23/7/24

انتخابِ دیوان محمدافضل سرخوش،از سید نقی عباس (کیفی)

سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل -جون 2024


تلخیص

’انتخاب دیوان سرخوش موسوم بہ منتخب و گلدستۂ معانی‘مرتبہ ڈاکٹر حافظ شبیر احمد حیدری (م: 2009)، محمد افضل سرخوش کشمیری(1050-1125ھ/1644-1714)، مؤلف تذکرۂ کلمات الشعرا، کے متفرق فارسی کلام کا ایک مختصر انتخاب ہے۔ اس انتخاب میں شامل کلام، بہ قول سرخوش، سبک ہندی کے سب سے بڑے شاعر ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی (م: 1133ھ/1721 ) کا انتخاب کردہ ہے۔ اس انتخاب کا منحصر بہ فرد قلمی نسخہ کتب خانہ سالارجنگ حیدرآباد میں محفوظ ہے جسے حیدری صاحب نے تصحیح و ترتیب کے بعد 2003 میں کتابستان مظفرپور سے شائع کیا۔ اگرچہ اس انتخاب کی تحقیق، تصحیح، ترتیب و اشاعت اپنی جگہ  ایک قابل قدر علمی کارنامہ ہے اور حیدری صاحب نے محنت و دیدہ ریزی سے یہ کام انجام دیا ہے لیکن اس کے باوجود کتاب پروف کی غلطیوں اور تسامحات و اشتباہات سے خالی نہیں ہے۔ چونکہ یہ انتخاب، محمد افضل سرخوش  کے کلام کا واحد مطبوعہ مجموعہ ہے اور مزید یہ کہ اس میں شامل اشعارمیرزا بیدل جیسے مسلم الثبوت استاد فن کے انتخاب کردہ ہیں، اس مضمون میں کتاب کے تعارف کے ساتھ ساتھ قواعد شعری، اصولِ زبان، املا، قرأت، موجودہ طرز نگارش اور بعض مقامات پر قیاس کی بنیاد پر مصحح کے تسامحات کی نشاندہی کی گئی ہے اور اس انتخاب کی تصحیح اور ترتیبِ جدید پر زور دیا گیا ہے۔

کلیدی الفاظ

محمد افضل سرخوش، انتخاب دیوان، منتخب، گلدستۂ معانی،کلمات الشعرا،  سبک ہندی، میرزا بیدل، شبیر احمد حیدری، مخطوطہ شناسی، تصحیح متن، کتب خانہ سالارجنگ حیدرآباد

———

محمد افضل سرخوش کشمیری 1؎ (1050-1126ھ/1644-1714) ہندستانی فارسی ادب میں ایک تذکرہ نگار کی حیثیت سے جانا پہچانا نام ہے۔ اس کا تذکرہ ’کلمات الشعرا‘ (تالیف: 1093ھ/1682، با افزودہ ہا تا 1115ھ/1703) ہند و پاک میں کئی بار شائع ہوا ہے۔1؎  یہ بات بھی مسلم ہے کہ وہ ایک پرگو اور صاحب دیوان شاعر تھا لیکن تذکرۂ کلمات الشعرا اور دو تین مختصر انتخاب کلام کے علاوہ اس کی تصانیف دست برد زمانہ کی نذر ہوگئیں۔  ایسے میں ’انتخاب دیوان سرخوش موسوم بہ منتخب و گلدستۂ معانی‘ مرتبہ ڈاکٹر حافظ شبیر احمد حیدری (م: 2009) ایک قابل قدر علمی ادبی کارنامہ ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی کرتے چلیں کہ حیدری صاحب کی پی ایچ ڈی کا موضوع ’احوال و آثار محمد افضل سرخوش‘ تھا جس پر انھیں 1976میں بہار یونیورسٹی، مظفرپور سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی تھی۔  حیدری صاحب کو اپنے تحقیقی مقالے سے متعلق مواد کی فراہمی کے دوران کتب خانہ سالارجنگ حیدرآباد میں ’انتخاب دیوان سرخوش‘ کا یہ مخطوطہ ملا تھا جسے موصوف نے بعد ترتیب و تصحیح 2003میں کتابستان، مظفرپور سے شائع کیا۔ البتہ کتاب کے سرورق پر ان کے نام کے ساتھ بجائے مصحح،  ’مصنف‘ لکھا ہوا ہے۔

دیوان سرخوش کا یہ انتخاب اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس انتخاب میں شامل اشعار، سبک ہندی کے سب سے بڑے شاعر ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی (م: 1133ھ/1721) کے انتخاب کردہ ہیں۔ اس سلسلے میں سرخوش انتخاب کے دیباچے میں لکھتا ہے:

’’... اگرچہ تمام کلامِ من مثلِ دیوانِ میر معزّ موسوی و ملّا غنی و میاں ناصر علی مختصر و موجز است ... بہ تجدید از روی تأکید و احتیاط در خدمت سرآمدِ خوش فکرانِ کامل، میرزا عبدالقادر بیدل، فرستاد کہ ایشان بہ نظر تأمّل بہ غورِ تمام ملاحظہ نمودہ بر ہر بیتی کہ خوش آمدہ، پیِ ’خوش آمد‘، ’صاد‘ کردند، بہ موجب ’صادِ‘ آن استاد، در این اوراق ایراد یافت...‘‘

مندرجہ بالا بیان سے واضح ہے کہ سرخوش کا دیوان، میر معز الدین محمد موسوی فطرت مشہدی2؎ (م: 1101ھ/1690) وملا محمد طاہرغنی کشمیری1؎ (م:1079ھ/1668-69) اور میاں ناصر علی سرہندی 2؎ (م: 1108ھ/1697) کے دواوین کی طرح مختصر اور منتخب تھا جسے اس نے میرزا بیدل کی خدمت میں نظر ثانی کے لیے بھیجا تھا۔ بیدل نے مطالعے کے دوران اپنی پسند کے اشعار نشان زد کردیے جنھیں سرخوش نے اس انتخاب کی صورت میں مرتب کیا۔ لہٰذا اس انتخاب میں شامل کلام، بہ تصدیق شاعر، میرزا بیدل کے انتخاب کردہ یا پسند فرمودہ ہیں۔

سرخوش نے اس انتخاب کا نام ’منتخب و گلدستۂ معانی‘ رکھا ہے اور ’ہمہ انتخاب‘ سے تاریخ نکالی ہے جس سے 1104ھ (1692-93) برآمد ہوتا ہے۔ بقول سرخوش:

’’...بہ ’منتخب و گلدستۂ معانی‘ موسوم گشتہ... و ’ہمہ انتخاب‘، تاریخ این انتخاب است...‘‘

قابل غور ہے کہ اس انتخاب کا نام ’منتخب و گلدستۂ معانی‘ بھی ان دو باتوں کی طرف اشارہ ہے کہ یہ مجموعہ منتخب کلام پر مشتمل ہے اور مشمولہ کلام ابوالمعانی میرزا بیدل کا انتخاب کردہ ہے۔  ڈاکٹر شبیر احمد حیدری نے زیرنظر ’انتخاب دیوان سرخوش‘ کے مخطوطے کی ظاہری کیفیت یہ لکھی ہے:

’’یہ مخطوطہ 47 اوراق  پر مشتمل ہے اور وسط سایز کی تقطیع پر ہے۔ اس دیوان کے اول و آخر صفحات پر سالارجنگ اسٹیٹ لایبریری کی دو مہریں بھی ثبت ہیں۔ دیوان کی آخری عبارت سے پتا چلتا ہے کہ اس نسخے کا کاتب ’غلام نبی‘ ہے اور اس کی کتابت 5ذیقعدہ 1263ھ کو مکمل ہوئی ہے۔ یہ نسخہ اگرچہ مجلد ہے اور اس کے اوراق مکمل ہیں لیکن قدرے کرم خوردہ ہے۔‘‘ (مقدمہ، ص 13)

اور مندرجات کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے:

’’اس نسخے کی ابتدا ایک نثری دیباچہ سے ہوتی ہے جو خود سرخوش کا لکھا ہوا ہے جو ورق (ب) سے شروع ہوکر ورق 2(ب) پر تمام ہوتا ہے ...  دیباچے کے بعد دیوان کی ابتدا غزل سے ہوتی ہے... غزل کے بعد ورق 23(الف) سے ورق 26 (الف) تک ’منتخب چہل رباعی‘ کے زیر عنوان صرف 32 رباعیاں ملتی ہیں ... (اس) کے بعد مختلف عنوانات کے تحت دوسری رباعیات ملتی ہیں جن کی مجموعی تعداد 127 ہے۔ ان رباعیات کے بعد 90    اشعار پر مشتمل ایک بلا عنوان مثنوی ملتی ہے۔ اس کے بعد قدسی اور فخری کے دو دو اشعار، آزاد (بلگرامی؟) کا ایک شعر اور زیب النسا مخفی کے چھ اشعار ملتے ہیں۔ ان اشعار کے بعد ترقیمہ (درج ہے)... اس ورق کے حاشیہ پر لادری قادری، واقف اور مولوی رفیع الدین کے اشعار بھی ملتے ہیں۔ ورق 45 (ب) کے حاشیہ پر قدسی، فخری اور آزاد کے انھیں اشعار کی دوبارہ تکرار ملتی ہے۔ پھر اس صفحے پر ’ردیف شین‘ کے عنوان کے تحت کچھ غزل پارے ملتے ہیں... دیوان کے آخری ورق 47(الف) اور 47(ب) پر گیارہ رباعیاں ملتی ہیں جو اس سے قبل بھی رباعی کے عنوان کے تحت اس نسخہ میں مرقوم ہیں۔‘‘ (مقدمہ، ص13-16)

حیدری صاحب نے اپنی ترتیب میں اصل مخطوطے کی ترتیب سے انحراف کرتے ہوئے غزلیات، غزل پارہ، مفردات، رباعیات اور مثنوی کے عنوانات کے تحت اشعار مرتب کیے ہیں اور ساتھ ہی مکرر اشعار اور حاشیوں پر مندرج دوسرے شعرا کے شعر حذف کر دیے ہیں۔ تصحیح متن کے لیے انھوں نے ’منتخبات کلیات سرخوش‘ (نسخۂ آصفیہ، نمبر 974) اور مختلف تذکروں بالخصوص کلمات الشعرا سے استفادہ کیا ہے۔ علاوہ برآں، انھوں نے اس کتاب میں احوال  و آثار سرخوش  (ص 17-22)، سرخوش کی شاعری کا موضوع (ص 22-36)، سرخوش کی شاعری اور اس کا اسلوب (ص37-44)، سرخوش کی غزلیں (ص 45-50) اور صنائع و بدائع (ص 51-60) عنوانات کے تحت محمد افضل سرخوش کی زندگی اور شاعری کا مفصل جائزہ بھی شامل کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر حافظ شبیر احمد حیدری، بہار یونیورسٹی کے سب سے اہم تعلیمی ادارہ  لنگٹ سنگھ کالج مظفرپور کے شعبۂ فارسی سے وابستہ رہے اور زیر نظر کتاب بھی 2003 میں مظفرپورسے شائع ہوئی۔ ظاہر ہے اس وقت ٹائپنگ وغیرہ کی آج جیسی سہولت نہیں رہی ہوگی۔ ٹائپسٹ کا فارسی سے واقف ہونا بھی بعید از قیاس ہے۔ پروف پڑھنے پر کوئی خاص توجہ بھی نہیں دی گئی ہے۔ ایسے میں کتاب کا اغلاط سے پر ہونا  لازم ہے۔  ان سب کے باوجود، متن کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ حیدری صاحب نے بڑی توجہ اور دیدہ ریزی کے ساتھ تصحیح  متن کا کام انجام دیا ہے جس کے لیے وہ لائق تحسین و آفرین ہیں، لیکن ان سے  تسامحات بھی واقع ہوئے ہیں۔  اگرچہ ان تسامحات کی ایک وجہ یہ رہی ہوگی کہ ’انتخاب دیوان سرخوش‘ کا کوئی دوسرا نسخہ مقابلے کے لیے موجود نہیں تھا۔ تاہم بعض تسامحات، پروف کی غلطیوں سے صرف نظر، ان کے ہیں۔ پوری کتاب میں املا کی یکسانیت بھی ایک مسئلہ ہے۔ چونکہ دیوان سرخوش کا یہ انتخاب فی الوقت اس کے اشعار کا واحد مطبوعہ اور دستیاب مجموعہ ہے اور مزید یہ کہ میرزا بیدل جیسے مسلم الثبوت استاد فن نے اس کا مطالعہ اور انتخاب کیا ہے، لہٰذا یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ مصحح کے تسامحات کی نشاندہی کی جائے اور متن کو از سر نو مرتب و شائع کیا جائے۔ لیکن  از سر نو مرتب اور شائع کرنا اپنے آپ میں کارے دارد ہے اس لیے ذیل میں مصحح کے تسامحات کی نشاندہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ احسن تو یہ تھا کہ مخطوطہ بھی پیش نظر رہتا لیکن سر دست قواعد شعری،اصول زبان، املا، موجودہ طرز نگارش اور بعض مقامات پر قیاس کی بنیاد پر تصحیحات کی یہ جدول ضروری توضیحات و حواشی کے ساتھ مرتب کی گئی ہے:

غزل 1 (ص 61)

متن

تصحیح

چہ خوش نامی بر آمد الہ الہ از زبان ما

چہ خوش نامی برآمد اللہ اللہ از زبانِ ما

کہ چون شبنم ہمہ حشمت بار کاروان ما

کہ چون شبنم ہمہ چشم است 1؎بارِ کاروانِ ما

بود از بوی گل یک پردہ ناز کنز فغان ما

بُود از بوی گل یک پردہ نازک تر 2؎ فغانِ ما

بسر داریم سودای گل دیدار خورشیدے

بہ سر داریم سودای گلِ دیدارِ خورشیدی

مزاج نازکی داری ز خاک (؟) چہ می پرسی

مزاجِ نازکی داری ز خاکِ [ما] چہ می پرسی

غزل2 (ص 61)

کہ آتش میز نداز بھر یک نخچیر صحرا را

کہ آتش می زنند از بھرِ یک نخچیر صحرا را

ھمیںدستے و جامی مچو نرگس بس بود ما را

ھمین و جامی ھمچو نرگس بس بْوَد ما را

زپا افتاد پیش خاک ساران آبرو دارد

ز پا اْفتادہ پیشِ خاک ساران آبرو دارد

غزل 3 (ص 61)

کہ حرف گلدام؟ پری تار نگاھم را؟

کہ حرفِ گل [بْوَد]3؎ دامِ پری تارِ نگاھم را

غزل 4 (ص 62)

 

قد خم صیقل آئینہ (کذا) کشت درپیری

قدِ خم، صیقلِ آیینہ، [ھردو] 4؎کْشت در پیری

غزل 5 (ص 63)

می را بہوای لب جان بخش تو شیون

می را بہ ھوای لبِ جان بخشِ تو شیون

سرخوش چو نگارد سخن زان قدر عنا

سرخوش چو نگارد سخنی زآن قدِ رعنا

غزل 6 (ص 63)

خواندہ ام یوسف و1؎ زلیخا و سکندر نامہ را

خواندہ ام یوسف زلیخا و سکندرنامہ را

در نوشتن کے حاجت بمسطر نامہ را

در نوشتن کی [بْوَد] 2؎  حاجت بہ مسطر، نامہ را

از زبان طفل بنویسد بشو ھر نامہ را

از زبانِِ طفل بنویسد بہ شوہر نامہ را

شمع میسازد عیان اسرار بیسر نامہ را

شمع می سازد عیان اسرارِ بی سرنامہ را

مصرعی آئینہ حیرت شدہ سرخوش مرا

مصرع ای آیینۂ حیرت شدہ سرخوش مرا

غزل 8 (ص 64)

برخ میزیبدت این گوشہ معجز کشید نھا

بہ رخ می زیبدت این گوشۂ معجز کشیدن ہا 3؎

باین شوخی گذاری گر فتد بر قتل گاہ من

بہ این شوخی گذارت  4؎ گر فتد بر قتل گاہِ من

غزل 9 (ص 64 و 65)

تازہ کردن آب نتواند گل افسردہ را

تازہ کردن آب نتواند گلِ پژمردہ را 5؎

غزل 10 (ص65)

کہ بوی گل نفس دزدیدہ چون کرد کباب اینجا

کہ بوی گل نفس دزدیدہ چون گردِ کتاب این جا 6؎

کہ میگردد رگ گل ھمچو حسن بر روئے آب اینجا

کہ می گردد  رگِ گل ھمچو خس بر روی آب این جا 1؎

کہ پردازد بسوی سینہ ام در بزم او سرخوش

کہ پردازد بہ سوز سینہ ام در بزمِ او ’سرخوش‘2؎

غزل  11 (ص 65)

بسکہ پیچید 3؎  در زمین و آسمان افغان ما

بس کہ پیچد در زمین و آسمان افغان ما

غزل  12 (ص 65-66) 4؎

نکویان را اثر سوئی حیات جاودان خواند  

نکویان را اثر سوی حیاتِ جاودان خواند

خدائی میکند طبیعت 5؎ در اعجاز سخن سرخوش

خدایی می کند طبعت در اعجازِ سخن سرخوش

غزل  13 (ص66) 

چون 6؎  شبنم برکشا از بیخودی بال و پر خودرا

چو شبنم برگشا از بی خودی بال و پرِخود را

بخیلان را بزر عشق و کرم بود اگر با خود

بخیلان را بہ زر عشق و کرم بودہ اگر با خود

ر شوق مصرع فیضان بخوش آمد دلم سرخوش

ز شوقِ مصرعِ فیضان بہ جوش آمد دلم سرخوش

غزل  14 (ص 66)

نمیدانی کہ برگ گل مراھم از تو نالہ دارد

نمی دانی کہ برگِ گل مرا ھم از تو نالہ کرد 7؎

غزل  15 (ص 67)

نوید جلوہ حسنش دھد دلرا صفا دادن

نویدِ جلوۂ حسنش دھد دل را صفادادن1؎

غزل  16 (ص 67)

چہ عشر تھا است دردل کشتہ تیغ نگاھت را

چہ عشرت ھاست در دل کشتۂ تیغِ نگاھت را

غزل  17 (ص67)

کدامئی شھید 2؎ در کام تمنا ریخت خاموشی

کدامی شھد در کامِ تمنّا ریخت خاموشی

غزل  18(ص 67-68)

کرا باشد تمنامی نشاط جاودان سرخوش

کہ را باشد تمنّای نشاطِ جاودان سرخوش

غزل  19 (ص 68)

با شکست دل نجوید جلوہ نقش مراد

با شکستِ دل نجوید جلوہ ای نقشِ مراد

کس نسبت از موی؟ چین خامہ تصویر را

کس نبست از موی [پْر] 3؎چین خامہ تصویر را

کجا شود آزاد در عالم گرفتار اثر

کی بْوَد آزاد در عالم گرفتارِ اثر4؎

غزل  20 (ص 68)

لبش از یک تبسّم مینماید فتح یا بم را

لبش از یک تبسّم می نماید فتح، بابم را5؎

غزل  21 (ص 68-69)

کجا فقیر بدل جا دھد تونگر را

کجا فقیر بہ دل جا دھد توانگر را

غزل  22 (ص 69)

ز سوز عشق نہ پیچید1؎  چو شمع گردن را

ز سوزِ عشق نپیچد چو شمع گردن را

غزل  23 (ص 69) 2؎

چون گہر پروردہ درکشتے دریائی مرا

چون گھر پروردہ در کشتیِّ دریایی مرا

غزل  24 (ص 69)

میتوان در مردمی ھم آز مودن اند کے

میتوان در مردمی ھم آزمودن اندکی

امتحان تنہا مین بر (کذا) نبود مرد را

امتحان تنھا ھمین بر [مرد] 3؎ نبوَد مرد را

غزل  25 (ص 70)

پژ مردہ کس ندیدہ گل آفتاب را

پژمردہ کس ندید4؎ گلِ آفتاب را

اھل صفاز5؎  فقر ز خود بگذر ند زود

اھل صفا بہ فقر، ز خود بگذرند زود

غزل  26 (ص 70)

ھوشیاری را حجاب یار6؎ میدا نیم7؎  ما

ھوشیاری را حجابِ یار میدانیم ما

غزل  27 (70)

نمود مادرین دریا حجاب است

نمودِ ما، در این دریا حجاب است

حباب از خویشتن چون رفتہ آب است

حباب از خویشتن چون رفت، آب است

پریشانی است سامان نشاطم

پریشانیست سامان نشاطم

 

یا

 

پریشان است سامان نشاطم

اگر چیز است در عالم شراب است

اگر چیزی ست در عالم، شراب است

غزل  28 (ص 71)

کجا شوریدہ ھا حسن ترا حاجت بشمشیر است 

کجا شوریدۂ حسنِ تو را حاجت بہ شمشیر است 

خروشی سینہ افگار آواز پیٔ تیر است

خروشِ سینۂ افگار آوازِ پیِ تیر است

کہ اینجا خواب مارا دولت بیدار تعبیر است

کہ این جا خوابِ پا 1؎ را دولتِ بیدارِ تعبیر است

غزل  29 (ص 71)

راز ماشد فاش وحال ما ہمان پوشدہ ھا است

رازِ ما، شد فاش وحالِ ما ھمان پوشدہ است 2؎

نہ ھمین بالای او بر ما بلا گردیدہ ھا است

نی ھمین بالای او بر ما بلا گردیدہ است

شوخی حسنت ز جام گل شرابی رنگ ریخت

شوخیِّ حْسنت ز جامِ گل شرابِ رنگ ریخت

غزل  31 (ص 72)

برق جولانی کہ بی پروا ازین وادی گذشت

برقِ جولانِ کہ 3؎ بی پروا از این وادی گذشت

غزل  32 (ص 72)

برد ھوشم بوئی 4؎ می دیگر نمی دانم چہ شد

برد ھوشم بوی می دیگر نمی دانم چہ شد

غزل  33 (ص 72)

پای گل در حنا ز رنگ خود است

پای در گِل حنا ز رنگ خود است

غزل  36 (ص 73)

چو پیر قدر جوانی کسے نمید اند

چو پیر، قدرِ جوانی کسی نمیداند

بین زرفتن شب میدارد گریبان صبح 1؎

ببین ز رفتنِ شب میدَرَد گریبان صبح

غزل  38 (ص 74)

کہ شویند ش باب گل چو دست آلودہ  تر باشد

کہ شویندش بہ آبِ گل چو دست آلودہ تر باشد

غزل  39 (ص 74)

میپرد رنگم حبابی گربدریا بشکند

می پَرَد رنگم حبابی گربہ دریا بشکند

باغبان حسرت زبھر غنچۂ خواھد کشید

باغبان حسرت ز بھرِ غنچہ ای2؎  خواھد کشید

غزل   40 (75)

بسینھاچہ غبار ھوس غنا کہ نریزد

بہ سینھا ھاچہ غبار ھوس غنا کہ نریزد

غزل   41 (75)

استخوان ماہی آخر قبضہ خنجر شود

استخوانِ ماھی آخر قبضۂ خنجر شود3؎

غزل   43 (76)

لختھای دل بیکجا جمع شد گل ساختند

لخت ھای دل چو یک جا1؎ جمع شد گل ساختند

خط او شد سبزی کز بخت ما برداشتند 

خطِّ او شد سبزی ای کز بختِ ما برداشتند

غزل   48 (77)

سیل چون باب بحر آمیخت دریا میشود

سیل چون با آبِ بحر آمیخت، دریا می شود

غزل   49 (78)

طوطیم شد بسکہ بود نالہ سر تا با زبان

طوطی ام شد بس کہ محو نالہ سر تا پا زبان2؎

غزل   50 (ص 78)

چمن را اضطرابے اوست داد از شوق بالایش 

چمن را اضطرابی دست 3؎ داد از شوقِ بالایش

کہ شد پادر رکاب از طوق قمری سردر عنایش

کہ شد پا در رکاب از طوق قمری سروِ رعنایش

ز شوقش بسکہ مجنون دادہ ھردم داد بنیابسے

ز شوقش بس کہ مجنون دادہ ھردم دادِ بیتابی

ز نقش پای آھو بال و پروا کردہ صحرایش

ز نقشِ پای آھو بال و پر، وا کردہ صحرایش

غزل   51 (ص 78)

بر سر جامے کند ھمسایہ در تعمیر جنگ

بر سرِ جا،4؎  میکند ھمسایہ در تعمیر جنگ

گرمی مرد  انگی از سرد طبعان کم مطلب5؎

گرمیِّ مردانگی از سرد طبعان کم طلب

غزل   52 (ص 79)

بردم شمشیر میخفتم و 1؎ فراغت داشتم 

بر، دمِ شمشیر میخفتم، فراغت داشتم

یاد ایا  می کہ شو  قم خود سری ھامی نمود

یادِ ایّامی کہ شوقم خودسری ھا می  نمود

جنبش لب در حدیث عشق پر بی لطف بود

جنبشِ لب در حدیثِ عشق بس2؎ بی لطف بود

غزل   53 (ص 79)

چون قطعہ بریدہ بود نقش ھستیم

چون قطعۂ بریدہ بْوَد نقشِ ھستیام

غزل   54 اور 55 (ص 79-80)

ان دونوں غزلوں کو قافیوں کی شباہت اور ہم وزن ہونے کی وجہ سے ایک غزل سمجھا گیا ہے۔ اول الذکر غزل کے قوافی سینہ ام، آیینہ ام ہیں اور مؤخرالذکر کے قافیے پیشہ ام، شیشہ ام اور ریشہ ام ہیں۔

غزل   55 (ص 79-80)

کاھش تن بشگا فند نخل امید مرا

کاھشِ تن میشگافد نخلِ امّیدِ مرا

غزل   56 (ص 80)

چہ پروا عاشق وارستہ را زآفت دوران

چہ پروا عاشقِ وارستہ را از آفتِ دوران

غزل   57 (ص 80)

غمش ھر لخت دل [؟] چشم ترمی آورد بیرون

غمش ھر لختِ دل [از] 3؎ چشمِ تر می آورد بیرون

چو برگ لالہ باداغ دگرمی آدور بیرون

چو برگِ لالہ با داغِ دگر میآورد بیرون

غزل   58 (ص 80-81)

ھردم از حسرت بہ پیغامی دلم را شاد کن

مْردم از حسرت4؎ بہ پیغامی دلم را شاد کن

ھرزہ  نالیھایت این دل سخت درد سر فزود

ھرزہ نالیھایت ای 5؎ دل، سخت دردِ سر فزود

غزل   60 (ص 81)

زباد رنگ صھبا بشکند چون گل ایاغ او

ز بارِ 1؎ رنگ، صھبا بشکند چون گل ایاغِ او

مزاجش تاب شور نعرھا مستان کجا دارد

مزاجش تاب شور نعرۂ مستان کجا دارد

غزل   61(ص 81-82)

کہ صندل سود میگر دد باب آھستہ آھستہ

کہ صندل سود میگردد بہ آب آھستہ آہستہ

اس مختصر مضمون میں صرف ’انتخاب دیوان محمد افضل سرخوش‘ میں شامل غزلیات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جن کی مجموعی تعداد 61 ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر حافظ شبیر احمد حیدری نے اس انتخاب کی تصحیح و ترتیب محنت اور دیدہ ریزی سے کی ہے تاہم کتاب کی پروف ریڈنگ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے اور بلامبالغہ کتاب میں ایک سطر بھی ایسی نہیں ہے جس میں پروف کی کوئی غلطی نہ ہو۔ اس کے ساتھ  املا کی یکسانیت بھی پوری کتاب میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ طرز املا کی رعایت نہیں ملتی۔مزید،  اختلاف و انتخاب متن سے بعض مقامات پر مصحح کی سہل انگاری واضح ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے بلکہ توجہ سے زیادہ تعجب کی  ہے کہ مصحح نے جہاں بہت سے تذکروں سے اشعار ملانے کا کام کیا ہے وہیں ’تذکرہ شعرائے کشمیر ‘جیسے اہم تذکرے کو نظرانداز کردیا ہے۔اس تذکرے میں نہ صرف محمد افضل سرخوش کے مکمل تراجم متفرق تذکروں سے نقل کیے گئے ہیں بلکہ سرخوش کے اشعار کا اچھا خاصا انتخاب بھی موجود اور بعض اشعار کے ذیل میں شان نزول اورتذکرہ نگاروں کی نقد و نظربھی ہے جن سے مصحح کو ’انتخاب دیوان ‘ کی تصحیح میں بہت مدد ملتی اور ایسے اشعار بھی ملتے جو اس انتخاب میں موجود نہیں جنھیں علیحدہ باب کی صورت میں اس کتاب میں شامل کیا جا سکتا تھا جس سے یقینا یہ انتخاب سرخوش کے کلام کا ایک مکمل اور قابل استناد مجموعہ بن سکتا تھا۔ ان سب باتوں اورنسخے کی اہمت کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ اس کی ترتیب و تصحیح از سر نو کی جائے تاکہ یہ اہم انتخاب کلام معاصر معیاروں کے ساتھ دنیائے ادب میں متعارف ہو سکے اور سرخوش جیسے اہم شاعر کا جو کچھ کلام دست برد زمانہ سے محفوظ رہ گیا ہے وہ صحت متن کے ساتھ منظر عام پر آسکے۔ حیدری صاحب  تو اب رہے نہیں، کاش بقول حافظ: مردی از غیب برون آید و کاری بکند!

آخر میں یہ بات بے محل نہیں کہ محمد افضل سرخوش یا دیگر شعرا کے اشعار کا ایک اہم لیکن بے توجہی کا شکار مصدر بیاضیں بھی ہیں اور تصحیح متن کے وقت تذکروں و دیگر مصادر کے علاوہ بیاضوں کو بھی دیکھنا چاہیے مخصوصاً اگر شعری نسخوں کی تصحیح کی جانی ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ ان دنوں کتابخانہ رامپور کی ایک قلمی بیاض راقم السطور کے زیر مطالعہ ہے۔ اس بیاض میں سرخوش کے 6 شعر ملے جن میں سے درج ذیل ایک شعر زیر نظر انتخاب میں مفقود ہے:

در عدم ھم ز عشق شوری ھست

گل، گریبان دریدہ می آید

ساتھ ہی سرخوش کے بیٹے میرزافضل اللہ کا درج ذیل ایک شعر بھی اس بیاض میں مندرج ہے     ؎  

بس کہ سرگرم فنا گردیدہ ام مانند شمع

قطع، راہ زندگانی را بہ یک پا می کنم

سفینۂ خوشگو (ص 171-72)  میں سرخوش کے دو بیٹوں کا ذکر آیا ہے۔ بڑے بیٹے کا نام فیض اللہ تھا جو کہ سرخوش کی حیات ہی میں فوت کر گئے تھے اور دوسرے بیٹے کا نام فضل اللہ تھا جن کی وفات سال 1141ھ/ 1728-29 میں واقع ہوئی۔ خوشگو1؎ کہتا ہے کہ سرخوش نے اپنے بڑے بیٹے کو ’خوش قلم‘، چھوٹے بیٹے کو ’خوشتر‘ اور اسے ’خوشگو‘ تخلص دیا تھا۔فضل اللہ خوشتر  سے متعلق تذکروں سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ شاعر اور خوش نویس تھے،محمد شاہ کی رضاعی بہن رحیمۃ النسا کے بھائی علی احمد خاں کی ملازمت میں تھے اور پانصدی منصب اور ’ہنرور خان‘ خطاب پایا تھا۔خطاب کی مناسبت سے اشعار میں ’ہنر‘ تخلص بھی کرتے تھے۔ ان کے چند اشعار پراکندہ صورت میں تذکروں میں ملتے ہیں۔2؎ یہ بات قابل ذکرہے کہ معروف ایرانی محقق عبدالرسول خیامپور نے اپنی کتاب فرہنگ سخنوران3؎ میں ’خوشتر‘ اور ’ہنر‘ کو دو الگ شاعر سمجھا ہے جب کہ دونوں کے ذیل میں ’فرزند محمد افضل سرخوش‘ بھی لکھا ہے۔

حیدر صاحب نے سرخوش کے احوال و آثار پر ایک کتاب ’سرخوش شناسی‘ تالیف کی تھی جو 2008 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب 6 ابواب پر مشتمل ہے۔ 

کتابیات

l         آذر، لطف علی بیگ؛ آتشکدہ، کارخانہ داود میا، بمبئی، 1277ھ، ق/1860-61

l         آرزو، سراج الدین علی خان؛ مجمع النفائس، ج2، بکوشش مہرنورمحمدخان، باہمکاری زیب النسا علی خان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، 1427 ھ، ق /2006

l         آزاد بلگرامی، میر غلام علی؛  سرو آزاد، تصحیح و تحشی: عبداللہ خان، مطبع دخانی رفاہ عام، لاہور، 1337 ھ، ق /1913

l         آزاد بلگرامی، میر غلام علی؛ خزانۂ عامرہ ، مطبع نول کشور، کانپور، 1871

l         اختر ہوگلوی، قاضی محمد صادق خان؛ تذکرۂ آفتاب عالمتاب، ج 1، تصحیح: مرضیہ بیک وردی، انتشارات سفیر اردھال، تہران، 1393ھ.ش/2014

l         اخلاص شاہجہان آبادی، کشن چند؛ ہمیشہ بہار، با مقدمہ و تصحیح و تحشیہ: زبیر احمد قمر، بھارت آفسیٹ پریس، دہلی، 2002

l         انوشہ، حسن؛ دانش نامۂ ادب فارسی در شبہ قارہ، ج 4/2، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، تہران، 1375 ھ.ش/1996

l         حزین لاہیجی، شیخ محمد علی؛تذکرۂ حزین،انتشارات کتابفروشی تایید(چاپ دوم)، اصفہان، 1334ھ، ش/1955

l         حسینی سنبھلی، میر حسین دوست؛  تذکرۂ حسینی، مطبع نول کشور، لکھنو، 1292 ھ، ق /1875 

l         حیدری، حافظ شبیر احمد؛ انتخاب دیوان محمد افضل سرخوش موسوم بہ منتخب و گلدستہ معانی، کتابستان، مظفرپور، 2003

l         خوشگو، بندرابن داس؛ سفینۂ خوشگو، دفتر ثالث، تنظیم: سید شاہ محمد عطا الرحمن عطا کاکوی، پٹنہ، 1959

l         خیام پور، عبدالرسول؛ فرہنگ سخنوران، انتشارات طلایہ، تہران، 1368 ھ،ش/1989

l         راشدی، سید حسام الدین؛ تذکرۂ شعرائے کشمیر، 4ج، اقبال اکاڈمی، کراچی، 1346ھ،ش/1967

l         سرخوش، میر محمد افضل؛ کلمات الشّعرا، تصحیح: صادق علی دلاوری، دین محمدی پریس، لاہور، 1361 ھ،ق /1942

l         شاہنواز خان اورنگ آبادی، عبدالرزاق؛ بہارستان سخن، تکمیل: میر عبدالحی خان صارم، بہ تصحیح: میر عبدالوہاب بخاری، گورنمنٹ اورینٹل مینوسکرپٹس لائبریری، مدراس، 1958

l         صبا، محمد مظفر؛ تذکرۂ روز روشن، مطبع شاہجہانی، بھوپال، 1296 ھ،ق /1879

l         صدیق حسن خان، سید محمد؛ شمع انجمن، بہ اہتمام مولوی محمد عبدالمجید خان، مطبع شاہجہانی، بھوپال، 1293 ھ،ق /1876

l         صفا، ذبیح اللہ؛ تاریخ ادبیات در ایران، ج  5/2، انتشارات فردوسی، تہران، 1368 ھ،ش/1989

l         طاہر نصرآبادی اصفہانی، محمد؛  تذکرۂ نصرآبادی، چاپ خانہ ارمغان، تہران، 1317 ھ،ش/1938

l         عاشقی عظیم آبادی، حسین قلی خان؛ تذکرہ نشتر عشق، 2ج، تصحیح و تعلیقات: سید کمال حاج سید جوادی، میراث مکتوب، تہران، 1391ھ،ش/2012

l         عبدالرشید، سرآہنگ خواجہ؛ تذکرۂ شعراے پنجاب، اقبال اکاڈمی، کراچی، 1346 ھ، ش /1968

l         علی، نقش؛  باغ معانی، تصحیح و ترتیب: عابد رضا بیدار، خدابخش ارینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ، 1977

l         قدرت اللہ گوپاموی، محمد؛ تذکرہ نتائج الافکار، مطبع سلطانی، بمبئی، 1336ھ،ش/1957

l         گلچین معانی، احمد؛ تاریخ تذکرہ ہا، ج 2، انتشارات کتابخانہ سنائی، تہران، 1363 ھ،ش/1984

l         گلچین معانی، احمد؛ کاروان ہند، 2ج، موسسہ چاپ و انتشارات آستان قدس رضوی، مشہد، 1369 ھ، ش/1990

l         لودی، امیر شیر علی خان؛ مرآۃالخیال، بہ اہتمام میرزا محمد ملک الکتاب شیرازی، مطبع مظفری، بمبئی، 1324 ھ، ق /1906

l         نقوی، سید علی رضا؛ تذکرہ نویسی فارسی در ہند و پاکستان، موسسہ مطبوعاتی علمی، تہران، 1383 ھ.ق /1964

l         نوشاہی، عارف؛کتاب شناسی آثار  فارسی چاپ شدہ در شبہ قارہ، 4ج، میراث مکتوب، تہران، 1391 ھ.ش/2012

l         ہندی، بھگوان داس؛ سفینۂ ہندی، مرتبہ: سید شاہ محمد عطا الرحمن عطا کاکوی، ادارۂ تحقیقات عربی و فارسی، پٹنہ،1379 ھ.ق / 1958

 

S. Naqi Abbas (Kaify)

Head, Department of Persian

L. S College, B.R. Ambedkar Bihar University

Muzaffarpur- 842001 (Bihar)

Mob.: 8860793679

Email.: snabbaskaifi@brabu.ac.in

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...