4/9/24

مصنوعی ذہانت اور ہمارا شعور،مضمون نگار: محمد جہاں گیر وارثی

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024


آرٹیفیشیل اینٹیلی جنس  (Artificial Intelligence) جسے ہم مصنوعی ذہانت بھی کہتے ہیں۔ دراصل کمپیوٹر سائنس کی وہ ترقی یافتہ اور ایڈوانسڈ شاخ ہے جس کا مقصد اور کام مشینوں کے اندر انسانی دماغ کی طرح سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینا ہے۔ انسانی دماغ جس طرح کسی مسئلے کو حل کرتے وقت اس کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کرتا ہے اور پھر دلیل کی بنیاد پر کسی فیصلے تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح مصنوعی ذہانت کے ذریعے مشینوں کے اندر بھی ایسی ذہانت اور شعور کو فروغ دیا گیا ہے جو ہوبہو انسانوں کی طرح سوچ سکتے ہیں۔

مصنوعی طور پر فروغ دیے گئے عقل و شعور اور ذہانت کو استعمال کرنے کے لیے کمپیوٹر پروگرام اور صلاحیت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی بے مثال صلاحیت اورعمل کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ تمام کام جو ماضی میں ایک مشین کے لیے روایتی طور پر ناممکن تصور کیے جاتے تھے آج مصنوعی ذہانت نے ان سبھی کاموں کو سچ کر دکھایا ہے۔ اس طرح انسان اور مشین کے درمیان جن نکات کی بنیاد پر عموماً فرق کیا جاتا ہے اسے وسیع پیمانے پر کم کرنے میں مصنوعی ذہانت کا بہت بڑا رول ہے۔

مصنوعی ذہانت کا استعمال آج تعلیم، معاشیات، دفاع اور زراعت سے لے کر صحت کے مختلف شعبوں میں کیا جا رہا ہے۔ دنیا کی ایڈوانسڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ریسرچ، ٹیسٹ، علاج و معالجے اور نگرانی (مانیٹرنگ) کے لیے اس کا استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے ذریعے ٹشو سیمپل  (Tissue Sample) کا نہ صرف تجزیہ کیا جا سکتا ہے بلکہ کہیں زیادہ درست اور بہتر علاج بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ صحت سے متعلق بہت ساری کمپنیاں لاتعداد کیمیکل کمپاونڈ کا تجزیہ کرنے میں مصنوعی ذہانت سے مدد لے رہی ہیں۔ جس سے کہ طبی دریافت میں تیزی لائی جا سکے اور ادویہ جاتی ٹیسٹوں کے اندر مفید اور سودمند عناصر کی پہچان آسانی سے کی جا سکے۔ خطرناک بیماریاں جیسے کینسر، اسٹروک وغیرہ کے علاج میں بھی مصنوعی ذہانت کا کامیاب استعمال ہو رہا ہے۔

تعلیم کے شعبے میں بھی مصنوعی ذہانت کے نئے نئے استعمالات لگاتار سامنے آرہے ہیں۔ یہ طالب علموں کی ذاتی ضرورتوں اور ترجیحات کے مطابق تعلیمی مواد تیار کر سکتا ہے۔ اس طرح مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیز رفتار تعلیمی نظام نہ صرف طالب علموں کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے بلکہ ضرورت کے مطابق گریڈنگ (درجہ بندی) ایویلیوشن (جانچ پرکھ) میں بھی مزید تعاون فراہم کر سکتا ہے۔ دہرا نے (تکرار) والے کاموں کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے انجام دیے جانے کے نتیجے میں اساتذہ کو طالب علموں کے باہمی صلاح و مشورے کے لیے اضافی وقت مل سکے گا۔ ساتھ ہی ساتھ مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس (Robotics) سے ورچوئل انسٹرکٹر  (Virtual Instructor) کا بھی کام لیا جا سکتا ہے تاکہ سیکھنے کے تجربے کو اور بہتر بنایا جا سکے۔

 چونکہ مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشیل اینٹیلی جنس کا استعمال دنیا بھر میں بہت تیزی سے ہو رہا ہے، ایسے میں سیکیوریٹی، رازداری، اور شفافیت سے متعلق تفکرات کا ابھرنا ایک فطری عمل ہے۔ اگر چہ ان تفکرات کے کئی درجات اور سطحیں ہیں۔ لہٰذا نفسیاتی اور معاشرتی سطح پر ابھرتے ہوئے مسائل کے اوپر خصوصی طور پر دھیان دینے اور توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔ ’جائے عمل‘  (Work Place) پر نگرانی کی خاطر مصنوعی ذہانت اور انسان نما ’روبوٹ‘ کے استعمال سے ملازمین کے اندر لگاتار اپنے آپ کو ثابت کرنے کی مسابقت اورامتداد زمانہ کے ساتھ ان کی دماغی صحت کے اوپر مضر اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت کی تکنیکی کارکردگی اور اعلی عملی صلاحیت کے سامنے ٹکے رہنے اور خود کو مسلسل متعلق رکھ پانے کا چیلنج بھی لگاتار بنا رہتا ہے، آج کل ’ڈیپ فیک‘ (Deep-Fake) ویڈیوز سے لے کر ’آن لائن بیٹوس‘ (Online Betose) تک کا رواج ہے جو کسی بھی انسان کی شخصی عزت و وقار کی کھلے عام خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی لوگوں کے درمیان عمومی اتفاق و حمایت کا مظاہرہ کرکے ان کے افکار ونظریات کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ فرضی خبروں، اور ویڈیوز وغیرہ کی برق رفتار نشر و اشاعت سے سماجی و معاشرتی عدم استحکام اور بدامنی کا خطرہ برابر برقرار ہتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ خوف و ہراس کی وہ تمام شکلیں جو کبھی محض تصور و خیال تک محدود تھیں اب مصنوعی ذہانت کے ذریعے حقیقت میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے تکنیکی وجود نے ایک ایسا سنگین منظر نامہ تشکیل کر دیا ہے جس کے اندر اوریجنل یعنی حقیقی اور مصنوعی (Artificial) کے درمیان فرق کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔

 یہ صحیح ہے کہ مصنوعی ذہانت کی بنا پر انسانی حقوق سے وابستہ مختلف چیلنجوں کے ابھرنے کے امکانات بہت قوی ہو گئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی بنا پر تیزی سے بدلتے منظر نامے میں ڈاٹا (اعداد و شمار) کا تحفظ، ذاتی رازداری، انسانی تحفظ و سیکیورٹی، عزت و وقار، روزگار، مساوات و برابری، اور ’رازداری‘ وغیرہ بہت سارے ایسے امور و مسائل ہیں جن کے اوپر منڈلاتے خطرات کے تناظر میں قبل از وقت متنبہ اور خبردار ہو جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات پر خصوصاً دھیان دینا ہوگا کہ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت سے متعلق تکنولوجیاں فروغ پاتی جائیں گی ویسے ویسے انسانی حقوق سے وابستہ معاملوں پر پڑنے والے ان کے منفی اثرات کا تجزیہ کرنے اور ان کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت بھی شدید ہو تی جائے گی۔

چاہے تعلیم، مینجمنٹ اور تکنیک کا شعبہ ہو یا کوئی اور شعبہ، جائے عمل (Work Place) ان کے اوپر مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے روز افزاں اثرات عالمی پیمانے پر شدید تشویش کا موضوع بنتے جا رہے ہیں۔ تکنیکی مہارت، تجزیہ کرنے کی بے مثال صلاحیت اور دوہرا یعنی مکرر طور پر انجام دیے جانے والے کاموں میں مصنوعی ذہانت کے کام کرنے کی صلاحیت کی بنا پر مستقبل میں ملازمین کی مانگ میں خاطرخواہ کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ انھیں عدم مساوات یعنی نابرابری سے متعلق مسائل اور مشکلات سے بھی نبرد آزما ہونا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا مصنوعی ذہانت کے ذریعے کاموں کی انجام دہی کی بنا پرانسانی قوت اورمحنت و مشقت کی ضرورت بتدریج کم ہوتی چلی جائے گی۔

ماہرین کے ذریعے علاج معالجہ، قانون، مارکیٹنگ اور اکاونٹنگ وغیرہ کے شعبوں کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ایسے حالات میں انسانی قوت محنت و مشقت کے اوپر منڈراتے ہوئے خطرات کو کم کرنے کے مقاصد کے مدنظر مناسب لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہو گی۔ ملازمین کی ٹریننگ کو لگاتار اپڈیٹ کرنا ہوگا۔ جدت و اختراع کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ اگر مصنوعی ذہانت مرکوز منظر نامے میں اپنا مقام و مرتبہ محفوظ کرنی ہے تو خود اپنی ذات کے اندر تکنیکی صلاحیت و مہارت کو فروغ دینے پر توجہ مبذول کرنی ہوگی۔ سوفٹ اسکل (تکنیکی شعور) کو فروغ دینا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مصنوعی ذہانت، ابھی بھی، شعور، ادراک اور تخلیقیت سے کوسوں دور ہے۔ لہٰذابدلتی ہوئی صورت حال کے اندر تیزی کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرکے خصوصی مہارت (Specific Skills)اور علوم (سائنس) کو فروغ دینا انسانی معاشرے کے لیے اہم اور سودمند ہو سکتا ہے۔

 انسان کی تخلیقیت اس کے ذاتی تجربات، تخیلات اور خارجی دنیائے حیات سے حاصل شدہ علم میں تپ کر تخلیقی اظہاریت کی مکمل شکل اور صورت اختیار کرتی ہے مگر مصنوعی ذہانت پوری طرح (ڈاٹا) اعداد و شمار کے تجزیے اور ایک طے شدہ پیٹرن پر مبنی اور منحصر ہے، یہ انسانی جذبات و احساسات کے مطابق برتاؤ نہیں کرسکتا، اس کے اندر جذباتی شدت و گہرائی، معقول نقطہ نظر اور سیاق و سباق یعنی گردوپیش سے پیدا شدہ صورت حال کے تئیں وسیع سوچ اور سمجھ کا فقدان ہے۔ ابھی بھی، ترحم و ہمدردی، تصور و تخیل، شعور و ادراک اور تخلیقیت جیسی خصوصیات انسان کی میراث ہیں۔ مصنوعی ذہانت ان سے مکمل طور پر خالی ہے۔ ایسی صورت حال میں اس تشویش کا اظہار کرنا لایعنی ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانی تخلیقیت کو پوری طرح نیست و نابود اور برباد کردے گی۔

انسانی زندگی کے اندر مصنوعی ذہانت کا بہت زیادہ عمل و دخل باعث تشویش ضرور ہو سکتا ہے، مگر اس بات کو لے کر مطمئن بھی ہوا جا سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کبھی بھی پوری طرح انسان کی جگہ نہیں لے سگے گی۔ بالآخر انسان ہی حقیقت وواقعیت (Originality)اور جدت و اختراع Innovation  کا آخری منبع اور سرچشمہ بنا رہے گا، اس کے لیے ہم انسانوں کو اپنی سطح پر بھی مزید کوششیں کرنی ہوں گی، ہمیں نہ صرف اپنی بیداری بڑھانی ہوگی بلکہ اس کے محفوظ اور سودمند استعمال کے سلسلے میں خود کو تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔

 مصنوعی ذہانت نے انسانی زندگی کو قدرے سہل اور آسان بنا دیا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر اس کے اندر لامحدود امکانات پائے جاتے ہیں تو اس سے پیدا ہونے والے چیلنجوں اور خطرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آج مصنوعی ذہانت زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکی ہے، مواصلات، سیکیورٹی، صحت اور زراعت وغیرہ کے مختلف شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے مستقبل میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ ہمارے ملک بھارت میں بھی مصنوعی ذہانت کو لے کر شروع سے ہی مثبت ماحول رہا ہے۔ حالانکہ موجودہ زمانے میں اپنے اپلی کیشنز (استعمالات) کے ذریعے انسانی، سماج اور معاشرے کے لیے سودمند ہی ثابت ہو رہی ہے مگر معاشرتی (سماجی) سیاسی، نفسیاتی اور اخلاقی بنیاد پر مصنوعی ذہانت سے متعلق اور وابستہ بہت سارے سوالات معاشرے میں پیدا ہو رہے ہیں جو اس کے ممکنہ خطرات کی جانب لازمی طور پر اشارہ کر رہے ہیں۔

یقینا مصنوعی ذہانت انسان کے سیاسی حقوق و اختیارات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس کے اندر تعصب اور امتیازات بھی پائے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ استدلالی صلاحیتوں سے بھرپور مشینیں مستقبل میں کبھی انسانی معاشرے کو ہی اپنا دشمن سمجھ بیٹھیں تو ذہانت سچائی اور حقیقت کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے مصنوعی ذہانت کی سنگینی کو بھانپ کر اس کے خلاف نہ صرف اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے بلکہ اس سے متعلق سخت قوانین وضع کرنے کی بھی تائید کی ہے۔

بلاشبہ مصنوعی ذہانت نے موجودہ معاشرہ انسانی کے اندر محیر العقول تکنیکی انقلاب برپا کرد یا ہے۔ جس سے روزانہ نت نئی ایجادات اور انکشافات منصہ شہود پر نمایاں اور آشکارہ ہو رہے ہیں جس کو ماننے پر نہ صرف دنیائے بشریت مجبور ہے بلکہ اس کا بروقت اور مناسب استعمال کرکے گھنٹوں کا کام منٹوں میں انجام دے رہی ہے جیسے چیٹ جی۔ پی۔ٹی  کے ذریعے کسی بھی موضوع پر متوقع مواد اور میٹرئیل فراہم کیا جا سکتا ہے۔ مقالہ تیار کیا جا سکتا ہے اور دنیا کی تقریباً تمام مروجہ زبانوں سے اپنی من پسند زبانوں میں ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ نیز وہ اعداد و شمار جس کی تیاری میں ذہن انسانی کو روایتی طور پر گھنٹوں بلکہ مہینوں کی محنت شاقہ درکار ہوتی تھی اسے بغیر کسی رکاوٹ اور تھکاوٹ کے گھنٹوں اور منٹوں میں تیار کیا جا سکتا ہے۔ نیز کارخانوں اور فیکٹریوں کے اندر جن کاموں کو انجام دینے کے لیے انسانوں کی جماعت اور مزدوروں کے منظم گروہ کو اپنے ذہن و دماغ اور دست و بازو کو بروئے کار لاتے ہوئے ہفتے اور مہینے درکار ہوتے تھے اسے ایک مخصوص پیٹرن پر بغیر کسی تھکاوٹ اور رکاوٹ کے چند ساعتوں اور دنوں میں انجام دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح محاذ جنگ پر اب تک دشمن کو روایتی طور پر مرعوب اور زیر کرنے کے لیے جہاں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں انسانی افواج کی ضرورت ہوا کرتی تھی ان کی جگہ ایسی روبوٹک آرمی (Robotic Army) یعنی انسان نما فوجی مشینیں لے لیںگی، جو بٹن دباتے ہی منٹوں اور سیکنڈوں میں سیکڑوں راونڈ گولیاں دشمن کی جانب داغ سکتی ہیں۔ یا ایسے ڈرونز (Drons) (بغیرپائلٹ کے ہوائی جہازوں) کا چلن عام ہو جائے گا جو دشمن ملک کی سرحدوں میں داخل ہو کر منٹوں میں لاتعداد بم برسا سکتے ہیں۔ نیز ایسی آٹومیٹک کاریں بھی وجود میں آگئی ہیں جو بغیر کسی ڈرائیور کے محض مصنوعی ذہانت یعنی  (Artificial Intellegence) سے گائیڈیڈ ہوتی ہیں اور اپنی منزل مقصود تک برق رفتاری کے ساتھ پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں تاہم یہ ابھی تجرباتی مرحلے میں ہی ہے۔ اس کے علاوہ انسانی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہوگا جو مستقبل قریب میں مصنوعی ذہانت کی رسائی اور دست ہنرمند کی کارستانی سے محفوظ رہ سکے۔

مصنوعی ذہانت ایک ایسی سائنسی ایجاد و انکشاف ہے جس کی کارستانی اور دستبرد کا مستقل قریب میں انسانی زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں نہ صرف عمل دخل ہوگا بلکہ اس سے استفادے اور اس کے استعمال پر ابن آدم طو عاو کرھا مجبور ولا چار ہوگا۔ چنانچہ مصنوعی ذہانت جہاں عالم انسانیت کے سامنے امکانات و توقعات کا ایک وسیع دروا کر دے گی وہیں وہ خطرات اور چیلنجوں کے ایک ایسے سیل رواں سے دوچار ہوگی جو اسے خس و خاشاک کی مانند اپنے ساتھ بہا لے جائے گی۔ یعنی جس کی بنا پر انسانی دنیا کے وجود پر ہی خطرات کے بادل منڈلانے لگیں گے۔ مثلاً جائے عمل یعنی (Work Place) پر (Work Force) یعنی قوت عمل (مزدوروں، کرمچاریوں) کے اندر تقریبا چالیس سے پچاس فیصد کی کمی آجائے گی جس سے انسانی معاشرہ لاعملی اور بے روزگاری کا شکار ہو جائے گا جس کے نتیجے میں نت نئے اقتصادی اور معاشرتی مسائل پیدا ہوں گے۔ چونکہ مصنوعی ذہانت کمپیوٹر جنریٹیڈ  (Computer Generated) خود کار مشینوں اور آلوں کے ذریعے کام انجام دیتی ہے اور اس کے اندر انسانی ذہن و دماغ کی مانند سوچنے سمجھنے اور مفوضہ احوال و ظروف  (Given Situation) کے مطابق بروقت فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک بے جان مشین ہوتی ہے جو آلات اور Tools  سے گائیڈیڈ ہوتی ہے جس کے اندر بگاڑ اور خرابی کے امکانات ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں چنانچہ اگر غلط وقت پر کوئی غلط بٹن دب گیا تو اس سے ناقابل تصور تباہی اور نقصانات ہو سکتے ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں ایک خبرنشر ہوئی تھی کہ ایک روبوٹ نے لیباریٹری کے اندر اپنے (مالک) یعنی موجد اور بنانے والے کا ہی گلا دبا کر قتل کر دیا۔

چنانچہ رابرٹ نکوالاس ولیم (1953-1979) پہلا آدمی ہے جس کو روبوٹ نے امریکہ کی ایک مشہور زمانہ فورڈ موٹر کمپنی کی مشیگن کاسٹنگ سینٹر میں قتل کر دیا۔ یا یہ کہ روبوٹ نے گذشتہ سال جنوبی کوریا کے اندر اس ملازم کو کچل دیا جو اس کے ساتھ معاونت کررہا تھا کیونکہ وہ روبوٹ اس ملازم اور ان ڈبوں کے درمیان فرق نہیں کر سکا جن ڈبوں کی پیکیجنگ کا فریضہ وہ روبوٹ انجام دے رہا تھا۔

چونکہ مصنوعی ذہانت کا فروغ و استعمال میدان حرب و ضرب میں بتدریج عام ہوتا جا رہا ہے اور مستقبل کی جنگیں بلاشبہ مصنوعی ذہانت پر مبنی اور مرکوز ہوں گی لہٰذا اس بات کا غالب امکان ہے کہ حقیقی ذہانت یعنی (انسان) اپنی مصنوعی ذہانت یعنی (مشین) کا استعمال غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے نہ کر سکے خصوصاً اگر اس کا استعمال عام تباہی کے ہتھیاروں (WMD کے لیے کیا گیا تو اس روئے زمین پر انسانی وجود وبقا کو جو خطرات لاحق ہوں گے اس کے تصور سے ہی ہر ذی شعور انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے مشہور سائنس دانوں نے اس کی مخالفت کی اور اس سلسلے میں اپنے ذاتی تحفظات اور تعصبات کا اظہار کیا ہے جو کہ یقینا موجودہ معاشرۂ انسانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

 

Prof. M J Warsi

Chairman, Department of Linguistics

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202002 (UP)

Mob.: 9068771999

Email.: warsimj@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...