18/7/24

اختر الایمان کی شاعری کے موضوعات، مضمون نگار: نہاں

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


اخترالایمان کی شاعری فکر و فن دونوں اعتبار سے اہم ہے۔ اس میں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور اسلوب و تکنیک کی رنگا رنگی بھی۔پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں:

’’اخترالایمان کی نظموں میں زندگی کے سبھی رنگ ملتے ہیں۔ اخترالایمان نے خود بھی زندگی سے آنکھیں چار کی ہیں اور اپنے پڑھنے والوں کو بھی یہ حوصلہ دیا ہے۔‘‘

(اخترالایمان عکس اور جہتیں، شاہد ماہلی، معیار پبلی کیشنز گیتا کالونی دہلی، 2000، ص 65)

اخترالایمان کی شاعری میں زندگی کے بیشتر رنگ جھلملاتے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں وہ تمام رنگ نظر آتے ہیں جو عام طور پر انسانی زندگی میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ان کی شاعری میں انسانی زندگی کاالمیہ سیل رواں کی مانندہے۔ ان کی شاعری میں مختلف النوع موضوعات اس لیے بھی در آئے ہیں کہ ان کا مشاہدہ عمیق اور طبیعت حساس ہے۔ ان کی طبیعت اس قدر حساس ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا واقعہ،جو انسان کی نفسیاتی و سماجی زندگی کا حصہ ہو، ان کی نظم کا موضوع بن جاتا ہے۔اس کی واضح دلیل ان کی خودنوشت ’اس آباد خرابے میں‘ ہے۔ جس میں انھوں نے اپنی زندگی کے سفر کی داستان بیان کی ہے۔

اخترالایمان کی شاعری کے موضوعات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان میں زندگی کے دو پہلو بیان ہوئے ہیں۔ ایک ان کی داخلی زندگی سے ہم آہنگ ہے اور دوسرا ان کی خارجی زندگی سے متعلق۔ دونوں ہی پہلو ان کے احساس کی گرفت میں  ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی میں مختلف نشیب و فراز تو دیکھے ہی، اپنے آس پاس رہنے والے دوسرے لوگوںکی زندگیوں کے کرب و اضطراب کو بھی شدت سے محسوس کیا۔ اخترالایمان کا بچپن جن حالات میں گزرا، اور ان کے ذہن و دل پر جو اثرات مرتب ہوئے ان کا نقش تادمِ آخر ان کے ذہن و دل پر قائم رہا۔ گھر میں افلاس کا بسیرا تھا، اوپر سے والد غیر ذمے دار اور حد درجہ لا پرواہ، جس کے باعث ماں باپ کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول بنا رہتا تھا۔ اخترالایمان اگرچہ کم سن تھے، مگر ان کی کمسن نگاہوں میں وہ تمام مناظر اس طرح جذب ہو گئے کہ ان کی چبھن کبھی ان کے ذہن و دل سے نہ نکل سکی۔ ان کی ٹیس ان کے سینے میں ان کی زندگی کے آخری دم تک چبھتی رہی۔

اخترالایمان کی نظموں میں روایت پسندی سے گریز اور نئی زندگی کی طرف بڑھنے کا رجحان ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جن کا بیان اُن سے پہلے کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ انسان کی ذہنی اور جذباتی کیفیات، اس کی داخلی اور خارجی دنیا، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف معاملات و مسائل وغیرہ ایسے موضوعات ہیںجواس عہد کی ترقی پسند شاعری سے بالکل مختلف نظرآتے ہیں۔ وہ روایتی قسم کے رومانی موضوعات کے بجائے اپنے عہد کی زندگی کے حقائق پر نگاہ رکھتے ہیں۔ اپنے عصر کے انسان کی خود غرضی، تشدد اور جارحیت پسندی سے انھیں دکھ پہنچتا ہے۔ ان کی شاعری کا کردار وہ ہے جس نے دنیا میں امن و سکون اور محبت کی خواہش کی تھی، جو اپنے خوابوں کی دنیا کا شیش محل سجانا چاہتا تھا۔ جس کی آرزو تھی کہ یہ دنیا گلوں کا مسکن ہو، زمین کے سینے سے شگوفے پھوٹیں، نئے چمن آباد ہوں، جن سے رنگ و نور مل سکے۔ کوئی ایسا ہو جس کی آغوش میں اسے سکون مل سکے۔ لیکن جب اخترالایمان نے اپنے خوابوں کی اس دنیا کو ٹوٹتے پایا تو خدا سے شکوہ بھی کیا          ؎

مگر مجھے کیا دیا یہ تو نے

شباب اک زہر میں بجھا کر

خراب آنکھیں  لہو رُلا کر

خدائے عالم، بلند و برتر

نہ ایک مونس بھی ایسا بخشا

کہ جس کی آغوش میں تڑپ کر

سکون کے ساتھ مر سکوں میں

ایک مخلص اور ایمان دار شاعر کی طرح اخترالایمان ہر وہ بات بیان کرتے چلے جاتے ہیں جو ان کے دل پر گزرتی ہے۔ کسی تحریک کا کوئی منشور، کسی رجحان کا کوئی ضابطہ ان کے اس شعری خلوص میں مانع نہیں ہوتا۔ وہ تقلید کے قائل نہیں اپنی راہ الگ بنانا چاہتے ہیں اور انھیں اس بات کا سلیقہ بھی ہے کہ اپنے موضوعات کو کس قدر طاقتِ پرواز دی جائے کہ وہ پر اثر بن جائیں۔

اخترالایمان کے زیادہ تر موضوعات ان کی ذاتی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اسی لیے وہ پڑھتے وقت روداد معلوم ہوتے ہیں مگر انھیں سیدھے سادے انداز کے بجائے رمز و علائم کے انداز میں پیش کرنے سے ان کی معنویت بڑھ گئی ہے اور بیان کے حسن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہی وہ مخصوص انداز ہے جو ان کی شاعری میں رزمیے کی شان پیدا کرتا ہے اور انھیں دوسروں سے منفرد بھی بناتا ہے۔ رمزیت اور اشاریت سے ان کی شاعری میں تہہ داری بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ ذات سے باہر کی زندگی سے تعلق رکھنے والے موضوعات میں بھی کہانی والے بیانیے کا رنگ نمایاں ہے مگر وہاں بھی اخترالایمان کی رمزیت حاوی رہتی ہے جوکہانی لگنے والی تخلیق کو شعری رنگ و آہنگ بخش دیتی ہے۔ جمیل جالبی نے ایک جگہ لکھا ہے:

 ’’ان کے یہاں سماجی شعور کا احساس بہت شدید ہے اور اس کا اثر ان کے مزاج میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ قاری تو ان احساسات اور جذبات کو محسوس کر لیتا ہے لیکن خود شاعر کو وہ نظر نہیں آتے۔‘‘

جمیل جالبی کی یہ بات تو سو فی صد درست ہے کہ اخترالایمان کی شاعری میں سماجی شعور کا احساس بہت شدید ہے مگر ان کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے سماجی شعور والے جذبات و احساسات کو قاری تو محسوس کر لیتا ہے لیکن خود شاعر کو وہ نظر نہیں آتے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اختر الایمان کو سب کچھ نظر آتا ہے اور خوب نظر آتا ہے۔ جمیل جالبی کو یہ غلط فہمی شاید اس لیے پیدا ہوئی کہ اخترالایمان چوں کہ ترقی پسندوں سے خود کو مختلف رکھتے تھے اور یہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ ترقی پسندی کا ٹھپہ ان پر لگ جائے، ایسا رویہ رکھنے والا سماجی شعور کا اظہار بھلا اس طرح کیوں کر کر سکتا ہے جس طرح اخترالایمان نے کیا مگر یہ بات لکھتے وقت جمیل جالبی صاحب کو یاد نہیں رہا کہ معاشرے کے ایک آباد خرابے میں رہنے اور مسلسل کرب و آلام جھیلنے والے کی آہیں اور کراہیں کسی مقام پر چیخ بھی بن سکتی ہیں۔

اخترالایمان کی شاعری کی عمارت صرف اپنے گھر کے آنگن اور گاؤں دیہات کی مٹی سے بنے گارے سے ہی تیار نہیںہوئی بلکہ شہروں خصوصاً فلم نگری ممبئی کی زندگی کے سیمنٹ، سریا اور پتھروں کے سہارے بھی بلند ہوئی۔ اخترالایمان فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہے، معروف و مشہور ہستیوں سے ان کا واسطہ رہا، صاحب ثروت اشخاص کی زندگی کے طور طریقے انھوں نے دیکھے، غریبوں کا استحصال کر کے مالداروں کو اپنی تجوریاں بھرتے ہوئے دیکھا، امیر کو اور امیر، غریب کو اور غریب بنتے ہوئے مشاہدہ کیا۔ گویا گاؤں کے کچے گھر سے لے کر شہروں کے پکے مکان تک کے سفر میں اخترالایمان نے جو بھی دیکھا، بھوگا اور سہا اس نے انھیں اس حد تک حساس بنا دیا کہ انھوں نے ایک ایک درد،ایک ایک کرب کو اپنی شاعری کا حصہ بنا لیا۔اس طرح ان کی شاعری فکری طور پر وسیع ہو گئی۔  اخترالایمان کے شعری سفر کو انھیں کے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتاہے         ؎

صبح اٹھ جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں

اور روٹی کے تعاقب میں نکل جاتا ہوں

شام کو ڈھور پلٹتے ہیں چراگاہوں سے جب

شب گزاری کے لیے میں بھی پلٹ آتا ہوں

’صبح اٹھ جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں‘ یہ مصرع  اخترالایمان کی زندگی کی ترجمانی تو کرتا ہی ہے ساتھ ہی ان انسانوں کی زندگی کی عکاسی بھی کرتا ہے جو رات کی نیند کو ادھوری چھوڑ کر دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے بستروں سے نکل پڑتے ہیں اور صبح سے شام تک محنت و مشقت میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اپنی ذات کے حوالے سے  انھوں نے اس موضوع پر نظمیں لکھیں، اس کے پردے میں ان بے شمار لوگوں کی زندگیوں پربھی روشنی ڈالی ہے جو گاؤں سے شہر کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے۔ یہی سبب ہے کہ مادیت پرستی یا موجودہ صنعتی نظام کے خلاف احتجاج اخترالایمان کی شاعری میں ایک مستقل موضوع کی حیثیت اختیارکرگیا۔ انھوں نے اس تناظر میں کئی نظمیں کہی ہیں۔  نظم ’عہدِ وفا‘ کے یہ الفاظ:

’’یہ کہہ کر گیا ہے کہ میں سونے چاندی کے گہنے ترے واسطے لینے جاتا ہوں رامی‘‘

یہ ان خواہشوں اور خوابوں کا علامتی بیان ہے جن کی تعبیرپانے کے لیے انسان اپنے آپ کو پُر شور بھیڑ میں گُم کر دیتا ہے اور اپنے پیچھے ان منتظر نگاہوں کو چھوڑ جاتا ہے جو بس انتظار ہی کرتی رہتی ہیں۔

اخترالایمان کی شاعری کے موضوعات میں ایک اہم اور نمایاں موضوع موجودہ مادی نظام سے بیزاری بھی ہے۔ اس نظام سے وہ اس لیے بھی بیزار ہیں کہ اس نے اچھے خاصے انسان کو مفاد پرست، لالچی اور چاپلوس بنادیا ہے،اس کی اچھی خصلتوں پر بری عادتوں کو غالب کردیا ہے۔ اس نے حیاتِ انسانی سے وابستہ فطری نظام کے دھاگوں کو الجھا دیا ہے۔ اس موضوع سے متعلق اپنے افکار کو اخترالایمان نے اپنی مشہور نظم ’ایک لڑکا‘ میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ اس نظم میں فطری اور غیر فطری، خودداری اور چاپلوسی، ایثار وقربانی اور مفادپرستی تمام پہلوؤں کو انھوں نے بڑے ہی پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ نظم یوں تو اخترالایمان کی آپ بیتی کہلاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نظم پوری بنی نوعِ انساں کی جگ بیتی بن گئی ہے۔ عصرِحاضر میں انسان کس طرح اپنی فطری زندگی سے بچھڑ کر ہنگامہ آرائی اور استحصالی بھول بھلیوں میں گم ہوگیا ہے اس حقیقت کا بڑا ہی موثر بیان نظم میں ملتا ہے۔

مٹتی ہوئی تہذیبی اور اخلاقی قدریں بھی اخترالایمان کی شاعری کے اہم موضوعات رہے ہیں۔ ایسالگتاہے کہ انھیں قدیم تہذیب سے بے انتہا محبت ہے۔ وہ اسے انسانیت کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ وہ تہذیب جس نے ہماری نسلوں کی زندگیاں سنواری۔ ان کے اندر صالح قدریں پیدا کی۔ان کردار و اطوار کو نکھارا وہ محض ماضی کا حصہ بن کر رہ جائیں، ان کا خیال ہے کہ اگر ہماری تہذیب ختم ہوگئی تو نہ صرف یہ کہ پورے ایک عہد کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ پوری انسانیت ہی مرجائے گی۔ نئی تہذیب انسانیت کو آگے نہیں بڑھنے دے گی اس لیے کہ نئی تہذیب کے اندر محض تصنع اور بناوٹ ہے، وہ فطرت اور فطری حسن سے عاری ہے، وہ انسان کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتی بلکہ انسان کو ایک مشین بنادیتی ہے جس میں ضمیر و احساس نہیں ہوتا۔ اخترالایمان چاہتے ہیں کہ ایسی تہذیب رواج نہ پائے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارا تہذیبی اثاثہ نہ صرف محفوظ رہے بلکہ وہ ہماری زندگی میں گھلا ملا بھی رہے اور ہماری زندگی اس تہذیب کے سائے میں آگے بڑھے۔اسی لیے وہ معدوم ہوتی ہوئی پرانی تہذیب کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اور اس کے آثار کو دیکھ کر غمزدہ ہوجاتے ہیں۔ان کی نظم ’مسجد‘ اسی تہذیب کا علامیہ ہے۔ اس نظم میں اخترالایمان نے تہذیبی اور انسانی اقدار کی بربادی کامرقع کھینچا ہے۔ اخترالایمان کو ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ موجودہ نسلوں کے جمود و غفلت کے نتیجے میں ہماری تہذیب کا بچا کچھا ملبہ بھی نہ ختم ہو جائے۔ چند اشعار دیکھیے      ؎

تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش

چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی

کل بہالوں گی تجھے توڑ کے ساحل کے قیود

اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی

اخترالایمان کی شاعری میں غربت وافلاس کا مسئلہ بھی بار بار آیا ہے۔اس لیے کہ وہ غربت کی کوکھ سے پیدا ہونے والے مسائل سے واقف ہیں۔ان کی اپنی زندگی کا اچھا خاصا حصہ اسی غربت کے عالم میں گزرا تھا اور انھوں نے دوسرے بہت سے ایسے لوگ بھی دیکھے جن پر غربت نے بڑے ستم ڈھائے تھے۔ غربت کے موضوع کو دوسرے شعرا نے بھی اپنی شاعری میں برتاہے لیکن ان کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے غربت کی تصویریں کچھ اس انداز سے بنائی ہیں کہ پڑھتے وقت وہ متحرک ہو جاتی ہیں اور دیکھنے والے کے جذبات بھی بر انگیختہ ہو جاتے ہیں۔

تقسیم وطن اور سلسلہ فسادات جیسے موضوعات بھی ان کی شاعری میں موجود ہیں۔ تقسیم وطن اور فرقہ وارانہ فسادات نے انسانیت کو جونقصان پہنچایا، جس طرح عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے قتل کیے گئے، گھر اجڑے، آبائی گاؤں اور مکانات چھوٹے، انھوں نے حساس اور دردمند انسانوں بالخصوص ادیبوں، فنکاروں اور شاعروں کی آنکھوں کو اشک بار کیاہے۔

اخترالایمان کی شاعری میں فنا و بقا، تہذیب ومعاشرت، سماج کی نا انصافی، جبر و استحصال، عدمِ مساوات، حال و استقبال اور فکر و فلسفے جیسے موضوعات بھی شامل ہیں جو ان کی شاعری کے کینوس کو وسیع کردیتے ہیں۔ اس نوع کے مضامین اخترالایمان نے مسجد، پرانی فصیل، ایک لڑکا، نقش پا، میرانام، ناصرحسین جیسی نظموں میں برتے ہیں۔ ان کی نظم’پگڈنڈی‘ اسی قبیل کی بہترین نظم ہے۔ نظم میں زندگی کے کئی پہلو اجاگر ہوئے ہیں۔اس کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی بل کھاتی ہوئی شادیانوں کی آوازوں اور مسرت کے قمقموں کی روشنیوں سے گزرتی ہے، تو کبھی مایوسی اور شکست خوردگی کے گہرے احساسات سے دو چارہوجاتی ہے۔ یہ نظم صرف حقیقت کا مظہرہی نہیں بلکہ تاثیر و غنائیت سے پُر بھی ہے جو اخترالایمان کی شاعری کا خاصہ ہے۔

 

Neha

Research Scholar, Dept of Urdu

Allahabad University

Prayagraj- 211002 (UP)

Cell.: 7985966630

nehaansariali@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...