3/9/24

دو دوست از گی دموپاساں، ترجمہ: محمد ریحان

 ماہنامہ اردو دنیاِ، جولائی 2024

محصور پیرس شدید قحط کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ گھروں کی منڈیر پر پرندے اور نالیوں میں چوہے ناپید ہوتے جارہے تھے۔ لوگوں کو جو کچھ مل جاتا، وہ کھا رہے تھے۔

 موریسو، پیشے سے گھڑی ساز مگر عزلت پسند، بھوکے پیٹ اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالے جنوری کی ایک روشن صبح میں چہرے پر اداسی سجائے پیرس کی گلیوں میں چہل قدمی کررہا تھا۔ اس کی نظر اچانک اس کے دوست،سوویج، پر پڑی جس سے اس کی شناسائی ساحل دریا پر ہوئی تھی۔ 

جنگ شروع ہونے سے قبل، موریسو ہر اتوار کو علی الصباح اپنے ہاتھ میں بنسی اور پشت پر ٹین کا ڈبہ لیے گھر سے نکل جاتا۔ وہ آرجونتئی سے ریل گاڑی پر سوار ہوتا اور کولومب کے مقام پر اتر جاتا۔ وہاں سے مارونت کے جزیرے تک وہ پیدل ہی سفر کرتا۔ اپنے خوابوں کے اس مقام پر پہنچ کر وہ مچھلیاں پکڑنا شروع کرتا اور دیر گئے شام تک مچھلیوں کا شکار کرتا رہتا۔

ہر اتوار کو وہاں ایک پست قامت، تونگر اور خوش مزاج انسان، سوویج، سے اس کی ملاقات ہوتی۔ وہ  ’نوتر دام دَ لوریت‘  میں ایک خردہ فروش تھا اور ساتھ ہی ساتھ ایک جنونی ماہی گیر بھی۔ وہ دونوں اکثر دن کا نصف حصہ ساتھ ساتھ گزارتے۔ ان کے ہاتھوں میں بنسی ہوتی اور پاؤں پانی کے اندر جھولتے رہتے۔ وہاں ساتھ بیٹھے بیٹھے دونوں میں کافی گہری چھننے لگی تھی۔

کبھی کبھی وہ کچھ بھی بات نہیں کرتے اور کسی دن خوب گپ شپ لگاتے۔ وہ الفاظ کی مدد کے بغیر بھی ایک دوسرے کو بخوبی سمجھ لیتے تھے کیونکہ ان کے ذوق و شوق اور احساسات و جذبات میں بڑی  یکسانیت تھی۔

موسم بہار میں، صبح دس بجے کے قریب، جب تازہ دم سورج اس آبی دھند کو شانت دریا کی سطح پر  تیرنے پر مجبور کرتا ،جو پانی کے ساتھ ہی بہتی ہے، اور  پر جوش ماہی گیروں کی پشت پر گرمی کی آمد کا احساس دلاتا تو موریسو کبھی کبھی اس سے کہتا:

’’واہ! کتنا خوش گوار موسم ہے‘‘

اس کے جواب میں سوویج کہتا:

’’میں اس سے بہتر کسی چیز کا تصور نہیں کر سکتا۔‘‘

 بس یہی چند الفاظ ایک دوسرے کو سمجھنے اور جاننے کے لیے کافی تھے۔

موسم خزاں میں شام کے وقت جب آسمان، ڈوبتے سورج سے، لہولہان ہو جاتا، سرخی مائل بادلوں کا عکس پورے دریا کو سرخ کر دیتا، افق پر جیسے آگ لگ جاتی، دونوں دوستوں کے چہرے آگ کی طرح لال ہو جاتے اور پہلے سے جھلسے ہوئے درختوں پر رونق اتر آتی، جن کے پتے سردیوں کی پہلی ٹھنڈی لمس سے جھڑے ہوتے تھے۔ اس وقت سوویج موریسو کو دیکھ کر مسکرا تا اور کہتا:

’’کتنا شاندار نظارہ ہے‘‘

اور موریسو اپنی بنسی  سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیتا:

’’یہ پیرس کی گلیوں سے بہت بہتر ہے!‘‘

جیسے ہی ان دونوں نے ایک دوسرے کو پہچانا، انھوں نے پرجوش انداز میں مصافحہ کیا۔ خود کو ایسے مختلف حالات میں پا کر دونوں ہی بہت جذباتی ہو گئے۔ سوویج نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا:

’’حالات بڑے ہی ناسازگار ہیں‘‘ 

 موریسو بھی اداس تھا، اس نے کراہتے ہوئے کہا:

’’اور یہ موسم کتنا پیارا ہے! آج سال کا پہلا خوبصورت دن ہے۔‘‘

واقعی میں آسمان بادلوں سے خالی، نیلا اور روشنی سے بھرا ہوا تھا۔ وہ شانہ بشانہ، متفکر اور اداس، چلتے رہے۔ موریسو اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بولا:

’’اور ماہی گیری؟آہ اس کی کتنی اچھی یادگاریں ہیں!‘‘

سوویج نے دریافت کیا:

’’ہم کب دوبارہ مچھلی کے شکار پر نکلیں گے؟‘‘

وہ ایک چھوٹے سے کیفے میں داخل ہوئے اور ایک ساتھ ہی ابسنت کے مزے لیے۔ پھر وہ فٹ پاتھ پر ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ موریسو چلتے چلتے اچانک رکا اور بولا:

’’کیا ہم ایک ایک اور ابسنت لے سکتے ہیں؟‘‘

سوویج نے حامی بھرتے ہوئے کہا:

’’جیسی آپ کی مرضی۔‘‘

 وہ دونوں ایک شراب کی دکان میں داخل ہوئے۔ جب باہر نکلے، ان کے پیر ڈگمگا رہے تھے۔ وہ پریشان تھے،خالی پیٹ اس انسان کی طرح جس کے معدے میں صرف شراب ہی بھری ہو۔ موسم سہانا تھا۔ ہوا کے نرم جھونکے ان کے چہروں پر گدگدی لگا رہے تھے۔ تازہ ہوا نے شراب کے اثر کو جلد ہی زائل کر دیا۔ سوویج رک کر پوچھا:

’’اگر ہم وہاں گئے تو‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’مچھلی پکڑنے‘‘

’’لیکن کس جگہ؟‘‘

’’وہی اپنے جزیرے پر۔ فرانسیسی چوکیاں کولومب سے قریب ہیں۔ میں کرنل دیومولاں کو جانتا ہوں، ہمیں آسانی سے وہاں سے گزر نے کی اجازت مل جائے گی۔‘‘    

موریسو کے بدن میں شدت خواہش سے لرزش پیدا ہو گئی۔

’’بہت خوب۔ پھر میں تیار ہوں۔‘‘

 مچھلی پکڑنے کے آلات اکٹھا کرنے کے لیے وہ الگ ہوئے پھر ایک گھنٹے بعد وہ دونوں شاہ راہ پر ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں وہ کرنل کے زیر قبضہ کوٹھی تک پہنچ گئے۔ کرنل ان کی فرمائش پر مسکرایا اور ان کی خواہش پر اپنی رضامندی کی مہر ثبت کر دی۔ وہ اجازت نامہ لے کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔

جلد ہی وہ چوکیوں سے دور نکل گئے۔ ویران کولومب سے گزرتے ہوئے انگور کے ان چھوٹے باغوں کے قریب پہنچے جو سین ندی سے متصل ہیں۔ اس وقت تقریباً گیارہ بج رہے تھے۔

سامنے ہی آرجونتئی گاؤں تھا جو سنسان نظر آ رہا تھا۔ ’آرجموں‘  اور ’سانوا‘ کی بلندیوں کا پورے علاقے پر دبدبہ تھا۔ نانتیر تک پھیلا ہوا عظیم میدان بالکل خالی اور بنجر تھا، جس کی مٹی سرمئی اور وہاں چیری کے درخت بے برگ و بار تھے۔

سوویج نے اپنی انگلیوں سے چوٹیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

 ’’وہاں پروشین ہیں!‘‘

اس ویران منظر کے نظارے سے دونوں دوستوں پر ایک انجان اور مبہم فکر کا حملہ ہوا۔

پروشین! ان دونوں نے انھیں کبھی دیکھا نہیں تھا، لیکن گزشتہ کئی مہینوں سے پیرس کے قرب و جوار میں ان کی موجودگی کو ضرور محسوس کیا تھا، فرانس کو برباد کرتے ہوئے، وہاں لوٹ مار مچاتے ہوئے، قتل عام کرتے ہوئے، لوگوں کو بھوکے مرنے پر مجبور کرتے ہوئے۔ یہ نظر تو نہ آتے تھے مگر بڑے طاقت ور تھے۔ایک قسم کی توہم پرستانہ دہشت اس نفرت کے ساتھ گھل مل گئی جو وہ پہلے ہی اس نامعلوم، فاتح لوگوں کے لیے محسوس کر رہے تھے۔

موریسو نے کہا:

 ’’ اگر ان میں سے کسی سے ہماری ملاقات ہوتی تو؟

سوویج نے پیریسین کے اسی خاص لہجے میں  جواب دیا جس کو کوئی بھی چیز ختم نہیں کر سکتی:

’’ہم اسے کچھ سوکھی مچھلیاں پیش کرتے۔‘‘

ان کے ارد گرد جس طرح کی خاموشی کا پہرہ تھا اس سے خوف زدہ ہو کر وہ دیہی علاقوں میں جانے سے گریز کر رہے تھے۔ آخر میں سوویج نے جانے کا فیصلہ کیا:

’’چلو چلتے ہیں، لیکن احتیاط کے ساتھ۔‘‘

وہ انگور کے کھیت میں اتر ے اور جھک کر رینگنے لگے۔ جھاڑیوں میں چھپ چھپ کر آگے بڑھے۔ ان کی آنکھیں پریشان تھیں اور کان کھڑے ہوئے تھے۔

دریا کے کنارے تک پہنچنے کے لیے خالی زمین کے ایک حصے کو عبور کرنا باقی تھا۔ وہ کچھ دیر بعد دوڑنے لگے اور  جیسے ہی ساحل دریا تک پہنچے، سوکھے سرکنڈوں میں چھپ گئے۔

موریسو نے اپنا گال زمین پر رکھا تاکہ وہ آس پاس کسی کے چلنے کی آہٹ کو سن سکے۔ اسے کچھ سنائی نہیں دیا۔ وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔ وہ دونوں بہت اکیلے تھے، بالکل اکیلے۔ انھوں نے خود کو تسلی دی اور مچھلی پکڑنے لگے۔سامنے سنسان مارونت کا جزیرہ تھا جس نے انہیں دوسرے کنارے سے پوشیدہ کر رکھا تھا۔ وہاں ایک چھوٹا ریستوراں بھی تھا جو بند تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سالوں سے ویران پڑا ہو۔ سب سے پہلے سوویج کی بنسی میں گڈجن (مچھلی کی ایک قسم) پھنسی پھر موریسو نے دوسری مچھلی پکڑی۔ اس کے بعد رہ رہ کر وہ اپنی بنسیاں اوپر اٹھاتے اور ان میں سفید رنگ کی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پھنسی ہوتیں۔ وہ ماہی گیری کا بھرپور لطف اٹھا رہے تھے۔

وہ مچھلیوں کو بڑے احتیاط سے مضبوطی سے بنے ہوئے ایک جالی نما تھیلے میں رکھ رہے تھے، جو ان کے پیروں کے پاس ہی رکھا ہوا تھا۔ اس عمل میں وہ ایک طرح کی لذت آمیز خوشی محسوس کر رہے تھے۔ اس طرح کی خوشی اس وقت محسوس ہوتی ہے جب آپ اس مسرت کو دوبارہ دریافت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس سے آپ طویل عرصے سے محروم رہے ہوتے ہیں۔

اس بیچ سورج ان کے شانوں کے درمیان سے اپنی گرمی کی نمائش کر رہا تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں سن رہے تھے۔ وہ کسی کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچ رہے تھے۔ انہوں نے ہر چیز کو نظر انداز کر دیا تھا۔ وہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر تھے۔ وہ مچھلی کا شکار کر رہے تھے۔

لیکن اچانک زمین ایک زوردار دھماکے سے ہل گئی۔ یہ آواز زمین کے بھیتر سے آتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ توپیں پھر سے برسنے لگی تھیں۔

موریسو نے ساحل کے پرے مڑ کر دیکھا، ادھر بائیں جانب عظیم القامت پہاڑ’’موں والیریاں‘‘ کی پیشانی  سے سفید دھوؤں کے بگولے اٹھ رہے تھے۔ اس کی چوٹی سے دھوئیں کا دوسرا جھونکا نکلا، چند لمحے میں ایک دوسرا دھماکہ۔پھر پے در پے کئی دھماکے ہوئے۔ لمحہ بہ لمحہ پہاڑ موت کے قریب پہنچ رہا تھا۔ اجلے دھوئیں، جو آہستہ آہستہ شانت آسمان کی طرف اٹھ رہے تھے،  وہ پہاڑ کے سر پر بادل بن کر تیرنے لگے۔ سوویج نے کندھا اچکاتے ہوئے کہا:

’’تو انھوں نے پھر سے شروع کر دیا!‘‘

موریسو، جو بے چینی سے اپنے فلوٹ کے پروں کو بار بار ڈوبتے دیکھ رہا تھا، جنگ کر رہے پاگلوں کے خلاف اچانک ایک پرامن آدمی کی طرح غصے کا اظہار کرتے ہوئے بڑبڑایا:

’’خود کو اس طرح مارنے کے لیے بے وقوف ہونا ضروری ہے۔‘‘

 سوویج نے جواب دیا:

’’یہ جانوروں سے بھی بد تر ہیں۔‘‘

اور موریسو، جس نے ابھی ایک نقرئی مچھلی پکڑی تھی، بولا:

’’اور جب تک حکومتیں ہیں ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔‘‘

سوویج نے موریسو کو ٹوکتے ہوئے کہا:

 ’’جمہوریت میں جنگ مسلط نہیں کی جاتی۔‘‘

موریسو نے کہا:

’’بادشاہت میں جنگ باہری ملک سے ہوتی ہے اور جمہوریت میں اندرون ملک جنگ جاری رہتی ہے۔‘‘

 وہ بڑے اطمینان سے آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ کھلا ذہن رکھنے والے اور تنگ نظر انسان کے ٹھوس دلائل کی بنیاد پر اہم سیاسی مسائل کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے اس بات پر متفق ہو گئے کہ انھیں کبھی آزادی نہیں ملے گی۔ موں والیریاں مسلسل لرزتا رہا۔ فرانسیسی گھروں پر توپوں سے گولے برستے رہے، زندگیاں برباد ہوتی رہیں، لوگ جاں بحق ہوتے رہے، وہاں اور دوسرے ممالک میں عورتوں، نوخیز لڑکیوں اور ماؤں کے انگنت خواب،طویل انتظار کی خوشیاں اور امیدیں ٹوٹتی رہیں۔ یہ سب ان مصائب  کی وجہ سے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔

سوویج نے کہا:

’’اسی کا نام زندگی ہے۔‘‘

’’نہیں، بلکہ یہ کہو کہ اسی کو موت کہتے ہیں۔‘‘

موریسو نے ہنستے ہوئے کہا۔

ان کو اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی، وہ خوف سے کپکپانے لگے۔ جب انھوں نے نظریں پیچھے کی طرف گھمائیں تو دیکھا کہ چار آدمی ان کے کاندھے سے لگے کھڑے ہیں، چار لمبے تڑنگے اور مسلح، نوکروں کی طرح ملبوس، چپٹی ٹوپیاں پہنے اور اپنی بندوق کا نشانہ ان کی طرف کیے ہوئے۔

ان کے ہاتھوں سے بنسیاں چھوٹ کر دریا میں گرنے لگیں۔     

چند ہی لمحوں میں انہیں گرفتار کر کے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں۔ انھیں گھسیٹتے ہوئے ایک کشتی تک لایا گیا اور پھر ایک جزیرے پر پھینک دیا گیا۔وہاں ایک مکان نظر آیا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ لامکیں ہوگا، اس میں تقریباً بیس جرمن فوجی موجود تھے۔

 بڑے بالوں والے ایک دیو ہیکل آدمی نے، جو کرسی پر ٹیک لگائے چینی مٹی کے برتن سے بنا ایک بڑا پائپ پی رہا تھا، شستہ فرانسیسی میں ان سے سوال کیا:

’’اچھا جناب! کیا مچھلی شکار کرنے کا تجربہ ٹھیک رہا؟‘‘

ایک سپاہی نے مچھلیوں سے بھرا جالی نما تھیلا، جسے وہ خود اپنے ساتھ لایا تھا، افسر کے قدموں میں ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر دیو ہیکل پروشین مسکرایا اور بولا:

’’ہے ہے ہے!میں دیکھ سکتا ہوں، اتنے برے نہیں ہیں۔ تاہم، بات کچھ اور معلوم ہوتی ہے۔ میری بات سنو اور پریشان مت ہو۔‘‘

’’میری نظر میں تم دونوں کی حیثیت جاسوس کی ہے۔ میں جانتا ہوں، مجھ پر نظر رکھنے کے لیے تمھیں بھیجا گیاتھا۔ میں تمھیں گرفتار کر چکا ہوں اور اب گولی بھی مار  دوں گا۔ تم نے اپنے منصوبے کو پوشیدہ رکھنے کی خاطر  ماہی گیری  کا اچھا ڈرامہ کیا ہے۔ لیکن دیکھو، تم میرے ہاتھوں پکڑے گئے، تمھارا نصیب ہی برا ہے۔ کیا کر سکتے ہو، یہ جنگ ہے۔‘‘

’’البتہ جب تم چیک پوسٹ سے ہو کر آئے ہو  تو تمہارے پاس واپس جانے کا اجازت نامہ ضرور ہوگا۔ تم مجھے وہ پاس دے دو تو میں تمھیں معاف کردوں گا۔‘‘

دونوں دوست ایک دوسرے کے پہلو میں خاموش کھڑے تھے۔ خوف و دہشت سے ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور ان کے ہاتھ گھبراہٹ سے کانپ رہے تھے۔

افسر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے آگے کہا:

’’کسی کو بھی اس بات کا علم نہیں ہوگا، تم آرام سے اپنے گھر واپس چلے جاؤگے۔ یہ راز تمھارے جانے کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا۔ لیکن اگر تم نے انکار کیا تو اس کی سزا موت ہے اور وہ بھی فی الفور۔ اب فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے۔‘‘

وہ چپ چاپ، ساکت و جامد کھڑے رہے۔

پروشین ،جو ابھی بھی پرسکون نظر آ رہا تھا، دریا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’دیکھو، پانچ منٹ میں تم اس پانی کی تہہ میں ہوگے۔ صرف پانچ منٹ میں!کیا  تمہارے والدین ہیں؟‘‘

موں والیریاں توپوں کے حملے سے اب بھی گرج رہا تھا۔

دونوں ماہی گیر خاموش کھڑے رہے۔ جرمن افسر نے اپنی مادری زبان میں کچھ احکامات دیے۔ پھر قیدیوں سے تھوڑی دوری بناتے ہوئے اس نے اپنی کرسی کی جگہ تبدیل کی۔بارہ آدمی بیس قدم کے فاصلے پر اپنے پیروں پر رائفلیں ٹکائے کھڑے ہو گئے۔

جرمن افسر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:

’’میں تمھیں ایک منٹ دیتا ہوں، اس کے بعد مزید دو سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں ملے گی۔‘‘

پھر وہ اچانک کھڑا ہوا اور دونوں فرانسیسی قیدیوں کے قریب گیا۔ موریسو کا بازو پکڑ کر کھینچتا ہوا کچھ دوری پر لے گیا اور اس سے دھیمی آواز میں کہا:

جلدی دکھاؤ، کہاں ہے وہ اجازت نامہ؟تمہارے ساتھی کو کچھ معلوم نہیں ہوگا، میں ایسے دکھوں گا جیسے میں نرم دل ہوں۔‘‘

موریسو نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اس کے بعد وہ افسر سوویج کو بھی ایک گوشے میں لے گیا اور اس سے بھی وہی سوال کیا۔ لیکن سوویج نے بھی اپنی زبان نہیں کھولی۔

وہ دونوں دوست ایک دوسرے کے پہلو میں ہی کھڑے رہے۔

افسر نے حکم دینا شروع کیا۔ سپاہیوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔ موریسو کی نظر اتفاق سے مچھلیوں سے بھرے اس جال پر پڑی جو اس سے چند قدموں کے فاصلے پر فرش پر رکھا ہوا تھا۔

سورج کی روشنی نے مچھلیوں کے ڈھیر کو ،جو ابھی تک بے چین تھیں،چمک دار بنا دیا تھا۔موریسو پر بے ہوشی طاری ہونے لگی۔ اس نے پوری کوشش کی کہ اس پر کوئی اثر نہ ہو لیکن اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر بتر ہو گئیں۔ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا:

’’الوداع، سوویج۔‘‘

سوویج نے جوابا عرض کیا:

’’خدا حافظ، موریسو۔‘‘

دونوں نے مصافحہ کیا، وہ ناقابل تسخیر کپکپاہٹ سے سر سے پاؤں تک لرز گئے۔

افسر نے چیختے ہوئے کہا:

’’گولی چلاؤ‘‘

بارہ کی بارہ بندوقیں ایک ساتھ چلنے لگیں۔

سوویج منہ کے بل زمین پر گر گیا۔ طویل القامت موریسو ڈگمگایا اور چکراتے ہوئے اپنے دوست کے بدن پر سو رہا۔ اس کا چہرہ آسمان کی طرف تھا۔ خون کے فوارے اس کی شرٹ سے نکل رہے تھے جو سینے کے پاس چھلنی ہو گئی تھی۔

جرمن افسر نئے احکامات دینے لگا۔ اس کے سپاہی منتشر ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں وہ سب رسیوں اور پتھروں کے ساتھ واپس آئے۔ انھوں نے دونوں مردہ دوستوں کے پیروں سے پتھر باندھے اور دریا کے کنارے لے گئے۔

موں والیریاں، جو اب دھوئیں کے پہاڑ میں تبدیل ہو گیاتھا، سے مسلسل دھماکے کی آوازیں اٹھتی رہیں۔

دو فوجیوں نے مل کر موریسو کو اٹھایا، ایک نے سر اور دوسرے نے ٹانگیں پکڑیں۔ دوسرے سپاہیوں نے بھی سوویج کو اسی طرح زمین سے اٹھایا۔ کچھ دیر پوری طاقت سے ہوا میں جھلاتے رہے اور پھر ان لاشوں کو پانی میں دور پھینک دیا۔ لاشیں پہلے ٹیڑھی ہوئیں اور پھر سیدھی ہو کر پانی میں ڈوبنے لگیں۔ پتھروں نے پہلے ان کے پیر کھینچنا شروع کیے۔

پانی میں چھپاکے کی آواز ابھری، بلبلے اٹھے، لرزش پیدا ہوئی، پھر وہ پرسکون ہو گیا۔ چھوٹی چھوٹی کچھ لہریں بنیں جو سفر کرتی ہوئی آئیں اور ساحل سے ٹکرا گئیں۔پانی کی سطح پر ادھر ادھر کچھ خون کے ذرات تیر رہے تھے۔

جرمن افسر نے، جواب بھی پر سکون تھا، دھیمی آواز میں کہا:

’’اب مچھلیوں کی باری ہے۔‘‘

اتنا بول کر وہ واپس مکان کی طرف نکل گیا۔ اچانک اس کی نظر اس جال پر پڑی جس میں مچھلیاں تھیں۔ اس نے اسے اٹھایا، اس کا جائزہ لیا، مسکرایا اور زور سے چلایا ’’ولہیم‘‘

سفید پیش بند پہنے ایک سپاہی دوڑتا ہوا آیا۔ جرمن افسر نے اس کی طرف دو مردہ دوستوں کی پکڑی ہوئی مچھلیاں پھینکتے ہوئے حکم دیا:

’’ان چھوٹے جانوروں کو میرے لیے فرائی کرو، اس سے پہلے کہ یہ مر جائیں۔ یہ کھانے میں مزیدار ہوں گے۔‘‘

پھر وہ سگار پینے میں مصروف ہو گیا۔

 

Mohd Raihan

Department of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 7366083119

mdraihanjmi@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...