23/7/24

میر تقی میر کی فارسی رباعیات کی اہمیت ومعنویت، مضمون نگار: نیلوفر حفیظ

سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل- جون 2024


تلخیص

میر تقی میر اردو زبان وادب کی ایک قدآوراور عظیم شخصیت تصور کیے جاتے ہیں لیکن اردو کے ساتھ ساتھ وہ فارسی زبان کے بھی ایک بہترین شاعر تھے ان کا ایک مختصر دیوان فارسی زبان میں بھی موجودہے جس میں مختلف شعری اصناف میں طبع آزمائی کی گئی ہے ان کے فارسی کلام کے مطالعے سے یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ وہ معاصرین فارسی گو شاعروں کے جم غفیر میں ایک انفرادی شان اور بلند مقام رکھتے تھے لیکن افسوس کہ ان کے فارسی کلام پر بہت زیادہ توجہ صرف نہیں گئی ہے جس کے سبب ان کی فارسی شاعری کی بے پناہ اہمیت وافادیت منظر عام پر نہیں آسکی،میں نے اپنے اس مختصر مضمون میں میر کی فارسی رباعیات کی ارزش واہمیت کے متعلق اظہار خیال کیاہے ان کی فارسی رباعیات بھلے ہی تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں لیکن اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر میر کو فارسی رباعی گو شعرا کی فہرست میں بلند مقام واعلیٰ مرتبے پر فائز کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے ان کی یہ چند رباعیات آج بھی اپنی معنویت واہمیت کے اعتبار سے معانی وتفکر کا ایک پورا جہاں خود میں سموئے ہوئے ہیں جن کی از سر نو باز یافت عصر حاضر کی اہم بلکہ لازمی ضرورت ہے۔

کلیدی الفاظ

میر تقی میر، فارسی، رباعی، اخلاقیات، حزن و یاس، مایوسی نامرادی، رنج، عشق، آفاقیت۔

————

عصر حاضر میں میر تقی میر کی شاعرانہ عظمت وآفاقیت ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے اس شاعر بزرگ کی شاعرانہ فہم وفراست،ادبی فصاحت وبلاغت اورفکری جدت وندرت کے پیش نظر انھیں اردو زبان وادب میں خدائے سخن، سرتاج الشعرا، دانائے راز شعر اور امام المتغزلین وغیرہ جیسے متعدد القاب سے نوازاگیاہے،ہرچند کہ ان کی شہرت دوام اور مقبولیت عام کا راز ان کی اردو شاعری میں پو شیدہ ہے یعنی اردو شعروادب میں ان کو وہی مقام ومرتبہ حاصل ہے جو فارسی شاعری میں سعدی یا حافظ کو حاصل ہوا ہے لیکن یہاں یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھا جانا ضروری ہے کہ وہ فارسی زبان وادب کے بھی اتنے ہی عظیم اور قد آور شاعر ہیں جتنے کہ اردو زبان وادب کے ہیں اورانھوں نے صرف اردو شعروادب میں ہی نہیں بلکہ فارسی نظم ونثر کے قصر عالی میں بھی امتیازی حیثیت حاصل کی ہے اوراردو ہی کی طرح فارسی زبان میں بھی ان کی عظمت کا لوہا بڑے بڑے دانشوروں نے ماناہے ان کی ہمہ فارسی آثارخواہ وہ نثرمیں ہوں یاپھر نظم میں ان کی اس زبان پر حاکمانہ قدر ت کے منہ بولتے ثبوت ہیں جن کی ارزش وافادیت سے کسی بھی طرح چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔

یہ درست ہے کہ اردو شاعری کے مقابلے میر کا فارسی کلام بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابرہے ان کے مختصر فارسی دیوان میں تقریباً 522 غزلیات، 104رباعیات ایک مثنوی اورایک منقبت شامل ہے جبکہ اس کے بالکل برعکس اردوادب میں ان کے چھ طول وطویل دیوان ملتے ہیں جنھوں نے ان کا نقش دوام اس جریدئہ عالم پر ثبت کر دیاہے لیکن یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کی فارسی شاعری بھی ان کے اردو کلام ہی کی طرح جاذب وجالب اور ان کے انفرادی لب ولہجے کی آئینہ دارہے بلکہ بعض مواقع پر تو ان کے فارسی اشعارمیں اردو کلام سے زیادہ تنوع، بوقلمونی، ہمہ گیری، جدت اور ندرت پائی جاتی ہے ان کے فارسی کلام میں قدیم سرمایے کا بہترین نمونہ اور مستقبل کے لیے افادیت ومعنویت کے تمام ضروری لوازمات موجود ہیں لیکن جائے تاسف ہے کہ ہم فارسی جیسی شیریں اورلطیف زبان سے عدم دلچسپی کے سبب میر کے فارسی کلام کے نقش ہائے رنگ رنگ کے حسین وخوبصورت جلوؤں کے اژدہام کے دیدارسے محروم رہتے ہیںبلکہ بعض سہل پسندمحققین نے تو ان کے فارسی کلام کو ان کے اردو کلام کی صدائے باز گشت کہتے ہوئے رد کرنے کی بھی اپنی سی پوری کو شش کی ہے، اورکلام میر کے افادی پہلوئوں سے قطع نظر اس کی طرف سے بے اعتنائی اختیار کر لینے میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے جبکہ ایمانداری کے ساتھ ان کے فارسی کلام کا مطالعہ ومحاسبہ کیا جائے توحقیقت اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے ان کے درست ادبی مقام و مرتبے کا تعین بغیر ان کی فارسی خدمات کا جائزہ لیے، ممکن ہی نہیں ہے اور یہی سبب ہے کہ ان کی فارسی شاعری کی اہمیت وارزش کا اعتراف بڑے بڑے دانشوروں نے بھی کیاہے۔

میر تقی میر کی فارسی گوئی کی عظمت کا لوہاصرف ان کے معاصرین نے ہی نہیں ماناہے بلکہ ان کے بعد کی نسلوں نے بھی ان کے افکار کی تمام تر تنقیدوانتقاد کے باوجوداس زبان پر ان کی حاکمانہ قدرت کا کھلے دل کے ساتھ اعتراف کیاہے محمود حسن قیصر امروہی نے میر کی فارسی دانی کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے بالکل درست لکھاہے :

’’میرتقی میر جس طرح اردو زبان کے ایک بلند پایہ شاعرہیں،اسی طرح فارسی نظم میں بھی بجاطورپراستاد کہلائے جانے کے مستحق ہیں ان کی شاعری کا یہ پہلواتنااہم اور ضروری ہے کہ بغیر اس کے میر کی عظمت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا‘‘1؎

میر تقی میر نے فارسی زبان وادب کی مختلف نثری اورشعری اصناف میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں اور اس زبان میںاپنے احساسات دروں کے اظہار کے لیے اپنے اور قارئین کے لیے بہت سی نئی اورتازہ راہیں بھی ہموار کی ہیں اور انھوں نے تو فارسی زبان میں بھی بہترین اور اعلیٰ غزلیات کہی ہیںجو ابتدا ہی سے اپنی بے پناہ اہمیت وافادیت اور گوناگوں صفات کی بنا پر دانشوران فارسی کی توجہ کامحور و مرکز بنی رہی ہیں بھلے ہی فارسی غزل گوئی میں میر کو حافظ یا سعدی وغیرہ  جیسے شاعروںکے مساوی درجہ نہ دیا جا سکے لیکن ایک بہترین شاعر تو یقیناکہا جا سکتاہے۔ میر نے فارسی غزل گوئی کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ، فارسی رباعی گوئی میں بھی طبع آزمائی کی ہے اوریہ بات پورے وثوق اور یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ میر کوفارسی ادب کی شعری صنف میںاگرغزل کے بعد کسی دوسری صنف میں کمال حاصل ہوا تو وہ ان کی فارسی رباعیات ہیں ان کی زیادہ تر فارسی رباعیات بیش قیمت نگینوں کی طرح ہیں جن میں سے معانی ومفاہیم کی شعاعیں مسلسل نمودار ہوتی رہتی ہیں اور قارئین کے اذہان کو جلا، فکر کو نئی سمت اور قلوب کو راحت کاسامان فراہم کرتی رہتی ہیں بشرطیکہ خوانندہ دل حساس اور چشم بینا کا مالک ہو۔

اس حقیقت سے روگردانی نہیں کی جا سکتی ہے کہ میر کے فارسی دیوان میں ا ن کی رباعیات کی تعداد اساتذہ رباعی گو شاعروں کے مقابلے میںبہت ہی کم ہے لیکن معنی آفرینی، جدت بیانی اور تازہ گوئی کے اعتبار سے ان کی رباعیات میں معانی  ومفاہیم کا ایک تازہ جہان آباد نظرآتاہے، ان کے مطبوعہ کلیات میں فقط 104ہی رباعیات ملتی ہیں جو یقینامیرکی زود گوئی طبیعت کے پیش نظر کمیت کے اعتبار سے بہت کم ہیں لیکن کیفیت کے اعتبار سے وہ بڑے رباعی گو شعرا کے ہم پلہ قرار دی جا سکتی ہیں ان کی زیادہ تررباعیات حکمت ودانش، عرفان الٰہی وشناخت ذات، حسن وعشق، پند وموعظت، عصری مسائل ومصائب اوراخلاقی وانسانی گراوٹ وغیرہ جیسے بہت سے اہم اورچبھتے ہوئے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں اگر ایک طرف ان کی رباعیات میں احساس کی شدت وحدت پائی جاتی ہے تو وہیں دوسری طرف ان کے گہرے مشاہدے اور تجربے کی جدت وندرت بھی دیکھنے کو ملتی ہے جیسا کہ ہم سب ہی واقف ہیں کہ فن رباعی کو تصوف سے خصوصی مناسبت ہے لہٰذا زیادہ تر رباعی گو شاعروں نے اپنی رباعیات میںپندونصیحت، اخلاق وکردار،عارفانہ خیالات ونظریات،صوفیانہ افکار واحساسات، فلسفیانہ موضوعات وجذبات اورحیات و موت وغیرہ جیسے خالص متصوفانہ مضامین کو ہی نظم کرنے پر اکتفا کیا ہے لیکن معاصرین رباعی گو شاعروں میں میر کی انفرادیت اورجدت یہ ہے کہ انھوں فن رباعی میںبھی اپنے لہجے کی اس انفرادیت اوراحساس کی شدت کو پورے طمطراق کے ساتھ برقرار رکھا ہے، اوراس مختصرومحدودصنف میں بھی بہت سے تازہ اور نئے مضامین پیش کیے ہیں ان کی رباعیات میں حیات وکائنات کے بہت سے نکات نئے زاویوں اور تازہ سیاق وسباق کی روشنی میں پیش کیے گئے ہیں جو ان سے پہلے صرف صنف غزل میں ہی بیان کیے جاتے تھے لیکن انھوں نے اپنے دل کش اسلوب اور خوبصورت انداز بیان کی مدد سے برسوں کی قائم شدہ روایات میں حیرت انگیز حد تک تبدیلی پیدا کرنے کی بڑی ہی کامیاب کوشش کی ہے حالانکہ ان کی رباعیات کا غالب رنگ عاشقانہ ہی نظرآتاہے بایں ہمہ اکثر مواقع پر بہت سے اچھوتے اورخوبصورت خیالات بھی دیکھنے کوملتے ہیں۔

میرکی فارسی رباعیات میں بھی ان کی فارسی غزلوں ہی کی طرح بلا کی تڑپ، سوزش اور دردمندی پائی جاتی ہے لیکن افسوس کہ ان کی فارسی رباعیات کی اس سوزش کوفارسی داں حلقے کی جانب سے بہت پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی حالانکہ اس حقیقت کو ماننے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ رباعیات میرکو بھلے ہی عمر خیام، ابوسعید ابو الخیر،سرمد شہیداورخواجہ عبداللہ انصاری وغیرہ جیسے شعرا کی رباعیات پرتوفق و ترجیح نہ دی جا سکے لیکن اتنا ضرورکہا جا سکتاہے کہ میر کی فارسی شاعری پر بات کرنے والا کوئی بھی محقق یا ناقد ان کی ان فارسی رباعیات کو نظراندازکرتے ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتا۔اگرمیر کی فارسی رباعیات کی خصوصیات کی بات کی جائے تو ان کی رباعیات میں سب سے پہلی اور نمایاں خصوصیت یہ نظرآتی ہے کہ انھوں نے چار مصرعوں کی اس صنف میں مذہبی افکار واحساسات کو بڑی شدت وحدت اور پرسوز وپرتاثیر لہجے میں بیان کیاہے ان کے دیوان میں متعد د ایسی رباعیات ملتی ہیں جو ان کے مذہبی افکار و احساسات کی بڑی حقیقی اور سچی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیںیہ رباعیات حمد، نعت، کربلااور ذکر حسینؓ وغیرہ پر مشتمل ہیں۔

اہل نظر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ رباعی کہنا ایک بہت ہی مشکل اور پیچیدہ فن ہے کیونکہ مخصوص بحور، اوزان اور فقط چار مصرعوں میں معانی ومفہوم کی پوری ایک دنیا سموکر قارئین کے سامنے پیش کرناشاعر کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔میر کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے رباعی گوئی کی تمام قیود وحدودکی پاسداری کرتے ہوئے اپنی تخلیقی قوت، ذہنی لیاقت اور فنی صلاحیت کی مدد سے اس شعری صنف میں بھی اپنی انفرادیت، امتیاز اورعظمت کو اسی طرح باقی رکھا ہے جیسا کہ دوسری شعری اصناف میں رکھا تھا میر کی رباعیات کاایک اور وصف خاص یہ ہے کہ انھوں نے ان رباعیات میں حکیمانہ خیالات اورصوفیانہ افکار کو بھی بڑی عمدگی اورچابکدستی کے ساتھ پیش کیاہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ تصوف فارسی شاعری کی خوبصورت دلہن کا زیورہے میرسے قبل بھی متصوفانہ موضوعات کو صنف رباعی میں بیان کیا جاتارہاہے لیکن میر کے صوفیانہ مزاج اور درویشانہ عادات نے ان کی متصوفانہ رباعیات کو خصوصی طورپرایک حسن اور رعنائی عطا کی ہے جو ان کو فارسی صوفی رباعی گو شاعروں میں نمایاں مقام عطا کرتی ہے اب ان کی مندرجہ ذیل رباعی دیکھیے جس میں وہ ایک صوفی صادق کی طرح بتاتے ہیں کہ معشوقِ حقیقی کے جلووں کا دیدار کر لینے کے بعد کو اس دنیامیں پھرکسی دوسری چیز کی کوئی خواہش اورتمنا باقی نہیں رہتی ہے اور جس خوش قسمت کو اس کے مالک حقیقی تک رسائی ہو گئی گویا اس نے فقیری میں بھی بادشاہت حاصل کر لی اورجب اس کو بادشاہتِ حقیقی حاصل ہو گئی تو پھر وہ انسان تمام دنیاوی لوازمات سے بے نیاز ہو جاتاہے لہٰذا وہ اپنے اسی خیال کی ترجمانی کرتے ہوئے بڑے ہی متاثر کن لہجے میں کہتے ہیںکہ جس کو مالک حقیقی کا دیدارحاصل ہوگیا گویا وہ تمام دنیاوی چیزوں سے بے نیاز ہو گیا       ؎

دیدار تو ہر کہ را میسر گشتہ

بگذیدہ فقیری وبہ ہر در گشتہ

مالید بہ رو خاک ونمد در پوشید

آئینہ نہ دیدی کہ قلندر گشتہ

ترجمہ:  جس کسی کو بھی تیرا دیدار میسر آگیاتوگویا اس نے پھرفقیری اختیار کرلی اوروہ ہر دروازے پر گھوما، اپنے منہ پر خاک مل لی اور ایک کمبل سے خودکو ڈھانپ لیا اور آئینہ نہیں دیکھا کہ قلندر ہو گیا۔     

ابتدائی دور سے ہی صوفیا وعرفاکا سب سے پسندیدہ بلکہ محبوب موضوع اخلاقیات کا رہا ہے اور فارسی شاعری میں بھی ہمیں اخلاق وکردارسازی کے متعلق کی گئی شاعری بڑی وافر تعدادمیں نظرآتی ہے چونکہ میر کے مزاج میں بھی تصوف کوٹ کوٹ کر بھراتھا تو بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس اہم موضوع کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے لہٰذا ہمیں ان کی رباعیات میں اخلاقی تعلیمات سے متعلق بہت سی دلچسپ اور فکرکن رباعیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ میر نے اخلاقیات جیسے بے رنگ اوربے نمک موضوع کو بھی اپنی سلیس بیانی اور سادہ گوئی سے اس قدردلکش اور پرکشش بنا دیاہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتااور کچھ ہی دیر کے لیے سہی لیکن ان کی دی گئی اخلاقی تعلیمات قارئین کے ذہن ودل کو غوروفکر کرنے پر مجبور ضرور کر دیتی ہیں ان کی مندرجہ ذیل رباعی دیکھیں جس میں انھوں نے اس دنیا میں مال ودولت اور جاہ وحشمت پر غرور وتکبر کرنے والوں کو تنبیہ کی ہے کہ اس دنیاوی مال ومنال کو کبھی بھی پائداری اوربقا حاصل نہیں ہو سکتی ایک نہ ایک دن ہمیں اس کو چھوڑ کو واپس جانا ہی پڑتاہے لہٰذا دوسرے لوگوں کے انجام پر غورکرتے ہوئے ہمیں اپنے آپ کو بچائے رکھنا ضروری ہے تاکہ جزاکے دن کسی قسم کی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ یہ ایک ایسا سراب اور افسانہ ہے جو انسان کو حقائق سے کہیں دور لے جا کر ایسی خیالی دنیا میں پھینک دیتاہے جہاں سوائے مایوسی اور ناکامی کے کچھ اورحاصل نہیں کیا جا سکتاہے      ؎

منعم تا کی غرور مال واسباب

دیروز نہ دیدی مگر ای خانہ خراب

شور من وما بود کساں را کہ بہ سر

رفتند از ایں فسانہ یکسر در خواب

ترجمہ:  اے لوگو آخر کب تک اپنے اس مال ا وردولت کا غرور کرتے رہو گے کیا تم نے ماضی میں (گزرے ہوئے لوگوں کے یہاں)اس تکبر اور غرور کا انجام نہیں دیکھاہے کہ جن سروں میں من وما کا غرورتھا وہ دل فریب دنیا سے یکسر افسانے کی طرح نابود ہو گئے۔

میر کی اخلاقی رباعیات میں بڑا تنوع اور اثر آفرینی پائی جاتی ہے غالباً اس کی بڑی وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ عہدمیر میں رباعی کو اخلاقی مضامین کے اظہار کی سب سے اہم شعری صنف سمجھا جاتاتھامیر کو بخوبی اندازہ ہے کہ یہ دنیا فانی اوربے حقیقت ہے اور ایک خواب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے انسان اس میں الجھ کر اپنے تخلیق کیے جانے کے مقصدکو بھول گیاہے دنیاکے اس سراب میں انسانی وجود موہوم اور پانی کے بلبلے کی طرح ہے۔ میر کی رباعیات میں جواخلاقی مضامین بیان کیے گئے ہیںان میں یک گونہ کسک، درد اور تڑپ کے ساتھ ساتھ ایک پیغام بھی نظر آتاہے جو عام انسانوں کو گم راہی کے راستے پر چلنے سے روکنا چاہتاہے۔میر اس دنیاکو ایک سراب یا خواب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور مخلص دوستوں کی طرح مشورہ دیتے ہوئے لوگوں کو بھی فریب دنیا سے دور رکھنے کی سعی بلیغ کرتے نظرآتے ہیں حالانکہ وہ خودبھی ایک حساس دل رکھتے ہیں اور دنیاوی الجھنوں میں الجھنا نہیں چاہتے بایں ہمہ وہ خود بھی پوری طرح اس دنیاسے بے نیاز وبے تعلق رہنے میں کامیابی حاصل نہیں کر پاتے لہٰذا کہتے ہیں     ؎

ہر چند فقیر ایم وہوس مارا نیست

دل را میل ومحبت دنیا نیست

لیکن با ایں شکستہ پائی، داریم

طول املے کہ آن سرش پیدا نیست

ترجمہ:  ہر چند کہ میں فقیر یعنی دنیاوی رنگینیوں سے بے نیاز ہوں اورمجھے اس دنیا کے مال ومنال کی کوئی آرزو یا تمناہرگز نہیں ہے اورمیرے دل کو حب دنیا کا کوئی لالچ نہیں ہے بایں ہمہ دل میں تمنائوں اور آرزئوں کا ایک ایسا سمندر موجزن ہے جس کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتاہے یعنی میں ان سے دامن نہیں بچا پاتا۔

اس شاعربزرگ کی یہ رباعیات تفنن طبع، وقت گزاری یا تفریح کی غرض سے نہیں لکھی گئی ہیںبلکہ اس کے ذریعے انسانیت ومحبت کا بھولا ہوا سبق یاد دلایاگیاہے وہ قارئین کو اس طرح نصیحت کرتے ہیں جس طرح ایک ماں اپنی اولاد کو ایک پیر اپنے مرید کو یا پھر ایک بزرگ اپنے چھوٹوں کو ہلکی پھلکی سرزنش کے ذریعے راہ غلط پر جانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور طعن وطنزکے بجائے نرمی ومحبت سے کام لیتی ہے تاکہ وہ راہ راست پر آ جائے اوروقار ومتانت کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکے لہٰذا اب ذیل میں کچھ رباعیات نقل کی جا رہی ہیں جن کی اہمیت ومعنویت عصر حاضرمیں بھی اسی طرح باقی ہے جیسے کہ خود میر کے زمانے میں رہی تھی اور آج بھی اخلاق اورکردار سازی کے لیے ان کے پیش کردہ افکار وخیالات سے فائدہ اٹھایاجا سکتاہے بشرطیکہ ان کے کلام کی اصل گہرائی اور گیرائی تک رسائی حاصل کر لی جائے، ذیل کی بعض رباعیات میں انھوں نے اخلاقی تعلیمات کو بڑے ہی جالب وجاذب انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کی شعوری کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ صرف یہی دنیا سب کچھ نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف ایک امتحان گاہ ہے لہٰذا ضروری ہے کہ انسان طفلی اور غفلت میں اپنی عمر گذارنے کے بجائے صداقت وحقیقت پرنظر رکھے تاکہ اسے دین ودنیا میں سرخروئی اور کامیابی حاصل ہو سکے       ؎

برخیز ورخ خود ز عمارت برتاب دنیا است سراب

واین ہستی موہو م تو مانند حباب نقشی است بر آب

در فکربناہای غلط عمر عزیز، کردی ہمہ صرف

اکنون زین دشت درگذر چوں سیلاب، ای خانہ خراب

ترجمہ:  اٹھ اور اب اپنا رخ عمارت کی طرف سے موڑ لے یعنی دنیاوی الجھنوں سے خود کو آزاد کرا لے کیونکہ یہ دنیا ایک سراب یا دھوکہ ہے اور انسان کی ذات ایک کمزور اور موہوم سے پانی کے بلبلے سے زیادہ ہرگز بھی نہیں ہے، اے عزیز عمارتیں تعمیر کرنے میں اپنی ساری عمر صرف کر دی لہٰذا اے خانہ خراب اب تجھ کو چاہیے کہ تو اس دشت سے سیلاب کی طرح گزر جائے کیونکہ اس جہان فانی سے تو تجھ کو کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

طفلی ہمہ ای میر بہ غفلت بگذشت

برنائی من بہ عیش وعشرت بگذشت

در شیب جز افسوس کنون نتوان کرد

مہلت کم ماند ووقت فرصت بگذشت

ترجمہ:  اے میر تیرا بچپن تمام تر غفلت میں گزر گیا،اور جوانی کا وقت عیش وعشرت اور آرام وسکون میں صرف کر دیااوراب بڑھاپے میں کف افسوس ملنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا جا سکتاہے، پرودرگار کی طرف سے دی گئی مہلت کم پڑ گئی اور فرصت کا جو وقت میسر تھا وہ ختم ہو گیا۔

ہر لحظہ چو موج اضطراربی داری

ہر دم رفتار تند آبی داری

صر صر گوئیم یا کہ برقت خوانیم

ای عمر عزیز بس شتابی داری

ترجمہ:  اے زندگی تو، توہر لحظہ یا ہر گھڑی موجوں کی طرح اضطراب یا بے چینی رکھتی ہے تیری رفتار تیز آندھی کی طرح ہے، ایسے میں اب ہم تجھ کو صر صر کہہ کر پکاریں یا پھررو رو کر تجھ کو آواز دیں (لیکن ہم اس بات سے باخبر ہیں) کہ تجھ پر کوئی فرق نہیں پڑنے والاہے کیونکہ اے عمر عزیز تو، تو صرف اور صرف تیزی اور عجلت ہی رکھتی ہے۔

این بود ونمود یک نفس ہم چو حباب

 در دیدہ ہوش مند نقش است بر آب

ہر لحظہ چو موج بحر رفتن داریم

زاں پیش کہ جوئی ونہ یابی، دریاب

ترجمہ:   یہ یعنی انسانی زندگی حباب کی طرح محض چند لمحوں کی نمود رکھتی ہے اور عقل مند یا دانا انسان کی نظرمیں اس کی اہمیت پانی پر ابھرنے والے ایک موہوم سے نقش سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے اورہم لوگ اس زندگی سے سمندرکی موج کی طرح چشم زدن میں گزرجاتے ہیںاس سے پہلے کہ وقت گزر جائے اور تو کچھ بھی حاصل نہ کر سکے،اس کی حقیقت کو پالے یعنی زندگی یا عمر کو بڑھانے کے غیر ضروری فعل میں الجھ کر خود کو ہلکان مت کر۔

یک لخت جگر داغ شتاب عمر است

دل سوختہ وسینہ کباب عمر است

باید برخاست، صبح پیری بدمید

کاین وقت غروب آفتاب عمر است

ترجمہ:  پورے جگر پر عمر کے تیزی سے گزرجانے کا داغ ہے، دل تو پہلے سے ہی جلا ہوا تھا لیکن سینہ بھی زندگی نے جلا کر کباب کردیاہے، اب، چلے جانا چاہیے کیونکہ اب پیری کی صبح ظاہر ہونے لگی ہے اوراب تو یہ وقت عمر کے آفتاب کے غروب ہونے کا ہے یعنی بڑھاپا آن پہنچا اور اسی کے ساتھ موت کی آہٹ بھی سنائی دینے لگی ہے۔     

پندکے مضامین کو رباعی جیسی مختصر شعری صنف میں پیش کرنا اوراس میں لطافت، عذوبت، جاذبیت اور حدت کو برقرار رکھ پانا یقیناایک بہت ہی مشکل لیکن بڑاکارنامہ ہے اور میر تقی میر نے اپنی فارسی رباعیات میںاس کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ برتاہے میر کے مجموعہ رباعیات میں آدھی سے بھی زیادہ رباعیات ایسی مل جائیں گی جو اخلاقی موضوعات کے متعلق ہی نظم کی گئی ہیںجن میں اعلیٰ انسانی اقدار مثلاً خودداری، شکر گزاری،صبر، وضع داری، انکساری، شرافت، انسانیت، قناعت، شجاعت وغیرہ جیسے اہم اخلاقی مضامین کو بیان کیاگیا ہے ان کی یہ تمام رباعیات ہماری زندگی کے لیے ایک لائحہ عمل کی سی حیثیت رکھتی ہیں اور ہمارے لیے رہنمائی ورہبری کا بھی فریضہ انجام دیتی ہیں۔ میر کی مندرجہ ذیل رباعی ملاحظہ کیجیے جس میں پڑھنے والوں کو تنبیہ کر رہے ہیں اور ایک ایسے راستے کواختیار کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بظاہر تو بہت خوبصورت نظر آتاہے لیکن بعد میں پتہ چلتاہے کہ اس راستے پر چل کر سوائے شرمندگی اورندامت کے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے لہٰذا انسان کو پہلے سے ہی منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں کف افسوس نہ ملنا پڑے        ؎

راہ سر کن کہ بی ملامت باشد

نی آن کہ چو بگذری ندامت باشد

وارفتہ حسن عمل امروز بشو

فرداست کہ برسرت قیامت باشد

ترجمہ :  ایک ایسا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کر جس میں ملامت وذلت نہ ہو اس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ تو جب کبھی اس راستے سے گزرے تو تجھ کو ندامت وشرمندگی کا سامنا کرنا پڑے، آج حسن عمل کا عاشق بننے کی کوشش کر اس سے پہلے کہ آنے والے وقت میں تجھ پر قیامت آ جائے یعنی تجھ کو کوئی مہلت نہ مل سکے۔ 

بچپن میں یتیمی کا درد، لڑکپن میں اپنوں کی ستم ظریفی، بے روزگاری کی ذلت اور دیگر انگت مصائب نے میر کی شخصیت کو حزن وملال کی آماجگاہ بنا دیا تھابالخصوص ایام طفلی میں ملنے والے روح فرسا مسائل ومصائب نے ان کی شخصیت پر بہت گہرے اورہمہ گیر اثرات مرتب کیے تھے چونکہ انھوں نے زندگی کے ہرنا خوشگوار رنگ کو بہت ہی قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے، سماج کی بد حالی، زمانے کی نا انصافی، انگریزوں کی غلامی، غریبوں کا استحصال وغیرہ نے ان کے نرم ونازک ذہن اوردل کو حد درجہ متاثرکیاتھا اوریہی وہ نامناسب حالات ہیں جن کے سبب ان کے لیے لوازمات زندگی بے حیثیت اور وقتی معلوم ہوتے ہیں حادثات زمانہ اور گردش دوراں نے میر کے دل میں گوشہ نشینی کا تصور اور بھی گہرا کردیا تھا اپنی اس کیفیت کا اظہار انھوں نے اپنی فارسی رباعیات میں بھی جابجا کیا ہے، دنیا کے عارضی ہونے کا تصور ان کی شاعری میں ایک خاص اورمستقل مضمون کی حیثیت  سے خصوصی طور پر نمایاں نظر آتا ہے یہاں فقط ان کی ایک فارسی رباعی نقل کرنے پر اکتفاکیا جا رہاہے جس میں میر اپنے حسب حال دنیا کی حقیقت کو نظم کرتے ہیں      ؎

بود آنچہ نہ دیدنی دراین جا دیدیم

مکروہ کشیدیم وبلاھا دیدیم

اکنون ای میر چشم باید پوشید

دنیا دیدیم واہل دنیا دیدیم

ترجمہ:  یہاں جو دیکھنے لائق نہیں تھا وہ بھی ہم نے دیکھ لیاہے، بہت سے مصائب ومشکلات سے سابقہ پڑااور بہت سی بلائیں دیکھیںاب مجھے اس دنیا سے کنارہ کش ہوجانا چاہیے یعنی مر جانا چاہیے کیونکہ میں نے یہاںدنیا اور دنیا والوں کو دیکھ لیا ہے۔

میر ایسے زاہدوں اور واعظوں کی بھی سخت مخالفت کرتے ہیں جودیگر لوگوں میں اپنی جھوٹی عظمت وشان قائم کرنے میں عبادت گزاری میں لگے رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو زیادہ متقی اور پرہیزگار سمجھیںلیکن افسوس یہ عشق حقیقی کی، حقیقی لذت وسرور سے نا آشنا ہوتے ہیں ان کی ذیل کی رباعی دیکھیے جس میں ایک زاہد دنیادارکو مخاطب کرتے ہوئے نہایت لطیف اور بڑے ہی بلیغ انداز میں طنزکیاہے کہ اس زاہد کو روزہ طے (مسلسل تین دن کا روزہ) کا تو خیال ہے لیکن افسوس یہ حقائق ومعرفت کے رازوں سے بے بہرہ اور نا بلد ہے جس کے سبب معرفت کے اسرارورموز اس کے لیے رازہائے سر بستہ ہو چکے ہیں اوربظاہر بہت متقی اور پرہیزگارنظر آنے والا شخص بھی اپنے اندرون غلاظت کے سبب اصل مقصد حیات سے غافل ہے ذیل کی رباعی دیکھیے جس میں انھوں نے زاہد کو مخاطب کیاہے اور اس دنیا کی سلگتی ہوئی حقیقت کے متعلق سوچنے پر مجبور کیاہے       ؎

زاہد کہ خیال روزئہ طی دارد

شیداست، سر زہد وورع کی دارد

میلش بہ کلہ بی سببی اکثر نیست

عمامہ گرو در عوض می دارد

ترجمہ:  زاہد کو صرف روزہ ’طے‘ کا خیال ہے دیوانے کو زہد وتقواکے رازوں سے کب آگاہی ہے اس کی کلاہ سے محبت بے سبب نہیں ہے وہ تو عمامہ کو شراب کے بدلے رہن رکھتاہے۔

اس شاعر بزرگ کی ہمہ شاعری خواہ اردوہو یا فارسی اس میں بے نیازی، عزت طلبی اور انانیت کا جذبہ بڑی شدت کے ساتھ کار فرما نظرآتا ہے اوریہی وہ جذبہ ہے جو گدائوں کو بادشاہ بنا دیتاہے میر ہمیں مشکل حالات سے لڑنے کا حوصلہ بخشتے ہیں اور بتاتے ہیں تمام تر ناساز گاری حالات اور نامساعدت روزگار کے باوجود اپنی عزت نفس کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے ان کی ایک رباعی ملاحظہ کیجیے جس میں انھوں نے اپنی تمام تر بے بسی اور لاچاری کے باوجود اہل جہاں کے سامنے سر خم کرنے کا گناہ گوارا نہیں کیاہے بلکہ بڑی شان کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہر چند مفلسی اور فقیری کامشکل اور تکلیف دہ وقت مجھ پر گزر رہا ہے لیکن بے نیازی اورقناعت میں میر، ابھی بھی، امیر وقت ہے اس کو اس دنیا کے مال ودولت سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ تو ایک وضع دار اور اپنے وقت میں امیر شخص ہے جس کو وقت کی آندھیاں ڈرا نہیں سکتی ہیں اورنہ ہی کوئی مشکل یا رکاوٹ اس کے حوصلوں کو پست کر سکتی ہے چنانچہ کہتے ہیں      ؎

ہر چند ز مفلسی اخیر وقت است

اما ز غنا میر، امیر وقت است

کاری بہ زر سرخ وسفید ش نہ بود

آن درست  بی نظیر وقت است

ترجمہ:  حالانکہ مفلسی یا ناداری میں آخری وقت آن پہنچاہے لیکن بے نیازی کے معاملے میں میر امیر وقت ہے اس کو سونے چاندی کے سکوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ یعنی میر تو نہایت عزت دار، باوقار اور اپنے زمانے کا نادر العصر شخص ہے۔

میر کی فارسی رباعیات میں بھی ان کی خود داری اورانانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا نظر آتاہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ میر معاصر شاعروں میں سب سے زیادہ خود دار، غیوراور باوقار شاعر ہیں یعنی وہ روایتی شاعروں کی طرح اپنے احترام وعظمت پر کبھی حرف نہیں آنے دیتے حتیٰ کہ عشق کی شدت میں بھی(جبکہ معشوق کے سامنے عاشق کی اپنی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی) اپنے وقاراورانانیت کے ساتھ سمجھوتا نہیں کرتے ہیں یعنی وہ عاشق تو ضرورہیں لیکن عشق کی تما م تر بے چارگی اور کس مپرسی اور شدت کے باوجود بھی اپنے وقار اورغیرت کو بیچنے کا گناہ گوارا نہیں کرتے یعنی وہ ان عاشقوں میں سے نہیں ہیں جو محبوب کی محبت کے حصول  کے لیے اپنی غیرت اور عزت نفس کی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور معشوق کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اس کی ہر جائز وناجائز بات کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہیں لیکن میر ان روایتی شاعروں کے بر عکس اپنی غیرت کے پیش نظر روز وصال میں بھی معشوق کے رخ پر نظر ڈالنے کا گناہ نہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ ایک عاشق کے لیے معشوق کا وصال ایک ایسی عظیم نعمت ہوتی ہے جس کے سامنے وہ سب کچھ فراموش کر بیٹھتاہے لیکن میر کی وضع داری نے یہاں بھی ان کے معاملات کو دیگر عاشقوں سے زیادہ معتبر اور محترم کر دیاہے وہ کہتے ہیں       ؎

    جز جور رقیب چوں بہ کوی نہ دید

جان دادز غم ِمیر وبہ سوی نہ دید

غیرت عشاق را چنین می باید

در روز وصال نیز روی تو نہ دید

ترجمہ:  تیرے کوچے میں، میںنے سوائے رقیبوں کے ظلم وستم کے کچھ اور نہیں دیکھا ہے، حالانکہ میں نے اپنی جان دے دی لیکن اس کی یعنی معشوق کی طرف دیکھنے کا گناہ گوارا نہیں کیاعاشقوں کی غیرت اس طرح ہونی چاہیے کہ روز وصال میں بھی تیرا یعنی معشوق کا چہرہ نہیں دیکھا۔

میر اپنے انوکھے انداز بیان کے سبب معشوق اور عشق کے متعلق ایسی جالب گفتگو کرتے ہیں کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتاہے ایک اور خوبصورت رباعی ملاحظہ فرمایئے جس میں وہ محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے آداب محبت کے متعلق بڑی دل کش اور متاثرکن گفتگو کرتے ہیں       ؎

در فرقت تو صبور باید گشتن

نی در طلب حضور باید گشتن

قرب تو ز آداب محبت دور است

برگرد سرت ز دور باید گشتن

ترجمہ:  تیری جدائی میں صابر وشاکر رہناچاہیے ایسا نہ ہو کہ حاضر باشی کی طلب وجستجومیں گھومنا چاہیے تیری قربت محبت کے آداب سے قدرے نا بلد ہے بہت دور سے گرد بن کر تیرے آس پاس گھومنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ تجھے یعنی معشوق کو کسی قسم کی رسوائی کا سامنا نہ ہو۔

میراپنی ہمہ زندگی کے بہت سے نشیب وفرازاورمشکلات ومصائب سے سینہ سپر ہوئے کبھی بہت تلخ، ناامید اورمایوس بھی ہوئے ہیں،لیکن ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے دنیاکے تمام حوادثات کو سمندر میں اٹھنے والی چھوٹی چھوٹی موجوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی ہے اوریہ ان کی بے نیازی اورجذبہ فقرہی تھا جس نے انھیں شہنشاہوں کا بھی شہنشاہ بنا دیا تھا انھوں نے حالات کی تمام تر نا مساعدت کے باوجود ہمیشہ وقار واحترام کی زندگی کو طلب کیا، اورکبھی کسی کے سامنے دست سوال درازکرنے کا گناہ گوارا نہیں کیا اور ہمیشہ فخریہ طورپر کہتے رہے       ؎

عزت طلبم، وقار خود خواہانم

سر کردہ فرقہ دل آگاہانم

بر ظاہر فقر من نگاہی نہ کنی

من صدر نشین مجلس شاہانم

ترجمہ:   میں اپنا وقار اور اپنی عزت کا خواہش مند ہوں، میں اہل دل یا بیدار مغز لوگوں کے گروہ سے تعلق رکھنے والا ہوں، میری ظاہری حالت اور فقر پر نظر مت ڈالو، میں تو وہ ہوں جو شہنشاہوں کی مجلسوں کا صدر نشین ہوں۔

میر تقی میر کی شاعری میں سب سے زیادہ حزن ویاس، مایوسی ونامرادی اور مصائب ومشاکل جیسے موضوعات شامل ہیںظاہر ہے ان کی فارسی رباعیات بھی اس سے اچھوتی نہیں ہیں انھوں نے ان رباعیات میں بھی اپنے رنج ودرد کی بھرپور اورنہایت شاندار وجاندارعکاسی کی ہے وہ نہ صرف یہ کہ خود روتے ہیں بلکہ پڑھنے والوں کو بھی اشک فشانی پر مجبورکر دیتے ہیں ان کی مندرجہ ذیل رباعی کا منفردانداز دیکھیے جس میں انھوں نے اپنی تکالیف کی انتہاکو بیان کیاہے کہ میرے سر پرآسمان کے ظلم و زیادتی کے سبب ہر لمحہ ہر گھڑی پتھر برستے رہتے ہیں آرام دہ بستر پر ہونے کے باوجود بھی نیند آنے کے بجائے کانٹے چبھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں غموں اور تکالیف کی شدت کے سبب آنکھیں ہمیشہ اشک فشانی میں مشغول رہتی ہیں اور میرارونا اتنا شدید ہے کہ آنکھوں سے مسلسل نمک کی بارش ہوتی رہتی ہے       ؎

 سنگم بہ سر از جور فلک می بارد

بر بستر آرام خسک می بارد

از چشم من آب شور آید ہر دم

یعنی کہ ز گریہ ام نمک می بارد

 ترجمہ:  میرے سر پر آسمان کے ظلم کرنے کے سبب ہمیشہ پتھر برستے رہتے ہیں، آرام دہ بستر پر بھی کانٹے اگتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، میری آنکھوں میں ہمیشہ ایک شور بپا رہتاہے، یعنی میری آنکھوں سے نمک کا پانی نکلتا رہتاہے مراد نمکین آنسوبہتے رہتے ہیںجن میں نمک کی زیادتی کے سبب ایک شورموجود رہتاہے۔

میراپنی بدقسمتی اور بے بسی کا قصوروار صرف آسمان کو ہی نہیں مانتے بلکہ زمین، ہوائوں اور سمندرکو بھی اس کا ذمے دار قرار دیتے ہیں ان کی مندرجہ ذیل رباعی پر نظر ڈالیے جس میں انھوں نے اپنے غموں کی انتہا کو بیان کیا ہے کہ میرے ساتھ سمندرنے یعنی اس دنیا نے نہایت بخیلی کی ہے۔ میں ترک اور تاجیک یعنی ہر ایک کے سامنے تشنہ ہی رہ گیا پیاس سے میری جان میرے لبوں پر آگئی لیکن کسی نے میرے ساتھ کسی قسم کی مروت و انسانیت کا سلوک نہیں کیا آخر ان غموں کی تاب نہ لاکر مجھ پر ایسا وقت بھی آیا کہ میں آب باریک کی طرح ختم ہو گیا یعنی میری پوری شخصیت تباہ وبرباد ہو کر رہ گئی اورمیں ہزار کوششوں کے باوجوداپنی بد قسمتی کے اس عذاب سے اپنا دامن بچانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا      ؎

اینجا کہ محیط بستہ کشتی باخیک  

لب خشک شدم بہ بیش ترک وتاجیک

کس مردمی کاسہ شربت  نہ نمود      

ناچار تلف شدم چو آب باریک

ترجمہ:  اس دنیا کے سمندر نے میرے ساتھ بہت بخیلی اختیار کی ہے اور میں ترک وتاجیک کے سامنے بھی خشک لب تھا، کسی نے بھی ایک پیالہ شربت دے کر مروت دکھانے کی کوشش نہیں کی اورآخرکار میں آب باریک یعنی بہت کم پانی کی طرح جلد ہی تلف ہو گیا یعنی عدم توجہی کے سبب میری زندگی وقت سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔

ہمیں میر کی زندگی گود سے لے کر گور تک مسلسل تکالیف ومصائب اور رنج والم سے گھری ہوئی نظر آتی ہے ان کی بیشتر شاعری خواہ اردو ہو یا فارسی، غم کی شاعری ہے پھر چاہے یہ غم ملک کا ہو یا عشق کا یعنی انفرادی ہو یا اجتماعی ان کے یہاں پہنچ کرہر لفظ درد کی تصویر بن جاتا ہے ان کی فارسی رباعیات میں بھی اس غم کی فراوانی کوپوری شدت کے ساتھ محسوس کیا جا سکتاہے اوریہی ان کی انفرادیت اور ندرت  ہے کہ انھوں نے دردو غم جیسے افسردہ وملول کر دینے والے مضمون کو بھی بڑے دل کش اور خوبصورت پیرائے میں بیان کیاہے ملاحظہ کیجیے ان کی ایک خوبصورت رباعی     ؎

چشمم کہ بجای اشک خون می آرد

  خون جگر من ز دروں می آرد

   دیوانہ شدم ز بس کہ ماندم دل تنگ

   ایں جاست کہ جوش غم جنوں می آرد

ترجمہ:     میری آنکھیں غموں کی شدت کے سبب آنسوئوں کی جگہ خون بہاتی ہیں اورمیرے جگر کا خون میری ان آنکھوں کے راستے باہر آتاہے، میری دیوانگی اورجنون اس قدر بڑھ چکا ہے کہ میں دیوانہ ہو گیا ہوں، اوردردوالم کی شدت نے میرے اوپر جنون یا دیوانگی کی کیفیت طاری کر دی ہے۔

یہاں اس طرف بھی اشارہ کر دینا ضروری معلوم ہوتاہے کہ میر کی غم انگیز رباعیات پڑھ کر طبیعت یاسیت اورناامیدی کا شکارہرگز نہیں ہوتی ہے بلکہ بے اختیار ہو کر ان کے غموں کے اس بحر بیکراں میں ان کے ساتھ غواصی کرنے کو جی چاہتاہے ان کے غم کی صداقت وحقیقت اور خلوص ونرمی یاسیت کے بجائے حرکت وزندگی پیدا کرتی ہے اور یہ ان کی انفرادیت ہے کہ وہ غموں کے بحر بیکراں میں پریشان ہونے کے بجائے آگے بڑھنے کا سلیقہ وقرینہ سکھاتے ہیں۔

میر کا رنج یا غم محض ذاتی یا انفرادی نہیں ہے بلکہ کائناتی اور عصری ہے جیسا کہ قبلاًبھی ذکر کیا جا چکاہے کہ عہد میر بہت سے مسائل اورمشاکل سے دوچارتھا اور انھوں نے ان تمام مسائل کو اپنی جان نازک پر برداشت کیاتھا ظاہر ہے وہ ایک حساس انسان تھے پھر کیسے وہ ان سے بے نیاز رہ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں سیاسی، سماجی اورمعاشرقی حالات ِنامساعدکی ترجمانی کاواضح شعور اور ادراک بڑی ہی حدت اور شدت کے ساتھ نظر آتاہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انھوں نے ایک رباعی گو شاعر کی حیثیت سے اپنے منصب کو بخوبی پہچانا ہے اور بڑی حقیقت بیانی سے کام لیاہے ذیل میں ان کی ایک خوبصورت رباعی ملاحظہ کیجیے جو ان کے عصری مسائل کی بڑی خوبصورت ترجمانی کرتی ہے     ؎

از کج روی  سپہر، یاراں رفتند

      در پردئہ خاک غم گساران رفتند

این  ابلق چرخ دو نہ یاب یارب    

کز سرکشیش چہ شہسوار رفتند

ترجمہ: اس ظالم وبے رحم آسمان کی کج روی کے سبب تمام دوست اوریار جدا ہوگئے، سارے غم گسار یا ہمدردی کرنے والے لوگ موت کے ہاتھوں فنا ہوگئے اورخاک کے پردے میں چلے گئے، اے پروردگار عالم یہ ابلق چرخ ہمیشہ نامراد رہے کہ اس کی سرکشی کے سبب کیسے کیسے شہسوار یعنی عظیم لوگ اس دنیا سے چلے گئے۔

میرنے اپنی بعض فارسی رباعیات میں ہندوستان کی تاریخ کے سب سے پرآشوب اورفتنہ پرور دورکی بڑی عمدہ تصویر کشی کی ہے ایک طرف جہاں انھیںزندگی کی آرائش وزیبائش بے حیثیت اور غیر ضروری معلوم ہوتی ہے وہیں دوسری طرف انسانی زندگی بھی بڑی بے سکون، بے حیثیت اور غیر حقیقی نظر آتی ہے کیونکہ ان کے اردگرد سیاسی زوال، اقتصادی بدحالی، معاشرتی افراتفری اور اخلاقی انحطاط کی ایک ایسی آندھی چل رہی تھی جس کی زد میں آنا یقینی تھا، ظاہر ہے پھر یہ کیسے ممکن تھاکہ ان کے آس پاس کا یہ ماحول ان کی شاعری پر اثر انداز نہ ہوتا لہٰذاانھوں نے اپنے دورکے مخصوص حالات کو اپنی فارسی رباعیات کے سانچے میں ڈھال کرگویا اس دور کی پوری تاریخ رقم کر دی ہے آب حیات میں مولوی محمد حسین آزاد نے ایک بڑا ہی حقیقی اورمتاثرکن جملہ لکھا ہے جو ان کی اردو شاعری ہی پر نہیں بلکہ فارسی شاعری پر بھی صادق آتاہے وہ اپنی کتاب ’آب حیاتـ  میں لکھتے ہیں’’ اگر کوئی دلی کی تاریخ پڑھنا چاہے تو وہ دیوان میر پڑھ لے‘‘ 2؎

میر کی رباعیات میں ان کے عشقیہ جذبات واحساسات کی بھی بڑی خوبصورت عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے انھوں نے ایک عاشق ناکام کی تمام تکالیف اور مصائب کو موتیوں کی طرح اپنی رباعیات میں پیش کیا ہے ایک نامراد عاشق کے دل پر غموں اور دکھوں کا جو پہاڑ ٹوٹتاہے اس کی رباعیات میں بڑی حقیقی تصویر کشی کی گئی ہے انھوں نے اپنی فارسی غزلیات کی طرح ہجروفراق کے قصے، معشوق کا ظلم وستم  اورزندگی کی ناکامیوں ونا مرادیوں کا ذکر بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیاہے     ؎

تا بستہ ای اے عشقت ومارابر کار

داریم مدام بے قراری درکار

ہر چند بہ صبر دل گرائید ولی

آں جنس نہ بود بابت این سارکار 

ترجمہ:  اے عشق من جب سے تو نے مجھے اپنے کام پرلگالیاہے تب سے سوائے بے کلی اور بے چینی کے کسی اور چیز سے سروکار نہیں رہ گیاہے، ہر چند کہ میرا پریشان حال دل کچھ لمحوں کا ہی صحیح راحت واطمینان حاصل کرنا چاہتاہے لیکن افسوس کہ یہ ایک ایسی چیز ڈھونڈ رہا ہے جس کا کوئی وجودہی نہیں ہے۔

میر تقی میر کا عشق عظیم تر اور بہت زیادہ وسیع اور اعلیٰ ہے اور ایسامحسوس ہوتا ہے کہ عشق کا یہ خوبصورت احساس ان کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے ہے جس نے ان کی شاعری کو مزید حسین، اثر آفریں اور دل کش بنادیاہے ان کے یہاں جس تڑپ وکسک کااحساس، ناکام عشق کی محرومیوں اورنا کامیوں کا جو ایک لامتناہی سلسلہ ملتاہے اس کی نظیر ان کے معاصرین یامتاخرین میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی ہے میر کے عشق میں جو خلوص وصداقت اور سوزوگداز کی اثرآفریں کیفیت پائی جاتی ہے اس نے اس شاعر اعظم کے عشق کو ایک آفاقیت اور لازوال حسن بخشاہے جو پڑھنے والوں کے دلوں کو گرما دیتاہے ملاحظہ کیجیے ان کی ایک اور خوبصورت رباعی جس میں انھوں نے عشق کی جلوہ سازیوںیعنی تکالیف کا ذکرکیاہے     ؎

چوں بار گران عشق بر ما افتاد

در دامن ما زچشم دریا افتاد

در شہر ز بس گری خونین کردیم

راہ سیلاب خوں بہ صحرا افتاد

 ترجمہ:  جب عشق کا بار گراں ہمارے نازک شانوں پر ڈالا گیاتو گویا آنکھوں کے ذریعے ہمارے دامن میں سمندر گرایا گیااور ہماری آنکھوں نے اس قدر خون بہایا کہ خون کے سیلاب کا راستہ صحراسے جا ملا یعنی میں اس قدر رویا کہ میرے آنسوئوں سے خون کا سیلاب جاری ہو کر صحرا تک پہنچ گیا۔        

عشق کے راستے میں ملنے والی مسلسل نامرادیوں اور ناکامیوں نے انھیں حیران وپریشان بنائے رکھاہے ان کو اپنے دل کو قرار دینے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی وہ چاہ کر بھی عشق کی اس دولت سے دست بردار نہیں ہو پاتے اوراس کا نتیجہ مسلسل بے چینی کی شکل میں ظاہر ہوتاہے اورجب وہ اپنے آپ کو راحت نہیں دے پاتے اور درد دل ناقابل برداشت ہونے لگتاہے تو بے اختیار ہو کر ایک ایسے دل کی آرزو کرنے لگتے ہیں جو معشوق کے ظلم وستم کو ہنستے مسکراتے برداشت کرے اور حرف شکایت زبان پر نہ لائے لہٰذا کہتے ہیں       ؎

در دل چو قرار آید از او

صبری بہ ستمگاری یار آید از او

نی ہم چو دل بی جگر من بی تاب

دل می باید چنان کہ کار آید ازو

ترجمہ :  عشق کے راستے میں ایک ایسا دل تلاش کر جس کو قرار حاصل رہے اوروہ محبوب کے جوروستم پر صبر وشکر اداکر سکے،اور عاشق کا دل میری طرح بے تاب اور بے حوصلہ نہ ہوجس کو کبھی راحت حاصل ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ دل اس طرح کا ہونا چاہیے جس کی مدد سے حالات کو اپنی مرضی کے مطابق کیا جاسکے نہ کہ صرف گریہ وزاری میں عمر کو ختم کیا جائے۔

میر اس حقیقت سے پوری طرح با خبر ہیں کہ عشق کی یہ جان لیوابیماری ایک نہ ایک دن ان کو تلف یعنی تباہ و برباد کر کے ہی چھوڑے گی بایں ہمہ وہ عشق کی تکلیفوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیںکہ اب انھیں عشق کی اس نعمت کے سامنے دنیا کی ہر راحت انھیں ہیچ معلوم ہوتی ہے انجام سے باخبر ہو کربھی بے خبر بن کر رہنے کا یہ انداز میر سے زیادہ کوئی اوراتنے دلنشین شاعرانہ اندازمیں پیش نہیں کر سکتا وہ کہتے ہیں        ؎

در عشق بہ مرگ خود مرگ خود طرف باید

شمشیر جفاش را علف باید شد

نی تاب وصال اوست نی طاقت ہجر

در ہر صورت مرا تلف باید شد

ترجمہ: عشق میں اپنی موت کا حامی ہو جانا چاہیے اور اس ( عشق)کی جفا کش تلوار کا لقمہ بن جانا ہی زیادہ بہتر یا مناسب ہوتاہے کیونکہ مجھے یعنی ایک عاشق صادق کو نہ تو عشق میں وصل کی تاب ہوتی ہے اورنہ ہی ہجر کی تکلیف کو ہی برداشت کیا جا سکتاہے یعنی ہر صورت میں عاشق کی قسمت میں تباہ وبرباد ہونا ہی لکھا ہوتاہے لہٰذا عاشق کو اس کی پہلے سے ہی تیاری رکھنا چاہیے۔     

مختصراًیہ کہا جا سکتا ہے کہ میر کی فارسی رباعیات بظاہر تو بہت سادہ، سلیس اور عام فہم محسوس ہوتی ہیں لیکن ان میں فکر وفن کی جو گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے وہ ان کوفارسی زبان کے بہترین رباعی گو شعرا کے ہم پلہ بنا دیتی ہے۔ میر تقی میر کی یہ فارسی رباعیات ان کے ذہنی سفر کی آئینہ دار ہیں، یہ درست ہے کہ ان کی اردو رباعیات میں وہ دلکشی ورعنائی یا فصاحت وبلاغت نہیں پائی جاتی ہے جو ان کی فارسی رباعیات کا طرئہ امتیاز کہی جا سکتی ہے اوریہ بات بھی پوری صداقت اور ذمے داری کے ساتھ کہہ سکتی ہوں فارسی رباعیات کا کتنا ہی اعلیٰ وارفع انتخاب کیوں نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے کہ اس انتخاب میںہمارے اس شاعر بزرگ کی رباعیات کو جگہ نہ ملے، فارسی زبان وادب سے وابستگی اور د ل بستگی رکھنے والے لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے میر کی یہ رباعیاں آج بھی اتنی ہی اہم، ضروری اورقابل تفکر ہیں جتنی کہ خودان کے عہد میں رہی ہیں۔ عصر حاضرمیں بھی میر کے کلام کی اہمیت ومعنویت کو کسی طرح نظر اندازنہیں کیا جا سکتاہے لہٰذا ان کی فارسی رباعیات ہی نہیں بلکہ ہمہ فارسی کلام کی از سر نو بازیافت کی اشد ضرورت ہے تاکہ نئی نسل بھی ان کی آفاقی فکر سے استفادہ کر سکے۔

حواشی

1        دلی کالج اردو میگزین میر نمبر اردوایوننگ کلاسز،مضمون نگارمحمود حسن قیصر امروہی،عنوان میر بحیثیت فارسی شاعر، 1962،دہلی یونیورسٹی دہلی، ص 320

2          آب حیات، محمد حسین آزاد، نولکشورپرنٹنگ ورکس لاہور،سال اشاعت 1907، ص 197۔

 

Dr. Neelofar Hafeez

Assistant Professor (Persian)

Department of Arabic & Persian

University of Allahabad

Prayagraj

Cell.: 7500984444

Email: neelofarhafeez82@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حشم الرمضان کی نظم نگاری، مضمون نگار: فرزانہ پروین

  اردو دنیا، ستمبر 2024 بنگال کے نظم نگاروں میں ایک اہم اور معتبر نام حشم الرّمضان کا ہے ان کی تصانیف میں دو شعری مجموعوں کے علاوہ ایک تنق...