12/7/24

دست شفقت، یوسف ادریس، مترجم محمد قطب الدین

 ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


یوسف ادریس (1927-1991) نہ صرف مصر بلکہ عالم عرب کے مشہور افسانہ نگاروں، ڈرامہ نویسوں اور ناول نگاروں میں سے ایک ہیں، ان کی پیدائش ’البیروم‘ شرقیہ گورنریٹ، مصر میں 1927 کو ہوئی، ان کی وفات لندن میں یکم اگست 1991 کو 64 سال کی عمر میں ہوگئی۔ موصوف نے 1947 میں بیچلر ا ٓف میڈیسن کی ڈگری حاصل کی اور 1951 میں نفسیات میں مہارت حاصل کی۔

قاہرہ یونیورسٹی، مصر میں طب کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی وہ اپنی تحریریں شائع کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ چنانچہ انہی دنوں ان کی کہانیاں ’المصری‘ اور ’روز الیوسف‘ نامی جریدوں میں شائع ہونی شروع ہوگئیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’أرخص لیالی‘ (سستی راتیں) 1954 میں شائع ہوا۔ انھوں نے چند سالوں تک نفسیات کی مشق کی، اور چھوڑ دیا، پھر طب کا پیشہ 1960 تک جاری رکھا، جب اس میں بھی ان کا دل نہیں لگا تو اس سے دستبردار ہوکر کل وقتی ادیب و صحافی بن گئے اور ’الجمہوریۃ‘ ا خبار کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔

یوسف ا دریس عالم عرب کے ایک بے باک و جری افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، ناول نگار اور قلمکار و صحافی کے نام سے جانے جاتے ہیں، وہ اپنی تحریروں میں سماجی و سیاسی مسائل کو اجاگر کرنے میں  کوئی    جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ عربی ادب میں ان کا ا پنا ایک اسلوب ہے جس کی اتباع بعد کے نوجوان ادبا نے بھی کی ہے۔ یوسف ادریس کے مشہور افسانوں میں ’أرخص لیالی‘ (سستی راتیں)، ’البطل‘ (ہیرو)، ’بیت من لحم‘ (گوشت کا گھر) اور ’لیلۃ صیف‘ (گرمی کی رات) وغیرہ مشہور ہیں۔پیشِ نظر کہانی (الید الکبیرۃ) کا اردو ترجمہ (دستِ شفقت) یوسف ادریس کی مشہور کہانیوں میں سے ایک ہے۔

میں ٹرین سے عصر کے وقت اترا، ہمیشہ میں اسی وقت اپنے شہر پہنچتا تھا۔  اسٹیشن ریلوے لائن کے ایک کنارے پر تھا جب کہ میرا شہر دوسرے کنارہ پر۔ سورج پیلا ہوچکا تھا، اس کی زردی میں اطمینان وسکون تھا اور کمزوری بھی۔ ہمارا شہر بھی زرد پڑ چکا تھا، جہاں مٹی کے گھر تھے،وہاں کے درخت یہاں تک کہ کھجور کی چوٹیوں پر بھی زردی چھائی ہوئی تھی۔

اسٹیشن کی کرسیوں پر ہمیشہ بیٹھنے والے لوگوں کے ایک گروپ نے میری طرف دیکھا، کیونکہ خالی بیٹھنے کے لیے یہ جگہ اچھی تھی۔ بیٹھے ہوئے شخص کو نہ تو کوئی بھگاتا اور نہ ہی اس کی کوئی فیس مانگتا۔ اس گروپ نے مجھے ایک ایسی نظر سے دیکھا جو یقینا ماتم سے بھری تھی۔ میںوہاں سے چل پڑا جبکہ ٹرین ابھی بھی اپنے بدصورت سیاہ سر کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کی آواز سخت اور بھونڈی تھی جو کبھی رکتی نہیں تھی۔ اس کی آنکھیںچوڑی، گول اور سرخ تھیں جو وقتاً فوقتاً اس کے اندر کھلتی تھیں اور سرخ آگ کی سانس لیتی تھی۔ بچپن میں سب سے زیادہ جس خوفناک سرسے ہم ڈرتے تھے وہ  چڑیل کا سر ہوتا تھا۔ اس بار میں نے اس کے سامنے لگے ہوئے لوہے کی سلاخوں کوبغیر کسی چیز کی پروا کیے ہوئے پارکرلیا، مجھے موت کا بھی ڈر نہیں ہوا۔

جس وقت شہر اور میرے گھر کو جانے والے تنگ راستے سے میںگذر رہا تھا اس وقت میرے اندر ایک عجیب وغریب احساس پیدا ہوا کہ آخر کار میں اپنے وطن لوٹ گیا۔ ہمیشہ راستے میں اپنے شہر کے تین یا چار ایسے لوگوں سے ملاقات ہوجاتی تھی جو اسی علاقے میں گھوم رہے ہوتے تھے اور میں انھیں سلام کرتا۔ وہ لوگ میرے سلام کا جواب دیتے اور مجھے دیکھتے ہوئے میرا استقبال کرتے، وہ ان تبدیلیوں کو دیکھتے جو برسوں نے میرے اندر پیدا کردی تھی اور میں بھی ان تبدیلیوں کو دیکھتا جو برسوں نے ان کے اندر پیدا کردیا تھا۔ میں نے انھیں اپنے بچپن میں دیکھا تھا۔ اور جب وہ جوان تھے اس وقت انھوں نے مجھے دیکھا تھا۔آج نہ تو میں بچہ رہا اور نہ وہ جوان رہے۔

وقت! غدار اور غیر محفوظ وقت جو آگے بڑھتے ہوئے کبھی رکتا نہیں، ہم بھی بڑھنے سے کبھی نہیں رکتے اور اختتام کے قریب جانے سے کبھی نہیں باز آتے۔ ہمیں وقت کا احساس نہیں ہوتا جب تک کہ ہم خود اسے نہ دیکھ لیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت نے دوسروں میں کیا کیا تبدیلیاں کی ہیں، چنانچہ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم بھی ان کی طرح بوڑھے ہوجائیں گے۔

ہمارے گائوں کی فضا ہمیشہ پرسکون ہوتی تھی۔ کوئی شور وہنگامہ نہیں، کوئی چیخ وپکار نہیں اور نہ کبھی کوئی جھگڑا فساد۔ہوا چھتوں کے اوپر رکھی ہوئی لکڑیوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتی، بطخوں کی ٹولی خاموش تھی اور قیں قیں کی آواز نہیں آرہی تھی۔ ہر چیز مٹی کی ہوتی، زمین کے اوپر مٹی ہوتی اور آسمان میں چولہے کا دھواں۔ لوگ خاموشی اور بغیر کسی جوش وخروش کے ساتھ چلتے پھرتے، جیسے کہ انھیں معلوم ہو کہ جلدی کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور نقل وحرکت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لوگ خاموش ہوتے گویا وہ قیامت کے دن کا انتظار کررہے ہیں تاکہ وہ اسی دن بولیں یا موت کے منتظر ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ جیسے ہی میں اس تنگ راستے پر اپنا قدم رکھتا، گھروں کی دہلیز پر خواتین نظرآتیں، مجھے بچپن سے ہی عادت ہوگئی تھی کہ جب میں وہاں سے گذروں تو آنکھیں نیچی کرلوں، خواتین میرے وہاں سے گذرنے کے بعد سرگوشیاں کرنے کی عادی ہوچکی تھیں، جب میں آرہا ہوتا تو مجھے گھور کر دیکھتیں اور پھر سرگوشی کرنے لگتیں۔

مختصر پتلون میں پرائمری تک اس راستے پر میں دسیوں ہزار بار چلا، وہیں میںنے سائیکل چلانا سیکھا، امتحان میں اپنی کامیابی پر خوشی سے بھاگا اور برسات کے موسم میں اسکیٹنگ کی۔ اسی تنگ راستے پر لڑکوں کے ساتھ رات میں کھیلا کرتا۔ اس راستے کے آخری سرے پر میرا گھر ہوا کرتا تھا جس کا دروازہ اور چہاردیواری لوہے کی تھی، اس کے سامنے ہی میری پڑوسن ’بدیعہ‘ کے گھر کا دروازہ کھلتا تھا، وہ ہمیشہ دروازے کے سامنے کھڑی رہتی اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے اس کے اردگرد ہوتے، اور جب بچے بڑے ہوگئے تو عورتیں اس کے ارد گرد رہنے لگیں، وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتی رہتی، کبھی تانبے کے برتن کو رگڑ رگڑ کر صاف کرتی، کبھی اناج سُکھاتی تو کبھی گم شدہ مرغی ڈھونڈتی رہتی۔ جیسے ہی وہ مجھے آتے ہوئے دور سے دیکھتی تو نظر چرا کر دیکھنے لگتی اور خوش ہوتی، پھر وہ اپنے کام میں مشغول ہوجاتی۔ وہ چاہتی تھی کہ میں ان کے لیے سلامتی کی دعا کروں، جی ہاں! یہ ان کا حق بھی تھا، کیونکہ بچپن میں جب مجھے کھیل کود اور دوڑنے بھاگنے کی وجہ سے پیاس لگتی تو پانی پینے کے لیے میں انھیں کے پاس جاتا کیونکہ اگر گھر جاتا تو مجھے پریشان دیکھ کر ماں کی پٹائی پڑتی، میری خالہ بدیعہ مجھے پانی پلاتی، مجھے بچاتی اور اپنے پاس مجھے چھپا لیتی جب میری ماں میرے اوپر غصہ کرتی، اور جب مار پڑتی تو وہ میرا بچائو کرتی، مگر اب میں بڑا ہوچکا تھا، پڑھا لکھا اور سوٹ بوٹ والاایک تہذیب یافتہ آدمی بن چکا تھا، کیا وہ سوچتی تھی کہ میں ا ب بھی انھیں یاد کرتا ہوں گا؟ بلاشبہ ان کے ذہن میں یہی ہوتا تھا جب بھی وہ مجھے اپنے بیگ کے ساتھ باہر سے آتے ہوئے دیکھتی تھی، برسوں نے ان کی کمر جھکا دی تھی اور ان کی جلد پر جھریاں ڈال دی تھیں، لیکن ان کی شائستہ مسکراہٹ اب بھی باقی تھی۔

میں نے پوچھا:

آپ کیسی ہیں بدیعہ خالہ؟

انھوں نے اپنا سر اٹھایا، میں نے ان کی آنکھوں میں زبردست خوشی اور ان کے ہاتھوں کو پریشان دیکھا جب انھوں نے اپنے کپڑے کے اوپر سے مٹی صاف کی۔ وہ مسکرانے ہی والی تھی مگر انھوں نے اسے ایک شفقت اور ماتم بھری آواز کے ساتھ روک لیا۔ اس آواز نے مجھے ہلا کر رکھ دیا کیونکہ میری خالہ بدیعہ ایسی نہیں تھی۔میری خیریت پوچھتے ہی سارا کام چھوڑ کر جلدی سے کھڑی ہوتی اور خوشی میں گنگناتے ہوئے دروازہ کھولتی اور کہتی:

وہ آگیا...وہ آگیا...

ہمارے گھر میں اس وقت کافی شور مچ رہا تھا، گھر والوں نے مجھے چھ ماہ یا سال بھر سے دیکھا نہیں تھا، وہ ہمیشہ میرے لیے ترستے رہتے تھے، میں نے کم عمری میں ہی گریجویشن کرلیا، جس دن سے میں نے گریجویشن کیا میں نے انھیں کبھی کبھار ہی دیکھا تھا،گھروالے مجھے بہت پیار کرتے تھے۔

ہمارا دروازہ کھلتا تھا اور میرے ایک سے زیادہ بھائی ننگے پائوں اور اپنے لباس میں اور کبھی کبھی ٹی شرٹ اور پتلون میں باہر آکر ان میں سے ہر ایک میرے گلے سے چمٹ جاتا۔ اپنے بڑے بھائی کے لیے ان کی خوشی ناقابل بیان ہے، ایسی خوشی جو ان کی زبانوں پر چیخوں اور خوشیوں کے ساتھ نمایاں ہوتی تھی، اور وہ صرف یہ کہتے:

خوش آمدید۔۔۔۔۔ خوش آمدید۔۔۔۔۔

میں بھی انھیں اپنے دل اور بازئوں سے گلے لگاتا تھا کیونکہ وہ میرے بھائی تھے اور میں بھی ان سے پیار کرتا تھا۔ میں جس شہر میں رہتا تھا وہ کشمکش سے بھرا ہوا تھا۔ وہاں میری زندگی محصور تھی جہاں میں اپنے اور دوسروں کے وجود کا دفاع کرتا تھا، میں بڑی طاقت کے سامنے کھڑا تھا، میرا دل تنہا تھا، میں لوگوں کو ناپسند نہیں کرتا تھا، بلکہ ان پر ترس آتا تھا۔میرے دوست تو بہت تھے مگر ایسی محبت کا احساس بس یہیں پر ہوتا تھا۔ ایک ایسی محبت جو منفرد تھی اور اتھاہ بھی۔ ایسی محبت جسے محسوس کیا جاسکتا تھا اور تجربہ بھی، اسے نہ تو کوئی چھپاتا اور نہ اس میں کوئی بخالت کرتا۔

میں بھائیوں سے گلے ملتا اور بہت کوشش کرتا کہ ان کے ننھے ننھے بازوئوں سے کب چھٹکارا پائوں تاکہ اپنے والد سے مل سکوں، کیونکہ میں ہمیشہ ان سے ملاقات کے لیے ترستا تھا، میں ان کا سب سے بڑا اور چہیتابیٹا تھا۔ میری صورت حال کا تقاضا تھا کہ میں ایک پختہ آدمی نظرآئوں اور میں ایسا کرتا بھی تھا، مگر میں ہمیشہ والد سے ملنے کو ترستا تھا، اپنے بچپن کو بھی ترستا تھا، میں تمنا کرتا تھا کہ کاش مرد کا لبادہ پھینک اپنے بچپن میں لوٹ جائوں یا بچوں کی طرح ہوجائوں تاکہ بچہ لگوں اور یہاں تک کہ بچہ ہونے کا احساس ہوجائے۔ میں اپنے والد سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا، میں جیسے ہی دروازے سے داخل ہوتا وہ جس کام میں بھی مشغول ہوتے اسے چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے، وہ اپنا چوغہ پہنے ہوتے، ان کا سرننگا اور سینہ کھلا ہواہوتا، وہ حیرت میں خوش ہوتے۔ وہ اپنے جوتے یہاں وہاں ڈھونڈنے لگتے تاکہ جلدی سے مجھ سے ملیں۔ کیونکہ وہی مجھ سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ دنیا میں وہ تمام چیزوں سے زیادہ مجھ سے ہی پیار کرتے۔ وہ ہمارے بڑے گھر کے دروازے پر کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر میرا استقبال کرتے ہوئے کہتے:

خوش آمدید... کہاں غائب تھے میاں!

میں جلدی سے ان کے سینے سے لگ جاتا اور وہ بھی مجھے اپنے سینہ سے لگالیتے، نہ جانے کتنی بار میں ان کے سینے سے لگا اور کتنی مرتبہ انھوں نے مجھے اپنے سینے سے لگایا، میں تمنا کرتا تھا کہ زندگی بھر ان کے سینے سے چمٹا رہوں، جب میں چھوٹا تھا تو ان کی پنڈلیوں کے برابر ہوتا اور ان سے لپٹ جاتا۔ پھر جب میں بڑا ہو اتو اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کی کمر کو پکڑ لیتا۔ اس وقت میری خوشی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پھر میں مزید بڑا ہوا اور ان کی طرح لمبا ہوگیا۔ جب میں ان کی پنڈلیوں کے برابر تھا تب سے زیادہ اب میں ان سے پیار کرتا ہوں، ان کو گلے لگاتا ہوں اور بے تابی کے ساتھ ان کو چومتا ہوں، میں ان کی گردن کی جھریوں کو دیکھتا ہوں، مجھے وہ جھریاں، ان کے سینے کے بال جو کہ سفید ہوچکے ہیں اور جسے میں ان کی قمیص کے سوراخ سے جھانک کر دیکھتا ہوں، ان کی اندرونی جلد کا ہلکا رنگ، ان کا بھورا چہرہ، ان کی نرم وباوقار  ناک اور ان کی آنکھیں جو نیکی اور محبت سے بھری ہیں مجھے بہت پسند ہیں۔ میں اپنے والد کو بہت زیادہ بوسہ دیتاتھا اور وہ بھی مجھے بوسہ دیتے تھے، ان کی آنکھیں آنسو سے ڈبڈبا جاتیں اور کہتے:ارے مولانا! تم سے ملنے کا کتنا دل چاہتا تھا!

ان لمحات میں میں خاموش رہتا اور محسوس کرتا کہ میرے اندر جان واپس آچکی ہے اور میں بڑے شہر میں کھو چکا ہوں، تنہا ہوں، جبکہ یہاں میرے والد ہیں۔۔۔ ہمار ا گھر ہے۔ یہاں میں ایک ایسا انسان ہوں جو اپنے حسب ونسب کو اور اس دھرتی کو پہچانتا ہے جہاں وہ پروان چڑھا ہے۔

میرے والد گلے ملنے کو ختم نہیں کرنا چاہتے تھے، میرے ارد گرد میرے بھائی مجھ سے بیگ چھین کر میرے کپڑوں سے چمٹ جاتے اور ایک دوسرے سے گلے ملتے۔ اور میری ماں! میں جانتا تھا کہ وہ اس وقت سونے کا بہانہ کررہی ہوتی اس انتظار میں کہ میں ان کے پاس جائوں اور انھیں آواز دوں، مگر وہ مجھے کوئی جواب نہیں دیتیں جیسے وہ کافی میٹھی نیند میں ہوں، اس لیے میں ان کے بستر کے قریب جاتا، ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا اور اپنے پورے جسم کے ساتھ جھک کر ان کے گورے ہاتھ کو چومتا، تب میری ماں آنکھیں اس طرح کھولتیں گویا گہری نیند سے بیدار ہو رہی ہوں اور اُداس لہجے میں کہتیں:

اللہ تم کو سلامت رکھے۔

میں بے قابو ہوکر ان سے چمٹ جاتا اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیتا، وہ بھی کنٹرول نہیں کرپاتیں اور میرے گال پر بوسہ دیتیں، ان کی آواز لمبی، غمزد ہ اور شکایت والی ہوتی، میرے تئیں پیار جتانے کا ان کا یہی طریقہ تھا کیونکہ وہ اپنی محبت کو کبھی ظاہر نہیں کرتیں۔

ہم ان کے بستر کے ارد گرد بیٹھ جاتے اور میرا ہر بھائی میرے پاس یا میری ٹانگوں کے اوپر بیٹھنے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دیتا۔ میرے والد ان کو جگہ دینے کے لیے مجھ سے دور ہوجاتے، اگر وہ بھائیوں کی طرح ہوتے تو وہ بھی بیٹھنے کے لیے دوسرے کو دھکا دیتے اورمیرے قریب ہی بیٹھتے۔ میری ماں کو زکام اور گٹھیا کی شکایت تھی۔ ان کا سردرد سے پھٹا جارہاہوتا تھا، میرے والد کی خوشی ناقابل بیان ہوتی تھی جو ان کی خاموشی اور میرے آرام وآسائش کے سامان مہیا کرانے میں پوشیدہ ہوتی، چنانچہ میری پیٹھ کے پیچھے ایک مسند رکھ دیتے یا ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری زیادہ آرام دہ جگہ پر بٹھادیتے، ان کی خوشی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کبھی کبھی اپنے پیروں میں جوتے یا چپل پہننا بھی بھول جاتے۔ ان کے پیر بڑے بڑے تھے۔ جب میں چھوٹا تھا تو  میں اپنے والد کے پیروں پر اپنا چہرہ رگڑنے اور ان کے پیر کی انگلیوں سے کھیلنے کا بڑا شوقین تھا۔ مجھے ان کے پیروں اور ان کی انگلیوں کی لمبائی دونوں پر بڑ افخر تھا۔

ہم سب ایک جگہ بیٹھتے تھے، ہمار ا خاندان زندگی کا سامنا کررہا ہوتا تھا۔ مگر وہ ایک ایسا لمحہ تھا جہاں خلوص ہوتا، ایک ایسی گھڑی تھی جس میں دُکھ اور پریشانیاں ختم ہوجاتیں اور صرف پیار، محبت، چھوٹے چھوٹے بکھرے ہوئے الفاظ اور ہنسی، جی ہاں!خلوص والی ہنسی ہی باقی رہ جاتی تھی، خاندان چھوٹا ہوتا اور زندگی بڑی، راستہ دشوار مگر وہ بھی کٹ جاتا، گیس سے چراغ جلتا تھا، گھر کا کمرہ دیہاتی طرز کا ہوتا تھا، تخت پر مچھردانی ہوتی اور صوفہ تنگ ہوتا۔ گرمی کے موسم میں ہم دروازے کے سامنے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھتے اور میرے والد محترم ہمارے بیچ خدا کی طرح بیٹھے ہوتے۔ ہم سب ان کو بہت چاہتے تھے اور ان کی باتوں میں کھو جاتے۔ ان کی باتیں کتنی پیاری ہوتی تھیں! جب وہ باتیں کرتے تو ہم سب خاموش ہوجاتے اور انتظار کرتے، وہ مسکراکر اپنی باتیں شروع کرتے اور ان کی یہ مسکراہٹ دوران گفتگو باقی رہتی، ان کی آواز میٹھی اور بھری ہوئی ہوتی، ان کا طریقۂ کلام ہمیں مسحور کردیتا تھا۔

اگر کبھی گواہ کے طور پر کورٹ چلے جاتے تو وہاں کی پوری کہانی ہمیں سناتے، ہم سب ان کی کہانی کو بہت پسند کرتے اور وہ وہیں سے شروع کرتے جہاں سے ہم لوگ چاہتے، وہ ہمیں نہایت دلچسپ تفصیلات بتاتے اور ہمارے ساتھ تفریح کرتے، پھر دوسری کہانی شروع کردیتے۔ ہمیں اس کا بالکل احساس ہی نہیں ہوتا کہ ایک کہانی کب شروع ہوئی اور دوسری کب ختم ہوگئی۔ ہم اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے تھے،ہم اپنے والد کو ٹوٹ کر چاہتے تھے اور ان کی فرماں برداری کرتے تھے۔

بہر کیف، اس مرتبہ میری خالہ بدیعہ مجھے دیکھ کر نہ تو کھڑی ہوئی، نہ اس نے اپنا کام کاج چھوڑا اور نہ ہی میری آمد کی خبر کسی کو دی، بلکہ میرے سلام کا جواب دیا اور اپنا سر جھکا لیا اور برتن مانجھنے میں مشغول ہوگئی۔ میں نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور اپنے گھر کا رُخ کیا، صحن کا دروازہ کھلا ہوا تھا، دروازہ لوہے کا تھا جس سے ہوا اٹکھیلیاں کر رہی تھی، جس سے اس کے جوڑ تنگ ہوجاتے تھے، دروازے کے پیچھے ایک مرغی اپنے آپ میں سکڑی بیٹھی تھی اور ایک بچہ پیشاب کر رہا تھا۔ میں اندر داخل ہوا، وہاں پہلے ہی جیسا سکون تھا، لیکن ہمارا گھر وہ گھر نہیں تھا، یہ اب زیادہ وسیع اور زیادہ اونچا تھا، اس میں کافی خالی جگہ تھی، میں اندر کی طرف چند قدم چلا۔صحن ویسا ہی تھا، پتھر سے گھر ا پانی کاایک موٹر موجود تھا، پانی حوض سے لیک کررہا تھا اور اپنے لیے چینلز بنا رہا تھا، پہلے کی طرح پیڑ بکھرے ہوئے تھے۔ کھجور کا پیڑ بڑھ چکا تھا اور اپنے آس پاس کے چھوٹے کھجور کے پیڑوں کو ختم کرکے دیوار سے بھی بڑا ہوچکا تھا، پانی کی زیادتی سے انگور کی بیلیں سوکھ چکی تھیں، صحن کے  ایک  سرے پر موجود کبوتر کا گھونسلہ سفید تھا جو ادھر ادھر بکھرا پڑا تھا۔ باورچی خانے کا دروازہ ٹوٹا پھوٹا کالا پڑا تھا اور تاریکی اس کے اندر سے پھیل رہی تھی، زمین پر کوڑا کرکٹ پھیلا ہوا تھا حالانکہ صحن کا فی بڑا تھا۔

 گھرکادروازہ کھلا تھامگر نہ تودروازے کے باہر کوئی تھا اور نہ اندر، اور نہ کوئی میرا انتظار کررہا تھا، تمام چیزیں بیکار تھیں، دنیا سرد پڑ چکی تھی، سورج کی زردی بڑھ چکی تھی اور کھجور کے چھوٹے درخت کے سائے کی لمبائی ہمارے گھر کی لمبائی سے زیادہ ہوچکی تھی۔

میں گھر کے اندر داخل ہوا۔ بڑا ہال اب اس سے بھی بڑا تھا جتنا میں نے پچھلی بار دیکھا تھا، چھت اونچی تھی اور زیادہ نمایاں، صوفے، گندے اور مسند دبے دبے، کمرے بند تھے اور وہاں کوئی آواز نہیں تھی۔

سیڑھیوں کی طرف جانے والے دروازے کے اوپر کبوتربر آواز نکال رہا تھا، ہمارا کتا جائے نماز پر سو رہا تھا، غیر مرئی پرندے چہچہا رہے تھے، سورج کی ایک کرن سیڑھی پار کر کے ہال کے فرش پر جاگری جس سے پیلی روشنی کا ایک چھوٹا سا دائرہ بن گیا، لاکھوں چھوٹے چھوٹے ذرات اس کرن کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔

میں نے محسوس کیا کہ ہمارا گھر برباد ہوچکا ہے۔

میں واپس باہر آکر سڑک کی طرف چلا گیا۔ میری خالہ بدیعہ مجھے دیکھتے ہی بولی:

کیا کچھ چاہیے؟

میں نے پوچھا:

سارے لوگ کہاں گئے؟

اس نے جواب دیا:

سارے لوگ قبرستان گئے ہیں۔

میں نے پوچھا:

اور گھر خالی چھوڑ گئے؟

اس نے کہا:

میں یہاں ہوںنا۔

اس وقت میں نے خود کو چلتے ہوئے پایا۔

میرا سینہ خالی، تنہا اور غمزدہ تھا، میرے آس پاس کی دنیا بے مزہ لگ رہی تھی، کسی بھی چیز کی کیا اہمیت ہے؟ میں لوگوں کو سلام کروں، وہ اس کا جواب دیں اور پھر مجھے خوش آمدید کہیں، ان سب باتوں کی کیا اہمیت ہے؟ وہ لوگ زندہ ہیں اور میں بھی زندہ ہوں، لیکن جو ہونا تھا وہ ہوکر رہا۔

میں گم ہوگیا۔ ہمارا شہر جس کے کونے کونے سے میں واقف تھا وہ کوئی اور شہر لگنے لگا۔ میں ان سڑکوں اور گلیوں سے گزرتا تھا اور ان کی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا تھا، میں ان سے اس قدر مانوس تھا گویا وہ ہمارا گھر ہو، آج جب میں وہاں سے گزر رہا تھا تو میں نے اسے پہلی بار دیکھا۔ میں اپنے شہر کو جانتا تھا اور کافی عرصے کی جان پہچان کی وجہ سے میں وہاں کے لوگوں سے مانوس تھا، لیکن میں ان کے پاس سے گزر رہا تھا اور محسوس کر رہا تھا تو مجھے لگا کہ وہ انسان ہیں، وہ اجنبی ہیں اور تھکے ہوئے ہیں۔ کچھ تو ضرور ہوا ہے۔ میں اب اپنے شہر اور وہاں کے لوگوں کو محسوس کرنے لگا ہوں۔ حالانکہ پہلے سے ہی ان سے مانوس ہوں۔ کچھ تو ضرور ہوا ہے۔

میں گم ہوگیا، کیونکہ میں کافی سالوں تک اپنے شہر سے دور رہا، اس درمیان وہ شہر بڑا ہوگیا اور دور تک پھیل گیا، نئی نئی عمارتیں کھڑی ہوگئیں۔ پہلے میں قبرستان کا راستہ پہچانتا تھا، اسی کے پاس ایک بڑا میدان تھا، جہاں عید کی نماز ہوا کرتی تھی، عید؟ اب وہاں عید کی نماز کیوں نہیں ہوتی؟ اب ہمیں اس کا  احساس کیوں نہیں ہوتا؟ اب عید بھی عام دنوں کی طرح آتی ہے اور چلی جاتی ہے، کہاں گیا صبح سویرے کا جگنا، وہ کیک، وہ عیدی، وہ نئے نئے عمدہ لباس، وہ جھولے، وہ جلیبیاں اور حلوے، اور وہ ٹوائے گن جس کی  دھماکے دار آواز سے ہم اپنی دادیوں کو ڈراتے تھے؟

میں گم ہوگیا، مگر میں وہاں پہنچ گیا اور شہر کے باہر چلا ہوگیا۔۔۔ لیکن وہ بڑا میدان نہیں مل سکا۔ وہاں پر بہت سارے مٹی کے گھر بن چکے تھے اور قبرستان کی قبریں گھروں کے بیچ سے نظر آتی تھیں۔

ہم کتنے لاپرواہ تھے!

یہ دیکھو میرے سامنے اور آس پاس قبریں ہی قبریں ہیں۔ کچھ قبریں بدحال اور منہدم ہوچکی تھیں، وہاں کوئی چیز ڈرانے والی نہیں تھی، کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب ہم بچپن میں دور سے قبرستان کو دیکھتے تھے تو کیوں ڈر جاتے تھے، کیا آپ جانتے ہیں کہ میری دادی، میرے چچا اور میرے ماموں کی قبر کہاں ہے؟ تمام قبریں منہدم ہوچکی ہیں اور بکھر چکی ہیں، آپ شاید ہی ایک کو دوسرے سے فرق کرپائیںگے، فرق کرنے والی چیز صرف کسی قبر کے سرہانے اور کسی کے پائینتی کی جانب رکھی ہوئی کھجور کی ٹہنی ہے جو سوکھ چکی ہے اور بوسیدہ ہوگئی ہے۔ اس کے پتّے خراب ہوکر جدا ہوچکے ہیں۔

میں ادھر اُدھر گھومتا رہا مگر وہاں کوئی نہیں ملا، بلاشبہ لوگ قبرستان سے اپنے گھر لوٹ گئے ہوںگے۔ مجھے قبر کو پہچاننے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ کیونکہ مجھے اب بھی یاد تھا کہ قبر ایک کپور کے پیڑکے پاس تھی، اور یہ رہا کپور کا پیڑ۔۔۔ ضرور یہی وہ قبر ہے۔۔۔ میں وہاں رک گیا، قبر کے اوپر کی سیمنٹ ابھی بھی تازہ تھی، اس کی تعمیر اچھی نہیں تھی، کنکر صاف نظر آرہے تھے۔قبر کے آگے کی جانب ایک کتبہ لگا تھا جس پر لکھا تھا مرحوم۔۔۔ میں نے اپنے والد کا نام پڑھ لیا، پھر میں اپنے ارد گرد دیکھنے لگا۔۔۔ قبریں منہدم تھیں، کپور کا پیڑ لمبا، اکیلا اور ننگا کھڑا تھا۔ سورج ڈوب رہا تھا، کوے دور سے آپس میں جھگڑ رہے تھے، تاریکی شدید تھی۔

تو پھر میرے والد یہاں پر اس قبر کے اندر ہیں! اتنے سارے پتھر، مٹی اور سیمنٹ ان کے اوپر ہیں، یہ وہی شخص ہے جو ایک لمحے کے لیے کمرے کی کھڑکی بند رکھنا برداشت نہیں کرسکتا تھا، میرے والد یہاں سور رہے ہیں۔ دھاری دار کتان کے کفن میں لپٹے ہیں اور اس کے اوپر ایک سفید کفن ہے اور ان کے ارد گرد صرف وحشت ہی وحشت ہے۔ ان کی آنکھیں بند ہیں۔ میرے والد یہاں ہیں! وہ سو نہیں رہے ہوںگے کیونکہ وہ ا تنی دیر تک سو ہی نہیں سکتے تھے، ضرور وہ بیٹھے ہوںگے۔۔۔ ہاں وہ بیٹھے ہیں۔۔۔ اکڑوں بیٹھ کر وہ درود و سلام پڑھ رہے ہیں اور ان کے بڑے بڑے پیر مڑے ہیں۔ ان کی شہادت کی انگلی حرکت میں ہے اور دونوں آنکھیں نیچی، گویا وہ نماز پڑھ رہے ہوں، یہ دیکھو اب وہ اپنی نماز بھی پوری کرچکے۔ میں نے کہا:

السلام علیکم ابو جان!

انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا، صرف اپنی دونوں بڑی بڑی ا ٓنکھوں سے میری جانب دیکھا، میں نے ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھے، انھوں نے میرے سلام کا کوئی جواب نہیں دیا، وہ غمگین تھے اور نماز پوری کر کے منہ ہی منہ میں کچھ بول رہے تھے۔

میں نے ان سے کہا:

میں یہاں ہوں ا بو جان۔۔۔ میں آپ کا چہیتا واپس لوٹ آیا ہوں۔آپ کیوں نہیں میرے استقبال میں خوش آمدید۔۔۔ خوش آمدید کہتے۔۔

آپ کیوں نہیں پوچھتے:

کہاں غائب تھے میاں؟

انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوںکو اٹھایا اور اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھاکر کچھ دعا مانگی، پھر دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرا اور میری طرف دیکھا، وہ غمگین اور تھکے ہوئے تھے۔ وہ کچھ بھی نہیں بولے۔

میں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں؟

انھوں نے آنکھیں بند کرلیں اور پپوٹوں کو زور سے بند کرلیا، گویا وہ کہہ رہے ہوں، ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔

میں نے کہا: کیا آپ کے لیے میری محبت کا کوئی اندازہ لگاسکتا ہے؟

انھوں نے آنکھیں کھولی، ان میں اداسی کی چمک تھی۔

پھر میں نے کہا:

کیا آپ ہمارے لیے سب سے محبوب انسان نہیں ہیں؟

انھوں نے تکلیف میں آنکھیں موند لیں۔

میں نے زور سے کہا:

تو پھر کیوں آپ نے آنکھیں موند لیں اور چل بسے؟

انھوں نے حیرت سے آنکھیں کھولیں ا ور اپنی سخت اور مستحکم نگاہوں سے مجھے گھورنے لگے۔

ان کی یہ وہی نظر تھی جس سے وہ مجھے دیکھا کرتے تھے جب بھی میں کوئی بڑی غلطی کرتا تھا۔ میں بچپن میں ان کی اس نظر سے بہت ڈرتا تھا۔ان کے اس گھورنے نے مجھے اتنا ڈرا دیا جتنا  اس سے پہلے زندگی میں کبھی نہیں ڈرا۔میں نے اپنی آواز نیچی کی اور آہستہ سے پوچھا:

نبیؐ کی قسم جو آپ کو بہت پسند تھے!  ا ٓپ ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟

میرے والد بھورے رنگ کے تھے اور ان پر بڑی اچھی جھریاں تھیں، جنھیں ہم پسند کرتے اور اکثر بوسہ دیتے، برسوں گزرجانے کے باوجود ان کی شکل ہماری آنکھوں میں نہیں بدلی، ہم بڑے ہوتے، جدا ہوتے اور پھر واپس آتے تو ان کو بھورے رنگ اور بڑی بڑی اچھی جھریوں والا پاتے۔

میرا جی چاہا کہ اسی وقت ان کو بوسہ دوں، مگر اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں ان کا مشتاق ہوں اور میں نے اپنی زندگی ان کے اشتیاق میں ہی گزاری ہے، جب بھی میں گھر واپس لوٹتا اور ان کو دیکھتا تو قسم کھاتا کہ آئندہ چھٹی لے کر کچھ دن صرف ان کے ساتھ گزاروں گا اور آسودگی حاصل کروںگا، کیونکھ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میری آسودگی سے پہلے ہی وہ چل نہ بسیں۔۔۔ میں نے انہیں بوسہ دینا چاہا اور اس کے لیے ان کی طرف لپکا، لیکن انھوں نے اپنا ہاتھ اپنے گھٹنے کے اوپر سے اس طرح اٹھالیا جیسے وہ نماز کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں چاہتے ہوں۔ میں رک گیا اور بولا:

میری آسودگی سے پہلے آپ کیوں چل بسے؟

میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے ایک چھوٹا سا آنسو کا قطرہ نکل رہا ہے۔ مجھے وہ لمحہ یاد آیا جب لوگوں نے تابوت کو قبر کے پاس رکھا، پھر انھوں نے اس پر ایک بڑی چادر بچھا دی اور تابوت کا غلاف ہٹا دیا۔ آرام سے ان کو اٹھالیا تو اب وہ سفید کفن میں چھوٹے ہوگئے، ان کی کمر لوگوں کے ہاتھوں میں تھی، ان کا دایاں ہاتھ جب کفن سے پھسلا تو یقینا وہ انھیں کا ہاتھ تھا، بالوں اور ہتھیلی والا وہی لمبا ہاتھ جو ہمیشہ ہمارے سروں کو چھوتا اور دعائیں دیتا، وہی ہاتھ جسے ہم چومتے اور چومتے وقت غور سے دیکھتے رہتے، وہی ہاتھ جن کی بڑی بڑی انگلیوں سے ہم اکثر کھیلتے، ان کے رنگ، ان کی لکیریں اور ان کی لمبائی کو ہم پسند کرتے تھے۔

دوبارہ میں نے ان سے پوچھا:

آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ چل بسیں گے؟ میں نے ان کے جواب کا انتظار کیا، مگر وہ کچھ نہیں بولے، میں نے ان کی جانب دیکھا تو پایا کہ وہ ابھی بھی اسی طرح بیٹھے ہیں، مگر ان کی آنکھیں بند تھیں اور چہرہ پیلا اور اترا ہوا تھا، کوئی حرکت نہیں تھی۔ میں نے ان کو ہمارے اس کٹے ہوئے درخت کی طرح پایا جب وہ صحن میں اپنی لمبائی کے ساتھ گرا تھا، اسے کٹے ہوئے کئی دن گزر چکے تھے، اس کے پتے زردپڑ چکے تھے، مرجھا چکے تھے اور شاخیں ننگی ہوچکی تھیں۔

میں اپنے گھر واپس لوٹ گیا، ابھی بھی صحن کے آخر میں کبوتر کا گھونسلہ سفید تھا اور ادھر اُدھر بکھرا پڑا تھا۔ تندور کے کمرے کا دروازہ ٹوٹا اور سیاہ تھا، ا ندر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ فرش پر بہت سارا کوڑا کرکٹ پڑا تھا، گھر بہت کشادہ تھا مگر خالی، وہاں اندھیرا، خاموشی اور ٹھہری ہوئی ہوا تھی۔ ہوا کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔

اسی کمرے میں جہاں ہم ملتے تھے اب اکیلے تھے۔۔۔ ہم بیٹھے تھے۔۔۔ میرے بھائی اپنے پورے کپڑے پہنے ہوئے تھے، ان کے معصوم اور جوان چہرے پر اداسی عجیب سی لگ رہی تھی، میری ماں رومال باندھے ہوئے تھی، ان کی ناک، منہ اور آنکھوں میں درد، سرخی اور آنسو تھے۔

ہم غمگین و خاموش بیٹھے تھے۔ گیس والے چراغ کی روشنی لال اور مدہم تھی، دیواروں پر ہمارے سروں کے سائے تھے۔۔۔ ہمارے دلوں کی طرح ایسے سیاہ سائے جو چراغ کی بتی کے بڑے اور چھوٹے ہونے کے ساتھ ساتھ مدہم ہوتے گئے۔ ہم خاموش بیٹھے تھے گویا ہم کسی چیز کا انتظار کر رہے ہوں۔ ہم انتظار کر رہے تھے کہ وہ دروازہ کھٹکھٹائیںگے اور ہم سب اسے کھولنے کے لیے جائیںگے، کیونکہ وہ آچکے۔۔۔ مسکراتے ہوئے، اپنی ٹوپی پیچھے دھکیلتے ہوئے جیسا کہ ان کی عادت تھی، اپنے دونوں بازوؤں اور سینہ کھول کر تاکہ وہ ہماری ہر پریشانی اور مصیبت کو اپنے اندر سمولیں۔۔۔ وہ ضرور غسل خانے میں ہیں، ابھی فوراً وہ نکلیںگے۔۔۔ وہ کھنکاریںگے اور کھانسیںگے جسے ہم  جانتے تھے اور اس سے مانوس ہوچکے تھے۔ ان کی کھانسی کے بغیر ہم اپنے گھر کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔ کیا وہ واقعی صحن میں کھڑے ہوکر پڑوسی سے باتیں کر رہے ہیں اور دور سے ان کی آواز ہم تک پہنچ رہی ہے ؟ ان کی کتنی خوبصورت آواز تھی جب دور سے ہم تک پہنچتی تھی! ہم اپنے والد کی آواز کو خوب پہچانتے تھے۔ ہم ہزار آواز میں ان کی آواز کو پہچان جاتے اور ہزاروں آوازوں میں سب سے زیادہ ان کی آواز کو ہم پسند کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے والد آس پاس میں ہی ہیں اور ابھی آتے ہی ہوںگے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم ان کے ارد گرد، ان کی گود میں، ان کی آنکھوں، ان کی باتوں اور ان کے سینے کے بالوں کے قریب ہوں گے۔

مگر جس چیز کا ہم انتظار کر رہے تھے، وہ نہیں ملا۔ نہ تو کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور نہ ہم نے کوئی آواز سنی، سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ ہمیں یقین تھا کہ نہ تو کوئی دروازہ کھٹکھٹائے گا اور نہ ہی ہمیں کوئی آواز سنائی دے گی۔

چراغ کی روشنی تقریباً بجھ رہی تھی اور اس کی گیس خالی ہورہی تھی، ہمارے سائے دیواروں پر ڈھل رہے تھے اور مدہم ہورہے تھے۔ میں ایک عجیب و غریب احساس میں مبتلا تھا مگر مجھے اس کا علم نہیں، ایسا احساس کہ میں اپنی زبان کی نوک سے چکھ سکتا تھا اور اس کی گرفت کو اپنے سینے کے گرد محسوس کرسکتا تھا، احساس اس بات کا کہ میں غمگین ہوں۔۔۔ میں غمگین ہوں۔

میں نے اپنے بھائیوں کے چہروں کودیکھا۔۔۔ان کے چہرے مرجھائے، خاموش اور حیرت زدہ تھے۔

ان لوگوں نے بھی میری طرف دیکھا۔۔۔

اچانک گویا ہمیں ایک ہی خیال نے ڈنک مارا اور ہم سب کے آنسو چھلک پڑے۔ صرف اسی وقت ہمیں احساس ہوا کہ واقعی ہمارے والد اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں اور ہمیشہ کے لیے ہم ان سے محروم ہوگئے ہیں۔ اب ہمارے والد واپس نہیں آنے والے، اور یہ کتنا برا ہوا۔۔۔ ہمارے والد اب واپس کبھی نہیں آنے وا لے۔

 

Prof. Md. Qutbuddin

Centre of Arabic and African Studies

School of Language, Literature and Culture Studies (New Dbuilding)

Jawaharlal Nehru University

New Delhi- 110067

Mob.: 9999912655

basmaqutb@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...