16/10/24

میر ستم کشتہ، مضمون نگار: ف س اعجاز

 اردو دنیا، ستمبر 2024

اردو کی ساخت و پرداخت پر اثر انداز ہونے والے  میر تقی میر کی پیدائش فروری 1723 میں اکبر آباد (آگرہ) میں ہوئی اور وفات20 ستمبر 1810 کو لکھنؤ میں ہوئی۔ ان کے نمایاں کام فیضِ میر، ذکرِ میر، نکات الشعرا، کلّیاتِ فارسی اور کلّیاتِ میر ہیں۔ ساٹھ سال کی عمر میں وہ دہلی سے لکھنؤ منتقل ہوئے۔ لیکن دلّی ان کے کمالات کی جگہ تھی۔ 20 شعبان 1225ھ بہ روز 1810 شنبہ دنیا سے کوچ فرمایا۔21شعبان کو لکھنؤ میںاکھاڑہ بھیم کے قبرستان میں دفنائے گے۔

میر خدائے سخن کہلاتے ہیں۔ وہ شاعری کوکامل فن کا رتبہ  دیتے تھے۔ تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار اشعار کہے اور اپنے کلام میں کہیںگرہ پڑنے نہیں دی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بڑے تنقیدی شعور والے شاعر تھے اور خود اپنے سخن کے بارے میں بڑی اونچی رائے رکھتے تھے۔ ان کے کلام میں فارسی الفاظ ریختہ میں اس خوبصورتی سے کھپ گئے ہیں کہ ان سے ایک نیا اسلوب تیار ہوتا ہے جس میں اْن کے اشعار کی طرفیں آپ کھلتی ہیں۔ شعر سادہ ہی رہتاہے جب کہ مفہوم میں گیرائی اور ندرت پیدا ہوتی ہے۔ ان کی غزلوںاور مثنویوں میں عشق کے جذبات ، سوز و گداز ، رنج والم، معاملہ بندی، سماجی عوامل کے اثرات نظر آتے ہیں اور ان کے ذاتی اور سماجی غموں کی چبھن محسوس کی جاتی ہے۔ فن شناس جانتے ہیں کہ المناکی کی تکمیل جب فن میں ہوتی ہے تو جنون اکہر ا نہیں ہوتا، اس کے نشاطی اجزا بھی ابھر آتے ہیں۔ وہ بھی اس طرح کہ شاعر، ان میں اضطراب و تسکین ایک ساتھ پاتا ہے۔ میر کے نکات الشعرا نے  اس نکتے کو ابھارا ہے کہ شاعری کو صرف گْل و بلبل کے افسانوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ یہ شعر دیکھیں         ؎

اِس پردے میں غمِ دل کہتا ہے میر اپنا

کیا شعر و شاعری ہے یارو شعارِ عاشق

کچھ شعر نقل کرتا ہوں جن سے اندازہ ہوگا کہ میر کا اپنے سخن کا تخمینہ کیا تھا      ؎

زلف سا پیچیدار ہر شعر

ہے سخن میر کا عجب ڈھب کا

میر شاعر بھی زور تھا کوئی

دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب

حسن تو ہے ہی کرو لطفِ زباں بھی پیدا

میر کو دیکھو کہ سب لوگ بھلا کہتے ہیں

شعر میرے ہیں سب خواص پسند

پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

سمجھے اندازِ شعر کو میرے

میر کا سا اگر کمال رکھے

کلامِ میر کے اعتراف میںذوق نے کہا ہے       ؎

 نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب

ذوق لوگوں نے بہت زور غزل میںمارا

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میر کی شاعری کے بارے میں ان کے وقت کے شعرا کیا رائے رکھتے تھے اور خود ان کااپنی شاعری کے بارے میں کیا گمان تھا۔ میر کی زندگی کا ڈھب نرالا تھا۔ وہ ابتدائے زندگی سے آخرتک وقفے وقفے سے آلام کا سامنا کرتے رہے۔ اس سلسلے کا آغازان کے والد محمد علی متقّی کے انتقال کے بعد سے ہی ہوا۔ تب  میرتقریباً 11 برس کے تھے۔ والد کے پاس نہ کوئی پیشہ تھا نہ کسی قسم کی جائداد یا اثاثہ جس سے میر ان کے قرض خواہوںکا قرض ادا کرتے۔ وہ بازار کے بنیوں کے تین سوروپے کے مقروض تھے۔ تصور کیا جاسکتاہے کہ تب ایک لاوارث مفلس بچہ کن مشکلات کا شکار ہوا ہوگا۔ قرض خواہوںکے تقاضے، سوتیلے بڑے بھائی محمد حسن کی بے اعتنائی نے میر کو تنہائی اور علیحدگی کا عادی بنادیا۔ مگر ان کی غیرت نے انھیں کسی کے آگے جھکنے نہیںدیا۔ خدا نے مدد پہنچائی۔ میر نے اپنے چھوٹے بھائی کوگھرداری کے امور کا متکفّل کیا اور خود تلاشِ معاش کی تدبیر شروع کردی۔

جب میر سترہ اٹھارہ برس کے ہوئے تو انھیںایک عشق ہوا جوناکام رہا۔ اس پر انھیں وہ شدید صدمہ ہوا کہ ان کا دماغی توازن بگڑ گیا۔ رفتہ رفتہ بحال ہوئے لیکن وحشت اور دیوانگی کے اثرات برقرار رہے۔ ایک عرصے تک دلّی میں ان کی حرکاتِ مجنونانہ کی دھوم رہی۔

نقوش کے میر نمبر میں حسن واصف عثمانی اپنے مضمون ’میر اپنے تاریخی پس منظرمیں ‘ میر کے شخصی حالات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے صوفی ہوجانے کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ کمسنی میںمیر کے افلاس اور یتیمی کے احساس نے ان کی زندگی کٹھن بنادی تھی اور پھرنوجوانی میں ایک معشوقِ پری تمثال کے ساتھ ملن کی آرزو نے جس سے ان پر جنون طاری ہوگیا یا وہ ایک خاص ذہنی سانچے میں ڈھل گئے۔ عثمانی لکھتے ہیں کہ میر جس طبقے سے تعلق رکھتے تھے اس کے افراد مغل سلطنت کی انتظامیہ مشین، امیروں، صوبہ داروں اور درباروں سے قلم یا تلوار کے ذریعہ وابستہ تھے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں کہ ’’وہ طبقہ دربار کی سازشوں اور بالا دستی کا خاموش تماشائی تھا۔ اس کو صرف اتنی خواہش تھی کہ زندگی میں اتنا سکون رہے جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے‘‘۔ عثمانی آگے چل کر لکھتے ہیں:

’’ اس متوسط طبقے کوا س سے سخت صدمہ اور دھکّا 1729میں پہنچا جب نادرشاہ نے حملہ کرکے محمد شاہ رنگیلے کی سلطنت کو بے دم کردیا اور دہلی میں قتلِ عام کیا۔ نادرشاہ نے مغل سلطنت کے تابو ت میں آخری کیلیں ٹھونکنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کوموت کی طرف ڈھکیل دیا جو مغلوں کے زیر سایہ زندگی کی درمیانی سطح پر جی رہے تھے۔ ہندوستانی گروہ کے ساتھ سماج کے دانشور طبقے کا شیرازہ بکھرگیا اور تلواریں ٹوٹ گئیں تو قلم بھی بیکارہوگئے۔

’’میر کی عمر نادر شاہی حملے کے وقت نوجوانی کی تھی۔ دہلی پر دوسرا حملہ 1790 میں ابدالی نے کیا تووہ اچھے خاصے پختہ عمر کے آدمی تھے۔ اس کے بعد انھوں نے پانی پت کی تیسری جنگ دیکھی اور آخر کار روزگار کی گردش ان کو ساٹھ سال کی عمر میںلکھنؤ لے آئی جہاں آکر وہ خوش نہیںرہے۔ دہلی ان کو برابر یاد آتی تھی...

’’لکھنؤ میں تیس سال تک معاشی اطمینان کی زندگی بسر کرنے کے باوجود لکھنؤ سے ان کی الجھن اور نفرت بے سبب نہیں تھی۔ یہ شہر میر صاحب کے طبقے اور روایات سے الگ تھا۔ وہ اس دہلی کے تھے جو مٹ چکی تھی اوروہاں کے اس طبقے سے تھے جس کومٹانے والے لکھنؤ اور حیدرآباد کے عروج کا سبب بنے۔ لکھنؤ ایرانی گروہ کا ایک ذیلی مرکز تھا اور حیدرابادتو رانی گروہ کا۔ میر صاحب کی طبعِ افتاد دونوں سے دور تھی۔ وہ اس ہندوستانی گروہ کے آدمی تھے جس کا خاتمہ پانی پت کی چوتھی لڑائی میںہوگیا تھا۔  (ص160 تا 161، میر نمبر نقوش)

ان حالات  میں میر بے چین رہاکرتے تھے۔ ایک تو فنِ شعر میںیہ خاص بات ہے کہ لوگ رشک یاحسد سے خوش گو کے دشمن ہو جایا کرتے ہیں۔ اس پر جب اس کی طرف سے کوئی خاص مظاہرہ ہوتو مخالفت دوگنی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اس شہرت کا اثریہ ہوا کہ میر صاحب کے بدخواہوں کی تعداد بڑھ گئی۔ ہمعصروں کی مخالفت اور دہلی کی تباہی وبربادی اور معیشت کی فکر نے نہ صرف میر کو دل برداشتہ کیا بلکہ انھیں گوشہ نشین سابنادیا تھا۔ یہ شعر دیکھیں           ؎

میر صاحب کو دیکھیے جو بنے

اب بہت گھر سے کم نکلتے ہیں

میر جب1190ھ ،(1781) میں دہلی سے لکھنؤ پہنچے تو پہلے ہی وہاں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ وہاں وہ مختلف درباروں سے وابستہ ہوتے رہے۔ نواب صمصام الدولہ ، رعایت خاں، راجہ جگل کشور، مہاراجہ ناگرمل، سورج مل جاٹ اورنواب آصف الدولہ سب نے میر کی اناپرستی کے باوجود ان کی پذیرائی کی۔ آصف الدولہ کی طرف سے تین سوروپے ماہوار ان کی تنخواہ مقرر کی گئی۔ اتنی بڑی رقم غالب کو دہلی اور رام پور سے نہ ملتی تھی۔ ذوق کو بھی دربار سے محض چار روپے مہینہ وظیفہ ملتا تھا جو بڑھتے بڑھتے سوروپے تک جا پہنچا۔ چنانچہ لکھنؤ نے میر کی قدر دانی میں کمی نہیں کی۔لیکن میر کی نظروں میں لکھنؤ کے نوابین کی دلّی کے شاہوں کے مقابلے میںعلم وفن پر دسترس کم تھی اور تیس سال تک لکھنؤ میں معاشی اطمینان کی زندگی بسرکرنے کے باوجوداس شہر سے میر کی وہ سیری نہیںہوتی تھی جو دلی میںہوتی تھی۔آصف الدولہ کی نوازشات سے معاشی سیریابی کے باوجود اس کا غیر فن کارانہ شناس مزاج میر کے حسب خواہ نہ تھا۔ چنانچہ میر فرماتے ہیں          ؎

جواہر تو کیا کیا دکھایا گیا

خریدار لیکن نہ پایا گیا

متاعِ ہنر پھیر کرلے چلو

بہت لکھنؤ میں رہے گھر چلو

اور        ؎

خرابہ دلّی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا

وہیں میںکاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں

صاف ظاہر ہے کہ لکھنؤ میںمیر کو ایک سْبکی اور زیاں کا احساس ہوتاتھا۔اس لیے لکھنؤ کے درباروں میں اپنی قدر دانی کے باوجود وہ برابر دلّی کویاد کرتے تھے جو گویا ان کاشہرِ اثبات تھا۔ یہ شعر دیکھیں       ؎

ہفت اقلیم ہر گلی ہے کہیں

دلّی سے بھی دیار ہوتے ہیں

دلّی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے   

جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

خاکِ دہلی سے جدا ہم کو کیا یکبار گی

آسماں کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار

بہرحال اسّی نوے برس کی عمر میں لکھنؤ میںباشندگی کے غموں کے درمیان اپنی شاعری کی عظمت کا احساس میر کے لیے باعثِ فخر تھا۔ سخن میں خدائی اور ریختہ میں امتیازی سربلندی انھیں رنج وغم بھلانے کو کافی تھی۔ سچ تویہ ہے کہ شاعری ان کی جائے انا تھی جس کے اندر انھیں ایک طمانیت بخش پناہ کا احساس ہوتا تھا۔ کہتے ہیں          ؎

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا

مستند ہے  میرا  فرمایا ہوا

اسی بھرم میں وہ اپنی معیشت کی طرف سے بے فکر رہا کرتے تھے۔ عشق کی چوٹ کھایاہوا ان کا دل صوفیانہ روش میں سکون پالیتا تھا۔

بہرحال لکھنؤ میں میر ایک معتدل شریفانہ زندگی بسر کررہے تھے۔ شعروسخن میںبھی برابر حصہ لیتے تھے کہ ان پر آسمان نے ستم ڈھانا شروع کردیا۔ ایک سال ان کی لڑکی کا انتقال ہوا، دوسرے سال میں ایک لڑکا چل بسا۔ تیسرے سال میں ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ مسلسل تین صدمات نے انھیں توڑ کر رکھ دیا اوروہ گوشہ نشین ہوگئے۔ مشاعروں اورمحفلوں میں شرکت بند کردی۔ تنہائی پسند ہوگئے۔ شعر کہنا بھی کم کردیا۔ حالات نے ان کے مزاج پر جواثر کیا وہ ان اشعار سے ظاہر ہے        ؎

بس بہت وقت کیا شعر کے فن میں ضائع

میر اب پیر ہوئے ترکِ خیالات کرد

بہت ہرزہ گوئی کی یاں میر صاحب

کروواں کے کچھ منہ دکھانے کی باتیں

میر ایک خاص طبیعت کے آدمی تھے۔ ان کے کئی معاصرین نے انھیں تنک مزاج اور مغرور لکھا ہے۔ ان کی اس طبیعت کا پتہ خودان کے کلام سے بھی چلتاہے۔ یہ شعر دیکھیں          ؎

ہے نام مجلسوں میں مِرا میر بے دماغ

از بسکہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار

بعض اشعار میں انھوں نے خود کو دماغ جلا، نازک مزاج، ٹیڑھی چال روکھی بات والا کہا ہے۔میر کو امیر وغریب، شاہ وگداسب کا قرب حاصل تھا۔ پھر بھی ان کا خیال تھا ان کے کمال کی صحیح داد نہیںدی جاتی۔ رسمی داد کو وہ خاطر میںنہ لاتے تھے۔ انھوںنے نظم ’اژدرنامہ‘ لکھی جس میں معاصر شعرا کو چھوٹے چھوٹے سانپوں سنپو لیوں اور دوسرے کیڑوں مکوڑوں سے تشبیہ دی اوران کے مقابل خود کو اژدہا بتایا۔ ظاہر ہے معاصرین میں اس کا ناخوش گوار ردّعمل ہی ہونا تھا۔ اپنی خودداری کے سامنے وہ بڑی سے بڑی دولت کو ٹھکرادیا کرتے تھے۔ اپنی شان کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ ذکر میر میںلکھے ایسے واقعات سے ان کے مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔ عبدالباری آسی نفوش کے میر نمبر میں ص 33 پر لکھتے ہیں:

’’ وہ ہر افتاد کو مردانہ وار برداشت کرتے تھے۔ فقرو فاقہ میںبسر کرتے تھے مگرکسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ان کے لیے انتہائی مشکل کا سامنا تھا۔ ان کا لباس ان کی قطع وضع سپاہیانہ تھی مگرجیسے جیسے ان کا سن بڑھتا گیا ویسے ہی دنیا سے نفرت بڑھتی رہی... ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا کہ وہ متکبّر تھے، یک طرفہ فیصلہ ہے ۔‘‘

میر کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ قنوطیت پسند واقع ہوئے تھے۔ ڈاکٹر سلامت اللہ خان اپنے مضمون ’کیا میر قنوطی تھے؟‘ ’مشمولہ میر نمبر نقوش‘ (ص427-28) میں کہتے ہیں:

’’قنوطیت صرف نقطۂ نظر نہیں ہے۔ وہ فلسفۂ زندگی ہے اور قنوطی ہم اس شاعر کو کہہ سکتے ہیں جو زندگی کی اعلیٰ قدروں سے مایوس ہوچکا ہوجس میںجدوجہد کا حوصلہ نہ ہو اورجس کی ذہنیت زندگی کے ہر معاملہ میں شکست خوردہ ہو۔ ان معنوں میں میر کو قنوطی کہنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ میر کی شاعری میں جس غم کا اظہار ملتا ہے وہ ذاتی ہے اور محبت کی ناکامیوں اور محرومیوں کے احساس سے پیدا ہوتا ہے یا غمِ روزگار سے... اگر میرنے زمانے کا نشیب و فراز نہ دیکھا ہوتا اور اسے محسوس نہ کیا ہوتا یہ ممکن تھا کہ وہ اپنے ذاتی غم میں الجھ کر رہ جاتے اور ادنیٰ غزل گو شعراکی طرح تمام عمر اپنی زندگی کی ناکامیوں کا رونا روتے رہتے... لیکن ایسا نہیں ہوا اور تمام باتوں کے باوجود ان کی وسعتِ نظر قائم رہی...میر زندگی سے کبھی مایوس نہیں ہوئے ۔‘‘

سلامت اللہ خان نے معقول بات کہی۔ جو شاعر کہتا ہو ’تمام عمر میںناکامیوں سے کام لیا‘، اِس سے خود پر اْس کا اعتماد ظاہر ہوتاہے۔ایک سخت جان کو قنوطی نہیں کہاجاسکتا۔ انھوں نے خود کو باکمال کہا ہے او ر ایسے ایسے اشعار کہے ہیں           ؎

یہ چھیڑ دیکھ، ہنس کے رخِ زرد پر مرے

کہتا ہے میر رنگ تو اب کچھ نکھر چلا ہے

 

ظالم یہ کیا نکالی  رفتار رفتہ رفتہ

اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ

 

پھر میر آج مسجدِ جامع کے تھے امام

داغِ شراب دھوتے تھے کل جانماز کا

میر کی ذات میں فراریت کا پہلو نہیں ملتا باوجودیکہ وہ ایک ستم کشتہ انسان تھے۔ وہ بھی اس قسم کے شاعرپیشہ جس کے پاس اظہار کی اپنی قدرت اوراپنے طریقے تھے۔ درج ذیل اشعار ان کی ناکامی کی خلش کی طرف تو اشارہ کرتے ہیں قنوطیت کی طرف نہیں         ؎

اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا

دیکھا اِس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

یاں کے سپید و سیاہ میں ہم کو دخل جوہے سو اِتناہے

رات کو رو رو صبح کیا اور صبح کو جوں توں شام کیا

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھینچا دیر میں  بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

نامرادانہ زیست کرتا تھا

میر کا طور یاد ہے ہم کو

بغور دیکھاجائے تو میرِ ستم کشتہ نے جو ذاتی، سماجی اور تمدّنی صدمات سہے انھوں نے اسے زندہ دل بنادیا۔ غالب کہتے ہیں ’مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں‘‘۔ یہاں بھی دیکھیے، کہ شاعر اپنے غموں سے بہل جاتا ہے۔ یہ اگر قنوطیت ہے تو کیا فن کارانہ ہے!۔ میر فرماتے ہیں        ؎

رہِ مرگ سے کیوں ڈراتے ہیںلوگ

بہت اس طرف کو توجاتے ہیں لوگ

چنانچہ غمِ دل، یا غم روزگار کاردِّعمل بجھی بجھی ، مند مند کیفیات یا واسوخت کی علامت تو ہوسکتا ہے اسے زندگی سے فرار نہیں کہا جاسکتا۔ ’’مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی ‘‘کہنے والے  کئی شاعر ہیں، ان میںغالب بھی ہیں۔ لیکن کیا اسے فرار یت یاقنوطیت کہا جائے؟ آدمی کے جذبات اور ذہنی محسوسات بدلتے رہتے ہیں۔ ہر دوکیفیتیں کسی تضاد اور کشمکش کا نمونہ ہوسکتی ہیں جس کا تجزیہ بھی الگ الگ دماغ اور الگ الگ زاویے سے ممکن ہے۔کسی کو میر کی شاعری شور انگیز معلوم ہوسکتی ہے تو کسی کو یہی شور انگیز ی سکون بخش نظر آتی ہے۔ موت اور فنا کے تعلق سے میر کے اکثراشعار میں تصوف کا پہلو نظر آتا ہے جس کی توجیہ کسی حیاتیاتی (Biological) نظریہ سے نہیں کی جاسکتی۔ اسے تصوف کی آنکھ سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ اشعار        ؎

موت اک ماندگی کا وقفہ ہے

یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

 

موت کیا منزلِ مراد ہے میر

یہ بھی اک دل کا ہی توقّف ہے

ایک ہی چیز کے بارے میں الگ وقتوں میں الگ تاثر کا شعرقاری کی رائے اورمزہ بدل دیتا ہے۔کہتے ہیں           ؎

لذّت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا

کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزاجانا

یہ ارشاد نہ صرف تصوف کے رجحان کی بدولت ہے بلکہ صنفِ غزل کی لامحدود ہئیتی اور اسلوبیاتی وسعت کے باعث ہے جس سے نئے موضوعات اور مضامین جنم لیتے ہیں۔ جو میر کی غزلوں میں آکر ان کے ریختے کی اپج اور اس پر ان کے ناز کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ اس زاویے سے یہ اشعار دیکھیں         ؎

سرسبزہند ہی میں نہیں کچھ یہ ریختہ

ہے دھوم میرے شعر کی سارے دکن کے بیچ

ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کرو

چاہیے اہلِ سخن میر کو استاد کریں

ریختہ کا ہے کو تھا اس رتبۂ اعلیٰ میںمیر

جو زمیں نکلی اسے تا آسماں میں لے گیا

گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر

یہ ہماری زبان ہے پیارے

ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے

معتقد کون نہیں میر کی استادی کا

پڑھتے پھریں گے گلیوں میںان ریختوں کولوگ

مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

میر کے ذاتی اورسماجی سروکاروں نے ان کاجو ذہن تیار کیا اسے ان کے وقت کے اور ذاتی تجربات میں دیکھنا چاہیے۔ ان کی غزلوں اور مثنویوںکے اندر سادگی اور سلاست کو سمجھنا اور پرکھنا مشکل کام ہے۔ کلام میر میں الفاظ کی ندرت، بحروں کاانتخاب، ردیفوں اور قافیوں کا استعمال ایک بے مثال آہنگ اور ترنّم کو جگاتا ہے۔ چھوٹی بحریں تو میر کے ہاتھ میں بڑی جاگیرکی طرح تھیں جہاں انھوں نے کرشمے دکھائے ہیں۔ سا،سی اور ٹک جیسے دو حرفی لفظوںسے انھوں نے وہ نزاکت پیدا کی ہے جس کی مثال کہیں اور نہیںملتی۔ایسے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں         ؎

شام سے کچھ بجھا سارہتا ہے

دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

نہ رکھو کان نظم شاعرانِ حال پر اتنے

چلو ٹُک  میر کو سُننے کہ موتی سے پروتا ہے

سرہانے میر کے آہستہ بولو

ابھی ٹْک  روتے روتے سوگیا ہے

آخر وقت میں انھوں نے یہ شعر کہا         ؎

ساز پسیج امادہ ہے سب  قافلے کی  تیاری ہے

مجنوں ہم سے آگے گیا ہے اب کے ہماری باری ہے

 

Fay Seen Ejaz

Editor 'Mahnama Insha'

25-B, Zakaria Street

Kolkata- 700073 (WB)

Cell.: 9830483810

inshapublications@yahoo.co.in

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...