5/9/24

علم طب، ماخوذ ازہمارا قدیم سماج، مصنف: سید سخی حسن نقوی

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

علم طب کی ابتدا بھی ویدک دور ہی میں ہوگئی تھی۔ اتھرووید میں بہت سی بیماریوں اور ان کے علاج کا ذکر موجود ہے۔ آریہ لوگ اپنی قربانیوں کی چیر پھاڑ کیا کرتے تھے تاکہ قربانیاں دیوتاؤں کے شایانِ شان تحفہ بن سکیں۔ اس عمل سے انھوں نے ویدک دور ہی میں ’تشریح اعضا‘ کمے سلسلے میں کافی اہم تجربات کرلیے اور اس طرح گویا طب و جراحی کی عظیم عمار ت کی خشتِ اوّل رکھی۔

قدیم ہندوستانیوں نے دواؤں میں کام آنے والی جڑی بوٹیوں کے بارے میں حضرت عیسیٰ سے سیکڑوں برس پہلے سیکڑوں تجربوں کے بعد کافی معلومات فراہم کرلی تھیں۔ اس سلسلے میں نوجوان راجکمار جیوک کی کہانی، جس کا ذکر گذشتہ باب میں تفصیل کے ساتھ آچکا ہے، اس کا بہترین ثبوت ہے۔ جڑی بوٹی کی اس  معلومات نے نتیجے میںاس علم کو جنم دیا جسے ’آیورویدک‘ کہتے ہیں۔

چرک

آیورویدک کی باقاعدہ تعلیم چھٹی صدی ق م سے بہت پہلے اتریہ اور کھیتل نامی دو طبیبوں اور ان کے چھ شاگردوں نے دی جن میں اگنی ویش سرفہرست تھا۔ اگنی ویش کے ایک شاگرد چرک نے فن طب پر ایک سام ہِت لکھا۔ چرک کو، جوٹکشیلا کے دارالعلوم سے وابستہ تھا، فن طب کا امام مانا جاتا ہے۔ چرک کے سام ہِت پر دوسری صدی عیسوی میں ایک دوسرے عالم نے جس کا نام بھی چرک ہی تھا، نظر ثانی کی۔ چرک کا سام ہت اس اعتبار سے کہ وہ اتنے پرانے زمانے میں لکھا گیا، ایک عظیم الشان تصنیف ہے۔ منجملہ اور بہت سی باتوں کے اس میں ایک مثالی شفاخانے کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اس میں جڑی بوٹیوں سے تیار کی گئی دواؤں اور سونے اور دوسری دھاتوں سے بنائے گئے مرکبات کے نسخے (کشتہ جات) درج ہیں۔

طب موریہ عہد میں

تیسری صدی ق م میں ہم دیکھتے ہیں کہ اشوک نے حکومت کا رنگ ہی بدل دیا۔ اس کا دورِ حکومت رفاہِ عام کے کاموں کے لیے ممتاز ہے۔ منجملہ اور بہت سی باتوں کے اشوک نے دواؤں میں کام آنے والی جڑی بوٹیوں کی کاشت کا انتظام کرایا تھا جو نہ صرف ملک میں کام میں لائی جاتی تھیں بلکہ بیرونی ممالک کو مفت بھیجی جاتی تھیں۔ اشوک نے اپنی سلطنت میں جابجا انسانوں اور حیوانوں کے لیے شفا خانے کھلوائے تھے جہاں علاج مفت کیا جاتا تھا۔ تقریباً اسی زمانے میں شالی ہوترا نامی طبیب نے جانوروں کے علاج کے موضوع پر ایک کتاب لکھی۔ یونانی شہادتیں مظہر ہیں کہ سکندر اعظم نے پنی فوج میں چند ہندوستانی طبیبوں کو ملازم رکھ لیا تھا جس سے ظاہر ہے کہ ہندوستانی فنِ  طب سے لوگ کافی متاثر تھے۔

فن جراحی

فن جراحی (سرجری) سے جس پر مغربی دنیا آج ناز کررہی ہے، قدیم ہندوستان کے لوگ ناواقف نہ تھے اور چھٹی صدی ق م میں بے تکلفی کے ساتھ اسے کام میں لاتے تھے۔ سشرت نامی طبیب کاشی کے دارالعلوم میں جو آج بھی ہندوستان کے قدیم علوم کا مرکز ہے فن جراحی میں درس دیا کرتا تھا۔ اس نے طب اور جراحی پر ایک کتاب لکھی جس میں جراحی کے 17 آلات کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں بعض اتنے تیز ہوتے تھے کہ ان سے بال کی کھال نکالی جاسکتی تھی۔ اے اِل بیشم کہتا ہے ’’پیٹ چاک کرکے بچہ پیدا کرنے، ہڈیو ںکے جوڑ کو جگہ پر بٹھانے اور جسم کی ناقص ساخت کو درست کرنے کا فن، جسے آج کل کی اصطلاح میں ’پلاسٹک سرجری‘ کہتے ہیں، ہندوستان میں کمال کے اس درجے پر پہنچ گیا تھا جس کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں ملنی مشکل ہے۔ قدیم ہندوستانی جراح ناک، کان اور ہونٹوں کو جو جنگ میں یا عدالتی قطع و برید کے نتیجے میں بگڑ جاتے، درست کرنے میں حیرت انگیز مہارت رکھتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرجنوں نے مصنوعی ناک لگانے کا فن ہندوستانیوں سے سیکھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستانی طب اس معاملے میں یورپ کی طب سے اٹھارویں صدی عیسوی تک آگے رہی۔

علم معدنیات

ان طبی سرگرمیو ںکے متوازی ہم دیکھتے ہیں علم معدنیات میں بھی تجربے کیے جارہے تھے جنھوں نے نتیجے میں فنِ طب کو تقویت پہنچائی۔ پانچویں صدی ق م اور اس کے بعد ہندوستان آنے والے یونانیوں نے ہندوستان والوں کو بے تکلفی کے ساتھ دھاتوں کو استعمال کرتے دیکھا۔ ہندوستان کے لوگ اس وقت تک تمام دھاتوں کے استعمال سے واقف ہوچکے تھے۔ وہ کانسہ کو پگھلانا اور ڈھالنا جانتے تھے۔ کانسہ ایک بہت نازک دھات ہوتی ہے۔ آج تک گھڑیالیں اسی دھات کی بنائی جاتی ہیں۔ یہ اتنی نازک ہوتی ہے کہ گھڑیال زمین پر گرکر فوراًٹوٹ  جاتی ہے۔

چنانچہ دوسری صدی ق م کی مشہور شخصیت، پتنجلی، جس نے پانینی کی مشہور و معروف ویاکرن کی شرح لکھی، معدنیات اور کیمیا دونوں کا ماہر تھا۔ اس زمانے میں لوہے کا لفظ تمام دھاتوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پتنجلی کی لوہا شاستر جس میں دھاتوں کو پگھلانے، نتھارنے اور مختلف دھاتوں کے مرکب تیار کرنے کے مسائل پر بحث کی گئی ہے، معدنیات کے موضوع پر ہماری قدیم ترین اور سب سے مستند کتاب ہے۔

الکیمی

دوسری یا تیسری صدی عیسوی کا ایک بودھ عالم، ناگ ارجن، جو بدھ مذہب کے ’مہایان‘ فرقے کا مبلغ، ماہر موسیقی، طبیب اور یوگی تھا، علم طب و معدنیات میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ ناگ ارجن کو الکیمی کا، یا جسے عرفِ عام میں آج کل کیمیا گری کہتے ہیں، امام مانا جاتا ہے۔ معمولی اور گھٹیا قسم کی دھاتوں کو کیمیاوی عمل کے ذریعے سونے میں تبدیل کرنا، اس کی دلچسپی کا مرکز تھا۔ چنانچہ ناگ ارجن ’بڑے بڑے پتھروں کو ایک مقدس اور خاص طریقے سے جوش دیے گئے عرق، دوا، یا مرکب سے تر کرکے سونے میں تبدیل کردیتا تھا۔ ناگ ارجن ہی نے سشرت کی کتاب پر نظر ثانی کی اور اس میں ضروری اضافے کیے۔

رسائن

الکیمی کی طرح ایک او رفن جسے ’رسائن‘ کہتے ہیں یعنی زندگی کو طول دینے اور بڑھاپے کو جوانی میں تبدیل کرنے کا فن اس زمانے میں کافی مقبول تھا۔ سیکڑوں قسم کی جڑی بوٹیوں سے تیار کیے گئے طرح طرح کے مرکبات، نسخے اور سونے چاندی کے کشتے استعمال کیے جاتے تھے۔ ناگ ارجن نے اس موضوع پر بھی ایک رسالہ سپردِ قلم کیا۔

اہم تصانیف

چھٹی صدی عیسوی تک فن طب و جراحی میں خاطر خواہ اضافے ہوگئے۔ خصوصاً دواسازی یا عطاری کے فن کی تدوین اسی زمانے میں ہوئی۔ کیمیاتیات (باٹنی) اور طب نے مل جل کر ترقی کی راہیں طے کیں۔ تعلیمی درس گاہوں میں طب اور جراحی کا درس برابر دیا جاتا رہا۔ طلبا لاشوں کو چیرتے پھاڑتے، مختلف تجربات کرتے اور مریضو ںکے آپریشن کرتے۔ بودھ خانقاہوں اور جین مذہب کے تعلیمی مرکزوں میں طب کی تعلیم خصوصیت کے ساتھ دی جاتی تھی۔ ملک میں جگہ جگہ اسپتال قائم تھے جن کی نگرانی قابل وید اور طبیب کرتے تھے۔ اس دور میں فن طب پر کئی اہم کتابیں تصنیف کی گئیں۔ فن طب کے ایک ماہر مادھوا کر نے ایک کتاب رگونی وَن چیہ تصنیف کی۔ اسی دور میں دھن ونتری نے جو چندرگپت وکرمادتیہ کے نورتنوں میں سرفہرست تھا، طب کی ایک فرہنگ تیار کی جسے دھن ونتری نگھنتو کہتے ہیں۔

قدیم ہندوستانی طب کا بنیادی تصور

قدیم ہندوستانی طب کا بنیادی تصور اخلاط اربعہ ہیں، یعنی بلغم، سودا، صفرا اور خون۔ ابتدا میں صرف پہلی تین خِلطیں شما رکی جاتی تھیں، خون کا اضافہ بعد میں کیا گیا۔ ہندوستانی طبیب صحت مند جسم کے لیے ان خلطوں کا متوازن رہنا ضروری سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک پانچ قسم کی ہواؤں سے جسم کا عمل برقرار رہتا ہے۔ پہلے وہ ہوا جو حلق سے نکلتی ہے اور تقریر پیدا کرتی ہے۔ دوسری وہ جو دل سے نکلتی ہے جس کے ذریعے انسان سانس لیتا اور غذا نگلتا ہے۔ تیسرے وہ جو مبرز سے نکلتی ہے اور پیٹ میں غذا کو پکاتی اور ہضم میں مدد دیتی ہے۔ چوتھی وہ جس کے ذریعے فضلات خارج ہوتے ہیں۔ پانچویں ’نفوذ پذیر‘ ہوا، جو جسم کی رگوں میں سرایت کرتی ہے اور جس کے ذریعے دورانِ خون اور جسم کی حرکت قائم ہے۔

اہلِ ہند اس بات کے قائل تھے کہ پہلے معدہ غذا کو پکاتا ہے، پھر وہ دل کی طرف منتقل ہوتی ہے اور اس کے بعد جگر کی طرف، جہاں اس کا جوہر خون میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ خون کا ایک حصہ گوشت بن جاتا ہے اور باقی سے چربی اور ہڈیاں وغیرہ بنتی ہیں۔ ہندوستان کے قدیم اطبا کے نزدیک استحالۂ خون کے اس عمل کو تیس دن لگنے چاہئیں۔ ہندوستان کے قدیم اطبا اگرچہ دماغ کے افعال سے پوری واقفیت نہیں رکھتے تھے اور دل ہی کو عقل کا مرکز بھی جانتے تھے لیکن وہ ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت اور نظامِ عصبی کے وجود سے واقف تھے۔

ہندوستانی طبیب بغداد میں

آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں عباسی خلفا نے ہندوستانی طبیبوں کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ حکومت نے انھیں سرکاری شفاخانوں میں طبیبِ خاص کے اعلیٰ مناصب سے نوازا، اور ان سے طب، دواسازی، سمیات، فلسفہ، ہیئت اور دوسرے علوم کی سنسکرت کی کتابوں کے عربی زبان میں ترجمے کرائے۔ خلیفہ مامون کے زمانے میں جو عباسی خلفا میں سب سے زیادہ اولوالعزم تھا، ریاضیات، ہیئت، طب اور دیگر علوم نے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ترقی کی۔ بے شمار سنسکرت کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرایا گیا اور دوبان نامی ایک برہمن عالم کو دارالترجمہ کا نگرانِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔

جس طرح یورپ کی طب عربی فن طب سے  متاثر ہے اسی طرح عرب کی طب ہندوستانی فنِ طب کی مرہون منت ہے۔ عرب  کے عالم ہندوستانی کتابوں کی بہت قدر کرتے تھے۔ چنانچہ اَوِی سینا (ابن سینا)، دھازیز (الرازی) اور سراپین (ابن سرابی) کے جو ترجمے عربی سے لاطینی زبان میں کیے گئے، ان میں حکیم شرک (چرک) کا نام بار بار آتا ہے، اور یہ وہی چرک ہے جس نے چھٹی ق م میں فن طب پر ایک سام ہِت تصنیف کیا، اور دوسری صدی عیسوی میں دوسرے چرک نے اس پر نظرثانی کی۔

ہندوستانی طب یورپ میں

ہندوستان میں الکیمی (کیمسٹری) ’فن طب کی لونڈی‘ کی حیثیت رکھتی تھی اور اسی حیثیت میں وہ بیرونی ممالک میں پہنچی۔ بیماریوں کے علاج کے سلسلے میں ہندوستانی دواؤں نسخوں اور کشتوں کا استعمال یورپ میں عام ہوگیا اس کا ایک معمولی ثبوت یہ ہے کہ انگریزی میں جست کی آکسیجن کے مرکب کو ٹٹی کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے عربی ’طوطیہ‘ سے لیا گیا، اور طوطیہ خود سنسکرت کے ’تتھ‘، جست (زِنک) سے ماخوذ ہے، جسے عام طور پر ’نیلا تھوتھا‘ کہتے ہیں۔

اب جب کہ ہم آزاد ہوچکے ہیں اور اپنے ملک و قوم کی تعمیر میں ہمہ تن مصروف ہیں، موقع ہے کہ ہم اپنے عظیم ماضی کے آئینے میں ایک شان دار مستقبل کی تعمیر کریں اور ہر علمی معاملے میں رہنمائی اور ہدایت کے لیے مغربی سائنس دانوں گیلیلیو، آرکیمیڈیز اور کاپرنکس کی بجائے کناد، چرک، اور آریہ بھٹ اور اپنے دوسرے عظیم عالموں سے استفادہ کریں جنھیں زمانہ لاکھ بھلانے کی کوشش کرے لیکن تاریخ رہتی دنیا تک یاد رکھے گی۔

 

ماخذ: ہمارا قدیم سماج، مصنف: سید سخی حسن نقوی، تیسرا ایڈیشن: 1998، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...