15/7/24

قرون اولی کی مصوری،از ڈاکٹر انیس فاروقی

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


مصوری قدیم ہندوستان میں خیالات کے اظہار کا ایک محبوب ترین ذریعہ تھی۔ اس زمانے کے ادب اور تصانیف سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فن جمالیاتی اور تکنیکی نقطہ نظر سے اپنے عروج پر تھا۔ مصوروں کو شاہی سرپرستی اور خصوصی مراعات حاصل تھیں۔ انھیں شاہی محلات اور مندروں کی دیواروں کو مصور اور مز ین کرنے کا کام سونپا جاتا تھا۔ خصوصاً شہزادوں، امرا اور ممتاز شہریوں کو فن مصوری کا مطالعہ کرنا ضروری تصور کیا جاتا تھا۔ ہر شہر اور قصبے میں خاص موقعوں اور تیوہاروں پر گھر کی باہری دیواروں اور سڑکوں پر خوبصورت تصاویر لٹکا کر ماحول کو خوبصورت ترین بنا دیا جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی سازگار فضا میں اس فن لطیف نے خوب ترقی کی ہوگی اور یہ قیاس لگایا جاتا ہے کہ کافی تعداد میں تصاویر بنائی گئی ہوں گی مگر زمانے کے نشیب و فراز نے انھیں برباد کردیا اور اب بہت کم نشانات باقی رہ گئے ہیں۔ مورخین کا خیال ہے کہ لکڑی پرنقش بنانے یا پتھر تراشنے میں چونکہ وقت کافی صرف ہوتا تھا لہٰذا اظہارِ خیال کے لیے مصوری زیادہ کارگر ثابت ہوئی کیونکہ اس میں بت تراشی کی بہ نسبت بہت کم وقت لگتا ہے۔ اس کی ابتدا غالباً مندروں اور استوپ وغیرہ کی اندرونی دیواروں میں مذہبی روایات کو مصور کرنے سے ہوئی۔ بعد ازاں راجاؤں نے اپنے محلات کو سجانے اور سنوارنے میں دیواری تصاویر سے کام لیا اور خصوصی نگارخانے بنوائے۔ یہ نگارخانے عموماً دو قسم کے ہوتے تھے۔ ایک جو فقط حرم کی عورتوں کے لیے وقف ہوتے تھے، دوسرے وہ جو بارہ دری یا باغات میں عوام اور خواص دونوں کے لیے ہوتے تھے۔

ہندوستانی روایت کے مطابق مصوری زندگی کے اعلیٰ مقاصد حاصل کرنے کا  ایک ذریعہ ہے اور زندگی کا سب سے بڑا مقصد نجات حاصل کرنا ہے۔ نجات حاصل کرنے کے لیے علما نے مختلف طریق کار بتائے ہیں۔ عام طور سے زندگی کے تمام لوازمات سے علیحدگی اور بے تعلقی اختیار کرکے جنگلوں میں چلا جانا نجات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تصور کیا جاتا تھا لیکن اسے منفی نظریہ فکر کہا جاتا ہے۔ مثبت نظریۂ فکر کے تحت نجات کے معنی ہیں انسان کے شعور میں قادر مطلق اور اس کی عظمت کا احساس پیدا ہونا جو سماج میں رہ کر ہی اعلیٰ قدروں کو  اپنا کر اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ ’دھرم‘ یعنی ضابطۂ حیات (زندگی کے فرائض کا صحیح ڈھنگ سے انجام دینا) دوسرا ’کام‘ یعنی خواہشات انسانی نسل کو برقرار رکھنا اور تیسرا ’ارتھ‘ یعنی ادعائے حیات (بنیادی ضروریات زندگی کے لیے روزگار کرنا) ہندوستانی فلسفۂ زندگی کے اجزائے ترکیبی بتائے گئے ہیں۔ ہندوستانی فن مصوری اسی تصور کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہندوستانی مصوری میں جمالیات کا نظریہ بھی زندگی کی حقیقتوں اور انسانی برادری کی فلاح اور بہبود پر منحصر ہے یعنی ’ستیم‘ (سچ)، ’شوم‘ (فلاح) اور ’سندرم‘ (خوبصورتی) سندر یا خوبصورت وہی ہے جو سچ اور فلاح پر قائم ہو۔

ہندوستانی مصوری دراصل ہندوستانی زندگی، رہن سہن اورمذہبی عقیدے کی ترجمان ہے۔ چونکہ ہندوستانی عوام نے عام طور سے اپنی زندگی کو ہمیشہ مذہبی نظم و ضبط میں رکھا، لہٰذا سماج کے ایک نمائندے کی حیثیت سے ہندوستانی مصور نے بھی مذہبی عقائد کو اپنے جمالیاتی کار میں فوقیت دی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستانی مصوروں نے قدرت کی بیش بہا حقیقتوں سے اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ ہندوستانی مصور سادھو نہیں تھے کہ وہ دنیا سے اپنا منہ موڑ کر الگ تھلگ بیٹھ جاتے بلکہ وہ صوفی، فلسفی اور مجدد تھے جنھوں نے اپنے تخیل اور جمالیاتی حس سے قدرت کے اسراروں کو عیاں کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے قدرت کے خارجی حسن کو لغوی طور سے قلمبند نہیں کیا۔ ان کی کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ ہر شے میں داخلی حسن کو تلاش کریں اور اس کے نئے معنی پہنائیں۔ اسی جمالیاتی فلسفہ کے تحت ہندوستانی مصوروں نے انسانی جسم کو اپنے شاہکاروں میں پیش کرتے وقت اس کی تمام تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے انتہائی سادگی سے جسم کے خصوصی خط و خال کو نمایاں کیا ہے کیونکہ ان کا بنیادی مقصد فقط انسانی جسم کی تفصیلی نمائش نہیں بلکہ ان روحانی قدروں کو پیش کرنا رہا ہے جو انسانی شعور کا سرمایہ ہیں۔ اسی لیے ہندوستانی روایتی مصوری بنیادی طور سے عارفانہ، تصوری، اشارتی، علامتی اور ماورائی سمجھی جاتی ہے۔

روایتی اور ادبی شہادتیں

ہندوستانی مصور دراصل ایک مکمل فنکار ہوتا ہے اور بیک وقت تمام فنون لطیفہ میں ماہر تصور کیا جاتا ہے۔ وشنودھر موترا، حصہ سوم میں ایک راجہ اور ایک عارف کے درمیان مندرجہ ذیل گفتگو کا تذکرہ ملتا ہے جس سے اس نظریے کی سند مل جاتی ہے۔

راجہ:     آپ براہِ کرم مجھے فن بت تراشی کے طریقے سکھلائیں۔

عارف: جسے فن مصوری کے قوانین کا علم نہیں وہ فن بت تراشی کے قوانین نہیں سمجھ سکتا۔

راجہ:    تب آپ مجھے پہلے مصوری کے قوانین سے روشناس کرائیں۔

عارف:   لیکن مصوری کے قوانین کو سمجھنا بڑا مشکل ہے، جب تک کہ رقص کی تکنیک نہ معلوم ہو۔

راجہ:    تب مجھے پہلے فن رقص سکھائیے۔

عارف:   لیکن ساز کی موسیقی کے قوانین کو اس سے پیشتر جاننا ضروری ہے ورنہ رقص کو نہیں سمجھا جاسکتا۔

راجہ:    تب مجھے پہلے سازکی موسیقی سکھائیے۔

عارف:   لیکن ساز کی موسیقی اس وقت تک نہیں آسکتی۔ جب تک کہ آپ ناطق موسیقی سے واقف نہ ہوں۔

راجہ:    اگر ناطق موسیقی ہی ہمارے فنون کی بنیاد ہے تو مجھے ناطق موسیقی پہلے سکھائیے۔‘‘

اسی طرح فن مصوری کے جنم اور اس کے ارتقا کے متعلق بہت سی ادبی شہادتیں ملتی ہیں ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

سنسکرت میں لکھے ہوئے قدیم قلمی نسخوں میں ایک نسخہ ’مان سار‘ ہے جس کے مطابق برہما کے چار چہروں سے چار اولادیں پیدا ہوئیں جن کے نام ہیں (1) وشوکرما (2) مٹئے (3) توشٹا اور (4) منو۔ توشٹا کی شادی ویشرون ستا سے ہوئی جس سے وردھکی نامی اولاد پیدا ہوئی، چونکہ اچاریہ وردھکی کا دائرہ کار مصوری تھا لہٰذا ہندوستانی روایت کے اعتبار سے فن مصوری کا سلسلہ اچاریہ وردھکی سے شروع ہوا۔ ایک دوسرا نسخہ ’برہم دیورت پران‘ میں وشوکرما (جو سب سے بڑے شلپ کار مانے جاتے تھے) کے 9 لڑکے بتائے گئے ہیں جس میںا ٓٹھویں لڑکے کا نام چترکار تھا۔ فن مصوری کے موضوع پر تفصیل کے ساتھ جن ہندوستانی قدیم نسخوں میں روشنی ڈالی گئی ہے ان میں ’وشنودھرموتم پران‘ (اس نسخہ میں مصوری اور بت سازی کو الگ الگ فن سے منسوب کیاگیا ہے) رپارنی کی ’آشٹا دھیائی‘ (تقریباً 500 قبل مسیح) آچاریہ کوٹلیہ کا ’ارتھ شاستر‘ (تقریباً 400 قبل مسیح) آچاریہ وراہِ مہر کی ’درہت سہنتیا‘ (تقریباً 500) اور دوسرے نسخے مثلاً ’وشوکرم پرکاش‘، ’مے مت‘، ’چترسوتر‘ (تقریباً 600-700)، ’چترلکشن‘ (تقریباً 600-700) ’چترکرم شلپ شاستر‘ راجہ بھوج کا لکھا ہوا ’سمرانگن سوتر دھار‘ (تقریباً 1010-1055) ’کلا ولاس‘، کلیان کے چالکیہ راجہ وکرمادت ثانی کے لڑکے سومیشور کا ’مان سولاس‘ (تقریباً 1131) ’ورتانت پرکرن‘ (اور ’شلپ کلادلیپکا‘ قابل ذکر ہیں۔

تقریباً دوسری صدی عیسوی میں لکھے گئے ’للت وستر‘ نامی نسخہ میں شہزادہ سدھارتھ کو 89 فنون کا ماہر بتایا گیا ہے جن میں فن مصوری بھی شامل ہے۔ اس نسخہ میں ایک دلچسپ واقعہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ’راجہ شدودھن کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کے فرزند شہزادہ سدھارتھ کو ایک شلپ کارونڈ پانی نامی شخص کی لڑکی یشودھرا پسند ہے تو اس کے یہاں راجہ نے شادی کا پیغام بھجوایا لیکن دنڈپانی نے اس اعتراض کے ساتھ کہ شہزادہ سدھارتھ کو چونکہ فنون سے کوئی واقفیت نہیں ہے اس رشتے کو ٹھکرا دیا۔ راجہ شدّودھن اس طرح صاف صاف جواب پاکر بہت غمگین ہوئے لیکن اس واقعہ کا جب شہزادہ سدھارتھ کو علم ہوا تو اس نے راجہ سے کہا کہ وہ سارے راج میں منادی کرادیں کہ شہزادہ سدھارتھ تمام ملک کے فنکاروں سے مقابلہ کے لیے تیار ہے۔ چنانچہ حسب پروگرام مقابلہ منعقد ہوا جس میں شہزادہ سدھارتھ کو 80 فنون میں ممتاز قرار دیا گیا۔‘‘

ہندوستانی فن مصوری کی تاریخ میں جس نسخہ کا بار بار تذکرہ کیا جاتا ہے وہ رشی واتسائن کا ’کام سوتر‘ (تقریباً 200-300) ہے اس میں 64 طرح کے فنون بتائے گئے ہیں جن میں فنون لطیفہ کے ساتھ ساتھ فنون صنعت و حرفت شامل ہیں۔ ان فنون کے نام ہیں ’ناطق موسیقی، ساز والی موسیقی، رقص، مصوری، پتیوں سے مختلف قسم کی شکلیں بنانا یا تلک وغیرہ کے لیے خصوصی سانچے تیار کرنا۔ پوجا کے وقت مختلف قسم کے جویا چاول کے دانوں سے یا پھول سے سجانا، دانت، کپڑے اور بدن کے دوسرے حصوں کو رنگنا، گھر کے فرش کو قیمتی پتھروں اور موتیوں سے جڑنا، بستر کو سجانا، پانی میں ڈھولک کی سی آواز نکالنا، پانی کی چوٹ مارنا یا پچکاری چھوڑنا، دشمن کو ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے عمل کرنا، پہننے یا چڑھاوا چڑھانے کے لیے پھولوں کی مالائیں بنانا، سر اور پگڑی میں لگانے والے زیوروں کو صحیح جگہ پر پہننا، اپنے بدن کو سجانا اور پھولوں سے آویزاں کرنا، شنکھ، ہاتھی دانت وغیرہ سے کان میں پہننے کے لیے زیورات بنانا، خوشبو دار اشیا مثلاً اگر بتی وغیرہ بنانا، زیورات پہننے کا فن جاننا، جادو کا کھیل دکھا کر نظربندی کرنا۔ طاقت بڑھانے کے لیے دوائیں بنانا، ہاتھ کی صفائی دکھانا، مختلف قسم کے کھانے، رس اور مٹھائی وغیرہ بنانا۔ مختلف قسم کے پینے کے لیے شربت بنانا، سوئی کے کام میں مہارت پیدا کرنا، سوت میں کرتب دکھانا، وینا اور ڈمرو بجانا، پہیلیاں بجھانا، دوہا اور اشلوک وغیرہ پڑھنا۔  مشکل الفاظ کے تلفظ اور معنی جاننا۔ خوبصورت آوازوں میں گرنتھوں کا پڑھنا، ناٹکوں اور ناولوں میں ماہر ہونا، کسی مسئلے کو سلجھانا، چھوٹے چھوٹے روزگاروں میں ماہر ہونا، لکڑی اور دھات کی چیزیں بنانا، بڑھئی کے کام میں ماہر ہونا، فن تعمیر، سکوں، ہیروں اور جواہرات کو پہچاننا اور جانچنا، دھاتوں کو ملانے اور اسے صاف کرنے کا فن، موتیوں اور شفاف سنگ مرمر اور کانچ وغیرہ رنگنے کا کام، کھیتی باڑی کرنے کا علم، مینڈھے، مرغ اور تیتروں کی لڑائی پرکھنے کا فن، طوطا اور مینا کو سکھانا اور ان کے ‘ذریعہ پیغام پہنچانا، ہاتھ پیر سے بدن دبانا، بالوں کو ملنا اور ان کا میل دور کرنا اور ان میں تیل اور خوشبو وغیرہ لگانا۔ الفاظ کو ملانا اور ان سے معنی نکالنا، اشاریہ جملوں کو بنانا، مختلف ملکوں کی زبانوں کو جاننا، اچھے شگون کا علم ہونا، پھولوں کی گاڑی بنانا، چلانے کی مشین اور پانی نکالنے کے اوزار وغیرہ بنانا۔ یادداشت کو تیز کرنے کا فن، یادداشت اور دھیان سے متعلق فن، دل و دماغ سے اشلوکوں اور اشعار کو پورا کرنا، شاعری کرنا، لغت اور شعر کا علم، شاعری اور ادبی رنگینیت کا علم، شکل اور بولی چھپانے کا علم، بدن کی خفیہ جگہوں کو کپڑے سے چھپانے کا علم، ایک خاص قسم کا جوا کھیلنا۔ پانسوں کا کھیل کھیلنا، بچوں کے کھیل کا علم، اپنے اور پرائے کے ساتھ بہت ادب اور تمیز سے پیش آنے کا علم، شاستروں کا علم، کسرت اور شکار کا علم۔‘‘

اس فہرست کو دیکھنے کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مہذب زندگی کے لیے وہ تمام فنون جو سماج میں رہ کر ایک انسان کو آنے چاہئیں وہ سب اس میں شامل کرلیے گئے ہیں۔ مورخین کا خیال ہے کہ شہزادہ سدھارتھ جن 89 فنون میں ماہر تھے ان میں مندرجہ بالا 64 فنون شامل تھے۔

 

ماخذ: ہندوستانی مصوری، ایک خاکہ: مصنف: ڈاکٹر انیس فاروقی، دوسرا ایڈیشن: 1998، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...