22/7/24

قاضی عبد الستار کی افسانوی جہات، مضمون نگار: ہمایوں اشرف

سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل- جون  2024

تلخیص

قاضی صاحب نے افسانہ نگاری کا آغاز آزادی سے قبل کے ہندوستان میں کیا تھا لیکن وہ اپنے افسانوںمیں ملک کی آزادی کے بعد کے بدلے ہوئے حالات سے سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ چونکہ ان کا تعلق ایک جاگیر دار خاندان سے تھا اس لیے ان کا موضوع بھی جاگیردارانہ نظام کے گرد گھومتا ہے۔قاضی صاحب بھی جاگیردارانہ نظام کے جبر و تشدد کو نا مناسب اور غیر انسانی سمجھتے ہیں، لیکن ان کی تمام تر ہمدردی جاگیردارانہ سماج کے ساتھ ہی وابستہ رہی۔قاضی صاحب در اصل زمیندارانہ نظام میں محض اصلاح چاہتے تھے اس کا خاتمہ نہیں۔ ان کا مقصد اودھ کے معاشرتی و ثقافتی زوال کے آئینے میں زمیندارانہ سماج کے عروج و زوال کی وہ داستان پیش کرنا ہے، جس میں ماضی کے عیش و نشاط کی تصویریں بھی ہیں اور حال کی درد انگیز صورت کا نو حہ بھی سنائی دیتا ہے۔ قاضی صاحب کے یہاں ماضی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ماضی کا احساس ہی ہے جو انھیں خوشی بھی دیتا ہے اور حال میں اس کے کھو جانے کا غم بھی۔خوشی اور غم کی اس مرقع کشی میں ان کے شعور کی رو بہت دور نکل جاتی ہے۔تہذیبی اعتبار سے قاضی صاحب نے تین طرح کے افسانے لکھے ہیں۔ دیہاتی، شہری اور تاریخی۔قاضی صاحب کے افسانوں میں زبان موقع و محل کے مطابق ہی متحرک ہوتی ہے۔ زبان کے حوالے سے ان کے یہاں محاوروں اور تشبیہ و استعاروں کا استعمال بھی سوجھ بوجھ کے ساتھ ہوتا ہے۔ عورتوںکے جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے جو زبان قاضی صاحب استعمال کرتے ہیں وہ ان کی کامیاب ترجمانی کرتی ہے۔ قاضی صاحب کے اسلوب کا یہ اختصاص ہی انھیں اپنے عصر کا منفرد افسانہ نگار بناتا ہے۔

کلیدی الفاظ

قاضی عبد الستار، افسانہ نگاری، تہذیب، جاگیردارانہ نظام،شہری، دیہاتی، تاریخی، مغلیہ تہذیب، ہندوستانی ثقافت، تکنیک، اسلوب، اودھ، اقدار، مرقع کشی، فلیش بیک، شعور کی رو، طبقاتی کشمکش، آزادی ہند، اخلاقی گراوٹ، زوال، شکست، معاشرتی پستی۔

————

قاضی عبدالستاراردو کے منفرد اور اہم افسانہ نگار وں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے تقریباً تین درجن افسانے لکھے۔ ان کے افسانے آزادی سے قبل بھی ملک کے معروف اور اہم ادبی رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں، تاہم ان کی افسانہ نگاری اس وقت قارئین کی نگاہوں کا مرکز بنی جب 1964میں ان کا افسانہ ’پیتل کا گھنٹہ‘ شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔یہ افسانہ موضوع،فکر اور اسلوب کی ہر سطح پر قاضی صاحب کی انفرادیت کا اعلان کر رہا تھا۔

 قاضی صاحب کا جنم جس دور میں ہوا تھا وہ ہندوستان میں جاگیردارانہ نظام کے شباب کا زمانہ تھا۔ قاضی صاحب خود بھی ایک جاگیر دار خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ان کا گھرانہ ایک تعلقہ دار گھرانہ تھا، جس کا رعب و دبدبہ ان کے قصبے اور تحصیل پرحاوی  تھا۔ ان کے چچا بے حد جلالی تصور کیے جاتے تھے، جن کی مرضی کے خلاف اس علاقے کی ہواؤں میں سانس لینابھی ممکن نہ تھا۔ قاضی صاحب کی پرورش ایسے ہی ماحول میں انتہائی لاڈ پیار کے ساتھ ہوئی تھی۔ لیکن اپنے بزرگوں کے برخلاف قاضی صاحب کے مزاج میں ایک طرح کی نرمی، انسانی ہمدردی اور کسی قدر روشن خیالی، ان کے لڑکپن کے زمانے سے ہی پائی جاتی تھی،جس پر ان کے چچااکثر طنز بھی کیا کرتے تھے۔ ان حالات میں ان کی فکر اور شخصیت کی تعمیر میں ان کے ماحول اور حالات کے عمل اور ردّ عمل کے اثرات کا مرتب ہونا لازمی سمجھا جائے گا۔زمیندارطبقے کا فرد ہونے کے سبب قاضی صاحب کو اس نظام کے فیوض و برکات کاذاتی تجربہ حاصل  تھا۔ تاہم اس نظام کے جبر و استبداد اور بے رحمانہ تشدد کے نہ تو وہ قائل تھے اور نہ اسے پسند کرتے تھے۔ان کے افسانے اور ناول خواہ سماجی نوعیت کے ہوں یا تاریخی ان کی جبلت کے انہی پہلوؤں کی کامیاب عکاسی کی ہے۔

قاضی عبد الستار نے اودھ کے جس سماجی و ثقافتی پسِ منظر میں آنکھیں کھولیں اور پرورش پائی، وہ جاگیردارانہ نظام کے عروج و زوال کی وہ تاریخ رہی ہے، جو قاضی صاحب کی فکر کو جولانی اور قلم کو انفرادیت عطا کرنے کا سبب بنی۔آزادی کے بعد ملک میں قائم ہونے والی حکومت نے جاگیرداروں اور زمینداروں کے روایتی دبدبے کو چیلنج کرتے ہوئے زمیندارانہ نظام کے بنیادی ڈھانچوں میں جو تبدیلی کی اس نے زمیندارانہ نظام کا پوری طرح خاتمہ تو نہیں کیا، لیکن اس کی حیثیت میں بڑی تبدیلی ضرور رونما ہوئی۔ملک کے نئے نظام نے بڑی بڑی زمینداریوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں اس طرح تقسیم کر دیا کہ ان کے پرانے اور روایتی رعب ودبدبے کا خاتمہ ہو گیا۔اگر چہ اس نئی تبدیلی کے باوجود غریب کسانوں کو زمیندارانہ استحصال سے نجات نہیں مل سکی۔ تاہم کسانوں کی محنت پر عیاشی کرنے والے زمینداراس دولت اور روایتی اختیارات سے محروم ضرور ہو گئے، جو ان کی آن بان اور شان کا وسیلہ بنے ہوئے تھے۔قاضی صاحب بھی اسی زمیندارطبقے سے آتے تھے۔لہٰذا قاضی صاحب بھی زمینداروں کی اس تکلیف کو گوارا نہیں کر سکے۔چنانچہ نئے حالات میں ان کی ہمدردیاں ان کے اپنے طبقے کے ساتھ رہیں اور ماضی پرستی کا احساس ان پر غالب آتا چلا گیا۔ قاضی صاحب در اصل زمیندارانہ نظام میں محض اصلاح چاہتے تھے اس کا خاتمہ نہیں۔ قاضی صاحب اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو قطعی تیار نہیںکہ جاگیردارانہ نظام کی بنیاد ہی کسانوں اور رعیت کے اس استحصال پر قائم ہوتی ہے، جو اس میں اصلاحات کے باوجود ختم نہیں ہو سکتی۔خود اپنے عروج کے زمانے میں اودھ کی جاگیردارانہ تہذیبی زندگی حقیقی صورتِ حال کی جو تصویر پیش کرتی ہے، وہ قاضی صاحب کے خیالات سے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔سید عبد الباری اپنی کتاب ’لکھنؤ کے شعر و ادب کا معاشرتی و ثقافتی پسِ منظر‘میں اس کا محاسبہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اودھ کا معاشرہ کوئی جدید معاشرہ  یا اس عہد کی ثقافت نہ تھی۔یہ اپنے بنیادی خد و خال کے اعتبار سے عہدِ وسطیٰ کے معاشرہ و ثقافت کی توسیع کی حیثیت رکھتی تھی۔ ہندوستان کے مغل عہدِ حکومت کے طویل دور میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے ربطِ باہم اور معاشرتی و ثقافتی اختلاط میں ڈھل ڈھلا کر جو معاشرہ اور ثقافت عالمِ وجود میں آئی... اب یہ ثقافت اپنے ارتقاء کی صلاحیت کھو چکی تھی۔قوتِ نمو کا فقدان ہو چکا تھا،صحت مند قدروں پر زنگ لگ چکا تھا۔یہ ثقافت اب سالم نہ تھی۔بکھر رہی تھی۔ اس کی روشن روایات اور توانا اقدار سماج میں جہاں تہاں تسبیح کے بکھرے ہوئے دانوں کی طرح موجود تھیں۔مگر فرد کی زندگی اور معاشرے کے اجتماعی وظائف و اعمال کو شیرازہ بند کرنے اور اسے کسی اعلیٰ آدرش اوربلند مقصد کی دشوار مہم اور عظیم مشق کا متحمل بنانے سے قاصر تھیں۔‘‘ 

اوپر کے اقتباس میں سید عبدالباری نے اودھ کی تہذیبی زندگی کا جو نقشہ پیش کیا ہے، اس کا ایک دوسرا رخ بھی تھا، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے سید عبدالباری نے ہمہ جہت ارتقا سے محروم بتایا ہے۔کیونکہ اس میں مادّی خوش حالی اور جسمانی لذّت کا پایا جانے والا رجحان اور فکر و نظر کی گہرائی کے فقدان نے ساری توجہ لفّا ظی اور تصنع تک محدود کر دی تھی۔

قاضی صاحب کی افسانہ نگاری اودھ کے اسی معاشرتی و ثقافتی پسِ منظر میں جنم لیتی اور تشکیل پاتی ہے۔ قاضی صاحب کا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ زمیندارانہ نظام کے وہ کون سے پہلو تھے، جو صنعتی انقلاب سے دنیا کے متعارف ہونے کے بعد انسانی زندگی اور معاشرے کے فروغ  کے لیے غیر ضروری اور مضر قرار پاتے ہیں یا وہ کس طرح فرد اور سماج کی آزادی و ارتقا کی راہ میںحائل نظر آتے ہیں۔ ان کا مقصد اودھ کے معاشرتی و ثقافتی زوال کے آئینے میں زمیندارانہ سماج کے عروج و زوال کی وہ داستان پیش کرنا ہے، جس میں ماضی کے عیش و نشاط کی تصویریں بھی ہیں اور حال کی درد انگیز صورت کا نو حہ بھی سنائی دیتا ہے۔وہ محض زمیندارانہ اختیارات و دبدبے سے محرومی کی صورت میںمتاثرہ طبقے کے اقتصادی و معاشرتی حالات اور ذہنی کیفیات کے اثرات کو ہی اپنی کہانیوں کا موضوع بنانا چاہتے ہیں۔وہ جس طبقے سے آتے تھے وہ طبقہ اپنے عروج کے زمانے میں جن آسائشو ں اور اختیارات سے مستفید ہوتا رہا، آزادی کے بعد بدلے ہوئے حالات میںکس فکری انتشار،درد و کرب اور کسک سے گزرنے پر مجبور تھا،قاضی صاحب اسے فن کے آئینے میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

قاضی صاحب اپنے افسانوں میں ٹوٹتے بکھرتے ہوئے زمیندارانہ سماج کی جس صورت کی عکاسی کرتے ہیں اس میں اس سماج کے تمام نشیب وفراز نمایاں ہو جاتے ہیں۔تاہم انھوں نے سب سے زیادہ اس طبقے کی نفسیات پر گرفت کی ہے۔ماضی کی آسائشوں کی سنہری  یادوں کے علاوہ نئے نظام سے ٹکراؤ کی صورت میں اس کی ذہنی کشمکش کو قاضی صاحب جس خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں وہ داد طلب ہے۔

قاضی صاحب نے گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران کئی افسانے لکھے، جن میں ان کا تخلیقی ربط اور ہنر مندانہ اندازِ بیان، انھیں افسانوی دنیا میں ایک نئی پہچان عطا کرتا ہے۔ ان کے معروف و مقبول افسانوں میں ’پیتل کا گھنٹہ، ٹھاکر دوارہ،رضو باجی، ایک دن،گرم لہومیں غلطاں،نومی، نیا قانون، دھندلے آئینے،لالہ امام بخش، دیوالی، کتابیں، مالکن، نازو، پرچھائیاں، ماڈل ٹاؤن، تحریک، سایہ،سوچ، بلا عنوان، جنگل، مجریٰ، ایک کہانی، ساملی،کھا کھا، روپا، آنکھیں،بھولے بسرے، میراث، آخری چراغ، دو گاؤں، واپسی، قدِ آدم، مشعل، گیسو، پہلی موت، آڑے ترچھے، آئینے، جشن، داغ دھو لیے گئے، کچھ ایسے، نادرہ، سات سلام، آخری نظر، ملکھا سنگھ، وارث، اور جوتے کا خطبہ، کا ذکر عموماً کیا جاتا ہے۔ تاہم ان میں بھی پیتل کا گھنٹہ، ٹھاکر دوارہ، رضو باجی، ایک دن، ماڈل ٹاؤن، تحریک، سوچ اور مجریٰ کو امتیاز حاصل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں عام طور پر ہر فنکار کی ابتدائی تحریروں میں تجربے اور فکر کی نا پختگی کا اظہار پایا جاتاہے،قاضی صاحب کی تحریروں میں تجربے اور فکر دونوں پختہ اور فکر انگیز محسوس ہوتے ہیں۔ ان میں فکری و فنی پختگی کا احساس ہوتا ہے۔اگرچہ وہ تکنیکی تجربے کے قائل نہیں۔وہ کہانی میں دلکشی،ندرت اور جاذبیت پر زور دیتے ہیں۔تاہم ایسا بھی نہیں کہ انھوں نے تکنیک کا کہیں استعمال ہی نہ کیا ہو۔انھوں نے اپنے بیشتر افسانوں میں فلیش بیک اور بیانیہ کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ کیونکہ فلیش بیک کی تکنیک سے ماضی کے واقعات کی موثر تصویر کشی کی جا سکتی ہے اور قاضی صاحب کے یہاں ماضی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ خوشی اور غم کی مرقع کشی میں ان کے شعور کی رو بہت دور نکل جاتی ہے۔ان کے افسانے ’دھندلے آئینے ‘ اور ’سوچ ‘میں اس تکنیک کا استعمال بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ان کا افسانہ ’آنکھیں ‘ مکالمے کی تکنیک کی بہترین مثال ہے۔ لیکن اپنے افسانوں میں وہ تکنیک کے اس استعمال کو غیر شعوری کاوش مانتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ تکنیک میں تجربے کا استعمال چھٹ بھیے کرتے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’تکنیک میں تجربے چھٹ بھیے کرتے ہیں۔ وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس لکھنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ جن کو اپنے قلم کی طاقت پر، صلابت پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ جو صرف تکنیک کی کرتب بازیوں سے عصری ادب کی تاریخ کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ...میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ جو کچھ جس طرح بہتر سے بہتر کہہ سکتا ہوںوہ میں کہوں۔‘‘ 2؎

قاضی صاحب بلا شبہہ تکنیک کے قائل نہیں، تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ کہانی کو ایک نیا موڑ دینے کے لیے تکنیک کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔لیکن اس کے بے جا استعمال کی وہ حمایت نہیں کرتے۔اس نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :

’’میں تکنیک کو ذریعہ جانتا ہوں،حاصل نہیں۔رہگذر سمجھتا ہوں، منزل نہیں۔تاہم جہاں کہیں موضوع کی اندرونی ضرورت نے مجبور کیا، میں نے تکنیک کے ان تجربوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔‘‘ 3؎

تہذیبی اعتبار سے قاضی صاحب نے تین طرح کے افسانے لکھے ہیں۔دیہاتی،شہری اور تاریخی۔ ان افسانوں میں وہ جن موضوعات کو اپنی کہانیوں کی بنیاد بناتے ہیں ان کے تہذیبی و تاریخی پسِ منظر کی انتہائی کامیاب تصویر کشی کرتے ہیں۔خصوصاًتاریخی افسانوں میں، وہ جس تہذیب و تاریخ کو پیشِ نظر رکھتے ہیں اس کی تصویر ایسی جاندار اور جیتی جاگتی محسوس ہوتی ہے کہ حقیقت اور افسانے کا فرق مٹ جاتا ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد غیاث الدین کی یہ رائے حقیقت پر مبنی ہے کہ :

’’قاضی صاحب کے تاریخی افسانوں کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تاریخ کے ہر واقعہ کو اس قدر دلچسپ، حقیقی، پر اثر اور جاندار بنا کر پیش کیا ہے کہ ماضی جسم و روح کے ساتھ آنکھوں کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور قاری کو مسرت کے ساتھ بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے۔‘‘4؎

قاضی صاحب ایک صاحبِ اسلوب افسانہ نگار تسلیم کیے جاتے ہیں۔انھیں زبان پر بڑی قدرت حاصل ہے۔وہ موضوع اور ماحول کے مطابق ہی زبان کا انتخاب کرتے ہیں۔دیہات کے مناظر اور ماحول کی عکاسی کرتے وقت وہ دیہات کے لوگوں کی فطری بولی پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اسی کے مطابق اندازِ بیان اختیار کرتے ہیں،جس سے تصنع کا احساس نہیں ہوتااور قاری خود کو اسی فضا اور ماحول میں موجود پاتا ہے۔ انھوں نے خود یہ تسلیم کیا ہے کہ:

’’میں نے زبان کو موضوعات کے تابع رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ’ممواں لالہ ‘ سے ’دارا شکوہ ‘ تک مختلف رنگ اور مدارج دکھلانے کی جسارت کی ہے۔ اردو نثر کی تاریخ میں ایسے فنکار وں کی تعداد بہت کم ہے جو متضاد اور متخالف مو ضوعات کے طوفان سے زبان کی کشتی کو سلامت روی سے نکال لائے ہوں۔‘‘ 5؎

قاضی صاحب کے افسانوں میں زبان موقع و محل کے مطابق ہی متحرک ہوتی ہے۔زبان کے حوالے سے ان کے یہاں محاوروں اور تشبیہات و استعارات کا استعمال بھی سوجھ بوجھ کے ساتھ ہوتا ہے۔عورتوں کی زبان کے حوالے سے بھی وہ نہایت محتاط نظر آتے ہیں۔ عورتوںکے جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے جو زبان قاضی صاحب استعمال کرتے ہیں وہ ان کی کامیاب ترجمانی کرتی ہے۔ قاضی صاحب کے اسلوب کا یہ اختصاص ہی انھیں اپنے عصر کا منفرد افسانہ نگار بنا تاہے۔آئیے ذیل میں ان کے چند اہم افسانوں پر ایک تجزیاتی نظر ڈالتے چلیں تاکہ ان کی افسانہ نگاری کا اختصاص روشن ہو سکے۔

دیہی افسانے

پیتل کا گھنٹہ

قاضی صاحب کی افسانہ نگاری کی باقاعدہ ابتدا ان کے افسانہ ’پیتل کا گھنٹہ ‘سے ہوتی ہے تاہم اس افسانے کی قرأ ت کے بعد یہ احساس قطعی نہیں ہوتا کہ یہ کسی افسانہ نگار کی پہلی باضابطہ تحریر ہے۔ یہ کہانی اپنے فنی ارتقا کے لحاظ سے اس درجہ پختہ اور گہرے تجربے کا پتہ دیتی ہے کہ پڑھنے والامتحیر رہ جاتا  ہے۔

پیتل کا گھنٹہ‘ قاضی صاحب کا معروف افسانہ ہے، جس میںاودھ کے قصباتی جاگیردارانہ مسلم نظام کا زوال اور ان کی تہذیبی قدروں کے بکھرنے کی داستان ہے۔اس کہانی میں قاضی صاحب نے بھسول اسٹیٹ کے تعلقدار قاضی انعام حسین کی زمینداری کے خاتمے کے بعد کی زوال پذیر معاشی صورتِ حال کی تصویر پیش کی ہے۔اس کہانی کا راوی خود افسانہ نگار ہے۔ جو بھسول اسٹیٹ سے گزرتے ہوئے اپنے دادا قاضی انعام حسین کے یہاں قیام کرتا ہے۔تاہم قاضی انعام حسین کی حویلی کی خستہ حالت اور وہاں کے مکینوں کی مفلوک الحالی اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ پاتی۔اگر چہ قاضی انعام حسین اپنے مہمان کی خاطر داری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔پھر بھی اپنے مہمان سے نظریں ملاتے ہوئے انھیں شرم محسوس ہوتی ہے، لیکن کہانی کا لطف اس کے اس کلائمکس پر ہے جو قاری کوچونکاتا بھی ہے اور غریبی کی صورت میں انسان کی مجبوری اسے کس اخلاقی زوال سے دوچار کر دیتی ہے اس کا شدت سے احساس بھی دلاتا ہے۔کہانی کا راوی ایک دن اپنے گاؤں واپس جانے کے لیے یکے پر سوار ہوتا ہے تو اپنے ایک ہمسفر بنیے کے پاس وہ پیتل کاگھنٹہ دیکھ کر چونک پڑتا ہے، جسے وہ حویلی کے غسل خانے میں دیکھ کر آیا تھا۔اس کی فہم سے یہ بات بعید نہ رہ سکی کہ اس کی خاطر مدارات کے لیے ہی حویلی کے مکینوں نے اس کا سودا کیا ہوگا۔ اسے بے حد دکھ ہوتا ہے۔ وہ اس کرب کو محسوس کرتا ہے، جس سے اس کے داد ا اس گھنٹے کو بیچتے ہوئے گزرے ہوں گے۔کیونکہ یہ گھنٹہ ان کے درخشندہ ماضی کی یادگار تھا۔ اسے لوگ بجا کر اپنی حاجت روائی کے طلبگار ہوا کرتے تھے۔تاہم اپنے روایتی اخلاق اور شان و شوکت کے خیال سے انھیں اسے قربان کرنا پڑا ہوگا۔ قاضی صاحب نے اس افسانے میں جاگیردارانہ تہذیب کی شکست و ریخت کو جس فنکارانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ بھی اپنی افسانہ نگاری کے ابتدائی دنوںمیں قابلِ داد ہے۔کہانی میں قاضی صاحب کی تمام تر ہمدردی زمیندارانہ نظام کے ساتھ ہے۔زمیندارانہ نظا م میں پیدا ہونے والی تبدیلی کے باعث انعام حسین کی حویلی اور معاشی حالت جس بد حالی سے دو چار نظر آتی ہے، قاضی صاحب اس کی تصویر کشی جن الفاظ میں کرتے ہیں وہ بے مثال ہے۔قاضی انعام حسین کی بیگم اپنے رشتے دار کے استقبال کے لیے جس حالت میں آتی ہیںوہ قاضی صاحب کے الفاظ میں :

’’انھوں نے لپک کر الگنی پر پڑی مارکین کی دھلی چادر گھسیٹ لی اور دو پٹہ کی طرح اوڑھ لی۔چادر کے ایک سرے کو اتنا لمبا کر دیا کہ کرتے کے دامن میںلگا دوسرے کپڑے کا چمکتا پیوند چھپ جائے۔‘‘ 6؎

ایک شریف اور با وقار خاندان کی غریبی اور بے بسی کے اظہار کے لیے اوپر کے اقتباس میں پیش کیے گئے الفاظ سے بہتر اظہار نہیں ہو سکتا۔قاضی صاحب جس طبقے سے آتے ہیں،اس کی عظمت و شرافت کا احساس انھیں ہر لمحہ محتاط رکھتا ہے۔افسانے میں افسانہ نگار بدلے ہوئے حالات میں اپنی شکستگی اور خستہ حالی کے احساس سے مغموم و مایوس ضرور ہے، لیکن اس کے ماضی کی عظمت کا احساس اس کے ہر جذبے پر حاوی نظر آتا ہے۔

اس افسانے میں وقت کی گردش کی عکاسی عمدگی سے کی گئی ہے، جس سے کسی انسان کو راہ فرار حاصل نہیں۔ضلع سیتا پور کا ایک قصبہ جہاں کبھی قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ کی شہرت، آمریت اور دبدبے کا گھنٹہ بجتا تھا،جس میں پیتل کے گھنٹہ کی ایک ہی آواز پر ان کا حکم صادر ہوا کرتا تھا،گردشِ حالات نے اسی گھنٹے کو چند روپیو ں کے عوض اپنی رعایا کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا۔قاضی صاحب نے یہاں مٹتی ہوئی زمیندارانہ تہذیب کی عکاسی بڑی خوبی کے ساتھ کی ہے۔

ٹھاکر دوارہ

ٹھاکر دوارہ ‘کی کہانی کا پسِ منظر آزادی کے آٹھ برس کے عرصے پر محیط ہے۔ یہ افسانہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ زمینداری کے خاتمے کے بعد سماجی رشتے بھی کس طرح تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پتمبر پاسی زمینداری کے زمانے میں ٹھاکر نواب علی کے یہاں پہرے دار تھا۔ لیکن آزادی کے بعد وہ مکھیا بن چکا ہے۔گاؤں کا پردھان بننے کے بعد اس کے فعل و عمل میں بھی بدلاؤ کا آنا وقت کی ضرورت تھی۔لیکن پتمبر کو اپنی روایتی قدروں سے والہانہ لگاؤ ہے۔پردھان بننے کے بعد ایک دن وہ اپنے پرکھوں کی روایت کو برقرار رکھنے کی خاطر ٹھاکر دوارہ پہنچ جاتا ہے اور وہاں اس کے تال پر اس کی عورتیں اس وقت تک ناچتی گاتی ہیں، جب تک وہاں لوگ بڑی تعداد میں جمع نہیں ہو جاتے۔ اگرچہ پتمبرجب گاؤں کا پردھان بن جاتا ہے تو ٹھاکر نواب علی پہرے داری سے اسے آزاد کردیتے ہیں۔ تاہم پتمبر کو ٹھاکر کے فیصلے سے کافی دکھ ہوتا ہے۔کیونکہ وہ اپنے پرکھوں کی روایت کو ترک کرنا نہیں چاہتا۔ اس صورتِ حال کی قاضی صاحب نے جس دلکش انداز میں تصویر کشی کی ہے ذیل میں دیکھی جا سکتی ہے :

’’پردھان پتمبر تمہارا اور تمہاری عورتوں کا یہ ناچ ہم کو پسند نہیں رہا۔  دنیا سنے گی تمھارے خلاف ہو جائے گی۔تم کو ووٹ نہیں دے گی۔ تم کوپردھانتا سے اتار دے گی۔‘‘

’’ــناچ تو پرکھوں سے ہوتا آیا ہے۔.......پردھانتا تو آج آئی ہے۔ پردھان چنے جاتے ہیں،پتمبر پیدا ہوتا ہے۔‘‘7؎

اوپرکے اقتباسات محض پتمبر پاسی کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے، بلکہ زمیندارانہ سماج کی اس فکر کی بھی ترجمانی کرتے ہیں جو آزادی کے بعد بھی اپنی رعیت کو آزادی کا درجہ دینا دل سے پسند نہیں کرتا۔پتمبر کا یہ کہنا کہ پردھان تو چنے جاتے ہیں،پتمبر پیدا ہوتا ہے اسی سماجی ذہنیت کا اظہار ہے۔ اگر چہ قاضی صاحب نے ٹھاکر کو یہاں ایک نرم دل اور انصاف پسند انسان کے طور پر پیش کیا ہے، جو انفرادی طور پراس کی شخصیت کا اختصاص ہو سکتا ہے، لیکن سماجی سطح پر ٹھاکر کی یہ سوچ زمیندارانہ سماج کی فکر بن کر سامنے نہیں آتی۔ یہاں قاضی صاحب بھی پتمبر کے مذکورہ خیال سے متفق نظر آتے ہیں۔جس سے فکری طور پر ان کی ترقی پسندی پر آنچ آتی ہے۔ مشرقی اتر پردیش کے خالص دیہی سماج،ثقافت اور زوال آمادہ زمیندارانہ نظام کے پسِ منظرمیں لکھی گئی یہ ایک عمدہ کہانی ہے۔

مالکن

قاضی عبد الستار کی جن منتخب کہانیوں پر ہم یہاں گفتگو کر رہے ہیں، فنی لحاظ سے ’مالکن‘ ان میں خصوصی امتیاز کی حامل ہے۔ کہانی جاگیردارانہ عہد کے ایک ایسے کردار سے تعلق رکھتی ہے جس کا ماضی بہت شاندارتھا۔ لیکن اس کے انتقال اورملک کی آزادی کے اعلان کے بعد حالات یکسر بدل جاتے ہیں۔ چودھری میر محمد علی بیگ کی بیوہ مالکن کو آزادی کے بعد کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کا مقابلہ وہ بڑی ثابت قدمی سے کرتی ہے۔کہانی چودھری میرمحمد علی کی بیوہ مالکن کے علاوہ تھان گاؤں کے چودھری گلاب سنگھ اور چیت پور کے ٹھاکرگھنشیام وغیرہ کرداروں کے توسط سے تشکیل پاتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔کہانی کا آغاز بھی چودھری محمد علی کی حویلی سے ہوتا ہے جو اس کے شاندار ماضی کی علامت تھی۔تاہم چودھری کے انتقال کے بعد اس کی بیوہ مالکن کے لیے کسٹوڈین کو یقین دلانا مشکل ہو گیا کہ چودھری کا واقعی انتقال ہو چکا ہے اور یہ کہ وہ پاکستان منتقل نہیں ہوا ہے۔کسٹوڈین کو یقین نہ دلانے کی صورت میں چودھری کا سارا ا ثاثہ حکومت کی تحویل میں چلا جاتا اور مالکن اپنی وراثت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتی۔ چنانچہ اپنے حق کے لیے مالکن کو سرکار سے مقدمہ لڑنا پڑتا ہے۔بالآخر عدالت یہ تسلیم کر لیتی ہے کہ چودھری پاکستان نہیں گیا بلکہ اس کا انتقال ہو چکا ہے۔ ما لکن نے اگر چہ مقدمہ جیت لیا تھا، لیکن ایک نئی مصیبت ابھی اس کی منتظر تھی۔آزادی کے بعد ملک میں جاگیرداری کے خاتمے کا اعلان ہو جاتاہے۔مقدمے نے مالکن کو تباہ کر دیا تھا۔پھر بھی وہ خود اعتمادی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتی رہی۔ان حالات میں اس کے ایک عزیز  نے اسے پاکستان آنے کی دعوت بھی دی، لیکن اپنی مٹی اور اجدا دکی میراث چھوڑ کر پاکستان جانے کے لیے وہ تیار نہیںہوئی۔

لیکن دھیرے دھیرے معاشی تنگی نے مالکن کو اس طرح گھیر لیا کہ دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑنے لگے۔ لہٰذا اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اس نے کرتے کی سلائی کا فیصلہ کیا اور اپنے پرانے خادم چودھری گلاب کو بلوا کراسے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ گلاب سنگھ کو ا س حویلی کی پرانی شان و شوکت یاد آتی ہے۔نئی صورتِ حال دیکھ کر وہ تڑپ ا ٹھتا ہے اور مالکن کو بتائے بغیر خود ہی بازار سے کپڑے خرید کر مالکن کو دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ چیت پور کے ٹھاکر گھنشیام سنگھ نے  سینے کے لیے اسے یہ کپڑا بھیجا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ بہت دنوں تک نہیں چل سکا۔چودھری کے گھر والوںکو مالکن کے ساتھ چودھری کے ناجائز تعلقات کا شبہہ ہوا۔اس جھوٹے الزام سے دل برداشتہ ہو کر چودھری نے خود کشی کر لی۔لیکن چودھری کی موت کے بعد بھی مالکن اس الزام سے آزاد نہ ہو سکی کہ میر محمد علی کی زندگی میں ہی مالکن چودھری پر مرتی تھی۔ان حالات میں بھی مالکن حوصلہ نہیں ہارتی اور زندگی میں پیش آنے والے ہر نشیب و فرازسے لڑتی رہتی ہے۔

قاضی صاحب نے اس افسانے میںزمیندارانہ نظام کے خاتمے کے بعد اس طبقے کے سامنے در پیش مسائل پر جہاں اپنے درد و غم کا ہمدردانہ اظہار کیا ہے، وہیں اس طبقے کے ایک نمائندہ کردار مالکن کے عزم و حوصلے کو ایک مثال بتانے کی سعی بھی کی ہے۔تاہم اس کہانی کے توسط سے وہ اپنے طبقے کی حب الوطنی،خاندانی شرافت، دکھ اور مصیبت کا سامنا کرنے والوںکے ساتھ سماج کے غیر انسانی روّیے اور بے بس و مجبور عورت کے کردار کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھنے کی انسانی فطرت کو بے نقاب کرنے کی لائقِ تحسین کاوش کی ہے۔اپنے کسی رشتے دار کی طرف سے پاکستان آنے کی دعوت ملنے پر مالکن کا ردّ عمل خود قاضی صاحب کی فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ ذیل کا اقتباس دیکھیں :

’’مجھ کمبختی کی ماری پر ایسے پیمبری وقت پڑ گئے ہیں کہ موئے ایرے غیروں کے ساتھ دوسرے ملک سدھار جاؤں گی..........اس سے کہنا اپنے ہوتوں سوتوں کو سمیٹ لے جائے اپنے ساتھ پاکستان ..........مجھے تو اب ایک ہی جگہ جانا لکھا ہے .........جب تک حکم نہیں آتاتبھی تک بیٹھی ہوں۔‘‘ 8؎

بیانیہ اسلوب میں لکھی گئی یہ ایک خوبصورت کہانی ہے جس میںافسانہ نگار نے فلیش بیک اور خود کلامی کی تکنیک کا بھی استعمال کیا ہے۔یہاں ڈاکٹر احمد خاں کی یہ رائے صائب ہے کہ:

’’مالکن زوال پذیر جاگیردارانہ نظام کا وہ علامتی کردار ہے، جو تمام دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے زندگی سے جڑے رہنے اور ہمت کے ساتھ حالات سے نمٹنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔‘‘ 9؎

افسانے میں جہاں مالکن کا کردار زندگی کی تمام تر سہولیات سے محرومی کے باوجود اخلاقی اقدار سے سمجھوتہ کیے بغیر ضبط اور حوصلے کی ایک مضبوط چٹان بن کر سامنے آتا ہے وہ ایک مثال ہے۔تاہم چودھری گلاب سنگھ کاجو اس حویلی کا وفادار خادم تھا کردار بھی اخلاص، دردمندی اور وفاداری کی نادر تصویر نظر آتا ہے۔یہاں تک کہ اپنی مالکن کو رسوائی سے بچانے کے لیے وہ اپنی زندگی کی قربانی دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔افسانے کے مطالعے کے دوران قاری پر اس کردار کی انسان دوستی،جذبۂ ہمدردی اور خلوص ومحبت کے اثرات دیر تک چھائے رہتے ہیں۔ کردار نگاری کے علاوہ قاضی صاحب کا اندازِ بیان بھی افسانے کی دلچسپی کو بڑھانے میں انتہائی معاون ہے۔اگر چہ خود کلامی کے اظہارِ بیان کے دوران قاضی صاحب کا لہجہ خطیبانہ بھی محسوس ہوتا ہے تاہم یہ ان کے طبقے کے حوالے سے ماضی کی عظمت کا وہ با رعب احساس ہے، جس سے قاضی صاحب زندگی بھر نجات حاصل نہیں کر سکے۔ دیکھیں ذیل کا اقتبا :

’’زیب النسا ء بیگم !..........تم ان شریف زادیوں کی اولاد ہو جن کی تلوار نے سلطنتوں کی تقدیریں لکھی ہیں اور تخت و تاج کے فیصلے کیے ہیں۔تم ان درویشوں کی بیٹی ہو، جن کے قلم نے قرآن شریف نقل کیے ہیں اور پیٹ بھرا ہے۔تم تلوار نہیں ہلا سکتیں ........تم قلم نہیں اٹھا سکتیں .........لیکن تم سوئی تو چلا سکتی ہو۔‘‘ 10؎

قاضی صاحب کا یہ افسانہ بلا شبہہ اپنی فنکاری کی داد طلب کرتا ہے۔اس میں انھوں نے جاگیردارانہ تہذیب کے زوال کی پوری تصویر بڑی عمدگی سے کھینچی ہے۔

شہری افسانے

اوپر جن افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا وہ قاضی صاحب کے زمیندارانہ نظام کے عروج و زوال کے دور میں دیہی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تاہم دیہاتوںکے علاوہ قاضی صاحب نے شہر ی زندگی کے مسائل کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا، جن میں ماڈل ٹاؤن، ایک دن، کتابیں،سوچ اور تحریک جیسے افسانے قابلِ ذکر کہے جائیں گے۔

ماڈل ٹاؤن

ماڈل ٹاؤن‘ متوسط طبقے کے ایک بے روزگارنوجوان کی کہانی ہے۔اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ذریعۂ معاش کی تلاش ہے۔افسانے کا دوسرا کردار غزالہ ہے، جو اپنے ماموںزاد بھائی کو چاہتی ہے۔اس کے ماموں اعجاز صاحب شہر کے بارسوخ اور ممتاز لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھیں غزالہ اور اپنے بیٹے ریاض کے رومانی تعلقات کا علم تھا۔لیکن وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے کی شادی غزالہ سے ہو۔کیونکہ غزالہ اور اس کی ماں ان کی معاشی مدد پر زندگی گذار رہے تھے۔چنانچہ وہ اس رشتے کو ختم کرنے کے مقصد سے ایک اعلان کرتے ہیں کہ جو لڑکا غزالہ سے شادی کرے گا اسے وہ اپنے یہاں چار سو روپئے ماہوار کی نوکری اور رہنے کے لیے ایک فلیٹ دیں گے۔ کہانی کا واحد متکلم کردار جو بے روزگار بھی ہے اور نوکری نہ مل پانے کے سبب پریشان اور مایوس بھی۔اسے غزالہ اور ریاض کے ناجائز جسمانی تعلقات کا علم بھی تھا، لیکن حالات کی پیچیدگی سے تھک کر اس رشتے کو قبول کر لیتا ہے۔

یہ صورتِ حال مذکورہ بے روزگار نو جوان کی نہ صرف بے بسی اور مجبوری کو روشن کرتی ہے بلکہ شہر کی ظاہری چمک دمک کے پیچھے چھپی ہوئی غیر اخلاقی قدروں،بے روزگاری کی مار اور نوجوانوں میں پائی جانے والی بے راہ روی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔غزالہ سے شادی کے بعد ایک دن واحد متکلم سے ریاض کی اچانک ملاقات ہو جاتی ہے، جو اسے ریگل سنیما پر ملنے کی دعوت دیتا ہے۔آفس سے چھو ٹتے ہی وہ ریگل پہنچ جاتا ہے، جہاں دیر تک انتظار کے باوجود ریاض نہیں آتا ہے۔چنانچہ سنیما دیکھ کر وہ پھر گھر لوٹ جاتا ہے۔لیکن ماڈل ٹاؤن کے تمام مکانات کے ایک جیسا ہونے کے سبب اسے اکثر اپنا مکان تلاش کرنے میںدقت ہوتی تھی۔ اس شام بھی کہرے کی گہری دھند کے باعث وہ اپنی عمارت کی بجائے کسی دوسری بلڈنگ کی تیسری منزل پر پہنچ جاتا ہے۔اسے دروازہ کھلا ملتا ہے۔وہ دیکھتا ہے کہ سامنے ریاض بھائی اس کی طرف پیٹھ کیے کھڑے ہیں اور باورچی خانے میں اس کی بیوی کھانا بنا رہی ہے۔ لیکن یہ اس کا وہم تھا۔وہ دروازے پر کھڑا اندر ہی اندر غصے سے کھول رہا تھا کہ ریاض بھائی اسے ریگل پہ بلا کر خود غزالہ کے ساتھ عیش کرنے یہاں چلے آئے۔ابھی وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ کسی نے  چور سمجھ کرپیچھے سے آکر اسے دبوچ لیا۔اور پھر لوگوں کا ایک ہجوم اس پر ٹوٹ پرا۔لاتوں اور گھونسوں کی برسات شروع ہو گئی۔وہ لوگوں سے منتیںکرنے لگا کہ اسے چھوڑ دیں۔وہ چور نہیں ہے بلکہ وہ اسی فلیٹ میں رہتا ہے اور اس فلیٹ میں اس کی بیوی موجودہے۔ لیکن لوگ اسے پاگل سمجھ رہے تھے کیونکہ وہ اس کافلیٹ نہیں تھا۔وہ حیرت کے عالم میں ان سے پوچھتا ہے کہ کیا یہ ماڈل ٹاؤن کیمپ نہیں ہے ؟ لوگ اسے بتاتے ہیںکہ یہ ماڈل ٹاؤن ضرور ہے لیکن ماڈل ٹاؤن کیمپ نہیںکینٹ ہے۔

بلا شبہ ’ماڈل ٹاؤن‘ قاضی صاحب کے فن کا ایک قابلِ ذکر نمونہ ہے۔

ایک دن

بعض انسان زندگی کو صرف اپنے ڈھنگ سے جینا چاہتے ہیں۔قاعدے اور نظم و ضبط کو اس طرح اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں کہ خود نہ صرف ایک نمونہ بن جاتے ہیں، بلکہ دوسروں سے بھی اسی زندگی کی توقع کرنے لگتے ہیں۔لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ عمل انھیں مشین بنا دیتا ہے جس میں دوسروں کے جذبات و احساسات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔چنانچہ یہ عمل بالآخر اسے سماج  کے دوسرے افراد سے الگ تھلگ کر دیتا ہے۔افسانہ ’ایک دن ‘بھی ایک ایسے ہی شخص کی داستان ہے، جو صرف اپنے ڈھنگ سے زندگی جینا پسند کرتا ہے۔ وہ اپنے خود ساختہ اصولوں کا پابند ہے۔سونے،جاگنے کے عمل سے لے کر دانتوں کی صفائی،چائے بنانے کے طریقے، چینی، دودھ اور پتی کا استعمال اور اس کا حساب وکتاب رکھنا۔کون سی چیز کس وقت کھا ئی جائے اور کس مقدار میں اس کا سخت خیال رکھنا، اس کے معمول میں شامل ہوتا ہے۔جہاں تک ان اصولوں کا اس کی اپنی ذاتی زندگی سے تعلق تھا تو کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا تھا، لیکن شادی کے بعد صورت ِ حال کا پیچیدہ ہونا لازمی تھا، کیونکہ وہ ان تمام اصولوں کا اطلاق اپنی بیوی پر بھی کرنا چاہتا تھا۔

سلمیٰ جو واحد متکلم کی بیوی ہے، وہ اپنے طور پر جی نہیں سکتی۔اسے شوہر کے بنائے اصولوں پر سختی سے عمل کرنا پڑتا ہے۔اسے نہ تو کسی ایک کرسی پر دیر تک بیٹھنے کی اجازت ہے کیونکہ کرسی خراب ہو جائے گی اور نہ ہی وہ کمرے میں سلیپر کی جگہ سینڈل پہن سکتی ہے کیونکہ سینڈ ل کا استعمال وہ مخصوص موقعوں کے لیے ہی سمجھتا تھا۔سلمیٰ اپنے شوہر کی بنائی اس خود ساختہ زندگی کے اند رجلد ہی بیزاری اور گھٹن محسوس کرنے لگی۔اس کے اٹھنے بیٹھنے سونے جاگنے سے لے کر چھوٹی بڑی ہر بات پر شوہر کی نگرانی اسے قیدی ہونے کا احساس دلانے لگی تھی۔وہ مسلسل ایک ذہنی کرب اور انتشار میں جینے لگی تھی۔ اس پر بہت ساری پابندیاں عائد تھیں۔ وہ ضرورت کے تحت بھی وقت بے وقت باہر نہیں جا سکتی تھی۔دفتر سے شوہر کی واپسی کا وقت متعین تھا اور اسے اس وقت دروازے کے قریب ہی استقبال کے لیے کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ فریج میں رکھے سامانوں کا بھی شوہر حساب رکھتا تھا۔وہ اپنی خواہش ا ور مرضی سے ان کا استعمال نہیں کر سکتی تھی۔اسے محسوس ہوتا جیسے :

وہ بھی فریج کی طرح وقت سے کھلتی ہے اور بند کر دی جاتی ہے۔‘11؎

لیکن سلمیٰ ایک اخلاق مند اور روشن خیال لڑکی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس کے احساسات و جذبات کی قدر کرے۔ وہ کھل کر ہنسے بولے۔اسے مٹی کا مادھو یا بے جان گڑیا نہ سمجھے۔ اس کا شوہر اسے اس طرح پیار کرے، جس میں مشینوں کی سی بے حسی نہ ہو، بلکہ انسانی جذبات کی گرمی ہو۔شوہر کے رویے سے اس کا دل ٹوٹ گیا تھا۔وہ فکر مند اور اداس رہنے لگی :

’’وہ بیٹھی سوچتی رہی۔ اپنے آپ سے اپنے وجود کے معنی پوچھتی رہی۔ کیا اس کی جاگتی آنکھوں نے اسی زندگی کے خواب دیکھے تھے۔ خواب جن کی گرمی سے کانپتی راتیں دہک اٹھتی ہیں۔اور جن کی نرم نرم خنکی سے دہکتی دوپہریں کانپنے لگتی ہیں۔‘‘12؎

سلمیٰ اپنی مشینی زندگی سے پوری طرح تنگ آچکی تھی۔ایک دن اس کا شوہر اسے سنیما دکھانے کا پروگرام بناتا ہے۔وہ ٹکٹ لینے کی غرض سے وقت سے پہلے گھر سے نکل جاتا ہے اور اسے وقت پر سنیما ہال پہنچ جانے کی تاکید کر جاتاہے۔لیکن سلمیٰ جو اس زندگی سے تنگ آچکی تھی، اپنے شوہر کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل جانا چاہتی تھی۔ وہ ہال نہیںپہنچتی۔کچھ دیر انتظار کر کے ٹکٹ کے پیسے برباد نہ ہو جائیں سوچ کر شوہر فلم دیکھنے ہال میں چلا جاتا ہے۔فلم دیکھ کر جب وہ غصے میںگھر پہنچتا ہے، تو خادمہ بتاتی ہے کہ سلمیٰ تو چھ بجے ہی گھر سے جا چکی تھی۔یہ سب جاننے کے بعد بھی اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔وہ آرام سے کھانا کھاتا ہے۔پھر فریج سے آئیس کریم نکال کر کھا نے بیٹھتا ہے۔اسے اسی وقت سلمیٰ کا چھوڑا ہوا خط ملتا ہے جسے وہ آرام سے بستر پر دراز ہو کر پڑھتا ہے :

’’مجھے یقین ہے آپ نے پوری فلم دیکھی ہوگی۔۔۔۔۔۔ پورا کھانا کھایا ہوگا۔جو کچھ بچا ہوگا اسے فریج میں رکھ دیا ہوگا اور اب آئیس کریم کھانے کے بعد میرا خط پڑھ رہے ہوں گے۔ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیںہے۔ آپ نے شکایت کا موقع کہاں دیا۔کاش!آپ ایک جدید ترین آٹومیٹک مشین ہیںاور میں ! میں آپ سے کچھ طلب نہیں کرتی، میں نے سب کچھ معاف کیا۔‘‘ 13؎

قاضی صاحب نے اس افسانے میں انسانی کردارکے متضاد نفسیاتی عمل و ردِ عمل کی جس خوبصورتی سے پرتیں کھولی ہیں وہ انسانی نفسیات پر ان کی گرفت کا بھی پتہ دیتا ہے اور فن کے آئینے میں اس کشمکش کی دلچسپ تصویر اجاگر کر نے کا جو کمال انھیں حاصل ہے، اس کی داد بھی طلب کر تا ہے۔

تاریخی افسانے

آنکھیں

آنکھیں‘ قاضی صاحب کا ایک تاریخی افسانہ ہے۔قاضی صاحب کا تاریخی شعور منفرد ہے۔ وہ جس عہد کے حوالے سے واقعات کو موضوع  بناتے ہیں اس کی تاریخ اور روح میں اتر جاتے ہیں۔ وہ جس زمانے اور جس علاقے کو پیش کرتے ہیں، ان کے کردار اس زمانے اور علاقے کی زبان بولتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ مصنف اس زمانے کی زبان پر دسترس رکھتا ہو، لیکن وہ جس عہد کا ذکر کر رہا ہوتا ہے، اس کے لیے اس زمانے کی تہذیب، سماجی اور ثقافتی اقدار،تاریخی فضا اور رسم و رواج سے واقفیت ضروری ہے۔قاضی صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تاریخی حوالوں سے اپنے افسانوںمیںتاریخ اور تخئیل کے درمیان ہم آہنگی کا خیال رکھنا نہیں بھولتے۔ ’آنکھیں ‘ میں قاضی صاحب نے مغل شہنشاہ جہانگیر کی جوانی کے زمانے کے ایک دردناک واقعے کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔

یہ افسانہ بیانیہ اور فلیش بیک تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ افسانے کی شروعات یوں ہوتی ہے کہ ملکہ نورجہاں شہنشاہ کو اداس اور پریشان دیکھ کر اس کا سبب پوچھتی ہے۔جہانگیر اپنی جوانی کا ایک واقعہ سناتا ہے۔ کہانی یہاں سے فلیش بیک میں چلی جاتی ہے۔وہ جہانگیر کا دوسرا سالِ جلوس تھا اور مینا بازار میں وہ جلوہ افروز تھے۔ وہاں ایک دوشیزہ سے اس کی ملاقات ہوتی ہے۔بے حد حسین۔ اس نے بڑے ناز و ادا سے جہانگیر کو پان کی گلوریاں نذر کیں۔جہانگیر اس کا حسن و جمال دیکھ کر ہوش کھو بیٹھے۔ وہ اس کی جھیل جیسی آنکھوں میں ڈوب گئے اور اپنا سارا چین و سکون کھو آئے تھے۔قاضی صاحب جہانگیر کے دل کی کیفیت کو جس خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں وہ اس کے قلب کی بے چینی اور روح کے انتشار کوقاری کے احساس میںمتحرک کر دیتا ہے :

’’پہلی بار ما بدولت کو غربت کا تجربہ ہوا۔ایسی غربت جو دل کو مٹھی میں دبوچ کر ایک ایک قطرہ لہو نچوڑ لیتی ہے۔ اور جب ہم نے چاہاکہ دل کی ویرانی کو شراب سے شاداب کر لیں تو پہلی بار انکشاف ہوا کہ شراب نشے سے عاری ہو چکی ہے۔‘‘14؎

جہانگیر کو اس کے مصاحبوں نے بتایا کہ وہ جس حسینہ کے گرویدہ ہو گئے ہیں اس کا نام صائمہ بیگم ہے جو بخارا کے شیخ الاسلام کی پوتی اور جلوہ دار شیخ عرب کی بیٹی ہے۔وہ عرب کے سرائے میں مقیم ہے۔ صائمہ بیگم کو دربارِ جہانگیری میں حاضر ہونے کا فرمان ملتا ہے۔صائمہ محل میں حاضر ہوتی ہے۔ لیکن انتہائی خود پسندی کا مظاہرہ کرتی ہے۔وہ نہ تو شاہی رعب و دبدبہ اور نہ مغلیہ جاہ و جلال سے مرعوب نظر آتی تھی۔وہ بادشاہ سے اس انداز سے مخاطب تھی، جیسے اپنی ڈیوڑھی پر کھڑے کسی سوالی سے مخاطب ہو۔ بادشاہ اس کے اس رویے سے بہت آزردہ ہوا۔صائمہ کی انانیت کا جب علیہا حضرتِ ثانی کو علم ہوا تو انھوں نے تشویش کے عالم میںجہانگیر سے مخاطب ہو کر دریافت کیا کہ اس مغرور لڑکی میں اسے ایسا کیا نظر آگیا کہ مغلیہ سلطنت کے جاہ و جلال کی بازی لگا دی۔جہانگیر کے بیان سے صائمہ کے حسن اور اس کی آنکھوں کی جادوگری کاجیتا جاگتا نقشہ آنکھوں میں اتر آتا ہے۔جہانگیر کہتا ہے:

’’صائمہ بیگم سر سے پاؤں تک کرشمۂ الٰہی ہے۔ لیکن آنکھوںکی بے پناہی زمین و آسمان کے درمیان اپنی مثال نہیں رکھتی۔‘‘ 15؎

صائمہ بیگم سفارش خاص پر دوسری مرتبہ دربار شہنشاہی میں حاضر ہوتی ہے۔دو عورتوں نے اسے سہارا دے رکھا تھا اور اس کے ہاتھوں میں ایک سفید پیالہ تھا۔نقیب خاص کی آواز پر عورتوں نے اس کے بازو چھو ڑ دیے۔ صائمہ گھٹنوں پر گر پڑی۔اس منظر کو قاضی صاحب کے الفاظ میں :

’’صائمہ کورنش ادا کرنے کے بجائے گھٹنوں پر گر پڑی۔کانپتے ہاتھوں نے دراز ہوکر پیالہ تخت کی طرف بڑھا دیا... پیالہ ہاتھ میں آیا تو بیگم...جیسے آنکھوں سے بصارت چلی گئی...پیالے میں اس کی آنکھیں تڑپ رہی تھیں۔‘‘ 16؎

بادشاہ نے پیالے میں دیکھا تو دو دیدے رکھے تھے اور جب اس نے صائمہ بیگم کی نقاب اٹھائی تو آنکھوں کی جگہ دو سوراخ نظر آئے جن سے خون رس رہا تھا۔صائمہ کی یہ حالت دیکھ کر جہانگیر تڑپ اٹھا۔آج اسے آدابِ شہنشاہی بہت بھاری معلوم ہورہے تھے۔ وہ دیوانہ وار اس انانیت پسند لڑکی سے مخاطب ہوا اور صرف اتنا کہا کہ صائمہ تو نے یہ کیا کر ڈالا ؟صائمہ نے جواب میں جو کہا اس سے اس کی تڑپ اور بے چارگی لہو بن کر ٹپک رہی تھی:

’’ شہنشاہوں کی پسند غریبوں کو زیب نہیں دیتی۔نا چیز کی آنکھیں جہاں پناہ کو پسند آگئیں...نذر میں گزار دی گئیں...کل کی گلوریوں کی طرح قبول فرما لیجیے۔‘‘ 17؎

قاضی صاحب نے افسانے میں نہ صرف جہانگیر کی نفسیاتی کشمکش کی عکاسی کی ہے، بلکہ بادشاہوں کی پسند و ناپسند کے سامنے عام آدمی کی بے بسی و مجبوری کو بھی اس سچائی اور خلوص کے ساتھ قلم بند کیا ہے کہ پڑھنے والے کا دل ایک لمحے کے لیے دھڑکنا بھول جاتا ہے اور سانسیں رک جاتی ہیں۔ صائمہ بیگم ایک خود دار اور انا پرست لڑکی تھی۔اسے بادشاہ کی کنیزوں اور دل بہلانے والی لونڈیوں میں شمار ہونا پسند نہیں تھا،اس لیے اس نے اپنے آپ کو فنا کر دینا زیادہ بہتر سمجھا۔ مکالمے کی تکنیک نے افسانے میں جو ڈرامائیت پید اکر دی ہے، اس سے افسانے کی قرأت کا لطف دو بالا ہو جاتا ہے۔ قاضی صاحب کا یہ تاریخی افسانہ ان کی معرکہ آرا تخلیق تسلیم کی جائے گی جس میں مغلیہ حکومت کے جاہ و جلال کوبڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

بھولے بسرے

بھولے بسرے ‘مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرکے دو جانباز سپاہیوں کی شہادت کی کہانی ہے جو 1857 کے انقلاب کی ناکامی کے بعد انگریزوں کے ہاتھوں ہوئی تھی۔افسانے میں وہ منظر پیش کیا گیا ہے، جب دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔مغلوں کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔ شہزادے، شہزادیاں، سلاطین اور بیگمات قلعۂ معلیٰ چھوڑ کر کہیں دوسری جگہ پناہ لے چکے تھے۔پورا قلعہ خاموش کھڑا تھا۔ دہلی کے چپے چپے پر انگریز سپاہیوں کابے رحمانہ گشت جاری تھا۔ جنرل بخت خاں اور انگریزوں کا جاسوس اور بادشاہ کا وزیرِ اعظم الٰہی بخش بادشاہ کے ہمراہ تھے۔جنرل بخت نے بادشاہ کو دہلی چھوڑ کر دریا کے اس پار اتر جانے کی صلاح دی تھی۔لیکن غدارالٰہی بخش نے بادشاہ کو گمراہ کرتے ہوئے ایسا کرنے سے منع کیا۔ ادھر دہلی کی گلیاں انقلابیوںاور عام لوگوںکے خون سے رنگی جا رہی تھیں۔افسانہ نگار نے اس صورتِ حال کی انتہائی درد ناک تصویر کھینچی ہے :

’’کچھ راتیں اتنی بھاری ہوتی ہیں کہ صدیوںمیں کبھی کبھی اور کسی کسی ملک پر اترتی ہیں۔ ان کی کوکھ سے وہ سورج جنم لیتا ہے جن کی روشنی میں سونا پیتل اور پیتل سونا ہو جاتا ہے۔‘‘18؎

افسانہ نگار در اصل یہاں مغل راجپوت سپاہیوں کی جانبازی اور وفاداری کے اس جذبے کو پیش کرنا چاہتا ہے، جس کا مظاہرہ انھوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر کیا۔یہ وہ سپاہی تھے جو تختِ طاؤس کی حفاظت پر مامور تھے۔اور اگرچہ بادشاہ نے دہلی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد انھیں آزاد کر دیا تھا، لیکن وہ اپنی ذمے داری ترک کرنے پر کسی طرح تیار نہ ہوئے۔قاضی صاحب اس واقعے کو قلم بند کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’کرنل اپنے رسالے کے ساتھ دیوانِ عام کے رمنوںمیں داخل ہو چکا تھا اور چوبیس مسجد سے اٹھتا ہوا دھوئیں کا مینار دیکھ رہا تھا کہ ایک آواز تڑپ گئی۔

’’خبردار...تختِ شاہی...ادب لازم۔‘‘19؎

کرنل یہ آواز سن کر محتاط ہو گیا۔اس نے سمجھا کہ اندرونی حصے میں کچھ مغل سپاہی اب بھی پوزیشن لیے ہوئے ہیں۔اس نے مزید انگریز فوجی منگوا لیے۔نئی کمک آنے کے بعد کرنل ہملٹن کے اشارے پر انگریز سپاہیوں نے بندوقوں کے منہ کھول دیے۔مغل سپاہی بھی مقابلہ کرتے رہے۔لیکن کچھ دیر کی فائرنگ کے بعد خاموشی چھا گئی۔اتنی بڑی انگریزوں کی نفری کا دو سپاہیوںکے لیے تادیرمقابلہ کرنا آسان نہ تھا۔ دونوں مغل فوجی شہید ہو چکے تھے۔ ان راجپوت سپاہیوں کے حوصلے کی داد دیتے ہوئے افسانہ نگار لکھتا ہے :

’’....غلاف پوش نقلی تختِ طاؤس پر فاتح ہملٹن کا بوٹ اسی طرح رکھا تھا ...ہملٹن نے لاشوں کو گھور کر دیکھا اور جیسے ڈگلس سے کہا....اگر دہلی کے بادشاہ کو ان جیسے ہزار دو ہزار سپاہی مل گئے ہوتے تو...اور ڈگلس نے جملہ پورا کر دیا تو ہندوستان کی تاریخ بدل جاتی۔‘‘ 20؎

قاضی صاحب کے جن افسانوں کا اوپر تجزیہ پیش کیا گیا ہے ان کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ قاضی صاحب کے تقریباً تمام افسانوںکا پسِ منظر جاگیردارانہ نظام کے عروج و زوال کا وہ زمانہ ہے، جس میں ان کے طبقے کی عظمت اوروقار ایک تہذیب کی بلندی اور دبدبے کی تصویر پیش کرتا ہے تو اس کا زوال شکست، مایوسی،اخلاقی، معاشرتی پستی اور مفلوک الحالی کا ایسا اظہار بن کر سامنے آتا ہے، جس کا اختتام غیر ملکی غلامی کی زنجیروں پر آکر ٹھہر جاتا ہے۔ان افسانوں میں ایک نظام کے وجود کی متضاد تصویریں ملتی ہیں تو انسانی نفسیات کے پیچ و خم کا اظہار بھی۔ قاضی صاحب نے اسی صورتِ حال کی اپنے مخصوص اسلوب میں کامیاب تصویر کشی کی ہے۔لسانی اعتبار سے ان کی کہانیاں منفرد ہوتی ہیں۔یعنی زبان کے حسن،تشبیہہ و استعارہ سازی کی تخلیقی اپج، ہرخیال کو با محاورہ ہندوستانی اور خصوصاًاودھی جملوں کی مدد سے مثالوں کے ذریعے واضح کرنا ان کے افسانوں کا خاص طرۂ امتیاز ہے۔ قاضی صاحب اپنی کہانیوں میں بے مثال تشبیہوں سے کام لیتے ہیں جو میر انیس اپنے مرثیوں کے بیت سے لیا کرتے تھے جس میںانیس کے بند کا مضمون اپنی بیت سے نا قابلِ تسخیر بن جاتا ہے۔ اسی طرح قاضی عبدالستار کے جملوں کو ان کی نادر تشبیہات کا انتظار رہتا ہے۔ یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ قاضی صاحب کی زبان اگر ان کے افسانے سے ہٹا لی جائے تو اس میں کیا رہ جائے گا۔اس سلسلے میںیہ عرض کروں گا کہ زبان افسانے کی تہذیب ہوتی ہے۔ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘ کی تہذیب ’پیتل کا گھنٹہ ‘ کی تہذیب سے الگ ہے۔

قاضی صاحب کی شہر سے متعلق کہانیوں میں بھی ان کا تخلیقی رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ ’جنگل‘، ’ماڈل ٹاؤن‘، ’بلا عنوان ‘اور ’سوچ ‘جیسی کہانیاں شہری زندگی پر ہی مبنی ہیں۔ قاضی عبدالستار کا انفرادی طرزِ بیان،لہجے کا بانکپن اور جملوں کی تشکیل، کہانی کے پلاٹ اور ماحول سے ہم آہنگ ہے۔ان کے افسانوں کی تکنیک کی سب سے نمایاں خوبی بات کو بلیغ اشاروںکے ذریعے کہنا ہے، جس سے کہانی کی اندرونی سطح پر بڑی خاموشی کے ساتھ ایک احساس ابھرتا ہے اور اسی اندرونی احساس کے ذریعے قاری کے ذہن پر افسانے کا بھرپور مرکزی تاثر ابھرتا ہے۔جس کے لیے افسانے میںزبان کا ایک ہموار طرز، مثالوں اور جملوں کا بر محل استعمال،مکالموں اور محاوروں کی بر جستہ ادائیگی اور شروع سے آخر تک پورے افسانے میں بتدریج واقعات کا عروج و زوال، مواد اور کرداروں کی مناسبت سے بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔

قاضی عبدالستار کے افسانوں میں مختلف تہذیبوں کی شکست و ریخت،شہری ماحول ہو یا دیہات کا، مغلیہ تہذیب اور ہندوستانی ثقافت کی جیتی جاگتی تصویر کشی ملتی ہے۔ان کے افسانوں میں زندگی کی پیشکش،تہذیب کی عکاسی،پلاٹ میں چستی،کردار کی پیکر تراشی،فضا بندی اور منظرکشی،واقعاتی ترتیب اور اسلوب کی نیرنگی، انھیں اردو ادب کے بڑے افسانہ نگاروں کی صف میں کھڑا کر دیتی ہے۔

حواشی

1        قاضی عبدالستار کی افسانہ نگاری:مہناز عبید،  مکتبۂ جامعہ لمیٹیڈ،نئی دہلی، 2018، ص:18-19

2        رسالہ ماہنامہ ’نیا دور‘،لکھنؤ، 1992، ص: 11

3        رسالہ ماہنامہ’ عصری ادب‘، دہلی،1992، ص:100

4        آئینۂ ایام: ڈاکٹر محمد غیاث الدین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی،1995،ص: 13

5        رسالہ، ماہنامہ ’عصری ادب‘، دہلی،1992،ص:101

6        افسانہ ’پیتل کا گھنٹہ‘،مشمولہ ’آئینۂ ایام‘، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی1995، ص: 52

7        افسانہ ’ٹھاکر دوارہ‘، مشمولہ ’آئینہ ایام‘، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 1995، ص:26

8        افسانہ’ مالکن‘،مشمولہ ’آئینۂ ایام‘،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 1995،ص:102

9        قاضی عبد الستار :فکر،فن اور فنکار:ڈاکٹر احمد خاں،  ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ص:231-232

10      افسانہ ’مالکن‘، مشمولہ’ آئینۂ ایام‘،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی،2005، ص: 100

11      افسانہ ’ایک دن‘، مشمولہ ’آئینۂ ایام‘،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 1995، ص: 47

12      ایضاً، ص 47

13      ایضاً، ص 47

14      افسانہ ’آنکھیں‘، مشمولہ’ آئینۂ ایام‘،ا یجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 1995،ص: 215

15      ایضاً، ص 47ص: 217

16      ایضاً، ص 47ص:218-219

17      افسانہ ’آنکھیں ‘، مشمولہ’ آئینۂ ایام‘،ا یجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 1995،ص: 219

18      افسانہ ’بھولے بسرے‘، مشمولہ’ آئینۂ ایام‘،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 1995، ص:220

19      ایضاً، ص 47ص:223

20      ایضاً، ص 47، ص:225

 

Dr. Humayun Ashraf

P.G.Department Of Urdu

Vinoba Bhave University

Hazaribagh (Jharkhand)

Mobile:- 09771010715

Email :- dr.h.ashraf@gmail.com

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...