوطات کے بارے میں بھی ایسا اظہارِ خیال کرتے گویا کل کی بات ہے۔ شمس الرحمن فاروقی بھی آپ کے مرنجان مرنج شخصیت اور خدمات کے معترف تھے۔‘‘ 

(پروفیسر حشمت فاتحہ خوانی، ماہنامہ ہندوستان گیزٹ اردو،  25 اپریل 2024)

المختصر دنیائے اُردو ادب کا یہ درخشندہ ستارہ جس نے وسیع ذخیرہ سرمایہ ادب تیار کیا ہے۔اردو والوں کے دلوں میں ہمیشہ رہے گا۔ راقم دورانِ تحقیق(16نومبر 2020)حیدرآباد میں اثر صاحب کے گھر جاکر ان سے ملاقات کی۔ اثر صاحب پچھلے تین چار سالوں سے وین ٹیلیٹر اور آکسیجن کی مدد سے جی رہے تھے۔زندگی کے آخری سال کافی سخت علالت میں گزرے ہیں۔ڈاکٹر الحاج محمد علی اثر(سابق پروفیسر و صدر شعبۂ اردو عثمانیہ یونی ورسٹی)ولد حکیم شیخ محبوب کا 74 سال کی عمر میں 24اپریل 2024 دوران نصف شب انتقال ہوا۔

 

Dr. Nazir Ahmad Ganai S/o Gh Hassan Ganai

R/O: Frisal Kulgam- 192232 (J&K)

Mob.: 7889779687

ghaliburdu2@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...