18/7/24

عطیہ فیضی: ایک شعلۂ مستعجل، مضمون نگار: محمد ارشاد

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


 

ہندوستان میں تعلیم نسواں کے باب میں عطیہ فیضی کا نام قابل ذکر ہے۔ اپنی نجی زندگی سے قطع نظر عطیہ نے ہندوستان میں خواتین کی تعلیم کو مستحکم کرنے والی تحریکوں کا بھر پور ساتھ دیا اور کچھ حد تک ذاتی طور پر بھی اس سلسلے میں سر گرم رہیں۔عطیہ تین بہنیں تھیں۔ماہر القادری نے نازلی بیگم کو عطیہ کی سب سے بڑی بہن بتایا ہے اور عبدالستار دلوی نے زہرا بیگم کو۔ بہر حال عطیہ سب سے چھوٹی تھیں۔ ان کی پیدائش یکم اگست 1877 میں قسطنطنیہ میں ہوئی۔ عطیہ نے ابتدائی تعلیم ترکی میں ہی حاصل کی اس کے بعد بمبئی میں آگے کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہاتاہم ’’انھوں نے کہاں تک تعلیم حاصل کی اور کس آخری سند کا حصول کیا؟ اس کا کہیں مذکور نہیں۔‘‘1 لیکن ان کو عربی، فارسی، ترکی،انگریزی، اردواور گجراتی جیسی زبانوں پر مہارت حاصل تھی۔عطیہ کے والد کا نام علی حسن آفندی تھا جو ایک عرب تھے تاہم عطیہ نے کئی جگہوں پر خود کو ترکی النسل ہی بتایا ہے’’ لیکن عام طور پر انھیں عرب نژاد ہی خیال کیا جاتا تھا۔‘‘2یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ عطیہ کا خاندان علمی اور معاشی طور پر خاصا متمول تھا۔ حسن آفندی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ ترکی میں برٹش انڈیا کے سفیر تھے تاہم حقیقت یہ ہے کہ وہ وہاں ذاتی کاروبار کرتے تھے لیکن ترکی کے ارباب حل و عقد سے ان کے مراسم اچھے تھے اور حکام میںبھی ان کی پکڑ مضبوط تھی۔

 تقسیم ہند سے قبل عطیہ کی نجی زندگی پر نظر ڈالیے تو ہندوستان کی مایہ ناز فیملی طیب جی فیملی سے ان کا تعلق تھا۔ طیب جی فیملی اور فیضی فیملی چچا زاد رشتے دارتھے۔ فیضی خاندان میں پیدا ہونے والی عطیہ حد درجہ پُر اعتماد اور اپنے زمانے کی ذہین ترین خواتین میں سے ایک  تھیں۔ان کا خاندان مالی طور پر متمول ایک پڑھا لکھا خاندان تھا جہاں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی یکساں توجہ دی جاتی تھی۔ عطیہ کی شادی اپنے زمانے کے ایک مشہور مصور سمئول رحمین سے ہوئی تھی جو یہودی تھے لیکن بعد میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ قبول اسلام کے بعد فیضی رحمین کے نام سے جانے گئے۔ وہ حد درجہ وفا شعار شوہر تھے۔ عطیہ کی ہر خواہش کو پورا کرتے اور بعض اوقات عطیہ ان سے خفا بھی ہوجاتیں تو خاموشی سے ان کی خفگی برداشت کرلیتے۔

عطیہ فیضی کی نجی زندگی کے اس مختصر ذکر کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شخصیت کے اس پہلو کی طرف بھی توجہ دی جائے جس کا سروکار ہمارے اس مضمون سے ہے۔ زاہدہ حنا نے عطیہ پر بات کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ عطیہ اپنے زمانے کے ہندوستان کی ذہین ترین خواتین میں سے ایک تھیں۔ کئی زبانوں پر مہارت رکھنے کے علاوہ علم موسیقی کا بھی انھیں اتنا علم تھا کہ یورپ اور امریکہ کے شہروں میں اس پر تقریریں کرتی تھیں۔ موسیقی پر انھوں نے باقاعدہ ایک کتاب انگریزی میںلکھی جو الگ الگ اوقات میں مختلف ناموں سے شائع ہوئی۔ سب سے پہلے یہ کتاب لندن سے Indian Music  کے نام سے 1914 میں چھپی، پھر The Music of India  کے نام سے 1925 میں لندن ہی سے، اس کے بعد Sangit of India  کے نام سے 1942 میں بمبئی سے اور آخری مرتبہ The Music of India   کے نام سے 1995 میں دہلی سے شائع ہوئی۔تعلیم نسواں کے سلسلے میں بھی ان کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔آج اگر ہم ان کی صلاحیتوں اور کارناموں پر نظر ڈالیں تو عطیہ فیضی کئی خصوصیات کی بنا پر اپنے عہد سے ایک قدم آگے نظر آتی ہیںلیکن مرد اساس معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ وہ عورت کو اس کے حسن کی داد تو دل کھول کر دیتا ہے لیکن اس کی ذہانت کے اقرار میں اس کے اندر ایک طرح کا تعصب در آتا ہے۔شمس بدایونی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ :

’’ افسوس ہے کہ اردو اہل قلم نے عطیہ کو ایک حسن پرست، ذہنی عیاش، پرستار شہرت اور اہل علم کو اپنی صلاحیتوں سے مرعوب کرنے والی خاتون کی صورت میں دیکھا، اس میں موجود استعداد و صلاحیت، مجلسی تہذیب، حاضر جوابی، علوم و فنون کے متعدد شعبوں سے دل چسپی، خواتین کے جملہ مسائل سے شغف، کچھ کر گزرنے کا جذبہ نہیں دیکھا۔‘‘3

خواتین کے تعلق سے عطیہ بہت پہلے سے ہی سرگرم تھیں۔جب شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں تعلیم نسواں کی تحریک کی شروعات کی تو اس کے ابتدائی دنوں میں عطیہ اور ان کی بہن زہرا فیضی نے ان کی بڑی معاونت کی۔عطیہ نے اس وقت عمر کی تیسری دہائی کو بھی پار نہیں کیا تھا۔1905 میں جب محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ علی گڑھ میں منعقد ہوا تو شیخ عبداللہ نے اس میں خواتین کے لیے بھی ایک سیشن کا اہتمام کیا اور خواتین کے ہاتھوں بنائی گئی مختلف طرح کی دستکاری کی اشیا کی نمائش کا انتظام بھی کیا گیا۔ چوں کہ اس سے ایک سال قبل 1904 میں شیخ عبداللہ چندے کے سلسلے میں بمبئی کا سفر کرچکے تھے اور وہاں انھوں نے طیب جی خاندان اور فیضی بہنوں سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ خواتین کا ایک جلسہ کرنا چاہتے ہیں جس پر فیضی بہنوں نے اس میں شرکت کا وعدہ کرلیا تھالہٰذا جب شیخ صاحب نے کانفرنس اور نمائش کا انعقاد کیا تو عطیہ فیضی نے پروگرام کی ترتیب میں ان کی بہت مدد کی۔ شیخ عبداللہ فرماتے ہیں کہ ’’ عطیہ بی بی نے نمائش کی اشیا کی ترتیب میں بہت مدد دی جس کی وجہ سے نمائش فی الواقع قابل دید ہوگئی۔‘‘4 اس کے علاوہ عطیہ جب اپنی بڑی بہن نازلی بیگم ہر ہائینس جنجیرہ کے یہاں مقیم تھیں تو اس دوران بھی انھوں نے ان کے ساتھ مل کر خواتین کے سلسلے میں انجمنیں بنائیں اور ان کی بہبود کے لیے کوشاں رہیں۔ان انجمنوں کا تعلق براہ راست خواتین کی اصلاح اور ان کی تربیت سے تھا۔ ممکن ہے ان کے اسی جذبے کی وجہ سے ان کو لندن میں ہونے والی لیڈیز ٹیچرس ٹریننگ کے لیے منتخب کیا گیا اور حکومت کے صرفے پر وہ دوبرس کے لیے لندن روانہ ہوگئیں۔ تاہم خرابیِ صحت کے باعث وہ یہ ٹرینگ مکمل نہ کرسکیں اور تیرہ مہینے بعد واپس ہندوستان آگئیں۔ بقول ان کے ’’ میں 1906 میں گورنمنٹ اسکالرشپ لے کر لندن گئی تھی۔ مقصد سفر یہ تھا کہ میں معلمہ بن کر وہاں سے واپس آؤں اور اپنی ہم وطن بہنوں کی خدمت کروں، لیکن وہاں پہنچ کر علیل ہوگئی اور تیرہ مہینے پردیس میں بہ مشکل گزار کر بے نیل مرام واپس آگئی۔‘‘5لندن کے سفر اور قیام کو انھوں نے ڈائری کی صورت میں جمع کیا،جو اس وقت کے رسائل میں چھپتا رہا اور جسے بعد کے زمانے میں ’زمانۂ تحصیل‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔

چونکہ عطیہ کی طبیعت میں ایک طرح کا جوش تھا جس نے انھیں لندن سے واپسی کے بعد بھی سرگرم رکھا۔ انھوں نے بمبئی میں ’عقد ثریا‘ اور ’تھری آرٹس سرکل‘ کے نام سے دو انجمنیں قائم کیں۔ ان کے ذریعے عطیہ ادبی و ثقافتی جلسوں کے ساتھ رقص و موسیقی اور مصوری کی محفلیں بھی سجاتیں۔ عطیہ کے مقاصد میں سے ایک لوگوں میں فنون لطیفہ سے دل چسپی پیدا کرنا بھی تھا۔ انھیں موسیقی اور تھیٹر سے بے حد لگاؤ تھا۔ ادبا کو جمع کرنا اور شعر و شاعری کی محفل سجانا بھی ان کے مشغلے میں شامل تھا۔ ’یاد رفتگاں‘ میں ماہرالقادری ان کی اس دل چسپی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ جب بھی بمبئی جاتے عطیہ انھیں اپنے جلسوں میں آنے پر اصرار کرتیں۔ایک بار تو انھوں نے ماہرالقادری کے لیے ہندوستان کے سب سے بڑے پانچ ستارہ ہوٹل میں دعوت کا اہتمام بھی کیا تھا۔ ماہرالقادری کے الفاظ یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔ ’’ایک بار انھوں (عطیہ)نے بمبئی بلکہ یوں کہنا چاہیے متحدہ ہندوستان کے سب سے شاندار اور مشہور ہوٹل ’تاج‘ میں اس خاک نشین کے لیے بہت بڑی دعوت کا انتظام کیا۔‘‘6 عطیہ جب اپنی بڑی بہن نازلی بیگم اور بہنوئی سرسیدی احمد خان نواب جنجیرہ کے ہم راہ یورپ کے سفر پر دوبارہ گئیں تو وہاں بھی اپنی ادبی مصروفیات کو جاری رکھا۔ 1912 میں سموئل رحمین نامی یہودی النسل سے ان کی شادی ہوئی جنھوں نے شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ماہرالقادری نے شادی کا سال 1903 بتایا ہے۔رحمین نے بعد میں اپنا نام محمد انور رحامی رکھا لیکن بعد میں فیضی رحمین نام اختیار کرلیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ عطیہ کی شادی کے تقریباً ایک سال بعد ان کی بہن نازلی بیگم کی نواب جنجیرہ سے علیحدگی ہوگئی جس کی وجہ یہ بنی کہ نواب صاحب کے کوئی اولاد نہ ہوتی تھی اس لیے وہ دوسری شادی کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کے خاندان کو وارث مل سکے لیکن نازلی بیگم اس کے لیے تیار نہ ہوئیں لہٰذا انھوں نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی۔ حالانکہ نواب جنجیرہ نے بہت کوشش کی کہ نازلی بیگم ان کے ساتھ ہی رہیں لیکن انھوںنے علیحدگی کو پسند کیا۔نواب جنجیرہ نے علاحدگی کے وقت ایک کثیر رقم انھیں دی۔ بقول پروفیسر آصف فیضی ’’علیحدگی پر نواب صاحب نے دنیا جہاں کی دولت سے لیس ساز و سامان، قیمتی نوادرات سے بھرے ہوئے جہاز میں انھیں جنجیرہ سے روانہ کیا۔‘‘7جس سے نازلی بیگم نے بمبئی کے ملا بار ہل میں 1919 میں ’ایوان رفعت‘ کے نام سے ایک شاندار حویلی تعمیر کرائی جس میں شعر و ادب اور سیاست و معاشرت کی اہم شخصیات نے وقت گزارا۔ عطیہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی وجہ سے ایک عمدہ خطیب بنیں،تعلیم نسواں کے لیے جد و جہد کیا اور بقول محمد یامین عثمانی’مدرسہ یادگار امیر‘ قائم کیا اور پندرہ روزہ رسالہ ’معین نسواں‘ جاری کیا۔8 البتہ معین نسواں کے نام سے کوئی رسالہ تلاش کے بعد بھی دستیاب نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ ماہرالقادری، مرتب ’خطوط شبلی: بنام خواتین فیضی، شمس بدایونی‘ اور رسالہ امکان کے خصوصی شمارہ بنام عطیہ فیضی میں بھی دیگر قلم کاروں نے کسی رسالے یا کسی مدرسے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

مجموعی طور پر عطیہ ایک طلسمی شخصیت کی مالک تھیں جنہوں نے اپنے زمانے کی دو عظیم ہستیوں کو بیک وقت اپنا گرویدہ بنایا۔ذہانت اور فطانت کے ساتھ ساتھ طبیعت میں ایک طرح کا تجسس بھی تھا۔بغاوت کے عناصر گویا ان کے خمیر میں شامل تھے۔ مقبولِ عام انھیں ہمیشہ نامنظور رہا، پردہ انھوں نے کم سنی میں ہی ترک کردیا تھا۔بے باک سرشت کا یہ عالم کہ قیام لندن کے دوران جب سید امیر علی اور علامہ عبداللہ یوسف علی کے لکچروں میں کوئی نکتہ سطحی محسوس ہوتا تو اس کا اظہاربغیر کسی لیت و لعل کے کردیتیں۔ ڈاکٹر نزہت فاطمہ نے عطیہ کی شخصیت کے ایک بالکل اچھوتے پہلو کا ذکر ماہنامہ ’آجکل، مارچ 2016‘ کے شمارے میں کیا ہے۔ موصوفہ نے عطیہ کی سیاسی مصروفیات اور کارناموں کا مختلف اخباروں کے حوالوں سے تجزیہ کرتے ہوئے تحریک آزادی میں ان کی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ نے گاندھی جی اور رابندر ناتھ ٹیگور سے عطیہ کے تعلقات کے سلسلے میں کئی اہم اور حیران کن دعوے کیے ہیں۔ اپنے مضمون میں وہ کہتی ہیں کہ ’’عطیہ بیگم فیضی، ربیندر ناتھ ٹیگور کے گھر کلکتہ بھی گئی تھیں وہاں کئی دنوں تک رہیں۔‘‘9 اور ’’عطیہ کو گاندھی جی سے بہت عقیدت تھی۔۔۔ انھوں نے گاندھی جی کی انگلی میں پِن چبھا کران کے خون کا نشان اور دست خط لیے۔‘‘10 ایک جگہ انھوں نے اس دور کے مختلف انگریزی اخباروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ :

’’عطیہ بیگم اور نازلی بیگم نے مہاتما گاندھی کے کہنے پر قیمتی لباس زیب تن کرنا چھوڑ دیا اور ہاتھ کی بنی ہوئی کھادی کی ساڑی پہننے لگیں۔نازلی بیگم نے اپنے تمام ہیرے جواہرات سے جڑے زیور اور اپنا محل تک دے دیا۔ عطیہ تحریک آزادی کی بہت سنجیدہ اور فعال رکن ہیں ۔۔۔ گاندھی جی کے کہنے پر چند دنوں میں  10,0000 روپئے تلک سوراج فنڈ کے لیے جمع کیے اور سودیشی تحریک کو طاقت ور بنانے اور اپنے ملک کی صنعت کو آگے بڑھانے کے لیے 6000   ڈالرکے کپڑے نذر آتش کردیے۔۔۔۔‘‘ 11

اگر ان کے دعوؤں کو کوئی زیرک محقق تحقیق کی کسوٹی سے گزار کر صداقت کی سند عطا کردے تو یہ عطیہ شناسی کے باب میں ایک بالکل نئے پہلو پر مستند کام ہوگا۔یہاں سے اب سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ عطیہ جیسی کثیرالجہات شخصیت کو کسی میدان میں سند کی حیثیت کیوں نہ مل سکی بلکہ یوں کہیں کہ شخصی لیاقتوں اور اعلیٰ خاندانی ماحول کی دستیابی کے باوجود بھی عطیہ زندگی کے آخری ایام میں ناکام کیوں رہیں؟ میرے خیال سے اس کی وجہ ان کی مستعجل فطرت تھی۔ گرد و پیش کے ماحول سے بہت جلد ہم آہنگ ہوجانا بعض اوقات درست فیصلے کے باب میں سد راہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں تھی بلکہ وہ محض ایک اندرونی شوق کے زیر اثر فعال اور متحرک رہیںورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی ہمہ گیر شخصیت کی حامل خاتون کی کوئی مستقل حیثیت نہ ہو۔ شمس بدایونی تقریباً درست کہتے ہیں کہ ’’ ان کے خاندانی ماحول اور ریاست جنجیرہ کے نوابی کروفر نے انھیں ایک سوسائٹی گرل سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔‘‘

حوالے

1        خطوط شبلی: بنام خواتین فیضی، مرتب و مدون: ڈاکٹر شمس بدایونی، ناشر: اپلائڈ بکس،دہلی،ص19

2        امکان، ناشر: مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی، ص100

3        خطوط شبلی : بنام خواتین فیضی، مرتب و مدون: ڈاکٹر شمس بدایونی، ناشر: اپلائڈ بکس،دہلی،ص25

4        مشاہدات و تاثرات از ڈاکٹر شیخ محمد عبداللہ، تریب و تہذیب : اطہر صدیقی، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص 135

5        زمانۂ تحصیل از عطیہ بیگم رحمین، مرتب: پروفیسر عبدالستار دلوی، ناشر: علمی مجلس (نیسٹ) ممبئی،ص5

6        یاد رفتگاں، حصہ دوم از ماہر القادری، مرتبہ : طالب الہاشمی، ناشر: حسنات اکیڈمی (پرائیوٹ) لمیٹڈ،ص141

7        زمانۂ تحصیل از عطیہ بیگم رحمین، مرتب: پروفیسر عبدالستار دلوی،ناشر: علمی مجلس (نیسٹ) ممبئی،ص12

8        امکان، ناشر: مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی، ص122

9        عطیہ فیضی: شخصیت اور کارنامے ازڈاکٹر نزہت فاطمہ،مشمولہ آجکل، مارچ 2016،ص32

10      ایضاً، ص 32

11      ایضاً، ص 32

 

Mohammad Irshad

Research Scholar, Dept of Urdu

University of Calcutta- 700073

Mob.: 8296069173

irshadurdudost@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...