16/7/24

وسط ہند کا ایک اہم شاعر ناطق گلاؤٹھی، مضمون نگار: محمد اسرار

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


ناطق نے اپنی زندگی میں کافی شہرت حاصل کی۔ انھیں ملک کے بڑے مشاعروں میں بڑی عزت کے ساتھ بلایا جاتا تھا۔ ان کی شخصیت بھی بڑی رعب دار تھی۔ ناطق کی پیدائش 11 نومبر 1886کو کامٹی میں ہوئی۔  1  یہ کامٹی کی ایک مشہور بستی وارث پور میں پیدا ہوئے۔ یہاں ان کے تایا مرحوم نعیم الدین داروغہ نے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی تھی جو آج بھی قائم ہے اور داروغہ مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ اب یہ مسجد کافی کشادہ ہے۔ نئے طرز کی عمارت بن گئی ہے۔ ان  کے والد کا نام ظہورالدین حسن تھا۔ ان کا نام ابوالحسن رکھا گیا۔ یہی ابوالحسن مستقبل میں مولانا ناطق گلاوٹھوی کے نا م سے شعرو ادب کی دنیا میں مشہور ہوئے۔ انھوں  نے اس زمانے کے دستور کے مطابق عربی، فارسی ،اردو کی تعلیم مختلف مدرسوں میں حاصل کی۔ ابتدائی 8 سال کامٹی میں گزارنے کے بعد 1894میں اپنے والد کے ساتھ گلاؤٹھی گئے۔ یہاں انھوں نے مولانا عبدالعزیز صاحب سے اور بعد ازاں دارالعلوم دیوبند میں شیخ الہند مولانا محمودالحسن صاحب سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ حکیم احسن صاحب سے طب کی کتابیں بھی پڑھیں۔ 2

اس زمانے میں اردو و فارسی کی تعلیم کا اثر یہ تھا کہ کم عمری میں ہی ذہین افراد شعروشاعری کی جانب راغب ہوجاتے تھے۔ ناطق نے بھی قریب 15 سال کی عمر میں شاعری شروع کردی تھی۔ لیکن اس وقت کا کلام شاید دستیاب نہیں ہوسکا۔ اس لیے مرتب دیوان ناطق، محمد عبدالحلیم نے وضاحت کی کہ اس دیوان میں 1930 سے 1969 تک کا کلام شامل ہے۔  3 

شعرو سخن کی دنیا میں ہرمبتدی کو استاد کی تلاش ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کا استاد واقعی کا مل ہو۔ابتدا میں بیان میرٹھی سے اصلاح کی لیکن 1900میں بیان کا انتقال ہو گیا۔ ناطق نے کافی غوروفکر اور مختلف استاد شاعروں کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد داغ کی شاگردی کا فیصلہ کیا۔ داغ دہلوی اس وقت کے سب سے کامل استادشاعر تسلیم کیے جاتے تھے۔ ذوق، غالب، ظفر کا زمانہ انھوں نے دیکھا تھا اور غالب کے ساتھ مشاعروں میں پڑھابھی تھا۔ داغ کا شاگرد ہونا ایک بڑے اعزاز کی بات تھی۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ناطق اپنے وطن میں تھے۔ لہٰذا خط و کتابت سے اصلاح کا سلسلہ 1904 میں شروع ہو ا اور قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ 1905 میں ہی داغ کا انتقال ہوگیا۔ ناطق داغ سے کچھ ہی غزلوں پر اصلاح لے پائے تھے۔ داغ کے بیشتر شاگردوں نے بعد میں کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی۔ ناطق نے بھی طے کرلیا کہ اب کسی کی شاگردی میں نہیں رہنا ہے۔ حالانکہ اگر عمر دیکھی جائے تو صرف 19برس کی تھی۔ لیکن خود پر اتنا یقین تھا کہ کسی کو اپنا کلام نہیں دکھایا۔

ناطق اپنے والد کے انتقال کے بعد 1908 میں ناگپور آگئے۔  ناگپور آنے کے بعد ہی ناطق کی شاعری کو عروج حاصل ہوا۔ وہ خود علم وادب کے شوقین تھے۔ مزاج بھی تھا کہ علم وادب کی ترقی ہو۔ لہٰذا اس بات کے لیے تا عمر کوشش بھی کرتے رہے۔ انھیں سماجی زندگی گزارنے کا شوق تھا۔ انھوں نے سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیا اور تقریباً 30 سالوں تک ناگپور بلدیہ کے رکن رہے۔ انھوں نے تقریباً 65 سالوں تک شاعری کی۔ یقینا اتنے طویل عرصے میں انھوں نے بہت کچھ کہا ہوگا۔ لیکن افسوس کہ ان کا صرف ایک دیوان شائع ہوا۔ وہ بھی ان کے انتقال کے بعد اکتوبر 1976  میں۔ جسے محمد عبدالحلیم صاحب نے ترتیب دے کر شائع کروایا۔ اس میں 203 غزلوں کے علاوہ متفرق اشعار ایک قطعہ شاعر کے پوتے کی تاریخِ وفات پر ، 6 رباعی، کچھ نظمیں، خمسہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے جو کچھ کہا وہ کہاں گم ہوا،یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ان  کے کلام کا کافی حصہ کسی نہ کسی صورت ضائع ہوگیا۔ مرتب کو جو کچھ ملا وہ اس دیوان میں شامل ہے۔ ان  کی غزلوں میں اس دور کا عام رجحان پایا جاتا ہے۔ لیکن ان کی زبان نہایت ہی اعلیٰ درجے کی ہے۔ غزلیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہایت قادر الکلام شاعر تھے۔ اشعار ملاحظہ کریں          ؎

مصلحت وقت کی آج اور ہے اے بادہ فروش

کل کی کل سوچیں گے اس وقت تو دکان اٹھا

وجہ رسوائی ہے ناطق، مستیِ بزم سخن

بادہ پیما ہیں بجامِ غالب مستانہ ہم

اس طرح کے اشعاران کے دیوان میں کثرت سے موجود ہیں۔ ناگپور کامٹی کے سخن فہم حضرات جو بڑی عمر کے ہیں اور جنھوں نے ناطق کو مشاعروں میں سنا ہے وہ بتاتے ہیں کہ وہ بڑے رکھ رکھاؤ اور تہذیب والے شخص تھے۔ وہ مشاعروں میں گاکر پڑھنے کے سخت خلاف تھے۔ وہ خود تحت میں پڑھتے تھے، آواز بلند اور لہجہ صاف ستھرا تھا۔ زبان کی باریکیوں اور شعر کی فنّی خوبیوں سے وہ پوری طرح واقف تھے۔ وہ جو صرف ترنم کی بنا پر مشاعروں میں چھاجاتے ہیں ان پر طنز کرتے ہوئے ناطق نے کہا۔

کانوں میں عوام کے سمانا سیکھو

لکھو کچھ بھی، گلابجانا سیکھو

شاعر بننے کی ہے ہوس تو ناطق

سارنگی طبلے پر گانا سیکھو5

غالب کی اتباع میں کچھ مشکل ردیف میں بھی بخوبی غزل کہی اور بہت عمدہ مضامین نکالے ہیں۔مثلاً ان اشعار پر غور کیجیے            ؎

ہم پاؤں بھی پڑتے ہیں تو اللہ رے نخوت

ہوتا ہے یہ ارشاد کہ پڑتے ہیں گلے آپ

لے چلی ہے مجھ کو صحرا کی کشش

چارہ گرلے اب مری زنجیر کھینچ

رہ نوردان وفا، منزل پہ پہنچے اس طرح

راہ میں ہر نقشِ پامیرا بناتا تھا چراغ

لو جنوں کی سواری آپہنچی

میرے دامن پہ چل رہا ہے چاک

آپ ان اشعار سے سمجھ سکتے ہیں کہ واقعی ناطق کو مضامین کے برتنے پر عبور حاصل تھا۔  ان کے کلام کے متعلق آغاغیاث الرحمن نے اپنی کتاب ادبیات و دربھ میں نیاز فتح پوری کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

’’ناطق گلاؤٹھوی تغزل کے دیرینہ گرفتار ہیں اور کسی خاص اسکول کے پابند نہ ہونے کے باوجود ان کا اندازِ بیان ہمیں اساتذۂ دہلی کی یاد دلاتا ہے۔ یہ معاملاتِ حسن و عشق کو اسی زبان میں ادا کرتے ہیں جو تغزل کے لحاظ سے معیاری سمجھی جاتی ہے اور بعض اوقات یہ اپنے خیال کو ایسے پہلو سے پیش کرتے ہیں کہ سننے والا ’’دفعتاً چونک پڑتا ہے‘‘  6

نیاز فتح پوری کی یہ رائے نہایت قیمتی سمجھی جاسکتی ہے۔ نیاز صاحب جیسے سخت نقادکی یہ رائے مولانا ناطق کے عمدہ شاعر ہونے کی دلیل ہے۔ عام طور سے شاعر کی کوشش ہوتی ہے کہ مختلف بحروں میں طبع آزمائی کرے۔ رواں بحروں کے علاوہ انھوں نے طویل بحر میں بھی کلام کہا ہے۔ ایک غزل کا مطلع اور مقطع ملاحظہ کیجیے         ؎

اس انجام تک، اس کو لے جا کے پہنچا ، جہاں سے پھر آغاز ہونے نہ پائے

غم دو جہاں، کھا کے بیباق کردے، یہاں کچھ پس انداز ہونے نہ پائے

اگر شاعری، ساحری ہے تو ناطق، خوشی ہے ہمیں اپنی جادوگری کی

نبوت کا دعویٰ یہاں ہوتو غم ہو، اگر شعر اعجاز ہونے نہ پائے   7

شاعری کو ساحری اکثر کہاگیا ہے۔ شعرا گرتاثیر رکھتا ہے تو وہ واقعی ساحری کا کام کرتا ہے۔ ایک عمدہ شعر برسوں تک لوگوں کی زبان پر رہتاہے۔ حشر اورحساب کتاب پر ار دوشاعری میں کافی مشہور اشعار موجود ہیں۔ اسی طرز کے مضمون کو ناطق نے یوں کہا ہے          ؎

داور محشر بتاؤں کیا، گناہوں کا حساب

کام ہی دنیا میں، اور اس کے سوا کیا تھا مجھے

اسی غزل کا یہ شعر بہت مشہور ہوا تھا اور آج بھی مختلف موقعوں پر لوگ یاد کرتے ہیں کہ         ؎

ساتھ بھی چھوڑ ا تو کب، جب سب برے دن کٹ گئے

زندگی تونے، کہاں، لاکر دیا دھوکا مجھے

غالب کو تمام ہی شعرا تسلیم کرتے ہیں اور مختلف انداز میں غالب کی تعریف کی جاتی رہی ہے۔ میر کے بعد غالب ہی سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر رہے ہیں۔ غیراردوداں حضرات بھی غالب کے نام سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ناطق نے مرزا کی شاعری کی یوں داد دی ہے        ؎

واہ رے حسن بیاں ، اللہ رے اندازِ کلام

میرزا غالب ہے ناطق ، یوسف ِ ثانی مجھے

خوداپنی بھی تعریف انھوں نے اس انداز میں کی ہے۔ غالب کے حوالے سے اپنی تعریف دیکھیے        ؎

شاعری جس کی ہو، انداز سخن میں ناطق

دوسرا کون ہے غالب کے سوا میرے بعد

عہدِ زرّیں کے اہم شاعروں اور ان کے اندازِ بیان کو تسلیم کرتے ہوئے مولانا ناطق کا شعر ہے       ؎

مومن پہ بھی ایمان ہے، غالب پہ بھی ناطق

ہم ذوق کے انداز میں رہتے ہیں مگن اور

ناطق غالب  کے چاہنے والے تھے۔ انھوں نے غالب کے دیوان کی شرح لکھی جو ’کنزالمطالب‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کا سنہ اشاعت 1968ہے۔ ڈاکٹر سروشہ نسرین نے ناطق کی حیات وخدمات پر تحقیق کی ہے۔ ’مولانا ناطق گلاؤٹھوی‘ میں وہ لکھتی ہیں:

’’یگانہ نے اپنے مضمون میں غالب کی شاعری پر کئی اعتراضات کیے تھے۔ مولانا ناطق چونکہ غالب پر ست تھے اور فنِ شاعری پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے یگانہ کے ہر اعتراض کا تفصیلی جواب ماہنامہ ’خیال‘ ہی میں ایک مضمون ’آتش پرست‘ کے عنوان سے تحریر کرکے دیا۔‘‘ 8

یہ تو سب جانتے ہیں کہ یگانہ کو غالب کی مخالفت کرنے پر بہت کچھ برداشت کرنا پڑا۔ ان کے غالب پر لکھے گئے مضامین کا کئی لوگوں نے جواب دیا ہے۔

ناطق کو فن شاعری پر دسترس تھی اس بات کا اس وقت کے ناقدوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ نیاز فتح پوری اس کی مثال ہیں۔ اس کے علاوہ وسط ہند کے پورے علاقے میں یہ بات مشہور تھی کہ ناطق مشاعرو ں میں اگر کسی شاعر کو غلط شعر پڑھتے ہوئے دیکھتے یا بحر سے خارج،  یا وزن کے اعتبار سے اگر شعر میں خامی ہو تو اسے ٹوک دیتے تھے۔ ناطق کی نظر میں شاعری ایک اہم کام تھا۔ وہ اسے بے جانہیں سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے جو شخص 15 یا 16 سال کی عمر سے شاعری کر رہا ہو اور تقریباً 65 برس اس دشت کی خاک چھان چکا ہو تو وہ اسے ایک ضروری کام ہی خیال کرے گا۔ ناطق شاعری میں لغویات سے پرہیز کرتے تھے۔ ان کے کلام میں آپ کہیں بھی ایسا مضمون نہیں دیکھ سکتے جسے تہذیب کے خلاف سمجھا جاسکے۔ ہاں کہیں کہیں نہایت چبھتا ہوا طنز اور کہیں شوخی بھی موجود ہے۔ یہ دونوں باتیں اردو شاعری کا جزو ہیں۔ اگر شاعری میں شوخی بالکل نہ ہو تو کلام کچھ پھیکا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح حالات کو دیکھتے ہوئے اگر شاعر طنز یہ مضامین سے بالکل اجتناب کرے تو سچ کہیں پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔

غرض یہ کہ ناطق کو کلاسیکی شاعری کا ایک اچھا شاعر تسلیم کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ناطق کی شخصیت اور فن پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر شرف الدین ساحل، ڈاکٹر سروشہ نسرین، ڈاکٹر ایم آئی ساجد وغیرہ نے کام کیاہے۔ اگر وہ کلام مل جائے جو کہیں ضائع ہو چکا ہے تو شاعر کی خوبیوں پر زیادہ روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔

 

Mohd Asrar

Research Scholar, Dept Urdu

Rashtrasant Tukadoji Maharaj Nagpur University

Nagpur - 500032 (MS)

Cell: 9822724276

asrarmohammad1977@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...