15/10/24

حرف روی پر تفصیلی گفتگو، مضمون نگار: درد دہلوی

 اردو دنیا،ستمبر2024

قافیہ اجزائے شاعری میں ایک ایسا جز ہے جس کے بغیر اردو شاعری کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عوامی سطح پر دیکھا جائے تو عام لوگ بھی شعر اسی کو سمجھتے ہیں جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں۔ ٹرک، بس وغیرہ پر جو شعر لکھے ہوتے ہیں ان میں بعض شعر تو ایسے ہوتے جن میں محاسنِ شاعری کے نام پر کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن قافیہ ضرور ہوتا ہے۔قافیہ کے بارے میں ’فن شاعری‘ کے مرتب علامہ اخلاق دہلوی اپنی کتاب کے صفحہ 169 پر لکھتے ہیں کہ :

’’جب تک فنونِ لطیفہ میں پوری لطافت پیدا نہیں ہوتی شعر میں بھی ناہمواری رہتی ہے۔ قافیے کے لیے جو پابندیاں قرار دی گئی ہیں وہ اسی اصل پر مبنی ہیں۔ جن سے اب قافیہ اصولِ فطرت اور آئین تمدن کے موافق ہوگیاہے۔ اردو میں قافیے بہ کثرت ہیں۔ اس لیے قافیے کے ترک کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ عربی، فارسی کی پوری پیروی بھی اردو زبان کی ساخت کے مطابق نہیں لہٰذ ا صرف ان ہی اصول کی اتباع مفید ہے جو اردو شاعری سے فطری مناسبت رکھتے ہیں۔‘‘

شاعری کے حوالے سے بہت سے جملے سننے کو ملتے ہیں۔ مثلاً:’’ شاعری خونِ جگر مانگتی ہے‘‘،’’شاعری تیر کی طرح اثر کرتی ہے‘‘،شاعری انقلاب برپا کرتی ہے، شاعری وجد کی کیفیت طاری کر دیتی ہے وغیرہ غیرہ۔ ان سب جملوں کا مصداق وہی شاعری ہے جس میں عروضی قواعد ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔عروضی قواعد میں ایک اہم قاعدہ ’قافیہ‘ ہے۔

جس طرح نظم کو نثر سے جدا کرنے کے لیے ایک مخصوص ردھم کی ضرورت ہوتی ہے، اسی ضرورت کو پورا کرنے لیے (کسی بحر کے تعین کے ساتھ ) ردیف اور قافیہ کا اضافہ کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح قافیہ میں ردھم پیدا کرنے کے لیے ایک جیسے حروف کی ضرورت پیش آتی ہے۔ گویا غنائیت لانے کے لیے اصلی چیز حرف روی ہے کہ حرف روی کی وجہ سے قافیہ میں اور قافیے کی وجہ سے شعر میں ردھم پیدا ہوجاتا ہے۔

شاعری میں کشش، جاذبیت،اثر انگیزی یا یوں کہیے کہ جادوگری پیدا کرنے کے لیے تمام اصول کی پابندی کرنا نہایت ضروری ہے۔اگر ہم کسی معمولی اصول کو بھی نظر انداز کریں گے توشعر میں اسی درجے کی کمی واقع ہوگی۔جس طرح کھانے کو لذیذبنانے کے لیے ایک اچھا باورچی لذت پیدا کرنے والی اشیا میں سے معمولی چیز کو بھی نظر انداز نہیں کرتا، ایسے ہی شعر میں لطافت پیدا کرنے کے لیے ایک اچھا فنکار معمولی عیب سے بھی شعر کو پاک رکھتا ہے۔قافیہ شاعری کا ایک اہم ترین جز ہے ۔یہ شاعری کا زیور ہے۔اس کے بغیر شاعری میں حسن پیدا نہیں ہوسکتا،اس لیے قافیے کے بارے میں اپنی رائے بالائے طاق رکھ کر عروضی قواعد کاپابند ہونا ضروری ہے۔

قافیے کے بارے میں عروض کی کتابوں میں بہت کچھ لکھا ہے ۔لیکن حرف روی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس میں بڑی پیچیدگی پائی جاتی ہے ۔زیادہ تر کتب میں حرف روی کے بارے میں جو مثالیں دی گئی ہیںان سے ایسا لگتا ہے کہ قافیے کے آخر میں جو حرف آتا ہے اسے حرف روی کہاجاتا ہے۔جیسے

ابو البلاغت پنڈت رتن پنڈوروی کی کتاب ’سرمایۂ بلاغت‘ میں عیوب قافیہ کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے لکھا ہے کہ : ـ

’’چونکہ عیوب قافیہ کے بارے میں حرف روی کا ذکر بار بار آئے گااس لیے روی کے متعلق مختصر روشنی ڈالنا بہت ضروری ہے۔لہٰذا ملاحظہ ہوکہ ’روی‘ قافیہ کے حرف آخرواصلی یا جو بمنزلہ حرف آخر کے ہو‘اسے حرف ’روی‘ کہتے ہیں۔مثلاً:اثر اور ثمر کی’ ر‘کو حرف ’روی‘ کہیں گے۔ یاجیسے      ؎

پاس دل رکھتا ہے منظورِ نظر ہر آئینہ

نیک و بد سے پیش آتا ہے برابر آئینہ

’ہر‘ اور’برا بر‘ کی ’رے‘ حرف روی ہے‘‘

علامہ اخلاق دہلوی اسی صفحے پر قافیہ کی تعریف میں رقمطرازہیں:

’’ وہ معین حروف جو مختلف الفاظ، مطلع اور بیت کے ہر مصرع اور شعرکے دوسرے مصرع کے آخر میں (اگر ردیف ہوتو ردیف سے پہلے)مکرر(بار بار) آئیں ’قافیہ‘ کہلاتے ہیں۔‘‘

جس طرح شاعری کے لیے قافیہ کی پابندی ضروری ہے اسی طرح قافیہ کے درست ہونے میں حرف روی کا بہت بڑا دخل ہے۔حرف روی کے بارے میں علمائے ادب کی رائے بھی جانتے چلیں ۔

’’روی:  (اسباب باندھنے کی رسی) قافیے کے اصلی اور آخری حرف کو ’روی‘ کہتے ہیں، جیسے تقریر اور تحریر میں’ر‘ ہے ۔روی قافیے کی جڑ ہے،  اس کے بغیر قافیہ نہیں ہوتا۔(فن شاعری ،171)

کشن پرشاد بہادر نے’مخزن القوافی‘ میں صرف اتنا لکھا ہے:

’’روی وہ حرف ہے جس کے بغیر قافیہ نہ ہوسکے، مدارِ قافیہ اسی حرف پر ہوتا ہے۔‘‘

میر انشاء اللہ خان نے بھی ایک حرف کی تکرار کو حرف روی کہا ہے جو بیت کے آخر میں آتا ہے۔

یاس عظیم آبادی نے’چراغ سخن‘ میں لکھا ہے:

’’روی قافیہ کے حرفِ آخر و اصلی کو کہتے ہیں یا وہ جو بمنزلہ حرف آخر کے ہو۔‘‘

نجم الغنی نجمی رامپوری نے’بحرالفصاحت‘ میں لکھا ہے:

’’روی اس حرفِ آخر کو کہتے ہیں جو مصرع یا بیت کے آخر میں واقع ہو، یہ حرف مکرر آتا ہے، قافیہ کی بنیاد اس پر ہے، اکثر اصلی ہوتا ہے اور بعض اوقات زائد کو بھی اصلی کے حکم میں لے لیتے ہیں۔‘‘

مرزا عسکری نے’’ آئینۂ بلاغت ‘‘میں لکھا ہے:

’’قافیہ کی بنیاد روی پر ہے، بغیر اس کے قافیہ کا کوئی وجود نہیں، اسے قافیہ کی اصل اور اساس سمجھنا چاہیے۔‘‘

اس کے بعد سب نے مثالیں لکھی ہیں جن کا فی الوقت محل نہیں۔

علامہ اخلاق دہلوی کے مطابق الفاظِ قافیہ تین طرح کے ہوسکتے ہیں:

1        لفظ اور معنی دونوں کے اعتبار سے مختلف ہوں، مثلاً:  ’زرد‘ اور ’درد‘ کا قافیہ کہ ان دونوں کے معنی بھی مختلف ہیں اور لفظ بھی۔

2        معنی کے اعتبار سے مختلف ہوں اور لفظ کے اعتبار سے مختلف نہ ہوں،جیسے:’ آہنگ‘ایک میں بہ معنی اردو اور دوسرے میں بہ معنی آواز ہو۔  

(ایسے قافیے میں ایک شعر          ؎

اقرارِ جرم کرلیا ہم سر کے’ بل‘ گئے

افسوس اس کے ماتھے کے پھر بھی’ نہ بل‘ گئے

لفظ کے اعتبار سے قافیہ ایک ہے مگر معنی مختلف ہیں۔ عروض کی اصطلاح میں اس کو ’صنعتِ تجنیس‘ کہتے ہیں۔پہلے مطلع میں ایسے قافیے لانے کے بعد دوسرا مطلع کہہ لینا چاہیے تاکہ قافیوں کا انتخاب آسان ہوجائے، کیونکہ پہلے مطلع میں’دونوں قافیے ’بل‘ ہیں، اس اعتبار سے غزل کے ہر شعر میں قافیے کے آخر میں ’ب‘ اور’ل‘ کا آنا ضروری ہے۔

جیسے اس غزل کا دوسرا مطلع ہے        ؎

جب میرے اشک،شعر کے سانچے میں ڈھل گئے

محفل میں سننے والوں کے آنسو نکل گئے

(درد دہلوی)

3        لفظ کے اعتبار سے مختلف ہوں اور معنی کے اعتبار سے مختلف نہ ہوں ،مثلاً: ’سرد‘ اور ’برد‘ کہ دونوں کے معنی ایک ہیں مگر لفظ کے اعتبار سے مختلف ہیں۔

اب ہم حرف روی کو شاعری کی رو سے سمجھتے ہیں، تاکہ جو کچھ ان کتابوں نے اختصار سے لکھا ہے وہ ہمیں تفصیلی طور پر سمجھ میں آجائے۔ میں نے حرف روی کی تعریف کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے:

1        لفظ کا سب سے آخری حرف جو اصلی بھی ہو اور بنا کسی تغیر کے ہر شعر کے آخر میں آئے (یاد رہے کے زائد حروف ردیف میں شمار ہوں گے، کیونکہ اس میں ردیف اصطلاحی کی تعریف صادق آتی ہے)۔ لفظ میں اصلی حروف کی پہچان بھی بہر حال مبتدیان کے لیے کوئی آسان نہیں، اس لیے میں نے اصلی اور زائد حروف کو سمجھنے کے لیے عبارت کو آسان اور قابل فہم بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔

قافیے کے اصلی اور آخری حرف کو روی کہتے ہیں جیسے ’تقریر‘اور ’تحریر‘ میں ’ر‘ ہے ۔روی قافیے کی جڑ ہے اس کے بغیر قافیہ نہیں ہوتا ۔اصلی حرف وہ ہے جس کے علیحدہ کر نے سے لفظ بے معنی ہوجائے ۔جیسے تقریر کی ’ر‘ علیحدہ کرنے پر’ تقری‘ بے معنی لفظ رہ جاتا ہے۔جیسے ’نشان‘ اور’مکان ’ن‘ الگ کرنے پر’نشا‘ اور’مکا‘ بے معنی لفظ رہ جاتے ہیں۔ نیز روی سے پہلے جو حروف قافیہ ہوتے ہیں انھیں بھی حروفِ اصلی ہی کہتے ہیں۔

اسی طرح :’کتاب‘ اصل لفظ ہے۔’ب‘ حذف کرتے ہی بے معنی لفظ رہ جاتا ہے۔’پھول‘ کا آخری حرف الگ کرتے ہیں تو اس کا کیا حال ہوگا آپ خود تجربہ کر سکتے ہیں۔

کبھی کبھی مطلع میں ایسے قوافی آجاتے ہیں جن میں دویا تین حروف کی تکرار ہوتی ہے، جیسے: ’شکیل‘، ’وکیل‘۔ ان میں ’ل‘ حرف روی ہے اور حرف روی سے پہلے ’ک‘اور’ی‘ ہے ۔اس صورت میں غزل کے تمام اشعار میں ان دو حروف کی قید کے ساتھ قوافی لانے پڑیں گے۔ اس لیے مطلع میں ان حروف کی قید توڑ دیں۔ یعنی ’وکیل‘ کے ساتھ ’سبیل ‘یا اس جیسا کوئی دوسرا قافیہ منتخب کرلیں جس میں ’ی‘ سے پہلے’ک‘ نہ ہو، تاکہ غزل مکمل کرنے کے لیے قوافی آسانی سے مل جائیں ۔

الغرض جس قافیے کا آخری حرف اصلی یعنی وہ حرف قافیہ کا ہی حصہ ہوگا،وہی حرف روی ہوگا۔

بہت سے قافیے میں ایک یااس سے زائد حرف کا اضافہ کرلیاجاتا ہے۔ان قوافی میں حرف روی کا تعین کرناہی میری اس تحریر کاعین مقصد ہے۔

ایسے قوافی کی کئی صورتیں ہیں جن میں حرف اصلی کے بعد ایک حرف یا کئی حرف کا اضافہ کیاجاتا ہے ۔

ان میں پہلی صورت حرف اصلی کے ساتھ ایک حرف زائد کی ہے۔

مثلاً: ’حیرانی‘،اصل لفظ’حیران‘ ہے اور’ی‘ حرف زائد ہے، اس لیے حیرانی کا حرف روی’ن‘ ہے اور ’ی‘ حرف وصل ہے۔

 وصل: (لغوی معنی‘‘ ملنا‘‘) اصطلاح میں وصل وہ حرف ہے جو روی کے بعد بلا فاصلہ آئے، جیسے:،’حیرانی اور‘‘  ویرانی‘‘ میں‘‘ ی‘‘

’دوستی‘ اور’ دشمنی‘ میں ’ی‘یعنی اصل لفظ ’دوست‘ اور’دشمن‘ہے،’ی‘ زائدہے، اس لیے ’دوست‘کا حرف روی’ت‘ اور دشمنی کا حرف روی’ن‘ ہوگا۔

دوستی اور دشمنی کے حوالے سے ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ :

’’بعض مرتبہ حرفِ زائد بھی حرفِ روی کا قائم مقام ہونے کی وجہ سے حرف اصلی سمجھ لیا جاتا ہے جیسے: ’خالی ‘اور’ سالی‘میں خالی کی ’ی‘ اصلی اور ’سالی ‘کی زائد ہے جو قافیے کے قائم مقام ہوگئی ہے       ؎   

نظر جو کہ پڑتی تھی بوٹی جڑی

ہر ایک عالمِ شوق میں تھی کھڑی

(میرحسن)

جڑی میں ’ی‘ زائد ہے‘اور کھڑی میں اصلی ہے (فن شاعری، ص 172) علامہ اخلاق دہلوی نے اس کو عیوبِ قافیہ میں شمار کیاہے۔

نوٹ: روی اور وصل میں یہ فرق ہے کہ وصل کو حذف کرنے سے کلمہ بامعنی رہتا ہے لیکن روی کے ہٹانے سے مہمل ہوجاتاہے۔ مثلاً:’چھوڑا‘ میں ’ڑ‘ حرفِ روی ہے، اس کوحذف کرنے سے کلمہ بے معنی ہوجائے گا۔ لیکن ’الف‘ (حرفِ وصل) کے دور کرنے سے بامعنی رہے گا۔ دوسری مثال’ دشمنی‘کی ہے۔اس میں ’ن‘ حرفِ روی ہے۔ اس کے دور کرنے سے کلمہ، کلمہ نہیں رہے گا، لیکن ’ی‘ (حرفِ وصل) کے حذف کرنے کے باوجود کلمہ رہے گا۔حرفِ وصل کے متعلق یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ خود توساکن ہوتا ہے لیکن روی کومتحرک بنادیتا ہے۔

بہت سے قافیوں میں حرف اصلی کے بعد ایک سے زائد حروف ہوتے ہیں جیسے: ’کتابوں‘، اس میں اصل لفظ ’کتاب‘ ہے ،لیکن ہندی کی طرز پر جمع ہونے کی صورت میں ’و‘ اور ’ں‘زائد ہیں۔

جمع ہونے کی صورت میں بھی ’کتابوں‘ کا حرف روی ’ب‘ ہی رہے گا،یعنی جمع کرنے کی صورت میں بڑھائے گئے دونوں حرف قافیے کا حصہ تو ہوں گے لیکن حروف روی میں ان کا شمار نہیں ہوگا۔

ایک بار پھر توجہ دیں:

اصل لفظ’کتاب‘ ہے، جس کی جمع ’کتابوں‘ ہوئی،  لفظ’کتابوں‘ میں بڑھائے گئے دو حرف ’و‘ اور ’ں‘ قاعدے کے مطابق جمع کی علامت ہیں۔

’کتابوں ‘ کے جتنے قوافی لائے جائیں گے ۔ان سب کا حرف روی ’ب‘ ہی ہوگا۔جیسے: ’جوابوں‘، ’خوابوں‘، گلابوں‘، ’حسابوں‘ ،’عذابوں‘ وغیرہ۔مثال کے طور پر ایک شعر حاضر ہے      ؎

اے دوستو ذلت ہے عذابوں کے نگر میں

ہم عمر گزاریں گے ثوابوں کے نگر میں

’داستان‘کی جمع ’داستانوں‘ہے، یہاں بھی بعینہٖ یہی مسئلہ ہے، یعنی داستانوں کا حرف روی’ن‘ ہے، اب جتنے بھی قافیے آگے آئیں گے وہ حرف روی’ن‘ کی قید کے ساتھ آئیں گے۔جیسے: ’’آسمانوں‘’آشیانوں،‘ ’بے زبانوں‘، ’مہربانوں‘وغیرہ، اس کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ایسے جمع کے قوافی کو واحد کیا جائے اگر واحد ہونے کے بعد وہ ہم قافیہ ہیں تو درست ہے،ورنہ نہیں۔

یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ جس طرح ’آسمان‘کی جمع ’آسمانوں‘، داستان‘ کی جمع’داستانوں‘ اردو قواعد کے حساب سے درست ہے،ایسے ہی ’کارخانہ‘، کی جمع ’کارخانوں‘، ’آستانہ‘ کی جمع ’آستانوں‘ بھی صد فی صد صحیح ہے اور جب یہ صحیح ہے تو پھر جمع کے قوافی میں’آسمانوں‘،’آشیانوں‘ کے ساتھ ’آستانوں‘ ’کارخانوں‘ کے قافیے درست ہوں گے کیونکہ ان سب قوافی کا حرف روی’ن‘ ہے۔بیشک حرف روی ’ن‘ ہے لیکن ’آسمان ‘اور ’داستان‘ کا حرف روی’ ن ‘ ساکن ہے، ’کارخانہ‘اور’ آستانہ‘کا حرف روی’ن‘ متحرک ہے، اس وجہ سے یہ ایک دوسرے کے قافیے نہیں ہوسکتے۔علامہ اخلاق دہلوی نے اس کو عیوب قافیہ میں شمار کیا ہے:

’’حروف روی ساکن و متحرک:ایک قافیے میں حرفِ ساکن ہو اور دوسرے میں میں متحرک ہو، ۔جیسے: ’بے تاب غیر‘اور ’تابہ غیر ‘،پہلا حرفِ روی ساکن ہے اور دوسرا متحرک۔‘‘(فن شاعری،ص 178)

یاد رہے !ایسے الفاظ جن کا آخری حرف ’ہائے مختفی‘ ہو، ان میں حرفِ روی ہائے مختفی سے پہلے والا حرف ہوتا ہے۔ جیسے: غنچہ میں ’چ‘، آشفتہ، سوختہ، گزشتہ وغیرہ میں ’ت‘ اور تشنہ، افسانہ، فسانہ، نشانہ، خانہ وغیرہ میں ’نون‘ حرفِ روی ہے        ؎

ہمارا رزق ہے محفوظ آسمانوں پر

کبھی نہ ہاتھ پساریں گے آستانوں  پر

’آسمانوں ‘ کا واحد’آسمان‘ اور ’آستانوں‘ کا واحد ’آستانہ‘،پہلا ساکن ہے دوسرا متحرک۔

اس مطلع کے قافیے غلط ہیں        ؎

سفر پہ نکلے ہیں کاغذ کی کشتیاں لے کر

کہ دیکھنا ہے سمندر کا امتحاں لے کر

اس مطلع میں ’کشتیاں ‘اور ’امتحاں‘ قافیے ہیں، ’کشتیاں‘ ، ’کشتی ‘کی جمع ہے، جس کا حرف روی’ی‘ ہے اور ’امتحاں‘ مکمل لفظ ہے جس کا حرف روی’ن‘ ہے۔

قاعدے کی رو سے یہ مطلع درست نہیں ہے۔

اسی طرح جمع کے قافیوں میں’زمانوں‘، ’ٹھکانوں‘، ’بہانوں‘، ’ترانوں‘، ’نشانوں‘، ’جہانوں’، ’فسانوں‘، ’دوکانوں‘ وغیرہ قافیے کثرت سے لائے جاتے ہیں ان میں بھی یہی چیز ملحوظ رکھنی چاہیے، یعنی سب کوواحد بناکردرست قافیے تلاش کریں۔

یہ قاعدہ ہر اس قافیے کے لیے ہے جس کوواحد سے جمع کا قافیہ بنالیا گیا ہو، جیسے: ’پھول‘ کی جمع ’پھولوں‘، اس کا حرف روی ’ل‘ ہے، ’آنسو‘ کی جمع ’آنسووں‘، اس کا حرف روی’و‘ ہے، ’دوست‘کی جمع’دوستوں‘ اس کا حرف روی ’ت‘ ہے، اب کو ئی ’دوستوں ‘کا قافیہ ’حوصلوں‘کر دے تو وہ غلط ہوگا کیونکہ حوصلہ کا حرف روی ’ل‘ ہے        ؎       

شمار اس کا انمول ہیروں میں تھا

کبھی وہ بھی روشن ضمیروں میں تھا

اس مطلع میںجمع کے قافیے ہیں،ان کو واحد کریں تو ’ہیرا‘ اور ’ضمیر‘بچتاہے جو ایک دوسرے کے قافیے نہیں ہیں      ؎

حفاظتوں کے جہاں در کھلے چراغوں پر

شباب آ گیا چلتی ہوئی ہواؤں پر

اس مطلع میں ’چراغوں‘ اور ’ہواؤں‘ قافیے ہیں،ان کو واحد کریں تو’چراغ‘اور’ہوا‘ بچے گا۔ جو ایک دوسرے کے قافیے کسی بھی صورت میں نہیں ہوسکتے ۔

پروین شاکرکا شعر ہے          ؎

چہرہ میرا تھا، نگاہیں اُس کی

خامشی میں بھی وہ باتیں اُس کی

اس میں ’نگاہیں ‘اور ’باتیں‘قوافی ہیں، ان کو واحد کریں تو’نگاہ‘ اور ’بات‘ رہ جاتا ہے، جو کہ ایک دوسرے کے قافیے نہیں ہیں۔

مزید توجہ فرمائیں:

’زمینوں‘، خزینوں‘، ’حسینوں‘، ’ذہینوں‘، قرینوں‘ وغیرہ۔ان سب کو واحد کریں تو علم ہوجائے گا کہ کون، کس کا قافیہ ہے۔

دورِ حاضر میں غیرمعروف شعرا کے علاوہ کچھ مشہور و معروف شاعر وں نے کثرت سے ایسے قافیے استعمال کیے ہیں۔ جب کسی شاعر کو ٹوکاجاتا ہے تو وہ کسی عروض کی کتاب کا حوالہ دینے کے بجائے ایسے ہی شاعروں کا کلام دلیل کے طور پر پیش کردیتا ہے ۔

قافیے کے اصول اور ضابطے کے تحت جس طرح حرف روی کا تغیر جائز نہیں ،اسی طرح حرف روی سے پہلے آنے والے حرف کی حرکت(یعنی زیر،زبر،یا پیش) کو بھی نہیں بدلا جا سکتا۔مثلاً         ؎

کیسے منزل تلک گئے ہوں گے

راستہ جو بھٹک گئے ہوں گے

اس مطلع میں’ تلک‘اور ’بھٹک ‘قوافی ہیں، ان کا حرف روی ’ک‘ ہے،’ک‘ سے پہلے ’ل‘ اور’ٹ‘ ہیں جن پر زبر ہے۔ اس غزل میں جتنے بھی قافیے لائے جائیں گے ان میں حرف روی’ک‘ سے پہلے کوئی بھی حرف آئے لیکن اس پر زبر ہونا ضروری ہے۔

عروض کی اصطلاح میں اس کو’ توجیہہ‘کہتے ہیں جس کے معنی منہ پھیرنا ہیں۔(فن شاعری،177)

دوسری مثال:

کب، کون چل دے بوریا بستر سمیٹ کر

اپنا محاسبہ کرو بستر پہ لیٹ کر

اس مطلع میں ’سمیٹ‘اور’لیٹ‘ قافیہ ہیں، حرفِ روی ’ٹ‘ ہے، ’ٹ‘ سے پہلے ’ی‘ ساکن ہے۔ اس غزل میں جتنے بھی قافیے آئیں گے ان میں’ ٹ‘ سے پہلے ’ی ‘کا ہونا شرط ہے، جیسے:’سمیٹ‘،’لپیٹ‘،’لیٹ‘وغیرہ۔

دوسر امطلع         ؎

منسوب کرکے غیر سے میں اپنے آپ کو

بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو

اس مطلع میں ’غیر‘ اور’دیر‘ قافیے ہیں،جن کا حرفِ روی ’ر ‘ہے، ’ر‘ سے پہلے ’ی‘ ساکن ہے۔اس غزل میں جتنے بھی قافیے آئیں گے، ان میں’ر‘ سے پہلے’ی‘ ساکن ہونا ضروری ہے۔

تیسری مثال         ؎

اس کی عظیم ذات مبرا ہے شکل سے

اس کو سمجھ نہ پائے گا انسان عقل سے

اس مطلع میں ’شکل‘ اور’عقل‘قافیہ ہیں،جن کا حرف روی ’ل‘ ہے اور’ل‘ سے پہلے ’ایک مصرع میں ’ک‘ ساکن اور دوسرے مصرع میں’ق‘ ساکن ہے جو ازروئے عروض درست نہیں ہے۔

ایسے حرف کے بارے میں علامہ اخلاق دہلوی رقمطراز ہیں:

’’قید:(بندش) حرف مدہ کے علاوہ وہ حرفِ ساکن جو بلا فاصلہ روی سے پہلے آئے جیسے ’ابر‘ میں ’ب‘اور’طور‘ میں’و‘ہے۔۔۔۔۔۔۔۔قافیے میں قید کی پابندی لازمی ہے۔‘‘ (فن شاعری 174)

اوپر دیے گئے قافیوں کے مطابق ’ابر‘ کے قافیے ہوں گے ’صبر‘،’قبر‘،’جبر‘وغیرہ یعنی ہر قافیے کے آخری حرف سے پہلے ’ب‘ ساکن آئے گا۔

 غزل میں ’زور ‘کا قافیہ لیا گیا تو سارے قافیے اسی کے مطابق ہوں گے یعنی ’جور‘، ’غور‘، ’اور‘، ’شور‘، ’چور‘وغیرہ۔یہاں آخری حرف سے پہلے ’و‘ ساکن ہونا ضروری ہے۔ ’کرب‘کا قافیہ ’ضرب‘درست ہوگا،اس کے ساتھ ’قلب‘کا قافیہ غلط رہے گا۔

’یاد‘، ’آباد‘، ’برباد‘وغیرہ قافیوں کے ساتھ ’بعد ‘کا قافیہ نہیں چلے گا۔

’سخت‘ کے ساتھ ’تخت‘، ’بخت‘وغیرہ قافیے درست مانے جائیں گے،اس کے ساتھ ’وقت‘، ’دشت‘ کے قافیے ازروئے عروض جائز نہیں ہوں گے۔

ایسے قافیوں میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ قافیے کے آخری حرف اور اس سے پہلے ساکن حرف کے ساتھ ساتھ ساکن حرف سے پہلے کی حرکت(یعنی زیر، زبر، پیش میں سے جو بھی)ہو تبدیل نہیں ہونی چاہیے۔

مثلاً: ’چور‘قافیے میں ‘’ر‘ اور ’و‘ سے پہلے ’چ‘ پر زبر ہے،اس کے جتنے بھی قافیے ہوں ان پر زبر کا ہونا ضروری ہے۔اگر کوئی ’چور‘کے ساتھ ’چُور‘کا قافیہ لائے  یعنی ’چ‘  پر پیش لگا تو وہ غلط ہوگا کیونکہ’چ‘ کی حرکت بدل گئی۔

اوپر دیے گئے جتنے قافیوں کے بارے میں جانکاری دی گئی ہے وہ صرف و نحو کے اعتبارسے ’اسم جامد‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔’اسمِ جامد‘ ایسے اسم کو کہتے ہیں جو نہ تو خود کسی اسم سے بنا ہو اور نہ کوئی اسم اس سے بن سکے۔جامد کے معنی’ ٹھوس‘ یا’ جما ہوا‘ کے ہوتے ہیں۔آگے ایسے قافیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے گی جن کا تعلق ’اسم مصدر‘ سے ہے۔ ’اسم مصدر‘ ایسے اسم کو کہتے ہیں جو خود تو کسی سے نہ بنا ہو لیکن اس سے مقررہ قاعدوں کے مطابق کئی الفاظ بنائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً: ’پڑھنا‘ سے ’پڑھو‘، ’دیکھنا‘ سے ’دیکھو‘، پڑھانا‘ سے ’پڑھاؤ‘،’سوگھنا‘ سے ’سونگھو‘ وغیرہ ۔اکثر و بیشتر شعر ’اسم مصدر‘ کے قافیوں میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر غلطی کر تے ہیں، اس بارے میں ’’فن شاعری‘‘ کے صفحہ 175پر علامہ اخلاق دہلوی تحریر فرماتے ہیں:

’’قافیے کے وہ چار حروف جو روی کے بعد بلا فاصلہ آتے ہیں اور اصلی نہیں ہوتے (1) وصل(2) مزید (3)  خروج (4) نائرہ کہتے ہیں۔

(1)     وصل (ملنا) وہ حرف جو روی کے بعد بلا فاصلہ آئے،جیسے: ’بیماری‘ اور گرفتاری میں’ی‘ حرفِ وصل ہے۔

(2)     مزید(زیادہ) وہ حرف جو وصل کے بعد بلا فاصلہ آئے، جیسے ’جانا‘ میں ’ن‘ حرف وصل ہے اور اس کے بعد کا الف مزید ہے اور پہلا الف جو ج سے متصل (ملا ہوا) ہے حرف روی ہے۔

(3)     خروج(باہر آنا) وہ حرف جو مزید کے بعد بلا فاصلہ آئے، جیسے ’کہے گا‘ میں ’ہ‘حرف روی ہے ،’ے‘ حرف وصل اور ’گ‘ حرف مزید اور الف حرف خروج ہے۔

4        نائرہ وہ حرف جو خروج کے بعد بلا فاصلہ آئے، جیسے ’کہوں گا ‘میں’ہ‘ حرف روی ’و‘ حرف وصل،’ن‘ حرف مزید،’گ‘ حرف خروج ،الف حرف نائرہ ہے۔

مندرجہ بالا تحریر غور سے پڑھیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ وہ قافیہ جس کا تعلق کسی فعل سے ہے اس کا آخری حرف روی نہیں ہوتا ۔ایسے قافیے کا حرف روی  جاننے کے لیے ’اس کو امر(حکم)کے صیغے میں تبدیل کریں گے، اس کے بعدجو لفظ بچے ‘اس کا آخری حرف ’ روی‘ ہوگا۔

حکم کا صیغہ،یعنی جس میں کسی کام کے کرنے کا حکم دیا جائے،جیسے: ’چلنا ‘،اس کو’امر کا صیغہ‘ بنانے کے لیے آخری دو حروف’ن‘اور’الف‘ ہٹادیں تو’چل‘ بچے گا۔

یہ قاعدہ عام ہے، یعنی آخری دوحروف ’ن‘اور ’الف ‘کو الگ کردیں تو وہ ’ امرکا صیغہ‘ بن جائے گا،ان دو حروف کو علامت مصدر بھی کہاجاتا ہے۔

جیسے:’کہنا‘ مصدر ہے، اب ’کہنا‘ کی ’ن‘ اور ’الف‘ ہٹادیں ، تو ’کہہ‘ رہ جا ئے گا ’کہہ‘ کا آخری حرف’ہ‘ ہے، بس یہی حرف روی ہے۔اس اعتبارسے ’کہنا‘ کا قافیہ ’سہنا‘،’رہنا‘، بہنا‘ہوں گے۔کیونکہ سب قافیوں کی ’ن‘ اور’الف‘ ہٹاتے ہیں تو ’سہہ‘، ’رہ‘، ’بہہ‘ رہ جاتا ہے۔    

’رونا‘اس کو ’اسم امر‘ بنانے کے لیے ’ن‘ اور ’الف‘ ہٹا دیں تو ’رو‘ رہ جائے گا۔یعنی ’رونا‘ قافیہ کا ’حرف روی  ’و‘ ہوگا۔ جیسے ’سونا‘، ’کھونا‘ ، ’ بو نا‘ ، ’ہونا‘،’دھونا۔‘

ایسے دیگر فعل کے مصدر ہیں:

’آنا‘، ’کھانا‘،پانا، ‘لانا‘وغیرہ ان سب کو امرکا صیغہ بنانے کے لیے ’ن‘ ،‘الف‘ ہٹائیں  تو ’آ‘، ’کھا‘، ’پا‘، ’لا‘ رہ جائے گا، یعنی ان کا حرف روی’الف‘ ہوگا، حالانکہ ان قافیوں میں بعد میں بھی’ الف‘ ہے لیکن وہ حرف روی نہیں ماناجائے گا۔اس قسم کے اور بھی قافیے ہیں۔یہ تو وہ قافیے ہیں جن میں عام طور سے چوک کم ہوتی ہے، لیکن اسم مصدر کے حوالے سے کچھ قافیے ایسے ہیں جن میں غلطی زیادہ ہوتی ہے، جیسے: ’بیچنا‘۔ قاعدے کے حساب سے اس کو’حکم کا صیغہ‘ بنانے کے لیے’ن‘ اور ’الف‘ ہٹاتے ہیں تو،’بیچ‘ رہ جاتا ہے۔اور ’بیچ ‘کا حرف روی ’چ‘ ہوا،لیکن جو شعرا ایسے قافیے استعمال کرتے ہیں،وہ بیچنا کے ساتھ دیکھنا، پھینکنا، بیٹھنا، یہی نہیں‘ بہت سے شاعر ‘ان کے ساتھ سوچنا،بولنا جیسے قافیے بھی باندھ دیتے ہیں۔حالانکہ یہ سب غلط ہیں         ؎

داستاں غم کی سنانی ہے مگر ہنسنا بھی ہے

کھلناہے سورج کو،دھوپ سے بچنا بھی ہے

اس مطلع پر غور کریں ۔مطلع کے قافیے ہیں’ہنسنا‘  اور ’بچنا‘یہ دونوں قافیے’اسم مصد ر‘ہیں۔’ہنسنا ‘ کی ’ن‘ اور ’الف‘ ہٹا دیں تو’ہنس‘رہ گیا۔ ’بچنا‘ کی ’ن‘، اور الف ہٹا دیں تو ’بچ ‘ بچا۔’ہنس‘ اور ’بچ‘ایک دوسرے کے قافیے نہیں ہیں۔

 فعل، جیسے: لکھنا، پڑھنا، کھاتا، پیتا، سوتا، دیکھا، جانا، بوجھا وغیرہ میں پہلے نکتے والا اصول کارفرما ہے، یعنی حروف کو حذف کریں یہاں تک کہ لفظ کا سب سے چھوٹا حصہ با معانی باقی رہے اور اس کے بعد مزید کسی حرف کو حذف کرنے کی گنجائش نہ ہو۔

 حرفِ روی کا تعین مطلع میں ہی کر لیا جاتا ہے۔ غزل میں مطلع کے بعد جو اشعار آتے ہیں ان میں حرف روی کا کوئی اعتبار نہیں، اور جو حرف روی مطلع میں طے ہو گیا اُسے پوری غزل میں یا نظم میں برقرار رکھنا ضروری ہے اور اسے نبھانا بھی ہوگا۔ اب جبکہ یہ واضح ہے کہ حرف روی قافیہ میں اصل ہے، تو یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسی نظم جس میں حرفِ روی نہ ہو اس نظم کو سخت معیوب مانا جائے گا اور اس قافیہ کا کوئی وجود نہ ہوگا۔

وصی شاہ کا شعر ہے        ؎

سمندر میں اُترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

اتر میں ’ر‘ روی ہے، اور پڑھ میں ’ڑھ‘۔ روی مکرر نہیں ہے، ’تا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں‘ ردیف ہے، اور قافیہ موجود ہی نہیں۔ اس لیے یہ شعر سخت معیوب اور شاعر کی علم عروض سے ناواقفیت کا روشن ثبوت ہے۔

نوشی گیلانی        ؎

کچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے

برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

’گزر ‘اور ’پگھل‘ روی کا اختلاف ہے، اس لیے یہاں بھی قافیے کا کوئی وجود نہیں۔

فعل کے صیغے کی دوسری قسم     :

فعل کی پہلی قسم میں تو’چلنا‘، ’کھانا‘، ’پینا‘، ’سونا‘، ’رونا‘ وغیرہ ہے اور دوسری قسم میںچلانا،کھلانا، سلانا، پلاناوغیرہ ہے۔ایسے فعل کے صیغے میں بھی آخری دوحرف یعنی ‘ن‘ اور ’الف ‘ہٹادیں تو امر کا صیغہ بن جائے گا۔ جیسے: ’چلانا‘سے ’چلا‘،’کھلانا‘ سے’کھلا‘، ’سلانا‘  سے ’سلا‘ ،’پلانا‘ سے ’پلا‘۔ان سب کا حرف ’روی‘ الف ہے۔

 

Dard Dehlavi

Ali Apartment, R- 258, Gali No: 4

Near Al-Taqwa Masjid, Jogabai

New Delhi- 110025

Mob.: 9891195087

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...