ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024
مرزامظہرجان جاناںکااصل نام ’جان جاناں‘ لقب ’شمس الدین
حبیب اللہ‘ اور ’مظہر‘تخلص ہے۔مرزا مظہر جاںِ جاناں کی پیدائش 11رمضان 1111ھ
بمطابق 13 مارچ 1699 دہلی میں ہوئی۔ آپ کا سلسلۂ نسب محمد بن حنفیہؒ کی وساطت سے
حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد میرزا جان سلطان اورنگزیب عالمگیر کے دربار میںبڑے
منصب پر فائزتھے اور سلسلہ قادریہ میں شاہ عبدالرحمن قادری سے بیعت تھے۔ آپ کی پیدائش
کے بعدوہ دنیا سے کنارہ کش ہو گئے اور باقی عمر فقر و قناعت میں بسر کی۔ ابتدا میں
فارسی اور دیگر ابتدائی رسائل اپنے والد ماجد سے پڑھے، کلام اللہ اور تجوید و
قرأت قاری عبدالرحیم سے اور علم الحدیث و علم التفسیر حاجی محمد افضل سیالکوٹی
شاگرد شیخ المحدثین شیخ عبد اللہ بن سالم مکی سے حاصل کی۔ ان علوم کے علاوہ
مرزامظہر کو دیگر فنون میں بھی کافی مہارت حاصل تھی بالخصوص فن سپاہ گری میں آپ
کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ جانِ جاناں مشہور
صوفی سلسلہ نقشبندیہ کے ہندوستان میں مشہور موید مانے جاتے ہیں،یہ سلسلہ شیخ
الانوار سمر قند و بخارا بہاؤ الدین نقشبند کا قائم کردہ ہے۔
سات
محرم 1195ھ کو چند آدمیوں نے مظہر کے دروازے پر دستک دی۔ خادم نے جاکر عرض کیا کہ
کچھ لوگ زیارت کے لیے آئے ہیں۔ آپ کی اجازت سے تین آدمی اندر آئے، ان میں سے ایک
ایرانی نژاد مغل بھی تھا۔ آپ خوابگاہ سے نکل کر ان کے برابر کھڑے ہو گئے۔ مغل نے
پوچھا کہ مرزا جان جاناں آپ ہیں، پس اس پر بدبخت ایرانی مغل نے طمنچے کی گولی داغ
دی جو آپ کے دل کے بائیں طرف لگی۔ آپ ناتوانی اور بڑھاپے کے باعث گر پڑے اور
قاتل فرار ہو گیا۔
مرزامظہر جان جاناں نہایت حسین وجمیل، ظریف، بلندقامت
اور نازک مزاج انسان تھے۔بچپن ہی سے طبیعت میں قلندری تھی اور بزرگان دین سے خاصا
لگاؤ رکھتے تھے۔تقویٰ اورپرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ مشکوک کھانا کبھی نہ تناول
فرماتے،ہمیشہ زرق حلال کا حد درجہ اہتمام فرمایاکرتے تھے اور امیروں کی جانب سے
آئے ہوئے کھانے کوتو کبھی ہاتھ بھی نہ لگاتے تھے اورفرماتے : شرالطعام طعام الاغنیا
یعنی بدترین کھانا امیروںکا کھانا ہے۔ عظمت وشان کا یہ عالم تھا کہ معاصرین میں
کوئی ان کاہم پلہ نہ تھا، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی عظیم اسکالر بھی مرزامظہر جان
جاناں کی انفرادیت اورہمہ جہت شخصیت کے قائل تھے،وہ لکھتے ہیں:
’’ہم لوگ ان کو جانتے ہیں وہ کیاچیز ہیں۔
ہندوستان کے لوگوں کے احوال ہم پر پوشیدہ نہیں۔ عرب کے شہروں میں بھی ہم گئے ہیں
اوران لوگوں سے آپ کی ولایت کے پختہ وٹھوس احوال سنے ہیں۔کتاب وسنت اورشریعت وطریقت
پر احسن طریقے سے مستقیم و استوار ہیںاورطالبین کے درمیان عالیشان عظمت کے مالک ہیں،عمدہ
شخصیت ہیں۔ اس زمانے میںان جیسا انسان ہمارے شہروں میں کوئی نہیں بلکہ ہرزمانے میں
ایسے لوگوں کا وجودبہت کم ہوتاہے۔‘‘ 1
خودداری اورتوکل علی اللہ کا حال یہ تھا کہ بادشاہوں سے
کبھی کوئی ہدیہ یا تحفہ قبول نہیں کرتے۔ دنیا اور اہل دنیاسے بالکل مستغنی رہے۔
اکثرمطالعہ کتب میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کی جو تصانیف اب تک ملی ہیں،ان میں: دیوان
مظہر، خریطہ جواہر، مکاتیب کے مختلف مجموعے، مجموعہ اردو اشعار،متفرق اور مختصر
نثری تحریریں وملفوظات مشہور ہیں۔
مرزا مظہر جان جاناں مبلغ، صوفی اورباکمال شاعر ہیں اور
زبان وبیان کے اعتبارسے دیکھیں تو مصلح اعظم بھی۔ مرزا مظہر زبان وادب کے ارتقائی
عہدسے تعلق رکھتے ہیں اس لیے آپ کا کلام تاریخی ارتقامیں اہم مقام رکھتاہے۔
انھوںنے نہ صرف اردوزبان میں نکھار پیدا کیا بلکہ اس میں فارسی کی کچھ نئی ترکیبیں
اور نازک خیالات پیدا کیے اور قدیم ایہام گوئی کوختم کرنے کی اچھی کوشش کی،یہی سبب ہے کہ کم غزلیں کہنے کے باوجود
مرزا مظہرجان جاناں کا شاعرانہ قد نہایت بلند ہے۔ پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں:
’’مرزامظہرجان جاناں…نے اردو میں بہت کم غزلیں
لکھی ہیں مگرایک بہت بڑے صوفی اورعالم ہونے کے باعث انھیں بہت اہم سمجھاجاتاہے۔
انھوںنے اردو میں جوکچھ لکھاہے،اس کا کچھ حصہ تذکروںمیں مل جاتا ہے۔ انھوںنے زبان
درست کرنے اور شاعری کوان صنائع سے بچانے کی سعی کی جو شاعری کو محض الفاظ کاایک
گورکھ دھندا بنادیتے تھے۔اس طرح انھوںنے ایہام گوئی کی مخالفت کی،فارسی کے عالم ہونے
کی وجہ سے ان کی زبان میں فارسی تراکیب کا استعمال بہت ملتاہے۔‘‘ 2
مرزامظہرایک زندہ دل انسان تھے، طبیعت صوفیانہ کیفیات
اورعاشقانہ مزاج سے لبریز تھی،شاعرانہ زیر وبم سے ا ٓگاہی ان کی سرشت میں شامل تھی،چنانچہ
اسی کا اثر تھاکہ مرزاکی شاعری میں شعورواحساس کا ایک بحربیکراں نظرآتاہے۔حالاںکہ
شعر کہنامرزامظہرکا شوق یا مشغلہ نہیں تھا اورنہ ہی اُنھوں نے کسی نام ونمودکے لیے
شاعری کی بلکہ جب کبھی وہ عشق حقیقی سے شرابور ہوتے، ان کامافی الضمیرشعری قالب میں
ڈھلتاچلاجاتا۔ مرزامظہر نے فارسی اوراردو میں شاعری کی ہے۔کم وبیش فارسی اوراردو
شاعری میں خیالات و جذبات ایک ہی جیسے ہیں۔
ڈاکٹرخلیق انجم لکھتے ہیں:
’’اردوشاعری میں مرزاصاحب کو ’نقاش اول ریختہ‘
اس لیے نہیں کہاگیاکہ انھوں نے شمالی ہندمیںپہلی بار اردو میں شعرکہنا شروع کیابلکہ
یہ اعزازاس لیے ملاہے کہ انھوں نے ایہام جیسے’ستم‘ اورغیرفطری چیزکے خلاف پہلی
بارآوازبلند کی اوراپنی اس مخالف آوازکو باقاعدہ تحریک کی صورت دی۔ انھوںنے اردو
شاعری کی ان تاریک راہوں کو روشن کیا اور منور کیا جن پر گامزن ہوکر درد، میر،
سودا، آتش اور غالب جیسے عظیم شاعروںنے نئی راہیں اور نئے راستے نکالے۔ اسی طرح
مرزاصاحب نے فارسی مکتوب نگاری میں بھی سادگی کی بنیادرکھی اوراس کی اصلاح کی۔ غالب
نے اردو مکتوب نگاری میں جو اصلاحیں کی تھیں اورجس سادگی اور بے تکلفی کی طرح ڈالی
تھی، اس کی ابتدا70,80سال قبل مرزا صاحب ہی نے کی تھی۔‘‘ 3
مرزا چونکہ اپنے آپ کو ’کشتہ ٔ راہِ خدا‘ کہتے تھے، اس
لیے ان کی شاعری میں بھی عشق حقیقی کی تڑپ، وارفتگی شوق کی کثرت، واردات قلبی کی
بہتات اورپاکیزہ خیالات کی فراوانی پائی جاتی ہے۔یہی وہ خاصہ ہے کہ مرزاکی شاعری
ہر خاص وعام میں مقبول اورپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اور وہ ہر طرح کے
قارئین کو اپنا گرویدہ بنائے رکھتی ہے۔جب بھی کوئی مرزاکے اشعار کو سنتا ہے وہ
اپنے دل پر ایک چوٹ سی محسوس کرتا اورکچھ نہ کچھ فیض ضرورپاتاہے۔چنداشعار ملاحظہ
فرمائیں ؎
چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹاکر کارواں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا
یہ حسرت رہ گئی کیا کیامزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا، باغباں اپنا
جھکی ہے فوج گل اور عندلیباں کی پکار آئی
ارے ہنستاہے کیا وہ دیکھ دیوانے بہار آئی
(
مرزا مظہر جان جاناں) 4
مرزامظہرجان جاناںکے کلام کی خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں
سیدھے سادے اور عام الفاظ میںزیادہ کلا م ملتے ہیں اور اس پر صوفیانہ رنگ اور عشق
حقیقی کی آمیزش، ان کے کلام میں مزید لطف، شیرینی،تازگی، رعنائی اوربالیدگی پیداکردیتی
ہے۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ مرزامظہرکے کلام میںصوفیانہ مضامین کی کثرت کے باوجود
رنگِ تغزل کی کمی نظر نہیں آئی اورنہ ہی کہیں کوئی خشکی یا بدمزگی کا احساس
ہوتاہے۔یہ تمام باتیںآنے والے اشعارمیں محسوس کی جاسکتی ہیں ؎
سحر اس حسن کے خورشید کو جا کر جگا دیکھا
ظہور حق کو دیکھا خوب دیکھا باضیا دیکھا
مرا جلتا ہے دل اس بلبلِ بے کس کی غربت پر
کہ گل کے آسرے پر جن نے چھوڑا آشیاں اپنا
رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بد گماں اپنا
چلی
اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا
(مرزا مظہر) 5
مرزا
مظہر جانِ جاناںصوفی باصفا تھے، جنھوں نے مکاتیب اور ملفوظات کے ذریعے رشد و ہدایت
کی تعلیم کو عام کیا۔ زندگی گزارنے کا سلیقہ بتایا، چارہ سازی، طمانیت قلب، تزکیۂ
نفس کا درس دیا۔ساتھ ہی شعرو شاعری کے ذریعے بھی انھوں نے دل کو چھیڑا۔ عشق مجازی
اور عشق حقیقی کی دھیمی دھیمی آنچ سے سوز و گداز پیدا کیا، وحدت الوجود اور وحدت
الشہود کے مسلک میں بھی کشش اور جاذبیت پیدا کی۔ غرض کہ حضرت مظہر جان جاناں ؒ دنیائے
تصوف کے در خشندہ ستارہ ہیں جن کی تابانی سے فارسی اور اردو شاعری دونوں تابندہ ہیں۔
آپ صوفی باعمل تھے اس لیے صرف فنی یا علمی طور پرآپ نے تصوف کا مشاہدہ نہیں کیا
بلکہ عملی اعتبار سے بھی اپنے صوفیانہ خیالات کو شعر کے قالب میں ڈھالتے گئے اور
اردو شاعری کے ذریعے جہاد زندگانی کی ترغیب دی۔ آپ کے مسلک اور مشرب دونوں صوفیانہ
تھے، چونکہ آپ مسند سجادگی پر جلوہ بارتھے۔ اس لیے رشد و ہدایت اور اخلاص و محبت
کا درس دیتے رہے اوراردو شاعری کو تصوف کے ذریعے انھوں نے نیا رنگ و آہنگ بخشا۔
مرزا مظہر کے اندر جذبۂ عشق موجزن تھا۔ وہ عشق حقیقی سے سرشار تھے۔ ان کا دل عشق
الٰہی میں اتنا غرق تھا کہ ان کے اشعار میں بھی وہی کیفیت اور تاثیر نظر آتی ہے۔
مرزا کے کلام میں عشق مجازی کا رنگ بھی ہے اور عشق حقیقی کا آہنگ بھی اوریہی تصوف
و معرفت کی جان ہے۔ آپ کے کلام کی روشنی میں اس حقیقت کا تجزیہ دیکھیں ؎
تجلی گر تیری پست و بلنداں کو نہ دکھلاتی
فلک یوں چرخ کیوں کھاتا زمیں کیوں فرش ہوجاتی
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے
اتنی فرصت دے کہ رخصت ہو لیں اے صیاد ہم
مدتوں اس باغ کے سایہ میں تھے آزاد ہم
(کلامِ مرزا مظہر) 6
دراصل مرزا کا کلام اپنااثردکھائے بغیر نہیں رہ پاتا،
چاہے وہ نظم ہو یا نثر۔جو بھی مردحق آگاہ ہوتا ہے وہ ہر تصنع اورہرتکلف سے پاک
ہوتاہے،وہ جو کچھ کہتاہے حق ہی کہتاہے اورحقانیت اپنا اثر ضروردکھاتی ہے،چنانچہ
مرزا مظہر کا کلام سننے اورپڑھنے کے بعددل میں شعلہ بھڑکنا تو لازمی امر ہے۔اُن کی
شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں سنجیدگی،لطافت،سادگی اور عام فہم
الفاظ ہوتے ہیں، اور اس طرح کا اندازو اسلوب، عشق ومحبت میں ڈوبے ہوئے کلام کو اور
بھی پُرتاثیربنادیتاہے، اسی پر بس نہیں بلکہ فصاحت وبلاغت اور سلاست وروانی کے
اعتبارسے بھی مرزامظہر کی شاعری مثالی نظرآتی ہے۔ مرزا مظہر کے کلام کی ایک خوبی یہ
بھی ہے کہ اس میں جو کچھ مضامین باندھے گئے ہیں وہ خیالی نہیں بلکہ اصلی اور حقیقت
حال کے بالکل مطابق ہیں۔مختصریہ کہ مرزا مظہر کے کلام کی اہم خوبی یہ ہے کہ
انھوںنے اس پُرلطف انداز میں ’سردلبری‘ کو ’فاش‘ کیا ہے مگر کمال یہ ہے کہ کلام میں
صوفیانہ مضامین کی کثرت کے باوجود رنگ تغزل کہیں بھی کم نہیں ہوا اورنہ ہی کہیں
کوئی خشکی یا بدمزگی کا احساس ہوا۔مثلاً
؎
الٰہی درد و غم کی سرزمیں کا حال کیا ہوتا
محبت گر ہماری چشم تر سے مینہ نہ برساتی
یہ دل کب عشق
کے قابل رہا ہے
کہاں اس کو دماغ و دل رہا ہے
حواشی
1 معمولات
مظہری، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، کتب خانہ
آصفیہ حیدرآباد، 1907، ص218-19
2 اردو
ادب کی تنقیدی تاریخ، سید احتشام حسین،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی،
2006، ص 54
3 مرزا
مظہر جانِ جاناں کے خطوط، خلیق انجم، مکتبہ برہان دہلی، 1962، ص 82
4 مرزا
مظہر جانِ جاناں اور ان کا کلام، عبدالرزاق قریشی، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم
گڑھ، 2004، ص 115,146
5 مرزا
مظہر جانِ جاناں، شمیم طارق، اردو اکادمی دہلی،2015، ص 92,101,
56 مونوگراف
مرزا مظہر جانِ جاناں، شمیم طارق، اردو اکادمی دہلی، 2015، ص 93,96
Myserah Akhter
Research Scholar, Dept of Urdu
Delhi University
Delhi- 110007
Email.: myserahdu@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں