5/9/24

عادل ناگپوری: فن اور شخصیت، مضمون نگار:محمد اسد اللہ

 ماہنامہ اردو دنیا ،جولائی2024



وسط ہند کا شہر ناگپور ادب کے مشہور مراکز مثلا دہلی، لکھنؤ، لاہور،حیدر آ باد وغیرہ کی طرح ابتدا ہی سے علمی و ادبی سر گر میوں کی آ ماجگاہ نہیں تھا لیکن ان تہذیبی مراکز کی دھڑکنوں سے بیگانہ بھی نہیں رہا۔ اس دعوے کے ثبوت میں شہر ناگپور کی ادبی روایات اور تخلیق کاروں کے رشحاتِ قلم کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ایک اہم نام عادل ناگپوری (1823-1894) کا بھی ہے۔ جہاں عادل ناگپوری، ناگپور کے ایک اہم قدیم شاعر کے طور پر معروف ہیں وہیں ان کی انتظامی خدمات بھی ان کی شخصیت کو قدآوری عطا کرتی ہے۔ وہ ناگپور کے فرمانرواں  رگھوجی بھوسلہ ثالث کے عہد میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔

حالاتِ زندگی

عادل ناگپوری فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر تھے، مختلف زبانوں پر انھیں عبور حاصل تھا۔ عادل کانام سید محمد عبد العلی، کنیت ابوالکاظم اور تخلص عادل تھا۔وہ 1823 میں ناگپور میں پیداہوئے تھے۔۔ ٹیپو سلطان کی شہادت 1799 کے بعد عادل ناگپوری کا خاندان ریاست میسور سے ناگپور میں منتقل ہوا تھا۔عادل ناگپوری نے دینیات کی ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی تھی۔ اس میں قرآن مجید حفظ کیا اور قرأت اور تجوید کے بنیادی اصول سیکھے۔ اس کے بعد وہ ناگپور کے سب سے بڑے مدرسے رسولہ میں داخل کیے گئے۔ عادل ناگپوری رگھوجی بھوسلہ ثانوی کے عہد میں حکومت کی انتظامیہ میں شامل ہوئے اور رگھوجی بھوسلہ ثالث کے دور میں پہلے جمعدا ر اور پھر رسالدار کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ عادل کو دینی علوم اور تصوف سے خصوصی شغف تھا۔آ خر عمر میں وہ کئی عوارض کے سبب بہت کمزور ہوگئے تھے۔ 1894 میں ان کا انتقال ہوا۔

 یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ مشہور محقق اور ادیب و شاعر ڈاکٹر محمدشرف الدین ساحل نے عادل ناگپور ی کو ان کی تمام تر ادبی خدمات کے ساتھ اردو دنیا سے متعارف کروایا اور اس عظیم شاعر کے متعلق تحقیقی کاموں کے لیے راستے ہموار کیے۔انھوں نے کلیاتِ عادل کو مرتب کر نے کے علاوہ عادل ناگپوری شخص،شاعر،نثر نگار ( مطبوعہ 2011) جیسی کتاب لکھ کر عادل ناگپوری کے حالاتِ زندگی اور ان کے فکر و فن کا احاطہ کیا۔ اس کے علاوہ ماہنامہ قرطاس کا عادل ناگپوری نمبر بھی ان کی رہنمائی میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر ساحل نے نہ صرف عادل ناگپوری کے اردو اور فارسی کلام کو محفوظ کیا بلکہ اس پر تحقیق کا حق بھی ادا کیا۔وہ عادل ناگپوری کے حالاتِ زندگی کے متعلق لکھتے ہیں:

عادل جب سنِ شعور کو پہنچے تو رگھوجی ثالث کی انتظامیہ سے وابستہ ہوئے اور ترقی کرکے نائب رسالدار  کے منصب پرفائز ہوئے تھے کہ 11 دسمبر 1853 کو راجہ کا انتقال ہوگیا اور اسی کے ساتھ بھوسلہ حکومت کا چراغ بھی گل ہوگیا۔ انگریزوں کا دورِ حکومت شروع ہوا تو انتظامِ حکومت کی نئی پالیسی وضع ہوئی۔مراٹھی اور فارسی کی جگہ انگریزی زبان نے لے لی اس سیاسی انقلاب کے باعث عادل کی نوکری جاتی رہی اب وہ خاندانی جاگیر اور کھیتی باڑی کی آ مدنی پر گزر بسر کر نے لگے ان کے لیے 1862 میں برٹش گورنمنٹ نے کچھ رقم بھی وظیفے کے طور پر مقرر کی تھی... عادل بھونسلہ راجہ کے خاندان اور انگریز افسران کے بے انتہا وفادار تھے اس لیے 1857 کے تاریخی انقلاب کے بعد ان کی جاگیر محفوظ رہی۔اس انقلاب کے بعد بیشتر مسلم خاندان تلاشِ معاش میں دوسرے شہروں میں منتقل ہوگئے لیکن عادل ناگپور ہی میں مقیم رہے۔

(ڈاکٹر شر ف الدین ساحل،  عادل ناگپوری، شخص، شاعر، نثر نگار، 2011، ص27)

 عادل ناگپوری غالب، مومن اور ذوق کے ہم عصر تھے اور غالب گمان ہے کہ یہ شعرا ان کے کسبِ نور کا منبع رہے ہوں۔ان میں لکھنؤ کے شعرا ناسخ،آ تش،انیس، دبیر کے کلام کا اثر عادل کے یہاں نمایاں ہے۔ عادل نے جن شعرا کی زمینوں میں طبع آ زمائی کی ان میں غالب، میر،سودا، آ تش، ناسخ اور ممنون، بھی شامل ہیں البتہ ان کے کلام کا سر سری مطالعہ بھی اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انھوں نے لکھنؤ کے طرزِ فکر اور اندازِ سخن کو قبول کیا اور اپنی شاعری کو ان ہی خطوط پر آ گے بڑھایا تھا۔ ا ن کے کلام میں خارجیت،مضمون آ فرینی،معنی آ فرینی،قادر الکلامی زبان و بیان کی رنگینی اور لطافت، صنائع بدائع کا بڑے پیمانے پر استعمال ثابت کرتا ہے کہ وہ لکھنوی طرزِ شاعری کے دلداہ تھے۔یہی وہ رنگ ہے جس کی توضیح ہمیں آ تش کے اس شعر میں دکھائی دیتی ہے         ؎

بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آ تش  مرصع ساز کا

عادل ناگپوری کے یہاں عاشقانہ متصوفانہ اور رندانہ مضامین ملتے ہیں۔ عادل کی شعریت اور تغزل فارسی و عربی الفاظ کی مدد سے خیال آ فرینی کی بہار دکھاتی ہے۔ یہ خوبیاں لکھنوی طرزِ سخن کا طرہ ٔ امتیاز ہے البتہ معروف ناقد سلیم شہزاد ان کے کلام کے عمیق مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کر تے ہیںکہ عادل ان تمام شعرا کے مقابلے میں مرزا غالب سے زیادہ متاثر تھے۔ وہ عادل کے متعلق لکھتے ہیں :

ان کا اردو کلام با ٓ وازِ بلند اعلان کر رہا ہے کہ میں اپنے پیش روؤں کے علاوہ سب سے زیادہ نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا اسد اللہ خان غالب  سے متاثر ہوں۔ غالب کی طرح عادل بھی کثیر الاطراف اظہار کے فنکار تھے۔ فارسی نظم و نثر، مکتوب نگاری،تفسیر و فقہ، تصوف و تاریخ اور لغت نگاری جیسے لسانی تعملات ان کے حیطۂ اظہار میں شامل تھے۔ان کی اردو شاعری کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ آ نجناب کے غزلیہ اظہار پر بھی غالبیت کا غلبہ ہے۔ عربی فارسی الفاظ و تراکیب، خیالات اور شعری نحو میں غالب کی سی لسانی پیچیدگی عادل کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔

(سلیم شہزاد، رزم کی زبان،مطبوعہ عادل ناگپوری،مرتبہ ڈاکٹر محمد شر ف الدین ساحل2011، ص 13)

غزل گوئی

 عادل ناگپوری کا اردو کلام ان کی قادرالکلامی استادانہ مہارت، صنائع بدائع کے بھر پور استعمال کی قدرت اور سخت و مشکل زمینوں میں طبع آ زمائی کی صلاحیت کا بین ثبوت ہے۔ انھوں نے طویل غزلیں کہیں،ان کے کلام میں دو غزلہ، سہ غزلہ، پنچ غزلہ اوربعض قافیوں میںکئی اشعار کہنے کی مثالیں موجود ہیں۔عادل ناگپوری نے قوافی اور ردیفوں کے استعمال میں یہ کمال دکھایا کہ معنی آ فرینی کے جس قدر امکانات ان الفاظ میں موجود تھے انھیں اپنے تخلیقی جوہر سے چمکایا۔ اپنی مشکل پسندی کے باوصف وہ محبوب کے سراپے کو معنی آ فرینی اور مضمون آ فرینی کے ساتھ رعایتِ لفظی کے ساتھ پیش کر تے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فر مائیں        ؎

عیاں زلفوں میں ایسا نور ہے رُوئے درخشاں کا

کہ جیسے سنبلستاں میں ہو جلوہ ماہِ کنعاں کا

آ نکھ اس کی نرگسِ مخمور سے کچھ کم نہیں

لب مذاقِ بادۂ انگور سے کچھ کم نہیں

اس مستِ ناز کے لبِ میگوں کے سامنے

ہوتی ہے فرطِ شرم سے خُم میں شراب آ ب

گر الٹ دے رخِ پر نور سے اپنے وہ نقاب

ہو شبِ ماہ سے روشن،شبِ تار آ پ سے آ پ

عادل کی شاعری میں درد و غم، اضطراب اور سوزو گداز کا ااظہاربھی پر اثر انداز میں ہوا ہے۔ چمن سے ماخوذ وہ پیکر اور نور و نکہت کے تصورات جو عادل کی شاعر ی میںمحبوب کا سراپا بیان کرتے ہیں،حسبِ ضرورت زندگی کے دکھ درد کے استعارے بھی بن جاتے ہیں          ؎

ہنستا ہے گل تو روتی ہے شبنم تمام رات

خالی غم و طرب سے جہاں کا چمن نہیں

تصور ہے دم گریہ یہ کس کے روئے تاباں کا

کہ ہر قطرے میں عالم ہوگیا برقِ درخشاں کا

دمِ تحریر حالِ سوزشِ داغِ دل ِ مضطر

قلم میں دفعتاً عالم ہوا سروِ چراغاں کا

بوئے پیراہن مرے یوسف کی لائی تب صبا

صورتِ یعقوب زائل جب بصر اپنا ہوا

سدا رہتا ہے دل مشغول ِ ماتم

مرا سینہ ہے یا بزمِ عزا ہے

تجھ کو پہلے ہی قدم میں آ بلہ پائی ہوئی

منزلِ غم کا ہنوز اے دل بیاباں دور ہے

قصیدہ نگاری

عادل ناگپوری نے اردو اور فارسی میںقصائد قلم بند کیے ہیں۔  اردو میںان کے چار قصائد کے عنوانات حسب ذیل ہیں (1) قصیدہ ( در) مسند نشیں رگھوجی بھونسلہ چہارم (2) قصیدہ ختنہ ( کذا) اعظم شاہ بہادر راجہ قلعہ ناگپور (3)  قصیدہ در مدح شیو شنکر لال (4) ایضاً

مشہور محقق ڈاکٹر نور السعید اختر ان کے متعلق لکھتے ہیں:

عادل نے غزلوں سے زیادہ قصائد میں اپنی قادر الکلامی کا ثبوت دیا ہے۔فارسی میں ان کے کل قصائد کی تعداد18 ہے۔ فارسی شاعری اور انشا پر دازی میں جو کارنامے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں میں یہ بات مکمل وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ پورے مہاراشٹر میں اتنا زبردست کارنامہ کسی شاعر نے انجام نہیں دیا ہے۔ فکری و معنوی لحاظ سے بھی عادل کے کارنامے منفرد ہیں۔اس تبحر علمی اور فنی لیاقت کے باعث انھوں نے تقریبا ڈیڑھ درجن کتابیں اردو اور فارسی میں تصنیف و تالیف کیں۔ان میں زیادہ تر کتابیں فارسی میں ہیں۔دیوانِ فارسی،دیوانِ قصائد،دیوانِ تاریخات، مثنوی سحرِ بابل اور مثنوی ریاض العمارب وغیرہ اس کا بیّن ثبوت ہیں۔

(ڈاکٹر نور السعید اختر، عادل فارسی کا ایک قادر الکلام شاعر، ماہنامہ قرطاس، اگست 2010، ص39)

ڈاکٹر غلام السیدین ربانی کا خیال ہے کہ ’’عادل ناگپوری کی تخلیقی قوتیں، ان کی تشبیہات اور استعاروں میں پوری آ ب و تاب کے ساتھ جھلکتی ہیں عادل کے ہنر کے غماز ان کے قوافی بھی ہیں۔عادل نے اپنے زمانے کے اہم واقعات سے متاثر ہوکر متعدد تاریخیں کہی ہیں۔ ان تاریخی قطعات میں زبرست علمیت اور استادانہ مہارت کا مظاہر کیا ہے۔ ‘‘

(ڈاکٹر غلام السیدین ربّانی،عادل کی قصیدہ نگاری، ماہنامہ قرطاس، اگست 2010،ص132)

 مرثیہ نگاری

عادل ناگپور نے مرثیہ نگاری میں بھی اپنے جوہر نمایاں کیے ہیں۔ امام حسین کی شہادت سے متعلق ان کے تین مر ثیے ان کے کلیات میں موجود ہیں۔ یہ ان فنی خوبیوں سے آ راستہ ہیں جو انیس و دبیر کے یہاں پائی جاتی ہیں۔ ان میں صنائع بدائع کا استعمال اوراحساسات و جذبات کی عکاسی پر اثر انداز میں کی گئی ہے        ؎

دیدہ دمِ تحریر مرا اشک  فِشاں ہے

آ نسو کے عوض آ نکھ سے خون ناب رواں ہے

چشم ابر کی مانند سدا گریہ کناں ہے

بلبل کی صفت سینے میں دل نعرہ زناں ہے

پیدا سرِ ہر مو ئے بدن گر چہ زباں ہو

یہ وہ ہے الم جس کا زباں سے نہ بیاں ہو

 مثنوی نگاری

عادل ناگپور نے مثنوی نگاری میں بھی اپنی قادر الکلامی کے نقوش ثبت کیے ہیں۔انھوں نے فارسی میں سحرِ بابل، ریاض المعارب اور نور الہدیٰ نامی مثنویاں تحریری کی ہیں۔ مجموعی طور پر ان تینوں مثنویوں کے اشعار کی تعداد پانچ ہزار سات سو بیس (5720) ہوجاتی ہے۔ البتہ اردو میں ان کی دو ہی مثنویاں ہیں  جن کے اشعار کی مجموعی تعداد 290 ہے۔پہلی مثنوی میں محبوب سے خط نہ ملنے کی شکایت ہے اور دوسری مثنوی ایک منفرد موضوع کا احاطہ کرتی ہے جس میں ایک ماں کے دکھ کو بیان کیا گیا ہے جو اپنی بیٹی کے شوہر کی بے اعتنائی سے اس قدر غم زدہ ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی کا پہلا نکاح فسخ ہو جائے اور وہ کسی دوسرے نوجوان سے شادی کر لے۔ یہ مثنوی شاعر کی عصری حسیت اور سماجی صورتِ حال کی عکاسی کرتی ہے      ؎

چاہتی ہوں میں اپنی دختر کو

یعنی برجِ حیا کے اختر کو

نامزد کوئی اور سے کروں

پہلے شوہر سے فسخ عقد کروں

عادل نے دو کتابوں کے دیباچے بھی مثنوی کی طرز پر لکھے ہیں۔پہلی کتاب راجہ جانوجی بھوسلے کی تصنیف ہے۔ یہ منظوم دیباچہ 101 اشعار پر مشتمل ہے    ؎

اگر یوں ہی منظور ہے سیر ِ گلشن

ہے مطلوب سمعِ صفیر نوازن

ذرا چل کے اب دیکھ دربار اس کا

کہ کیسا ہے محفل میں گلزار ا س کا

جسے دیکھ کر پیرِِ فلک با قدم خم

ادب سے کھڑا بہرِ مجرا دمادم

دوسرا منظوم دیباچہ اپنے اردو کے پہلے مجموعے خزائن الاشعار (1854-55)  کے لیے تحریر کیا تھا۔ جس میں 156 اشعار موجود ہیں۔اس کے چند اشعار ملاحظہ فر مائیں        ؎

خیر جو کچھ کہے گئے اشعار

کیجیے جمع ان کو بے تکرار

دل میں ا س طور جب خیال آ یا

نام تاریخی فکر نے چاہا

کہا عادل نے ناگہاں اک بار

نام اس کا خزائن الاشعار

تصانیف

عادل ناگپوری کی تصانیف میں کلیاتِ عادل 192 صفحات پر مشتمل ہے جو 2006 میں شائع ہوا تھا۔ اس میں دیوانِ اردو، خزائن الاشعار،جیش المضامین، دیوانِ قصائد اور دیوانِ تاریخات شامل ہیں۔ اسے مختلف مخطوطات کی مدد سے مرتب کیا گیا ہے۔ شرح کریما سعدی شیرازی کی مشہور فارسی نظم ہے عادل نے اس کا منظوم اردو ترجمہ 1837 میں اس وقت کیا تھاجب ان کی عمر صرف 14 سال تھی۔

عادل ناگپور ی کو تاریخ گوئی میں بھی مہارت حاصل تھی، انھوں نے ایک مکمل دیوان دیوانِ تاریخات کے نام سے ترتیب دیا تھا جس میں 190 قطعاتِ تاریخ اردو اور فارسی میں موجود تھے۔

 خزائن الاشعار، عادل کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ 1854 میں مرتب کیا تھا۔

جیش المضامین،عادل کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے جو 1868 میں مرتب کیا گیا تھا۔

دیوانِ اردو، 48 صفحات پر  اوردیوانِ فارسی 32 صفحات پر مشتمل ہے۔

دیوانِ قصائد میں فارسی کے 18 قصائد  اور اردو کے دو قصائد شامل ہیں۔

ان تصانیف کے علاوہ،سحر ِ بابل ریاض المعارب نور الہدیٰ،چہل حدیث مترجم،نثر المتین فقہ اکبر،مفتاح الفتوح،حقیقت ِ خواب،نصاب گونڈی اور شرح علوم ان کی کتابیں ہیں۔

غرض عادل ناگپوری نے مختلف شعری و نثری اصنافِ میں اپنے تخلیقی جوہر کو نمایاں کر کے ادب کونئی فنی جہات سے آ شنا کیا اور فکری و معنوی اعتبار سے ادبی روایت کو توانائی عطا کی ہے

 

Mohammad Asadullah

30, Gulsitan Colony

Nagpur- 440013 (MS)

Mob.: 9579591149

zarnigar2006@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...