15/7/24

اردو صحافت میں اداریہ نگاری، مضمون نگار: جعفر علی خان

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


اردو صحافت میں اخبارات و رسائل کو اہم مقام اور مرتبہ عطا کرنے میں اداریہ نگاری کا بھی اہم رول رہا ہے۔ اداریے میں مدیر،ناشر یا اخبار کا مالک کسی اہم مسئلے پر اپنی رائے دیتا ہے۔ اداریے کے بغیرکسی اچھے اخبار یا رسالے کے بارے میںسوچا نہیںجاسکتا۔ یہ کسی بھی اخبار و رسالے کی پالیسی اور مزاج کا مظہرہوتاہے۔ اس میں عصری زندگی کے مسائل کوموضوع بنایا جا سکتا ہے اور ملک کے سیاسی،سماجی،اقتصادی اورمعاشرتی پہلوئوںکو بھی اجاگر کیاجا سکتا ہے۔ڈاکٹرمحمد شاہد حسین رقمطرازہیں:

  اداریے کو کسی نے اخبار کی جان کہاہے تو کسی نے اس کا ضمیرکسی نے اسے واقعات پر روشنی ڈالنے والی مشعل بتایاہے تو کسی نے اسے عوام کی رہنمائی کرنے والا روشنی کا منارہ۔کسی کا خیال ہے کہ یہ ایک آئینہ ہی نہیں بلکہ ایسا ہتھیار بھی ہے جس سے سلطنتوں کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیںاور تہذیب وتمدن کے کئی شعبوں میںانقلاب لایا جاتا ہے۔اس سے اخبار کی بے باکی،احساسات اور پالیسی کا اظہار ہوتا ہے جوکہ اخبار کے کردار کاتعین کرتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اداریہ اخبار کی وہ اہم تحریر ہوتی ہے جس میں مدیر،نا شریا مالک کسی اہم مسئلے پر رائے دیتا ہے۔‘‘ (ابلاغیات،ڈاکٹر محمد شاہد حسین،2003،ص154)

اداریہ نویسی نہایت ہی مشکل، بڑی جانفشانی اور ریاضت والاکا م ہو تاہے۔اس میں ایک اداریہ نگار کو حالات کا مکمل جائزہ لے کر کسی بھی موضوع پراداریہ لکھنا ہوتا ہے۔ وہ حالات واقعات کی ایسی منطقی تصویر کشی کرتا ہے کہ قارئین میں غور وفکر کی عادت پڑے اور معاشرے میں ایک تبدیلی رونما ہو۔ حالات حاضرہ کو سمجھنے اور اپنی رائے قائم کرنے کے لیے ایک اداریہ نگار کے لیے باشعور اور بالغ نظر ہونابہت ضروری ہے۔کسی بھی موضوع پر لکھنے سے پہلے وہ اس کے تمام پہلو ئو ں پہ غور و خوض کر ے اور پھر اپنی حتمی رائے قائم کرے۔ اداریے میں دی جانے والی رائے سے حکومت اور عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیاجاتا ہے۔ملک یا سماج کے لیے کون سی باتیں مفید یا غیر مفید ہیں ان پر ایک اداریہ نگار کو جواں مردی سے مذمت اور کھل کر تنقیدکرنی چاہیے۔ تعصب، خوشامد، مبالغہ آرائی اداریے کو بے اثربنا دیتی ہے لہٰذا اداریہ لکھتے وقت ان سب سے پرہیز کیا جائے۔

جہاں تک اردو صحافت میںاداریہ نگاری کے آغاز کا سوال ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو صحافت کے شروعاتی دور میں اداریہ نگاری کا بہت کم رواج تھااور اداریے بہت کم شائع ہو تے تھے۔اردو صحافت میںاداریہ نگاری کا سب سے اہم اور زریںدور 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ 1858 میں منشی نولکشور کے ’اودھـــ اخبار‘ میں اداریوں کو کا فی جگہ دی گئی۔اس اخبار کے ساتھ مختلف نامور اہل قلم کی وابستگی رہی جن کی علمی اور ادبی صلاحیتوں نے اس اخبار کے معیار کو ہمیشہ قائم رکھا۔سماجی برائیوں اور اخلاقی کمزوریوںکو اس اخبار نے طنز کا نشانہ بنایا۔اس کے بعد اداریہ نویسی میںجو نام سب سے زیادہ اہم ہے وہ سر سید کا ہے۔ 1837میں سر سید کے بھائی سیدمحمدخان نے ’سیدالاخبارـ‘ جاری کیااسی اخبار سے سر سید نے اپنی علمی و ادبی زندگی کا آغاز کیا۔علوم و فنون کو فروغ دینے کے لیے سر سید نے 1863میں سائنٹفک سو سائٹی قائم کی جس کا مقصد انگریزی کی مفید کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ 1866 میں سر سید نے اس سو سا ئٹی سے ایک اخبار جاری کیا جس کا نام ’اخبار سائنٹفک سو سائٹی‘ تھا۔ اس اخبار سے قبل اردو اخبارات میںاداریہ لکھنے کا رواج نہیں تھا، اخبار نے اسے عام کیا۔اخبار نے جہاں ایک طرف ہندو ستانیوںکو مغربی علوم و فنون سے روشنا س کرایاتو دوسری طرف اردو زبان و ادب کو آسان اور عام فہم بنانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ اس کے بعد سر سید نے1870 میں رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ جاری کیا جس کا مقصدسماجی اصلاح تھا۔ انھو ں نے یہ رسالہ انگلستان سے واپس آکر وہاں کے دو رسالوں بنام ٹیٹلر(TheTatler)اور سپکٹیٹر (The Spectator) کے نمونے پر جاری کیا۔اس میں لکھے اداریو ں کے ذریعے سر سید نے مسلمانوں کو جدید تہذیب سے روشناس کرایا تا کہ وہ ایک تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ قوم بن سکیں۔ سر سیدکے لکھے گئے اداریوںسے معاشرے میںسدھار پیدا ہوا اور قوم کے ہر فرد کو اپنی ذمے داری کا احساس ہوا۔انھوں نے اداریہ نویسی کو ایک نئی سمت دی جس کی پیروی کرتے ہوئے بعد کے صحافیوں نے اداریہ نویسی کو فروغ دیا۔ڈاکٹر شریف الدین لکھتے ہیں: 

’’بلا شبہ صحافت کے اس دور کا امام سر سید ہی کو تصور کیا جاتا ہے۔سر سید نے1866 میں سائنٹفک سو سائٹی اور 1870 میں ’تہذیب الاخلاق‘ جاری کیاجنھوںنے اردو اداریہ نگاری کو ایک نئی سمت عطا کی اور اداریوںکو حقیقی معنوں میںاخبار کی روح  بنا دیااور پا بندی سے  اداریے شائع ہونے لگے۔

چونکہ سر سید نے علمی و ادبی صحافت کا آغاز کیا تھا اس لیے انہوں نے بھاری بھرکم اور عربی وفارسی کے گنجلک اور پیچیدہ لفظوں سے اپنے دامن کو بچایا،اور عام فہم،سادہ وسلیس زبان میںاداریے لکھ کر اردو صحافت کو ایک نئی راہ دکھائی اوراردو میں اداریہ نویسی کے فن کو خوب اجاگر کیا اور اردو صحافت کے اس اہم ترین دوسرے دور میں مختصر اداریوں کا رواج چل پڑا۔‘‘

(اردو صحافت اور حسرت مو ہانی،ڈاکٹر شریف الدین، 2005، ص155)

سرسید کے بعد حسرت مو ہانی، مولانا ظفر علی خاں، محمد علی جو ہر اور ابو الکلام آزادکے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ سب اپنے زمانے کے بلند پایہ صحافی، مقرر، خطیب، ادیب، شاعر اور سیاستداں تھے جن کے لکھے گئے اداریوں کی مقبولیت آج بھی اردو صحافت میںبرقرار ہے۔ 1903  میں حسرت مو ہانی نے علی گڑھ سے رسالہ’اردوئے معلی‘ جاری کیا۔ یہ محض علمی و ادبی رسالہ نہیں تھا بلکہ اس میں سیاسی مو ضوعات پر بھی تند وتیز تحریر یں اور شذرات بھی ہوتے تھے۔ اس رسالے کے ذریعے حسرت مو ہانی نے ہندو ستانیو ں بالخصوص مسلمانوںمیں سیاسی شعور پیدا کیا اور اپنی پلند پایہ صحافیا نہ تحریروں سے آزادی کامل کا نعرہ بلند کیا۔ 1903 میں ہی مولوی سراج الدین نے کسانوں اور زمینداروں کی فلاح و بہبودکے لیے ’زمیندارــ‘ اخبار جاری کیا۔ 1910 میں مولوی سراج الدین کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مولانا ظفر علی خاں نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی۔طرابلس اور بلقان کی جنگوں کے بارے میں خبروں اور مولا نا ظفر کے لکھے گئے اداریوں نے اس اخبار کو عوام کا مقبول ترین اخبار بنا دیا۔اس اخبار کے ادارتی عملے میں نیاز فتح پوری،عبداللہ عمادی،وحیدالدین سلیم پانی پتی اور منشی وجاہت حسین جیسی علمی و ادبی شخصیات شامل تھیں۔ اس کے علاہ اس اخبار نے تحریک آزادی ہند میں بھی کلیدی رول ادا کیا ہے۔ 13 جولائی 1912 کو ابوالکلام آزاد نے ہفتہ وار اخبار ’الہلال‘‘جاری کیا تو اردو صحافت نے ایک نیا روپ اختیار کیا۔ مولانا آزاد بیک وقت صحافی، انشاپرداز، ادیب، سیاستدان، عالم اور محب وطن تھے جس کی زندہ مثالیں ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔ الہلال میں مولانا آزاد نے مذہب کے علاوہ سیاست، معاشیات، تاریخ، جغرافیہ، عمرانیات اور حالاتِ حاضرہ کے مسائل پر بھی لکھتے تھے۔ مولانا آزاد نے الہلال کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کیا اور ان کو یہ بتایا کہ وہ عملی طور پر قومی سیاست میں حصہ لیں۔ الہلال نے اپنے اداریوں میںان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے بعد مولانا نے 1915 میں ’البلاغ‘جاری کیاجو الہلال کا دوسرا حصہ تھا۔بجنورسے محمد مجیدحسن نے ’مدینہ‘ نام کا ایک اخبار نکالا جس نے انگریزی حکومت کی زیادتیوں کو اپنے اداریوں میںکھل کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس اخبار میں اکبر الہ آبادی، علامہ اقبال، حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خاںجیسے بلند پایاادیب و شاعر لکھتے تھے۔ اردو صحافت کی تاریخ محمد علی جوہر کے مشہو ر اخبار ’ہمدرد‘ کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ 1913 کو دہلی سے اس اخبار کا اجرا  ہوا یہ دور ملک میں سیا سی افراتفری کا تھااس دور میں ہمدرد نے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دیا۔ہمدرد کا بنیادی مقصد انگریز حکومت کی مخالفت،ملک کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد تھا۔ محمد علی جو ہر نے ا پنے اداریوں کے ذریعے عوام کے سیاسی شعور کو بیدار کیا، ملک میں ہونے والی فرقہ ورانہ کشیدگی اور فساد سے لوگوں کو روشناس کرایاجس سے انتشار پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔نور جہاں ثروت لکھتی ہیں:                                            

ــــــ’’جب ہم صحافت کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسے اخبارات بطور خاص کسی خاص طبقے میں مقبول ہوتے نظر آتے ہیںجو غیر معمولی ذہانت اور منفردانداز نگارش کے مالک ہوتے ہیں۔ قدیم زمانے میں دہلی اردو اخبار، اس کے بعد تہذیب الاخلاق بعد میں زمیندار، الہلال اور علی گڑھ گز ٹ اسی طرح کے اخبارات میں الجمعیت اورمدینہ جیسے اخبارات بھی اپنے مدیروں کی وجہ سے زیادہ پسند کیے گئے اور ان سے وابستگی خود ان کے مدیروں کے لیے بھی  وجہ شہرت وافتخار بنی۔ مولانا ابوالکلام آزادکا ’الہلال‘ یا بعد میں ’البلاغ‘ اور مولانا محمد علی جوہرکا ’کامریڈ‘ اور ’ہمدرد‘ اسی دائرہ میں آ تے ہیں۔  ظفر علی خاں کے اداریوں کو کو ن نظر انداز کر سکتا ہے۔ ان ارباب صحافت کے وسیلے سے ہماری صحافت کی ایک ادبی، تہذیبی، سماجی اور سیاسی تاریخ بن گئی۔‘‘

(اردو اور عوامی ذرائع ابلاغ، مرتبین پروفیسر محمد شاہد حسین،اظہار عثمانی، اردو اکادمی نئی دہلی،2007،ص115)

اردو صحافت کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ماضی میں ان صحافیوں نے اپنے اخبارات ورسائل کے اداریوں کے سماجی اصلاح کا فریضہ  انجام دیا اور عوام میں علمی وادبی ذوق پیدا کیا۔ اس کے علاوہ اس دور کے دیگر اہم اخبارات میں سیاست، ملاپ اور پرتاب کے نام قابل ذکر ہیںجن میں اداریہ نگاری کی بہترین مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔جہاں تک اردو رسائل کی بات ہے تو اردو زبان کے فروغ اور اس کی ترویج و اشاعت میں رسائل کا کلیدی رول رہا ہے۔ اردو رسائل جن میں اداریہ نویسی کے بہترین نمونے دیکھنے کو ملتے ہیںان میں مخزن، زمانہ،نگار،شاعر،سب رس،آجکل، اردو ادب،نیا دور، شب خون،ایوان اردو،فکر و تحقیق اوراردو دنیا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔حصول ِآزادی سے قبل اخبارات ورسائل کے پیش نظر ایک اعلٰی مقصد تھا اسی مقصد کو سامنے رکھ کر اس دور کے صحافیوں نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ اس دور کے صحافیوں کا مشن خدمت خلق،سماجی اصلاح کرنا اور ملک کی آزادی تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب نہ ہی اس طرح کے اداریے لکھنے والے لوگ موجود ہیں اور نہ ہی ایسے قارئین۔ مو جودہ دور سائنس اورتکنا لوجی کا ہے آج لگ بھگ دنیا کے ہر کونے سے اردو اخبارات شائع ہو رہے ہیں ان میں مذہبی،سیاسی،سماجی، علمی اور ادبی جیسے موضوعات پر سیکڑوں اداریے چھپ رہے ہیں لیکن آ ج اردو اداریے کی اہمیت میں کمی ہوتی جا رہی ہے اچھے باصلاحیت لوگوں کی کمی کو محسوس کیا جا رہا ہے جو اردو اداریے کو معیاری بنا سکیں۔مو جودہ دور میں اردو ا خبارات کے اداریے ملکی اور عا لمی سطح کے کسی بھی مسئلے کو بہترین انداز میں پیش کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آزادی سے پہلے صحافیوں کو جو چیلنجزتھے وہ آزادی کے بعد ایک نئی صورت کے ساتھ سامنے آئے۔ آج پوری دنیا کے سامنے ان گنت مسائل ہیں لیکن اردو صحافت کے اداریوں میں جو گراوٹ دیکھنے کو ملتی ہے اس کے پس پشت کئی وجوہات ہیں۔ دراصل عصرحاضر میں اردو اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی ہوتی جا رہی ہے کیونکہ تکنالوجی کے اس دور میں معلومات حاصل کرنے میں بڑی آسانی ہوگئی ہے لوگ اب انٹر نیٹ سے ہی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ ماضی میں اردو صحا فیوں کو مختلف زبانوں پر عبور حاصل تھا ان کے پاس موجودہ جدید ترین وسائل تو دستیاب نہیں تھے لیکن انھوں نے اپنی شستہ زبان،دلکش طرز تحریر اور زبان پر مکمل دسترس کی وجہ سے اردو صحافت میںاپنی چھاپ چھوڑی ہے۔آج کے مدیران اپنی کم علمی اور زبان پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے زبان کی بے شمار غلطیاں کررہے ہیںجس سے اردو صحافت کا معیار گھٹتا جا رہا ہے کسی بھی زبان کے اخبار کے اداریے کا کمزور ہونا اس زبان کے اخبار کی موت کا سبب بنتا ہے۔عصر حاضر میں اگر اردو اداریہ نگاری کو ایک نئے مقام پہ لے جانا ہے تو سب سے پہلے صحافیوں کو اپنے ذاتی مفاد کو ایک طرف رکھ کر اخبارات کے بہتر مستقبل کے لیے سو چنا ہو گا۔ آج اردو اداریہ نگاری تب ہی جان دار اور مقبول ہو گی جب اخبار کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنایا جائے گا اور اس کی مظبوطی کا بنیادی ستون وہ اردو داں طبقہ ہے جو زبان کے ساتھ اس کے اصولوں سے بھی واقفیت رکھتا ہے جب تک یہ طبقہ آگے نہیں آئے گا اردو صحافت اور اداریے کا معیار روز بروز گھٹتا جا ئے گا۔

Jhafar Ali Khan

Research Scholar, Department  of Urdu

University Of Kashmir

Srinagar-190006 (J & K)

Mob.: 9103562905

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...