22/7/24

ترجمہ: فن،روایت،آغاز،اقسام،ادارے اور نظریات، مضمون نگار: ضیاء الرحمن صدیقی

 سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل-جون 2024

     

تلخیص

ترجمہ دو زبانوں کے متن کا باہمی و تہذیبی ربط قائم کرتا ہے نیز ان متون کی افہام و تفہیم کا مؤثر ذریعہ ہے جو عالمی سطح پر رشتوں کو استوار کرتا ہے۔ بیانیہ پر دسترس ترجمہ کا امتیازی وصف ہے۔یہ ایک آرٹ ہی نہیں بلکہ سائنس بھی ہے۔

ترجمے کی دو اہم قسمیں بتائی گئی ہیں۔لفظی ترجمہ اور آزاد ترجمہ،اس کی ایک قسم مفہومیاتی ترجمہ یعنی Semantic Translationہے۔صحافتی ترجمہ بھی ایک اہم قسم ہے۔ابتدامیں ترجمے کے کوئی اصول نہیں تھے اور اب بھی اس کے اصولوں پر باضابطہ کوئی تحریر نہیں ملتی۔

ترجمے کو عملی اور ادبی سطحوں میں رکھا جاسکتا ہے۔ عملی ترجمہ کے ذیل میں سائنسی اور سماجی علوم شامل ہیں۔ادبی ترجموں کے تحت شاعری،افسانوی اور غیر افسانوی ادب آتا ہے۔نیوایجوکیشن پالیسی 2020 کے تحت حکومت ہند نے تعلیمی پالیسی میں بطور خاص جگہ دی ہے کیوں کہ ترجمہ علم و ادب اور ملک و ملت کو آفاقیت اور عالمگیریت عطا کرتا ہے۔        

کلیدی الفاظ

ترجمہ، تہذیب، ساختیاتی نظام، مترجم، انگریزی ادب، کرشنا مورتی، مفہومیاتی، ترسیلی، نثری، ہیئت، اسلوب، مصنف، منشا، نظریۂ مطابقت، باطنی ساخت کا نظریہ، سماجی، لسانی، مسائل۔

———

ترجمہ دراصل متنی انکشاف کا ایک ایساتخلیقی عمل ہے جوTarget Language اور Source Language کے ذریعے زبان وادب اورتہذیب و ثقافت کو فروغ دیتاہے بلکہ اس سے زبان جو تہذیب کی بھی علامت ہوتی ہے اور قوموں کے جذبات و احساسات کا اظہاربھی ترجمے کے ذریعے اس قوم کی تاریخ وتمدن، تہذیب و معاشرت، بود وباش علم وہنرغرض کہ قصہ حیات کے ہر پہلوکے ساتھ لسانی خصوصیات، فکروفلسفہ اور مدرکات ترجمہ سے متعارف ہوتے ہیں۔ افہام و تفہیم، نئے امکانات وا ہوجاتے ہیں۔ ترجمے کا یہی عمل شعرا، ادبا اور فن کاروں کو آفاقیت عطاکردیتا ہے۔ مثلاً شیکسپیئر، ملٹن، ایلیٹ اور ارسطوکو مشرقی علاقوں کی زبانوں اور اس کے ادب میں شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ٹیگور، غالب، اقبال، کالی داس اور پریم چندکو آفاقیت کا رتبہ حاصل ہوا۔ ترجمے کے ذریعے زبان کو وسعت اور ادب کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ تہذیب کوفروغ اور تاریخ و تمدن کو استناد اورعالمی سطح پرمعیار قائم ہوتا ہے۔ ترجمے کا بنیادی عمل لسانی سطح پر زبانوں پر دسترس بلکہ قدرت ہونا لازمی ہے۔ Cognate And Non Cognate Language (یعنی اصل اور غیر اصل زبانوں کے تطابق کا بھی ایک اہم مسئلہ ہے) مثلاً اردو ہندی، فارسی ہم اصل زبانیں یعنی Cognate Language ہیں لیکن اردو اور انگریزی یا اردو اور بنگالی یا آسامی یہ زبانیں آپس میں Cognate Languageہیں۔

اسی طرح الفاظ کا اپنا الگ Word View یعنی لسانی نظام اور تہذیبی پس منظر ہوتاہے۔

زبانوں کا ساختیاتی نظام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ تہذیبی، تاریخی، مذہبی علاقائی وغیرہ سے تعبیر ہے۔

مذکورہ مباحث اور مسائل کے پیش نظر ترجمے کاعمل پل صراط کے مانند ہے۔ ترجمہ تخلیق سے کم نہیں بلکہ تخلیق سے زیادہ مشکل ہے۔ترجمے کی زبانیں مثلاً Source Language  اور Target Languageیعنی وہ زبان جس سے ترجمہ کیاجارہاہے اور وہ زبان جس میں ترجمہ کیاجارہاہے، ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود ترجمے کے ذریعے متن کی روح تک پہنچنا، منتقل کرنا ہی کافی نہیں۔ اس کی تہذیب، فکراور جذباتی انسلاکات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرتے وقت اورروز مرہ کے جملوں اور محاوروں کا ترجمہ اور الفاظ کی منتقلی میں مشکل پیش آتی ہے۔ مثلاً ایک محاورہ ہے ’دل باغ باغ ہونا‘ اس لفظ کا انگریزی متبادل انگریزی قارئین کے مزاج اور لسانی فہم سے قریب تر ہونا۔ لہٰذا یہاں Over Joyed مناسب معلوم ہوتا ہے۔

مترجم کا Multi Lingualیعنی کثیرلسانی، دوسے زیادہ زبانوں کا جانناضروری ہے نیز الفاظ شناسی، اصطلاح سازی اور بیانیے کے فن سے بھی کماحقہ واقف ہو۔

نثرکے مقابلے میں نظم کا منظوم ترجمہ کرناممکن نہیں ہے تو مشکل ضرورہے۔ منظوم ترجمہ کرتے وقت ردیف قافیہ، آہنگ، جمالیاتی زور بیان اور دروبست نظم کی معنیاتی وحدت کو اجاگر کرنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ یہاں مفہوم تو منتقل ہوجاتاہے لیکن جمالیاتی آہنگ مکمل طور پر منتقل نہیں ہوتاکیونکہ فن پارے نے جس زبان میں جنم لیا، یہ اُسی کا لازمہ ہوتا ہے۔

شاعری کا ترجمہ ایک شاعر ہی بہتر کرسکتا ہے۔عموماًاس نوع کے ترجمے Ultimateنہیں ہوتے۔ ترجمہ اچھا ہوسکتا ہے اور بہت اچھا بھی ہوسکتاہے۔ یہ تو فکرپرمنحصرہے کیونکہ یہ ایک تخلیقی عمل ہے۔

ترجمہ کرنے کا کوئی ایک طریقہ بھی نہیں ہوتا، ایک ہی فن پارے کا چار لوگ الگ الگ ترجمہ کریں تو وہ مختلف ہوں گے۔ انگریزی کے تمام شعرا اردوسے واقف نہیں ہوتے پھربھی بعض یوروپین مصنفین نے اردو اور فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کیے ہیں کیونکہ Form اور Contentکو الگ الگ نہیں دکھایا جاسکتا البتہ فن پارے میں Spritکا آنا ضروری ہے کیونکہ ترجمہ ایک ضرورت ہے۔ Edward Fitzerald نے رباعیات خیام کا انگریزی ترجمہ کیا۔ترجمہ کا یہ عمل Approximation ہے جو قریب سے قریب تر تحریری اظہار ہے۔

ترجمہ کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔ جدید ثقافتوں کے مدنظرترجمہ نگارکو دوسے زیادہ زبانوں کی لفظیات، تاریخ و ثقافت اور لسانی رویوں سے واقفیت کے ساتھ مختلف علوم کا مطالعہ بھی ہونا ضروری ہے۔ مزیدبراں ترجمے سے ذاتی دلچسپی، جذباتی وابستگی اور زبان کے بیانیے پربھی قدرت ہو نیز یہ کہ متن کی تفہیم کے علاوہ اگر وہ اس صنف کا شاعر یا تخلیق کار ہے جس فن پارے کا ترجمہ کرنامقصود ہے تویہ فن پارہ شاہکار فن پارہ بن جاتاہے۔ مثلاً کسی انشائیے کا ترجمہ کرنا ہو توبہت سے مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ یعنی بیکن کے انگریزی (انشائیوں ) سے اردومیں ترجمہ اور پطرس اردو(انشائیوں) سے انگریزی ترجمہ کرنا مقصود ہوتوآسان نہیں ہوگا۔

فن پارے کا ترجمہ اور تقاضا

ابتدا میں اصول موجودنہیں تھے۔اس طرح کے ترجمہ Interpration کی نوعیت کے ہوتے تھے۔ مثلاً ’باغ و بہار، روضۃ الشہدا، دریائے لطافت، گورغریباں‘وغیرہ کے نام سامنے آتے ہیں لیکن اصولوں سے قطع نظر زبان کی پختگی، اظہار کا بیانیہ، تاریخی اور معنیاتی زبان خاصے کی چیز ہے۔ بعض فلسفیانہ تحریریں جن کا مفہوم عام مترجم (Translator)کے ذہن تک نہیں اترپاتا،اس طرح کی تحریروں کا ترجمہ مبہم اور ذومعنویت سے آلودہ تصورکیاجاتاہے مثلاً Manuscriptologyکا ترجمہ ذخیرۂ مخطوطات، بین السطور(Gap Between Line) بین المتونیت کا ترجمہ متن کی سطورکے درمیان فاصلہ وغیرہ۔ اس طرح کی اور بھی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ تخلیق از خود ایک قسم کا ترجمہ ہے۔ یعنی جو کچھ ہم سوچتے ہیں، یعنی ہمارے افکار،تخلیقی کرب کا اظہار، اسی زبان میں کرتا ہے، جس زبان میں وہ مہارت رکھتا ہے۔تخلیق کار کی ایک شکل مترجم (ترجمہ نگار)کی بھی ہوتی ہے۔ اس اصل تخلیق کا کسی دوسری زبان میں کوئی دوسرا ترجمہ کرتا ہے تو اسے Approximation کی منزل کہاجاسکتاہے۔ اسی نوع کے ترجمے کے مسائل پر بحث ہوتی ہے۔

ترجمہ اگر تخلیقی عمل ہے تو یہ ترجمہ آمدنہیں بلکہ آورد ہے۔ اگر اس عمل کے دوران وجدانی کیفیت اور فکرکی کیفیت جنم لیتی ہے تو ترجمہ اصل لطف دیتا ہے۔

نظم ’طباطبائی‘ کا ترجمہ جو انھوں نے ’گورغریباں‘ کے عنوان سے Greyکی نظم Elegyin Church Yard کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں      ؎

بہت سے گوہر شہسوار باقی رہ گئے ہوں گے

کہ جن کی خوبیاں سب مٹ گئیں تہہ میں سمندر کی

ہزاروں پھول دشت دوز زمیں ایسے کھلے ہوں گے

کہ جن کے مسکرانے میں ہے خوشبو مشک و عنبر کی

Gen of Purest Ray Serenکونظم طباطبائی نے گوہر شہسوارکہہ کر بات ختم کردی ہے جو بالکل مناسب ہے۔

علمی ترجمے کے ذیل میں سائنسی اور سماجی علوم شامل ہیں۔ ادبی تراجم کے تحت شاعری افسانوی اور غیر افسانوی ادب وغیرہ آتے ہیں۔

مذہبی کتابوں اور قانون سے متعلق کتابوں کے تراجم لفظی ترجمے کے ذیل میں آتے ہیں انہیں لفظی تبدیلی کے ساتھ شامل کیا جاسکتا ہے۔

علمی اور سائنسی تراجم کی چند مثالیں

’تاریخ ہندوستان’از الفٹن ترجمہ سرسید احمد خاںو دیگر 1966 ’تمدن ہند پر اسلامی اثرات‘ از تارا چند ترجمہ محمد مسعود احمد 1958 ’اسباب بغاوت ہند‘ از سرسید احمد خاںانگریزی ترجمہ جی ایف آئی گراہم ’دوب کا سبزہ ‘از رسکن بونڈ ترجمہ پروفیسرضیاء الرحمن صدیقی 2007 ’چیخوف‘ (آپ بیتی) ترجمہ مشتاق بھٹی 1948 ’تلاش حق‘ از مہاتما گاندھی ترجمہ سید عابد حسین 1938 ’ہیونگ سانگ کا سفر ہندوستان‘ ترجمہ پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی (این بی ٹی) 1989 ’روسی افسانے‘ ترجمہ پروفیسر محمد مجیب 1940 ’بنگالی کہانیاں‘ ترجمہ (مرتب) پروفیسرضیاء الرحمٰن صدیقی 2018 ’میکسم گورکی کے افسانے‘ ترجمہ سعادت حسن منٹو’طبقات الشعرا‘ گارساں دتاسی ترجمہ فیلن مولوی کریم الدین ’خطبات گارساں دتاسی‘ ترجمہ یوسف حسین خاں و اختر حسین رائے پوری1935، 1943 عزیز احمد’فن شاعری‘ بوطیقا ترجمہ عزیز احمد 1977 ’متحرہات ‘ترجمہ شمس الرحمن فاروقی 1978۔

ترجمہ ایک ایسا فنی عمل ہے جس کی تعریف کلی طورپر بیان نہیں کی جاسکتی ہے۔ انگریزی میں اردو شاعری کا ترجمہ کرتے وقت ردیف کے استعمال کی دقت پیش آتی ہے۔ راف رسل نے خورشیدالاسلام کے اشتراک سے غالب کی چند غزلوں کا ترجمہ (2004)  Selected Lyrics Letters نام سے انگریزی میں کیا تھا۔ اس میں 104 غزلیں شامل ہیں۔ رسل کا خیال ہے کہ اس میں ردیف کی ضرورت نہیں ہے۔

چند مثالیں انگریزی تراجم کے حوالے سے ان میں منظوم تراجم بھی شامل ہیں۔شاعری میں علم کی دو اقسام سے کام لیا جاتا ہے۔ ’اکتسابی‘ خارجی وسائل کے ذریعے فراہم کردہ معلومات،روایتی پس منظراور سابقہ معلومات وغیرہ۔ دوسری قسم وہی ہے یعنی ودیعت کردہ علم کے ذریعے جو تمام ترمعلومات کا جوہر ہے۔ اس ضمن میں شیلے کا مضمون شاعری کا جواز اور سی ۔ڈے لیوس کی کتاب "A hope for Poetry" کا ترجمہ اہم ہے۔چند کتب مثال کے طورپر پیش کی جاسکتی ہیں:

’انگریزی ادب‘ ہنری ڈیوڈتھورو :ترجمہ علی عباس حسینی،ساہتیہ اکیڈمی 1960

’رابندرناتھ ٹیگور‘ چترا:ترجمہ عبدالمجید سالک،حیدرآباد1926

ترجمہ متبادل الفاظ تک محدود نہیں ہے۔اس عمل میں متعدد فنی جمالیاتی،علمی و ادبی اور لسانی جہت بھی شامل ہوتی ہے۔انسان اپنے افکار و خیالات کو اپنی ہی زبان میں خود بھی ترجمہ کرتاہے۔

ترجمے کا نقش اوّل ترجمانی یعنی Interpration سے تصور کیا جاتاہے کیونکہ یہ ابتدا ہی سے افہام و تفہیم کا ذریعہ رہاہے۔ ترجمے کی مختلف جہتوں،  طریقوں اور فن کے بارے میں مختلف اہل قلم نے اپنے مشاہدات و تجربات کا اظہار اس طرح کیا ہے:

"In view of the fact that one can  translate without knowing any thing about linguistics"(Scinence of translation C.U Jain A. Naolda)                                          

کرشنا مورتی کا خیال ہے کہ :

"Translation is replacement of text in source language (SL) by an equivarlent taxt in target language (TL) (Translation theory & paractice)

ترجمہ دوزبانوں کے متن میں باہمی ربط قائم کرنے نیز ان متون کی افہام و تفہیم کا بہترین ذریعہ ہے جو تہذیبی اور لسانیاتی سطح پررشتوں کو استوارکرتا ہے۔ ترجمہ ایک فن یعنی آرٹ ہے جو ترجمہ نگارکو ادیب بھی بناتاہے۔

وینکٹیشور شاستری نے اپنے مقالے "Translation: A craft savory"میں چنداقوال پیش کیے ہیں۔

ترجمہ پڑھنے میں ترجمہ ہی لگنا چاہیے۔

ترجمے کو بنیادی تحریر کا خیال پیش کرنا چاہیے۔

ترجمے کو اصل تحریر کے اسلوب کا عکاس ہوناچاہیے۔

ترجمے کا اسلوب ترجمہ کی طرح ہوناچاہیے۔

ترجمہ اصل تحریر کا ہم عصرنظرآنا چاہیے۔

مترجم اصل متن میں ترمیم و اضافہ کرسکتاہے اور نہیں بھی کرسکتا۔

سیوری کے مذکورہ بالا تجربات اور بیانات سے کسی حد تک اتفاق کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ترجمے کی مختلف اقسام اور موضوعات میں، اس ذیل میں لفظی ترجمہ اور آزاد ترجمہ دو الگ الگ متون پرمنحصر ہوتا ہے۔ ترجمہ نگار کو متن کے مقاصد، آہنگ، مفاہیم اور جہت یعنی Sensiblityکو واضح کرنا ضروری ہے۔

زبان کو ہم تین نوعیتوں سے دیکھ سکتے ہیں جو ہرعہد میں تسلیم کی جاتی رہی ہیں :

1        ترسیلی زبان (Communicative Language)

2        صحافتی زبان (Journalistic Language)

3        کتابی زبان / متنی زبان (Bookish Language/Textual Language) انہیں تینوں زبانوں کی بنیاد پرترجمے کی طرزقائم کی گئی ہے۔

شاستری نے اپنے مضمون "Art & Science of Translation" میں ترجمے کی دو قسمیں بتائی ہیں:

1        مفہومیاتی ترجمہ (Semantic Translation)

2        ترسیلی ترجمہ(Communicative Translation)

مفہومیاتی ترجمہ بیشتر انفرادی نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔ مفہومیاتی ترجمہ میں جملے کی نحوی ساخت (Synatic Structure) کو قائم رکھا جاتاہے۔ اس میں موضوع اور ہیئت دونوں کو ایک ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اسے قاموسی ترجمہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ جہاں اسلوب اور مواد ایک ہوں،وہاں مفہومیاتی ترجمہ مناسب ہوتاہے۔مفہومیاتی ترجمے کی توجہ سورس لنگوئج کے سیاق پر مرکوز رہتی ہے۔

آیئے اب ہم ترسیلی ترجمے یعنی Communicative Translationپر گفتگو کرتے ہیں۔ ترسیلی ترجمہ، موضوع، سادہ سلیس اور عام فہم زبان میں ہونے کے ساتھ موضوع سے زیادہ متن کی تفہیم اور قاری کے ردعمل پر توجہ دیتا ہے۔ شاستری یہ نے دونوں اصطلاحیں (ترسیلی اور مفہومیاتی) New Mart 1981 سے مستعار لی ہیں۔

ترجمے کے بارے میں چند نتائج جو مشاہدے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ ترجمہ صرف ایک آرٹ ہی نہیں بلکہ ایک سائنس بھی ہے۔ موضوعاتی ترسیل اور تمدنی و تہذیبی تفہیم کا ایک مثبت عمل ہے۔متن کے مافی الضمیر کی منتقلی اس کا خاصہ ہے۔ اگرچہ متن کی تفہیم کا نظریہ بہت پراناہے اس کی پہلی گونج بھرتری ہری کے یہاں سنائی دیتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ لفظ کو معنی قاری عطا کرتا ہے۔دریدا نے بھی اسے دہرانے کی کوشش کی۔

ترجمہ اس مفہوم کو پیش کرتا ہے جو ترجمہ نگارقاری کی حیثیت سے اسے تاثرکی بنیاد پر متعین کردیتا ہے۔ بنیادی مصنف (Original Writer) کے مطابق ہویا نہ ہو کیونکہ عموماً ترجمے کا قاری مطالعہ کرتے وقت اصل متن (Original Text) کا مطالعہ نہیں کرتا اور وہ اسی پر اکتفا کرلیتا ہے۔ بہت کم دیکھا گیا ہے کہ Originalمتن اور ترجمہ شدہ تحریر دونوں بیک وقت قاری کے سامنے موجود ہوں۔ ہر مترجم کسی بھی متن کا ترجمہ شدہ متن سے اتفاق بھی نہیں کرتا مثلاً علامہ اقبال کے اس شعر کو لیجیے جو بھرتری ہری کے خیال کو اس طرح پیش کرتا ہے        ؎

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مرد ناداں پر کلام نرم ونازک بے اثر

تین ترجمہ نگار الگ الگ انداز سے اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔ممکن ہے کہ کوئی ایک اور ترجمہ نگار ان سبھی ترجموں کی بات کرے جن سے شعر کی معنوی تاثیریت واضح ہوجائے۔

نثری ترجمہ نسبتاً منظوم ترجمے کے آسان سمجھاجاتاہے۔مختلف یوروپین مصنفین نے اقبال پر انگریزی زبان میں تنقیدی مضامین قلم بند کیے تھے۔ ان کا اردو ترجمہ پروفیسرعبدالرحیم قدوائی نے ’جلوہ دانش فرنگ‘ کے عنوان سے کیا تھا۔

ایسی تحریروں کا ترجمہ کرنانسبتاً آسان ہے جن کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا یعنی خبررسانی ہے۔ اس نوع کے تراجم علمی تحریروں کے ذیل میں آتے ہیں لیکن وہ تحریریں جو انکشافات، جذبات اور احسا س و جمال کی بھی ترجمانی کرتی ہیں۔ مسرت و بصیرت افروز ہوں اور اس میں فکرو انبساط شامل ہو۔ ایک مترجم کو متن کے مصنف کے اسلوب اور تاریخی حالات و کوائف سے مکمل علم ہونابھی ضروری ہے۔ ترجمہ نگار کو کسی فن پارے کا ترجمہ کرنے سے پہلے اس تخلیق کی وجہ تسمیہ کا علم ہونا ضروری ہے کیونکہ فنکار اپنے فن پارے یا تحریر میں جو کچھ کہتا ہے، اس سے کہیں زیادہ وہ سب کچھ کہہ نہیں پاتا جو وہ بیان کرنا چاہتا ہے۔ یہ ذمے داری ترجمہ نگار پر عاید ہوتی ہے یعنی ترجمہ نگار کو مصنف کے پیغام اور عندیے تک پہنچنا ضروری ہے۔ ترجمہ اگرچہ مشکل امر ہے لیکن ناممکن ہر گز نہیں ہے۔ اردو اور دیگر زبانوں کا بیشتر ادبی سرمایہ تراجم سے ماخوذ ہے۔

ترجمے کا عمل زبان اور بولیوں کی ابتداسے ہوجاتاہے۔ انسان نے اشاروں اور آوازوں کو معنی دیے اور انھیں بولیوں اور زبان کی شکل میں پیش کیا تو غیرارادی اور فطری طور پر یہ نظام ترجمے سے مماثل تصور کیاگیا۔

ترجمہ نگاری کے اصول: ترجمے کے لیے کوئی حتمی اصول اور ضوابط مقرر نہیں ہیں لیکن چند اصول جو رہنمائی کے لیے وضع کردیے گئے ہیں، انھیں بنیاد ی تقاضوں کا ذکر یہاں ضروری ہے۔

مفہوم کی ترسیل: کسی مصنف کی تحریر یعنی متن کے مفہوم کی ترسیل سورس لنگوئج سے ٹارگیٹ لنگوئج میں کرنا بغیر کسی ترمیم و اضافے کے منتقل کرنا نیز معنوی امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیش کرنا ہے۔

ہیئت: بنیادی متن کے پیش نظر الفاظ اور محاوروں کی ترتیب اور دروبست قائم رہے۔لسانی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق کہیں کہیں الفاظ کی ترتیب، مترادفات اور ہیئت کے لحاظ سے معمولی تبدیلی لائی جاسکتی ہے کیونکہ ایک لفظ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔

مصنف کا منشا اور عندیہ: ترجمہ کرنے سے زیادہ غوروفکر اور سوچنے کا عمل ہے۔ ترجمہ نگار، ترجمہ کرنے سے قبل مصنف کے عندیے پرضرور غور کرلے ورنہ یہ لفظی اور غیر فطری ترجمہ ہوکر رہ جائے گا۔ مکمل ترجمہ وہی ہوگا جس میں مصنف کے اصل متن کا منشا واضح ہوجائے۔

بنیادی متن اور زبان: ترجمے پر غیر فطری ہونے کا اعتراض رہا ہے۔ بنیادی متن سے قطع نظر ان جملوں کا زبانی ترجمہ کیجیے، اس سے خیالات کے اظہار کا فطری اسلوب جنم لیتا ہے۔         

اسلوب اور شفافیت: بنیادی متن کے اصول میں ترمیم نہیں کرناچاہیے لیکن اگر کہیں کمی یا تکرار ہے تو اسے معمولی سی تصیح کے ساتھ پوراکردینا چاہیے۔ محاورے وغیرہ کا استعمال ترجمے کی گرفت سے باہر ہیں البتہ صنعتیں  (Colloqal Dialect) اس میں شامل ہیں۔غیر محاوراتی زبان ترجمے کے لیے مناسب ہے۔

ترجمے کے مقاصد

علمی و ادبی مقاصد سے قطع نظر، ترجمے کے مقاصد میں عالمگیریت اور آفاقیت ایک اعلیٰ نصب العین ہے۔ پروفیسر محمد حسن اپنی رائے اس طرح پیش کرتے ہیں۔

’’بنیادی طورپر ترجمے کے تین مقاصد ممکن ہیں۔ پہلا معلوماتی دوسرا تہذیبی اور تیسرا جمالیاتی۔ الفاظ مختلف قسم کے اقدار کی ترسیل کرتے ہیں۔‘‘

مترجم کا کام ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ یعنی متبادل لفظ کو رکھنا نہیں ہوتا بلکہ ایک تہذیبی معنویت کو دوسری تہذیبی معنویت میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ مترجم کا بنیادی مقصد غیر زبان کی وساطت سے معلومات کی ترسیل ہوتا ہے۔ جمالیاتی عمل الفاظ کے سطحی معنوں کے بجائے ان کے متنوع متعلقات کے ذریعے ادا ہوتا ہے۔

ترجمے کے نظریات

زمانہ قدیم ہی سے غورو خوص اور بحث کا موضوع رہاہے۔ گذشتہ پانچ ہزار سال میں خاطرخواہ بحث کے بعد چند نظریات قائم ہوئے۔قدیم ویدک نظریہ :ترجمہ انتقال معنی کے ساتھ انتقال مفہوم بھی ہے۔

نظریہ مطابقت Equivalent theory of Translation) (: اس نظریے کو 1960میں پیش کیا گیا، آٹوکیڈ(Otto Kade) اس نظریے کا حامی تھا اس کامقصد یہ تھا کہ بنیادی متن لفظیات کو ترجمے کی زبان کے متبادل لفظ فراہم کرنا۔ یہ متبادل الفاظ بنیادی متن کے مفہوم کی ترسیل کا حق ادا کرتے ہوں، جو لفظ کی ساخت سے قطع نظر معنی سے مطابقت رکھتے ہوں۔ یہ نظریہ انفرادی الفاظ کی سطح تک محدود تھاجو Automic Lingguistics تک محدود تھا لیکن جدید لسانیاتی ارتقا کے ساتھ لفظی مناسبت یا مطابقت یعنی Textual Equivalentسے ہٹ کر ساختی مناسبت Structural Equivalentکی جانب منتقل ہوتی گئی۔

ساختی ہیئت کی اصطلاح Filipel کی وضع کردہ ہے اور یہ نظریہ لپ زک (Liepzig)اسکول کا پیش کردہ ہے۔ اس لفظی متبادل کے بجائے پورے متن کے متبادل کو تلاش کرنے پر گفتگو کی ہے۔ الفاظ کے متبادل تلاش کرنے کے بجائے پورے متن کے متبادل کو مجموعی طورپر فراہم کرنا چاہیے۔

باطنی ساخت کا نظریہ(Internal Structural Theory) : باطنی ساخت کا نظریہ سارلینڈ یونیورسٹی، سار بروکن Saarlen University Saarbroken جرمنی سے Wolfron Wilssکی کتاب Science of Translation:Problem and Methods شائع ہوئی، اس کے ذریعے ترجمے کے جرمن نظریے کا انکشاف ہوا، یعنی معلومات کو ترجمے کی زبان میں منتقل کرنا چاہیے۔ یہ نظریہ سائنسی نہیں بلکہ عینی تھا۔ ٹارگیٹ لنگوئج میں منتقل کی جانے والی معلومات بنیاد ی یعنی سورس لنگوئج متن کی باطنی ساخت میں موجود ہوتی ہے۔ ترجمہ نگار کو ان کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے۔یہ ترجمے کو بنیادی متن کی تخلیق کا درجہ دیتا ہے۔

ترجمہ کاری اسکول : سبکدست /مکتب فکر (Manipulation School): تھیوہرمنس (Theo Hermans) نے اپنی کتاب Manipulation  of Literature: Studies in Literary Translations میں لکھا ہے کہ ترجمہ ٹارگیٹ لنگوئج میں خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کرنا چاہیے۔

آندرے لیفیور (Andre Lefeuere) کا خیال ہے کہ ترجمہ بنیادی طور پر متن کو از سرنو تحریر کرنے کے مترادف ہے۔معاصر ماحول، لفظیات، کیفیات کے مد نظر نہایت خوش اسلوبی سے مکمل کرنے کی کوشش ہوتی ہے،جن کے ذریعے معانی و مقاصد کی تکمیل ہوسکے۔

نظریۂ تمدن و ترجمہ

اتمار ایون ظہر(Itmar Even Zoher)تمدن سے متعلق نظریہ ساز ہے کثیرالجہت Polysystem نظریے کی بنیاد روسی ہیئت پرستی خصوصاً تنجینو (Tinjnov)ky)کی ادبی تنقید کے نظام کے مراتب Hierarchical Literary Systemکے تصورپر رکھی گئی ہے۔ روسی ہیئت پرست اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ تمدن ایک پیچیدہ ترین نظام ہے۔ اس میں ادب،سائنس اور ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ مجموعی طورپر یہ اسکول اس امر کی تائید کرتاہے کہ ’’کسی بھی متن کو معنی دراصل اس کا تمدن اور وہ اقدار عطاکرتے ہیں، جو اس وقت رائج ہوں، جس زمانے میں وہ ترجمہ کیا گیاہو۔‘‘

ترجمے کی کوئی ایک مخصوص مشکل نہیں ہوتی،یعنی ترجمہ کے اپنے کوئی معنی نہیں ہوتے اور نہ کوئی ادیب یا فنکار، اُسے کوئی معنی عطا کرتاہے۔ وہ اگراس متن کے ذریعے کوئی معنی قاری تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو بیکار ہے کیونکہ اس کے حتمی معنی تو وہ تمدن یا نظام، اقدار متعین کرتے ہیں جو اس وقت رائج ہوں، اگر متن کئی تفہیماتی سطح رکھتا ہے۔کسی بھی متن کا یہ کلی طورپر مفہوم ہوتا ہے اور ترجمہ کی مختلف قرأتوں کے دوران جو تفہیماتی جہتیں سامنے آتی ہیں۔ بعد کا ترجمہ بھی ناگزیر ہے،تب ہی مکمل ترجمہ ممکن ہے۔

رد تشکیل اور ترجمہ

ژاک دریدا (Jaques Derrida)کے رد تشکیل کا نظریہ سوسیرکے نظریے سے گہری مطابقت رکھتا ہے کیونکہ سوسیرزبان کو Sign System یعنی نظام نشانات قراردیتا ہے۔اس کے خیال میں ہر نشان (Sign) کے دو پہلو متعین ہیں: پہلا Signifier  اوردوسرا Signified۔

Signifier آواز یا تصویر کی شکل میں ہوتا ہے،جبکہ Signified کے معنی کے تصور سے وابستہ یا معنی کی صورت میں ہوتاہے۔ ہر نشان کو کوئی مخصوص معنی صرف اس لیے حاصل ہوتا ہے کہ وہ دوسرے نشانات سے مختلف ہوتا ہے۔مثال کے طورپر Catکے کوئی معنی نہیں ہیں،سوائے اس کے کہ وہ Rat یا Capنہیں ہے۔ بس یہی فرق لفظ کو معنی دیتا ہے۔

سوسیرکے اس نظریے کی توسیع کرتے ہوئے دریدا اپنے خیال کو اس انداز میں ظاہر کرتا ہے کہ:

 ’’کسی زبان کے Signifiedکو پوری طرح دوسری زبان میں منتقل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ معنی کی بنیاد مستحکم نہیں ہے۔‘‘

اس لیے ترجمے سے قطع نظر ہمیں تبدیلی یا قلب ماہیئت یعنی Transformation پر گفتگو کرنی چاہیے کیونکہ ترجمے کی زبان ہمیشہ بنیادی متن (Basic Text)کو Modify کرتی ہے۔

والٹربنجامن کا خیال ہے کہ ترجمہ نہ تو Sourse Oriented ہوتا ہے اور نہ Target Oriented بلکہ وہ اپنی طرح کا منفرد اسلوب ہوتا ہے اور ترجمہ چونکہ بنیادی متن کو دوسری جہت یعنی نئی زندگی دیتا ہے۔ اس لیے یہ متن کی مابعدزندگی ہوتی ہے، جسے وہ After Life سے منسوب کرتا ہے۔ بنجامن مزید کہتا ہے کہ ترجمے میں بنیادی متن وسیع ہوجاتاہے۔

ژاک دریدا کا خیال ہے کہ ’’متن کے اپنے کوئی مخصوص معنی نہیں ہوتے، قاری اسے معنی عطا کرتا ہے اور مختلف معنی متعین بھی کرتا ہے۔‘‘ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک قاری کسی متن کو پڑھ کر ہربار مختلف معنی و مفاہیم متعین کرے۔ اس طرح مختلف قارئین ایک ہی ترجمے کو ہر مرتبہ مختلف انداز میں معانی کا تعین کریں۔ اس طرح امکانات اور افہام و تفہیم کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب، اقبال، ٹیگور، شیکسپیئر اور کالی داس کو متعدد بار پڑھنے کے بعد بھی بہت سے ایسے گوشے پردۂ خفا میں رہ جاتے ہیں جن کی تشریح اور تفہیم میں تشنگی کا احساس رہتا ہے۔

ترجمے کے اقسام

بنیادی طورپر ترجمے کی دو قسمیں تسلیم کی گئی ہیں : (1)موضوعاتی (2)ہیئتی یا فنی

موضوعاتی تراجم کے ذیل میں (1)علمی ترجمہ (2) ادبی ترجمہ(3) صحافتی ترجمہ۔

ہیئتی یا فنی تراجم کو حسب ذیل اقسام میں رکھا گیاہے :

(1)لفظی ترجمہ(2) آزاد ترجمہ (3) تخلیقی ترجمہ۔

تراجم کی مذکورہ اقسام میں گنجائش ہوسکتی ہے کیونکہ علوم و فنون کی دنیا میں امکانات ہمیشہ رہتے ہیں۔

علمی ترجمہ:علمی ترجمے کے ذیل میں سائنسی اور سماجی علوم و فنون شامل ہیں۔ اس طرح کے تراجم کا مقصد معلومات فراہم کرنا اور ان کی ترسیل ہے۔ ترجمے کی زبان سادہ سلیس اور عام فہم ہوگی، تو ترجمہ کامیاب اور موثر تسلیم کیا جائے گا۔ Target Reader کی بھی اقسام ہیں۔ ترجمہ کس معیار کے قارئین کے لیے کیا جارہا ہے۔ ترجمہ نگاروں کی علمی اور تمدنی انسلاکات سے بھرپور واقفیت رکھتا ہو لفظیات پر اس علمی پس منظر سے کما حقہ واقف ہو۔ جس متن کا ترجمہ مقصود ہے اس کی اصطلاحات کا علم رکھتا ہو۔

مرزا حامد بیگ علمی تراجم کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں :

’’علمی تراجم میں اہم مسئلہ علمی اصطلاحات کے مترادفات تلاش کرنے کا ہوتا ہے۔ علمی اصطلاحات وضع کرتے وقت یہ بات اہم ہے کہ اصطلاحیں مسلم اصولوں کے عین مطابق ہوں ہر علم و فن میں اصطلاح کا مفہوم، اس کے مضمون کے مطابق ہوتا ہے۔لغت میں ایک لفظ کے متعدد معنی درج ہوتے ہیں۔‘‘ (اوراق،لاہور)     

صحافتی ترجمہ: صحافتی زبان دراصل غیر تخلیقی زبان کے زمرے میں آتی ہے۔ ترجمے کی اس قسم کو اس لیے آسان تصورکیا جاتا ہے کہ اس میں لفظ بہ لفظ یا جملوں کوبجنسہٖ ترجمے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ اس کے مفہوم کو اپنی زبان میں پیش کیاجاسکتا ہے۔ اس میں لفظوں کے متبادل تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اصطلاح سازی کی۔ عبارت کا مفہوم چھوٹے چھوٹے جملوں اور عام فہم زبان میں اس لیے پیش کیا جاتا ہے کہ قاری کو سمجھنے میں دقّت پیش نہیں آتی۔اس نوع کے ترجمے کو ’کھلا‘ ترجمہ بھی کہا جاتاہے۔ صحافتی ترجمہ سادہ سلیس زبان میں ہوتا ہے۔ روز مرہ زندگی اور معاملات و مسائل سے قریب تر ہونے کے سبب زبان کو نئی لفظیات اور اصطلاحات سے مزین کرتے رہتے ہیں۔ صحافتی ترجمہ تخلیقی، ادب پر بعض اوقات موثر ہوسکتاہے اور ادبیت سے فاصلہ اس کا فنی وصف بن جاتاہے۔

لفظی ترجمہ: لفظی ترجمے کے تحت صرف مذہبی یا قانون سے متعلق کتابوں اور تحریروں کو شامل کیا جاتاہے۔ اس نوع کی کتابوں میں ترجمہ نگار کو اپنی جانب سے کسی طرح کے رد و قبول کی اجازت نہیں ہوتی، اگر کسی لفظ کا بدل نہیں ملتا تو اسی زبان میں، اس لفظ کو بجنسہٖ ہی رکھ دیا جاتاہے اور اس لفظ کے حواشی میں وضاحت کردی جاتی ہے۔

آزاد ترجمہ: علمی اور ادبی تراجم میں تشریح اور تفہیم کی گنجائش ہوتی ہے لیکن اصل مصنف یا تخلیق کار کے عندیے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مافی الضمیر بیان کرنا لازمی ہے،تاکہ اس فن پارے کی تاثیر باقی رہے۔

تخلیقی ترجمہ: کسی تخلیقی فن پارے کا یعنی متن کا دوسری زبان میں نثری یا منظوم ترجمہ بہت مشکل تصورکیا جاتاہے۔ مثلاً نظم کا منظوم ترجمہ یا کسی تخلیق یعنی نثر کا منظوم ترجمہ یا نظم کا نثری آزاد ترجمہ وغیرہ اس ذیل میں آتے ہیں۔

ترجمہ،تخلیق یا تخلیق نو

یہاں نہ تو تخلیقی ترجمے سے بحث مقصود ہے اور نہ ادبی یا منظوم ترجمے سے کیونکہ تخلیق بذات خود فن کار کے افکار کا ترجمہ ہوتی ہے۔تخلیق یا تخلیق نو کا بنیادی فرق یہ ہے کہ تخلیق نو کا مقصد بنیادی متن کی بہتر تفہیم ہوتا ہے جبکہ تصرف کا مقصد بنیادی متن کی بہتر تشکیل۔

تخلیق کامقصد بنیادی فن کار (متن) کی تخلیق کے نہاںخانوں تک پہنچنا ہے جب کہ دوسرے کا مقصد اس کی کمیوں کو دور کرنا ہے لیکن تخلیق نو مثبت عمل ہے۔تخلیق نو سے اصل متن کو پڑھنے کی خواہش قاری میں بیدار ہوتی ہے جب کہ تصرف سے اسے بھول جانے کا رجحان عام ہوتا ہے۔ تخلیق نو اصل تخلیق سے زیادہ دشوار اور مشکل عمل ہے۔ اس کے لیے دونوں زبانوں، تہذیبوں ماحول، عمل اور رد عمل کے علاوہ لسانی اور قواعد ترسیل سے کماحقہ واقفیت ناگزیر ہے،ورنہ اصل تخلیق کا مافی الضمیر کی ترسیل بے معنی اور غیر مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

ترجمہ: ترجمانی یا تشریح و تفہیم

ترجمے کو ترجمانی یا تشریح سے بھی موسوم کرتے ہیں۔کسی ایک معنی پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا ترجمانی یا تشریح کے کوئی ایک معنی تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔ ترجمانی کا ایک پہلو متن کے بنیادی مقصد ترسیل ہے۔ ترسیل زبانی اور تحریری دونوں طرح سے ممکن ہے۔مصنف کے متن کے ذریعے اس کے مسلک، فکر، نظریے اور اسلوب کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ بعضـ اوقات متن میں ایسی بات رہ جاتی ہے جسے مصنف ارادی یا غیرارادی طورپر بیان نہیں کرپاتا،وہ پہلو بھی ترجمانی کے ذریعے پیش کیا جاسکتا ہے اور مصنف کے نفسیاتی محرکات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ تحریر کی وجہ تحریر اور قاری کو مخصوص ماحول اور ناگزیر حالات کے تحت اس میں تحرک پیدا کرنا بھی ترجمانی کے ذیل میں آتا ہے۔ متن کا لسانی تجزیہ جملوں کی ساخت، صرفی اور نحوی مطالعہ منطقی استدلال، قانونی فلسفیانہ طنز و تعریض، عندیہ، ادبی رجحانات، ان تمام حقائق کے پس منظر میں مصنف کے متن کی تشریح یا ترجمانی بحسن و خوبی ترجمہ نگار کے ذریعے ممکن ہوسکتی ہے۔متن کی ترجمانی یا تشریح ترجمے کے فن کا ایک اہم پہلو ہے۔

ترجمہ عالمی سطح پر افہام و تفہیم کا ذریعہ

ترجمانی عالمی سطح پر مختلف اقوام کے مابین افہام و تفہیم کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ترجمے کے ذریعے صرف الفاظ کی ترسیل نہیں کرتے بلکہ الفاظ کے مفاہیم کے ساتھ تہذیب و تمدن کو بھی قارئین کے لیے منتقل کرتے ہیں۔ اس نوع کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں سے دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوتے رہے ہیں۔ اردو اس عمل کی بہترین مثال ہے۔ مثلاً ’دریائے لطافت‘ (انشاء اللہ خاں) ’روضۃ الشہدا، باغ و بہار ‘ وغیرہ فارسی سے اردو میں منتقل ہوئے۔اسی طرح انگریزی سے اردو ترجمے گور غریباں،نظم طباطبائی،رسکن بونڈ کا ترجمہ ’دوب کا سبزہ، جنم دن  پروفیسر ضیاء الرحمٰن صدیقی کے علاوہ بے شمار اردو اور انگریزی تراجم پیش کیے جاسکتے ہیں۔

انگریزی میں You کو اگر اردو میں تبدیل کریں تو ’تم‘ یا ’آپ،جناب،محترم ‘بے شمار الفاظ موجود ہیں۔

ترجمے کے ذریعے زبان کے علاوہ تہذیب و تمدن اور مکمل سماجی اقدار کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً رقص کے لیے ہماچل میں ’ناٹی‘ کشمیری میں ’رف‘ ڈوگری میں ’کڈ‘ اور پنجابی میں ’گدا‘ لفظ کا استعمال ہوتاہے لیکن ان کے طورطریقے بالکل الگ ہیں۔ مثلاً کہیں مرد اور عورتیں مل کر رقص کرتی ہیں۔ کہیں صرف عورتیں ہی رقص کرتی ہیں اور کہیں صرف مرد ہی رقص کرتے ہیں۔صرف لفظ ’رقص‘ سے معنی ادا نہیں ہوتے۔

"One Does not Translate Language but culture in translation not language"

زبان اور تمدن کے درمیان ترجمہ ایک مستحکم رشتہ قائم کرتا ہے جو T.L اور S.R لنگوئج کے ذریعے قائم کیا جاتا ہے۔ Source Languageکا تعلق بنیادی متن یعنی Text سے ہے، جس زبان میں ترجمہ کیا جاتاہے۔وہ Target Language ہے،جو قارئین کے لیے معلومات کا ذریعہ اور ترسیل اور تفہیم کا باعث بنتی ہے۔ یہی ترجمے کی کامیابی کامؤثر ذریعہ ہے۔

Waardaاور Nidaنے اس موضوع پر اس انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے :

All peoples have more cultural similarities then is usally thougth to be the care. wthat binds people together is much greater than what separates then. In adjustment to the physical environment in the organization of society, in the dealing with crucial stages of life (birth, palerty, marriage and death) in the development of caborate ritral and symbolism, and in the drive for aesthetic expression. people are amazingly alike. Because of all this translation can be undertaken with the expectation of communicative effectiveness.

ترجمہ کی ترسیل معانی اظہار کے ذریعہ سماج کے ہر پہلو کو پراثرانداز میں ہوتی ہے۔

(Problems of translation linguistics & culture)

ترجمہ کے سماجی اور لسانی مسائل اور امتیازات

لفظو ں اور زبانوں کی لسانی،تہذیبی اور تمدنی تاریخ ہوتی ہے اور مختلف اقسام بھی ہیں اور ہر زبان کا ایک لفظی پس منظر یعنی Word View ہوتا ہے۔یہاں سماجی لسانیات یعنی Socio Lnguistics کا ذکر کرتے چلیں۔ سماج کی زبان، لفظیات اور بولیوں سے گہرا تعلق ہے اور ان سب یعنی ہر سماج کی زبان کا مخصوص اور منفرد اسلوب بھی ہوتا ہے ترجمہ نگار کو کسی متن کا ترجمہ کرتے وقت سماجی باریکیوں اور لسانی تقاضوں کو بھی مد نظر رکھنا ہوتا ہے شعری رومانیت،نثری اسلوب کی انفرادیت، جمالیات اور سماجی شگفتگی کو بھی بروئے کار لانا ترجمہ نگار کافن تصور کیاجاتاہے۔

کتابیات

1        فن ترجمہ نگاری: پروفیسر ظہورالدین، سیمانت پرکاشن، دہلی، 2006

2        فن ترجمہ نگاری، مرتبہ: خلیق انجم، ثمر آفسیٹ پریس، دہلی، اشاعت اوّل، 1995

3        سید حسن الدین احمد،انگریزی شاعری کے منظوم اردو ترجموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (ولا اکادمی، حیدرآباد 1984)

4        ترجمے کا فن اور روایت: مرتبہ: ڈاکٹر قمر رئیس، تاج پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 1976

5        فن ترجمہ نگاری: مرزا حامد بیگ

 

Prof. Zia ur Rehman Siddiqui

Department of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001 (UP)

Mob: 7018979058

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...