16/7/24

گلبرگہ کی ادبی و تہذیبی انجمنیں، مضمون نگار: کوثر فاطمہ

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


شہر گلبرگہ اردو زبان و تہذیب کا علاقہ کہلاتا ہے اردو زبان وادب نے یہاں ایک نئی تاریخ بنائی جس کے نتیجے میں بلند پایہ شاعر، ادیب، مقرر، صحافی اور ماہرین تعلیم و نظم و نسق پیدا ہوئے جنھوں نے اپنے علم وعمل سے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ ماضی کی ادبی قدروں کا سلسلہ آج بھی انجمنوں کی صورت میں باقی ہے اور گلبرگہ میں ادبی و تہذیبی انجمنوں کا قیام ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔

گلبرگہ کلب

1944 کے وسط میں عبدالرحیم فضل، شور عابدی، ڈاکٹر کاشمیری، سلیمان خطیب، حسن خاں مجھمی، روشن علی، نواب مکرم محمود سرفراز، غلام محمد چغتائی، گلوسیٹھ نواز خان، احمد حسین سحر قادری، عبد الرزاق جیسے گلبرگہ کے ذی علم باشعور اور ذہین افراد کی کوششوں سے گلبرگہ کلب‘‘ کا وجود ہوا۔ بقول نیاز گلبر گوی:

’’گلبرگہ کلب، گلبرگہ کے نوجوانوں کا دھڑ کتا ہوا فعال صحت مند وہ دل تھا جب دھڑکتا تو پورے گلبرگہ کی زندگی حیات تازہ سے لہلہانے لگتی تھی اس کی آواز پورے گلبرگہ کی آواز تھی۔‘‘ (بقول نیاز گلبر گوی گلبرگہ کلب،ص:9)

انجمن ترقی پسند مصنّفین

1936 میں ادب میں ترقی پسند تحریک کے آغاز کے ساتھ میدان عمل میں کارکردگی کے لیے شہر شہر ادیبوں کی ایسی انجمنیں قائم کی گئیں جوتحریک کے نصب العین کے حصول میں معاونت کرتی ہوں۔ ادب و شعر کو فرسودہ روایات سے آزاد کرانے اور ادب کے ذریعے معاشرتی اور سیاسی مقصد حاصل کرنے کے لیے ادبیوں میں اشترا کی خیالات کی تبلیغ عام ہوئی چنانچہ ادیبوں کی ایسی ہر انجمن ترقی پسند مصنفین کہلائی۔ دوران تحقیق مرحوم سید ابراہیم مامون کا ایک غیر مطبوعہ مضمون گلبرگہ میں اردو کا ماضی پڑھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی ایک شاخ گلبرگہ میں قائم ہوئی تھی اور گلبرگہ کلب اس کا مرکز بن گیا تھا۔ اس انجمن (ترقی پسند مصنّفین) کے تحت چھوٹے چھوٹے مشاعروں کے علاوہ بین الریاستی مشاعرے بھی منعقد کیے جاتے تھے اس شاخ نے گلبرگہ میں ادبی ذوق کو فروغ دینے میں نمایاں رول ادا کیا۔ فضل گلبر گوی، سلیمان خطیب اور شور عابدی، گلبرگہ کلب اور انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ شعرا تھے۔ گلبرگہ کلب کے تحت اکثر شعری محفلیں منعقد ہوتی تھیں ابراہیم جلیس اور عثمان صحرائی بنیادی طور پر نثر نگار تھے مگر شعری محفلوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ بیرونی مہمانوں میں راج بہا در گوڑا اور ساجد حسین لطیف (مارکیٹنگ آفیسر حیدرآباد) شرکت کرتے تھے۔ شعرا میں نظر حیدر آبادی، تحسین سروری، سلیمان اریب کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ آزادی ہند کے چند سال بعد، انجمن ترقی پسند مصنفین، قدرے تعطل کا شکار ہوگئی لیکن 1980 کے بعد اس انجمن کے احیا کی کوشش کی گئی۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں اس کا قیام عمل میں آیا تو گلبرگہ کے ادباو شعرا نے بھی انجمن کے قیام کی ضرورت محسوس کی۔ جناب رشید جاوید (ٹریڈ یونین لیڈر اور افسانہ نگار) نے30؍ جنوری 1988 کو ایک مشاورتی اجلاس میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کے قیام کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے فنکاروں کی توجہ اس طرف مبذول کروائی اس طرح دوبارہ اس کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر طیب انصاری صدرمنتخب کیے گئے۔ رشید جاوید (نائب صدر)، محب کوثر (معتمد) ڈاکٹر جلیل تنویر (معتمد عمومی) اور منظور وقار(شریک معتمد منتخب ہوئے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین) نے ادبی محفلوں اور شعری نشستوں کے انعقاد و انصرام سے مقامی فن کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور قلم کاروں کی پیش کردہ تخلیقات پر بے لاگ تحقیق پر زور دیا جو فن کار کے لیے مفید ہو ان کی یہ مساعی انجمن ترقی پسند مصنّفین کی روایت کی پاسداری ہے انجمن ترقی پسند مصنفین کی شعری نشستیں اور ادبی مجالس گلبرگہ کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔

 بزم اردو ادب

عبد القادر ادیب اور سید ابراہیم مامون کی کوششوں سے گلبرگہ میں نو جوانوں کی مقامی تنظیم بزم اردو ادب شاہ بازار کا قیام عمل میں آیا اس بزم کے تحت ہفتہ وار مباحثے ہوتے تھے اور ماہنامہ خدمت کے نام سے دو تین شمارے بھی شائع ہوئے۔ یہ ماہنامے دستی پریس (Hand Press) کی مدد سے شائع کیے گئے تھے۔ اس بزم کے تحت ایک دارالمطالعہ بھی قائم کیا گیا تھا اکبر عالم، سجاد علی، خالدی صاحب ایڈوکیٹ، عبدالکریم تما پوری، شہاب علی کے علاوہ محبوب علی، یوسف زئی، سید محمد، سید احمد اور غلام محمد وغیر ہ، اس دارالمطالعہ کے معاونین تھے۔

پریم چند سوسائٹی

حیدر آباد کرناٹک میں پولیس الیکشن 1948 کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے دلوں سے نفرت و حقارت کے جذبات کو محبت اور ہمدردی میں بدلنے کے لیے امن پسند وسیع القلب اور دور اندیش افراد نے پریم چند سوسائٹی کے نام سے ایک انجمن قائم کی اس انجمن کے نائب صدر مرحوم عبد القادر ادیب کے مراسلے سے یہ جانکاری ہوئی کہ اس کا قیام 1954 میں عمل میں آیا تھا اس انجمن کا بنیادی مقصد پریم چند کے مقاصد کی تبلیغ و اشاعت اور خلوص و محبت کی فضاعام کرنا تھا تا کہ سماج امن و شانتی کا گہوارہ بن جائے امرسنگھ راٹھور اس کے صدر تھے قاضی حسام الدین معتمد اور محبوب حسینی اور غلام حسین ساحل کے اسمائے گرامی اراکین کی حیثیت سے ملتے ہیں۔

بزم معراج العاشقین

خانوادہ حضرت خواجہ بندہ نواز کے احوال کی اشاعت، قدیم تاریخی کتب کی اشاعت ادبی اور مذہبی جلسوں کا انعقاد اردو زبان کی خدمات، ان مقاصد کے پیش نظر 1957 میں بزم معراج العاشقین کا بمقام حویلی روضہ خرد گلبرگہ کا قیام عمل میں آیا سید عارف اللہ نے اس بزم کے معتمد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ تحقیق کے دوران راقم الحروف نے انہی سے معلومات اکٹھا کی تھیں اس بزم کے زیر اہتمام شاہد صدیقی کی صدارت میں شام جگر، منعقد کی گئی تھی۔ سلیمان اریب، سلیمان خطیب، تحسین سروری نے جگر مراد آبادی کو منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا سیدرحیم الدین حسینی (ڈائریکٹر سیول سپلائی حکومت آندھرا پردیش) نے محققانہ مقالہ پڑھا تھا اس بزم کے تحت ہر سال 20 محرم کو ذکر حسین کے عنوان سے سمپوزیم منعقد کیا جاتا۔ جس میں کرناٹک کے علاوہ آندھراپردیش کے مفکرین بھی حصہ لیتے تھے۔

انجمن ترقی اردو ہند

31؍دسمبر 1902 کو مسلم ایجو کیشنل کانفرنس نے کانفرنس کا لٹریری سیکشن قائم کیا اور علامہ شبلی اس کے سکریٹری مقرر کیے گئے۔ شبلی نے لٹریری سیکشن کو انجمن ترقی اردو کے نام سے موسوم کیا۔ شبلی کی وفات کے بعد اس کی ذمے داری مولوی عبدالحق کو سونپی گئی مولوی عبدالحق نے انجمن کو ایک فعال اور کارکرد انجمن ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا۔ تقسیم ہند کے بعد مولوی عبدالحق پاکستان چلے گئے تب مولانا ابوالکلام آزاد نے انجمن (ترقی اردو ہند) کا دفتر دہلی سے علی گڑھ منتقل کیا اور ڈاکٹر ذاکر حسین کو صدر اور قاضی عبد الغفار (مدیر پیام) کو جنرل سیکریٹری بنایا، پنڈت سندر لال (نائب صدر انجمن) اور قاضی عبدالغفار (معتمد) کے دورۂ حیدرآباد کے نتیجے میں 1950 میں انجمن کی شاخ حیدرآباد میں قائم ہوئی۔ گلبرگہ میں تقریباً 9 سال بعد 8؍  جنوری 1959 کو انجمن ترقی اردو کی شاخ قائم کی گئی، مبارزالدین رفعت (پروفیسر گورنمنٹ کالج گلبرگہ) کو صدر بنایا گیا سعد الدین قریشی اور محمد ہاشم علی (نائب صدر) وہاب عندلیب (معتمد) سید ریاض حسینی (شریک معتمد) کی حیثیت سے انجمن سے وابستہ ہو گئے۔ انجمن ترقی اردو (شاخ) گلبرگہ کا دائرہ عمل ضلع گلبرگہ ہے جس کا دفتر شہر گلبرگہ میں واقع ہے۔ انجمن کی مجلس عاملہ کی تشکیل ہر تین سال بعد عمل میں آتی ہے۔

ادبی مجالس، سمینار، کانفرنس کے اہتمام کے ساتھ ساتھ مشاعروں کا بھی انعقاد عمل میں آتاہے۔ تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ کی جاتی ہے۔ اور انجمن کا ترجمان رسالے کی شکل میں انجمن کے نام سے شائع ہوتا ہے جس کے تا حال 9 شمارے شائع ہوئے۔ ان شماروں میں انجمن کی تمام اولی تعلیمی و تہذیبی سرگرمیوں کی مفصل رپورٹیں شامل ہیں۔

بزم محبان اردو

محفل شعر وسخن کا انعقاد، تقاریر، مقالہ نویسی اور بیت بازی کے مقابلوں کا انعقاد، کتب خانہ اور دار المطالعے کا قیام ان مقاصد کے پیش نظر جناب قطب الدین جمعدار سید احمد حسین قادری سحر اور سر ور مرزائی کی پر زور کوششوں سے 11؍جولائی 1960 کو بزم محبان اردو کا قیام عمل میں آیا۔ غلام حسین ساحل کو صدر،  محمد اسماعیل زرگر کو معتمد چنا گیا۔ محمد حسین قادری سحر اور سرور مرزائی اراکین کی حیثیت سے کام کرتے رہے 24؍دسمبر 1960 کو رئیس المتغزلین علی سکندر جگر مراد آبادی کے سانحہ ارتحال پر ایک جلسہ بہ یاد جگر، بطور تعزیت منعقد کیا گیا تھا۔

انجمن ادیبان نو

شہر گلبرگہ کے چند نئے قلم کاروں نے ایک ادبی انجمن،  انجمن ادیبان نو کے نام سے 1968 میں قائم کی اس انجمن کے محرک اور بانیوں میں اکرام باگ، حکیم شاکر (مدیر روزنامہ سلامتی) ریاض قاصدار اور بشیر باگ قابل ذکر ہیں۔ اسماعیل غازی (صدر) حامد اکمل (نائب صدر) بشیر باگ (معتمد) اور حکیم شاکر (معتمد عمومی) کے نام قابل ذکر ہیں اس انجمن نے ادب کے ایک خاموش خدمت گزار کی حیثیت سے رول ادا کیا جدید افسانہ نگاروں کو اردو دنیا سے متعارف کیا۔ انجمن حیات نو شاہ پورچند با شعور نوجوانوں نے اپنے مقام کو رضا کارانہ طور پر بدلنے کا ارادہ کیا ان کا مقصد تھا لوگوں میں تعلیم کا شوق پیدا کرنا ان کا خیال تھا کہ علم کی بدولت ان کا شمار ترقی یافتہ طبقے میں کیا جائے گا چنانچہ 19؍ مئی 1969 کو جناب راجے محمد یوسف، بے محمد قاسم، محمد عبد الحق اور راجے محمد سخاوت کی دعوت پر چند نوجوان یکجا ہوئے۔ نادار طلبا کی مدد، دینی مدارس کا قیام اور اردو کی بقا اور ترقی و ترویج کے لیے مسلم اسٹوڈنس یونین کی تشکیل عمل میں آئی محمد اعظم اثر (صدر) عنایت الرحمن صدیقی (نائب صدر) را جے محمد سخاوت (معتمد) اورمحمد عبد الحق چاند کو شریک معتمد کے عہدے تفویض کیے گئے۔

21؍ اگست 1970 کو اتفاق رائے سے مسلم اسٹوڈنٹس یونین (شاہ پور) کا نام بدل کر انجمن حیات نو شاہ پور رکھا گیا۔ عنایت الرحمن صدیقی، محمد اعظم اثر کے علاوہ فضل الرحمن شعلہ،سنگرام عبدالجلیل، مسعود عبد الخالق محمد جعفر الدین، محمد عبد الخالق چاند مختلف عہدیداران کی حیثیت سے انجمن سے منسلک ہو گئے۔

 انجمن (حیات نو) کا ترجمان جام حیات اور اس کے خاص نمبر جن میں مولانامحمد علی جو ہر فضل گلبر گوی، نیاز گلبر گوی، وقار خلیل نمبر قابل ذکر اشاعت ہیں۔ تصانیف اور مجموعہ کلام روئے گل (فضل گلبر گوی) حرف وفا (نیاز گلبر گوی) عکس کی ہجرت (راہی قریشی) نقش ہائے رنگ رنگ (فضل الرحمن شعلہ) مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیمی تصورات (محمد عبد الرزاق فاروقی) کی اشاعت بھی اس کا بہترین کارنامہ ہے۔

اردو اکادمی

وہ زبان جو عہد بہمنی سے یہاں رائج تھی اس زبان کی ترویج و ترقی کی خاطر عوام کے ان نمائندوں نے جنھیں اس زبان سے لگاؤ تھا 16؍ جنوری 1970 کو شہر گلبرگہ میں ایک انجمن اردو اکادمی کی بنیاد رکھی اس کا تعلق سرکار کی جانب سے قائم کی جانے والی اکادمیوں سے نہیں تھا۔ ہر سال اس اکادمی کے عہدیداران کا انتخاب ہوتار ہا۔ ڈاکٹر غیاث صدیقی کو پہلے صدر کا اعزاز حاصل ہے۔ اکادمی کا تر جمان زاویے (مدیر حامد اکمل) کی اشاعت اور عزیز حسین عابدی المعروف شور عابدی کے مجموعہ کلام خم کا کل کی اشاعت اس کا قابل ذکر کار نامہ ہے۔

سلامتی لٹریری فورم

گلبرگہ کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے چند محبان اردو نے ایک ادارہ روزنامہ سلامتی کے نام کی مناسبت سے 1972 میں سلامتی لٹریری فورم قائم کیا سید مجیب الرحمن کو اس فورم کی صدارت سونپی گئی۔ ادبی اور شعری نشستوں کے علاوہ عوام میں بیداری اور حالات حاضرہ سے مطابقت پیدا کرنے کے علاوہ 16؍ اگست 1976 کو منعقدہ اجلاس ایمر جنسی اور صحافتی ذمے داریوں، کی مدد سے حالات کو مزید ابتری سے بچانے کے لیے دانشوروں اور محب وطن کا رول ادا کرنے کے لیے باشعور شہریوں کو راغب کیا گیا۔

ادبی سنگم

 گلبرگہ کے چند نمائندہ قلم کاروں کے اجتماع نے 1970 میں ادبی سنگم کی تشکیل کی ادبی سنگم، اردواکادمی اور سلامتی لٹریری فورم کے اشتراک سے کئی ادبی جلسوں کا انعقاد کیا گیا۔

حیدر آباد کرناٹک اردو فرنٹ (مرکز) گلبرگہ :

ریاستی سطح پر اردو کے صحیح موقف کو اجاگر کرنے کے لیے ایک علاقائی لسانی تنظیم کا قیام ضروری سمجھا گیا۔ چنانچہ گلبرگہ کے چند اہل ذوق حضرات کے اجتماع میں 16؍ نومبر 1975 کو حیدرآباد کرناٹک اردو فرنٹ کا قیام عمل میں آیا اور سعادت حسین استاد کو صدر منتخب کیا گیا۔ سلیم ہزاری، ابراہیم مامون، اکرام باگ، قاسم شاہ پوری، ستار زخمی، خالد سعید وغیر ہ کو مختلف عہدوں پر مامور کیا گیا، فرنٹ کے ترجمان، سنگ زر کی اشاعت بھی عمل میں آئی۔

حیدر آباد کرناٹک اردو فرنٹ (شاخ) گرمٹکال

 اردو فرنٹ گلبرگہ کے معتمد سلیم ہزاری کی پر خلوص کوششوں سے گر مٹکال ضلع گلبرگہ میں 19؍ فروری 1977 کو فرنٹ کی ایک شاخ قائم ہوئی۔ جناب کشن راؤ مہندر کر کو صدر اور گرو نا تھے ریڈی کو نائب صدر مقرر کیا گیا۔ اور محب کوثر نے معتمدی کے فرائض انجام دیے۔ اردو فرنٹ گر نکال کا ترجمان آواز 1978 میں سائیکلو اسٹائل میں شائع کیا گیا۔

بزم خواتین

 حیدر آباد کرناٹک اردو فرنٹ کے تحت 12 فروری 1984 کو بزم خواتین کی تشکیل عمل میں آئی، ڈاکٹر لئیق صلاح اس کی صدر منتخب ہوئیں۔ صغری عالم، شاہدہ نسرین، تقدیس کوثر، نسرین فرزانہ اور رابعہ خانم نے مختلف عہدے سنبھالے، 14؍جنوری 1985 کو ایک بین الریاستی مشاعرہ برائے خواتین منعقد کیا گیا۔

انجمن امین ادب تماپور

جناب مبارک احمد ایڈوکیٹ کی سرپرستی میں چند باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ایک تنظیم انجمن امین ادب کے قیام کا فیصلہ کیا اور یکم جنوری 1978 کو اس فیصلہ پر عمل کیا گیا، محمد اسماعیل پرویز (معتمد، غلام احمد (شریک معتمد)، اور ملایوسف (خازن) کے عہدے پر فائز تھے، اس انجمن کے تحت تنہا تما پوری کے مجموعہ کلام چھلنی چھلنی سائبان اور انل ٹھکر کے ڈراموں کا مجموعہ اندھے رشتے کی رسم اجرا کی کامیاب تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

انجمن ارباب

اردو نو جوانوں اور طلبہ کے اشتراک سے جناب خلیل مجاہد، منظور وقار اور فاروق نشتر نے یکم مارچ 1986 کو انجمن انقلاب اردو کی بناڈالی دو ماہ بعد 19؍ مئی 1980 کو انجمن انقلاب اردو کا نام تبدیل کر کے انجمن ارباب اردور کھا گیا۔

ادبی مجلس

ڈاکٹر طیب انصاری کی صدارت میں ایک ادبی تنظیم ادبی مجلس کا احیا کیا گیا تھا۔ ادبی مجلس نے ادیبوں اور شاعروں کو ایک پلیٹ فارم عطا کیا، متعد داد بی جلسے اور شعری نشستوں کا انعقاد کیا گیا۔

 ایقان لٹریری فورم

گلبرگہ کا مشہور ہفت روزہ ایقان کی مناسبت سے گلبرگہ کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے 1987 میں ایقان لٹریری فورم کا قیام عمل میں آیا، سید مجیب الرحمن اس کے صدر منتخب ہوئے، شکیب انصاری، و ہاب عندلیب، مختار احمد منو، حامد اکمل، حنیف، قمر، امجد علی فیض، صادق کرمانی، وحید انجم، اور کوثر پروین فورم کے فعال کارکنان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اپریل 1993 کو ایقان کا خصوصی نمبر راہی قریشی شائع ہوا جو آئندہ محققین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔

کرناٹک کلچرل اکادمی

گلبرگہ کے چند اہل فن کے اجتماع نے 1986 میں کرناٹک کلچرل اکادمی قائم کی، شری اے ایچ پر ایک کا نام صدر کی حیثیت سے ملتا ہے، قاسم شاہ پوری محمد ابراہیم، محب کوثر، قاضی انور، وقار ریاض جیسے اہل ذوق حضرات اس سے وابستہ تھے، محب کوثر کے مجموعہ کلام ایاغ تازہ، کے علاوہ محبت کوثر کے فن اور شخصیت پر ایک سونیئر کی اشاعت بھی عمل میں آئی۔

ذہن جدید

محمد عبید اللہ صادق کرمانی، امجد علی فیض، حنیف قمر، رشید سگری، جیسے نوواردان سخن کی ادب پرستی نے اکتوبر 1989 کو ایک نئی تنظیم ادارہ ذہن جدید کو جنم دیا اور محمد عبید اللہ کو صدر بنایا گیا حامد اکمل، جبار جمیل، احمد جلیس، صابر شاہ آبادی، وہاب عندلیب، عبدالعظیم، سید مجیب الرحمن جیسے بزرگوں کی سرپرستی میں یہ نوجوان قلم کا رادبی نشستوں اور بحث و مباحث کا اہتمام کرتے۔ کبھی ممتاز افسانہ نگار حمید سہروردی اور اکرام باگ ان نشستوں کی زینت بڑھاتے، ڈاکٹر طیب انصاری جلیل تنویر، وحید انجم وغیرہ ذہن جدید کی نشستوں میں شریک ہوتے اور اپنے زریں مشوروں سے نوازتے۔

 حیدر آباد کرناٹک سوشیو کلچرل اسوسی ایشن (حکسلا):

ڈاکٹر طیب انصاری نے محمد بن علی کے اشتراک سے سلیمان خطیب کی صدارت میں حیدرآباد کرناٹک سوشیو کلچرل اسوسی ایشن (حکسلا) کی بناڈالی۔ راچپا انجینئر کا نام اس کے سر پرستوں میں شامل ہے۔

احمد جلیس ٹرسٹ

9؍ مئی 1996 کو ادبی دنیا کی ایک قد آور شخصیت احمد جلیس اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ٹھیک ایک سال بعد یعنی 9 ؍ مئی 1997 کو اہل گلبرگہ نے احمد جلیس کی یاد میں ایک ادبی ٹرسٹ احمد جلیس ٹرسٹ کے قیام کا اعلان کیا، اس ٹرسٹ کا مقصد نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ حامد اکمل (صدر) اور خواجہ پاشاہ انعامدار، امجد علی فیض، فہیم پیرزادہ، کوثر پروین و غیر ہ نے اراکین کی حیثیت سے اس ٹرسٹ کو فعال بنانے میں اہم خدمات انجام دیں۔ 19 مئی 1998 کو اس ٹرسٹ کا پہلا ادبی اجلاس، الکٹرانک میڈیا میں اردو، کے عنوان سے سمینار منعقد کیا گیا۔ اسلم فرشوری اور کبیر احمد (ڈائرکٹر دور درشن) شرکائے اجلاس تھے، توسیعی لکچر ز کا انعقاد، طنز و مزاح محفل افسانہ اور مختلف عنوانات پر لیکچرز اس کے اہم اجلاس تھے۔

بزم فروغ ادب

 گلبرگہ کے چند نوجوان اور ادبی ذوق رکھنے والے طلبہ و طالبات نے 1986 کے اواخر میں بزم فروغ ادب کی بنیاد ڈالی 1988 میں اس بزم کا رجسٹریشن ہوا محمد نظام الدین گولہ (صدر) سید سیف اللہ حسینی (نائب صدر) عبدالباری (معتمد) عبد الجبار گولہ (شریک معتمد) اور وقار ریاض (معتمد برائے تہذیبی امور) اپنے فرائض انجام دیتے رہے بعد میں وقار ریاض کو صدر منتخب کیا گیا۔ محترمہ صغریٰ عالم کے مجموعہ کلام حیطہ صدف کی رسم اجرا کی تقریب بزم نے شاندار پیمانے پر منعقد کی تھی۔ انجمن شبستان اردو نو جوانوں کی ایک تنظیم انجمن شبستان اردو کا قیام 1989 میں عمل میں آیا۔ فوزیہ چودھری اس کی صدر رہ چکی ہیں۔

بزم امان اردو

جعفر جاگیردار اور پروفیسر حمید اکبر کی سرپرستی میں چند اہل ذوق طلبہ و طالبات نے 16؍ فروری 2002 کو بزم امان نامی انجمن کے قیام کا ارادہ کیا 16؍جون 2002 کو انجمن کے عہد یداران کا انتخاب کیا گیا۔ مشتاق احمد سہر وردی صدر کوثر پروین اور رشید سگری نائبین صدر حافظ شکیل احمد معتمد اور ہاجرہ پروین کو شریک معتمد چنا گیا۔ ضیا ساجد، اسد اللہ حسینی، کلیم اللہ حسینی، منظور احمد دکنی ارکان بزم کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ماہانہ ادبی اجلاس کے علاوہ مختلف جلسوں کا انعقاد بھی ہوتا رہا۔ عبدالستار خاطر کی تصنیف خیابان خاطر کی رسم اجرا کا جشن بھی منایا گیا۔ ممتاز بیگم کا تحقیقی مقالہ کتابی شکل میں بعنوان ’ ڈاکٹر محمد طیب انصاری‘ کی خدمات شائع ہوا۔ اس کی بھی رسم اجرا کا انعقاد کیا گیا۔ تین سال تک پابندی سے ادارہ ادبیات اردو کے امتحانات کا انعقاد ہوتا رہا۔ 2002 تا 2006 بزم امان فعال رہی 2006 کے بعد عہدیداران کی ملازمت کے سلسلے میں مستقر سے دوری بزم سے تعطل کا سبب بنی۔

ادبی اجلاس اور مشاعروں کا انعقاد زبان کی ترقی و ترویج میں ایک اہم رول ادا کرتے ہیں لیکن یہ کارنامے انجمنوں کے سرگرم رہنے تک ذہن میں محفوظ رہتے ہیں بعد میں ذہن سے محو ہو جاتے ہیں باضابطہ تحریر کی شکل میں ان کا رناموں کو محفوظ کرنے کے لیے انجمنوں نے اپنے ترجمان، تصانیف مجموعہ کلام کی اشاعت سے اپنے کارناموں کی دستاویز کی شکل میں محفوظ کر لیا۔

مذکورہ انجمنوں نے مختلف افراد کو مختلف عہدوں پر نامزد کر کے انجمن کو جاندار بنانے کی سعی کی ہے اور با صلاحیت افراد کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے بہترین مواقع بھی عطا کیے ہیں۔

 گلبرگہ کے ادبی ماحول کے فروغ میں تعلیمی اداروں میں طلبہ کی انجمنیں بھی اپنا ایک اہم رول ادا کرتی ہیں جن میں گورنمنٹ کالج گلبرگہ کی بزم اردو، اور جامعہ گلبرگہ شعبہ اردو کی بزم ادب اردو قابل ذکر ہیں۔ گورنمنٹ کالج گلبرگہ کی بزم اردو کے زیر اہتمام کئی یادگار سمینار، کل ہند مشاعرے، بین الکلیاتی علمی واد بی مقابلہ جات منعقد ہوتے رہے۔ شعبے سے وابستہ اساتذہ، سید مبارز الدین۔ رفعت محمد ہاشم علی حسن،محی الدین صدیقی غیرت، محترمہ بہجت شیرازی، ڈاکٹر طیب انصاری، ڈاکٹر جلیل تنویر، جناب سعید شاہد، جناب روف خوشتر، محترمہ رحیم انسا و غیر ہ نے طلبہ میں مسابقتی جذبات کو ابھارنے اور مقابلہ جات کے انعقاد میں اپنا بھر پور تعاون دیا۔

شعبہ اردو جامعہ گلبرگہ کی بزم ادب اردو کے زیر اہتمام برسوں سے طلبہ کے لیے بین الکلیاتی مقابلہ جات کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔ شعبے کے اساتذہ پروفیسر راہی قریشی، پروفیسر قیوم صادق، پروفیسر محترمہ لئیق صلاح، پروفیسر حمید سہروردی، پروفیسر عبدالحمید اکبر، پروفیسر عبدالرب استاد کی مساعی نے طلبے کی صلاحیتوں کو ابھارنے، اظہار قدرت پر مہارت اور معلومات میں اضافے کے لیے راہیں ہموار کرتی رہیں۔ تہذیب و ثقافت اور ان کے مختلف مظاہر کو خاص سمت میں ترقی دینے اور ان کی رفتار کو تیز تر کرنے میں انجمنیں ایک اہم رول ادا کرتی رہی ہیں۔

 

Dr. Kauser Fatima

Associate Professor, Department of Urdu

Got Degree Collage

Sedam- 585222

Dist: Kalaburagi (Karnataka)

Mob: 9449638647

dr.kauserfatima71@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...