3/9/24

مصنوعی ذہانت اور ہمارا شعور، ماخو از اقتصادیات برائے عوام، مصنف: سید اطہررضا بلگرامی

ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024 

اصولِ معاشیات کی تمام مروجہ مستند کتابوں کا پہلا حصہ جہاں صارفین کے طرزِ عمل (Consumer Behaviour) کی تشریحات ملتی ہیں، ان میں سب سے دلکش تشریح نظریہ قدر (Utility) کی ہے جو معاشیات کے روایتی خشک وغیر دلچسپ اندازِ بیان و تشخیص سے ہٹ کر انسانی احساسات و مشاہدات کے قریب لگتی ہے۔ اکنامکس کی پرپیچ غیرمانوس و مختلف النوع اصطلاحات سے لبریز اصولوں کی وضاحتوں کے درمیان نظریہ قدر کی تفصیلات اور اس سے وابستہ نظریوں کو پڑھیے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتہائی امس میں کہیں سے کوئی فرحت بخش ہوا  کا جھونکا آگیا۔ بے آب و گیاہ صحرا میں نخلستان نظر آگیا۔ چلیے آج اس کی تشریح پڑھیے اور محسوس کیجیے کہ معاشیات کا یہ نظریہ آپ کی زندگی سے کیسا مانوس ہے۔

معاشیات کی کتابوں میں نظریہ قدر کی تشریح بیانیہ انداز میں بھی ہے اور ریاضی والجبرے کے فارمولے اور جیومیٹری کی خاکے نما تصویروں کی مدد سے بھی ہے۔ میں تکنیکی زبان اپنانے سے قبل بیانیہ انداز اپنا رہا ہوں تاکہ نظریہ قدر معاشیات کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ کے قریب رہے اور پھر پڑھتے پڑھتے جب آپ کی فکر میں بالیدگی پیدا ہونے لگے تو پھر ریاضی والجبرے کی تکنیکی زبان اپنا کر پرپیچ لکیروں میں مقید ہوکر انھیں تشریحات کو زیادہ گمبھیر بنا لیجیے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کسی شے میں کوئی کشش کیوں محسوس کرتے ہیں؟ کیوں کسی شے کو دیکھتے ہی اس کے کارآمد ہونے کا احساس کرتے ہیں؟ یا اس کے برعکس کسی شے میں آپ کوئی کشش محسوس نہیں کرتے؟ دیکھتے ہی اس کے بے مصرف ہونے کا احساس کرتے ہیں، کیوں؟ معاشیات میں اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ کائنات کی ہر شے میں انسان کی کسی نہ کسی ضرورت کی ہرتسکین کی قوت پوشیدہ ہے اور اسی باطنی قوت کا احساس انسان میں اس شے  کے لیے قدر پیدا کرتا ہے۔ وہ شے باعث کشش بن جاتی ہے۔ جب تک انسان اس شے کی اس صفت یا قوت سے بے خبر رہتا ہے، اس کے لیے کوئی کشش نہیں پاتا۔ وہ شے اس کے لیے بے قدر  و قیمت ہی رہتی ہے۔ معاشیات میں قدر (Utility) کو محسوس کرنے کی پہلی و بنیادی شرط یہی ہے کہ کسی شے میں انسان کی کسی نہ کسی ضرورت کی تسکین کی قوت ہو اور انسان کو اس کا علم بھی ہو۔

معاشیات کے دائرے میں قدر کی دوسری اہم شرط؍ شناخت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کمیابی میں ابھرتی ہے۔ افراط میں نہیں۔ ہوا، پانی، سورج کی روشنی و اس کی تمازت سب خدا کے عطیات ہیں اور یہ اتنے قیمتی ہیں کہ ان پر بنی نوع انسان ہی نہیں، حیوانات، نباتات سبھی کی بقا ٹکی ہوئی ہے۔ اس کی قدر  و افادیت کا تعین مشکل ہے۔ یہ سب اتنی افراط میں ہیں کہ انسان کو ان کی قدر کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ ذرا ان کے دائرۂ دستیابی کو محدود کردیجیے تو پورے طور پر قدر ابھر آتی ہے۔ انتہائی حبس و امس میں ایک ہلکے سے فرحت بخش ہوا کے جھونکے کی قدر بتلائیے کتنی ہوتی ہے؟ بے آب و گیاہ صحرا میں بھٹکتے ہوئے مسافر کو کہیں دور نظر آنے والا تھوڑا سا پانی کا ذخیرہ اس کی کتنی قدر و منزلت کو بڑھا دیتا ہے، محسوس کیجیے۔ سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں آکسیجن نہیں ہوتی۔ غوطہ خور کی پشت پر لگا ہوا آکسیجن کا سلنڈر کتنا قیمتی و اہم بن جاتا ہے۔ غور کیجیے۔ وہ غوطہ خور اپنی نارمل زندگی میں کبھی دھیان بھی نہیں دیتا کہ سانس کی آمد و شد میں آکسیجن کی کیا اہمیت ہے، کیونکہ افراط اس کا احساس ہی نہیں ہونے دیتی۔ ہاں جہاں آکسیجن کی شدید کمی ہو، وہاں سلنڈر میں بند اس کی محدود و مقدار کی قدر کا احساس کیجیے جو غوطہ خور کی زندگی کی ضمانت ہے۔ یہی صورت اسپتال میں کسی مریض کے سرہانے لگے آکسیجن سلنڈر کی بھی ہے، جہاں محدود و مقدار اس کی زندگی کو قائم رکھنے میں معاون ہورہی ہے۔ یہاں اس سے اور اس کے تیمارداروں سے اس سلنڈر کی قدر و قیمت پوچھیے۔ یہ مثالیں تو مخصوص ہیں۔ آپ تو معمولاتِ زندگی میں دیکھیے کہ جس وقت گھریلو اشیائے صرف کی تعداد میں افراط ہوجائے، ان کی قدر گھٹ جاتی ہے اور جب یہی تعداد بہ وجہ استعمال گھٹنے لگے تو بتدریج قدر و منزلت بڑھنے لگتی ہے۔ خرچ میں سلیقہ و تنظیم بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ احتیاط بھی برتی جانے لگتی ہے اور یہ سارے افعال قدر و منزلت کا ہی عکس ہوتے ہیں۔ مریض کی نازک حالت میں بروقت ڈاکٹر کی دستیابی اس کی قدر کو کتنا بڑھا دیتی ہے، سوچیے۔

معاشیات میں قدر کا اہم رشتہ قیمت سے ہے۔ کسی شے کو حاصل کرنے کے لیے جو ہم قیمت ادا کرتے ہیں، وہ دراصل اس شے کی قدر کا پیمانہ ہوتی ہے۔ نایاب ہیرے یا کسی تاریخی نادر و نایاب اشیا کی انتہائی بلند قیمت اس کے نادر و نایاب ہونے کی قیمت ہے اور صاحب حیثیت اس کو حاصل کرکے گویا ایک منفرد عظمت و حشمت کے احساس کی تسکین کرتا ہے۔ قیمت کی ادائیگی کی استعداد، جس کو ہم قوتِ خرید کہتے ہیںا ور جس کو آمدنی کی سطح سے ناپا جاتا ہے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے قدر کی نوعیتیں بھی جداگانہ ہوتی ہیں، لیکن جداگانہ ہونے کے باوجود مطمئن ہونے کی سطح (Level of Satisfaction) مساوی رہتا ہے۔ اگر ایک صاحب حیثیت کے لیے قیمتی کار اس کو کسی قدر و قیمت کی سطح کا  احساس کراکر مطمئن کرتی ہے، تو کسی دوسرے کم صاحب حیثیت شخص کو اسی قدر و قیمت کا احساس موٹر سائیکل یا محض سائیکل کراسکتی ہے۔ یہاں قوت خرید کے فرق کے باوجود قدر کی سطح اور نتیجتاً مطمئن ہونے کی سطح مساوی ہوگی۔ ایک کروڑپتی کے لیے ادنیٰ کرنسی نوٹ، کوئی قدر و قیمت نہ رکھتا ہو، اس کو دیکھ کر اس کے ذہن میں کوئی جھماکا نہ ہو،آنکھوں میں کوئی چمک پیدا نہ ہو لیکن کسی فقیر، نادار و غریب سے پوچھیے کہ وہ اس کی کیا قدر و قیمت آنکتا ہے۔ ایک وقت پیٹ کی آگ بجھ جانے کا یقین اس نوٹ کی قدر و قیمت کو اس کی نگاہ میں کن اونچائیوں پر پہنچا دیتی ہے، ذرا سوچیے اس کے لیے اس نوٹ کی قوتِ خرید کی عظمت کا احساس کیجیے۔ قیمت سے منسلک قدر و قیمت کی باقاعدہ تشریح بعد میں دوں گا۔ ابھی تو محض معاشیات کے دائرے میں قدر کا تعارف پڑھیے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت اور کرتا چلوں کہ قیمت جو قوتِ خرید کا مظہر ہے، قدر کا پیمانہ بنتی ہے، لیکن بلند قیمت ہونے پر کمزور یا پست قوتِ خرید والے اگر اس شے کو حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ ان کو اس شے کی قدر کا احساس نہیں ہے۔ یہ شخص اس شے کے افادہ سے بخوبی واقف ہے لیکن فی الوقت اس کی نگاہ میں اس شے کی قدر اس لیے نہیں ہے کہ اس کو خرید کر اپنے مصرف میں لانے کا اہل نہیں ہے۔

مدتِ وقت (زمانہ) اور فاصلے بھی قدر اور اس کے معیار کا تعین کرتے ہیں۔ شراب کہنہ کی بڑی قدر ہے، بڑی اونچی قیمت ہے۔ محض اس لیے نہیں کہ کمیاب ہے۔ دیگر شرابوں کی دستیابی کے مقابلے محدود ہے بلکہ اس لیے بھی اس کی تیاری میں دوسری شرابوں کے مقابل، زیادہ وقت لگا ہے۔ اب جتنا وقت زیادہ لگے گا (جتنی کہنہ ہوگی) اتنی ہی قیمتی ہوگی، اتنی ہی زیادہ اس کی قدر ہوگی۔ چاول کے کچھ اقسام بھی قیمت و مدت کے لحاظ سے اپنی قدر و قیمت بڑھاتے ہیں۔ یہی صورت فاصلے کی ہے۔ گنگا کے کنارے رہنے والوں کو گنگا کی پاکیزگی کا وہ احساس نہیں جتنا ان کو جو اس سے بہت فاصلے پر رہتے ہیں۔ حرم شریف سے متصل رہنے والوں کے دلوں میں وہ عقیدت نہیں ہوگی جو اس سے ہزاروں میل دور دراز ملکوں میں رہنے والوں کے دلوں میں ہوگی۔

انسانی شعور کی بالیدگی بھی قدر کی سطح کو طے کرتی ہے۔ نوجوانوں میں ہوسکتا ہے کہ بہت سی اشیائے خدمات کی فی الوقت کوئی قدر نہ ہو لیکن طویل عمر کا تجربہ رکھنے والے بزرگ، عمر کے نشیب و فراز کو جھیل کر دور بینی پیدا کرنے والے معمر حضرات واقف ہیں کہ آئندہ آنے والے زمانے میں ان کی کیا قدر ہوگی۔ انسان میں پس اندازہ کرنے کا جذبہ اسی پختہ شعور سے پرورش پاتا ہے اور بیشتر وہی حضرات زیادہ مطمئن نظر آتے ہیں جو حال کے ساتھ ساتھ مستقبل پر بھی نگاہ رکھتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے جو مستقبل کی قدر و قیمت کو حال میں طے کرتے ہیں۔

یوں تو قدر کی کثیرالجہتی سمتیں ہیں لیکن معاشیات نے اس کو ایسی صفت یا قوت سے آنکا ہے جو انسان کی کسی ضرورت کی تسکین کا وسیلہ بن جائے۔ قیمت کی ادائیگی اسی سے منسلک ہے اس لیے قدر کو قیمت کے توسط سے بھی متعارف کرایا جاتا ہے۔ اب میں خالص معاشیات کے دائرے میں رہ کر قانونِ قدر کی وضاحت کروں گا۔

اقتصادیات کی کتابوں میں بتلایا گیا کہ اگر دیگر باتیں یکساں رہیں تو صرف کی پہلی اکائی (یونٹ) سب سے بلند قدر دے گی اور جیسے جیسے صرف کی یہ اکائیاں بڑھتی جائیں گی۔ ہر اگلی اکائی پر قدر کی سطح گھٹتی جائے گی۔ صرف کی ایک سطح وہ ہوگی جہاں قدر صفر ہوجائے گی اور یہی سطح اطمینان کل 'Maximum/ Optimum Satisfaction' کی ہوگی۔ا س سطح کے بعد اگر مزید صرف کی اکائیوں کو بڑھایا جاتا ہے تو قدر بجائے مثبت ہونے کے منفی ہوجائے گی یعنی غیر مطمئن (Dis-satisfaction) ہونے کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ اب اس کی وضاحت چند روزمرہ کے امور سے کیجیے اور دیکھیے کہ یہ قانون کہاں تک صحیح ہے۔ آپ کو جس وقت شدید پیاس لگی ہو تو پانی سے بھرے گلاس کا پہلا گھونٹ جو فرحت و آسودگی کا احساس کرائے گا، دوسرا گھونٹ اس سے کم اور آخری گھونٹ سب سے کم کرائے گا۔ اب یہ بات دیگر ہے کہ پیاس ایک گلاس پانی سے بجھتی ہے یا دو گلاس پانی سے۔ اگر دوسرے گلاس کی بھی ضرورت محسوس ہورہی ہے تو اس کا آخری گھونٹ سب سے کم آسودگی کا احساس کرائے گا۔ یہی بات بھوک میں کھانے پر بھی صادق آتی ہے۔ بھوک میں کھانے کا پہلا نوالہ جو آسودگی کا احساس کرائے گا، دوسرا تیسرا نہیں۔ ہر نوالے پر آسودگی بتدریج گھٹتی جائے گی اور یہاں تک کہ آخری روٹی یا نوالہ سب سے کم آسودگی دے گا۔

پیاس میں پانی کے ہر گھونٹ کے ساتھ اور بھوک میں ہر نوالے کے ساتھ احساسِ تسکین بڑھتا جائے گا۔ اس لیے ہر اگلے گھونٹ یا ہر اگلی روٹی یا اگلے نوالے میںسے قوت تسکین گرتی جائے گی۔ ہر شے کے استعمال پر یہ قانون صادق آتا ہے۔ آپ ملبوسات کی تعداد لے لیجیے۔ کار، سائیکل کی تعداد لے لیجیے۔ مکان لے لیجیے۔ جس کی آپ کو ضرورت ہے اس کی پہلی اکائی سب سے زیادہ تسکین کا ذریعہ بنتی ہے اور جیسے جیسے اس کی تعداد میں اضافہ کرتے جاتے ہیں، ہر اگلا اضافہ سابقہ اکائی کے مقابل تسکین کا احساس کم کراتا ہے۔ اس قانون کے لیے بھی شرائط ہیں جن کو سمیٹ کر ہم ’اگر دیگر باتیں یکساں رہیں‘ کے جملے میں بیان کرتے ہیں۔ اس قانون کے صحیح طور پر نافذ ہونے کے لیے پہلی شرط یہی ہے کہ انسان معقول فکر و ذہن کا ہو۔ کنجوس اور ہوس والے انسان کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ Rational Human Beingہی جب کسی چیز کا استعمال کرتا ہے تو اس شے کی پہلی اکائی میں سب سے زیادہ تسکین کا احساس کرتا ہے اور ایک سطح وہ آتی ہے جب وہ اس شے کی آخری اکائی سے سب سے کم تسکین پاتا ہے یعنی اس کی ضرورت مکمل طور پر پوری ہوگئی اور وہ پورے طور پر مطمئن ہوگیا۔ یہ صفت کنجوس اور ہوس والے انسانوں میں نہیں پائی جاتی۔ اس لیے اس قانون کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا۔

دوسری شرط یہ ہے کہ استعمال کے اوقات اور کوالٹی و اقسام میں تبدیل نہ ہو۔ اگر آپ پیاس میں وقفہ دے کر پانی پیتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ ہر وقفہ کے بعد پہلا گھونٹ مساوی تسکین دے یا اگر پہلا گھونٹ سادہ پانی کا پیا اور دوسرا گھونٹ ٹھنڈے پانی کا پیا تو دوسرا گھونٹ پہلے کی بہ نسبت زیادہ تسکین دے۔ یہی صورت بھوک میں کھانے کی ہے۔ اگر پہلا نوالہ باسی روٹی کا لیا اور دوسرا تازہ و گرم روٹی کا تو دوسرا نوالہ زیادہ تسکین دے گا یا کھانے کے درمیان کوئی اچھی اور زیادہ ذائقہ دار چیز سامنے آگئی تو اس کا نوالہ سابقہ نوالوں کی بہ نسبت زیادہ تسکین کا احساس کرائے گا۔ یہی صورت وقت کے بدلنے میں پیدا ہوسکتی ہے۔ بھوک کا اپنا ایک وقت ہے۔ اگر وہ ٹل گیا اور بے وقت کھانا کھایا تو وہ تسکین حاصل نہیں ہوگی یا معینہ وقت سے بہت پہلے، یعنی بھوک سے قبل، کھالیا تو بھی وہ تسکین حاصل نہیں ہوگی۔

تیسری شرط انسان کی آمدنی، مقام اور ذہنی سطح کی ہے۔ ان سب میں بھی تبدیلیاں و تغیر نہیں ہونا چاہیے۔ کسی ذہنی انتشار میں یہ قانون منطبق نہیں ہوتا۔ یہی حال آمدنی کے تغیر اور مقامات کی تبدیلیوں کا ہے۔ آمدنی کے اتار چڑھاؤ سے ترجیحات بدلتی ہیں اور اسی کے ساتھ مطمئن ہونے کی سطح بدلتی ہے۔ گندی بستیوں سے نکل کر صاف ستھرے ماحول میںا ٓکر رہنے، گاؤں قصبوں سے نکل کر بڑے شہروں میں آکر بسنے، انتہائی گرم موسم سے گھبرا کر کسی ٹھنڈے اور فرحت بخش مقام پر چلے جانے سے بھی ہمارے مطمئن ہونے کا معیار تبدیل ہوجاتا ہے اور قانونِ قدر منطبق نہیں ہوتا۔ یہی صورت اچانک خوشی یا اچانک غم و صدمے کی بھی ہے۔ ان دونوں ہی صورتوں میں یہ قانون فعال نہیں رہتا۔

گویا قانون قدر ایک نارمل صورت حال میں فعال رہتا ہے۔ یعنی کوئی غیرمعمولی کیفیت اس کے عمل میں مانع نہ ہو۔ اب اگر ان تمام بیانیہ تفصیلات کو سمیٹ کر ہندسوں اور شکلوں میں منتقل کردیا جائے تو شاید قانون اپنی ’عملی شکل‘ میں واضح ہوجائے گا۔ میں ایک چھوٹی سی مثال کو ہندسوں اور شکل میں منتقل کررہا ہوں۔ تصور کیجیے آپ کو شدید پیاس لگی ہے۔ قانون یہ بتلاتا ہے کہ پیاس کی شدت میں پانی سے بھرے گلاس کا پہلا گھونٹ سب سے زیادہ تسکین کا باعث ہوگا۔ یعنی اس کی قدر سب سے بلند ہوگی۔ اب اگر یہ بلندی 80 مان لی جائے تو پہلے گھونٹ کی قدر 80 کی سطح کو مس کرے گی۔ اب پانی کا دوسرا گھونٹ بھی یقینا بہت تسکین دے گا لیکن یہاں تسکین کا احساس سابقہ پہلے گھونٹ کے مقابل تھوڑا کم ہوگا۔ یہاں مان لیجیے یہ سطح 70 رہتی ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ آپ گھونٹ گھونٹ پانی پیتے رہیں گے، پیاس دھیرے دھیرے بجھتی رہے گی اور ایک سطح وہ آئے گی جب آپ کو مزید پانی کی کوئی خواہش نہیں ہوگی۔ یہ کامل تسکین کی سطح ہے جہاں پانی کی قدر صفر ہوجائے گی۔ اب اس کے بعد کسی کے اصرار پر بہ لحاظ تہذیب، آپ نے مزید پانی پی بھی لیا تو معاشیات کے دائرے میں اس کی قدر منفی ہوگی، یعنی بجائے تسکین کے بے لطفی کا احساس پیدا کرے گی۔ یہی صورت بھوک میں کھانے کی ہے۔ پوری بھوک میں پہلی روٹی یا پہلا نوالہ سب سے بلند قدر کا احساس کرائے گا اور جیسے جیسے نوالوں کی تعداد بڑھتی جائے گی، چونکہ بھوک مٹتی جائے گی اس لیے ہر اگلا نوالہ سابقہ نوالے کے مقابلے میں کم قدر کا احساس کرائے گا۔ یہاں تک کہ جب پیٹ بھر جائے گا تو روٹی یا نوالے کی قدر صفر ہوجائے گی۔ اب اس کامل تسکین کے بعد اگر کچھ کھایا تو بجائے تسکین کے تکلیف کا احساس ہوگا، یعنی قدر منفی ہوجائے گی۔ اس کی وضاحت ذیل کے نقشہ میں دیکھیے۔

یہاں صرف پانی کی مثال لی گئی ہے جہاں ہر گھونٹ کی افادیت (قدر) بہ تدریج گھٹتی جائے گی۔ یہاں تک کہ آٹھویں گھونٹ پر پیاس بجھ جاتی ہے۔ یہ مکمل تسکین کی سطح ہے جہاں قدر صفر ہوجاتی ہے۔ اب اس کے بعد مزید پانی کے گھونٹ کوئی افادیت کا احساس نہیں کراتے بلکہ منفی قدر کا احساس کراتے ہیں۔ اسی کیفیت کو ذیل کی شکل میں گرتے ہوئے خط کے ذریعے دکھلایا گیا ہے۔ اس قانون کی وضاحت کے لیے یہ انتہائی آسان سی مثال لی گئی ہے لیکن دراصل صرف کا عمل پیچیدہ ہے۔ آپ بھوک میں اگر کھانے کی مثال ہی لیں تو آپ کے سامنے تین طرح کے مختلف ذائقے کی ڈشیں عموماً ہوتی ہی ہیں اور بھوک میں ہر ایک سے افادہ کا احساس ہوتا ہی ہے۔ کسی ڈش میں بہت زیادہ اور کسی میں کم۔ یہی حال دیگر مصرف میں آنے والی اشیا کا ہے۔ اس پیچیدگی کا حل یہ نکالا گیا کہ ہم افادہ (قدر) کو مجموعی (یعنی کل) اور حاشیائی یعنی اضافی افادہ میں تقسیم کرکے اس قانون کی وضاحت کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں کل افادہ بڑھ رہا ہے۔ لیکن بڑھنے کا انداز مسلسل گھٹنے کا انداز اختیار کیے ہوگا یعنی حاشیائی یا اضافی افادہ (قدر) تسلسل سے گھٹ رہا ہے جو قانون  قدر کو واضح کررہا ہے۔ مثلاً ذیل کے ٹیبل کو غور سے دیکھیے:

اب ان تفصیلات کو اور سمیٹیے اور مختصراً حروف تہجی کی مدد سے یوں واضح کیجیے۔ اگر یہ وضاحتیں ذہن میں ہیں توریاضی والجبرے کے چھوٹے فارمولوں کے ذریعے یہی بات مختصر طور پر اور زیادہ جامع اندازمیں کہی جاسکتی ہے۔

ہم کل افادہ یعنی مجموعی قدر کو کسی شے x کی مقدار صرف کا عمل کہہ سکتے ہیں۔ اسی بات کو آپ Tu=f(x) کی طرف کہہ سکتے ہیں۔ اگر آپ ٹیبل میں دیکھیں تو قدر کی بلند ترین سطح 20 ہے۔ حاشیائی قدر کا کل میزان بھی 20ہے۔ اس طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ TU=E     MU یعنی کل مجموعی قدر حاشیائی قدر کا مجموعہ ہے۔ یہاں "   " نشان مجموعہ کو بتلاتا ہے۔

حاشیائی یا اضافی قدر کو بھی اس طرح سمیٹ کر ایک فارمولے کی شکل میں واضح کیا جاسکتا ہے۔ حاشیائی قدر سابقہ قدر کے اضافہ کا ہی نام ہے۔ اس لیے کسی سطح پر جو قدر کی سطح ہے اس کو سابقہ قدر کی سطح سے گھٹا دیا جائے تو جو اضافہ ہوگا، وہی اضافہ قدر ہوگی۔ مثلاً ہمارے ٹیبل میں مقدار صرف 2 پر جو قدر کی سطح ہے، وہ 14 ہے۔ اس سے قبل کی سطح 8 تھی۔ اس لیے اگر 14 میں سے 8 کو گھٹا دیا جائے تو اضافی قدر 6 ہوگی۔ اسی طرح صرف کی سطح 3 پر قدر 18 ہے۔ جب کہ سابقہ قدر 14 ہے تو اس طرح سطح 3 پر حاشیائی قدر 18-14 یعنی 4ہوئی۔ اب اسی کو فارمولے کے ذریعے ہم یوں کہیں گے: MUnth=Tu nth- TU یعنی حاشیائی قدر، کل قدر منفی سابقہ کل قدر ہوگی۔ اب ٹیبل میں حاشیائی قدر کی نوعیت کو دیکھیے تو وہ متواتر گھٹتی نظر آئے گی۔ جس سطح کو لیں گے اس سے سابقہ  بلند یا بڑی ہوگی یعنی 2 سے بلند 4 اور 4 سے بلند 6 وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح MU 1 بڑی ہے MU2 سے اور MU2 بڑی ہے MU3سے۔

یہ قانون اتنا معتبر ہے کہ آپ بالعموم ہر طرح کے صرف پر اس کا اطلاق کرسکتے ہیں۔ ہاں کچھ مخصوص اشیا ایسی ضرور ہیں جن پر اس قانون کو منطبق نہیں کیا جاسکتا ہے۔ قیمتی پتھر، تاریخی نواردرات، قیمتی مصوری کے شاہکار، ڈاک ٹکٹ وغیرہ، لیکن چونکہ ان کاا ستعمال یا ان کی طلب سماج کے مخصوص طبقے سے تعلق رکھتی ہے اس لیے یہ اشیا خصوصی ضمن میں آتی ہے۔ ورنہ بالعموم عوام کا جو عمومی صرف کا انداز ہے، وہاں یہ قانون قدر پوری طور پر اثرانداز ہوتا ہے۔ خصوصی ضمن کی اشیا میں ان کی حاشیائی قدر بجائے گھٹنے کے ہر اکائی کے بڑھانے پر بڑھتی رہتی ہے۔

معاشیات کا نظریۂ قدر آپ کے صرف کے عمل سے خاموشی کے ساتھ لپٹا ہوا ہے۔ آپ کے ذہن، طبیعت و مزاج اور سوچ و فکر کے ساتھ وابستہ ہے۔ اب یہ بات اور ہے کہ اہلِ معاشیات نے اس پر خصوصیت سے توجہ کی اور ایک نظریہ و قانون کی شکل دے کر صارفین کے طرزِ عمل (Consumer Behaviour) کے تحت اس کو متعارف کرایا اور زیادہ سے زیادہ سائنٹفک بنانے کی خاطر مختلف النوع ریاضی والجبرے اور جیومیٹری کی پرپیچ شکلوں کے ذریعے اس کی تشریحات پیش کیں۔ ان تمام مشقتوں میں مرکزی کردار تو صارف اور اس کے طرمِ عمل کا ہی ہے جس کو پورے طور پر مقید نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں موٹے طور پر اس کے طرزِ عمل کی جو شناختیں، معقولیت کے دائرے واضح ہیں ان کی عکاسی یہ قانون ضرور کرتا ہے۔ اس نظریے کو مزید بہتر طور پر خطِ بے نیازی (Indifference Curve) کی صورت واضح کیا گیا جس کو آئندہ بیان کروں گا۔

 

ماخذ: اقتصادیات برائے عوام، مصنف: سید اطہررضا بلگرامی،  سنہ اشاعت: 2014، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...