24/7/24

اردو زبان اوراس کے نمائندہ اسالیب، مضمون نگار : عبدالحی

سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل -جون 2024

تلخیص

اردو زبان دنیا کی سات بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔اس زبان میں دوسری زبانوں سے ارتباط و اختلاط کی کافی گنجائش رہی ہے اور یہی اردو زبان کی انفرادیت ہے۔ آج پوری دنیا میں اردو زبان اپنی شیرینی کی وجہ سے مقبول ہورہی ہے۔کچھ لوگ اس کا رسم الخط تبدیل کرنے کی وکالت کرتے رہے ہیں لیکن یہ زبان اپنے رسم الخط کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے اور یہ رسم الخط اردو زبان کی روح ہے، اس کے بغیر یہ زبان بے جان ہوجائے گی۔ زبان کی ترقی میں اس کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن کا بڑا کردار رہا ہے۔ کوئی زبان ایک دم سے بڑی زبان نہیں بن جاتی بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ زبان کی تاریخ وارتقا اور اس کے سائنسی مطالعے کو لسانیات کہا جاتا ہے اور اردو زبان کی ایک طویل تاریخ رہی ہے اور لسانی نقطہ نظر سے بھی یہ زبان دنیا کی اہم زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اسلوبیات بھی لسانیات کی ایک اہم شاخ ہے۔ اس کے تحت کسی شاعر یا ادیب کے طرز نگارش اور انداز بیان کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔کوئی عام سی بات بھی اچھے طرز کی وجہ سے یا اسے پیش کرنے کے انداز سے بہت خاص بن جاتی ہے اور یہ انداز ہی اس نثرنگار یا شاعر کو ممتاز بناتا ہے۔ اس مضمون میں نوم چامسکی کے نظریہ یونیورسل لینگویج کا تعارف کرایا گیا ہے ساتھ ساتھ لسانیات واسلوبیات پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں نثر کی مختلف اقسام کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور اردو نثر کے کچھ نمائندہ نثرنگاروں کے اسلوب پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور ان صاحب اسلوب نثرنگاروں کے نثرپاروں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

کلیدی الفاظ

 لسانیات، نوم چامسکی،یونیورسل لینگویج،اسلوب،تنقید، عطفی مرکبات،اسلوبیاتی تنقید،مولانا آزاد، قرۃ العین حیدر، رشید احمد صدیقی،منٹو، بیدی، کرشن چندر،اسلم پرویز۔

————

ہم سب جانتے ہیں کہ اردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی اور اسے بولنے اور استعمال کرنے والے لوگ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو، سکھ، عیسائی اور پارسی سبھی تھے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعد اردو اور ہندی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ زبان محض بولنے اور اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ زبان کے ساتھ ہمارا اپنا تہذیبی ورثہ جڑا ہوتا ہے۔ آج مسئلہ صرف اردو کا نہیں ہے بلکہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی، بنگلہ، تمل تیلگو اور دیگر علاقائی زبانیں بھی مشکلات سے دوچار ہیں۔ ایک عام بات جو ہمیشہ سننے کو ملتی ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے تو یہ بالکل غلط ہے، اگر ایسا ہوتا تو پھر بنگلہ دیش کی زبان اردو ہوتی، لیکن وہاں بنگلہ زبان کو ترجیح دی جاتی ہے، اسی طرح اگر پاکستان کی بات کی جائے تو وہاں ارود سے زیادہ سندھی، بلوچی، سرائیکی اور پنجابی کا استعمال ہوتا ہے۔ یہاں سعودی عرب، قطر، بحرین،  ایران، عراق وغیرہ کی بھی مثالیں دی جاسکتی ہیں جو مسلم ممالک ہیں لیکن ان کی زبان اردو نہیں ہے۔ زبانیں سب ایک جیسی ہیں سب کا اپنا مزاج ہوتا ہے، سب کی اپنی اہمیت ہے۔ نوم چامسکی میسا چیوٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی امریکہ میں پروفیسر ہیں اور اکیسویں صدی کے بڑے ماہر لسانیات،  دانشور اورمفکر ہیں۔ انھوں نے زبانوں پر بہت زیادہ ریسرچ کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں سات زبانیں ایسی ہیں جن میں دیگر زبانیں گھلتی ملتی جارہی ہیں۔یہ زبانیں ہیں انگریزی، اسپینی، روسی، سوہالی، مندارین، انڈونیشیائی اور ہندی۔ انسائیکلو پیڈٖیا برٹانیکا کے مطابق ہندی اور اردو دونوں ایک ہی زبانیں ہیں۔نوم چامسکی نے یونیورسل لینگویج کا فلسفہ پیش کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ دنیا کی ساری زبانوں کا منبع ایک ہی ہے۔ ان کا داخلی نظام ایک ہے، ان کے اظہار کرنے کا طریقہ ایک ہے۔ ہم دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں اشاروں سے اپنی بات سامنے والے کو بخوبی سمجھا سکتے ہیں اور یہ اشارے انسان فطری طور پر سیکھتا ہے اور انھی اشاروں اور تصاویر کی بدولت زبانوں کا آغاز ہوا، نوم چامسکی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ انسان اور جانوروں کی تصاویر نے حروف تہجی کو پیدا کیا، گائے کی سینگ کو اے، دونوں آنکھوں سے بی، ہونٹ سے سی، چہرے کے بیچ میں ایک لائن کھینچ دیں تو ڈی بن جاتا ہے۔ ہزاروں سال قبل زمین کے نیچے سے بہت ساری تصویریں ملی تھیں جن میں ہرن، مچھلی، پرندے، سانپ اور چمگادڑ کی شکلیں تھیں اور ان کو بعد میں حروف تہجی کی شکل دی گئی، جو یونان میں الفا،بیٹا گاما اور ڈیلٹا کہلائے اور بعد میں یہ اے بی سی ڈی بن گئے۔زبانیں جس تیزی سے پروان چڑھتی ہیں اسی تیزی سے ختم بھی ہورہی ہیں اور ایک دن ایسا آئے گا دنیا میں صرف ایک ہی زبان بولی جائے گی اور دنیا کے سارے لوگ ایک ہی تہذیب و ثقافت کا حصہ رہیں گے۔اس بات کو اگر آسان زبان میں سمجھیں تو آپ خود بھی تجربہ کرسکتے ہیں کہ بہت سارے الفاظ ایسے ہیں جو ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور ایک ہی حرف تہجی سے شروع ہوتے ہیں۔ مثال دیکھیں لفظ ماں،اردو میں ماں، اماں، انگریزی میں مدر، پشتو میں مور، سنسکرت میں ماتا ہے۔ اسی طرح  برادر، بھائی، بھراتا ہے۔ آخر ایسے الفاظ دوسرے حرف سے شروع ہونے چاہیے تھے۔  اسی ایک حرف تہجی سے کیوں شروع ہوتے ہیں تو اس کا جواب نوم چامسکی نے دیا ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں کی گرامر ایک ہے اور ان کا نظام اورطریقہ استعمال ایک ہے۔2022 کے ایک سروے کے مطابق اردو دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں دسویں نمبر پر ہے۔

بہار ودھان پریشد یا بہار قانون ساز کونسل کے رسالے دستاویز میں چھپے ایک مضمون کے مطابق۔ اردو میں سب سے زیادہ الفاظ ہندی کے ہیں، دوسرے پر فارسی، تیسرے پر عربی اور چوتھے پر انگریزی اور پانچویں پر سنسکرت کے الفاظ ہیں۔ سنسکرت کا پرو اردو میں پرب ہوگیا۔پورو۔ پورب، پشچم۔ پچھم، رتو۔ رت، چندر۔ چاند، ورآوت۔ بارات، اگنی۔ آگ،دھاتو۔دھات، راتری۔ رات، سورن۔سونا، تامر۔ تانبا، وردھا۔ بوڑھا، کرم۔ کام ہوگیا۔ یہ چند مثالیں ہیں کہ کس طرح سنسکرت سے الفاظ اردو میں شامل ہوئے ہیں۔اس طرح کے درجنوں الفاظ دوسری زبانوں سے بھی اردو میں شامل ہوئے ہیں۔

کسی بھی زبان کی کامیابی کے پیچھے اس کے بولنے، لکھنے اور پڑھنے والوں کا کردار ہوتا ہے۔ زبان کو مقبولیت حاصل کرنے اور ہر خاص و عام کی زبان بننے میں کافی وقت لگتا ہے اور زبان کی ترقی میں بھی ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔اس ترقی میں زبان کی اپنی خصوصیات، مکالمے، قواعد، لسانی تناظرات اور اسالیب کافی اہمیت رکھتے ہیں۔

زبان کے سائنسی مطالعے کو لسانیات کا نام دیا گیا جس کے تحت زبان کی تاریخ، ارتقا، تشکیل اور اس کی موجودہ صورت حال سے واقفیت حاصل کی جاتی ہے، زبانوں کا ایک دوسرے سے میل جول، رشتہ، باہمی اختلاط وارتباط اور زبانوں کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اردو زبان میں بھی لسانیاتی مطالعے کی طویل تاریخ رہی ہے۔ محی الدین قادری زور سے لے کر پروفیسر نصیر احمد خان، مرزا خلیل احمد بیگ، علی رفاد فتیحی اور محمد جہانگیر وارثی وغیرہ نے اپنے اپنے طور پر لسانیات کے مختلف پہلوئوں کی تفہیم و تشریح کرنے کی سعی کی ہے۔لسانیات نے نہ صرف مختلف زبانوں کے درمیان رشتوں کو واضح کیا بلکہ مختلف انسانوں اور تہذیبوں کے درمیان بھی باہمی روابط کو اجاگر کیا ہے۔اس حوالے سے محی الدین قادری زور کا قول یہاں دینا مناسب ہوگا:

’’لسانیات کا مطالعہ عملی طور پر فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ قدیم قوموں کے عادات و اطوار اور رسم و رواج کی نسبت معلومات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ قدیم زبان ہے جس کے پراگندہ نمونے ان قوموں کے باقی ماندہ افراد کے سینوں میں صدیوں بعد تک محفوظ رہتے ہیں اور جو لسانیات کی مدد سے منضبط اور منظم ہوکر تشریح حاصل کرتے ہیں۔‘‘

                         (محی الدین قادری زور، ہندوستانی لسانیات، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ، 1991، ص21)

لسانیات کا مطالعہ بنیادی طور پر چار سطحوں صوتیات، لفظیات، نحویات اور معنویات پر کیا جاتا ہے۔ لسانیات میں اطلاقی، توضیحی، عصری، سماجی، نفسیاتی،تقابلی، تجزیاتی، عمرانیاتی لسانیات جیسے ذیلی مطالعے بھی شامل ہوچکے ہیں اور یہ موضوع اپنے اندر کافی وسعت اختیار کرچکا ہے۔ ایسے ہی مطالعوں میں سے ایک اہم حصہ اسلوبیات بھی ہے۔اسلوبیات لسانیات کا ایک اہم حصہ ہے۔ اسلوبیاتی مطالعے پر دوسری زبانوں کی طرح اردو میں بھی کافی کام ہورہا ہے۔ اسلوبیاتی مطالعہ تنقید سے بھی کسی حد تک جڑا ہوا ہے جس میں متن کا مطالعہ اور صاحب متن کے اسلوب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔جس کے لیے نفسیاتی،سائنٹفک، جمالیاتی اور تاثراتی زاویوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔جب ہم متن اور اس کے اسلوب کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات یہاں قابل غور ہے کہ تنقید سے زیادہ اس میں لسانیاتی نقطۂ نظر کارفرما ہوتا ہے۔کسی بھی اسلوب پر اپنی رائے رکھنے سے قبل ہمیں اسے لسانیاتی معیار پر پرکھنا ضروری ہوگا۔زبان اور اس میں چھپی جمالیاتی خوبیوں کے جائزے پر نصیر احمد خاں کہتے ہیں:

’’ادبی زبان فکری ترسیل کا نام ہے۔ جس کے ایک طرف تخلیق کار اور دوسری طرف قاری یا سامع ہوتا ہے۔ اسی زبان کے ذریعے ایک شاعر اپنی ذات، قاری، تخلیق اور حقیقی دنیا کے درمیان رشتہ قائم کرتا ہے۔ ادب کی زبان کے کئی پہلو ہوسکتے ہیں۔ کبھی وہ علامتی ہوجاتی ہے تو کبھی ترسیلی اور کبھی حوالہ جاتی یا جمالیاتی۔ اسلوبیات اپنے مطالعے کے وقت ادبی زبان کے نہ صرف ان پہلوئوں پر توجہ دیتی ہے بلکہ اس میں پوشیدہ جمالیاتی خصوصیات کا بھی جائزہ لیتی ہے۔‘‘

(نصیر احمد خاں، ادبی اسلوبیات،اردو محل پبلی کیشن، پوسٹ باکس نمبر، نئی دہلی67، 1994،ص 11-12 )

یہاں یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ گوپی چند نارنگ نے اسلوبیاتی مطالعے میں جمالیاتی پہلوئوں کی نشاندہی سے اجتناب برتا ہے  اور اسے ضروری قرار نہیں دیا ہے جب کہ مرزا خلیل احمد بیگ  نے پروفیسر مسعود حسین خاں کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسلوبیاتی جائزے میں جمالیات کی کارفرمائی ضروری ہے۔عامر سہیل اور ڈاکٹر محمد الطاف یوسف زئی اپنے تحقیقی مقالے ’لسانیات اور اسلوبیات: جدید تصورات کی روشنی میں ‘میںاس نتیجے پر پہنچتے ہیں:

’’حقیقت یہی ہے کہ اسلوبیات کے تمام معیاری نظریے اور تجزیے جہاں لسانیات کے تکنیکی اور معروضی وسائل کو کام میں لاتے ہیں وہاں ادبی جمالیات کے مظاہر بھی ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ اسلوبیات کوئی جامد تنقیدی رویہ نہیں ہے کہ اس میں پہلے سے طے شدہ نظریات حرف آخر کا درجہ رکھتے ہیں بلکہ اسلوبیاتی تنقید میں تخلیقی جہات سے صرف نظر کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیںہوسکتا۔اگر ایک ناقداسلوبیات میں جمالیات کو خارج کرتا ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں بنتا کہ اسلوبیاتی اقلیم میں جمالیات کا داخلہ ممنوع ہے۔کئی اور اہم نقاد اسلوبیاتی تنقید میں جمالیات کو شامل بھی سمجھتے ہیں۔‘‘

                                      (بحوالہ، ریسرچ جرنل، الماس، شمارہ 20، 2018، ص191-192)

اس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو زبان کی ترقی میں اسالیب کا اہم کردار رہا ہے۔ مختلف اسالیب نے شاعری اور نثر دونوں کو ایک معیار اور وقار عطا کرنے میں اپنا بھرپور تعاون دیا ہے۔ ادب کی ترقی اور اس کے مقام کا تعین کرنے میں اس کا اسلوب بھی اہمیت رکھتا ہے۔یہ بہت سامنے کی بات ہے اور کسی حد تک درست بھی ہے کہ نظم کے مقابلے میں نثر آسان ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ نثر نگار محنت نہیں کرتا، قواعد کی پابندی، جملوں کی ترتیب، موضوع سے منطقی  وابستگی اور مقصد تحریر کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ اچھی نثر نہیں تخلیق ہوگی۔معروف ماہر لسانیات پروفیسر محی الدین قادری زورنے نثر کی مختلف اقسام بیان کی ہیں، مقفیٰ، مرجز، مسجع اور عاری۔ کچھ ناقدین مثلاً آل احمد سرورنے ان قسموں پر اعتراض بھی کیا ہے اور اسے گمراہ کن بھی قرار دیا ہے کہ بھلا نثرہے یا شاعری کی زنجیروں میں ایک قیدی نثر۔ نہ یہ نثر کی مردانگی رکھتی ہے اور نہ شاعری کی نسائیت بلکہ یہ ایک تیسری جنس ہے۔انھوں نے نثر عاری کو سب سے بہتر نثر قرار دیا ہے اور یہی وہ نثر ہے جسے سرسید نے فروغ دیا اور آگے چل کر اسی نثر نے اردو زبان و ادب کو ایک شناخت عطا کی۔اردو زبان کی ترقی کے ساتھ ساتھ نثر کی مزید اقسام کابھی اضافہ ہوتا گیا اور سلیس، سادہ، سلیس رنگین، دقیق سادہ اور دقیق رنگین، اسی طرح محاوراتی نثر،الہلالی نثر، انشائے لطیف کی شاعرانہ نثراور مزاح نگاری کی گلابی اردو نثر۔ڈاکٹر حامد حسین نے نثر کی چار قسمیں بتائی ہیں، گلابی، بیانیہ، استدلالی اور ادبی نثر جبکہ قاضی عبدالستار کے مطابق ترسیلی،عملی اور تخلیقی نثر۔ اب اتنی ساری اقسام پڑھ کر یا سن کر کوئی بھی شخص الجھن میں پڑ سکتا ہے کہ نثر نہ ہوئی ایک معمہ ہوگیا۔ جو چاہ رہا وہ اپنے حساب سے اس کا تیا پانچہ کیے جارہا ہے۔ان باتوں سے قطع نظر یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ نثر ایک بہتا ہوا دریا ہے جس میں کبھی مولانا آزاد کا زور خطابت ابھرتا ہے تو کبھی منٹو کا ہیجان۔ کبھی ملا رموزی گلابی اردو کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں تو کبھی رشید احمد صدیقی اپنے عطفی مرکبات کی کشتی کھیتے نظر آتے ہیں۔ اسلوب کی بھی بہت ساری تعریفیں بیان کی گئی ہیں، جن میں ایک بات واضح ہے کہ اسلوب کسی شخص کی پہچان بن جاتا ہے۔ اسلوب انسان ہے، اسلوب کسی انسان کی جلد ہے، اسلوب کسی چیز کے ہونے کا ڈھنگ ہے جیسی باتیں بھی کہی گئی ہیں لیکن مجھے افلاطون کی کہی یہ بات بے حد متاثرکن لگی کہ جب فکر کو شکل دے دی جاتی ہے تو اسلوب کا جنم ہوتا ہے۔گوپی چند نارنگ نے اسلوب کے بارے میں لکھا ہے:

’’مشرقی روایت میںادبی اسلوب بدیع وبیان کے پیرایوں کو شعر و ادب میں بروئے کار لانے اور ادبی حسن کاری کے عمل سے عہدہ برآ ہونے سے عبارت ہے، یعنی یہ ایسی شے ہے جس سے ادبی اظہار کے حسن و دلکشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ گویا اسلوب زیور ہے ادبی اظہار کا جس سے ادبی اظہار کی جاذبیت، کشش اور تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ (بحوالہ، ادبی تنقید اور اسلوبیات، گوپی چند نارنگ، ص14 )

اسلوبیات کے حوالے سے مرزا خلیل احمد بیگ کا اقتباس بھی یہاں نقل کرنا مناسب خیال کرتا ہوں:

’’اسلوبیات دراصل ادب کے لسانیاتی مطالعے کا نام ہے جس میں ادبی فن پارے کا مطالعہ و تجزیہ لسانیات کی روشنی میں اس کی مختلف سطحوں پر کیا جاتا ہے اور ہر سطح پر فن پارے کے اسلوب کے خصائص کا پتہ لگایا جاتا ہے لہٰذا اسلوبیات صحیح معنیٰ میں مطالعہ اسلوب ہے۔ چوں کہ اس مطالعے کی بنیاد لسانیات پر قائم ہے اس لیے اسے لسانیاتی مطالعہ ادب بھی کہتے ہیں۔‘‘(بحوالہ اسلوبیاتی تنقید، مرزا خلیل احمد بیگ، ص58 )

          ان باتوں سے جو نکتہ برآمد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی شاعر یا ادیب کو کامیاب بنانے میں اس کی فکر کے ساتھ ساتھ اس کے انداز تحریر کا بھی رول ہوتا ہے اور یہی انداز اس کی شخصیت کی پہچان بن جاتا ہے۔ غالب کے خطوط کو ہی دیکھ لیں، ان کی حاضر جوابی، طنز و ظرافت اور حوصلہ مندی ان کے خطوط میں جھلکتی ہے لیکن یہی غالب اپنی شاعری میں ایک دوسرا انداز اپناتے ہیں اور دونوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔مجھے یہاں انگریزی کے ایک ادیب کا معروف جملہ یاد آرہا ہے کہ جیتنے والے کوئی الگ کام نہیں کرتے بلکہ وہ ہر کام کو الگ انداز سے کرتے ہیں، اسی بات کو اگر یوں لکھا جائے تو اردو کے صاحب اسلوب نثر نگاروں پر صادق آتی ہے کہ معیاری نثرلکھنے والے کچھ عجوبہ نہیں لکھتے بلکہ وہ ہر بات کو اپنے انداز میں خوبصورتی سے کہنے کا ہنر جانتے ہیں اور خوبصورتی سے کہنے کے لیے الفاظ کے ذخیرے اور ان کے درست استعمال کا علم ہونا ضروری ہے۔ یہی وہ ہنر ہے جو راجندر سنگھ بیدی کے ناول ایک چادر میلی سی کا آغاز ایسے خوبصورت جملوں سے کراتا ہے:

’’ آج شام سورج کی ٹکیہ بہت لال تھی۔ آج آسمان کے کوٹلے میں کسی بے گناہ کا قتل ہوگیا تھا اور اس کے خون کے چھینٹے نیچے بکائن پر پڑتے ہوئے نیچے تلوکا کے صحن میں ٹپک رہے تھے۔‘‘

 شام کے اس منظر کی پیش کش کا انداز ہی کسی صاحب اسلوب نثر نگار کی شناخت ہے۔یہ جملے بتادیتے ہیں کہ ناول میں کیسا دھماکہ ہونے والا ہے۔ اسی طرح کرشن چندر کا شگفتہ انداز تحریر ملاحظہ کریں:

’’میں نے اپنی بوڑھی نانی اماں سے کہانیاں سنی ہیں یا پھر اپنی ماں کے آغوش میں اس لیے میری کہانی کا فن بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ یعنی کہانی سننے والے کو کہانی کی لذت ملے۔ رات اور موت اندھیرے کا ڈر دور ہو۔ زندگی کی خوش آئند اور روشن تصورات جاگیں۔ کیوں کہ ہم سورج کے بیٹے ہیں۔اگر ہم تاریکی اور اندھیرے کے بیٹے ہوتے تو ہماری آنکھیں نہ ہوتیں اور ہماری حسیات کا عالم ہی دوسرا ہوتا۔ مگر ہم سورج کے بیٹے ہیں۔ آگ ہمارا وطن ہے۔ روشنی ہماری غذا ہے۔ چاندنی ہمارے محبوب کا بدن ہے۔ ہم آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر محبت کرتے ہیں کیوں کہ ہم اندھے نہیں۔ اس دنیا میں آنکھوں سے زیادہ کوئی مقدس شے نہیں۔‘‘

کرشن چندر کا یہ اسلوب  اور اس طرح کا انداز ان کی کئی کہانیوں میں نظر آجاتا ہے۔نثر میں منفرد انداز اپناکر مسرت اور بصیرت کا سبق دینا تب ہی ممکن ہے جب لکھنے والا کسی خاص جذبے سے متاثر ہو اور جس موضوع پر وہ لکھ رہا ہے اس کو اس نے محسوس کیا ہو، اس میں ڈوب کر ابھرا ہو۔اپنے جذبوں کا درست اظہار کرنے کے لیے مناسب الفاظ کا ذخیرہ رکھنا ضروری ہے۔

اردونثرکووقیع بنانے میں مختلف نثرنگاروں کا ہاتھ رہا ہے اور ان کے موضوعات کے ساتھ ساتھ ان کا اسلوب اور انداز تحریر بھی ان کو بقائے دوام عطا کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔

ملاوجہی، رجب علی بیگ سرور، محمد حسین آزاد، رسوا،شبلی، شرر، مہدی افادی، آزاد اور قاضی عبدالستار وغیرہ کے اسلوب کی شناخت بطور مرصع و مسجع کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح میر امن کے اسلوب کو بعد میں سرشار، سر سید، حالی، نذیر احمد، راشد الخیری، خواجہ حسن نظامی، فرحت اللہ بیگ و پریم چند وغیرہ نے اپنایا۔یہاں غالب کا ذکر ضروری ہے کہ ان کے یہاں مختلف اسلوب مل جاتے ہیں، بنیادی، تاثراتی،  خطیبانہ  وغیرہ۔اسلوبیات کی بات ہو اور سرسید کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی کہ سرسید نے اردو زبان خصوصاً نثر کی کایہ پلٹ کر رکھ دی۔ اور یہی وہ اسلوب تھا جس نے بعد میں افسانوں، انشائیوں اور ناولوں میں مقبولیت حاصل کی۔ سرسید کے بیانیہ، عام فہم اور سادہ اسلوب کی مہم کا ہی اثر تھا کہ عام فہم نثر کو فروغ ملا اور پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی، خواجہ حسن نظامی، بیدی وغیرہ نے اسے اپنایا۔ خواجہ حسن نظامی کا مکالماتی و بیگماتی اسلوب،عصمت کا طنزیہ و ہیجانی اسلوب، آزاد کا سنجیدہ، خطیبانہ اسلوب، کرشن چندر کا شگفتہ اسلوب، منٹو کا تلخ و ترش اور ہیجانی اسلوب آج بھی ویسے ہی مقبول ہے جیسے ان کے دور میں رہا ہے۔

یہاں ابوالکلام آزاد کا نام لینا ضروری ہے کہ ان کی نثر کے بارے میں سجاد انصاری نے کہا تھا کہ قرآن اگر اردو میں نازل ہوتا تو مولانا کی نثر میں ہوتا۔آزاد کے اسلوب کی خوبی یہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتر ایسے مرکبات استعمال کرتے ہیں جن کے دونوں اجزا ایک ہی آواز یا اسی قبیل کی دوسری آواز پر ختم ہوتے ہیں جیسے حرارت و ملامت، توہین و تذلیل وغیرہ۔مولانا ابوالکلام آزاد نے ’الہلال‘ میں شاندار، بلند،زوردارفصیح و بلیغ زبان کا سہارا لیا اسی طرح انھوں نے ہر موضوع اور مضمون کے لیے اس کے مطابق اسلوب اختیار کیا جس میں دلکشی اور رنگینی ہر موضوع اور ہر مضمون میں نظر آتی ہے۔ ’الہلال‘ کے ذریعہ چونکہ ملک کی ایک خاص سطح کے اہل علم کو مخاطب کیا گیا تھا اور یہ اہل علم زبان و اسلوب کے بارے میں خاص ذوق رکھنے والے سمجھے جاتے تھے۔ مولانا آزاد نے ان کے اس ذوق کی مناسبت سے جو زبان استعمال کی اس میں عربی وفارسی کے بے شمار جملے، تراکیب اور استعارے موجود ہیں۔  قرآن سے استدلال اور اشعار کے برمحل استعمال نے اسلوب کو اور بھی دلکش اور رنگین بنا دیا اور یہی دلکشی اور رنگینی آگے چل کر ان کی خاص پہچان بنی اور یہی خطیبانہ انداز صحافت میں کافی مقبول ہوا۔ مولانا کے اسلوب کی ایک اہم خاصیت یہ تھی کہ انھوں نے موضوع کے مطابق ہی اسلوب اختیار کیا۔ جہاں دعوت کی بات کرتے ہیں تو انداز کچھ اور ہوتا ہے اور جب طنز و مزاح کی بات ہو تو انداز جداگانہ ہوتا ہے اور علم و ادب کی باتیں بھی اپنے الگ انداز میں کرتے ہیں۔ان کا اسلوب دیکھیں:

’’لیکن اے اقوام! اے درزدان قافلۂ انسانیت! اے امثال درندگی وسبعیت! اے مجمع وحوش کلاب!ظلم و عدوان تابکے؟اور خون وخونریزی تاچند؟ کب تک خداکی سرزمین کو اپنے حیوانی غرور سے ناپاک رکھو گے؟ کب تک انصاف ظلم سے اور روشنی تاریکی سے مغلوب رہے گی؟ تبریز میںتمھارے ہاتھوں انسانوں کی گردنیں سولی پرلٹک رہی ہیں، طرابلس کی ریت پراب تک اس جمے ہوئے خون کے ٹکڑے باقی ہیں، جو تمھاری آنکھوں کے سامنے تمھارے ایک پیش رونے بہایا۔مراقش میں ان لاشوںکاشمارکوئی انسان نہیںکرسکتا، جن میں سے سیکڑوں کو مٹی کی جگہ تمھارے گھوڑوںکے سموںکی پامالیاں اورتمھارے جنگی بوٹوں کی ٹھوکریں نصیب ہوئی ہیں۔‘‘

                                                                                   (الہلال، کلکتہ6، نومبر 1914، ص 19)

مولانا آزاد کا یہ خطیبانہ اور صحافیانہ اسلوب اردو صحافت کا مقبول عام انداز نہ بن سکا۔ یہ رنگ و آہنگ و کھنک اور چمک ان کے ساتھ ہی رخصت ہوگئی اور اردو صحافت نے اس سادہ عام فہم، سلیس اور غیرشاعرانہ نثر کو اپنایا جو سرسید اور ان کے رفقا نے تراش خراش کر تیار کی تھی لیکن مولانا آزاد اپنے انداز اور اسلوب کے موجد اور خود ہی منتہی تھے، اس لیے یاد کیے جائیں کہ انھوں نے صحافت کو پیغمبری کے رتبے تک پہنچا دیا۔ اب کیا کوئی اس طرح اپنی قوم کو مخاطب کرے گا:

’’آہ کاش مجھے وہ صور قیامت ملتا جس کو میں لے کر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر چڑھ جاتا۔ اسی ایک صدائے رعد و عصائے غفلت شکن سے سرگشتگان خواب ذلت و رسوائی کو بیدار کرتا اور چیخ چیخ کر پکارتا کہ اٹھو کیونکہ بہت سوچکے اور بیدار ہو کیونکہ تمھارا خدا تمھیں بیدار کرنا چاہتا ہے اور تمھیں موت کی جگہ حیات، زوال کی جگہ عروج اور ذلت کی جگہ عزت بخشنا چاہتا ہے۔‘‘ (الہلال، کلکتہ، 13جولائی، 1912)

مولانا آزاد کے اسلوب کی تعریف کرتے ہوئے پروفیسر محی الدین قادری زور نے عربی و فارسی الفاظ کی فراوانی کو ان کی نثر کا عیب نہیں بلکہ اسے حسن سے تعبیر کیا ہے اور ان کی تحریر وتقریر کو پہاڑی دریائوں کی روانی قرار دیا ہے۔

اسلوبیات کے مطالعے کی بھی کئی اقسام ہیں، صوتی اسلوبیات، صرفی و نحوی اسلوبیات، معنوی اسلوبیات، نفسیاتی اسلوبیات، لفظی اسلوبیات۔ ان سب کی تفصیل میں نہ جاکر یہاں بس یہ بتادوں کہ کسی بھی زبان کی ترقی کے پیچھے اس کے طرز نگارش کا اہم رول ہوتا ہے۔ الفاظ کے ذخیرے تو پہلے سے ہیں لیکن ان میں سے خوبصورت الفاظ کا انتخاب اور درست استعمال  ہی کسی ادیب یا شاعر کو منفرد اور ممتاز بناتا ہے۔

اردو کے ادیبوں نے دیگر زبانوں کے ادیبوں کی طرح ہی مختلف تجربات کیے ہیں اور ملکی و غیر ملکی حالات کو بھی مدنظر رکھا ہے۔ دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہورہی ہے اور اسلوب میں بھی اساطیری، حکائی اور شاعرانہ انداز در آئے ہیں۔آئیے اب کچھ اورصاحب اسلوب ادیبوں پر گفتگو کی جائے۔جب ہم بیسویں صدی کے نصف آخر کے آس پاس کا دور دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے ہماری نظر قرۃ العین حیدر پر ٹھہرتی ہے۔ ان کے اسلوب میں ایک ترقی یافتہ تہذیب کے مٹنے اورتابناک ماضی کے برباد ہونے کا نوحہ ہے۔ کچھ ناقدین نے تو ان کے افسانوں، ناولوں کو ہندو مسلم سکھ عیسائی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان رہنے والی محبت و اخوت کے ختم ہوجانے کا مرثیہ تک کہہ ڈالا ہے۔ اس ناول کے کچھ اقتباسات دیکھیں جو ناول کے مختلف صفحات سے لیے گئے ہیں:

’’کب تک تمھاری یہ مسرت رہے گی بیچارے لوگو مسرت بڑی عظیم چیز ہے۔ دوسروں سے ان کی مسرت نہ چھینا۔؎ یہ تقسیم شدہ دنیاہے۔ ملک، انسانی نظریے، روحیں، ایمان، ضمیر، ہر شے تلواروں سے کاٹ کر تقسیم کردی گئی ہے۔‘ایک جماعت مہاجرین کی کہلاتی ہے۔ یہ پاکستان کی عجیب ترین مخلوق ہے اور ہندوستان سے آئی ہے اور ملک کے ہر شہر، قصبے اور قریے میں پائی جاتی ہے۔ کراچی اس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس جماعت کا خاص ریکٹ کلچر ہے۔‘‘وطن کوپرانے کوٹ کی طرح اتار کر نہیں پھینکا جاسکتا۔ میں اسٹیٹ لیس ہوں۔ سنا ہے پاکستان میں بڑا قحط الرجال ہے، وہاں جاؤ۔ یہاں کیوں جھک مار رہے ہو۔ اب کیا ارادہ ہے کربلا ہجرت کیجیے گا یا پاکستان، یہیں رہوں گا۔ ہم کوئی بھگوڑے تھوڑے ہیں۔‘‘(بحوالہ قرۃ العین حیدر،آگ کا دریا)

قرۃ العین نے وقت کے فلسفے کو ایک دریا سے تشبیہ دی ہے، ہم سبھی اس دریا کے ساتھ بہتے رہتے ہیں، وقت ہمیں کہاں کا کہاں لے جاتا ہے اور ہم وقت کے دھارے پر  تنکے کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ خدائے واحد کے ترانے بھی گاتی ہیں۔ وہ جس نے چھ آسمانوں کو سہارا دیا۔ کہیں یہ وہی خدائے واحد تو نہیں؟

بہرحال ایک نئی تکنیک اور نئی طرزِ فکر نے اس ناول کے بعد جنم لیا۔ اردو فکشن کے بعد کے وقتوں میں بہت سارے لوگوں نے اس طرح سے لکھنے کی کوشش کی لیکن وہ قرۃ العین کا علم کہاں سے لاتے ان کی سوچ کہاں سے لاتے، ان کی روح کا درد کہاں سے لاتے، ان کا صوفیانہ اور فلسفیانہ اسلوب کہاں سے لاتے۔ قرۃ العین کے پاس لفظوں کا بڑا خزانہ ہے، وہ جو لفظ چننا چاہتی ہیں چن کر لفظوں کے موتی کی خوبصورت مالا بناتی ہیں جو واقعی پسند آتی ہے۔اس ناول میں تاریخ کا سارا حسن سمٹ کر لفظوں میں آگیاہے۔ ان کے اسی ناول سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ انھوں نے کتنا پڑھا ہے اور ان کا مطالعہ کتنا وسیع ہے۔میرے خیال میں تو انھوں نے’آگ کا دریا‘ لکھ کر ان لوگوں پر بڑا احسان کیاہے جو تاریخ کی ضخیم کتابوں سے بھاگتے ہیں۔ اس ایک ناول میں ہی انھیں تاریخ، فلسفہ،تصوف، سیاست غرض سب کچھ مل جائے گا۔ قرۃ العین حیدرکا یہ ناول آج بھی کافی مقبول ہے اور غیراردو داں طبقے میں بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔

اسی طرح اکیسویں صدی میں شمس الرحمان فاروقی نے اپنے ناول کئی چاند تھے سرآسماں سے تاریخ کی بازیافت کی ہے اور قدیم زبان کو زندہ کیا ہے۔ ماضی کی گرد میں کھوئے کتنے الفاظ اور کتنی اصطلاحات کو اپنے اسلوب میں استعمال کرکے انھیں ایک نئی زندگی دی ہے۔ ایک مثال دیکھیں:

’’قلعے کی مردانہ حویلی کے صدر پھاٹک پر گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی۔ آنے والے نے گھوڑے سے اترکر اس کی باگ محافظ خانے کو سونٹابردار کے ہاتھ میں دی، کمر میں بندھے ہوئے طپنچے کو سیدھا کیا، گھوڑوں کے قربوس پر سے ایک ململی دستمال لے اپنا منہ پونچھا اور پھر جوتیوں کو جھاڑا، محافظوں کی طرف مسکراکر دیکھا۔‘‘

سعادت حسن منٹو کو جزئیات نگاری پر عبور حاصل تھا، ان کے اسلوب میں ایک کاٹ اور ایک تلخی ملتی ہے۔ہیجانی اسلوب کے لیے منٹو کا نام سرفہرست لیا جاتا ہے۔زندگی کی تلخ حقیقتوں کو جس انداز میں انھوں نے پیش کیا ہے وہ ان کی پہچان بن گیا۔ منٹو کا اسلوب ان کے افسانوں کی کامیابی کا ضامن ہے۔ منٹو کو بخوبی پتہ تھا کہ قاری کو کس طرح پورے افسانے تک باندھے رکھنا ہے اور اس کو پورا افسانہ پڑھنے پر مجبور کرنا ہے۔ وہ افسانے کا آغاز ہی کچھ یوں کرتا ہے کہ قاری پورا افسانہ پڑھنے پر مجبور ہوجائے۔

انتظار حسین کا اسلوب ایک الگ ہی انداز رکھتا ہے۔ ان کے یہاں ماورائی اور اساطیری عناصر ملتے ہیں، ماضی کی یادیں، روایات، تہذیب کی گم شدگی، ہجرت کے اثرات اور تصوف کا بیان ان کی تحریروں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میںقرآن مجید، انجیل مقدس، بدھ مت اور ہندوئوں کی مقدس کتابوں کے واقعات، لوک داستانوں اور قصوں سے مواد لیا ہے اور یہی انداز ان کے اسلوب کو طلسماتی فضا فراہم کرتا ہے جو ان کی پہچان بنا۔ان کے افسانوں میں ناسٹلجیا کا درد بہت شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔

اسلوب کی خوبی یہ ہے کہ کوئی افسانہ نگار یا نثر نگار الفاظ کو کیسے استعمال کر رہا ہے اور زبان کے ساتھ کیا تجربہ کرتا ہے۔کسی لفظ کو اس کے معنی سے الگ ہٹ کر استعمال کرنا ہی اس کی خوبی بن جاتا ہے۔یہی انوکھا پن اور حیرت انگیز اسلوب کسی ادیب کو اسلوبیات کی سطح پر افتخار بخشتا ہے۔

اسلم پرویز کو زبان و بیان پر عبور حاصل تھا۔انھوں نے انجمن ترقی اردو کے مقبول اور اہم رسالے اردو ادب کی ایک طویل عرصے تک ادارت بھی کی تھی۔ ان کے اداریے اپنے اندر بڑی کشش اور انفرادیت رکھتے ہیں ان کے لکھے اداریوں میں ایک بات بڑی واضح نظرآتی ہے کہ ان کے اداریے خود اپنے آپ ہی اشارہ کردیتے ہیں کہ یہ اسلم پرویز نے لکھے ہیں۔ ان کے اداریوں میں کچھ ایسا اسلوب پایاجاتا ہے اور الفاظ وبیان کی ایسی درستگی ہے جو اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ ان کے اداریوں میں ایک تلخی وترشی تو ہے ہی ساتھ میں اردو کے سچے محافظ کے دل سے نکلنے والی آواز کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس:

’’آج عالم یہ ہے کہ اردو بے چاری، اردو تحریک اور ارباب حل وعقد کے درمیان اس مجبور وبے کس انارکلی کی طرح کھڑی ہے جس سے مخاطب ہوتے ہوئے مغل اعظم کے مہابلی پرتھوی راج کپور نے کہاتھا انارکلی سلیم تجھے مرنے نہیں دے گا اور ہم تجھے جینے نہیں دیںگے۔‘‘ (سہ ماہی اردو ادب نجمن ترقی اردو ہند، اداریہ، شمارہ دو1999 )

علی گڑھ ایک ایسی تحریک ہے جس نے اردو زبان و ادب کو ایک شناخت عطا کی اور درجنوں شاعر وادیب اس تحریکی فضا میں پلے بڑھے اور  اردو کے گیسو کو سنوارا۔ رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں علی گڑھ شہر جس شدت کے ساتھ نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ کو اردو کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں۔ علی گڑھ ان کی تحریروں میں سانس لیتا نظر آتا ہے۔اسی شہر نے ان کے فن کو جلا بخشی۔ ان کے اسلوب پر مختلف لوگوں نے لکھا ہے، خواجہ محمد اکرام الدین کی کتاب بھی اس موضوع پر ہے۔یہاں بس کچھ باتوں کا ذکر کردوں جن کی جانب ڈاکٹر شہاب ظفراعظمی نے اپنی کتاب  ’’اردو کے نثری اسالیب‘‘ میں اشارہ کیا ہے کہ ان کے اسلوب کی پہچان ان کے چھوٹے چھوٹے جملے ہیں جو کئی صفحات پر بھاری ہیں اور ان جملوں کی دھمک آج بھی سنائی دیتی ہے۔غزل اردو شاعری کی آبرو ہے،شاعری زیور کی محتاج ہے اور زیور غزل کا محتاج ہے،غزل شاعری نہیں تہذیب بھی ہے، غالب کے تصرف سے غزل اردو کی تاثیر اور تقدیر بن گئی، اقبال کی نظموں کا شباب، اقبال کی غزلوں کی شراب میں ڈوبا ہوا ہے،حالی ماضی کے، اکبر حال کے اور اقبال مستقبل کے شاعر قرار دیے جاسکتے ہیں۔رشید صاحب کو نئی نئی اصطلاحات وضع کرنا اور پرانی اصطلاحات کو نئے معنوں میں استعمال کرنے کا ہنر خوب آتا تھا۔الفاظ و تراکیب کا انوکھا استعمال رشید صاحب کی تحریروں کا خاصہ ہے۔عطفی مرکبات کا اگر ذکر کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ رشید صاحب کا تخیل بے مثال تھا اور زبان پر گہری پکڑ تھی ساتھ ہی الفاظ کو ایک دوسرے سے ملاکر لکھنے اور بولنے کا ہنر انھیں خوب آتا تھا۔مترادف الفاظ کو مرکبات کے طور پر استعمال کر کے انھوں نے اردو زبان میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔مکر وفریب،ظالم و جابر،نفرت و حقارت، شوکت و شادمانی،جبروت وجلال، وزن و وقار جیسے درجنوں الفاظ ان کی تحریروں میں بکھرے پڑے ہیں۔ اپنے خاکوں میں رشید صاحب نے شخصیات کی باطنی زندگی اور ظاہری اوصاف کو نہایت خوبصورت اور شگفتہ الفاظ کا پیکر عطا کیا ہے۔ ان کے خاکے کی منظر کشی ملاحظہ کریں جو انھوں نے محمد علی جوہر کے خاکے میں کی ہے:

’’کس بلا کے بولنے اور لکھنے والے تھے،بولتے تو معلوم ہوتا بوالہول کی آواز اہرام مصر سے ٹکرارہی ہے لکھتے تو معلوم ہوتا کرپ کے کارخانے میں توپیں ڈھل رہی ہیں یا پھر شاہجہاں کے ذہن میں تاج کا نقشہ مرتب ہورہا ہے،میں نے ان کو اسٹیج پر آتے اور بولتے ہوئے سنا ہے اور محمد علی کو داد دینے سے پہلے انیس کو داد دی ہے۔ضیغم ڈکارتا ہوا نکلا کچھار سے!اسٹیج پر محمد علی جس طرح جھومتے بل کھاتے پہنچتے، جس کڑک تڑپ غریو اور غلبہ سے بولتے وہ بہتوں نے دیکھا ہوگا....وہ بولنے میں تلوار اور گرز دونوں سے کام لیتے وہ حربے کا جواب صرف اپنی تقریر سے دے سکتے تھے........محمد علی کی موت کی خبر سنی تو تھوڑی دیر کے لیے یقین نہیں آیا۔رہ رہ کر یہ خیال آتا رہا کہ محمد علی کو آخر موت نے زیر کس طور پر کیا۔خود موت پر کیا گذری ہوگی!‘‘ 

                                                                                           (بحوالہ گنج ہائے گراں مایہ، ص4)

رشید احمد صدیقی کا علمی اسلوب انفرادیت رکھتا ہے اور اپنے خاکوں میں انھوں نے جہاں علی گڑھ کی مقامی روایات کی پاسداری کی ہے وہیں فلسفیانہ انداز بھی اپنایا ہے جس نے ان کے خاکوں  اور تحریروں میں ندرت پیدا کردی ہے جو نئے خاکہ نگاروں کے لیے ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔رشید احمد صدیقی کے خاکے ادبی شاہکار کے زمرے میں رکھے جاسکتے ہیں،شگفتہ نثر،خوبصورت اسلوب اور الفاظ کے موزوں استعمال نے ان کے خاکوں کو ایک دلاآویز انفرادیت عطا کی ہے۔انھوں نے اپنے خاکوں کے ذریعے کرداروں کی ان خوبیوں سے پردہ اٹھایا ہے جن تک عام انسان کی نگاہ نہیں پہنچ پاتی۔ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے ان خاکوں میں اپنی شخصیت کے غیر ضروری ذکر سے اجتناب کیا ہے۔رشید احمد صدیقی کی تحریری صلاحیتوں کا اعتراف اسلم پرویز ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’رشید صاحب زندگی بھر علی گڑھ میں رہے لیکن ان کی خوش نصیبی ہے کہ انھیں علی گڑھ میں ہی عدالت، ڈائننگ ہال، مجسٹریٹ، مولوی، آئی سی ایس، فدوی، وکیل، دھوبی، لیڈر، بیرا، یکہ، چارپائی، الیکشن، وعظ، کونسل، ارہر کا کھیت، عاشق، بہشتی، دربان، شاعر، سرقہ، فائونٹین پین، ایڈیٹر،ناصح، کنوینر،رقیب، پولس، قوم، عورت، بلوہ، سوداگر،  محبوب، نمازی، شرابی، مدرسہ، جیل خانہ، آفس، آخرت، گھاگ، صوفی غرض سب ہی میسر تھے۔ رشید صاحب ایسے تمام لوازمات کو انتہائی ذہانت برجستگی رعایت لفظی اور حسن تضاد کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔رشید صاحب اپنے گردوپیش کی دنیا سے بخوبی باخبر ہیں لیکن جب وہ ان چیزوں کا ذکر اپنی تحریروں میں کرتے ہیں تو ہر چیز سے بالکل بے تعلق نظر آتے ہیں حتیٰ کہ بیوی بچوں تک سے۔ وہ ہر جگہ کا نقشہ انتہائی معروضی انداز میں پیش کرتے ہیں اور خود موقع واردات سے اس  قدر دور نظر آتے ہیں جتنا سنیما دکھانے کی مشین۔‘‘ (بحوالہ گھنے سائے، اسلم پرویز، ص 173 )

اسلوبیات کے میدان میں محی الدین قادری زور، امیر اللہ خاں شاہین، نثار احمد فاروقی،مسعود حسین خاں،مغنی تبسم، محمد حسن،طارق سعید، نصیر احمد خاں،مرزا خلیل احمد بیگ، علی رفاد فتیحی، گوپی چند نارنگ،خالد محمود خاں، فوزیہ اسلم، آفتاب احمد آفاقی، شہاب ظفر اعظمی وغیرہ نے بطور خاص اس موضوع پر لکھا ہے۔یہ موضوع اتنا بسیط ہے کہ اس پر مزید گفتگو ہوسکتی ہے۔

کتابیات

·        جدید اردو لسانیات: امیراللہ خاں شاہین، چغتائی پبلشرز، میرٹھ1983

·             گھنے سائے: اسلم پرویز، دلی کتاب گھر، گلی خانخاناں،جامع مسجد، دہلی2010

·              مختار مسعود کا اسلوب: الطاف یوسف زئی۔

·              تشریحی لسانیات: سہیل بخاری۔

·              اردو کے نثری اسالیب: شہاب ظفر اعظمی، تخلیق کار پبلشرز، لکشمی نگر، دہلی1999

·             اسلوب اور اسلوبیات: طارق سعید، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی1996

·             منٹو کا اسلوب(افسانوں کے حوالے سے): طاہرہ اقبال۔

·             ساخت اور اسلوب،نظریہ و تجزیہ: علی رفاد فتیحی، بک کارپوریشن،لال کنواں، دہلی 2016

·             عام لسانیات: گیان چند جین، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی1985

·             ادبی تنقید اور اسلوبیات: گوپی چند نارنگ،  ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی1989

·              ہندوستانی لسانیات:محی الدین قادری زور، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ،1991

·              اردو کے اسالیب بیان: محی الدین قادری زور، احمدیہ پریس، چارمینار حیدرآباد دکن1932

·              اسلوبیاتی تنقید:  مرزا خلیل احمد بیگ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی2014

·             زبان، اسلوب اور اسلوبیات:  مرزا خلیل احمد بیگ،  ادارہ، زبان و اسلوب،علی گڑھ1983

·               اسلوبیاتی مطالعے: منظر عباس نقوی، ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ1989

·              ادبی اسلوبیات: نصیر احمد خاں، اردو محل پبلی کیشن، پوسٹ باکس نمبر، نئی دہلی67، 1994

رسائل و جرائد

·             الہلال: مختلف فائل

·             سہ ماہی اردو ادب:انجمن ترقی اردو ہند، اداریہ، شمارہ دو1999

·             ریسرچ جرنل، الماس، شمارہ 20، 2018۔

 

Abdul Hai

C.M. College

Darbhanga- 846004 (Bihar)

Mob.: 9899572095

ahaijnu@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حشم الرمضان کی نظم نگاری، مضمون نگار: فرزانہ پروین

  اردو دنیا، ستمبر 2024 بنگال کے نظم نگاروں میں ایک اہم اور معتبر نام حشم الرّمضان کا ہے ان کی تصانیف میں دو شعری مجموعوں کے علاوہ ایک تنق...