16/10/24

عشق اور رباعیات میر، مضمون نگار:سعدیہ صدف

 اردو دنیا، ستمبر 2024

شاعری خواہ غزلیہ ہو کہ نظمیہ اسے حیات جاودانی، عشق عطاکرتا ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جو تمام عالم میں یکساں کیفیات و تاثرات کا حامل ہے۔عشق، انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ اس کے بغیر انسان کا وجود نامکمل ہے۔گو کہ عشق ہی عطا ہے،عشق ہی بقا ہے۔ دنیا کی تمام تر تخلیقات میں عشق اور اس سے وابستہ کیفیات کا ذکر مختلف انداز میں ملتا ہے۔بقول علامہ شبلی نعمانی’’…چونکہ کوئی قوم عشق سے خالی نہیں، اس لیے کوئی قوم عشقیہ شاعری سے بھی خالی نہیں ہو سکتی۔‘‘ پس یہ اردو شاعری کابھی ایک اہم موضوع ہے۔ قدیم و جدید ہر شاعر کے یہاں ’دل پر خوں کی گلابی‘ کا ذکرضرور ملتا ہے۔ اس جذبے سے بچنا کسی بھی شخص کے لیے ناممکن ہے۔ وہ تخلیق کار ہو یا ایک معمولی خاکی پیکر،عشق کا اسیر ضرور ہوتا ہے، لیکن اس کے لطیف و نازک احساسات کا بیان ایک تخلیق کار ہی کر سکتا ہے۔ گویا وہ جذبات کو لفظی پیراہن عطا کر کے آفاقی قدروں کا حامل بنا دیتا ہے۔ اسی عشق کی تعلیم صوفی منش محمد علی متقی نے اپنے بیٹے میر تقی میر کو دی تھی۔اسی تعلیم کے باوصف میر نے کہا تھا       ؎

عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو

سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق

میر کی تمام تر شاعری میں عشق اور اس سے وابستہ کیفیات کی امر بیل اس طرح حاوی ہے کہ ان کی جڑیں نظر تونہیں آتیں لیکن ان کا غلبہ شجر فکر پر ہمہ وقت قائم ودائم رہتا ہے۔ میر کی رباعیاں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، کیونکہ یہ وہ کیفیات ہیں جن سے میر خود گزر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عشقیہ جذبات کا بیان ان کے یہاں بڑا فطری اور سلیس ہے۔بقول پروفسیر خواجہ احمد فاروقی:

’’...انھوں نے سنی سنائی نہیں بلکہ اپنے اوپر گزری باتیں لکھی ہیں۔اسی لیے ان کے کلام میں بلا کا خلوص اور اثرہے۔ خلوص ، تکلف کا دشمن ہے۔ وہ اپنے اظہار کے لیے سادہ سے سادہ اسلوب تلاش کرتا ہے۔ یہی سادگی ، دلکشی اور دلربائی کی خزینہ دار ہے۔‘‘

(میر تقی میر: حیات اور شاعری:پروفیسر خواجہ احمد فاروقی:313،  2015، انجمن ترقی اردو ہند، دہلی)

اس کی تصدیق رباعیات میر کے مطالعے سے بھی ہوتی ہے ۔بطور مثال ان کی حسب ذیل رباعی ملاحظہ کریں جس میں مبتلا ئے عشق کی دگرگوں حالت کا نقشہ بڑے سلیقے سے کھینچا گیا ہے         ؎

دل جان جگر آہ جلائے کیا کیا

درد و غم و آزار کھنچائے کیا کیا

ان آنکھوں نے کی ہے ترک مردم داری

دیکھیں تو ہمیں عشق دکھائے کیا کیا

عشق میں مبتلا شخص کی کیفیات کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو اس مرحلے سے گزرا ہو۔وہ ہر وقت دائرہ اضطراب میں گردش کرتا رہتا ہے۔محبوب سے ملنے، اسے دیکھنے، اسے چھونے اوراس کے ساتھ رہنے کی آرزو،اسے کس کس طرح تڑپاتی ہے ، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ محبوب کی ستم شعاری عاشق کوکشمکش میں ڈالے رکھتی ہے۔ وہ صاف چھپتا بھی نہیںسامنے آتا بھی نہیں ہے۔ عاشق کی تڑپ معشوق کی نظر کرم کے انتظار میںسوا ہوتی رہتی ہے۔ گویا وہ سوز عشق میں جلتا رہتا ہے۔ان کیفیات کا اظہار میر کے یہاں یوں ملتا ہے        ؎

پوچھو نہ کچھ اس بے سروپا کی خواہش

رکھتی نہیں حد اہل وفا کی خواہش

جاتے ہیں چلے جی ہی بتوں کی خاطر

معلوم نہیں کیا ہے خدا کی خواہش

 

اندوہ کھپے عشق کے سارے دل میں

اب درد لگا رہنے ہمارے دل میں

کچھ حال نہیں رہا ہے دل میں اپنے

کیا جانیے وہ کیا ہے تمھارے دل میں

میر کا عشق ارضی ہے۔اس کا محبوب کوئی خیالی پیکر یا تصوراتی کردار نہیں، بلکہ وہ گوشت پوست کا ایک انسان ہے۔وہ اپنے محبوب کے حسن و ادا، اس کے قدو قامت اور اس کے سراپہ کے معترف بھی نظر آتے ہیں،  لیکن اس اعتراف میں کہیں بھی جنسی جذبہ حاوی نہیں ہوتا، بلکہ ایک شائستہ عشقیہ کیفیت اجاگر ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ خواہ محبوب کی نازک بدنی کا ذکر ہو کہ اس کی پرپیچ زلفوں کا بیان، بوسے کی خواہش کا اظہارہو کہ اسے بھینچ لینے کی تمنا، میر ان تمام جذبات کا بیان اس قدر فطری انداز میںکرتے ہیں کہ شائستگی کا دامن کہیںبھی چھوٹنے نہیں پاتا۔ گویا میر کی محبت کاا ظہاریہ تہذیب و شائستگی سے معمور ہے، جہاں تصنع کا گزر بسر ممکن نہیں۔ بطور مثال چند رباعیاں ملاحظہ کریں        ؎

جاں سے ہے بدن لطیف و رو ہے نازک

پاکیزہ تری طبع و خو ہے نازک

بلبل نے سمجھ کے کیا تجھے نسبت دی

گل سے تو ہزار پردہ تو ہے نازک

 

پرپیچ بہت ہے شکن زلف سیاہ

وارفتہ نہ رہ اس کا دلا بے گہ و گاہ

دیوانگی کرنے کی جگہ بھی ٹک دیکھ

جاملتی ہے یہ کوچہ زنجیر میں راہ

 

آب حیواں نہیں گوارا ہم کو

کس گھاٹ محبت نے اتارا ہم کو

دریا دریا تھا شوق بوسہ لیکن

جاں بخش لب یار نے مارا ہم کو

 

دل خوں ہے جگر داغ ہے رخسار ہے زرد

حسرت سے گلے لگنے کی چھاتی میں ہے درد

تنہائی و بے کسی و صحرا گردی

آنکھوں میں تمام آب منھ پر سب گرد

کلاسیکی شاعری میں محبوب کی ستم طرازیوں کو خوب موضوع بنایا گیا ہے۔ میر نے غزلوں کی طرح اپنی رباعیوں میں بھی محبوب کی ستم شعاری کا ذکر کیا ہے۔ وہ اس کی بے التفاتی و بے مہری پرکف افسوس ملتے دکھائی دیتے ہیں۔ انتہائے ظلم و ستم کے سبب صبر کا باندھ ٹوٹ جاتا ہے تو وہ محبوب سے شکوہ بہ لب بھی نظر آتے ہیں۔ میر کا شکایتی انداز بڑا ہی پر لطف ہے۔ اس موقعے پر میر کا لہجہ ایک شکست خوردہ عاشق کا سا دکھائی دیتا ہے، جو اپنی کیفیات قلب سے معشوق کو آگاہ کراتے ہوئے اس پر گرفت بھی کرتا نظر آتا ہے۔  تمام تر شکایتوں کے باوجود محبوب راہ راست پر نہیں آتا تو وہ خود کو لعن طعن کرنا شروع کردیتا ہے ۔مثلاً       ؎

افسوس ہے عمر ہم نے یونہی کھوئی

دل جس کو دیا ان نے نہ کی دلجوئی

جھنجھلا کے گلا چھری سے کاٹا آخر

جھل ایسی بھی عشق میں کرے ہے کوئی

 

ہر لحظہ رلاتا ہے کڑھاتا ہے مجھے

ہر آن ستاتا ہے کھپاتا ہے مجھے

کل میں جو کہا رنج سے حاصل میرے

بولا ترا آزار خوش آتا ہے مجھے

 

آئی نہ کبھو رسم تلطف تم کو

کرتے نہ سنا ہم پہ تاسف تم کو

مرتے ہیں ہم اور منھ چھپاتے ہو تم

ہم سے اب تک بھی ہے تکلف تم کو

محبت اگر دو طرفہ ہو اور میسر ہو تو یہ ایک الگ معاملہ ہوا کرتا ہے، تاہم ناکام محبتیں تاریخ بن جایا کرتی ہیں، میر کے یہاں ناکام محبت کا تجربہ موجود ملتا ہے۔محبت میں ملی ناکامی اکثر جان لیوا ہواکرتی ہے۔نتائج کی پرواہ کیے بغیر عاشق کا دل ناصبور بے بس ہوکر اسی سمت بڑھتا ہے جہاں اسے نہیں جانا چاہیے۔یہ ناکامی اس کا ظاہری و باطنی حلیہ تک بگاڑ دیتی ہے، اور یوں وہ دنیا سے کنارہ کش، دشت نوردی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں حسب ذیل   رباعیوں کا مطالعہ قابل غور ہے جس میںمیر کا انداز ناصحانہ ہے       ؎

ہم میر سے کہتے ہیں نہ تو رویا کر

ہنس کھیل کے ٹک چین سے بھی سویا کر

پایا نہیں جانے کا وہ در نایاب

کڑھ کڑھ کے عبث جان کو مت کھویا کر

 

ہجراں میں کیا سب نے کنارہ آخر

اسباب گیا جینے کا سارا آخر

نے تاب رہی نہ صبر و یارا آخر

آخر کو ہوا کام ہمارا آخر

عشق و محبت کے انہی عناصر کی فراوانی میر کی رباعیوں کی جان ہیں۔  میر کی رباعیات سے عشق کا عنصر نکال دیں تو اس کا سارا جوہر ختم ہوجائے گا۔گویا یہاں عشق ہی عطا ہے اور عشق ہی بقا ہے۔ تاہم ان کے یہاں عشق کے علاوہ دیگر مسائل زیست کا بھی بیان موجود ہے، جو میر کی حساس طبیعت اور دانشوری پر دال ہے۔ مثلاًمیر کے ہاں فلسفۂ حیات کی ایک صورت پیری اور جوانی کے موضوع پر بھی مبنی ہے۔یعنی عروج و زوالِ انسانی کے اہم عناصر یہی دو ہیں،جو کہ طاقت و توانائی کے ساتھ ساتھ کمزوری و نقاہت کے بھی استعارے ہیں۔ جوانی جن چیزوں پر مغرور رہتی ہے پیری انھیں سلب کرلیتی ہے۔ میرنے اپنی رباعیوں میں اس فلسفے کے ذریعے عروج و زوال کا خاکہ کھینچتے ہوئے آدم خاکی کو اس کی حیثیت سے آگاہ کرانے کی کوشش کی ہے کہ غرور خواہ طاقت کا ہو یا توانائی کا اسے بھی شکستگی نصیب ہوتی ہے۔ جب تک اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے وقت گزر جاتا ہے پھر سوائے پچھتاوے اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کے کچھ بھی نہیں بچتا۔میر کہتے ہیں          ؎

زانو پہ قد خم شدہ سر کو لایا

جاے دنداں کو ہم نے خالی پایا

آنکھوں کی بصارت میں تفاوت آیا

پیری نے عجب سماں ہمیں دکھلایا

 

اوقات لڑکپن کے گئے غفلت میں

ایام جوانی کے کٹے عشرت میں

پیری میں جز افسوس کیا کیا جائے

یک بارہ کمی ہی آگئی طاقت میں

 

روئے کوئی کیا گئی جوانی یوں کر

جاتی ہے نسیم و گل کی نکہت جوں کر

پیری آندھی سی میر ناگہ آئی

ہم برگ خزاں سے اس میں ٹھہریں کیوں کر

میر نے پر مصائب زندگی گزاری۔ حالات کی ستم ظریفی نے انھیں جو رنگ دکھلائے اس نے انھیں حد درجہ شکستہ کردیا تھا،غم یار اور غم روزگار سائے کی طرح ہمہ وقت ان کے ساتھ رہا، لیکن میر کی بلند ہمتی تھی کہ انہوں نے حالات سے شکست ماننے کی بجائے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور یقین کی لو کو بجھنے سے بچا لیا۔ان کی فکر پر ’مایوسی کفر ہے‘کا نظریہ غالب رہا ۔مثلاً      ؎

تیرا اے دل یہ غم فرو بھی ہوگا

اندیشۂ رزق کم کبھو بھی ہوگا

کھانے کو دیا ہے آج حق نے تجھ کو

کل بھی دیوے گا کل جو تو بھی ہوگا

انسان جس جگہ زندگی گزارتا ہے وہ اسے پیاری ہوتی ہے۔ یہ اس پیار اور لگاؤ کا ہی ثمرہ ہوتا ہے کہ اس جگہ کی بے ترتیبی میں بھی ایک نوع کا حسن نظر آتا ہے اور اس کی کمیاں بھی معمولی نظر آتی ہیں۔ میر کو بھی دہلی عزیز تھی، عمر کا ایک بڑا حصہ دہلی میں گزرا تھا۔ زندگی کے نشیب و فراز کی داستان ہو کہ اپنوں کی بے التفاتی کا تجربہ ، میر نے اس شہر میں سب کچھ دیکھا تھا۔ تاہم دہلی پر بیرونی حملہ آوروں کے مسلسل حملے نے اس شہر کی رونق تباہ کردی تھی۔جس کا غم میر کو ازحد رہا۔ اس کا اظہار انھوں نے غزل کی طرح رباعی میں بھی کیا ۔مثلاً       ؎

ہر روز نیا ایک تماشا دیکھا

ہر کوچہ میں سو جواں رعنا دیکھا

دلی تھی طلسمات کہ ہر جاگہ میر

ان آنکھوں سے ہم نے آہ کیا کیا دیکھا

میر کی شاعری میں غالب یاسیت ان کے نجی حالات کی زائیدہ تھی۔ اپنوں کی بے توجہی، عدم اعتماد، سرد مہری و بے گانگی نے ان کو اندر سے توڑ دیا تھا، لیکن میر صاحب نے بڑے ہی رکھ رکھاؤ کے ساتھ اس غم کی آبیاری کی۔ انھوں نے خلا میں خود کو بے سمتی سے بچاتے ہوئے شعور کی مدد سے زندگی کے  تجربات سے مشق لیا اور یوں سبیل زیست پیدا کی۔ انھوں نے زندگی کے ان تجربات کو شعری قالب میں ڈھال کر یوں پیش کیا ہے کہ ہر فرد اسے اپنی روداد سمجھتا ہے اور اس طرح میر کا غم آفاقی و کائناتی بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی یہ رباعی دیکھیں          ؎

ہر صبح غموں میں شام کی ہے ہم نے

خوں نابہ کشی مدام کی ہے ہم نے

یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر

مرمر کے غرض تمام کی ہے ہم نے

مصائب و المناکی کے بیان پر مبنی میر کی یہ رباعی بھی قابل مطالعہ ہے       ؎

ہر صبح مرے سر پہ قیامت گزری

ہر شام نئی ایک مصیبت گزری

پامال کدورت ہی رہا یاں دن رات

یوں خاک میں ملتے ہم کو مدت گزری

خود پسندی، میر کے مزاج کا نمایاں عنصر ہے۔ جس کا اظہار اکثر وبیشتر انھوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے۔ غزلوں کی طرح وہ اپنی رباعی میں بھی طبیعت کی نازکی کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں اس قدر محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں کہ خاموشی گوارا کر لیں گے لیکن کسی بد زبان سے گفتگوکرنا انھیں گوارا نہیں۔ وہ کہتے ہیں        ؎

کیا میر کا مذکور کریں سب ہے جہل

پایا ہم نے اسے نہایت ہی سہل

ایسوں سے نہیں مزاج اپنا مانوس

وحشی، بے طور، بدزباں و نااہل

میر کے ہاں جہاں خود پسندی نظر آتی ہے وہیں وہ اخلاقی درس بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق آدمیت اسی شخص میں موجود ہے جو اپنے کمال پر ناز نہ کرے،  یعنی اسے اپنی صلاحیتوں کا علم تو ہو لیکن اس پر تکبر نہ ہو۔ ایسا فرداپنی طرز گفتگو سے خلقت کو اپنا گرویدہ کرلیتا ہے، اور جب خاموش رہتا ہے تو اس میں سارا عالم دکھائی دینے لگتا ہے، یعنی اس کا persona اس کی علمیت سے مکمل طور پر اجاگر ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں         ؎

ملیے اس شخص کو جو آدم ہووے

ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے

ہو گرم سخن تو گرد آوے یک خلق

خاموش رہے تو ایک عالم ہووے

مختصر یہ کہ میر کی رباعیاںمتنوع مضامین کی قوس قزح ہیں۔ اس قوس قزح میں عشق کا رنگ نمایاں اور روشن ہے۔ جس کی روشنی سے دیگر تمام کیفیات کو جلا ملتی ہے۔ ان رباعیوں میں میر ایک عاشق اور ناصح کے کردار میں جلوہ گر نظر آتے ہیں، جو مسائل انسانی،کیفیات دل، فلسفۂ گناہ و ثواب اور مدحت خداوندی کے فرائض کی انجام دہی پر کمر بند ہے۔ کون سا موضوع ہے جو یہاں موجود نہیں۔عشق اور اس کی متنوع کیفیات، عاشق و معشوق کی چھیڑ چھاڑ، شوخیاں، ناز و ادا، بیان حسن معشوق، غم یار، غم روزگار، طنز ومزاح، اخلاقی درس، وغیرہ، یہ ایسے موضوعات ہیں جن سے رباعیات میر کے عناصر ترتیب پاتے ہیں۔

 

Sadia Sadaf

Research Scholar, Dept of Urdu

Alia University, 67, Maulana Shaukat Ali Street

(Kolo Tola Street)

Kolkata- 700073 (West Bengal)

Mob.: 9831365693

sadiasadaf1only@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حشم الرمضان کی نظم نگاری، مضمون نگار: فرزانہ پروین

  اردو دنیا، ستمبر 2024 بنگال کے نظم نگاروں میں ایک اہم اور معتبر نام حشم الرّمضان کا ہے ان کی تصانیف میں دو شعری مجموعوں کے علاوہ ایک تنق...