5/9/24

مہاراشٹر میں اردو تحقیق، مضمون نگار: محمد زبیر

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

ہندوستان کے دیگر صوبوں اورخطو ں کی طرح صوبۂ مہاراشٹر بھی اردو زبان وادب کے لیے سازگار رہا ہے۔یہاں متعدد تحقیقی اداروں میں اردو زبان وادب پر تحقیقات ہوئی ہیں۔ان اداروں میں اولین نام ’انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بمبئی ‘کا ہے۔اس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام ( فروری 1947)میں سیف طیب جی کارول سب سے اہم ہے۔سید نجیب اشرف ندوی اس انسٹی ٹیوٹ کے اعزازی ناظم بنائے گئے۔انہی کی نگرانی میںانجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سہ ماہی رسالہ ’نوائے ادب‘جنوری 1950 سے نکلنا شروع ہوا۔اپنے علمی، ادبی اور تحقیقی معیار کے سبب اس رسالے نے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت قائم کرنے کے ساتھ بہت جلد مقبولیت بھی حاصل کرلی۔ ان کی محنت اور کوششوں سے انجمن اسلام کی کریمی لائبریری تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایک کارآمد لائبریر ی کاعمدہ نمونہ بنی اور متعدد تحقیقی کا م معرضِ وجود میں آئے۔انہی میں سے ایک تحقیقی مقالہ’دبستانِ دبیر‘ ہے جسے ذاکرحسین فاروقی نے نجیب اشرف ندوی کی نگرانی میں 1963 میں مکمل کیا۔ ظہیرالدین مدنی، شیخ فرید اور نظام الدین ایس گوریکر کی نگرانی میں بہت سے مقالے سپرد قلم کیے گئے جن میں ’دارالمصنفین کی ادبی خدمات ‘ 1976 (خورشید مظہر الحق نعمانی)، ’سید سلیمان ندوی: حیات اور خدمات‘ 1983 (شیخ عبداللہ غلام)، ’مولانا محمد علی جوہر:سیاسی فکروفن‘ 1983 (سید شبیرعلی)، ’حسن وعشق کا تصوراردو شاعری میں‘  1983 (سید محمد حسن)، ’اردو میں طنزومزاح‘ 1983 (خواجہ عبدالغفور)، ’جگن ناتھ آزاد اور ان کا فن‘ 1989 (شیخ نجم الہدیٰ)، ’مغربی خاندیش کی شعری خدمات‘ 1989 (محمد سلیم انصاری)،’اردو میں تعلیمات کا استعمال سماجی‘ 1995 (سید شاہ)وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔

مہاراشٹر کے محققین میں نجیب اشرف ندوی کا نام سرِفہرست ہے۔’لغاتِ گجری‘ 1962ان کا ایک اہم تحقیقی کارنامہ ہے۔اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی لفظ زائد یابھرتی کے داخل نہیں کیے گئے۔اسے نجیب اشرف ندوی نے اپنی برسوں کی ریاضت اور مطالعے کے بعد مرتب کیا ہے۔’لغاتِ گجری‘ پر نجیب اشرف ندوی کا فاضلانہ مقدمہ ان کی تحقیق وتدوین سے دلچسپی کا ثبوت فراہم کرتاہے۔ لسانیات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ کتاب کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔انجمن اسلام اردوریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ولی دکنی پر ایک کتاب ’ولی گجراتی‘ 1950 میں شائع کیاتھا۔اس کے مصنف ظہیرالدین مدنی ہیں۔ اس میں’ ولی کازمانہ‘ تا ’ولی کی صوفیانہ شاعری‘ نو مضامین شامل ہیں۔ ولی کا وطن محققین میں موضوع بحث رہا ہے۔ میرتقی میر نے اسے اورنگ آبادی لکھا ہے، قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی نے ولی کی وطنیت پر محققانہ مقالہ پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ولی دراصل گجرات کاباشندہ تھا۔ ڈاکٹر ظہیرالدین مدنی نے ولی کو بغائر نظر تحقیق کیا، ان کی وطنیت پر کئی اہم ثبوت فراہم کیے اوراطمینان بخش حد تک یہ ثابت کیا کہ ولی کاوطن گجرات ہے۔

ادبی وتحقیقی سرگرمیوںکے حوالے سے عبدالرزاق قریشی کا نام خاصا اہم ہے۔ انھوںنے مختلف موضوعات پرکئی اہم تحقیقی کام سرانجام دیا۔ مرزامظہرجانِ جاناں اوران کااردوکلام کے عنوان سے ایک مبسوط مقالہ سپرد قلم کیا۔ اس کتاب میں مرزامظہرکے حالاتِ زندگی، ان کی روحانی ودابی خدمات،اردووفارسی شاعری اور اردوزبان کے متعلق ان کی مساعی کا تذکرہ تفصیل سے کیاہے۔دیوانِ عزلت کی ترتیب وتدوین (1962) اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ دونوں کتابیںتحقیقی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔’مبادیات تحقیق‘ عبدالرزاق قریشی کی تحقیق کے فن پر اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ اصولِ تحقیق سے متعلق اس کتاب کو اولیت کاشرف حاصل ہے۔ انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستگی اور طلبہ کی رہنمائی کے دوران اردومیں فنِ تحقیق پر کوئی ایسی منضبط تصنیف نہیں تھی جس میں تحقیق کے طریق کارسے بحث کی گئی ہو۔ چنانچہ عبدالرزاق قریشی نے اسی مقصد کے حصول کے پیشِ نظر اپنا مبسوط مقالہ ’مبادیاتِ تحقیق‘ سپرد قلم کیا۔

ڈاکٹر حامداللہ ندوی مہاراشٹرکے محققین میں سے ہیں۔ انھیں عربی،فارسی اور اردو زبانوں پر اچھی دسترس ہے۔ انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بحیثیت لائبریرین ایک عرصے تک اپنی خدمات انجام دی ہیںاور فیلو کی حیثیت سے تحقیقی کام بھی کیا۔ ان کی مرتب کردہ کتاب’ کتب خانہ جامع مسجد بمبئی کے اردومخطوطات ‘ اسی زمانے کی یادگارہے۔ اس میں ایک سواٹھاسی مخطوطات کا تفصیلی تعارف ہے۔ یہ تمام مخطوطے بہ ذاتِ خود اہمیت رکھتے ہیں لیکن ان میں دومخطوطے تاریخی اورادبی اعتبار سے  خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک ’سندرسنگار ‘ جو شاہجہاں کے عہد کے ایک نامورسیاستداں اور شاعر پنڈت سندرداس کے زورِ قلم کانتیجہ ہے اوردوسرا ’سیہ پوش‘ جو اورنگ آباد کے مشہوربزرگ شاہ رحمن کی ایک دکھنی مثنوی ہے۔

عبدالستار دلوی کا شمار مہاراشٹر کے اردو محققین میں ہوتا ہے۔ ’اردو میں لسانیاتی تحقیق‘ (1971) لسانیات پر ان کی مرتبہ کتاب ہے۔اس میں نامورماہرین لسانیات کے 29 تحقیقی مقالات کو جگہ دی گئی ہے۔ لسانیات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ کتاب کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ شعبۂ اردو بمبئی یونیورسٹی سے وابستگی کے دوران عبدالستاردلوی کی کتاب ’ادبی اور لسانی تحقیق اصول اور طریقِ کار‘ 1984 میں منظر عام پر آئی۔اس میں اردو کے پندرہ نامور محققین کے تحقیقی مقالات جمع کردیے گئے ہیں اور عبدالستاردلو ی کے دومضامین ’ادبی اور لسانی تحقیق اصول اور طریقِ کار‘ اور’اردو میں لسانی تحقیق کی اہمیت‘ شامل ہیں۔ عبدالستاردلوی کی تصنیف کردہ تحقیقی کتابوں میں  ’دوزبانیں دوادب‘  اور ’ادبی ولسانی تحقیق اور تقابلی ادب‘ لسانیاتی تحقیق میں حوالہ جات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ’دوزبانیں دوادب‘ گیان چند جین کی کتاب ’ایک بھاشا، دولکھاوٹ، دوادب‘کے جواب اوررد میں لکھی گئی ہے۔ کھڑی بولی کو ہندی کے ساتھ جوڑنے، ہریانی، برج، اودھی اور بھوجپوری کو ہندی کی وسیع تربرادری کافرد گرداننے کی کوشش کی ہے۔ اسے عبدالستاردلوی نے دلائل کے ساتھ رد کیا ہے :

’’ان کا یہ کہنا کہ ’کھڑی بولی ہندی(اندازاً 1000ء تا1500ء)محض ایک واحد زبان نہیں بلکہ شمالی ہند کی مختلف زبانوں اور بولیوں کا وفاق ہے‘‘وغیرہ محلّ نظر ہے۔ سب سے پہلے تو’ کھڑی بولی ہندی‘کا فقرہ ہی غلط ہے۔یہ تو صرف کھڑی بولی ہے، جس سے بہت بعد میں ہندی کا ارتقا ہوا۔ 1000  تا 1500 کھڑی بولی ہندی تھی ہی نہیں۔ یہ تو ایک زبان کا تشکیلی دور تھا۔ جین صاحب کا یہاں انداز علمی نہیں بلکہ سیاسی ہے ورنہ علمی طور پر، ہریانوی، برج، اودھی، بھوجپوری وغیرہ ہندی کی وسیع تر برادری کی زبانیں نہیں بلکہ آزاد زبانیں اور آزاد ادب ہیں۔ ان زبانوں کے بولنے والوں سے کب کسی نے پوچھا کہ ان کی رائے کیا ہے۔کیا وہ آزادانہ شناخت چاہتے ہیں یا ہندی میں ضم ہونا چاہتے ہیں ؟ یہ تو یکطرفہ فیصلہ ہے جو ہندی سامراجیت کی مثال ہے۔‘‘(دوزبانیں دوادب،ص 33-34)

ہمارے تحقیقی ادب میں غالب ابتداہی سے ایک اہم موضوع رہا ہے۔جس پر بے شمار مضامین،مقالات اورکتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ شمیم طارق کی کتاب’غالب اور ہماری تحریک آزادی‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو غالبیات میں بحث کے نئے درواکرتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ پران کی نگاہ بڑی گہری ہے، انہوںنے ہندوستان کے سیاسی، سماجی اورتہذیبی پہلوئوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اس کتاب کاخاصّہ یہ ہے کہ اس میں غالب اورعہدِ غالب کی چلتی پھرتی جاذب نظر تصویریں دیکھی جاسکتی ہیں جو غالب شناسی میں اہم رول اداکرسکتی ہیں۔تصوف کے موضوع پر شمیم طارق کی تصنیف ’تصوف اور بھکتی تنقیدی اور تقابلی مطالعہ‘ ایک جامع کتاب ہے۔اس میں تصوف اوربھکتی کا مذہبی پس منظر اور مفہوم کو اجاگر کرنے میں جس سعی بلیغ سے کام لیا ہے،وہ صرف انھیں کا حصہ ہے۔

اسمٰعیل یوسف کالج بمبئی، مہاراشٹر کے تحقیقی اداروں میں سے ہے۔یہاں اردو میں متعددتحقیقی مقالات لکھے گئے۔جن میں’گجرات کے اردوشعرا‘ 1948  (سید ظہیرالدین مدنی)، ’امین گجراتی مثنوی یوسف وزلیخا‘ 1948 (محمد عبدالحمید فاروقی)، ’اردوتھیٹر‘ 1953 (عبد العلیم نامی)، ’اکبرالہ آبادی :حیات اور کارنامے‘ 1957 (عقیلہ نذیراحمد خان)، ’میاں خوب محمد چشتی: مثنوی خوب ترنگ‘ 1959 (علی نقوی جعفری )، ’بمبئی میں اردو‘ 1961 (میمونہ دلوی)، ’محمد حسین آزاد: حیات اور کارنامے‘ 1962 (عبدالستاردلوی)، ’آرزولکھنوی: حیات  اور کارنامے‘  1971 (سید مجاہد حسین حسینی) وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اسمٰعیل یوسف کالج سے شائع ہونے والی کتاب ’اردو غزل ولی تک‘ سید ظہیرالدین مدنی کا ایک تحقیقی کارنامہ ہے۔ ا س میں دکن کے قدیم اردوغزل گوشعراپر سیرحاصل بحث ہے اوران کے نمونۂ کلام بھی درج ہیں۔ اس کتاب میں امیرخسرو کے دور سے زمانۂ ولی تک کے ریختہ اورغزل کاتاریخی وتنقیدی جائزہ لیا گیاہے۔ اس کے مطالعے سے ریختہ کے ارتقائی سفرکا جائزہ لینے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ آخرمیں ولی اورغزل کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ زمانۂ ولی،غزل کا نقطۂ آغازہے۔

میاں داد خاں سیاح اور ان کا کلام‘ (1957) سید ظہیرالدین مدنی کی ایک جامع اورمستند کتاب ہے۔ میاں دادخاں سیاح، مرزا غالب کے شاگردوں اور دوستوں میں سے تھے۔ ظہیرالدین مدنی نے سیاح کے حالات زندگی اورکارنامے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ سیاح کاوطن اورنگ آباد تھا اور عنفوان شباب میں سورت میں قیام پذیر ہوگئے تھے۔ ظہیرالدین مدنی کے تحقیقی کارناموں میں سب سے مہتم بالشان کارنامہ ’سخنوران گجرات‘کی تصنیف و تالیف ہے،جس پربمبئی یونیورسٹی نے1948 میں ظہیرالدین مدنی کوپی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے۔ اس میں محقق کی علمی،ادبی اورتحقیقی صلاحیتیں ابھرکرسامنے آگئی ہیں۔ ’سخنورانِ گجرات‘ میں گجرات کے بیشتر شعراکو جگہ دی گئی ہے اورنمونۂ کلام بھی پیش کردیے گئے ہیںاس لحاظ سے اسے شعرائے گجرات کا تذکرہ کہنابجا ہے۔

میمونہ دلوی شعبۂ اردو اسماعیل یوسف کالج بمبئی میں درس وتدریس سے وابستہ تھیں۔انھوں نے تین کتابیں تالیف کی ہیں۔ اول ’بمبئی میں اردو 1914 تک‘ سید ظہیرالدین مدنی کی نگرانی میں لکھا گیا تحقیقی مقالہ ہے۔ 1970 میں یہ مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوا۔ملک کے مختلف خطوں میںعلاقائی سطح پر ’دکن میں اردو‘ (1924)، ’پنجاب میں اردو‘ (1928) اور ’بہار میں اردو‘ جیسی اہم کتابیں لکھی گئیں۔انہی کتابوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے میمونہ دلوی نے ’بمبئی میں اردو‘کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ ان سے قبل بمبئی میں اردو ادب کی مختلف اصناف میں جو کچھ کام ہوا تھا اسے انھوں نے یکجا کرنے کا کام کیا ہے۔ اس ضمن میں اپنی کتاب ’بمبئی میں اردو‘ کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں:

’’میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ اردو زبان نے بمبئی کی سرزمین پرجنم لیا ہے تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتاہے کہ جس زمانے میں مذکورہ بالا صوبوں اور شہروں میں اردوزبان وادب اپنی ارتقائی منزلیں طے کررہے تھے۔ اسی زمانے میں بمبئی میں بھی اس زبان وادب کے لیے کام ہوتا رہا ہے۔  چنانچہ زیرِ نظر مقالے میں، میںنے یہی کوشش کی ہے کہ بمبئی میں اردو کے سلسلے میں جو کچھ علمی وادبی کام ہوا ہے اسے یکجا طورپر پیش کرسکوں۔ ‘‘(پیش لفظ بمبئی میں اردو،ص4)

بمبئی میں اردو سے متعلق تحقیق کرنے والے اسکالرز کے لیے یہ کتاب کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ دُکھڑے اردو کی ایک غیر معروف صنف سخن ہے۔ میمونہ دلوی نے بمبئی یونیورسٹی کی لائبریری اور کتب خانہ محمدیہ جامع مسجد بمبئی سے دُکھڑے اورپند نامہ کے چند مخطوطات کو ’دُکھڑے‘ (1979) کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیاہے۔ ان کی تیسری کتاب ’کوکن اور ممبئی کے اردو لوک گیت‘ (2001) ہے۔ اس کتاب میں کوکن کے حوالے سے خصوصاً گفتگو کی گئی ہے اور اردو لوک گیت کو یکجا کردیا گیاہے۔

سینٹ زیویرس کالج بمبئی کے ابتدائی تعلیمی اداروں میں سے ہے۔ پروفیسرعبد المحی رضا کی نگرانی میں شعبۂ اردو قائم(1922) ہوا۔ اس شعبے میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے نظام الدین گوریکر نے تحقیق کے میدان میں اردوزبان وادب کی بیش بہاخدمات انجام دی ہیں۔ ان کی نگرانی میں اردوزبان میں کئی اہم موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھے گئے۔جن میں  ’مرزارسوا: حیات اورناول نویسی‘ 1962 (آدم غلام حسین شیخ)، ’نظیراکبرآبادی: حیات اورشاعری‘ 1963 (ضمیراحمد خان)، ’قائم چاند پوری: حیات اورفن‘ 1965 (سید عبدالمحی رضا)، ’وجہی کی تاج الحقائق‘ 1969 (نورالسعید اختر )، ’نوح ناروی: حیات اورشاعری‘ 1972 (ظفرالاسلام ظفر)، ’سردارجعفری:حیات اور شاعری‘ 1973 (دائود کشمیری) اور ’ جلیل مانک پوری : حیات اورفن‘ 1977 (عبدالخالق انصاری )وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔

نظام الدین ایس گوریکرکی تحقیقی کتابوں میں ’طوطیانِ ہند‘ اور ’فکرونظر‘ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ’طوطیانِ ہند‘ فارسی کے تین مشہور شاعر امیرخسرو دہلوی، حکیم ابوالفیض فیضی اورمرزااسداللہ خاں غالب کی حیات وفن پر مختصر اور جامع کتاب ہے۔ فیضی کی تصانیف میں قرآن شریف کی بے نقط تفسیر’سواطع الالہام‘ اور ’نل ودمن‘ بہت مشہورہیں جس کاانتخاب نظام الدین گوریکر نے اپنی کتاب ’طوطیانِ ہند‘ میں ’داستانِ نل ودمن ‘کے نام سے کیا ہے۔ علاوہ ازیںگوریکر کی کتاب ’فکرونظر ‘  مختلف مضامین اورمقالات کا مجموعہ ہے جوان کی تحقیقی وتنقیدی بصیرت کا غمازہے۔

 مہاراشٹر کے محققین میں محمد ابراہیم ڈار،صفدر آہ سیتاپوری،عصمت جاوید، عالی جعفری، شرف الدین ساحل،  یونس اگاسکر، انیس چشتی، رفیق جعفر، شمیم طارق اور پروفیسر صاحب علی ایسے نام ہیں جن کے ذکر کے بغیر مہاراشٹر کے محققین کی فہرست مکمل نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان تمام محققین اور ان کی تحقیقی کاوشوں کا ذکر ناگزیر ہے۔ محمد ابراہیم ڈار عربی،فارسی اوراردوکے ایک وسیع المطالعہ محقق، ادیب اورانشاپردازتھے۔ انھوں نے اورینٹل کالج لاہورمیں پروفیسر محمدشفیع کی نگرانی میں مشہور عربی دانشور اور عالم جاحظ پر میکلوڈ عربک ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے کام کیا۔ انھوںنے بے شمار تحقیقی مقالات سپردِ قلم کیے۔ ڈاکٹر ظہیرالدین مدنی نے ابراہیم ڈارکے بکھرے ہوئے مضامین کو ’مضامین ڈار‘ کے نام سے مرتب کیا۔ مضامین ڈارکو انجمن اسلام اردوریسرچ انسٹی ٹیوٹ، بمبئی نے چند مضامین کے اضافے کے ساتھ 2014 میں ’مقالاتِ پروفیسر محمد ابراہیم ڈار‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس میں شامل مضامین تحقیق وتنقید کے اعلیٰ معیارپر ہیں۔ اس سے ان کی وسعتِ فکر اوربالغ نظری کااندازہ ہوتاہے۔

صفدرآہ سیتاپوری کاشماربمبئی کے اردومحققین میں ہوتاہے۔ تلسی داس پر ان کی تحقیقی تصنیف ’تلسی داس اور رام چرت مانس‘ اردومیں اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے، جس کی ادبی حیثیت مسلّم ہے۔اس کتاب میںانھوں نے تلسی کے عہد کا پس منظر، اس کی حیات، تصانیف اور شاعری کا تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ صفدرآہ کی دوسری اہم کتاب ’فردوسیِ ہند‘ ہے۔ جس میںمیرانیس کے عزیز شاگرد فارغ اور ان کے رزمیہ مرثیے کااس طرح جائزہ لیا گیا ہے کہ مرثیے کی تمام خوبیاں سامنے آگئی ہیں۔ ’میر اور میریات ‘  صفدرآہ کا ایک تحقیقی کارنامہ ہے۔  اس میں میرکے سوانحی کوائف، خاندانی پس منظر اور شاعری سے بحث ہے۔ ماہرین ادب نے میر کی شاعری کونہ صرف پرکھا ہے بلکہ ان کی حیثیت کو تسلیم بھی کیاہے بعض نے تو اردوکا سب سے بڑاشاعرمانا،یہاں تک کہ ’خدائے سخن‘ کہاگیا۔

عصمت جاویدایک محقق اور ماہرلسانیات ہیں۔ان کاآبائی وطن مئو ناتھ بھنجن (اترپردیش) ہے۔ ان کی پیدائش (1922) پونے میں ہوئی۔ ان کے پردادا شیخ حسام الدین کا ذکراثرانصاری نے اپنی کتاب ’تذکرہ سخنورانِ مئو‘ میں کیاہے۔ عصمت جاوید تقریباً اٹھارہ کتابوں کے مالک ہیں۔ ان کی پہلی مطبوعہ تصنیف ’فکرپیما‘ (1971) ہے۔ اس کاموضوع ’لسانیات اورادبی تنقید‘ ہے۔ ’لسانیاتی جائزے‘ بھی ان کی اہم کتاب ہے۔ ’نئی اردوقواعد‘ عصمت جاوید کابہترین کارنامہ ہے۔ اس میںانھوں نے اردوقواعد کاتجزیہ سائنٹفک اورتکنیکی انداز میں پیش کیاہے اور اس کے لسانی پہلوئوں پرتحقیقی و تنقیدی نگاہ بھی ڈالی ہے۔اس کے علاوہ ’ادبی تنقید‘، ’وجدان‘ اور ’اردوپر فارسی کے لسانی اثرات تصرف کے آئینے میں ‘ ایسی کتابوں کو لکھنے میں عصمت جاوید نے بڑی دیدہ وری اورتحقیق سے کام لیاہے۔ایک اورکتاب ’اردومیں فارسی کے دخیل الفاظ پر تصرف کاعمل‘ بھی اعلیٰ پایے کا نمونہ ہے، اس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔ یہ کتاب بنیادی طورپر اردومیں عربی فارسی الفاظ کے تصرف کاتاریخی اعتبارسے جائزہ ہے۔اس میں الفاظ کے صوتی، نحوی اورصرفی تصرف کاتجزیہ پیش کرتے ہوئے بڑی کارآمد بحث کی ہے۔

ڈاکٹر عالی جعفری، شاعری،  تنقید اورتحقیق سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔زبان وبیان، لسانی ارتقا، مختلف زبانوں کے اردوپر اثرات اورلفظ ومعنی کے رشتے پر ان کامطالعہ کافی گہراتھا۔ بمبئی کے اسمٰعیل یوسف کالج اور الفنسٹن کالج کے شعبۂ اردو سے وابستہ تھے۔انھوں نے گجرات کے مشہورصوفی شاعرخوب محمد چشتی کی نادر و نایاب متصوفانہ شعری تصنیف ’خوب ترنگ‘ پر پروفیسر ظہیرالدین مدنی کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ سپرد قلم کیا۔ ’خوب ترنگ‘ کا موضوع مسئلۂ وحد ت الوجود ہے۔اس میں وہ لسانی خصوصیا ت موجود ہیں جو قدیم پنجابی، قدیم برج، ہریانی، مرہٹھی اوردکھنی میں ملتی ہیں۔اس کاشمار جدید اردومثنوی کی بنیادی کتابوں میں ہوتا ہے۔اس مقالے کو گجرات اردواکادمی نے 1963 میں شائع کیا ہے۔ علاوہ ازیں ’گجرات کی ایک غیرمعروف مثنوی موسیٰ سہاگ‘ ایک تحقیقی مقالہ ہے جسے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے رسالہ اردومیں 1951 میں کراچی سے شائع کیاتھا۔اس میں عالی جعفری نے موسیٰ سہاگ کی شخصیت اوراس مثنوی کی ادبی ولسانی حیثیت پر عالمانہ گفتگو کی ہے۔ایک محققانہ اور مبسوط مقالہ ’بمبئی کے کتب خانوں میں دیوان ولی کے قلمی نسخے‘ بھی اہم کارنامہ ہے۔

جالب مظاہری کاوطن سہسرام تھا مگر انھوں نے اپنی عمرِعزیز کابیشترحصہ عروس البلادبمبئی میں گزارا۔زبان وادب پر ان کامطالعہ کافی گہراتھا۔ تدریسی کام کے دوران بچوں سے رابطے کی بناپر تلفظ کی عا م غلطیوں سے پوری طرح واقف ہوچکے تھے۔ انھیں پہلوئوں کے پیش نظر ان موضوعات پر تحقیق کی جانب راغب ہوئے۔مہاراشٹر میں اردوتحقیق کے لیے بہ لحاظ اصول وقواعد ایس جالب مظاہری کو سرِ فہرست رکھاجاسکتا ہے۔ انھوں نے علم عروض، صنائع بدائع، قواعد اردو اور اقسام نظم جیسے موضوعات پر کئی اہم تحقیقی تصانیف ادبی دنیا کو پیش کی ہیں۔ ان میں ’رموزِنظم‘، ’ممتازالقواعد‘ (فارسی) ’اصلاح تلفظ‘ اور ’قاموس الادب‘ وغیرہ بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ’مطائبات شبلی‘علامہ شبلی نعمانی کے شذرات ولطائف پر مبنی ایک لطیف ودلچسپ کتاب ہے۔

یونس اگاسکراردو کے ایک معروف محقق، ناقد اور مترجم ہیں۔ اردو ادب کو انھوں نے کئی اہم کتابیںدی ہیں، جو ان کی علمی، ادبی اور تحقیقی صلاحیت کی غماز ہیں۔ ’مراٹھی ادب کا مطالعہ‘، ’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو‘، ’فکروفن اور فکشن‘، ’نٹ سمراٹ‘ اور’ غالب ایک بازدید‘وغیرہ ان کی اہم کتابیں ہیں۔تحقیق کے موضوع پر ان کی جامع تصنیف ’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو‘ ہے۔یہ تحقیقی مقالہ  ڈاکٹر نظام الدین ایس گوریکر کی نگرانی میں تحریرکیا گیاجس پر بمبئی یونیورسٹی نے یونس اگاسکرکو پی ایچ۔ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹریونس اگاسکر کی علمی صلاحیت اور ان کی کتاب ’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو‘ کی ادبی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’ڈاکٹر یونس اگاسکر ادب کے ساتھ ساتھ سماجیات کے بھی سند یافتہ ہیں اور لسانیات کی باقاعدہ تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کا زیرنظر تھیسس’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو‘ سماجیات ولسانیات کا خوب صورت سنگم ہے۔ اردو میں ضرب الامثال اور کہاوتوں پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر وبیشتر کہاوتوں، محاوروں اور تلمیحوں کو ملادیا گیاہے۔ڈاکٹریونس اگاسکر نے نہ صرف تمام مآخذ کو پوری دل جمعی سے کھنگالا ہے، بلکہ تمام وکمال سعی وجستجو سے کام لیاہے اور موضوع کے تمام گوشوں پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ یہ اپنے موضوع پر پہلی جامع تصنیف ہے۔‘‘

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس کتاب کو اپنے موضوع پر پہلی جامع تصنیف ہونے کی سنددے دی ہے جس سے اس کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔

شرف الدین ساحل محقق،ناقد اور تخلیق کارہونے کے ساتھ ادب کے پارکھ بھی ہیں۔ تقریباً دو درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ان کی تصانیف کسی مخصوص صنف تک محدود نہیں بلکہ ادب کی مختلف اصناف کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔عہدِ حاضرمیں ان کا شمارمہاراشٹرکے اہم محققین میں ہوتاہے۔ انھوں نے1977 میں ’ناگپور میں اردو ‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ناگپور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ شرف الدین ساحل کی تحقیق ’ناگپور میں اردو ‘اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے قبل اس موضوع پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہواہے۔ اپنے تحقیقی مقالے میں انھوں نے اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے لے کر بیسویں صدی کی آخری دہائی تک ناگپورکی ادبی شخصیتوں اور ان کے تحریری کارناموں کا بغائر مطالعہ کرتے ہوئے اپنی ذہانت اور تنقیدی صلاحیتوں کا عملی ثبوت فراہم کیاہے، اور ان کے ادبی سرمایوں کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ ’بیان میرٹھی : حیات اور شاعری‘ ساحل کا ایک عمدہ تحقیقی کارنامہ ہے۔ شرف الدین ساحل کی یہ کاوش ان کے تحقیقی جوش، ہمت واستقامت اور مسلسل کارکردگی کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے۔

دکن مسلم ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پونہ بنیادی طورپر ایک علمی ادارہ ہے۔ اسے اردو اور فارسی زبان وادب کی تدریس اور فروغ کے مقصدسے قائم کیا گیا۔ اس ادارے میںعلم وادب کی تدریس کے ساتھ ریسرچ کے طلبہ کے لیے ایک ریسرچ سینٹر بھی قائم ہے۔جہاں سے ریسرچ اسکالر اپنے تحقیقی کام میں خوب استفادہ کرتے ہیں۔اس انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہونے والی کتابوں میں ’خان بہادر پروفیسر شیخ عبدالقادر سرفراز احوال وآثار‘ (2003) اور’جنوبی ہند میں اردو زبان وادب کی تدریس کے مسائل ‘(2004)اہمیت کی حامل ہیں۔

انیس چشتی مہاراشٹر کے شہر پونے کے ایک معروف اسکالر اور محقق ہیں۔انھوں نے بے شمار علمی،ادبی اور تحقیقی مقالات لکھے۔عالمی رابطۂ ادبِ اسلامی کے سمیناروں، اردو اکیڈمیوں، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں اپنے مقالے پیش کیے۔ان کے تحقیقی، علمی وادبی مقالات کا مجموعہ ’عصری وتحقیقی مقالات‘ کے نام سے 2012 میں شائع ہوا۔

رفیق جعفر ایک ممتاز ادیب، افسانہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر کے ساتھ ایک محقق بھی ہیں۔ اردو ادب کوانھوں نے کئی کتابیں دی ہیں۔ ’اردوادب کے تین بھائی ‘ ان کی تحقیقی کتاب ہے۔ اس میں اردو ادب کے تین بھائی محبوب حسین جگر،ابراہیم جلیس اور مجتبیٰ حسین کے ادبی وصحافتی کارناموں کا تفصیلی جائزہ لیاگیاہے۔

شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی (قیام 1982) تحقیق وتدریس کاایک اہم شعبہ ہے۔ اپنے قیام کے ابتدائی زمانے سے ہی ایک فعال اور متحرک شعبہ رہا ہے۔اس شعبے کو پروفیسر عبدالستار دلوی، پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی،پروفیسر یونس اگاسکر، پروفیسر معین الدین جینا بڑے اور پروفیسر صاحب علی جیسے اساتذہ ملے جن کی رہنمائی میں بے شمار تحقیقی مقالے لکھے گئے۔اس شعبے کا ریسرچ اینڈ ریفرڈ جرنل ’اردو نامہ‘ پروفیسر صاحب علی کی سعی بلیغ کا نادرونایاب کارنامہ ہے،جو اپنی علمی وفکری ترجیحات اور رویوں کے سبب ایک معتبر جریدے کی حیثیت رکھتاہے۔

 

Dr. Mohammad Zubair

MANUU Coordinator

LSC. M.S College of Arts.Comm.Sci. & BMS

Kausa Mumbra, Thane - 400612  (MS)

Mob: 9022951081

m.zubair.mau@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...