2/9/24

ذہنی صحت اور ذہنی حفظان صحت کا مفہوم، ماخذ:درجے کے اساتذہ کے لیے ذہنی حفظانِ صحت، مصنف: ہیرالڈ، ڈبلو، برنارڈ، مترجم: معین الدین

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

ذہنی صحت کی تعریف بیان کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا جمہوریت کی تعریف کا بیان لیکن اس کی کوئی ایسی تعریف نہیں ہوسکتی جس پر سب لوگ متفق ہوں پھر بھی لوگ اپنے اپنے طور پر اس کا مفہوم سمجھتے ہیں۔ دراصل اس اصطلاح کے مفہوم پر اظہارِ خیال کرتے وقت لوگ اس کے بہت سے بنیادی پہلوؤں پر متفق ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ جمہوریت کے مفہوم کا ایک ایسا تصور رکھتے ہیں جو قابل عمل ہو۔ اسی طرح ذہنی صحت کی تعریفوں میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن الفاظ میں ا ختلاف ہونے کے باوجود اس کے بنیادی پہلوؤں پر بہت زیادہ  اتفاق نظر آتا ہے۔

مندرجہ ذیل تعریف میں اس کی ایک مثال موجود ہے:

ذہنی صحت کی تعریف یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ یہ خود سے اور پوری دنیا کے لوگوں اس مطابقت کا نام ہے جس میں زیادہ سے زیادہ معنویت، تسکین، شادمانی اور سماجی طور پر محتاط عمل کی گنجائش ہو اور زندگی کے حقائق کو تسلیم کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہو۔ اس لیے اعلیٰ ذہنی صحت کی تعریف یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ اس کے تحت ایک فرد اپنی امکانی قوتوں کو بدرجۂ اتم استعمال کرسکے اور جس کے اندر کم سے کم تناؤ اور انتشار پایا جائے تاکہ وہ خود سے اور سماجی نظام سے بغیر کسی انتشار کے زیادہ سے زیادہ آسودہ خاطر ہوسکے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک ایسی اچھی حالت پیدا ہوجائے جس میں فرد اپنے انتشار کو دور کرلے اور ایسے کام کرے جو سماج کے لیے نامناسب اور قابل اعتراض نہ ہوں۔ وہ کسی بھی ماحول میں رہے کیسے ہی حالات سے دوچار ہو اس میں ذہنی اور جذباتی ٹھہراؤ باقی رہے۔

ہم اس کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ذہنی صحت ایسی صلاحیت کا نام ہے جس میں زندگی کے کھچاؤ سے ایک کامیاب مطابقت پیدا ہوجائے اور ذہنی حفظان صحت وہ ذریعہ ہے جو مطابقت پیدا کرنے میں مدد کرے۔

’ایک پختہ کار صحت مند شخص‘ کون  ہے، یہ بتانا مشکل ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ فی الوقت ایک واضح اور مکمل تعریف ممکن بھی نہیں۔ بس اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ پختہ کار صحت مند انسان وہ ہے جو اپنے آپ سے اور اپنے ہمسایوں سے پرامن رہ  سکے، کامیابی کے ساتھ صحت مند بچوں کی پرداخت کرسکے اور ان تمام فرائض کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے کے بعد بھی اس میں اتنی توانائی باقی رہے کہ وہ جس معاشرے میں رہتا ہے اس کو کچھ اور بہتر بنا سکے۔

مندرجہ بالا تعریفوں سے ذہنی صحت کے مفہوم کا کچھ اندازہ ہوتا ہے اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ذہنی صحت کسی جامد حالت کا نام نہیں بلکہ اس کے اندر مطابقت کا ایک مسلسل عمل جاری رہنا ہے۔ ذہنی صحت ایک ایسی صلاحیت ہے جس کے ذریعے فرد موجودہ حالات اور آئندہ کے حالات سے مطابقت کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر تعریف میں مطابقت کی صلاحیت اور ’استعداد‘ کا ذکر موجود ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذہنی صحت میں ذہنی پہلو سے زیادہ پہلو شامل ہیں۔ اس کے اندر مطابقتی عمل کے یعنی جسمانی، ذہنی اور جذباتی پہلو بھی شامل ہوتے ہیں اس میں مخصوص حالات  اور مسائل کی جانب کام کی عادتیں اور رجحانات بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذہنی صحت وہ نظریہ ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر غور کرتے وقت انسان اپناتا ہے، تیسری طرف ذہنی صحت کے تصور کا ایک سماجی پہلو بھی ہوتا ہے اس لیے جب اس کی تعریف بیان کی  جاتی ہے تو اس میں ’سماجی طور پر محتاط کردار‘ سماجی معاشرے سے تسکین براری ’صحت مند بچوں کی پرورش‘ اور ’سماجی افادیت‘ جیسے فقرے بھی شامل کرلیے جاتے ہیں۔

یہ ظاہر ہے کہ مکمل ذہنی صحت کسی ایسی حالت کا نام نہیں جو سہل الحصول ہو بلکہ اس کو زندگی کا ایک مقصد قرار دیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ ذہنی صحت ایک ترقی پسند مقصد ہے۔ درحقیقت اور سماجی نشو و نما کے لیے ایک چیلنج بھی ہے۔ اس لیے ذہنی صحت کی نرالی نوعیت کو مکمل طور سے محسوس کرنا چاہیے ورنہ ہمارا مقصد بہت محدود ہوسکتا ہے اور اس کے حصول کے بعد ایک تعطل اور اطمینان کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جو مستقبل میں مطابقت کے لیے ایک رکاوٹ بن جائے گی۔ دراصل کامل ذہنی صحت کسی ایسی مکمل اور قطعی حالت کا نام نہیں جس کو پورے طور پر حاصل کیا جاسکے۔ بلکہ یہ ایسی چیز ہے جس کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے یہ اور بات ہے کہ حصول علم کے  بعد بھی شاید کمال کبھی نہیں حاصل ہوسکے گا۔

اساتذہ کے لیے ذہنی صحت ایک ایسی حالت کا نام ہے جس کے تحت وہ اپنے کام میں موثر ثابت ہوں، اس سے تسکین اور فخر حاصل کریں، ادائیگی فرض میں خوشی کا اظہار کریں اور اپنے طلبا اور ہم پیشہ کارکنوں کی طرف انسانی رویے کا اظہار کریں۔ یہ ایک مشکل کام ہے، شاید بہت مشکل لیکن ذہنی صحت کی نرالی نوعیت کے باعث بچت کی بھی گنجائش ہے۔ ذہنی صحت کا مرکباتی تصور اور اس کا ثبوت بس یہ ہے کہ اس کو بہتر بنانے اور بہتری حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

درجے کے اندر بھی ذہنی صحت کے موضوع پر انھیں الفاظ میں زیادہ زور دیا جاسکتا ہے اس کام میں ایسے طالب علموں کو شامل کیا جاسکتا ہے، جو درجے کے مشاغل میں موثر اور کامیاب ثابت ہوں۔ ذہنی طور پر صحت مند طالب علم وہ ہے جو اپنی کامیابی پر مطمئن نظر آتا ہے۔ آسودہ خاطر ہوتا ہے اور اپنے کام اور رفقائے کار سے خوش رہتا ہے یعنی ذہنی طور پر صحت مند طالب علم وہ ہے  جو دوسروں کے لیے اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ وہ تنہائی پسند نہیں ہوتا اور نہ ’گرگ تنہا‘ کے مصداق ہوتا ہے۔ بلکہ اتحاد باہمی کے ذریعے کام نہ کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور ان خصوصیات کی وجہ سے وہ اپنے اندر ایسی عادتیں اور ایسے رجحانات پیدا کرلیتا ہے جو مستقبل کے حالات سے ہم آہنگ ہوں اور اپنے اندر ایسی خوداعتمادی حاصل کرلیتا ہے کہ پیش افتاد مسائل کا مردانہ وار مقابلہ کرسکے۔

ذہنی حفاظ صحت کا نظریہ

ذہنی حفظان صحت کی تعریف، ذہنی صحت کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے بیان کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ ذہنی حفظان صحت صرف ان ذریعوں کا نام ہے جن سے ذہنی صحت کا حصول کیا جاتا ہے۔ یہ بیان سطحی ہے اس سے ذرا ہٹ کر دیکھیں  تو اس کی تشریح بہت مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ ذہنی حفظانِ صحت ایک طرز زندگی کا نام ہے اس میں وہ سب باتیں آجاتی ہیں جو انسان کے محسوسات اقوال اور اعمال پر اثرانداز ہوتی ہیں اس کے اندر منصوبے اغراض و مقاصد، طریق کار ساز و سامان، طبعیِ حالات اور بذات خود استاد بھی شامل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب مل کر جماعت کا ماحول پیدا کرتے ہیں:

’’ذہنی عمل کا علم اور مطابقت کے کارآمد طریق کار آسانی سے سیکھے جاسکتے ہیں اور ہر جگہ عمل میں لائے جاسکتے ہیں۔ ذہنی حفظانِ صحت کی تدریس گھر سے شروع ہوتی ہے اس لیے اس کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کا کام زندگی بھر جاری رہنا چاہیے، بدقسمتی سے ہمارے اسکول اور کالجوں میں ان اصولوں اور طریقوں کی تدریس ابھی ابھی شروع ہوئی ہے، لیکن یہ توقع کی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں ذہنی حفظان صحت کو عام طور سے باضابطہ نصاب میں شامل کرلیا جائے گا۔‘‘

(ولیم بی ٹرہون (ایڈ)، لیونگ وائزلی اینڈ ویل، نیویارک، ای پی لپول اینڈ کمپنی انگ 1949، ص 14 ایڈیٹر کی اجازت سے)

ذہنی حفظانِ صحت کے مفہوم کی یہ ہمہ گیری ایل ایف شیفر L.F. Shaffer کی پیش کردہ تعریف میں نظر آتا ہے:

’’ذہنی حفظانِ صحت کا تعلق جس قدر صحت مند انسان سے ہے اسی قدر بیمار سے بھی یعنی ذہنی حفظان صحت کا تعلق سبھی لوگوں سے ہے۔ وسیع معنوں میں ذہنی حفظان صحت کا مقصد ان افراد کی مدد کرنا ہے جو ایک زیادہ مکمل، شادماں، ہم آہنگ اور موثر زندگی کے حصول کے لیے کوشاں ہوں۔‘‘

(ایل ایف شیفرنادی سائیکلوجی آف ایڈجسمنٹ، بوسٹن، ہاوٹن، مفن کمپنی 1936، ص 435، ناشر کی اجازت ہے)

ذہنی حفظان صحت کے نظریے سے جہاں تک اساتذہ کا تعلق ہے اس کو ڈبلو کارسن ریان W. Carson Reyan نے بہت اچھی طرح اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے:

’’ذہنی حفظان صحت کا تعلق بنیادی طور پر زیادہ صحت مند انسانی تعلقات سے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان کے کردار سے متعلق جو کچھ بھی علم حاصل کیا گیا ہے اس کو روزانہ زندگی میں برتا جائے منفی اعتبار سے اس کا تعلق ذہنی مریضوں کی ہمدردانہ اور دانشمندانہ دیکھ ریکھ اور علاج سے ہے۔ یقینا اس کا مطلب ہے کہ ذہنی اور جذباتی دشواریوں کا جلدی پتہ چلایا جائے۔ شدید بیماری اور انتشار کی روک تھام جتنی جلدی ممکن ہوجائے اور جدید سماج کے زیادہ سے زیادہ افراد کے لیے صحت مند زندگی گزارنے کا اہتمام کیا جائے۔ استادوں، سماجی کارکنوں اور دیگر افراد کے لیے جو اپنے روزانہ کے مشاغل میں بچوں، نوجوانوں اور دوسرے انسانوں کے ساتھ زیادہ سروکار رکھتے ہیں۔ ذہنی حفظان صحت کا مطلب ہے کہ وہ نہ صرف اپنے رفقائے کار کی بالیدگی اور نشو و نما کی تفہیم پیدا کریں بلکہ کارکنوں کی شخصیت سے بھی واقفیت پیدا کریں اور دیکھیں کہ خاندان، رفقائے کار، اسکول اور برادری کے ساتھ اس کے اپنے تعلقات کیسے ہیں۔‘‘

(ڈبلوکارسن، ریان ان سی ای اسکنڈ (ایڈ) ایلمینٹری ایجوکیشنل سائکلولوجی نیویارک پرنٹس ہال انگ 1945، ص 378، ناشر کی اجازت سے)

مذکورہ بالا تعریف سے ذہنی حفظانِ صحت کے مضمون کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے، اس میں اولین حیثیت ایک سہج اور صحت مند انسانی رشتے کو دی گئی ہے اس کے بعد بالیدگی کے محرکات پر زور دیا گیا ہے پھر جذباتی استقامت کو جو شخصیت کی ایک ذہنی کارکردگی ہے، امتیازی مقصد قرار دیا گیا ہے۔ ذہنی حفظان صحت میں خودفہمی کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی تفہیم بھی شامل ہے جن سے بالواسطہ یا براہِ راست سابقہ پڑتا ہے۔ یہ صرف عام سمجھ بوجھ اور سائنسی معلومات کے روزمرہ استعمال کا نام نہیں بلکہ یہ ایک رجحان ہے اور زندگی کو دیکھنے کا طریقہ، ذہنی حفظان صحت کا ایک پہلو جسمانی صحت سے تعلق رکھتا ہے جس کو براہ راست نہیں بیان کیا گیا ہے بلکہ مذکورہ بالا بیان میں اس کا حوالہ موجود ہے۔ جسم اور دماغ دو مختلف نام ہونے کے باوجود ایک ہی عضویاتی نظام کا حصہ  ہیں۔ جسمانی صحت کا ذہنی صحت پر گہرا اثر پڑتا ہے اس لیے ذہنی صحت میں وہ تمام امکانی علم شامل کرلینا چاہیے جو عمدہ ترین صحت حاصل کرنے اور بیماری سے بچنے کے لیے ضروری ہو۔

عام طور پر مدرسوں میں ذہنی حفظان صحت کے دو پروگرام ہونے چاہئیں:

(1)     ذہنی صحت حاصل کرنے میں جتنی بھی رکاوٹیں ہوں انھیں دور کرنا اگر ان کی بیخ کنی ممکن نہ ہو تو انھیں کم کرنا۔

(2)     ذہنی حفظان صحت کے پروگرام میں جہاں تک ممکن ہو طالب علموں کے اندر پختگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ وہ ذہنی حفظان صحت کے مسائل کو دور کرنے کے لیے ایک مناسب رویہ پیدا کرسکیں اور زندگی کی ناخوشگواریوں کے سبب پیدا ہونے والے تناؤ کو برداشت کرسکیں جس کو فی الحال دور کرنا ممکن نہ ہو۔ مختصراً اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہر طالب علم اسکول کے مختلف تجربات کے حصول میںا ستکمال نفس پیدا کرسکے۔


ماخذ:درجے کے اساتذہ کے لیے ذہنی حفظانِ صحت، مصنف: ہیرالڈ، ڈبلو، برنارڈ، مترجم: معین الدین، ناشر: ترقی اردو بیورو، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...