اردو دنیا، ستمبر 2024
فارسی شاعری کا آفتاب خراسان میں طلوع ہوا، اس کے بعد
طول و عرض ایران و ہند میں اس کی شعاعیں پھیل گئیں۔ دربار مغلیہ مرجع اہل علم و
ادب تھا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ دربار مغلیہ ہی تھا کہ جہاں قند پارسی پہنچ کر
باعث ضیافت ذوق اور سرمایہ لطف طبع بنی۔ ایران میں شاہان صفوی کی شعر و شاعری کے
تئیں بے رغبتی کی وجہ سے ہندوستان میں حکمران مغلیہ کی ادب پروری، سخن سنجی، علم
دوستی، داد و دہش اور عنایات و نوازشات کے نتیجے میں ان کا دربار ہر فن کے اہل علم
و ہنر سے جگمگا اٹھا۔ لہٰذا ان کا شہرہ سن کر بلند پایہ ایرانی شعرا نے ہندوستان کی
جانب رخت سفر باندھا ۔ ان نوارد بلند پایہ
شعرا مثلاً عرفی، نظیری، شکیبی، حسین ثنائی، نوعی خبوشانی، ظہوری ترشیزی، ملک قمی،
ابو طالب کلیم، صائب اصفہانی اور طالب آملی وغیرہ بے شمار آسمانِ شعر کے آفتاب
اور سپہر ادب کے ماہتاب ایران کے ہر ماہر فن و کمال اپنے فن و ہنر کی داد حاصل
کرنے کے لیے چمن ہند میں وارد ہوئے۔ یہ دور مغلیہ ہی تھا، جہاں دونوں ملکوںکی تہذیب
و فرہنگ کے علاوہ زندگی کے ہر گوشے اور میدان ادب پر ایک دوسرے کے اثرات نمایاں
طور پر واضح نظر آنے لگے۔ بہ الفاظ دیگر دونوں ملکوں میں تہذیب و شائستگی کا اثر
نمایاں طور پر جلوہ گر ہوا۔
سر زمین ہند میں آنے والے شعرا میں ایک طالب آملی بھی
تھا، جو مازندران کے ایک شہر آمل کا رہنے والا تھا، لہٰذا اپنے وطن کی نسبت سے
آملی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے پندرہ سال کی عمر میں درسی
علوم کے ساتھ ہندسہ، منطق، ہیئت، فلسفہ اور خوش نویسی میں کمال و عبور حاصل کر لیا
تھا۔ اس کی تاریخ پیدائش قطعی طور پر متعین نہیں کی جاسکتی البتہ ایک رباعی جو اس
کے دوست ملا شیدا نے اس کی وفات پر کہی اس رباعی کے آخری مصرعے ؎
’’حشرش
بہ علی ابن طالب باد‘‘
سے اس کا سال وفات 1036 ھ مطابق 1626م کا استخراج ہوتا
ہے اس نے کم عمری میں وفات پائی۔ وفات کے وقت اس کی عمر چالیس بتائی جاتی ہے۔
طالب کم عمر میں ہی آمل سے کاشان چلا گیا۔ یہاں اس کی
خالہ مقیم تھیں لہٰذا اس نے یہیں سکونت اختیار کرلی اور شادی بھی کرلی۔ اس کا
رجحان فطری طور پر شعر و شاعری کی طرف تھا۔ تذکرہ میخانہ میں لکھا ہے:
’’
طالب نے بارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیے، اس
کا خالہ زاد بھائی رکنا کاشی جو شاہ عباس کے دربار کا طبیب اور شاعر تھا، مسیح، مسیحا،
مسیحی تخلص کرتا تھا۔ طالب نے اپنے بھائی کی وساطت سے دربار شاہی میں رسائی حاصل
کرلی، لیکن یہاں شاعرانہ جذبات و احساسات کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی و پذیرائی نہیں
ہوئی۔ در اصل اس کی امیدوں کا قبلہ گاہ سر زمین ہندوستان تھا، جہاں ایرانی باکمال
و اہل ہنر و فن جوق در جوق کھنچے چلے آرہے تھے۔
کاشان سے بھی دل برداشتہ ہوکر مرو آیا اور ملکش خان کے
دربار سے منسلک ہوگیا جو اس صوبے کا گورنر تھا اس نے طالب کی خوب دلداری اور قدردانی
کی اور عزت افزائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن طالب کے دل و دماغ پر دربار مغلیہ
کی فیاضیوں کا خواب طاری تھا اس کی خواہش تھی کہ جلد از جلد اس سرزمین سے نکل کر
ہندوستان میں دربار مغلیہ تک رسائی حاصل کرے۔ ملکش خان سے اگر ہندوستان کے سفر کی
خواہش کا اظہار کرتا تو اجازت ملنا نا ممکن تھا، لہٰذا اپنے وطن جانے کے لیے ملکش
خان کی شان میں ایک قصیدہ کہا۔ اس کے چند اشعار اس طرح ہیں تاکہ اجازت مرحمت
ہوجائے ؎
یکی بر حرف طالب گوش بکشایی
صدف را بر گہر آغوش بکشایی
دو سال آمد کہ از محنت کشان است
ترا چون بوسۂ فرش آستان است
عنان سویی وطن تابیدہ چندی
کند خویشان خود را ریش خندی
بدین درگہ رساند خویشتن را
ز سر بیرون کند شور وطن را
ترجمہ:’’کو ئی طالب کی باتوں کو سُنے، تاکہ وہ اپنے موتی
جیسے الفاظ کو بکھیرے ۔دو سال سے اسی
خواہش میں ہو ںتا کہ تمہارے آستانے کا بوسہ لے سکوں، وطن کی خواہش کی امید مجھے
کب تک تڑپائے گی اور کب تک میں اپنی حالت زار پر ہنسوں گا اور کب مجھے اس کے دربار
تک رسائی حاصل ہوگی۔وطن کی اس ہنگامہ
آرائی کے ماحول میں اپنی صلاحیت کا لوہا
منوا سکوں ۔‘‘
وطن تو ایک خوبصورت بہانہ تھا، لہٰذا اجازت ملتے ہی
طالب نے اپنے وطن آمل کے بجائے ہندوستان
کی جانب رخ کیا۔ تذکرہ میخانہ میں عبدالغنی رقمطراز ہیں:
’’ھوای
سیر دارالامان ھندوستان کہ نشو و نما دھندۂ ھنر مند است، در سر او جلوہ گر شد، و سودای این سر زمین کہ
خانہ عافیت خرد مند است او را بہ سیر و سفر آورد۔ آن آرزو مند گشت دارالامان
ھندوستان بر این ملک را بر حب وطن ترجیح دادہ، راہ ھند در پیش گرفت۔ ‘‘ ( ص،546)
ترجمہ: ’’دارالا مان ہندوستان کی خوشگوارراحت افزا ہوا
ہنر مندوں کی پروش و پرداخت کرتی ہے اور یہاں کے ہنر مندوں کی صلاحیت ہر جگہ نمایاں
ہوتی ہے ، اس سر زمیں کی خواہش جو کہ عقلمندوں کے نزیک گاہِ عافیت و سکون ہے۔اسی
خو اہش کے سبب اس نے دارالامان ہندوستان کواپنے وطن پر ترجیح دی لہٰذاطالب آملی
نے ہندوستان کی جانب رختِ سفر اختیار کیا۔‘‘
اپنی بدقسمتی کے سایے کو الوداع کہہ کر اپنے وطن ایران
سے ہند کی جانب سفر کیا۔ درج ذیل رباعی سے اس کے جذبے کا اظہار واضح ہوتا ہے ؎
طالب گل این چمن ببستان بگذار
بگذار کہ می شوی پشیمان بگذار
ھندو نبرد تحفہ، کس بجانب ھند
بخت سیہ خویش بہ ایران بگذار
(تذکرہ میخانہ، ص 547)
’’ترجمہ:
طالب اس چمن کے گُل کو اسی بوستان (ایران) میں چھوڑ دے تا کہ تجھے شرمندگی کا
سامنا نہ کرنا پڑے اور اپنی سیہ بختی کو ایران
میں ہی چھوڑدے۔علامہ شبلی نعمانی رقمطراز ہیں:
’’
اوّل بار جب وہ ہندوستان آیا تو یہاں اس کو کو ئی کامیابی
حاصل نہیں ہوئی اور اس وجہ سے وہ تمام مشہور مقامات میں بہ تلاش معاش پھرتا رہا،
دلّی، لاہور، ملتان، سرہند، ان مقامات کا ذکر اس نے بہ تخصیص کیا ہے‘‘
(شعر العجم،جلد 4، ص 138)
طالب لاہور کی آب و ہوا سے بہت محظوظ ہوااور اس کا دل یہاں
خوب لگا، چنانچہ لاہورکی مدح میں ایک خاص قصیدہ لکھا، اس کے چند اشعار پیش ہیں ؎
گمانم نیست کاندر ھفت کشور
بود شھری بہ آب و تاب لاھور
خدایا زندۂ جاوید دارش
بہ آب خضر یعنی آب
لاھور
ترجمہ: میرا نہیں
گمان کہ ہفت اقلیم میں لاہو رجیسی آب و تاب کسی اور شہر میں ہے۔خدا آبِ خضر یعنی
آب لاہور کو زندہ جاوید رکھے۔ ‘‘
ہندوستان میں برسوں قیام کے بعد آخر کار مایوس و
نامراد ہوکر مرزا غازی تر خا ن جو نہایت رحم دل اور سخن گو شخص تھا جسے جہانگیر نے
اپنے عہد سلطنت میں قندھار کا گورنر مقرر کیا تھا لہٰذااس کی قدر دانی اور ادب
نوازی کی شہرت سن کر طالب نے قندھار جانے کا ارادہ کیا۔ آگرہ سے ملتان ہوتا ہوا
قندھار پہنچا۔ برسات کا موسم تھا لہٰذا اسے راستے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا
پڑا۔ ملتان میں تقریباً چار ماہ قیام کے بعد قندھار پہنچا اور غازی ترخان کی مدح میںایک
شاندار قصیدہ پیش کیا۔ اس نے بھی طالب کی خاطر داری اور عزت افزائی میں کوئی دقیقہ
فرو گذاشت نہیں کیااوراپنے مقربانِ خاص میں داخل کرلیا۔
ہندوستان سے جانے کے بعد بھی وہ اس کے دلکش اور خوبصورت
ماحول اور یادوں میں ڈوبا رہا، جس رنگین ماحول میں اپنے خوبصورت دن گذارے تھے اس کی
جھلک اس کے کلام سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ دہلی اور آگرہ کی محفلیں، نگاران و خوبان
اس کے شعور پر منقش تھیں۔
غازی الدین خان کی وفات کے بعد طالب کے سامنے کوئی
دوسرا ٹھکانہ نہیں تھا۔ ہندوستان میں آگرہ کے خواجہ قاسم دیانت خان جو امرائے
جہانگیر کے مقربین خاص میں سے تھا اس نے اس کی سر پرستی کی اور سرپرستی کرتے ہوئے
عبداللہ خان فیروز جنگ جو گجرات کا حاکم تھا خواجہ قاسم دیانت خان کی سفارش میں اس
کو خط لکھا۔ لہٰذا عبداللہ خاں فیروز جنگ نے طالب کو بلایا۔اس کے یہاں بھی اسے بڑا
اعزاز و اکرام حاصل ہوا۔ لہٰذا وہ اپنی دعوت پر بڑے فخر کا اظہار کرتا ہے۔
شاہ پور تہرانی کے توسط سے اعتماد الدولہ (والد نور
جہاں) کے دربار میں رسائی حاصل کرلی۔ اس نے طالب کو مہرداری کی خدمات سپرد کردیں
اگرچہ ایک معزز خدمت تھی، لیکن اس کا مزاج شعر و شاعری کی طرف راغب تھا۔ لہٰذا اس
سے انجانے میں وقتاً فوقتاً غلطیاں سرزد ہوجاتی تھیں جس کی وجہ سے اس کو شرمندگی
کا سامنا کرنا پڑتا۔ نتیجتاً اپنی خدمات سے معذرت کی اور استعفیٰ دے دیا۔
آخر کار (پدر نور جہاں ) اعتماد الدولہ وزیر اعظم کے
توسط سے دربار جہانگیری میں رسائی حاصل کی۔
’مغلوں
کے ملک الشعرا‘ میں اس طرح تحریر ہے:
’’طالب
کی زندگی میں وہ مکمل خوشی کا دن تھا۔ ایسی خوشی جو عرصہ دراز کی آرزو اور انتظار
کے بعد حاصل ہوئی۔ اس انبساط میںیقین کی سی کیفیت تھی‘‘ (ص، 194)
جیسا کہ پہلے تحریر کیا گیا کہ شعر و شاعری طالب کے
مزاج و فطرت میں سمائی ہوئی تھی۔ جہانگیر نہ فقط حکمران وقت تھا بلکہ وہ ایک
زبردست نقاد، انشا پرداز ہونے کے ساتھ شاعرانہ ذوق کا بھی مالک تھا۔ لہٰذا اس گوہر نایاب کی قدر و قیمت کو پرکھ لیا،
اس کی پوشیدہ صلاحیتوں اور خوبیوں کو اپنی دانشمندی سے بخوبی سمجھ لیا اور اس نے
جہانگیر کی مدح میں کہے گئے پرشکوہ قصائد اور پرزور غزلیات کی وجہ سے دربار شاہی
سے خوب خراج تحسین حاصل کرچکا تھا۔ یہاں تک کہ جہانگیر نے اس کے سر پر’ملک الشعرا‘
کا تاج رکھ دیا۔ 1028ھ میں اسے اس معزز خطاب سے سرفراز کیا۔
تزک میں جہانگیر اس طرح رقم کرتا ہے:
’’درین
تاریخ طالب آملی بخطاب ملک الشعرای خلعت امتیاز پوشیدہ، اصل او از آمل است، یک
چندی بہ اعتماد الدولہ می بود، چون رتبہ سخنش از ھمگان در گذشت، در سلک شعرای پای
تخت منتظم گشت‘‘ ( ص، 286)
ترجمہ:اس تاریخ میں طالب آملی کو ملک الشعرا کے خطاب
سے نوازا گیا اور امتیازی خلعت سے شرف یاب کیا گیاوہ اصلاً آمل کا ایک باشندہ ہے
کچھ عرصہ وہ اعتماد الدولہ بھی رہا، جب اس کا رتبہ سخن نگاروں سے بڑھ گیا تو پایہ
تخت تک پہنچا اور بلند پایہ شعرا کی صف میں شامل ہوگیا۔
نبی ہادی لکھتے ہیں:
’’جہانگیر
اپنی تزک میں چودہویں سال جلوس کے واقعات قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں، آج طالب
آملی نے ’ملک الشعرا‘ کا خطاب حاصل کیا اور خلعت امتیاز پہنا۔‘‘ ( مغلوں کے ملک الشعرا، ص 195)
طالب صاحب دیوان شاعر تھا۔ اس کا شمار سبک ہندی کے شعرا
میں ہوتا ہے۔ اگرچہ اس نے غزل، قصیدہ، رباعی، مثنویات، قطعات اور ترجیع بند تمام
اصناف سخن میں طبع آزمائی کی مگر بنیادی طور پر وہ غزل کا شاعر ہے۔ غزل میں بھی
عشقیہ شاعری اس کا خاص میدان ہے۔ سبک ہندی کی تمام خصوصیات ناز و اداکے ساتھ اس کی
غزلیات سے جلوہ گر ہیں۔
سبک ہندی کی ان خصوصیات میں نزاکت تخیل، تخیلات کی
پرواز، انوکھی حسین و لطیف تشبیہات و استعارات، دقت پسندی، جدّت طرازی، خیال آفرینی،
معاملہ بندی، وقوع گوئی، پیچیدگی بیان، تازگی افکار، صنائع و بدائع وزن کا استعمال
اور تمام تر خوبیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
طالب آملی کی شاعرانہ خوبیوں کا جائزہ لینے سے یہ ضروری
قرار پاتا ہے کہ مختصراً سبک ہندی کی وضاحت کی جائے۔
مقالات غنی میں لکھا ہے:
’’سبک
کسی ادیب کا انفرادی اسلوب یا اجتماعی طرز ہے، لیکن اس کو جمالیات ( حسن الفاظ)
اور اصول انتقاد دونوں کے حوالے سے برتنا پڑتا ہے، اس کے بعد ہی یہ کسی لکھنے والے
کی انفرادی طرز نگارش بنتا ہے، جس کی بنا پر وہ دوسرے لکھنے والوں سے متمیز ہوتا
ہے اور اس کی شخصیت کی پہچان بن جاتا ہے‘‘ ( ص، 94)
یکے بعد دیگرے حالات اور زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ سبک میں
تبدیلی رو نما ہوتی چلی گئی، مثلاً سبک خراسانی، سبک عراقی اور سبک ہندی، سبک ہندی
کے ابتدائی نقوش ایران خاص کر دبستان ہرات کی شاعری میں ہی نظر آتے ہیں۔ چونکہ اس
کا عروج ہندوستان میں ہوا اس لیے اس سبک کو ہندوستان سے نسبت دے کر اسے ’ سبک ہندی‘
مخصوص کردیا۔
بابر کے حملے کے بعد ایران بالخصوص دبستان ہرات کی
شاعرانہ روایتوں نے ہندوستان کے ادبی حلقوں کو متاثر کرنا شروع کیا۔ پہلے یہ طرز ایران
بعد میں ہندوستان میں مقبول ہوا۔ ظاہر ہے کہ مغلیہ سلطنت نے اسے ذوق و شوق کے ساتھ
پڑھا، علمی لگن اور سخاوت کا مظاہرہ کرکے تمام اہل علم و ادب کو نوازا۔ یہاں علمی
مشاغل اور شعر گوئی کے لیے فضا سازگار تھی لہٰذا یہ سبک نو یعنی سبک ہندی اس ماحول
میں پروان چڑھا۔
بحیثیت مجموعی ہندوستان میں فارسی کا بڑا وقیع سرمایہ
شعری و ادبی وجود میں آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستانی شعرا نے بلکہ ایرانی
شعرا نے بھی اسے خوب پسند کیا اور اپنی صلاحیت کو اس مخصوص سبک میں پرودیا۔ فیضی،
عرفی، نظیری، نوعی خبوشانی، طالب کلیم اور طالب آملی وغیرہ اسی سلسلے کی پہچان ہیں۔
کلام میں ندرت و جدت پیدا کرنے کے شوق میں ’سبک ہندی کے
شعرا‘ نے فارسی ادب کی ترویج کے لیے زبان اور خیالات کا رشتہ تشبیہ و استعارہ، رمز
و کنایہ، مجاز و مبالغہ، اجنبی احساسات و دوراز فہم تصورات، دقیق مضامین، نازک خیالی،
ہنر آفرینی، تخیلات کی پرواز کے ساتھ جوڑ لیا، جس کی وجہ سے شعر گوئی میں بالکل
انوکھا طرز وجود میں آیا۔
طالب آملی ’ سبک ہندی ‘ کا نمائندہ شاعر ہے۔ سبک ہندی
کے تمام تر خصائص پوری شان کے ساتھ اس کی شاعر ی میں نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اس دور
کے شعرانے تمام ہی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن در حقیقت یہ عہد غزل کا عہد
ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا اس عہد کی غزل سبک ہندی کی خصوصیات سے بوجھل نظر آتی
ہے۔ طالب کا شمار اگرچہ سبک ہندی کے شعرا میں ہوتا ہے لیکن اس نے اپنی انفرادیت کو
بھی برقرار رکھا ہے۔ اگرچہ وہ اپنے عہد کی روش سے بیگانہ نہیں تا ہم کچھ خصوصیات ایسی
ہیں جن کی وجہ سے اپنے ہمعصر شعرا سے ممتاز قرار پاتا ہے۔
جیسا کہ پہلے تحریر کیا گیا کہ طالب بنیادی طور پر غزل
کا شاعر ہے اور غزل میں عشقیہ شاعری اس کا خاص میدان ہے۔ وہ غزل گوئی کی بنیاد نئے
تصورات پر قائم کرتا ہے۔
نبی ہادی رقمطراز ہیں:
’’
طالب کی شاعری کا اصل عنوان حسن شناسی ہے۔ یہی احساسات
شروع سے آخر تک اس کی فنی تخلیق کو آگے بڑھاتے ہیں‘‘ (مغلوں کے ملک الشعرا، ص 209)
کہتاہے:
ای شاخِ گل کہ چشم بھا ر ا ز تو روشن است
ھر تیرہ بخت را شب تار از تو روشن است
ترجمہ: اے شاخ گل چشم بہار تجھ سے روشن ہے ، بدقسمت رات
کی تاریکی تجھ سے روشن ہے۔
معنی آفرینی اور ندرت خیال فرسودہ اور پامال مضمون کو
بھی جاندار بنا دیتی ہے۔ طالب اپنی اس معنی آفرینی اور ندرت خیال کے موضوع کو اس
طرح پروتا ہے ؎
تخمِ ریحان زلف یعنی خال
گرمیِ عشق را فزون سازد
ترجمہ: تخم ریحان گرمی کو مارتا ہے اور سکون قلب عطا
کرتا ہے، یہاں یہ خوبصورت خیال پیدا کیا ہے کہ تخم ریحان زلف گرمیِ عشق میں تپش پیدا
کرتا ہے، یہ گرمیِ عشق کو فروزاں کرتا ہے۔
طالب کے کلام میں جدّت ادا بھی انوکھی اور کمال کی ہے،
جس میں اس نے معنی آفرینی کے منظر کو سمو دیا ہے
؎
ز غارتِ چمنت بر بھار منتھاست
کہ گل بدست از شاخ تازہ تر ماند
ترجمہ: محبوب نے چمن کو (اپنے حسن سے ) غارت کرکے
بہاروں پر بڑا احسان کیا ہے۔ کیونکہ اے دوست
یہ تیرے ہاتھوں کا کمال اور خوبصورتی ہے کہ پھول شاخ سے زیادہ تیرے ہاتھ میں
حسین اور ترو تازہ نظر آتا ہے۔
نازک خیالی اور حسن ادا کا ایک حسین امتزاج طالب کے
اشعار میں جا ببجا نظر آتا ہے ؎
ز انگشتم نسیم غنچۂ فردوس می آید
نمی دانم سحر، بند گریبان کہ وا کردم
ترجمہ:میری انگلیوں سے غنچۂ فردوس کی خوشبو آرہی ہے،
نہ جانے آج صبح میں نے کس کا گریباں کھولا ہے۔
کلام میں طرز ادا بھی سبک ہندی کی ایک خصوصیت ہے۔ طالب
اپنے ہمعصر شعرا میں اسی خوبی میں سبقت لے گیا ہے۔ وہ اپنی اس طرز ادا پر بڑا ناز
کرتا ہے ؎
بی نیازانہ ز ارباب کرم می گذرم
چون سیہ چشم کہ بر سرمہ فروشان گذرد
ترجمہ:میں ارباب کرم سے بے نیازانہ گزرگیا، جس طرح سیہ
آنکھوں والا سرمہ فروش کے پاس سے گزر جاتا ہے۔
طالب کبھی الفاظ کو مخصوص معنوں میں استعمال کرکے شعر میں
ایک نیا مضمون پیدا کردیتا ہے کبھی ان کی ترکیب و بندش بدل کر اپنے مفہوم کی ادائیگی
کے لیے انھیں نئے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ یہ اس کی جدّت فکر کا نتیجہ ہوتا
ہے۔ گرچہ عرفی شیرازی کو اس خصوصیت کے پیش نظر مخترع طرز تازہ کے نام سے یاد کیا
جاتا ہے، مگر طالب بھی نئی نئی اختراعیں کرنے میں کسی سے پیچھے نظر نہیں آتا۔
طالب کی جدّت فکر اور تخیلات کی پرواز اس کے کلام سے ہویدا ہے۔ زیر نظر شعر سے
جدّت ادا بطور خاص نظر آتی ہے:
دست حسنش با ز بر رخ زلف
پیچانی شکست
سنبلستانی در آغوش گلستانی شکست
ترجمہ: ’گلستان‘‘ کے وزن پر سنبلستان کی ترکیب خاص طالب
کا حصہ ہے۔ یہاں طالب نے گلستان کا استعمال روے محبوب کے لیے کیا ہے ۔
طالب کی شاعری کی نمایاں و انفرادی خوبی یہ ہے کہ اس کو
تشبیہ و استعارے کے استعمال پر غیر معمولی دسترس حاصل ہے۔
نبی ہادی رقمطراز ہیں:
’’در
اصل خیال کی دقت، نزاکت، گہرائی اور باریکی شاعر کو تشبیہ اور استعارے کا سہارا لینے
پر مجبور کرتی ہے۔ مذکورہ صنائع کی مدد سے کیسا ہی نازک خیال ہو اس کے اظہار میں
نہ صرف سہولت ہوتی ہے بلکہ اس کا اور زیادہ بڑھ جاتا ہے‘‘ ( ص 212)
بقول شبلی نعمانی یہی انفرادیت طالب کی شاعری کے امتیازی
وصف ہیں۔ وہ تشبیہات و استعارات کے بغیر شعر کو بے نمکی اور سادگی سے تعبیر کرتا
ہے۔
اس کے نزدیک محبوب کے لب آبِ حیات کی سی تاثیر رکھتے ہیں۔
اگرچہ آب زمزم کی تاثیر جاں فزا ہے لیکن دونوں زمزم میں یہ فرق ہے کہ ایک زمزم جو
ارض حرم میں ملتا ہے ٹھنڈا اور سرد ہوتا ہے لیکن یہ دوسرا زمزم آتشیں صفت ہے۔
طالب ان خوش نصیب شعرا میں سے ہے جسے اپنی زندگی میں ہی
قبول عام اور شہرت دوام حاصل ہوئی۔ بیشتر تذکرہ نویس اس کی عظمت کا اعتراف اس طرح
کرتے نظر آتے ہیں۔
ملا عبدالغنی تذکرہ میخانہ میں اس کی اہلیت و استعداد
کا لوہا مانتا ہے:
’’
این نادرۂ عصر فرید زمان و واحدی دوران خود است۔ آن
قدر اھلیت و استعداد کہ با اوست یا دیگر شعرای این ایام نیست ‘‘ ( ص 545)
ترجمہ:یہ اپنے عہد کا ایسا قیمتی شخص ہے،جس قدر اس میںاہلیت
و استعداد ہے، اس عہد کے دوسرے شعرا میں نہیں ہے۔
تذکرہ ریاض الشعرا کا مصنف اس طرح رطب اللسان ہے:
’’اشعارش
در کمال عذوبت و بلاغت و شستگی و تازگی و روانی و نازکی واقع شدہ‘‘ ( ص 38)
ترجمہ:اس کے اشعار میں عذوبت، بلاغت، شستگی، تازگی ،
روانی اور نازکی ہے۔
تذکرہ خزانہ عامرہ کا مصنف اس کے کلام کی رنگینی کو کمیاب
بتاتا ہے۔
اگرچہ طالب نے بہت کم عمری میں وفات پائی، لیکن اتنی کم
عمری میں اپنی صلاحیت کا لوہامنوا لیا۔ یہاں تک کہ ’ ملک الشعرا ‘ کا تاج اس کے سر
پر سجا۔
مآخذ
1 تذکرہ
میخانہ، ملا عبدالنبی فخرالزمانی قزوینی، با تصحیح و تکمیل تراجم، باہتمام، احمد گلچیین معانی،
چاپ چہارم، 1363 ش۔
2 تذکرۃ
الشعرا، علی قلی خان والہ داغستانی، جلد اول، مقدمہ تصحیح و ترتیب پروفیسر شریف حسین
قاسمی، کتاب خانہ رضا رامپور،2000 ۔
3 تذکرہ
مجمع النفائس، سراج الدین علی خان آرزو، بکوشش دکتر زیب النساء علی خان، مرکز تحقیقات
فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، 2004 ۔
4 تذکرہ
نتائج الافکار، محمد قدرت اللہ گوپامؤی، پٹنہ بہار، 1968 ۔
5 تذکرہ
خزانہ عامرہ، میر غلام علی آزاد بلگرامی، نولکشور، کانپور، 1878 ۔
6 شعرالعجم،
حصہ سوم، علامہ شبلی نعمانی، معارف پریس، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، 2009 ۔
7 مغلوں
کے ملک الشعراء، نبی ہادی، اسرار کریمی پریس، الہ آباد، 1978 ۔
8 تذکرہ
نصر آبادی، میرزا محمد طاہر نصر آبادی، با تصحیح و مقابلہ استاد فقید وحید
دستگردی۔
9 بزم
تیموریہ، جلد دوم، سید صباح الدین عبدالرحمن، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ،
2014 ۔
10 چکیدہ ادبیات ایران،جلد
دوم، ڈاکٹر منظر امام بھارت آفسیٹ
پرنٹرز، دہلی 2006 ۔
11 مقالات غنی:
مجموعہ مقالات، ڈاکٹر محمد عثمان غنی، لیتھوکلر پرنٹرس، علی گڑھ، 2004 ۔
Prof. Rana Khursheed
Dept of Persian
Aligarh Muslim University
Aligarh- 202002 (UP)
Cell.: 8171719275
dr.ranakhursheed@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں