15/10/24

اکیسویں صدی میں اردو نظم: موضوعات و مسائل، مضمون نگار: فیضان الحق

 اردو دنیا، ستمبر 2024

یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ جدید اردو نظم کی ابتدا ہیئت و اسلوب کے تجربے سے زیادہ موضوعات کی تبدیلی سے تعلق رکھتی ہے۔ 1867 کے بعد بھی انجمن پنجاب کے زیر اثر نظم کا داخلی ڈھانچہ زیادہ تبدیل ہوا۔ انجمن کی پالیسیوں کے تحت روایتی قصے کہانیوں اور رومانی داستانوں سے پرے برسات، رحم،انصاف اور حب وطن جیسے موضوعات پر نظمیں لکھی گئیں۔محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی، علامہ شبلی، اکبرالہ آبادی اور وحید الدین سلیم کی نظموں میں نئے موضوعات کی بازگشت سنائی دی۔ ظفر علی خاں، سرور جہان آبادی، تلوک چند محروم اور محمود شیرانی وغیرہ نے انگریزی نظموں کا ترجمہ کرکے مغرب کی رومانوی فکر سے آگاہ کیا،  جس کا اثر علامہ اقبال کے فکر و فن سے لے کر اختر شیرانی کی رومان پرستی تک میں نظر آتا ہے۔

 انیسویں صدی کی چوتھی دہائی اردو نظم کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ ترقی پسند تحریک کا سکہ بندایجنڈا ہے۔ خیال کو تسلسل اور تفصیل سے پیش کرنے کی صلاحیت کے سبب ترقی پسند ناقدین نے نظم کا بڑھ کراستقبال کیا اور غزل کے مقابلے میں نظم کو زیادہ اہمیت دی۔چنانچہ انگریزوں کی غلامی سے آزادی، سرمایہ دارانہ نظام کی قباحت، مزدور اور کسان کی مظلومی جیسے موضوعات پر بے شمار نظمیں لکھی گئیں۔ مجاز، جاں نثار اختر، علی سردار جعفری، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض اور مخدوم محی الدین وغیرہ اس عہد کے اہم نظم گو شعرا ہیں۔ 1939کے قریب حلقۂ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا۔ جس کی نمائندگی کرتے ہوئے میراجی اور ن۔م راشد نے نئے طرز فکر کی بنیاد ڈالی۔ ان کی نظموں میںپہلی بار واضح طور پر داخلی کرب اور شخصی جذبات و احساسات کا اظہار ہوا۔حلقۂ ارباب ذوق کے شعراموضوعات سے زیادہ ہیئت و اسلوب اور تجربے کی طرف متوجہ تھے۔ترقی پسندتحریک کی مقصدیت اور حلقے کی ہئیت پرستی کے دوران ہی 1947 میں تقسیم ہند کا دلدوز سانحہ پیش آ یا۔ اس سانحے نے غور و فکر کا زاویہ تبدیل کر دیا۔ شعراذاتی کرب میں مبتلا ہو گئے۔ اس کرب کے اظہار میں نہ ترقی پسندوں کانظریہ کام آسکتا تھا اور نہ ہی حلقۂ ارباب ذوق کی اسلوب پسندی۔ اس لیے شعرا نے دونوں رجحانات سے استفادہ کرتے ہوئے ایک نئی صورت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس عہد(1950-60)کی نظموں میں راست بیانیہ اور غیر ضروری توضیح سے گریزکیا گیا۔ ڈرامائی عنصر، داخلی احساس، خود کلامی اورعلامات و استعاروں کا استعمال ان نظموں کا خاصہ ہے۔ خلیل الرّحمٰن اعظمی، بلراج کومل، قاضی سلیم، زبیر رضوی، عمیق حنفی اورراہی معصوم رضا وغیرہ اسی قبیل کے نمائندہ شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔

 ساتویں دہائی کی ابتدا میں جدید نظم  بعض امور میں انتہا پسندی کا شکار نظر آتی ہے۔ لیکن آٹھویں اور نویں دہائی تک آتے آتے اس میں ایک مختلف رنگ ظاہر ہوتا ہے۔ محمد علوی، ندا فاضلی، مظفر حنفی، صلاح الدین پرویز، شمس الرحمن فاروقی، شہر یار، من موہن تلخ، کمار پاشی اور عادل منصوری وغیرہ نے اردو نظم کو نئے موضوعات عطا کرکے اظہار ذات کا وسیلہ بنایا۔1960 کے بعد سے ہی اردو نظم کے موضوعات میں رنگارنگی اور بو قلمونی نظر آنے لگی تھی اور وقت کے ساتھ موضوعات کی مختلف سمتیں پیدا ہو گئیں۔ نئے موضوعات کی تشکیل میں سماجی اور سیاسی حالات کا اہم کردار ہے۔ اس عہد میں نہ صرف طرزمعاشرت بدلابلکہ عشق اوررومان کا تصوّر بھی تبدیل ہوا۔ صنعتی و سائنسی تبدیلیوں نے سوچنے سمجھنے کا نیا زاویہ عطا کیا۔لیکن ان ترقیوں اور تبدیلیوں کے ساتھ تنہائی،تشکیک اور خوف کا ماحول بھی پروان چڑھتا رہا۔ ادیب و ناقد وحید اختراپنے ایک مضمون میں اس عہد کے اہم موضوعات کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’رومانی لہجے کے ساتھ جدید نظم نے فکر کی ایک مخصوص جہت کو بھی فروغ دیا۔ یہ تشکیک کا میلان ہے۔ بیشتر نظموں میں اس میلان کو واضح فکر کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ مگر بیشتر جدید نظموں میں جن کا تعلق عہد جدید کے تقاضوں سے ہے ایک زیریں لہر کی صورت میں یہ فکری میلان کار فرما نظر آتا ہے۔اقدار کی شکست و ریخت کا داخلی سطح پر تجربہ، معاشرے کے موجودہ نظام کی طرف سے بے اطمینانی، ایک بے رحم مشینی معاشرے میں فرد کے بے جان مشینی معاشرہ بنا دیے جانے کا احساس، صنعتی شہر میں انسان کی تنہائی، نیو کلیئر اسلحوں کے ذخیروں کے دہانوں پر بیٹھی ہوئی دنیا میں موت کا آسیب، پرانے رشتوں ناتوں، انسانی تعلقات کے ٹوٹنے یا بے حرمت ہونے کا احساس، پرانے آدرشوں کے کھوکھلے پن کا تلخ تجربہ، قائدین و ارباب سیاست کے قول و عمل میں تضاد، قدم قدم پر سمجھوتا بازی، مصالحت و مفاہمت، دولت کے حصول کے سہل طریقوں کے ساتھ دیانت و محنت کی بے مائگی، زندگی کی بے مقصدی و لا یعنیت، خود اپنے آپ سے انسان کی اجنبیت، کائنات اور فطرت سے اس کی دوری، یہ تمام مسائل ایسے ہیں جو جدید نظم کا مختلف عنوانات و اسالیب سے موضوع بنتے رہے ہیں۔ ‘‘ 1

اکیسویں صدی کو گذشتہ صدی سے یکسر جدا نہیں کیا جا سکتا۔اس میں وہ موضوعات بھی داخل ہیںجن کا تعلق آٹھویں اور نویںدہائی سے بھی ہے۔یہ بات اپنی جگہ کہ وقت کے ساتھ ادب کے موضوعات تبدیل ہوتے ہیں، لیکن یہ تبدیلی تاریخ کی تبدیلی کی طرح نہیں ہوتی، بلکہ اس کے پیچھے سیاسی وسماجی حالات کا اہم کردار ہوتا ہے۔کچھ موضوعات ایسے بھی ہیںجن کا تعلق انسانی سرشت سے ہے۔یہ موضوعات وقت کے مختلف دھاروں میںبھی یکساں نظر آتے ہیں، مثلاً بچپن، یادیں، عشق، محبت وغیرہ۔ یہ  ایسے موضوعات ہیں جنھیں تقریباً ہر عہد کا شاعر اپنے طور پر دیکھتا اور محسوس کرتاہے۔ ان کے مابین تفریق اور تفہیم کی واحد صورت یہ ہے کہ اصل بنیادوں کی نشان دہی کی جائے۔ مثلاًاس قسم کے سوال قائم کیے جا سکتے ہیں کہ بچپن کو یاد کرتے ہوئے شاعر کن اقدارکے زوال کا ماتم کر رہا ہے؟ اسے بچپن کے کون سے رویے حال سے زیادہ اہم نظر آتے ہیں؟ کیا وہ محض یادوں کا اسیر ہے یا اس کے پاس ان یادوں کا کوئی جواز بھی ہے؟وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے بے شمار موضوعات معمولی فرق کے ساتھ ابتدا ہی سے ہمارے شعر و ادب کا حصہ رہے ہیں۔ لہٰذا ہر عہد کی شاعری میں ان کے اثرات ضرور مل جائیں گے۔

مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرنے سے قبل اکیسویں صدی کے نظم نگاروں پر نگاہ ڈالیں تو ایک طویل فہرست نظر آتی ہے۔ اس میں افضال احمد سید،جمال اویسی، جینت پرمار، خورشید اکبر، پروفیسر صادق، عذرا عباس، شبنم عشائی، فرحت احساس، پرتپال سنگھ بیتاب، شہناز نبی، راشد انور راشد، افتخار عارف، جاوید اختر، نصیر احمد ناصر، انور سین رائے، ڈاکٹر بختیار نواز، انعم کنول، صبا اکرام، سلیم انصاری وغیرہ شامل ہیں۔اس مضمون میںجمال اویسی، جینت پرمار، عذرا عباس، اکرام خاوراور راشد انور راشدکے خصوصی حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ ان شعرا کی نظم نگاری کا آغاز گرچہ بیسویں صدی کے اواخر میں ہو چکاتھا لیکن انھیں استحکام اکیسویں صدی میں نصیب ہوا۔ انھیں شاعروں کے حوالے سے اکیسویں صدی کے اہم موضوعات کا جائزہ مقصودہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ اکیسویں صدی کی نظمیں انہیں چند موضوعات تک محدود ہیں۔

اکیسویں صدی میں شہری مسائل کو خاص طور پر نظموں کا موضوع بنایا گیا ہے۔ موجودہ صدی میں شہری زندگی خود ایک مسئلہ بن گئی ہے۔حالیہ دنوں میں کورونا کی وبا نے وطن واپسی اور ذریعۂ معاش کے سلسلے میں جو دشواریاں پیدا کیں، ان سے یہ صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے۔ ادب پر اس کے دیرپا اثرات پڑنے طے ہیں۔ اب تک شہری زندگی میں جو مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں ان میں اجنبیت کا احساس، تنہائی، اقدار کی شکست، اخلاقی زوال، مصروفیت، خود غرضی اور بے اطمینانی عام ہے۔ جدید نظم گویوں میں جمال اویسی نے ان موضوعات پر کئی عمدہ نظمیں لکھی ہیں۔ مصروفیت، شہری زندگی کا ایک ایسا المیہ ہے جو ہر انسان کو عجلت پسند اور خود غرض بنا دیتا ہے۔نظم ’بڑے شہر کی ایک شام‘ میںجمال اویسی نے ایک ایسا کرداتراشاہے جو اپنے آپ میں گم، بے فکری سے چلتا چلا جا رہا ہے۔ اسے راہ گیروں کی بھی پرواہ نہیں۔ یہاں تک کہ اس کے سامنے آنے والا شخص کچل جاتا ہے۔ مختصر سی یہ نظم ایک گہرا تاثر پیش کرتی ہے:

’’وہ کون ہے؟/ سر شام ایک کالی پرچھائیں / لپکتی بھاگتی/ سڑکوں پہ موج خوں جیسی/ جو اس کے سامنے آئے/ کچل کے رہ جائے!‘‘2

شہر کا یہ مصروف انسان کبھی کبھی اپنی شناخت بھی گم کر دیتاہے۔ یادداشت اتنی کمزور ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں پہچان سکتااور حیرت بھری نظروں سے دریافت کرتا ہے۔ ’’ کون ہوں میں؟/نہیں ،میں کوئی نہیں/  اپنی ہی گمشدہ صدا جیسے/ خود کو دیتا ہوں رات دن آواز/ اور کھلتا نہیں ہے ذات کا راز‘‘ (ذات کا راز،ص 361)۔ ایسے تنہا اور شناخت باختہ انسان کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ خلائوں کو گھورے اور آسمان سے باتیں کرے۔ اس کی اجنبیت کی انتہا ہر شے کو اس کے سامنے غیر مانوس بنا دیتی ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’جانے دنیا ہے عکس دنیا کیا/اجنبی لگ رہا ہے ہر منظر/نرگسی آنکھ ہو تو دیکھوں میں/کون معشوق ہے مرا دلبر/دل تو لگتا نہیں ہے یاں اپنا/آسماں کھول اپنے ساتوں در/میں بھی دیکھوں کہ کچھ کہیں تو ہے/ورنہ کہنے کو یہ زمیں تو ہے‘‘3

شہر کا یہ انسان جب اپنی قدریں کھو چکا ہوتا ہے تو اس کے سامنے اخلاقیات بھی بے معنی ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنی ذات اور خواہشوں کا غلام بن جاتا ہے۔ یہی وہ منزل ہے جہاں ہوسناکی اور لوٹ کھسوٹ اسے اپنے پنجوں میں جکڑ لیتی ہے۔ اس المیے کا ماتم کرتے ہوئے جمال اویسی نظم ’شہر کا نوحہ‘ میں لکھتے ہیں:

’’چراغوں کی لو بجھ رہی ہے ترے شہر میں/ اندھیروں میں سایوں کی ہے حکمرانی/ترے شہر میں سب خدا بن گئے ہیں/ ترے شہر کو بیچ کھائیں تو کم ہے/ یہ مائوں کی بہنوں کی سوداگری کرنے والے/ترے شہر سے کیا محبت کریں گے/ یہ ہر اینٹ پر لکھ چکے نام اپنا/ پھر اک روز نیلام ہر شے کریں گے/زمیں بیچ کھائیں گے اور آسماں کو/حقارت سے تکنے لگیں گے‘‘ 4

شہرکے ناگفتہ بہ حالات پر خاموش رہنا آج کے شاعر کو گوارہ نہیں۔ وہ ان سب کو طنز کا نشانہ بناتا ہے۔ جب اس کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہوتاہے تو و ہ شہری زندگی کو جنم دینے والی’ نام نہاد تہذیب‘ پر سوال قائم کر تاہے۔ خود غرضی اور ہوسناکی کا دل دوز منظر اسے تہذیب نوکو ہدف ملامت بنانے پر مجبور کر تا ہے۔ وہ کہتا ہے:

تری مکاریوں کو میں اگر لکھ دوں/تو یہ دنیا مجھے ہر گز نہ بخشے گی/کہ تو نے آدمی سے /آدمیت چھین لی ہے اسے تہذیب کا بندہ بنا کر/ پڑھا کر منطق و حکمت/ بتایا/ زندگی قانون کی محکوم بندی ہے/ سہارا/ مذہب و اخلاق کا، تاریخ کا لے کر/بہائے خون کے دریا/ زباں کو کر دیا اک قید خانہ/ ذہن جس میں پھڑ پھڑاتا ہے/ مجھے نفرت ہے اے تہذیب!/ تیرے کارناموں سے/ کہ تو تاریخ کے اوراق میں/پوشیدہ قاتل ہے!  5

شہری زندگی کے مسائل کی آخری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے ماضی کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اس کے اندر گائوں دیہات کی سادہ اور فطری زندگی میں واپس جانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ذہن میں فرار اور جنگل کی طرف کوچ کرنے کا خیال آتا ہے۔ شاعر ’ مجھے لے چل‘ جیسی نظم لکھ کر اس کی ترجمانی کرتا ہے۔ نظم کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں     ؎

مجھ کو لے چل/ خدا کی بستی سے باہر/ گھنگھور اندھیرے جنگل میں/ گھبرایا ہوں/ روشنیِ علم و دانش سے/  کاش مری آنکھیں اندھی ہو جاتیں/ اور/ میں بہرا بھی ہو جاتا/ اے بھائی/ مجھ کو لے چل/ جہاں پہ دنیا/ کم کم دیکھنے میں آتی ہے!6

اکیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے نوجوان نسل کو کافی متاثر کیا ہے۔اسمارٹ فون، ویڈیوگیم، سوشل میڈیا، ( فیسبک 2004، یو ٹیوب 2005، ٹویٹر2006، واٹس اپ2009) اور Globalization کا اثر ہماری زندگیوں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ کمپیوٹر، سٹیلائٹ اور ان جیسی بے شمار سائنسی ایجادات کے بڑھتے قدم فطری زندگی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان ایجادات کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ان کے مضر اثرات سے بھی چشم پوشی نہیںکی جا سکتی۔آج کا معاشرہ انھیں ایجادات کی تان پر رقص کرتا دکھائی دیتا ہے۔ نئی نسل کاان ایجادات پر حد سے زیادہ منحصر ہونا انسانوں کو بے عمل بنا رہا ہے۔ کمپیوٹر کی بڑھتی ضرورت ہمارے معاشرے کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ اس تبدیلی کا اثر نظم کی زبان میں یوں ظاہر ہوتا ہے     ؎

ایک شے جس کی ایجاد سے ایک دن

میری ہستی کو خطرہ پہنچ جائے گا

میرا زائیدہ ہم سر بنے گا مرا

مجھ سے بہتر عمل کرکے دکھلائے گا

مجھ کو سکھلائے گا وہ معیشت نئی

اور ادب لکھ کے مجھ کو وہ سمجھائے گا

وہ بنائے گا صنعت کی تہذیب نو

علم وحکمت کا سردار کہلائے گا

آدمی بے عمل ہو کے رہ جائے گا 7

اس بے عملی کی مثال فن کتابت کا زوال ہے۔ خوش خطی نہ صرف ہمارا تہذیبی ورثہ ہے بلکہ اس کی جاذبیت اور کشش بھی غیرمعمولی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس فن نے کئی لوگوں کو روزی روٹی کا سامان فراہم کیا۔ مگر آج کمپیوٹر ٹائپنگ کا زمانہ ہے۔ یہ الگ بات کہ روزی اس سے بھی کمائی جاتی ہے لیکن وہ دل کشی اور انفرادیت ناپید ہے جو ہاتھ کی کتابت میں پائی جاتی ہے۔ شاعر کہتا ہے        ؎

’’ہماری طرح جو لکھیں قلم کہاں ہیں وہ/ہیں دفتروں میں مشینوں سے/ڈھلتے مخطوطے/ حروف ایک سے ہیں/ دلکشی نہیں جن میں‘‘8

حکیم الاقوام کی تقدیر‘ ایک ایسی نظم ہے جو ستارہ پیما ایجنسیوں، خبر رساں چینلوں اور سیٹلائٹ کی کرشمہ سازیوں کو بیان کرتی ہے۔ اس مشینی دور میں انسان اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔یہاں تک کہ اس کی فہم و فراست، اور شعور و ادراک کا سہارا بھی مشین ہے۔ اس زوال کی انتہا یہ ہے کہ ہم اپنے عقائد اور نظریات بھی انھیں مشینوں سے دریافت کرنے لگے ہیں۔نظم ’عہد زوال کے باشندے‘  اس پور ے نظام پر چوٹ کرتی ہے      ؎

ہمارے عہد کو عہد زوال لکھا جائے

دماغ سوختہ جن کے ہیں ہم وہ انساں ہیں

ہماری گھٹ گئی توقیرمٹ گئی ہے بساط

ہماری سوچ کو منسوخ کرکے دنیا نے

قلم کے بدلے بٹھایا ہے ایک کمپیوٹر

ضرورت اب نہیں ہے فکر و فلسفے کی اسے

مشین میں جو ڈھلے گا وہ ہوگا پائندہ

ان آسمانی صحیفوں کو فیڈ(Feed)کر لیں ہم

جواب جو بھی ملے وہ ہمارا مذہب ہے!  9

موجودہ مسائل میں بھوک اور معاشی بدحالی ایک ناگزیر مسئلہ ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کا سانپ اگرچہ مر گیا لیکن اس ذہن کے اشخاص دوسری شکلوں میں موجود ہیں۔ گلوبلائزیشن کی چمک نے تجارت اور خرید و فروخت کو آسان بنانے کے ساتھ غریبوں اور مزدوروں کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں کو بھی ہوا دی ہے۔اس عالمی تجارت کے نتیجے میں ملک کا زیادہ تر سرمایہ چند تاجروں کی جھولی میں سمٹ گیا ہے۔ مال وہیں صرف کیا جاتا ہے جہاں سے زیادہ منافعے کی امید ہو۔ ایسے میں کوئی بھی تاجر غریبوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے راضی نہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ بھوک اور معاشی تنگی ان کے سامنے ایک خوفناک مسئلہ بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔ عذرا عباس کی نظم ’’ چولہا‘‘ بھوک کا ایسا دلدوز منظر پیش کرتی ہے جس سے روح کانپ جاتی ہے۔ نظم ملاحظہ کیجیے:

چولہا کیوں نہیں جلا؟/ چولہا صبح سے رات تک ہماری آنکھوں کا مرکز ہے/ چولہا ہمارا دوست کبھی نہیں بن سکا/ کبھی ایسا نہ ہو سکا/ جب ہم چاہیں وہ جل جائے/ ہم چاہتے ہیں جب ہمیں بھوک لگے/ وہ جل جائے/ ماں کو شرمندہ نہ ہونا پڑے/ ایسے وقت میں وہ ہم سے منھ چھپاتی ہے/ اور بار بار اپنا منھ پونچھتی جاتی ہے/ ہماری بھوک اسے معاف نہیں کرتی/ اور وہ جب مایوس ہو کر چولہے کے سامنے سے ہٹ جاتی ہے/ اور کسی کونے میں جا کر چھپ چھپ کر روتی ہے/ ہم بچے اس چولہے سے پوچھتے ہیں/ تو کیوں نہیں جلا؟/ چولہا اداس مسکراہٹ سے ہمیں دیکھتا ہے/ وہ ایسا لگتا ہے جیسے اپنا سر افسردگی سے ہلا رہا ہو/ ہم دیکھتے ہیں ، چولہا خالی ہے/ اس کے پیٹ کے لیے/ماں جو لکڑیاں رکھتی تھی/ وہ نہیں ہیں/ ہم کہتے ہیں چولہے سے/ ہمیں بھوک لگی ہے/ چولہا کہتا ہے ،میں بھی بھوکا ہوں/ تمہاری ماں میرے پیٹ میں چپٹیاں بھی نہیں ڈالتی/ میں خالی پیٹ تمہارا پیٹ نہیں بھر سکتا/ بچے اپنے سر نیوہڑا کر بیٹھ جاتے ہیں/اور سوچتے ہیں ، ماں نے ایسا کیوں کیا؟/ اور چولہا سوچتا ہے/ میں جل بھی جائوں تو کیا/ ان بچوں کے لیے پکنے کو کیا کچھ ہے؟ 10

بھوک سے متعلق مسائل عذرا عباس کی نظم ’زیادتیوں کے شور نے اک کہرام مچایا ہے ‘،میں مزدور ہوں، گونج، ’کہنے دو ‘اور’ ہمیں محتاط رہنا ہوگا ‘وغیرہ میں بھی موجود ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھوک سے کئی طرح کے مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔

اکیسویں صدی کی نظموں کا ایک اہم موضوع ماضی کی طرف واپسی بھی ہے۔آج کا شاعر اپنے ماضی کو اس لیے یاد کرتا ہے کہ اسے حال بدحال اور مستقبل تاریک نظرآرہاہے۔اسے ہم Nostalgiaکا مریض کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ ایسے عناصر کی نشان دہی کرتا ہے جو ماضی کو حال سے بہتر ثابت کرتے ہیں۔ماضی کی طرف اس واپسی میں بچپن کی خوشگوار یادوںکو تازہ کرنا شاعر کا مقصد نہیں بلکہ وہ ایک ایسے سماجی نظام کی طرف واپسی چاہتا ہے جہاں انسانیت زندہ تھی اور لوگ اپنے ہم سایوں کا خیال رکھتے تھے۔ اس کی واپسی شہر کے مصروف اور خودغرض ماحول سے گائوں کی ہمدرد اور پر خلوص فضا کی طرف ہے۔وہ مصنوعی،مضر اور غیر فطری تبدیلیوں سے نکل کر فطرت کی گرم بانہوں میں پناہ لینا چاہتا ہے۔جمال اویسی کی نظم’ شکست کے بعد‘ ایک ایسے شخص کی صورت حال بیان کرتی ہے جو پرانی یادوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

یہ تنہائی کا اک نیا کھیل ہے...  /میں عہد گزشتہ سے وابستہ دل کی پناہوں میں/ اک نوحہ گر ہوں/ مرا نوحہ بے صوت و بے لفظ اپنے ہی گرداب میں/ قید ہے/ سزا یافتہ ایک مجرم کی مانند میں چور نظروں سے  ہر آتے جاتے ہوئے آدمی کو/ فسردہ نگاہوں سے دیکھوں، / دریچے میں بیٹھا رہوں/ مجھے کیا ملا؟/ کچھ نہیں!/ صرف احساس کی لو/ جو مجھ کو جلاتی نہیں/ خود بھی بجھتی نہیں!11

شام کے وقت جب شہروں کے کلب میں روشنیاں جگمگانے لگتی ہیں، ایک شاعر کا دل اپنے گائوں کی خوش نما یادوں میں ڈوب جاتاہے۔ رخسار پر غازہ اور ہونٹوں پر سرخی کی پرت دیکھ کر اسے دل ربائے دہقانی کی سادگی یاد آتی ہے۔اسے وہ چوپال اور کھیت کھلیان واپس بلاتے ہیں جن سے اس کی ہزاروں یادیںوابستہ ہیں۔جمال اویسی کی نظم ’وطن کی شام ‘اسی موضوع کو پیش کرتی ہے۔نظم کا آخری بند ملاحظہ فرمائیں         ؎

پہ اس گھڑی نہ وہ چوپال ہے نہ کھیت نہ گھر/ کلب میں تیرتی پرچھائیوں کا ریلا ہے/ ہے میرے جام میں تلخی/ ہے میری شام غلط/ عبث ہے کار ہوس  12

 یادماضی کے اسباب پر روشنی ڈالتی ہوئی ایک نظم’ماضی کی طرف‘ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں غیر اصلاحی تبدیلیوں اور ترقیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس میں اپنی اس زندگی کی تلاش نمایاں ہے جس پر شاعر حسرت بھری نگاہیں ڈالتا ہے اور کہتا ہے :

’’زندگی اے زندگی/تاریخ کے اوراق میں تو کھوگئی ہے/تیرے چہرے پر ہے غازہ/ ان گنت تہذیب کا/ سر سے پائوں تک ترا ملبوس تجھ کو ڈھک چکا ہے/تو نظر سے ہو گئی اوجھل/ مگر میں جانتا ہوں/ تیری مشت خاک میں/ فطرت تری پنہاں ہے اب تک/ لوٹ کر اک بار آ جا/ پیرہن کو چاک کرکے، چہرہ دھو کے/تو کہاں پائی گئی تھی/ یا د آئے گا تجھے/ جنگلوں سے چمچماتی چمنیوں تک/ غار سے صد منزلہ تک کا سفر/ یاد آئے گا تجھے/ بھول کر اقوام عالم کا فسوں/ اک بار ماضی کی طرف آ‘‘13

ماضی کو یاد کرنے کا ایک اہم حوالہ وہ شخصیات ہیں جنھوں نے اپنے عہد میں حیران کن کارنامے انجام دیے ہیں۔ ایسی ہستیاں تاریخ کا حصہ بن کر، آنے والی نسلوںکے لیے ترغیب کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ جینت پرمار نے اس قسم کی کئی نظمیں لکھی ہیں۔ وہ کبھی کبیر کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ جھینی جھینی بینی چدریاریزہ ریزہ ہونے لگی ہے اور اسے پھر سے سینے کی گھڑی آپہنچی ہے‘‘ ( نظم یعنی، ص 35)۔اورکبھی ٹیگور کی کویتائوں اور گیتوں میں ایشور کا سنگیت محسوس کرتے ہیں (نظم یعنی، ص9)۔جینت پرمار کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان نظموں میںعصری حسیت پیدا کر دیتے ہیں،جس سے نظم کی معنویت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔مثال کے طور پرمرزا غالب کے متعلق لکھی گئی ان کی یہ نظم دیکھیے:

دست رحل پہ کھلا پڑا ہے/قدیم دیوان غالب کا اک نسخہ/ورق ورق نے خزاں ملی ہے اپنے بدن پر/ ستّر نمبر کے صفحے کی غزل گنگنایا کرتی ہیں سرد ہوائیں/ ہوئی مدّت کہ غالب... /تار پہ بیٹھے کبوتروں کی صف اڑتے ہی گویا /غزل کے مصرعوں کو بھی پر نکلے/اڑنے لگے دہلی کی پیچیدہ گلیوں میں/بلی ماران کے کوٹھوں پر/ بوڑھے فقیر کے ہونٹوں پر/اور مینار بابل پر!! 16

موجودہ صدی کا ایک اہم مسئلہ فطرت سے کھلواڑ ہے۔ انسان نے فطرت سے بغاوت کرکے اپنی دنیا الگ آباد کر لی ہے۔ جنگلوں کو کاٹ کر بستیاں بسانا، فیکٹریوں کے ملبے سے دریائوںکا پانی آلودہ کرنا، زہر اگلتی چمنیوں سے فضا کو مکدر کرنا ترقی یافتہ شہروں کا معمول بن چکا ہے۔یہی چھیڑ چھاڑآئے دن طوفان، سائکلون، زلزلہ جیسے حادثات کا سبب بن رہی ہے۔ جدید نظم نگاروں میں راشد انور راشد نے اس موضوع کو خاص طور پر اپنی نظموں کا حصہ بنایا ہے۔دریائوں کی آلودگی کے متعلق ان کی نظم’ ندی کو دیکھ کر‘قابل تعریف ہے۔ یہ نظم نہ صرف ندیوںکے قدیم تاریخی مقام و مرتبے کی یاد دہانی کراتی ہے بلکہ آج کے دور میں ان کی بدحالی کا ماتم بھی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

ندی کے حال کو/اب دیکھ کر افسوس ہوتا ہے/ ندی کا ایک ماضی تھا/ نہ جانے کتنی تاریخی کتابوں میں/ ندی کی اہمیت کے/ ان گنت ابواب روشن ہیں/ندی تہذیب کا مسکن رہی ہے/اسی کی موج نے/ آغاز میں انسان کو/واقف کرایا/ ارتقائی مرحلوں سے/اسی کے صاف اور شفاف پانی نے/یگوں تک/ مختلف نسلوں کی/دل سے آبیاری کی/اسی کی چیختی چنگھاڑتی لہروں پہ/ غلبہ پا کے انساں نے/ ترقی کی/ مگر اندھی ترقی نے/ ندی کی شکل اتنی مسخ کر ڈالی/کہ آنکھوں کو کسی صورت /یقیں آتا نہیں/جو کچھ نظر کے سامنے ہے/ وہ حقیقت ہے/گندے بدبودار نالے کی طرح/بہہ رہی ہے/یہی تو وہ ندی ہے/تذکرے جس کے کتابوں میں بھرے ہیں/کتنی تہذیبوں کا جو مسکن رہی ہے/ ندی کے حال کا جب جائزہ/ لیتی ہیں نظریں/تو بہت افسوس ہوتا ہے! 15

فطرت سے کھلواڑ کا دوسرا روپ جنگلوںاور درختوں کی کٹائی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ نظم’پیڑ کٹتے جا رہے ہیں‘ اور’جنگل کی لکڑیاں‘ ( راشد انور) اسی المیے کو بیان کرتی ہیں۔’ فضائی آلودگی‘ ( راشد انور)کے عنوان سے لکھی گئی نظم ماحولیات کے حوالے سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ’ پانی کا کہرام،زمیں کی فریاد،دریا پھر سے امڈپڑا ہے، جنگل کی صدا (مشمولہ: گیت سناتی ہے ہوا) وغیرہ اسی قبیل کی نظمیں ہیں، جو ماحولیاتی تبدیلیوں پر نوحہ کناں ہیں۔

 مذکورہ بالا موضوعات کے علاوہ ’ عشق کا بدلتا تصور‘ ایک ایسا موضوع ہے جس کا اثر تقریباً تمام نظم نگاروں کے یہاں موجودہے۔آج کا شاعر اپنے محبوب کو خیالی پیکر تسلیم نہ کرتے ہوئے زمین کا ایک باشندہ سمجھتا ہے۔ اس کا بیان عشق، روحانی حدود سے نکل کر جسم کی لذتوں اور نسوانی اعضاکے بے تکلف بیان تک آ پہنچا ہے۔ شاعرات نے بھی ان موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔

اکیسویں صدی کے موضوعات کی تلاش کے سلسلے میں جو سفر شہری مسائل سے شروع ہوا تھا وہ شخصی مسائل تک آ پہنچا ہے۔اس درمیان ہمارے شاعروں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا بھی دیکھی، معاشی تنگی اور فاقہ کشی کا بھی سامنا کیااور ساتھ ہی فطرت سے چھیڑ چھاڑ پر دل برداشتہ ہو کر گائوں کی گلیوں اور ماضی کی یادوں میں پناہ لینے پربھی مجبور ہوئے۔ شہری مسائل سے متعلق جمال اویسی نے جن نکا ت کو اپنا موضوع بنایا ان میں داخلی کرب بھی ہے اور گہرا مشاہدہ بھی۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعے نئی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے باخبر کراتے ہیں۔ عذرا عباس کی نظمیں ایک ایسی نسوانی آواز کی ترجمان ہیں جس میں عصری آگہی کے ساتھ ساتھ جرأ ت اور ہمت موجود ہے۔ فسادات اور بھوک سے متعلق ان کی تمام تر نظمیں ان کی بیدار مغزی اور عصری آگہی کا ثبوت ہیں۔ جینت پرمار اس اعتبار سے ایک منفرد نظم نگار قرار دیے جا سکتے ہیں کہ ان کی نظمیں مختصر ہونے کے باوجود ایک گہرا تاثر چھوڑتی ہیں۔ شخصیات سے متعلق ان کی نظمیں اس کا بہترین ثبوت ہیں۔ ان کی نظمیں ذہن کے پردے پر ایک تصویر ابھارتی ہیں جن میںمختلف معانی کے رنگ بھرے ہوتے ہیں۔ راشد انور راشد کو فطرت سے گہرا لگائو ہے۔  وہ کائنات کو اس کی اصل میں دیکھنے کے خواہاں  نظر آتے ہیں۔ دریائوں ،جنگلوں اور فطرت کے دیگر تمام مظاہرسے چھیڑ چھاڑ انہیں فکر مند کرتی ہے۔ وہ ماضی کی سادگی کو ایک کھوئی ہوئی نعمت تصور کرتے ہیں۔

یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ اکیسویں صدی کی نظم عصری آگہی اور بیداری کا ثبوت ہے۔ آج کا شاعر مشکل حالات سے دوچار ہونے کے باوجود ،مشکلات کا حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اسے لفظوں کو نئے پیرائے میں ڈھالنے اور معانی کی نئی دنیا خلق کرنے کا ہنر آتا ہے۔ اس کے اندرون میں غیر فطری تبدیلی، اور وحشیانہ رویوں کے خلاف بغاوت کا جذبہ موجود ہے۔وہ اپنی تخیلاتی دنیا بسانے کے بجائے حقیقت سے آنکھیں چار کرتا ہے اور نظموں کا تانا بانا انہیں حقائق سے بنتا ہے۔

حوالے

1        کلیات وحید اختر (نثر) مرتّب : سرور الہدی ، جلد دوم، ص140، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، سنہ2009

 2       نظم نظم،جمال اویسی، مطبوعہ:ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی،2004، ص209

 3       ایضاً، ص 160

 4       ایضاً،ص 59

 5       ایضاً،ص 68

 6       ایضاً، ص 106-107

 7       ایضاً،ص 90

 8       ایضاً، ص 208

 9       ایضاً، ص 210

 10     اندھیرے کی سر گوشیاں، عذرا عباس، مطبوعہ: سٹی پریس بک شاپ، کراچی،2016، ص45,46

11      ایضاً، ص188

 12     نظم نظم،جمال اویسی، مطبوعہ:ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی، 2004، ص109

 13     ایضاً، ص31

14      نظم یعنی،جینت پرمار، سخن کدہ، احمدآباد، گجرات، 2013،ص9

15      گیت سناتی ہے ہوا، راشد انور راشد، مطبوعہ: عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی،2015،ص134-35

 

Faizanul Haque

H-99 A, Second Floor, Babar Street

Muradi Road, Near Punjab ATM, Jamia Nagar

New Delhi- 110025

Mob.: 8800297878

faizanhaque631@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...