1/10/24

مغرب کی تقلید میں شعری ادب کا بھلا نہیں: رفیق جابر،خصوصی گفتگو، غضنفر اقبال

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

 

غضنفراقبال:محترم رفیق جعفر صاحب!آج کا اُردو قاری یہ جاننا چاہتا ہے کہ آپ کی زندگی کے وہ کون سے سین ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا؟

رفیق جعفر:  ایسا لگتاہے کہ یہ سوال قائم کرتے وقت آپ کے ذہن میں میرا یہ شعر ضروررہا ہوگا           ؎

پھر زندگی کی فلم ادھوری ہی رہ گئی

وہ سین کٹ گئے جو کہانی کی جان تھے

یہ شعرمیری ایک مشہور غزل کا ہے جو برسوں پہلے مہاراشٹر گورنمنٹ کے اُردو رسالے’قومی راج‘ میں شائع ہوئی تھی۔اس کا ہر شعر پسند کیا گیا،خاص طورپر اس شعر کے علاوہ ایک اور شعر تو زبان زدعام ہے ملاحظہ کریں        ؎

ہم لوگ آنسوئوں سے اُگاتے ہیں کھیتیاں

ہم آج بھی کسان ہیں کل بھی کسان تھے

اس غزل کی اشاعت بار بار ہوتی رہی۔اُردو کے علاوہ ہندی حلقوں میں بھی اس کے چرچے اب تک ہیں۔ میرے افسانوں کا مجموعہ’البم‘ (1980) میں اپنے بارے میں لکھتے ہوئے میں نے’پھر زندگی کی فلم........ والے شعر کا استعمال کیا تھا، اس شعر کی مقبولیت کی وجہ سے مجھ نثر نگار کو مجبوراً شاعری کی طرف راغب ہونا پڑا۔لیکن میرے لیے یہ ایک طرح کا چیلنج بھی تھا۔اس لیے میں نے کم کم لکھو،سنبھل کے لکھو ،شان سے لکھو، پر عمل کیا۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ساتھ میں آزاد نظمیں بھی کہہ رہا ہوں۔تقریباً 43 برس تک اس شعر کے زندہ رہنے اور میرے نام کے ساتھ شہرت پانے پر مجھے حیرت ہے۔ اورایک بات کہ کچھ نام نہاد شعرا نے لفظوں کے ہیر پھیر سے اس شعر کے خیال کو اپنا نے کی کوشش کی اورایک شاعر نے تو مشاعروں میں مختلف اشعار سناتے ہوئے اس شعر کو سنا کر داد لی تو میرے دوست شاعر ندا فاضلی اور ضمیر کاظمی نے انھیں روکا ٹوکا اور کہا کہ شاعر کا نام تو لو تم تو ایسا سنانے لگے کہ یہ تمھارا ہی شعر ہے۔ اس کے علاوہ وہ اکثر ناظم مشاعرہ ماحول بنانے کے لیے داد لینے کے لیے اس شعر کا استعمال کرتے ہیں۔خیر! مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے/ وہی ہوتاہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ اب رہی بات آپ کے سوال کی کہ آپ پوچھ رہے ہیں وہ کون سے سین ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا تو عرض ہے،غریبی،بے روزگاری، غریب الوطنی کی زندگی میں جہدِ مسلسل کے دور میں ایسے مناظر بھی آئے جو موت کے کنویں میں ڈھکیل سکتے تھے لیکن عزمِ محکم اور جہدِ مسلسل نے زندگی کی راہ دکھائی اور نصف صدی سے زیادہ کا سفر طے کیا آگے اللہ جانے۔

غ ا:      اُردوادب کے بارے میں آپ کے نظریات کیا ہیں؟

ر ج: زیادہ تفصیل میں گئے بغیر صرف یہ کہوں گا کہ اُردو ادب میں وہ سب کچھ ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ سمجھ کر ،ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں تو رموزِ زندگی سے واقفیت قاری کی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے۔

غ ا:آپ کا افسانوی مجموعہ’البم‘ جس وقت ظہور پذیر ہوا تھا اُس وقت اُردوافسانہ عروج پر تھا۔ تب سے اب تک کے دیارِ دکن میں لکھے گئے افسانے کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

رج:     اس سوال میںآپ نے ’دیارِ دکن‘ کی قید لگادی ہے ،قید نہ ہوتی تو بات بہت دور تک جاتی،خیر!’البم‘ کی اشاعت کے وقت آپ نے افسانے کو عروج پر بتایا،یہ آپ کی سوچ ہے۔آپ کی سمجھ سے میرا ماننا یہ ہے کہ 1980 میں اُردو افسانہ نئے تجربوں سے گذر رہا تھا۔ تجربے تو تجربے ہوتے ہیں،کامیابی و ناکامی مستقبل میں وقت طے کرتی ہیں۔ اب رہی بات تب سے اب تک ’دیارِ دکن‘ میں لکھے گئے افسانے کی توعرض ہے کہ اہلِ دکن نے افسانے کو نیا موڑدینے کی جو کوشش کی وہ کوشش کسی اور علاقے میں نہیں ہوئی۔خاص طورپر حیدرآباد اور گلبرگہ کے افسانہ نگاروں نے بہت کام کیا۔ ان کے کام بھی تجربے تھے۔ میرے افسانوی مجموعے ’البم‘ کے کچھ افسانے جدید طرزِ اظہار کے تجرباتی افسانے ہیں۔ میں نے اس کے بعد بہت ہی کم افسانے لکھے، اُن میں سے کچھ ہی افسانے شائع ہوئے۔میرے افسانوی قبیلے میں حمیدسہروردی،اکرام باگ، مظہر الزماں خان، قمر جمالی، نورالحسنین، ڈاکٹر بیگ احساس نے کامیابی کی منزلوں کو پالیا اوران کے افسانوں کے نقش آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے بعد بھی لکھنے والوں کی کمی تو نہیں لیکن محبت اور محنت سے بنائی ہوئی راہ ایسابھی ہٹی کہ بیکار گئی۔ آس باقی ہے بات باقی ہے شاید آگے بات بن جائے جن کے آثار کچھ لکھنے والوں میں نظر آرہے ہیں۔

غ ا:ڈاکٹر ظ۔انصاری سے ملاقاتیں کس نوعیت کی تھیں؟

ر ج:جی ہاں ایسا ضرور ہے کہ اُن سے ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔کبھی ان کے گھر پر تو کبھی اُن کے کالج میں تو کبھی کسی جلسے میں، پھر یوں ہوا کہ ایک دن اُنھوںنے صابر دت(مدیر فن اورشخصیت) کو اپنے گھر کولابا بلایا اور کہا کہ رفیق جعفر کو ساتھ لانا۔ ہم پہنچے تو انھوںنے صابر دت سے کہا میرے نام آئے خطوط پر مشتمل ایک کتاب شائع کیجیے۔ وہیں یہ طے ہوا کہ مجھے روز دو گھنٹے کام کرنا ہوگا۔دوسرے یا تیسرے دن روزانہ میں اُن کے فلیٹ پر جایا کرتا۔سیکڑوں خطوط کے ڈھیر میں سے میں اور ظ صاحب کی بیوی(دوسری) انتخاب کرتے،وہ انگریزی خطوط پڑھتیں اور میںاُردو کے،تقریباً ایک مہینے تک کام ہوتا رہا۔ظ صاحب کالج سے آنے کے بعد ہمارا ہاتھ بٹاتے اور صابر دت آتے جاتے رہتے۔بات مختصر کہ کسی وجہ سے یہ کام نہ ہوسکا لیکن ظ۔انصاری کی علمیت، قابلیت اور لندن،امریکہ، روس جیسے بیرونِ ملک کی بڑی شخصیتوں میں ان کی مقبولیت اور چاہت کا اندازہ ہوا۔ ظ۔ انصاری بہ حیثیت اُردوداں،مقرر،نقاد، اُستاد، صحافی، انگریزی کے علاوہ جرمنی،روسی کے ماہر ساری دنیا میں عزت ووقار کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔یہ اعزاز اُردو کے کسی اور صحافی اورادیب کے حصے میں نہیں آیا۔

غ ا:کیا واقعی ادب وشعر سوشیل میڈیا کے شور میں گم ہوگئے؟

ر ج:یہ افواہ ہے محض افواہ۔

غ ا:دکن کے معروف شاعر عزیز قیسی کے ساتھ آپ نے عمر عزیز کا ایک حصہ بسرگیا ہے۔کیا اُردو شاعری میں قیسی مرحوم کو وہ مقام ملا جس کے وہ مستحق تھے؟

ر ج:1972 میں جب میں حیدرآباد سے ممبئی منتقل ہوا تو قیسی بھائی وہاں میرے سرپرست تھے، بہکنے بھٹکنے سے بچائے رکھتے،کام کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتے۔جب کوئی کام نہیں ہوتا تو اُن کے گھر چلا جاتا۔وہ فلمیں لکھتے،مجھے اپنے ساتھ رکھتے۔فلم لکھنے کے گُر سکھاتے،اسکرپٹ فیئر کرواتے ،اُردو سے ہندی میں سین لکھواتے،پروڈیوسر سے پیسے دلاتے، سیٹ پر بحیثیت اپنے اسٹنٹ ضرورت پڑنے پر بھیجا کرتے۔ جہاں بھی لے جاتے برابری کی عزت دیتے، دلاتے، قیسی بھائی اعلیٰ کردار کے انسان تھے۔ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا سمجھا جواب تک کام آرہاہے۔فلم جیسی کمرشیل دنیا میں رہ کر بھی انھوںنے ادب کی خدمت کی۔مشاعروں میں بلائے جاتے،سمیناروں میں بلائے جاتے۔مذاکروں میں حصہ لیتے۔ علی سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی،جاں نثار اختر،یوسف ناظم وغیرہ سے ان کے گہرے مراسم تھے۔چوں کہ قیسی بھائی نہ صرف شاعر اچھے تھے بلکہ تنقیدی شعور بھی رکھتے تھے۔ عربی، فارسی کے ادب سے بھی واقف تھے۔تو سبھی ان کی عزت کرتے تھے۔اب رہی بات کہ کیا اُردو شاعری میں انھیں وہ مقام ملا جس کے وہ مستحق تھے۔ تو عرض ہے کہ جب تک وہ حیات تھے صفِ اول کے شاعروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ اب وہ نہیں ہیں تو اُس دور کی ادبی تاریخ میں ان کا نام زندہ ہے۔ان کی شاعری کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ایک ناولٹ شائع ہوا۔سہ ماہی ’تکمیل‘ نے ’عزیزقیسی نمبر‘شائع کیا۔ حیدرآباد میں تھے تو بھی صفِ اول کے شعرا میں ان کا شمار ہوتاتھا اور ممبئی میںبھی پہلی صف کے شعرا میں سے تھے۔ ان کے کئی اشعار مشہور ہوئے۔ایک شعر یادآرہاہے ملاحظہ کیجیے        ؎

یاد کیا اور آنکھ میں آیا

آنسو تیری عمر بڑی ہے

غ ا:آپ کی بہ حیثیت شاعر ایک شناخت مستحکم ہے۔ کتاب ’موسم سوچ نگر کا‘کی غزلیں متاثر کن ہیں۔ایسا احساس جاگتاہے کہ غزل کی تعریف فی زمانہ بدل گئی ہے۔آپ کا کیا خیال ہے؟

ر ج:آپ کا خیال درست ہے۔ ایسا ہونا تھا ہوا۔یہ ’’غزلیہ شاعری کے لیے اچھاہے، زمانے کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں تو فنونِ لطیفہ میں بھی یہ عمل جاری رہتا ہے۔ یہاں ایک بات کہنا میں ضروری خیال کرتا ہوں کہ غزلیہ شاعری کے کئی روپ ہر دور میں رہے ہیں۔شعراکی کاوشیں بھی کئی رخوں پر رہی ہیں لیکن ان تمام کے باوجود ادبی رنگ زمانے کا ساتھ دیتا رہا ہے۔اوریہ رنگ سماجی،سیاسی زندگی کے Shades بھی پیش کرتاہے اورانسانی زندگی کے اندرونی دکھ درد اور نشاط کو بھی روشن کرتاہے۔ یہ رسالوں اور کتابوں میں چھپنے والی غزلیہ شاعری ہوتی ہے۔مشاعروں اور گائیکی والی غزلیہ شاعری الگ ہوتی ہے۔ مگر میں دیکھ رہاہوں کہ عوام اورخواص کے ذوقِ سخن میں بدلائو آرہا ہے۔ اچھا شعر چاہے کسی بھی رنگ کا ہودل کو چھو جاتا ہے اور یادداشت کاحصہ بن جاتاہے۔میری غزل جو میں رسالے میں چھپواتا ہوںوہی غزل نشستوں اور مشاعروں میں بھی سناتاہوں،پسند کیا جاتاہوں۔مثال کے طورپر چند اشعار پیش ہیں         ؎

ایک اِک بات تو ظاہر ہے میرے چہرے سے

زندگی ہوگئی اخبار میں کیا کیا لکھوں

آتا ہے تو ساتھ میں اپنے ٹھنڈی رُت بھی لاتا ہے

زخموں کو بھی سہلاتا ہے موسم سوچ نگر کا

میری سن لو میری مانو ورنہ تم پچھتائوگے

میل کا پتھر کام کا پتھر کرو حفاظت پتھر کی

ریل جب گائوں سے گذرتی ہے

تیری تصویر کیوں اُبھرتی ہے

دوست بازو ہیں مرے اور پیچھے بھی

پیٹھ پر ہو نہ کہیں وار خدا خیر کرے

رستہ رستہ سناٹا ہے منزل منزل جائے کون

اپنی آنکھیں روشن رکھ کر یارو ٹھوکر کھائے کون

ایک میں ہی نہیں اور بھی کئی شاعر ہیں جن کے اشعار میں زندگی بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔یہ ہے آج کی غزل۔

غ ا:گلبرگہ دکن سے متعلق ’اُردوادب کے تین بھائی‘ (محبوب حسین جگر،ابراہیم جلیس، مجتبیٰ حسین) پر آپ نے کتاب مرتب کی ہے وہ کیا اسباب تھے کہ آپ کی نظرِ انتخاب ان تین معروف ومشہور بھائیوں پر پڑی؟

ر ج: دکن کے ان تین سپوتوں نے اپنے دورمیں جو غیر معمولی شہرت پائی اس پر میں نے تحقیقی کام کیا اوروہ باتیں روشنی میں آئیں جس سے اُردو قارئین ناواقف یا کم واقف تھے۔میرا مقصد یہ رہاکہ ایک ہی خاندان کے ان تینوں بھائیوں نے اردو زبان، صحافت اورادب کی خدمت کے لیے مسلسل کام کیا اور ساری زندگی اسی کام میں بتادی۔ میری محنت رنگ لائی،یہ کتاب ادب کے ہر حلقے میں پسند کی گئی۔مستند رسائل میں تبصرے شائع ہوئے۔اوریہ آج ان تینوں پر تحقیق کرنے والوں کے لیے مفید ثابت ہورہی ہے۔یہ کیا کم ہے؟

غ ا:نئی اصنافِ شعر کا مستقبل تاریک ہے یا تابناک؟

ر ج: اصنافِ سخن میں ہمیشہ غزل کا سکہ چلتا رہاہے اور چلتا رہے گا۔پابند نظم کا رواج ختم ہوچکاہے۔ آزاد نظمیں اور نثری نظمیں سنی نہیں جاسکتیں پڑھی جاتی رہیں گی۔ دیگر اصنافِ سخن کا حشر ہم دیکھ رہے ہیں تو کل کی کیا ضمانت دیں۔شاعری میں تجربوں کا بھی میں قائل نہیں بلکہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس کی ضرورت کیاہے۔ جب کہ ہمارے پاس غزل ہے، دوہا ہے، رباعی ہے۔ان اعلیٰ اصناف میں کیوں طبع آزمائی نہیں کرتے۔مغرب کی تقلید میں شعری ادب کا بھلا ہونے والا نہیںہے۔

غ ا:کتاب فروش دور میں قاری کی مطالعے کی طرف واپسی کی کیا صورت ہوگی؟

ر ج:سوشیل میڈیا سے قاری کم نہیں ہوئے۔بڑھے ہیں۔ یہی قاری پرنٹ میڈیا کی طرف ازخود لوٹ رہے ہیں۔ کمپیوٹرسے پرنٹ آئوٹ نکال کر پڑھ رہے ہیں۔ اُردوادب کا بیش بہا سرمایہ سوشیل میڈیا پر محفوظ ہے۔ وہی سرمایہ ضرورت کے مطابق کتابی شکل میں آبھی رہا ہے اورایک بات کہ اکیسویں صدی میں جتنی بڑی تعداد میں کتابیں شائع ہوئی ہیں وہ پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔اس لیے کوئی فکر کی بات نہیں،ایسا میں سمجھتا ہوں۔

 

Dr. Ghazanfar Iqbal

"SAIBAN" Zubair Colony,

Hagarga Cross, Ring Road,

Gulbarga-585104, Karnataka.

Cell No. 09945015964

email: ghazanfaronnet@gmail.com

Rafiq Jafer

Rajeet Singh Colony, Opp. Talav,

Nalband Galli, Telegaon, Dabhade,

Taluqa Maval, Pune - 410506

Mobile: 09270916979


 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...