16/10/24

معذور بچوں کے لیے خصوصی نظام تعلیم، ماخذ: ہندوستان میں معذور بچوں کا نظام تعلیم، مصنف: محمدحفظ الرحمن، مترجم: فیض اللہ خان

 اردو دنیا، ستمبر 2024

یورپی ممالک میں اسپیشل ایجوکیشن کی فراہمی((Provision of Special Education in Europe

 قوت سماعت سے محروم بچوں کے لیے نظام تعلیم (Education of the Hearing impaired):  معذور بچوں کے لیے مخصوص تعلیم، سائنٹفک مطالعہ اور غیر معمولی بچوں کی تعلیم، کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کی شروعات تقریباً 1555میں ہوئی جب ہسپانوی راہب، پیڈرو پونس بی لیون (1520تا 1584) نے کچھ عزیز بچوں کو پڑھنا، لکھنا اور بولنا سکھایا، اور تعلیمی موضوع کا ماہر بنایا۔ ایک اور ہسپانوی، جان پابلو بونیٹ (1579تا 1629) نے 1620میں قوت سماعت سے محروم بچوں کی تعلیم کے لیے پہلی کتاب تحریر کی جس میں اپنے طریقہ کار بیان کیے ، جو شاید پونس ڈی لیون سے حاصل شدہ تھے، اور ایک سو دستی حروف تہجی کو ترتیب دیا جو آج کل استعمال ہو رہے ہیں اورحروف تہجی کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

انگلینڈ میں 1644میں جان بلورنے (1614تا 1684) قوت سماعت سے محروم کی تعلیم کے لیے انگریزی میں پہلی کتاب شائع کی۔ اس کے بعد 1680میں انگریزی میں شائع ہونے والی ابتدائی کتابوں میں سب سے اہم کتاب ڈاڈاسوپھولس (Didasopholus)، یا ڈیف اینڈ ڈمپ مینس ٹیوٹر جارج ڈال گارنو (1628تا 1687) کی آئی۔ مصنف نے دعویٰ کیا کہ قوت سماعت سے محروم کے اندر ان لوگوں کے مقابلے زیادہ سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے جو لوگ سن سکتے ہیں، اور ہدایاتی طریقے کی نشاندہی کی جس کا وسیع پیمانے پر اساتذہ استعمال کرتے ہیں۔

برطانیہ عظمیٰ میں قوت سماعت سے محروم کے لیے پہلے مستقل اسکول کا قیام 1767میں ایڈنبرگ میں تھومس بریڈووڈ (1715تا 1806) نے کیا۔ شروعات سے ہی بریڈووڈ کا اسکول کامیاب رہا، انھوں نے اسکول کو 1783میں لندن کے قریب ہیکنے منتقل کردیا تاکہ لندن علاقے کی بڑی آبادی سے طالب علموں کو لاسکے۔ بعد میں بریڈووڈ کے رشتے دار اور معاون جوسیف واٹسن (1765تا 1829) نے برطانیہ عظمیٰ میں قوت سماعت سے محروم غریب بچوں کے لیے لندن کے علاقے میں اسکول قائم کیا۔ بریڈووڈ کا طریقۂ تعلیم دستی اور زبانی دونوں تھا وہ اپنے طالب علموں کو دستی حروف تہجی اور علامات کے ساتھ ساتھ آرٹیکیولیشن کی تعلیم دیتے تھے۔

جرمنی میں ٹھیک اسی زمانے میں سمیول ہینک (1729تا 1784) ہدایت کی خالص زبانی طریقۂ کار کو ترویج دے رہے تھے، Lip readingاور بولنے کی مہارت کی ترویج پر زور دے رہے تھے۔ ہینس کا طریقہ، جسے مزید ترویج دی فریڈ رچ موریٹز ہل (1805 تا  1874) نے یہ زبانی طریقے کی بنیاد بنا اور پوری دنیا میں عملی طور پر قبول کیا گیا۔

فرانس میں ابے چارلس مائیکل ڈی آئی پی  Michacl DIP (1712-1789) اور ابے روچ ایمبوس سیکارڈ (1742تا 1822) اشاروں کی جدید زبان کو فروغ دے رہے تھے۔ (جیکب پیریری (1715-1790) کے شروعاتی کام پر محیط اشاراتی نظام کو مواصلات کے لیے عام حروف تہجی اور اشاروں کو تشکیل دیا گیا۔) فرانس کے نظام میں دیکھنے اور چھونے کے حواس کی تربیت پر زور دیا گیا، حسی تربیت Sensory Trainingمیں پیش رفت کی، جو دوسرے ملک میں مخصوص تعلیم کا لازمی حصہ بن گئی۔

متحدہ امریکہ میں قوت سماعت سے محروم کے لیے منظم تعلیم کی شروعات سے کارڈکے ذریعے تھومس ہوپکنس گیلوٹ (1787تا 1851) کی قوت سماعت سے محروم کی تعلیم میں فرانسیسی طریقے پرٹریننگ سے ہوئی۔ گیلوڈیٹ، جنھیں امریکہ میں بہروں کے لیے پہلا اسکول شروع کرنے کے لیے منتخب کیا گیا، وہ ہارٹ فورڈ ، کنکٹیکٹ لوٹے، سے کارڈ طریقے میں اچھی ٹریننگ کی اور ان کا ساتھ دیا۔ قوت سماعت سے محروم لوگوں کے ایک بہرے استاد لیورینٹ کلرک (1785تا 1869) جنھوں نے فرانس میں ملازمت کی۔1817 میں ان لوگوں نے امریکہ میں بہروں کے لیے پہلا اسکول قائم کیا، جو اب سماعت سے محروم کے لیے امریکی اسکول کہلاتا ہے۔ یہ امریکہ میں معذور بچوں کے لیے قائم ہونے والا پہلا تعلیمی ادارہ تھا۔اگلے سال سماعت سے معذور بچوں کے لیے نیویارک انسٹیٹیوشن قائم کیا گیا، اور 1863 تک پورے امریکہ میں سماعت سے معذور بچوں کے لیے 22 اسکول قائم ہوگئے۔ 1867میں امریکہ میں سماعت سے معذور بچوں کے لیے پہلا لسانی اسکول میسیچٹس میں کلرک اسکول اور نیویارک میں لیکزنگٹن اسکول قائم ہوا۔ گیلوٹ کالج، دنیا میں واحد لبرل آرٹس کالج، کا قیام 1864میں ہوا۔ امریکہ میں معذور بچوں کے لیے قائم ہونے والا پہلا اسکول سماعت سے معذور بچوں کے لیے بوسٹن میں 1869میں قائم ہوا۔ قوت سماعت سے محروم کے لیے تعلیم بالغاں کی شروعات نیویارک سٹی میں 1874میں ہوئی۔

امریکہ میں آگے چل کر سماعت سے معذور بچوں کے لیے ان خدمات کی ترقی کے لیے کئی مشہور وکلا کے ذریعے لامحدود امداد کے لیے مہم چلائی گئی، جن میں سب سے قابل ذکرنام الیکزنڈر گراہم بیل (1847تا 1922) کا ہے،ٹیلیفون کے موجد ، اور بہروں کی تعلیم کے لیے بے انتہا محنت کرنے والے رضاکار تھے اور ہیلن کیلر (1880تا 1957) جو بذات خود بچپن سے ہی بہری اور نابینا تھیں، وہ شدید معذوروں میں خاص تعلیمی طریقۂ کار کے موثر ہونے کی زندہ مثال تھیں۔

امریکہ اور دوسری جگہوں میں سماعت سے معذور بچوں کی خدمت ترقی تعلیم میں زبانی(اورل) اور ہدایات کے دستی طریقوں کی وکالت کرنے والوں کے بیچ تلخ اختلاف رہا، جس کے نتیجے میں عام مقاصد میں اجتماعی کوشش مفقود رہی۔ موجودہ سالوںمیں ان اختلافات کو بہت حد تک دور کیا گیا ہے، زیادہ تر پروگراموں میں دونوں طرح کے زبانی۔ دستی  (Oral-manual) طریقۂ مواصلات کو عام طور پر پورے مواصلات یا بیک وقت مواصلات کے طریقے میں ضم کر دیا گیا۔

نابینابچوں کے لیے نظام تعلیم (Education of the Visually Impaired): فرانس میں بصارت سے محروم افراد کی تعلیم کی ابتدا ایک فرانسیسی فل۔ آرتھوپیو لوجسٹ ویلنٹائن ہیوے (1745تا1822) سے ہوئی، انھوں نے1784 میں فرانس میں نوجوان نابیناؤں کے لیے قومی ادارہ قائم کیا۔ اسکول میں نابینا اور بینا دونوں طرح کے طلبہ کا داخلہ لیا تاکہ دونوں ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہ ہوں۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور اس کی کامیابی کے نتیجہ میں اگلے پندرہ سالوں کے دوران یوروپ میں ایسے ہی سات نئے اسکول وجود میں آئے۔ امریکہ میں نابینا لوگوں کے لیے پہلا اسکول، جو اب میسیچیسٹ کے واٹر ٹاؤن میں پارکنگ اسکول فار بلائنڈ،  (Parking School for Blind) کے نام سے مشہور ہے۔1829 میں قائم ہوا، سیمول گریڈلے (1801تا1876) اس کے پہلے ڈائرکٹر بنے۔ اس کے بعد تیزی سے نابیناؤں کے لیے رہائشی اسکول کا فروغ ہوا، جہاں جلد ہی کم بصارت والے بچوں کا بھی داخلہ لینے لگے۔ یہ رہائشی اسکول ملک میں صرف نابینا کو تعلیمی خدمت فراہم کرتے رہے یہاں تک کہ پبلک اسکولوں میں مخصوص کلاس شروع ہوئی ، ایک تحریک جس کی شروعات شکاگو میں 1990 میں نابینا کے لیے خاص کلاس کے تشکیل دینے سے ہوئی۔ کم دیکھنے والوں کے لیے پہلی مخصوص کلاس 13 سال بعد بوسٹن میں شروع ہوئی۔

نابینا طلبہ کی تعلیم کے لیے سب سے اہم طرف تدریس کو فروغ دینا تھا۔ ہیوے نے ابھرے ہوئے (کندہ) حروف ، جو انگلیوں سے چھو کر پڑھے جاسکتے ہوں،  کے نظام کو ترقی دی اور اسی نظام کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے نابینا کے لیے پہلی کتاب شائع کی۔ ابھرے ہوئے حروف کو پڑھنا زیادہ مشکل ثابت ہوا، بہر کیف لوئیس بریل (1809تا1852) جو پیدائشی نابینا اور ہیوے کے شاگردوں میں سے ایک تھے، انھوں نے پڑھنے کے اصول کو فروغ دیا، آج وہی طریقہ عالمی سطح پر مشہور ومعروف ہے۔ اس اصول میں ابھرے ڈاٹ کو حروف تہجی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی سالوں تک سبھی بریل مواد کو ہاتھ سے انفرادی طور پر تیار کیا گیا۔ بڑے پیمانے پر بریل مواد  (Braille Material) کی توسیع فرینک ایچ ہال 1843-1911 کے ذریعے ایک بریل ٹائپ رائٹر 1892اور بریل پرنٹنگ سسٹم 1893کی دستیابی سے ہوئی۔ 1932 بین الاقوامی معاہدے کے ایک کوڈ میں معیاری مانا گیا ، جو اب اسٹنڈرڈ انگلش گریڈ ٹو کہلاتا ہے۔

ذہنی طور پر معذور بچوں کا نظام تعلیم (Education of the Mentally Retarded):  ذہنی طور پر معذور بچے کی تعلیم کی شروعات فرانسیسی ڈاکٹر جین مارک گیسپارڈ ایٹارڈ (1775تا1838) نے ایک گیارہ سال کے بچے کے پڑھانے سے کی جو انھیں وحشی حالات میں زندہ ملا۔ لڑکے کو پڑھانے اور تربیت یافتہ بنانے کی ایٹارڈ کی کوشش صرف ایک حد تک ہی کامیاب رہی، ظاہراً کیونکہ بچہ ذہنی طور پر معذور تھا۔ ایٹارڈ نے اپنے طریقہ تدریس و کتابی شکل دی۔ دی وائلڈ بوائے آف ایوریون 1801  میں جو تعلیمی ہدایات انھوں نے بیان کیں وہ تقریباً ایک صدی تک ذہنی طور پر معذوروں کی تعلیمی ترقی کے لیے بنیادی وسیلہ ثابت ہوئیں، ان میں سب سے قابل ذکرہیںفرانس اور امریکہ میں ایڈوارڈ سیگن 1812تا1880اور اٹلی میں ماریہ منٹیسوری 1870تا1952، سیگن نے اپنی مشہور کتاب آئیڈیوسی اینڈ ایٹس ٹریٹمینٹ بائی سائیکا لوجیکل میتھڈ، اشاعت 1866، میںسبھی بچوں کے لیے کئی خیالات بیان کیے ہیں انفرادی ہدایات، بچے کی موجودہ کام کرنے کی استطاعت کے موافق ہدایات اور استاد و شاگرد کے مابین تعلقات کی اہمیت۔ ان خیالات اور سیگن کی حساس تربیت کی کوشش کو بارہویں صدی میں مشہور منٹیسوری میتھڈ میں شامل کیا گیا، جو پوری دنیا میں معذور اور غیر معذور دونوں طرح کے بچوں کی تعلیم میں استعمال ہونے لگا۔ بیلجیم میں اووائڈ ڈیکورلی (1871 تا 1932) نے بیسویں صدی کی شروعات میںذہنی طور پر معذور بچوں کے لیے ایک بہترین نصاب تیار کیا، اورایسا اسکول قائم کیا جس نے پورے یوروپ میں مثالی ادارے کی شکل اختیار کرلی۔ الفرٹ بینٹ (1857 تا 1991)۔ جوکہ پیرس میں عوامی اسکول میں کام کرتے ہوئے ، انٹلی جینس ٹیسٹنگ ایجاد کرکے ایک بڑا تعاون پیش کیا، انھوں نے 1950 میں پہلی بار مخصوص تعلیمی خدمات کے لیے طالب علم کو منتخب کرنے کا آلہ دیا۔

دماغی طور پر مفلوج بچوں کے لیے عوامی اسکول میں خصوصی درسگاہ کا نظام جرمنی میں 1859 میں قائم ہوا، اور آئندہ ایسی کئی درسگاہیں حالانکہ کم ہی تعداد میں قائم ہوئیں۔ ہدایتی مواد۔ دوسرا طبقہ جس کا مقصد مختلف اقسام کی میدانی خدمت ، منتخب کرکے اساتذہ کی تربیت، تشخیص، اور ہدایتی ذرائع اور مواد، سرگرمیوں میں ہم آہنگی جو قائم ہوچکی ہیں اور خصوصی معلم اور ان کے طالب علم کی خدمت فراہم کرنے میں بہتری لانا اور ریاست کے تعلیمی شعبوں کو تکنیکی تعاون دینا تاکہ پورے ریاستی ادارے کو پہنچنے والے تعاون کو یقینی بنایا جاسکے۔ بالآخر،تمام مراکز اسپیشل ایجوکیشن کے متعلق موجودہ تحقیق، طریقہ اور مواد کے بارے معلومات کے فراہم کرنے اورمنظم طریقہ تیار کرنے میں لگ گئے۔

ایک بڑے پیمانے پر سروس نیٹ ورک کو شروع کرنے کے لیے SEIMC,Sسے ملی وفاقی مالی امداد صرف ایک ابتدائی رقم تھی یہ ایک عہد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اداروں کا ایک سروے جو 1973 میں ہوا (تراہن، 1973) سے معلوم ہو ا کہ دو تہائی سے زیادہ اداروں کو وفاقی تعاون کے علاوہ ریاستی اور علاقائی تعاون حاصل ہے۔ SEIMC,Sکے تعاون کے ختم ہونے کے باوجود مسلسل تعاون ملنے کا،یہ ایک عہد کی طرف اشارہ کرتاہے۔ قارئین مزید جانکاری کے لیے اپنے ریاستی دفتروں میں رابطہ کرنے کی ہمت کرسکتے ہیں۔

ہندوستان میں اسپیشل ایجوکیشن کا فروغ (Development of Special Education in India):  یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادی (1947)سے پہلے مخصوص بچوں کی تعلیم کو پورے طور پر نظرانداز کیا گیا تھا۔ (نابینا کی کچھ درسگاہوں کو چھوڑ کر)۔ اس طرح کے بچوں کی تعلیم کے بارے میں کبھی خیال نہیں کیا گیا، معاشرے کا عام رجحان، زیادہ تر دماغی طور پر معذور اور جسمانی طور پر مفلوج کے بارے میں نفرت اور ترس کھانے والا تھا۔ یہ اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے جاتے تھے۔ لیکن جب ہندوستان آزاد ہوا اور جمہوری حکومت کا قیام ہوا۔ مرکز اور ریاستوں میں قومی سرکار کا قیام عمل میں آیا، تب قومی رہنماؤں نے مخصوص بچوں کوتعلیم حاصل کرنے کے مواقع دینے کے بارے میں سوچا، جنھیں معاشرے میں پہلے نظرانداز کیا گیا تھا۔

تعلیمی مرکزی مشاورتی بورڈکو 1941 میں پھر خود سے اس اہم مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار بورڈ نے اس اہم سوال پر غور کرنے کے لیے چودہ رکنی کمیٹی تشکیل کی۔ کمیٹی نے نومبر 1941 میں یونیفارم کوڈ سے متعلق بنیادی ہدایات طے کرنے کے لیے ملاقات کی۔ انھوں نے صحیح کوڈ تیار کرنے کے لیے چھوٹی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ لیا۔

متوقع کمیٹی غیر متعصبانہ طور پر یکساں ضابطے پر دھیان رکھے، ہمایوں کبیر تب کے بھارت سرکار کے جوائنٹ سیکریٹری تھے، انھوں نے23 اپریل 1949 میں یونیسکو سے درخواست کی کہ اس کی اس طرح کی خدمت کو آگے بڑھانے کے لیے پسندیدہ اور سائنسی حل تلاش کرنے میں تعاون کریں۔ جس مسئلے سے ہندوستان ایک زمانے سے دوچار ہورہا ہے۔ واضح طور پر خصوصی اسکول کے قیام پر زور دیا گیا۔ تحقیق سے یہ بات عیاں ہے کہ مخصوص بچوں کے لیے تقریباً تمام رہائشی اسکول کا قیام مرکزی حکومت نے ملک کی آزادی کے بعد کیا۔ رضاکارانہ تنظیمیں اس دوڑ میں تیزی سے آئیں اور کئی نے اس میدان میں شاندار نمونہ پیش کیا۔نتیجتاً خصوصی اسکولوںکی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ساٹھ کی دہائی میں ان کی تعداد 115 تک ہوگئی۔(کوٹھاری کمیشن رپورٹ 1964تا1966) گردونواح میں ان اسکولوں کی طرح کے اسکول کی تعداد1988 میں لگ بھگ 200 تک پہنچ گئی۔

قابل ذکر بات یہ کہ (1988) سالوں میں قائم ہونے والے اسکولوں نے اپنے تعلیمی نصاب کے لیے صوتی تدریجی طریقہ اپنایا اور اضافی سرگرمیوں کو پیش کرتے وقت سماجی اقتصادی رابطہ کو نظر میں رکھا۔ واضح مقصد تھا ایسے طالب علم کو تیار کرنا جو سماجی طورپر کار آمد اور اقتصادی اعتبار سے سماج کا پیداواری رکن ہو۔

چنانچہ،ایک قابل قدر ترقی کی نشاندہی کی گئی۔ یہ اسکول ہندوستان کی موجودہ سماجی واقتصادیات کے فطری نتیجے ہیں۔ سیاسی اور ثقافتی شخصیات نے بھی بڑے پیمانے پر کامیابی کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ سال 1974میں مرکزی وزارت برائے سماجی فلاح وبہبود نے معذوروں کی مربوط تعلیم کے مقصد سے ایک منصوبہ تیار کیا اور اس منصوبے پر عمل درآمد کی ذمے دار ی وزارت تعلیم کو 1982 میں سونپی گئی، جس نے اس ذمے داری اور ضروری پلان آف ایکشن کی ذمے داری این سی ای آرٹی کو دی۔ اس منصوبے پر 1987 میں قومی تعلیمی منصوبہ 1986کی روشنی میں نظرثانی کی گئی۔ منصوبے سے فائدہ اٹھانے والے معذور بچوں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ جب کہ یہ مانا جا رہا تھا کہ اس کی طرف رجحان کا تناسب زیادہ ہوگا کیونکہ موجودہ وقت میں این سی ای آرٹی اور دوسری ایجنسیاں اس پر کام کرنے لگی تھیں۔

اسی مرحلے میں مخصوص بچوں کی تعلیم سے متعلق بیداری کے سلسلے میں ذمے دار افراد کے بیچ مہم چلائی گئی اور اس کے نتیجے میں کئی کارآمد کام کیے گئے۔ سیموئیل گریڈی، ہووے معذور طالب علموں کے تمام اسکولوں میں داخلے کی حمایت میں کافی پرجوش تھے اور وہ خصوصی اسکول کو غیر فطری سمجھتے تھے۔

ہمارے ملک میں مرکزی وزارت تعلیم نے آرسی ایس بی کے تعاون سے معذور بچوں کی مربوط تعلیم کے لیے ابتدائی کوشش کے طور پر ایک منصوبہ سازی کی۔ لیکن شدید طور پرمعذور بچوںکے معاملے میں اسپیشل اسکول کی سفارش کی گئی۔

دماغی طور پر معذوروں کے لیے ملک بھر میں 286 مراکز چلائے جارہے ہیں، جن میں 61 کرناٹک میں، 51 مہاراشٹر میں، اور 36 کیرالہ میں ہیں۔ اس میدان میں کام کرنے والی رضاکارانہ تنظیم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹلی ہینڈی کیپڈ (این آئی ایم ایچ) سکندرآباد کے سروے کے مطابق پچھلی دہائی میں 65 مراکز کے مقابلے میں 1977تا1986 کے دوران ملک میں ایک سو چونسٹھ(164) نئے مراکز قائم کیے  گئے۔

موجودہ وقت میں ملک میں سماعت سے محروم کے لیے 280 اسکول ہیں، جن میں 28000 طلبا ہیں، سب سے پہلا اسکول 1885 میں قائم کیا گیا تھا۔ زیادہ تر خصوصی اسکولوں میں ثانوی درجے تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کچھ ایسے اسکول ہیں جہاں تھوڑی بہت قوت سماعت رکھنے والے بچوں کو اعلیٰ درجے تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔

بینائی سے محروم کے لیے 200 اسکولوں میں 15000 طلبا زیر تعلیم ہیں۔ ابتدائی مراحل میں معذور بچوں کا شرح اندراج ابھی 70فیصد ہے۔ جو پچھلی چار دہائی میں معذوروں کی تعلیم کو پورے طور سے نظر انداز کیے جانے کی عکاسی کرتا ہے۔

 

ماخذ: ہندوستان میں معذور بچوں کا  نظام تعلیم، مصنف: محمدحفظ الرحمن، مترجم: فیض اللہ خان، پہلی اشاعت: 2022، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...