14/10/24

ہماری لوک کتھائیں، مضمون نگار: ذکیہ مشہدی

 اردو دنیا، ستمبر 2024

لوک کتھائیں ہمارے درمیان اس وقت سے موجود ہیں جب انسان نے نہ حرف ایجاد کیے تھے نہ ہندسے اس لیے کہ ان کہانیوں کے لیے نہ کاغذقلم کی ضرورت تھی نہ حروف کی۔ بے شک قوت گویائی ضروری تھی۔ لیکن اس کا کوئی تاریخی ریکارڈ یا ثبوت نہیں ملتاکہ انسانوں نے اتنا بولنا کب شروع کیاکہ وہ خیالات کا منضبط اظہار کرکے انھیں ایک لڑی میں پِروکر گیت، کہانی یا ناٹک کی صورت دے سکیں۔ (ہمارے عوامی فنون میں گیت ناٹک اور رقص بھی شامل ہیں) ویسے زبان کوئی مشین، کوئی ڈیزائن، کوئی اصول تو ہے نہیںکہ وہ ایک خاص مقام پر کسی خاص وقت میں ایجاد یا دریافت ہوگئی ہو اور اس کا موجد مارے خوشی کے یُوریکا، یُوریکا (Eureka) چلاتا ہوا حمام خانے سے برہنہ ہی نکل بھاگا ہو۔ یہ ذہنی اور جسمانی عوامل کے امتزاج سے وجود میں آنے والی ایسی صلاحیت ہے جس کا ارتقا ہزاروں سال پر محیط ہے۔ اس سلسلے میں محققین نے جو چھان بین کی ہے وہ بھی کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکی، ہاں یہ قیاس لگایا گیا ہے کہ آوازوں کے الفاظ میں بدلنے کا عمل 70,000 سال پہلے شروع ہوا اور آج زبان جس صورت میں ہمارے سامنے ہے یہ تقریباً 20,000 سال پہلے بنی ہے۔ تحریر کی ابتدا علامتوں اور کچھ صورتوں کے طورپر پانچ سے ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے ہوئی۔ ان کا ریکارڈ موجود ہے۔ معدودے چند (مثال کے طورپر ہڑپا میں ملنے والی مہریں) کو چھوڑکر باقی کو ڈی کوڈ کیا جاچکا ہے۔

محققین کے مطابق پہلا تحریری ناول یا داستان ایپک آف گلگمیش (Epic of Gilgamesh) ہے جس کا زمانہ 2150 قبل مسیح سے 1400 قبل مسیح متعین کیا گیا ہے۔ یعنی موٹے طورپر چارہزار سے ساڑھے چار ہزار سال قبل اس نیم افسانوی بادشاہ کے تعلق سے یہ داستان تحریر میں آئی تھی۔

ہماری وہ کہانیاں جو حروف کی مرہونِ منت ہیں نہ کاغذ قلم کی، سیاہی کی مرہونِ منت ہیں نہ چھاپہ خانے کی، ساڑھے چار ہزار سال سے تو پہلے یقینی طورپر معرضِ وجود میں آچکی تھیں اس لیے کہ گویائی انسان کو حروف سے بہت پہلے حاصل ہوئی تھی۔ کب، یہ یقینی طورپر متعین نہیں کیا جاسکا لیکن قیاس ہے کہ بہت پہلے۔ یہ گیت کہانیاں اور ناٹک زبانی تخلیق کیے جاتے تھے اور زبان سے ہی سینہ بہ سینہ منتقل ہوکر اگلی نسلوں تک پہنچتے رہتے تھے۔ اس وجہ سے ان میں بنیادی خیال برقرار رہنے کے باوجود تبدیلیاں بھی آتی رہتی تھیں۔ لیکن ان کی حیثیت عالم گیر تھی۔ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے، کوئی دَور ایسا نہیں ہے جب یہ عوامی ادب گویائی کی ابتدا ہوجانے کے بعد وجود میں نہ آیا ہو۔ یہ لوک یعنی عوام میں پیدا ہوا، عوام کے ذریعے تخلیق کیا گیا اور انھیں کے درمیان ارتقا پذیر رہا۔ اس میں اتنی کشش تھی اور کشش سے اُپجی پائداری کہ یہ آج بھی ہمارے درمیان برقرار ہے۔ گرچہ اس عوامی ادب میں گیت اور ڈرامے بھی شامل ہیں، میں یہاں صرف لوک کتھاؤں کو موضوعِ گفتگو بنا رہی ہوں۔ صرف ان پر ہی سیر حاصل گفتگو کرنے کے لیے ایک دفتر درکار ہوگا اس لیے سچ پوچھیے تو صرف اہم نکات ہی زیرغور آسکیں گے۔

لوک کتھاؤں کی کئی صورتیں ہیں، لیکن سب سے پہلے ان کے متعلق جو خیال ذہن میں آتا ہے وہ بچوں کو فرصت کے اوقات، خاص طورپر سوتے وقت سنائی جانے والی کہانیاں ہیں۔ بظاہر ان کا مقصد بچوںکی ذہنی تفریح یا پھر انھیں بستر میں جکڑے رکھنا ہوتا ہے کہ وہ وقت سے سوجائیں۔ لیکن ان سے کئی بلاواسطہ مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں۔ بچوں کی لفظیات میں اضافہ ہوتاہے، گرد و پیش کی چیزوں سے آگہی ہوتی ہے، کچھ اخلاقی اصول ذہن نشیں ہوتے ہیں، ناپختہ ذہن غور و فکر کی طرف مائل ہوسکتا ہے، اور ایک بڑا فائدہ جومجھے ذاتی طورپر موجودہ زمانے کے پس منظر میں نظر آیا وہ یہ ہے کہ یہ کہانیاں بچوں اور ان کے بزرگوں (دادا۔دادی، نانا۔نانی، خالہ۔پھوپھی، تائی۔ چچی یہاں تک کہ پڑوس کے بزرگ اور گھریلو ملازمین) کے درمیان رشتے استوار کرنے کا سبب بن سکتی ہیں اور بنتی رہی ہیں جو فی زمانہ کمزور ہی نہیں پڑرہے، معدوم بھی ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آج مشترکہ خاندان بکھرچکے ہیں۔ میں خود اپنے بچوں اور نتیجتاً ان کے بچوں سے دور رہ رہی ہوں لیکن جب یہ بچے ننھے تھے تو جب بھی ان سے ملنے کا موقع ملا، انھیں بہت سی کہانیاں سنائیں جو انھوںنے شوق سے سنیں۔ میرے یہ پوتے-نواسے بہت بڑے نہیں ہیں۔ اس طرح یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تو داستانِ پارینہ ہے، اب کہاں لوک کتھائیں، کہاں ہمارے بچے۔ جو وقت مل سکے، اس میں ان کے بڑے انھیں لے کر بیٹھیں تو وہ ہمارے اس قومی ورثے سے بیگانہ نہیں رہ سکیںگے۔

بچوں کی کہانیوں میں موضوعات کے لحاظ سے وہی تنوع موجود ہے جو بہ حیثیت مجموعی ہمارے اس خزانے میں ہے۔ ان میں پریاں ہیں، دیو، جادوگر، بونے، بولنے والے جانور، جون بدلنے پر قادر مخلوق، وغیرہ۔ یعنی مافوق الفطرت ہستیوں کی بہتات ہے۔ عام انسان بھی ہیں لیکن ان میں سے بیش تر ایسے کاموں پر قادر ہیں جو حقیقی زندگی میں ممکن نہیں نظر آتے۔ یہ کہانیاں بچوں کو بہت بھاتی ہیں۔ معلومات کے وفور کے موجودہ دَور میں بھی جہاں بچے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہوشیار ہیں، یہ کہانیاں پسند کی جاتی ہیں۔ بچے انھیں پسند کرتے، ان سے محظوظ ہوتے اور کرداروں کے دُکھ سکھ میں کامل ذہنی آہنگی (empathy) محسوس کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا تو جے۔کے۔رالنگ (J.K.Rawling) اتنی مقبول نہ ہوتیں۔ ان کے یہاں مافوق الفطرت عناصر کثرت سے موجود ہیں جو بچوں اور نوعمر بالغوں (Young adults) میں بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ ویسے بھی پانچ چھ سال کی عمر تک کے بچے جانوروں، چاند-ستاروں، چڑیوں، پھول پودوں اور ازیں قبیل چیزوں کو انسانوں جیسا ہی سمجھتے ہیں۔ پریاں ان کے لیے حقیقی ہوتی ہیں۔ چڑیا واقعی دال چاول کے دانے لاکے کھچڑی پکاتی ہے۔ گلہری واقعی راجاکے یہاں مدعو کی جاتی ہے۔ لوک کتھاؤں کی ایک دلچسپ خاصیت اور ہے۔ وہ یہ کہ یہ کہانیاں ایک خطے سے دوسرے خطے میں قدرے صورت بدل کر سفر کرتی رہتی ہیں یا سفر کے دوران ان کی صورت بدل جاتی ہے۔ کب انھوںنے صورت بدلی، کب انھوںنے اپنے دیس سے پردیس آکر وہاں کا چولا اختیار کیا، کچھ پتہ نہیں چلتا۔ یہ تو منھ در منھ چلنے والی داستانیں ہیں۔ میری والدہ انگریزی داں نہیں تھیں لیکن انھیں سنڈریلا کی کہانی معلوم تھی۔ اس میں سنڈریلا کا کوئی نام نہیں تھا وہ بس ایک لڑکی تھی جو بدقسمتی سے ایک نامہربان سوتیلی ماں کے پلے پڑگئی تھی باقی کہانی میں صرف اتنا اور ثقافتی تصرف تھاکہ وہ لڑکی رقص کی محفل میں نہیں بلکہ دعوت میں گئی تھی۔ میں نے پڑھنا لکھنا سیکھنے سے پہلے سنڈریلا کی کہانی انھیں سے سنی تھی۔

سنڈریلا کا سب سے دلچسپ ورژن میں نے یہاں، بہار کے دارالسلطنت پٹنہ میں، ایک لیڈی ڈاکٹر کی ملازمہ کی زبان سے سنا۔ بہار میں بڑی بہن کو بُوبُو کہتے ہیں، یہ واضح کردوں۔ خالص بہاری لہجے اور بہارکی خصوصی لفظیات کا استعمال کرتے ہوئے ان کی ملازمہ نے سنڈریلا بُوبُو کی کہانی سنائی۔ معاف کیجیے سنڈریلا نہیں، سندیلہ بُوبُو۔ سندیلہ اپنی چھوٹی سوتیلی بہنوں کے لیے بُوبُو تھی۔ جب بادشاہ کے یہاں پارٹی میں سوتیلی بہنوں کی نظر اس پر پڑی تو ایک نے کہا  — تنی دیکھ تو یہ تو بُوبُو لاگے ہے— دوسری نے غور سے دیکھااور یوں گویا ہوئی —  چل ہٹ رے چھٹکی— بُوبُو کے پاس نہ ایسا کپڑا آ۔ نہ ایسا گہنا آ… ای بُوبُو کئی سے ہوگئی۔ ہم لوگ لوٹ پوٹ ہوگئے۔ اس ملازمہ کے بچوں اور ان کے بچوں کے بچوں کے ذریعے یہ کہانی اس صورت میں کہاں کہاں اور پہنچی ہوگی اور کن تبدیلیوں کے ساتھ، کون جانے۔

مضمون طویل ہوجانے کے اندیشے کے باوجود ایک بہت دلچسپ معاملہ گوش گزار کرنا چاہوںگی۔ پری کتھائیں سنانے کے مشہور عالم ڈینش مصنف ہَینس کرسچین اینڈرسن کی کتاب میں ایک کہانی ہے ’کلیورایلس‘ (Clever Alice)۔ ایلس گھریلو ملازمہ ہے جو بہت شاطر ہے۔ مالک نے ایک دوست کو کھانے پر بلایا اور ایلس سے تیتر مسلم پکانے کو کہہ کر اپنے کام پہ چلے گئے۔ ایلس نے تیتر پکائے، میزلگائی۔ چھری کانٹے رکھے لیکن تیتر خود کھاگئی۔ مالک آئے تو ان سے کہا مہمان آئے، ذرا جلدی میں تھے، آپ کے بغیر کھانا کھاکے جانے لگے اور چاندی کی کٹلری مانگی جو میں نے نہیںدی تو ناراض ہوگئے۔ مالک ہاتھ میں کٹلری لے کر دوڑے۔ مہمان ابھی کچھ ہی دور گئے تھے۔ ان سے ایلس نے کہہ دیا تھاکہ میرے مالک جس کی دعوت کرتے ہیں اس کے کان ضرور تھوڑے سے کاٹ دیتے ہیں۔ اب سوچ لیجیے۔ میزبان چاندی کی چھری لیے دوڑ رہے ہیں اور مہمان اور تیز بھاگا جارہا ہے۔ آخر بھاگ گیا۔ اب یہ کہانی میں نے پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون سے اپنے بچپن میں سنی تھی۔ یعنی تقریباً ستّر سال پہلے۔ اب جناب ہندوستانی تہذیب میں وہ بھی زمانہ پہلے چھری کانٹے اور میز کہاں اور ایلس کہاں۔ تو کوئی جہورن بُوا تھیں اور جو صاحب آئے تھے ان کا نام تھا پھتّے میاں۔ اور کھانا پکاتھا مرغ کا سالن۔ باقی بنیادی کہانی یہی تھی کہ جہورن بوا مرغ کا سالن مع روٹی صاف کرگئیں اور مالک سے کہاکہ وہ سِل کا بٹّہ مانگ رہے تھے ہم نے نہیں دیاکہ ہم کو مسالہ پیسنے میں دقّت ہوجائے گی تو رُوٹھ کر بھاگ گئے۔ اب میزبان دوڑے کہ دوست کے سامنے ایک بٹّے کی کیا وقعت— اے میاں پھتّہ  —لیتے جاؤ بٹّہ—بے چارے پھتّے میاں اور تیز بھاگے اس لیے کہ ان سے کہہ دیا گیاتھاکہ میزبان کو پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں اور وہ اکثر سِل کے بٹے سے مہمانوں کا سر پھوڑ دیتے ہیں۔

دیکھا آپ نے کہانی کا بہروپیاپن— جو لوگ بھی اسے پڑھ رہے ہیں تھوڑا بہت تو ہنس ہی لیں گے۔ بے سر پیر کی داستان لیکن بچوں کو سنائیے تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ انگریزی داں بچے کلیورایلس کی چالاکی سے اور جو بچے انگریزی داں نہیں ہیں وہ میاں پھتّے سے۔ میں نے اپنے نواسے اور پوتے کو دونوں شکلوں میں اسے سنایا اور وہ بہت محظوظ ہوئے۔ بلکہ پھتّا اپنی مضحکہ خیزی کی وجہ سے زیادہ پسند آیا۔

یہ محض مثالیں ہیں اگر اسے تحقیق کا موضوع بنایا جائے تو اچھی خاصی کتاب تیار ہوجائے گی جو یقینا بہت دلچسپ ہوگی۔

لوک کتھا ایک ملک سے دوسرے ملک، یا ایک ثقافت سے دوسری ثقافت میں گھس پیٹھ کرکے ہی اپنی صورت نہیں تبدیل کرتی بلکہ ایک ہی ملک میں اسے کئی رُوپ بھرتے پایا جاتاہے۔ ایک تو ان لوک کتھاؤں کا ایک محبوب موضوع ہے شرپر خیر کی فتح اور کمزور کا شہ زور پر قابو پاکر اپنی زندگی کو بہتر بنالینا۔ کمزور جسمانی، سماجی، صنفی، حیاتیاتی، کسی بھی صورت کمزور ہوسکتا ہے۔ دبنگوں کے ذریعے حاشیے پر دھکیل دیے جانے والے یا فطری طورپر کمزور طبقوں میں پیدا ہونے والے کرداروں کی بہتات ہوتی ہے۔ عموماً ظالم و جابر بادشاہ، وزیر، متمول سوداگر، جانوروں میں اجگر، بھالو، بھیڑیے، شکاری وغیرہ ہوتے ہیں اور کمزوروں میں لکڑہارے، کسان، کم عمر کے لڑکے لڑکیاں چھوٹی پیاری چڑیاں، چوہے جیسے کردار آتے ہیں۔ دبنگوں کے ذریعے زبردستی بے دخل کردیے جانے والوں میں عموماً گھر کا چھوٹا بیٹا، کوئی سوتیلا رشتہ، کوئی کم عقل انسان یہاںتک کہ بیوی بھی ہوتی ہے جوجابر شوہر کے ذریعے پریشان کی جاتی رہتی ہے۔ عموماً سوفی صد لوک کہانیوں میں خیر کو شر پر غالب آتے اور بے گناہ کو ظالم پر فتح پاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے یہ اتفاق نہیں ہے— یہ عوامی سوچ ہے—عوام یعنی لوک۔

میں نے سیکڑوں لوک کتھائیں پڑھی اور سنی ہیں۔ صرف ایک فرانسیسی کہانی میں بکری کو ظالم بھیڑیا کھاگیا ہے لیکن اس کہانی کا سبق یہ تھاکہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔ آخر میں چڑیاں گفتگو کرتی ہیں کوئی کہتی ہے بکری جیتی، کوئی کہتی ہے بھیڑیا جیتا۔ یہ کہانی ابوخاں کی بکری کے نام سے اردو میں آئی اور بچوں کی کئی کتابوں میں ماخوذ ہوئی۔

ایک ہی طرز میں ایک سے زیادہ کہانیاں مل جاتی ہیں۔ مثلاً پودنا اور پودنی کی کہانی کی دوسری صورت بھَربیتَن کی کہانی ہے۔ بھربِیتَن یعنی بالشت بھر کا۔ پودنا چھوٹی سی چڑیا ہے غالباً ہمنگ برڈ۔ اس کی غیرموجودگی میں اس کی بیوی یعنی اس کی مادہ کو راجہ کے سپاہی اُٹھا لے جاتے ہیں تو وہ سرکنڈوں کی گاڑی بناکر اس میں مینڈک جوتتا ہے اور اپنے دوستوں کو لے کر راجہ سے لڑنے پہنچ جاتاہے۔ دوست کون۔ تتیّا، شہدکی مکھی، آندھی، مرغا، بہاالفاظِ دیگر جنتا جناردن— عوام  — لوک۔ اہل صفا، مردودِ حرم، ظاہر ہے فتح حاصل کرتا ہے کیونکہ فتح تو عوام کی ہوتی ہے جو دیکھ سکیں یا نہیں کہتے ضرور ہیں ’ہم بھی دیکھیںگے‘ کہ دنیا تو امید پر قائم ہے۔ اسی طرح بھربیتَن ہے جو نارمل گھر میں پیدا ہوا ہے لیکن قدرت نے اسے بالشتیہ بنا دیا۔ لیکن صاحب اس کے حوصلے بلند ہیں۔ آج کل کئی مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں نہایت غریب گھر کے بچوں نے جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں مسابقتی امتحان پاس کیے اور ڈاکٹر،  افسر وغیرہ بنے۔ یہ یہی بھربیتن ہیں جن کے بلند حوصلے انھیں زندگی میں اعلیٰ مقام دلاتے ہیں۔ لوک کتھا کا بھربتین اپنے طرز پر ہل چلا رہا ہوتا ہے کہ راجہ کی نظر اس پر پڑتی ہے تو وہ اور اس کے خوشامدی مصاحب اس پر ہنستے ہیں۔ اس کی اَنا کو چوٹ پہنچتی ہے۔ راجہ معافی مانگنے سے انکار کرتا ہے تو وہ بھی لڑنے پہنچ جاتا ہے۔ کنکھجورا، بچھو، کتا، بلّی جیسے دوستوں کو لے کر اور بادشاہ کا ناک میں دم کردیتا اور معافی منگوا کے چھوڑتا ہے۔ اسی طرح باپ کی موت کے بعد جائز ورثے سے بے دخل کردیا جانے والا چھوٹا بھائی جدوجہد کرتا اور اپنی باعزت بقا کے سامان اپنی کاوش سے مہیا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ جانور ظالم بھی ہیں، مظلوم بھی۔ مظلوم کی حمایت کرنے والے بھی ہیں اور انسانوں کی طرح سازشیں رچنے والے بھی۔ یہ ہماری دنیا کے متوازی چلتی ایک ایسی دنیا ہے جس میں ’لوک‘ سکھ دکھ، آسائش و آلام، امید و بیم سب کچھ یوںہی ہے جیساکہ وہ ہوتا ہے۔ ہاں علامتوں کے ذریعے اظہار پاتا ہوا —

علامتوں کا ذکر آیا تو ہمارے ادب عالیہ میں علامت نگاری تو بہت بعد میں آئی۔ پہلے تو ادب کے تحریر میں لائے جانے میں ہی بہت وقت لگا پھر ادب کی وہ صورت پیدا ہوئی جو آج ہم دیکھتے ہیں۔ اس میں مختلف اسالیب آزمائے گئے۔ مختلف مکاتب فکر پیدا ہوئے اور آئی علامت نگاری۔ یہ علامت نگاری تو ہماری لوک کتھاؤں میں ان کی ابتدا سے موجود ہے۔ شیرطاقت اور آمریت کی علامت، لومڑی چالاکی کی، گوریا معصومیت اور بے بضاعتی کی۔ لکڑہارا مزدوروں کی۔ سانپ، بچھو، چوہے، چھچھوندر، آندھی، پانی ہوا، آگ  —فطرت کی طاقت، اس کی مہربانیوں اور اسے نظرانداز کرنے پہ اس کے قہر کی علامتیں۔ علامتیں ہی علامتیں۔ بچوں کے لیے کہانی کا ظاہر اور فکر کرنے والوں کے لیے کہانی کا باطن۔

ایک روسی لوک کتھا میں ایک کسان کی جھونپڑی پر ایک بُڑھیا جادوگرنی یا چڑیل آن کے بیٹھ جاتی ہے۔ وہ انتہائی مشقت کرکے اسے ہٹاتا ہے لیکن دوسری صبح دیکھتا ہے کہ وہ تو وہیں بیٹھی ہوئی ہے۔ ایک دن وہ اس سے نجات حاصل کرہی لیتا ہے۔ بچے آنکھیں پھاڑکر پریشان ہوکر کہانی سنتے ہیں، بڑھیا جادوگرنی کیفرکردار کو پہنچ جاتی ہے تو خوش ہوکر تالیاں بجاتے ہیں۔ یہ کہانی کا ظاہر ہے۔ بالغوں کے لیے یہ بڑھیا غربت ہے، استعماری طاقت ہے، اقتدار ہے، لگان کے ذریعے کسان کی ساری کھیتی کھا جانے والا سسٹم ہے۔

یہ محروموں (Have-nots) اور پیٹ بھروں (Haves) کی کشاکش ہر خطے کی اکثر کہانیوں میں مل جائے گی۔ بلکہ ایک جزولاینفک کی حیثیت میں ملے گی۔

لوک کتھاؤں کی ایک اور صورت کچھ مسخرے یا بہت عقل مند یا بے حد حاضرجواب علاقائی داستانی شخصیتوں کے ذریعے بھی ہاتھ آتی ہیں۔ بہار میں گونوجھا اور دکن میں تینالی رام سے اسی طرح کے قصے سنے گئے ہیں جن میں بعد میں اور جڑتے چلے گئے ہیں۔ شیخ چلی حقیقی کردار نہیں ہیں لیکن وہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ ایران کے ملّا نصرالدین حقیقی انسان ہیں لیکن ان سے بھی جو قصے وابستہ ہیں وہ ضروری نہیںکہ سب واقعی ان کے ساتھ وقوع پذیر ہوئے ہوں یا انھوں نے سنائے ہوں۔ ان داستانی یعنی لیجنڈری ہستیوں سے ملنے والے قصے اکثر پندونصائح پر مبنی ہوتے ہیں اور کبھی محض تفریح کا ذریعہ۔ شیخ چلّی سے حکایتیں وابستہ ہیں جو ہنساتی ہیں۔ ان کے قصوں میں طبقاتی کشاکش یا خیروشر کا تصادم نہیں کے برابر ہے۔ اس طرح کی لوک کتھائیں صرف اس طرح کے لوگوں سے وابستہ نہیں ہیں۔ یوں بھی بہت عام ہیں جن کا مقصد محض تفریح ہے۔

ایک خصوصیت اور جو نظر آتی ہے وہ عورتوں کا مصیبت کی گھڑی میں بہادری اور عقل مندی سے ساتھ دینا اور مصیبت کو حل کر ڈالنا ہے۔ اس میں بیٹیاں باپ کا سہارا بنتی ہیں، بیویاں اپنے شوہروں کو مصیبت سے چھٹکارا دلاتی ہیں۔ بے شک کچھ عورتیں اس کے برعکس بھی ملتی ہیں لیکن ہماری یہ لوک کتھائیں کسی بھی صورت صنفی عصبیت (Mysogeny) کا ثبوت نہیں دیتیں۔ پریشانیوں کو بلاوا دینے والی یا حماقتوں سے اپنے عزیزوں کو تنگ کرنے والی، عیار و مکار عورتیں نسبتاً کم ہیں، زیادہ نہیں۔ اگر جادوگرنیوں، چڑیلوں اور ڈائنوں کو آپ صنف اناث میں رکھیں تو ان کے مردانہ رُوپ بھی موجود ہیں۔ مثلاً عفریت، جن، بھوت، جادوگر۔ یوں توازن قائم رہتا ہے۔ لوک کتھائیں اپنی متخیلہ دنیا کو اسی طرح پیش کرتی ہیں جیسی ہماری یہ حقیقی دنیا ہے جہاں اچھے برے ہرطرح کے لوگ موجود ہیں۔ ہاں جہاں حقیقی دنیا میں خیر ہمیشہ شر پر غالب نہیں آتا کمزور ہمیشہ کامیاب نہیں ہوپاتا، ہمارا حوصلہ بڑھانے کے لیے ایک آئیڈیل دنیا خلق کرتی ہیں یہ لوک کتھائیں۔

لوک کتھاؤں کا بہت بڑا ذخیرہ مذہبی یا اساطیری داستانوں کی صورت میں بھی موجود ہے۔ ان کہانیوں میں داستان کی بنیادی صفات یعنی دلچسپی اور ذہنی انبساط تو موجود ہی ہیں، یہ عقیدت مندوں کے لیے ذہنی غذا بھی ہیں۔ ایک عام ذہن کو زندگی، موت، گناہ و ثواب جیسے سوالوں کے جواب مہیا کراتی ہیں۔ ہندوستان میں اہل ہنود کے یہاں خاص طورپر ان کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ اس قدر کہ سب کو یاد رکھ پانا بھی ممکن نہیں ہے۔ مقدس ہندو صحیفوں اور رزمیوں جیسے مہابھارت، رامائن، پُران وغیرہ ان کے خزانے ہیں۔ خیروشر والی صفت یہاں بھی ہے، انسانوں کو ان کے فرائض کے تئیں آگاہ کرنے کی کوشش بھی ہے اور دیوی دیوتاؤں کے تئیں عقیدت کا اظہار بھی۔ بہت سے تہواروں یا گھر پر انفرادی طورپر پیدائش، وفات اور شادی بیاہ کے موقعوں پر یہ کہانیاں سنائی جاتی ہیں درجنوں بار سننے کے باوجود سامعین انھیں نہایت عقیدت کے ساتھ سنتے نظر آتے ہیں۔

بدھ اور جین مذاہب میں ان کی اپنی کتھائیں موجود ہیں۔ جاتک کتھاؤں کی تعداد تین ہزار بتائی جاتی ہے۔ یہ مہاتمابدھ کے عرفان حاصل کرنے سے پہلے کے مختلف جنموں کی کہانیاں ہیں جو بے حد دلچسپ ہیں۔ مشہور اردو مصنف انتظارحسین نے ان سے اپنی تخلیقات میں نمایاں استفادہ کیاہے۔ مہابھارت کافی عرصے سے فکشن نگاروں کو مواد مہیا کررہا ہے۔ ہندی میں کئی فکشن نگار ہیں جو مہابھارت سے پلاٹ اخذ کررہے ہیں۔ ایک طرح سے یہ واقعات کی ازسرنو شرح ہے۔ خاص طورپر نسوانی کرداروں کی۔ کہا جاتا ہے جو مہابھارت میں نہیں ہے وہ پھر دنیا میں کہیں نہیں ہوگا۔ یعنی انسانی جذبات کے ہررنگ، انسانی زندگی کے ہر روپ کی کہانیاں اس میں موجود ہیں۔ جنگ و جدال، فتح و شکست، فریب اور وفاداری— محبت و نفرت— نام لیجیے اور وہ کسی نہ کسی عنوان سے آپ کو مہابھارت میں مل جائے گا۔ یہ ساری اساطیری کہانیاں ہیں۔ جادوئی بھی اور حقیقی بھی۔ انسانوں کی بھی اور مافوق الفطرت ہستیوں کی بھی۔ عقیدے کو الگ رکھ دیں تو بھی ان کو پڑھنا یا سننا نہایت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ یہ کہانیاں دنیا کے ہرخطے، ہرمذہب اور ہر دور میں پائی گئی ہیں۔ یونانی دیومالا تو بہت مشہور ہے۔ افریقہ میں بڑی دلچسپ لوک کتھائیں ملتی ہیں۔ امریکی انڈین قبائل میں بھی۔ غرض کہ ایک سمندر ہے جو ٹھاٹھیں ماررہا ہے لیکن ہمارے اپنے ہی ملک کا سمندر اتنا گہرا ہے کہ اس کے سارے موتی چُرا لانا ناممکن نہیں تو قریب قریب ناممکن (Next to impossible) ہے۔ اسی لیے وقتاًفوقتاً ان کے مختلف انتخاب شائع ہوتے رہتے ہیں۔ بچوںکی ذہن سازی اور پُرمسرت آموزش (Joyful learning) کے لیے ان کو استعمال کرنا سودمند ہوگا ساتھ ہی اس سے ہمارا یہ قیمتی ورثہ بھی محض لائبریریوں تک محدود نہیں رہ جائے گا۔

 

Zakia Mashhadi

F-1, Grand Pallavi Court

Judges Court Road

Patna- 800004 (Bihar)

Mob.: 9939263613

zakia.mashhadi@yahoo.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...