1/10/24

ہندوستان میں حیاتیاتی تنوع اور تحفظاتی مقامات کا مختصر جائزہ،ماخذ: حیاتیاتی تنوع اور ماحولیات کے مسائل: حافظ شائق احمد یحییٰ

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024



یوں تو خالق کائنات نے پوری دنیا کی نہایت منظم اور خوبصورت انداز میں تخلیق کی ہے لیکن کچھ مقامات غیر معمولی اوصاف سے مزین ہیں ۔ عام طور سے قدرتی مقامات کو جنگل، پہاڑ، سمندر،دریا، جھیل، تالاب، ریگستان، انسانی آبادی کے حصے اور کھیت کھلیان میں تقسیم کیا  جاسکتاہے۔ مگر حیاتیاتی تنوع (Biodiversity) کے اعتبارسے پوری دیناکو30حیاتیاتی اہم مقام (Biodiversity Hotspots) میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان کی بقا کے لیے انتھک کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ اگر انسان کو اس کرہ ارض پر تا دیر رہنا ہے اور قدرتی ذرائع (Natural Resources) سے مستفید ہوتے رہنا ہے تو اپنی بقا کے ساتھ ساتھ سارے جاندار ، حیوانات و نباتات کی بقا کا دھیان رکھنا ہوگا۔ خوش قسمتی سے ہندوستان میں بھی ان30 ۱ ہم مقامات میںتین نامزدمقام ہے، باقی ممالک کے نام اس طرح ہیں: آسٹریلیا، برازیل، چین، زائر، انڈونیشیا، کولمبیا، میکسیکو، اکواڈور، کینیا، پیرو، وینے زولا، کوسٹاریکا، بولیویا، ملائیشیا، فلیپین، جنوبی افریقہ، جمہوریہ کانگو، میڈاگاسکر وغیرہ۔ہندوستان میں مختلف قسم کے مساکن(Habitats) پائے جاتے ہیں ۔ ماہرین جنگل چپمیئن اور سیٹھ (Champion and Seth,1968)کے مطابق اگرجانوروںکے ضمنی مسکن (Micro-habitat)کوشمار کیا جائے تو پورے ہندوستان میں 16 بڑے اور 24 قسم کے ذیلی جنگل ہیں ۔ ایسے کثیر اقسام کے مسکن اور متنوع جغرافیائی ماحول ہونے کی وجہ سے ہی ملک میں تقریباً 96000 قسم کے جانور، (چھوٹے بڑے اور حشرات الارض ملاکر) اور56000 قسم کے نباتات پائے جاتے ہیں۔ ٹیبل 1 اور 2  میں مزید تفصیل دی گئی ہے۔دوسرے مقامات کی طرح ہندوستان میں، خاص کر مغربی گھاٹ (Western Ghats)میں بہت سارے پودے اور جانور مقامی انواع ( Endemic species)پائے جاتے ہیں۔  مشاہدوں اور تجرباتی سہولت کے اعتبار سے پورے ملک کو دس حیاتیاتی جغرافیائی حصوں(Ten Bio-geographical Zones) میں تقسیم کیاگیا ہے۔ جن کے نام اس طرح ہیں: ہمالیہ کے نچلے حصے ، اوپری ہمالیہ، ہندوستانی ریگستان، نیم خشک علاقے، مغربی گھاٹ، دکنی علاقے، گنگا کے میدانی علاقے، شمال مشرقی ہندوستان، ہندوستانی جزیرے اور ساحل۔ بہر حال ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ قدرت نے ہندوستان کو بے شمار قدرتی نوادرات سے نوازا ہے۔ جنوبی امریکہ کے آمیزن جنگل کے بعد ہندوستانی جنگلات کے بعض حصے دنیا کے بہترین جنگل ہیں ۔ شاید یہی وہ وجہ ہے کہ علامہ اقبال اپنی ایک رباعی میں اس انداز سے رقمطراز ہیں     ؎

گلشن میں پھروں سبزہ و صحرا دیکھوں

یا  معدن  و  کوہ  و   دشت ،  دریا   دیکھوں

ہر  جا تیری  قدرت  کے ہیں  لاکھوں  جلوے

حیراں ہوں کہ  دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں

جدول1-  ہندوستان کا نباتاتی حیاتیاتی تنوع 



جدول2-  ہندوستان کا جماداتی حیاتیاتی تنوع



نوٹ: جدول1 اور2، شبیر حسن (تہذیب الاخلاق نومبر 2008 سے ماخوذ)

وزارت ماحولیات وجنگلات کے تحت ہندوستان میں قدرتی مقامات کے تحفظ کی غرض سے ایک نظام(Protected Areas Network) ہے جس کے تحت تقریباً 90 نیشنل پارکس (جس میں40 شیروں کے خاص حصے (Tiger Reserves) بھی ہیں، اور 500 وائلڈ  لائف سینکچوریاں  Wildlife Sanctuaries) ) ہیں ۔ صرف انڈمان اور نیکوبار جزیروں میں تقریباً 20 سینکچوریاں ہیں ۔ میٹھے پانی والے جواہم  مقامات ہیں انھیں رامسار سائٹ (Ramsar Sites)کہتے ہیں ۔ چونکہ ایسے مقامات نامزد کرنے کی پہلی میٹنگ ایران میں رامسار مقام پر ہو ئی تھی اسی لیے یہ نام رکھ دیا گیا۔ ملک میں ایسے35 مقامات اب تک نامزد کیے گئے ہیں۔ جہاں پر کئی ایک متصل نیشنل پار کس اور سینکچوریاں ہیں، انھیں ایک بڑے دائرے  Biosphere Reserveمیں رکھا گیا ہے۔ ملک میں ان کی تعداد14 ہیں ۔اس طرح ہرچندکہ ابھی بھی ملک کے اندر خاصی تعداد میں قدرتی مقامات ہیں مگر صحیح اعتبار سے یہاںکے جنگلوں اور جنگلاتی مقامات کا تناسب زمین کے لحاظ سے تقریباً 33 فی صد ہونا چاہیے جب کہ یہ فی الحال گھٹ کر صرف 12 فی صدرہ گیا ہے اور ان کی دیکھ بھال میں بھی بتدریج زوال آرہاہے۔ ملک کی حیاتیاتی رنگا رنگی زبردست استحصال کا شکار ہے اور جانوروں و پودوں کے بہت سارے اقسام معدوم (Extinct) ہوتے جارہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں نباتات و حیوانات کے 652 سے زیادہ انواع ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انسانی آبادی میں بتدریج اضافہ ، انڈسڑیل ڈولپمنٹ ، شہروں اور مکانوں میں اضافہ ، انتظامی امور میں تساہلی ، پیڑوں کی بے دریغ کٹائی، بایو ٹیکنا لوجی کا غیر دانش مندانہ استعمال، بیرونی جمادات و نباتات (Invasive Species)کا استقلال، گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی کثافت میں اضافہ، زہر آلود ملبے میں اضافہ وغیرہ ہندوستانی جنگل اور جانوروں میں کمی کے اسباب ہیں۔ پھر بھی ان نیشنل پارکس اور سینکچوریوں کی سیر (دونوں میں صرف تحفظ کے اعتبار سے تھوڑا تکنیکی فرق ہے) ایک بہت ہی نشاط افزا اور معلوماتی تجربہ ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے    ؎

گلزار  ہست  وبود   نہ   بیگانہ  وار   دیکھ

ہے دیکھنے کی  چیز اسے  بار بار  دیکھ

 ہرچند کہ ڈسکووری ،انیمل پلینٹ اور نیشنل جغرافیائی چینلوں کے ذریعے ان مقامات کی دور سے ہی سیر ہو جاتی ہے مگر اصل مقام پر جاکر مشاہدے کا اپنا ایک الگ تجربہ ہے        ؎     

حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے 

ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

اقبال

میں نے اب تک اس عظیم اور گھنی آبادی والے ملک کے 35 صوبوں میں سے 21 صوبوں کا سفر کیا ہے۔ بڑے چھوٹے شہروں کے علاوہ 60 سے زائد وائلڈ لائف سینکچوریاں، نیشنل پارک اور برڈ سینکچوریوںکے مشاہدے کا موقع ملاہے۔ مختلف مقامات پر تقریباً دس ہزار آبی و برّی پرندوں کو رنگ Bird ringing) (کیاہے۔ جنگلوں کی سیر کے لیے پیدل چلنا اور(Trekking) کرنا ضروری ہے۔ ایسے کئی مرحلوں پر جنگلی ہاتھی اور جنگلی کتوں سے سامنا ہوا۔ کئی بارتو بھاگ کر جان بچانی پڑی۔ نمی والے علاقے جیسے کہ آسام اور کیرالہ کے جنگلوںمیںجونک اور جوئوں (Leeches, & Ticks) سے دوچار ہونا تو عام بات تھی۔ مگر چونکہ نئی نئی جگہوں کو دیکھنا اور جانوروں اور پرندوں کا مشاہدہ کرنا میراProfessionہی نہیں بلکہ Hobby بھی ہے لہٰذا ان صعوبتوں کو جھیلنا میری عادت سی ہو گئی ہے۔ اقبال نے خوب کہا ہے      ؎

قدرت کا عجب یہ ستم ہے

انسان کو راز جو بنایا

راز اس کی نگاہ سے چھپایا

بے تاب ہے شوق آگہی کا

کھلتا نہیں بھید زندگی کا

 نہایت افسوس کی بات ہے کہ گذشتہ 15؍سالوں میں ہندوستان کے میدانی علاقوں سے گدھ ناپید ہوگئے ہیں جو کہ ماحولیاتی کثافت دور کرنے میں بہت مدد گار تھے۔ قرین قیاس ہے کہ جانوروں کی تکلیف کم کرنے والی دوا Dicnoflacکے استعمال سے گدھوں میں اس کا زہر پھیل گیا اور وہ مرنے لگے۔ مگر اس امر کی مکمل معلومات ہنوز تشنہ ہے ۔ گدھ کی تعداد کم ہوجانے سے پارسی لوگوں کو سب سے زیادہ پریشانی ہے۔ ان کی لاش کو پہلے گدھ اور کو ّے ہی کھایا کرتے تھے جنھیں وہ اپنے قبرستان (Tower of Peace) میں کھلا رکھ دیتے تھے۔

جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے حیاتیاتی رنگا رنگی کی بقا کے لیے ملک میں وافر محفوظ مقامات (Protected Areas) نامزد کیے گئے ہیں ۔اور وزارت ماحولیات و جنگلات اور کئی غیر حکومتی ادارے (Non-Government Organisations) ان کی بقا اور حفاظت میں مصروف ہیں۔ پروٹکشن آف وائلڈلائف ایکٹ 1973 اس کے ترمیمات کے ذریعے ایسے سخت قوانین بھی بنائے گئے ہیں جو اگر صحیح طور پرنافذ کیے جائیں تو حیاتیاتی تنوع اور محفوظ معاملات کی بقا اور فروغ اور بھی بہتر طور پر ہوسکتی ہے۔غیر حکومتی اداروں میں بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی (BNHS)، وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (WII) دہرہ دون، ڈبلو ڈبلو ایف (WWF- India)  نئی دہلی، شعبہ وائلڈ لائف سائنس (DWS) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، سالم علی سینٹر آف آرنیتھولوجی اینڈ نیچرل ہسٹری (SACON) کوئمبٹور وغیرہ اہم ہیں۔ ان کے علاوہ بیرونی ممالک کے کئی اہم ادارے جیسے کہ International Union of Nature Conservation،  World Pheasant Association،Birdlife International، وغیرہ بھی حیاتیاتی تنوع کی بقا کے لیے انتھک کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں ادارہ  IUCNمرکزی حیثیت رکھتا ہے اس کے زیر اہتمام Convention on Biodiversity جس کا صدر مقام مونٹریال، کناڈا میں ہے۔ ملک کے تقریباً ہر صوبے میں صوبائی وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ بھی وہاں کے جنگلات، محفوظ مقامات اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں کئی ایک خاص پروجیکٹ بھی جیسا کہ ٹائیگر پروجیکٹ، رائینو پروجیکٹ، ہاتھی پروجیکٹ، کروکوڈائل پروجیکٹ، وغیرہ بھی اہم کام انجام دے رہے ہیں ۔ مگر عوامی طور پر ان امور کی جانکاری (Awareness)  بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول ، انسانی آبادی کے اضافے پر روک تھام، قدرتی وسائل کا معروضی استعمال وغیرہ حیاتیاتی تنوع کی بقا کے لیے اہم اقدامات ہیں۔

ہندوستان کے محفوظ مقامات اتنے دلفریب ہیں کہ ہر سال ہزاروں بیرونی سیاح یہاں کی سیر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ میری مذکورہ کتاب ان مدارس کے طالب علموں کے لیے بھی مفید ہوگی جن میں ماحولیاتی مضامین شروع کیے گئے ہیں، جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ہندوستان کے محفوظ مقامات اور حیاتیاتی تنوع کے بیشتر حصے محکمہ جنگلات کے افسران و دیگر کارندوں کے رہین منت ہیں۔ گذشتہ 40سالوںمیںجب بھی میں مشاہدہ و سیرکے لیے کسی بھی محفوظ مقام پر گیا تو ان لوگوں کا تعاون مجھے ملتا رہا ہے۔ جس کے لیے میں ان کا بے حدمشکور و ممنون ہوں۔


ماخذ: حیاتیاتی تنوع اور ماحولیات کے مسائل: حافظ شائق احمد یحییٰ، پہلی اشاعت: 2020، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ناقص تغذے کے اثرات، ماخذ: ہماری غذا، مصنف: شکیل احمد

  اردو دنیا، نومبر 2024 انسان کی خوراک میں غذا کے تمام اجزا مناسب مقدار میں شامل ہونا چاہیے۔ اس سے انسان تندرست اور بیماریوں سے محفوظ رہتا...