14/10/24

غالب کو کیسے پڑھیں، مضمون نگار: کلیم حاذق

 اردو دنیا، ستمبر 2024

اس سوال کا جواب دینے سے قبل کچھ مزید سوالات قائم کرنے ہوں گے کہ ہم شاعری کا مطالعہ ہی کیوں کریں اور وہ بھی اس دور میں جسے جتنا بھی اینٹی پوئٹری کا عہد کہا جائے، کم ہے، لیکن کسی نہ کسی طرح شاعری سے ہمارا سابقہ پڑتا ہی ہے اور ہم دور زمانے سے آتی ہوئی آواز کو اپنے  دل کی آواز بناکراظہار کے لیے مناسب سمجھ لیتے ہیں۔

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا، خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک،  کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے،  ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، وغیرہ ایک طویل فہرست ہے  ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ شاعری  برف کی طرح رگ ِ جاں میں گھل سی گئی ہے ۔

  واقعہ یہ ہے کہ ہم متفقہ طور پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری تہذیبی روایت کی شناخت میں ہماری شاعری کا اہم کردار ہے اس لیے بھی کہ اس کے دفینے میں ہمیں ہر دور کا انداز تکلم اور ہماری سانس لیتی زندگی کی نشانیاں موجود ہیں۔ ایسی نشانیاں جنھیں ہم اپنی سانسوں میں محسوس کرتے ہیں اور جنھیں یاد کرکے ہمیں اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہونا اور نہ ہونا کا تعلق وجود سے ہے اور وہ پہاڑ اور جھرنے کی صورت نہیں بلکہ احساسات و جذبات کی تجسیم کی صورت میں جنھیں ہماری شاعری سنبھال کر رکھتی ہے اور پہاڑ، جھرنے چشمے ، شب و روز اس کے گواہ رہے ہیں ۔ وہ اس لیے بھی کہ ہونے اور نہ ہونے کا سوال ہم اکثر کرتے رہے ہیں اور آج بھی جب تمام سائنس اور تکنالوجی ہمیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو ذہن کے پردے پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فنا کی وادی ہمیں کہاں لے جاتی ہے اس کے بعد ہماری ثبوتیت پسندی دم توڑ دیتی ہے اور ہم  اپنے اپنے تخیل کے سہارے اس دنیا کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ پہلا اور بڑا معاملہ ہے جب غالب ہم سے کچھ کہتا ہے وہ ہماری تشویش پر مرہم رکھنے کی کو شش کرتا ہے۔ تین اشعار سنیں         ؎

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میںتو کیا ہوتا

ہواجب غم سے یوں بے حس ، تو کیا غم سر کے کٹنے کا

نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالب مرگیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

یہاں ہم غالب سے متفق ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ۔ وجود کی اس لڑائی کا آخری معرکہ ہمیں جہاں لے جاتا ہے اس پر بلا تفریق مذہب و ملت  سبھوں کی منزل ایک ہی ہے  اور جب سبھی مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ایک ہی منزل پر پہنچنے والے ہیں تو یہ فساد کیوں؟ تاہم معاملہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا کہ غالب ہمارے زخموں پر جو مرہم رکھتا ہے اس کے پس پردہ ایک مزید حیرت ناک دنیا کی خبر گیری بھی ہے۔  اس نے ایک منطق بنانے کی کوشش کی اور ایک دوسرے عمل میں داخل ہوگیا۔ ایک ایسا خوابناک عمل جس کی سرشاری اس درد اور کشمکش سے نکلنے کے لیے ہمیں بیتاب کرتی ہے۔ آپ یہ کہیں گے کہ یہ باتیں تو شعر کے سیاق سے الگ ہیں۔ غالب نے تو ایک بات کہی کہ جو شکل ہمیں میسر ہوئی وہ نہ ملی ہوتی تو ہم امکان کے پردے میں اپنی اصل میں موجود رہتے۔  تو کیا یہاں  یہ اشارہ نہیں ملتا کہ ہم درد و کلفت سے آزاد ہوکر اپنی اصل میں سمانے والے ہیں جس پر نہ ہمیں اختیار رہا ہے اور نہ ہوگا۔ہوسکتا ہے لالہ و گل کسی  اور صورت میں ڈھل کر آئے۔ ٹیگور کے بعد بنگال کی سائیکی کا اہم نمائندہ  جدید بنگلہ شاعر جیبو ناندو داس  اپنی نظم ’آبار آسیبو پھیرے‘  میں بھی اس امکان کے دروازے کو بند نہیں بلکہ کھلتا ہوا دیکھتا ہے ۔ ہر چند وہ کہتا ہے کہ میں دوبارہ آؤں گا کہہ کر امکانات کی جو وسعت عطا کی وہ جزو سے کل کی طرف کا سفر نہیں بلکہ اجزا کی بو قلونی کا اظہار ہے۔ اس نظم کے چند مصرعے دیکھیں اسے کسی بھی ہئیت کو قبول کرنے میں کوئی کراہیت نہیں ہے ۔ وہ لکھتا ہے      ؎

لوٹ آؤں گا دوبارہ میں دھا سیر کی دھاراؤں میں ،  اسی بنگالہ میں

یا شاید انسان نہیں، اک کرگس  و عقاب کے پہناوے میں

یا شاید اک زاغِ سحر کی صورت لے کر کارتک کے ان گلیاروں میں

یا شبنم کے سینے لگ کر اک دن پیپل کی چھاؤں میں

یا شاید مرغابی کے پاؤں کے بجتے پائل میں   

دن سارا کٹ جائے گا قلمی خوشبو میں بہتے بہتے

پھر آؤں بنگالہ ندّی ، کھیتوں کے رہتے رہتے

اس کے پیار میں بستے بستے

جالنگی کی چھینٹوں سے بھیگے بنگال کے میدانوں میں

ہوسکتا  ہے  اڑتا دیکھا جاؤں سدرشن سا  ، شام کی پروائی میں

ہوسکتا ہے الو  سا کچھ چیخ رہا ہو بیٹھا سیمل کی شاخوں  پر

ہوسکتا ہے  اڑا رہا ہوکھوئی کا دھان  اک لڑکا  دالان سے اپنے

روپوسی کے گدلے پانی میں ، ہوسکتا ہے اک لڑکا سفید شکستہ بادبان سے

کشتی کھیتا،...مٹیالے بادل  کے جیسا  تیر ررہا ہو اندھیارے میں 

دیکھوگے سفید سارس:   ملوں گا میں تمھیں انھیں کی بھیڑ میں  !!

غالب کسی مخصوص تجسیم کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے، وہ ہر امکان کو پردے میں تڑپتا چھوڑ دیتا ہے، اس کے نزدیک جو وجود  ہے اس کے بالمقابل  لاوجود زیادہ پرکشش لگتی ہے     ؎

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں

خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں

واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنے تہذیبی سرمایے کے ذریعے سوچتا  ہے۔ نظم میں چونکہ تفصیل ممکن ہے اس لیے شاعر کے مزاج اور اس کے ذہنِ رسا کو بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے، غزل کے دو مصرعوں کے اشارے ہمیں غور و فکر کی وادی کی سمت لے جاتے ہیں، یہ غزل کی  اپنی صنفی خصوصیت ہے۔ بہر طور جیسا کہ میں نے عرض کیا غالب ایک تہذیبی روایت کا نمائندہ ہی نہیں بلکہ ثنا خواں ہے اس لیے وہ عقل کو جہاں آزاد چھوڑنا ہے چھوڑ دیتا ہے اور دل کی آنکھوں سے حیات و کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے اور ہمیں وہ نظر عطا کرتا ہے جو اس طویل نظام کو سمجھنے اور اس کی تفہیم مسلسل میں لگی رہے۔ غالب کی اکثر غزلیں ایک ہی موڈ اور مزاج کی ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح ایک تار ِ حریر سے بندھی ہوتی ہیں۔ غالب کے یہاںجو اثبات ہے وہ بھی انکار کی ایک صورت ہی ہے۔ لہٰذا وہ کہتا ہے کہ گردن ڈال دینے سے گردن دینا ہی بہتر ہے۔ یہ نقطۂ نظر جہد مسلسل اور سراپا احتجاج  کی طرف لے جاتا ہے یہاں کوئی نعرے بازی نہیں شعلہ بیانی نہیں لیکن ایک دبی ہوئی چنگاری ضرور ہے جو ایک ہی آن میں شعلے کا روپ دھار لیتی ہے۔ غالب کے اشعار امکان و ممکنات کی سمت ہمیں لے جاتے ہیں  اور امکان کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ ہماری اردو شاعری اس طرز فکر سے آفاقیت حاصل کرلیتی ہے آپ دوسو برس بعد بھی پڑھیں گے تو ان کی معنویت کم نہیں ہوگی  اور کسی نئے تناظر میں ہمارے پاس لوٹ آئیں گے         ؎

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

غالب کو آنے والے دنوں کا شاعر اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے بعض اشعار کی تحلیل جب نئے منظر نامہ میں ہوتی ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے  کہ وہ کس قدر جدید ذہن کا  اور فکر رسا کا مالک ہے ، جو تکنالوجی ہمارے پاس نہیں تھی شاعر کی تخئیل ہمیں اس سمت رہنمائی کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں         ؎

یک ذرہ ٔ زمیں نہیں بیکار باغ کا

یا جادہ بھی فتیلہ ہے لالہ کے داغ کا

غالب نے جس طرح کی مثال پیش کی ہے اسے ہم مشاہدہ اور تخئیل کی آمیزش  نیز رعایت لفظی کے کمالات سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ غالب نے لالے کی سیاہ دھاریوں کو جادہ یعنی راستے سے تعبیر کیا ہے جو باغ کی کیاریوں کو جدا کرکے راہ گزر بناتے ہیں۔ ظاہر ہے غالب کے زمانے میں ایسی کوئی ٹکنالوجی نہیں تھی جہاں آج کی طرح ہم تصاویر کو مرضی کے مطابق Reduce  یا   enlarge  کرلیتے ہیں۔ ظاہر ہے غالب نے تخئیل کے سہارے ہی باغ کے راستوں اور لالے کی دھاریوں میں مشابہت تلاش کی ہوگی۔اس شعر کا ایک لفظ فتیلہ بھی ہے اور فتیلے کے کام سے ہم واقف ہیں لہذا جو بیکار ہے وہ اچانک منور اور تابناک ہوجاتا ہے۔ شاید یہی  Exercise of imagination ہے جس کا سودا غالب کو بھی تھا اور ہم بھی جس کے سودائی ہیں۔

یہاں میں نے غالب کے جن اشعار کی طرف آپ کی توجہ دلائی ہے وہ معروف زمانہ ہیں ان کی لفظیات بھی وہی ہیں جو آج  بھی مستعمل ہیں اور اس کی شاعری کا بڑا حصہ اس طرز کی لفظیات کو سموئے ہوئے ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غالب کے بعض اشعار ہمیں آج بھی اس لیے مشکل اور ناقابل فہم محسوس ہوتے ہیں جن کے الفاظ ہم سے کھو  سے گئے ہیں  اور ہم اس تجربے سے نہیں گزر پا رہے ہیں جس کی سمت یہ اشعار ہمیں لے جاسکتے ہیں۔ وہ الفاظ متروک نہیں ہوئے ہیں لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ  ہمارے دامن اظہار میں لفظیات کا دائرہ سمٹتا جارہا ہے  اگر یونہی ہوتارہا تو یقینا معنی کا دفتر بھی نہیں کھل سکے گا ۔ غالب کے اشعار کی قرأت ہمیں اس سمت بھی لے جاتی ہے۔ اس کے عوامل و نتائج پر تفصیل سے گفتگو ممکن ہے۔

 غالب کے اشعار کے اکثر شارحین اس نکتے کو اجاگر کرتے ہیں کہ شعر میں معنی اس کے متن کے حوالے سے ممکن ہے اور شاعر کا عندیہ محتاج معنی نہیں ہوتا  یعنی شارح کو شاعر کے عندیے پر زور دینا مناسب نہیں،  اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی شعر مختلف سیاق و سباق میں ہمارے سامنے آتا ہے ۔ یہاں محسوسات کا  ایک آئینہ کھلا ہوتا ہے  جو ہمیں اندر کی تصویر دکھاتا ہے  لہذا شعر از خود ہماری زبان پر آجاتا ہے بشرطیکہ ہم کسی نہ کسی صورت اس کی قرأت کرچکے ہوں لہذا اس کی بار بار قرأت ہمیں نئے تجربوں سے دوچار کرسکتی ہے۔ غالب کی شاعری یا کسی بھی زبان کا شاعر جو نہ صرف تہذیبوں کا ثنا خواں بلکہ پاسدارہوتا ہے ،  معاشرتی حمایت اسے ہماری  روح کی ضرورت  بنا سکتی ہے  جس طرح بنگال کے لوگوں نے ٹیگور کو اپنی سانسوں میں بسا رکھا ہے اور مادہ پرستی کے اس دور میں بھی وہ قدریں اب بھی کسی  نہ کسی طرح گفتگو کا حصہ بن جاتی ہیں جن کے مٹنے کی نوحہ گری اکثر ہوتی رہی ہے۔

تیسری اور آخری بات میں یہ کہنا چاہوں گاکہ غالب کی شاعری رسوم و قیود پر سیدھا وار کرتی ہے ۔کلیشے توڑتی ہے جو ہمارے ذہنوں میں منجمد ہوگئے ہیں۔ وہ سوال اٹھاتا ہے اور ہمارے لیے غور فکر کا دروازہ کھول دیتا ہے، مثال کے طور پر دیوان کا پہلا شعر جس کا پہلا مصرع اگر استفہامیہ ہے تو دوسرا جواب نہیں بلکہ صورت حال ہے ، ایک کائناتی اسرار ہے ۔ غالب اپنے اشعار میں اسے کمال ہنرمندی سے برتتا ہے،۔طلسم خانہ ٔ راز میں بار بار داخل ہونے پر اکساتا ہے۔ بعینہ وہ آدمی سے انسان بننے تک کا سفر جرأت مندی کے ساتھ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ Establishment  کے خلاف پابہ رکاب کردیتا ہے خواہ وہ کسی بھی طرز کی معاشرتی یا ذہنی جکڑ بندی ہو، وہ ناصح نہیں بلکہ غمگسار اور چارہ ساز بننے کی دعوت دیتا ہے،  وہ زاہد و عابد کی بنائے قدیم معبدوں کو گرادیتا ہے اور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اصولوں کے افتراق کے باوجود استقامت کے ساتھ عمل کرنا ہی جزو ایماں ہے  اور ایسا برہمن اسی طرح تعظیم کے لائق ہے جس طرح غیر برہمن۔ ایسے صاف اور کھلے دل کے شاعر کے لیے سیکولر کا لفظ بھی بہت چھوٹا ہے، کہ اپنے وجود کو قربان کرکے لاوجود کی شہادت دینا ہر کسی کا کام نہیں، ایک ایسا سمندر جس میں تہذیبوں کے دریا آکر اپنے وجود کو ضم کرکے بادلوں میں ڈھلنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ایسی شاعری جو ہمارے ہی عہد نہیں بلکہ آنے والے عہد میں بھی خواص سے نکل کر عوام کے حضور میں پہنچ کر محاورہ بن جائے اسے از خود زندہ رہنے کا حق ہے اور غالب کو یہ حق بہر حال پہنچتا ہے۔

 

Kalim Hazique

87, Pilkhana 2nd Lane

Howrah-711101 (West Bengal)

Mob: 9038800464

mail: kalimhaziq@yahoo.co.in

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...