3/9/24

خاندانی تعلقات کا تانا بانا، ماخوذ از ہندوستانی گاؤں، مصنف: شیاما چرن دوبے، مترجم: ڈاکٹر محمد عبدالقادر عمادی

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

ہندو ستان کی دیہی کمیونٹی کے سماجی ڈھانچے میں خاندان کو سب سے اہم مقام حاصل ہے۔ اس کی محض یہ اہمیت نہیں ہے کہ اس کے خاص معاشی فرائض ہیں اور سماجیت اور سماجی کنٹرول کی ایجنسی کے طور پر اس کا نمایاں رول ہے بلکہ اس کو عام ہندوؤں میں بہت ہی مخصوص رسوماتی اہمیت بھی حاصل ہے۔

کلاسیکی ہندومت میں زندگی کے چار مدارج بتائے گئے ہیں:

(1)     کنواری یا تجرد کی زندگی Brahmcharya  ، (2) خاندانی زندگی (Grahast Ashram)  ، (3) تار کانہ زندگی (Vana Prastha) اور (4) ترک دنیا (Sanayas) پہلی منزل میں احساسات اور خواہشات پر قابو پاکر یکسوئی حاصل کی جاتی ہے تاکہ تحصیل علم کے لیے خود کو وقف کیا جاسکے۔ یہ زندگی کا تعمیری دور ہوتا ہے اور کسی شخص سے یہ امید کی جاتی ہے کہ اس دوران وہ صحیح طریقے پر سماجی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا۔ دوسری منزل پر وہ زندگی کے دور میں داخل ہوجاتا ہے اور سماجی ذمے داریوں میں حصہ لینا شروع کرتا ہے۔ اب اسے شادی کرنا ہے اور صاحب اولاد ہونا ہے۔ یہ تخلیقی زمانہ ہوتا ہے اور زندگی کا بیشتر حصہ اسی میں صرف ہوتا ہے۔ آخری دو غور و فکر کی منزلیں ہیں۔ یہ دنیاوی ساز و سامان اور دنیاوی تعلقات کو بالآخر ترک کردینے کی تیاری کا دور ہوتا ہے اور اس شخص کو چاہیے کہ اپنے میں دنیا سے بے تعلقی کا رجحان پیدا کرے اور فکر کے لیے اپنے آپ کو وقف کرے۔ جب یہ حاصل ہوجائے تو اس کے لیے ایسا وقت آجائے گا کہ وہ اپنی تمام ملکیت اور تعلقات سے قطع تعلق کرسکے گا۔ موجودہ دور کے ہندوستانی دیہاتوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس سماجی فلسفے کو جو آشرموں Ashrams یا منزل حیات کے طرز عمل کا پس منظر ہے، سمجھ سکتے ہو ںیا بیان کرسکتے ہوں، لیکن اس کا نچوڑ ان تک پشتہا پشت سے زبانی روایات اور مختلف مذہبی کویوں کی تعلیمات کے ذریعے پہنچا ہے اور اس طرح ان کے طرز فکر اور اقدار و کردار میں جاگزیں ہوچکا ہے۔ ہندوستان کے دیہاتی علاقوں میں لڑکوں کی بے راہ روی سماجی طور پر نامناسب سمجھی جاتی ہے۔ شادی کو عام طور پر فطری اور ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ صرف معذور اور اپاہج ہی غیرشادی شدہ رہتے ہیں۔ گو لوگ بڑھاپے میں اپنے گھر بار سے شاذ ہی دست بردار ہوتے ہیں لیکن بوڑھے مرد یا عورت جو دنیاوی ساز و سامان سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں ان پر بڑی لعن طعن ہوتی ہے اور اکثر ان پر جملے کسے جاتے ہیں ’’کیا مرنے کے بعد یہ لوگ اپنی دولت اس دوسری دنیا کو لے جائیں گے۔‘‘ اسی زمانے میں انھیں مذہب کا خیال آتا ہے اور وہ سوچنے لگتے ہیں کہ آئندہ زندگی میں روح  کا کیا حشر ہوگا۔ اسی لیے اس زمانے میں وہ عام طور پر مقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہیں۔ ایک معنی میں ’آشرموں‘  کے فلسفے کی اساس یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ گاؤں کے ہندوؤں کی زندگی اور خیالات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ گاؤں کے مسلمان اپنے ہندو پڑوسیوں کے ساتھ ان سماجی رجحانات میں شریک ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے ساتھ انھوں نے اپنا مذہبی عقیدہ بدل دیا ہے لیکن زندگی کے سماجی اور ثقافتی دائرے میں وہ اب بھی ہندوؤں ہی جیسے بنیادی رجحانات رکھتے ہیں۔ اپنے گھریلو اخلاقیات اور تصورات میں یہ دونوں گروہ کافی یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

گاؤں کے لوگوں کے لیے شادی اور خاندان دونوں کی ضرورت ازخود واضح ہے۔ یہ ضروری ہے کہ خاندان کا سلسلہ آگے چلتا رہے۔ ایک نرینہ وارث ہونا چاہیے۔ ایک غیر شادی شدہ شخص جو عمر کی زیادتی کے باعث شادی کے قابل بھی نہ رہا ہو قابل رحم ہوتا ہے۔ ایسے میاں بیوی جن کے لڑکا نہ ہو خوش نہیں رہتے۔ بے اولاد ہونے اور کسی عورت میں اولاد نرینہ پیدا کرنے کی ناہلی کے باعث گھرانے میں کثیرالازدواجی زندگی ناگزیرہوجاتی ہے۔ گاؤں کی تمام ذاتوں اور سماجی گروہوں میں شادی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ 2494 افراد کی کمیونٹی میں آبادیاتی سروے سے پتہ چلا کہ صرف دو اشخاص ایسے تھے جو غیرشادی شدہ تھے اور وہ دونوں عورتیں تھیں۔ ان میں سے ایک گونگی، بہری اور دوسری مرگی کی بچپن سے مریضہ تھی۔ اس کے علاوہ اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ بلاشبہ چور ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے لیے خاندان کا سلسلہ جاری رہنا ایک اور وجہ سے بھی ضروری ہے۔ اپنے متوفی والدین اور اجداد کی روحوں کے لیے پانی دینے کی تقریب صرف لڑکا ہی انجام دے سکتا ہے جس کے بغیر ان کی روحوں کو سکون نہیں مل سکتا۔ اچھوت ذاتیں نیز نیم قبائلی گروہوں میں بھی کسی قدر تبدیلی کے ساتھ یہ رسم جاری ہے۔ مسلمان نہ تو اس پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ان کے پاس اس قبیل کی کوئی رسم ہے لیکن لاولدی کی صورت میں انھیں احساسا ت کے ساتھ وہ ہندوؤں کے شریک ہیں۔

خاندانی ڈھانچہ

پدرنسبی‘ اور ’پدر مقامی‘ مختصر یہ مشترک خاندان ہی قاعدے کے مطابق گھران کی وہ اکائی ہے جو دیہی ہندوستان کے اس حصے میں پائی جاتی ہے۔ جب ایک داماد اپنی بیوی کے ماں باپ کے ساتھ رہنے لگتا ہے تو ہمیں کبھی کبھی ’مادر مقامی‘ طرز کی مثالیں ملتی ہیں، لیکن ایسا شاذ ہی ہوتا ہے اور زیادہ تران چند یتیموں اور لڑکوں تک محدود ہے جن کے والدین بڑے غریب ہوتے ہیں اور اس لیے ان کے لڑکے بیوی حاصل کرنے کے لیے لڑکی کے گھر میں بہ وجہ منسوبیت نوکری کرتے ہیں اور بعد کو خسر کے ساتھ رہنے لگتے ہیں۔ مشترک خاندان کو سماجی روایات کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔

مندرجہ ذیل تختہ ایک مثالی مشترک خاندان کا خاکہ پیش کرتا ہے:

آبائی والدین اجداد

بھائی اور ان کی بیویاں

خود: بیوی

غیرشادی شدہ بہنیں

بھتیجے اور بھتیجیاں

لڑکے اور ان کی بیویاں

غیرشادی شدہ لڑکیاں

 پوتے پوتیاں

کسی ایسے خاندان کی اکائی کا پتہ لگانا واقعی دشوار ہے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے پانچ نسلیں مل جل کر رہتی ہوں۔ آندھرا پردیش کے مواضع بالخصوص تلنگانہ میں کسی ایسے خاندان کا ملنا دشوار ہے جس میں وحدانی خاندانوں کی تین نسلیں ایک ہی مکان میں رہتی ہیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں چھوٹے قصبے اور شہروں کے اندر ایسے بڑے مشترک خاندان اب بھی ملتے ہیں لیکن گاؤں میں یہ اکثر دکھائی نہیں دیتے۔ حقیقی طور پر ملک کے اس حصے میں مشترک خاندان کی نسبتاً چھوٹی اکائیا ںہیں اور بیشتر ان میں والدین، ان کے شادی شدہ لڑکے، ان کی بیویاں اور بچے یا بھائی۔ ان کی بیویاں اور بچے شامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ مشترک خاندان کو مثالی خیال کیا جاتا ہے لیکن یہ بات عام ہے کہ لڑکے شادی کے چند ہی سال کے اندر اپنے والدین سے علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ اس علیحدگی کا نتیجہ ہی ہوتا ہے کہ وہ ایک اور مختصر خاندان شروع کرتے ہیں جس میں ابتدا میں  صرف میاں بیوی ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے لڑکوں کی تعداد بڑھتی ہے ابتدائی خاندان وسیع ہوتا جاتا ہے۔ جب لڑکے بڑے ہوجاتے ہیں، شادیاں کرلیتے ہیں اور اپنی بیویوں کے ساتھ والدین کے گھر میں رہتے ہیں تو اس گھر کی اکائی کو پھر ایک مرتبہ مشترک خاندان کے زمرے میں شما رکیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں 120 خاندانوں کی سوانحی تفصیلات کامطالعہ کیا گیا۔ 34 فیصد ایسی صورتیں تھیں جن میں شادی سے دو سال کے اندر لڑکو ںنے اپنے والدین سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ 36 فیصد شادی سے دو اور تین سال کے اندر الگ ہوگئے تھے۔ شادی سے تین سال بعد مگر پانچ سال کے اندر 28  فیصد نے علیحدگی اختیار کی تھی۔ صرف 22 فیصد لڑکے ایسے تھے جو شادی کے پانچ سال بعد بھی اپنے والدین کے ساتھ رہ رہے تھے۔ چونکہ اکثر شادیاں بالغوں میں ہوتی ہیں اس لیے واقعی طور پر ازدواجی زندگی شادی کی تقریب مکمل ہونے کے بعد ہی یا زیادہ سے زیادہ اندرون شش ماہ شروع ہوجاتی ہے۔ مندرجہ بالا تجزیے کے لیے حقیقی ازدواجی زندگی کی ابتدا سے شادی کا سال شمار کیا گیا۔

اس کے علاوہ ان کے تاریخی تجزیے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بیشتر صورتوں میں ترقی کا طریقہ یکساں رہا ہے۔ شادی کے بعد ایک سال کے لگ بھگ لڑکا اپنے والدین کے ساتھ رہتا ہے۔ اور اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اس دوران گھریلو جھگڑے اور نااتفاقیاں شروع ہوجاتی ہیں او روہ علیحدہ ہوجانے کی بابت سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بعض صورتوں میں ایسا دوسرے سال کے دوران ہوتا ہے اور دیگر صورتوں میں تین تا پانچ سال لگ سکتے ہیں جو لوگ معاملات پانچ سال تک سنبھال سکتے ہیں وہ آرام سے ایک ہی چھت کے نیچے اور بھی زیادہ مدت تک رہتے ہیں۔ بہرحال بعض صورتوں میں علیحدگی دس پندرہ سال ساتھ رہنے کے بعد بھی سنی گئی ہے۔

کوئی نوجوان شادی شدہ اپنے والدین یا بھائیوں سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد بھی عام طور پر اپنے خاندان یا خاندانوں سے قریبی تعلقات باقی رکھتا ہے۔ تاہم چونکہ علیحدگی کی فوری وجہ اکثر جھگڑا یا رائے میں سخت اختلافات ہوتے ہیں اس لیے کچھ زمانے تک علیحدہ ہونے والے خاندانوں میں تعلقات میں کشیدگی برقرار رہتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان میں بات چیت بھی نہ رہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ جھگڑے کی تلخی کم ہوتی جاتی ہے اور اسی لیے بڑے خاندانوں کی مختلف شاخوں میں میل ملاپ پھر پیدا ہوجاتا۔ جب اصل خاندان اور اس کے ملحقہ خاندان میں تعلقات پھر برقرار ہوجاتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے معاملات اور مسائل میں دلچسپی لینا شروع کرتے ہیں۔  رسومات، دعوتیں اور تہوار ان سب کو اکٹھا کردیتے ہیں۔ خاندان کے ملاپ کے لیے ایسی رسوم جن کا تعلق زندگی کے اہم مراحل سے ہوتا ہے۔ اچھے مواقع پیدا کرتی ہیں۔ خاص طور پر موت کے سانحہ پر پرانے جھگڑے اور غلط فہمیاں عام طور پر بھلا دی جاتی ہیں اور تمام قریبی رشتے دار آخری رسوم کی ادائی کے لیے جمع ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد جو رسومات ہوتی ہیں ان میں خاندان کی جملہ شاخوں کی موجودگی لازمی سمجھی جاتی اور اس موقع پر کسی کی بھی غیرحاضری کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ یہ چیز غیر موجود رہنے والوں میں اور خاندان کے دیگر افراد میں ہمیشہ کے لیے قطع تعلقات کا باعث بن سکتی ہے۔

اس ضمن میں اس طرف اشارہ کیا جانا ضروری ہے کہ کمیونٹی میں خاندان کی اصطلاح کے مترادف ایک تصور پایا جاتا ہے جس میں تین مختلف سماجی اکائیو ںکا مفہوم مضمر ہوتا ہے جو کسی حد تک ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں (1) ابتدائی خاندان یا گھر (2) توسیع خاندانی اکائی (3) اس سے وسیع تر گروہ جس میں پدری قریبی رشتے دار شامل ہوں۔ مختلف صورتوں میں خاندان کی ساخت مختلف ہوتی ہے۔ بہت سی صورتوں میں اس میں صرف میاں بیوی ان کے لڑکے اور غیر شادی شدہ بیٹیاں شامل ہوتی  ہیں۔ دوسری صورتوں میں ایک یا دونوں والدین، غیر شادی شدہ بھائی اور غیرشادی شدہ بہنیں اس میں شامل ہوتے ہیں، شادی کے بعد بھائی اور لڑکے اکثر اپنا علیحدہ گھر بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح والدین جو اپنے بیٹے سے دس یا بیس سال پیشتر علیحدہ ہوگئے تھے، اس کے ساتھ پھر رہ سکتے ہیں۔

 

ماخذ: ہندوستانی گاؤں، مصنف: شیاما چرن دوبے، مترجم: ڈاکٹر محمد عبدالقادر عمادی، دوسرا ایڈیشن:1989، ناشر: ترقی اردو بیورو، نئی دہلی

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...