6/11/24

تاریخ گوئی: فن اصول اور روایت، مضمون نگار: عبد القوی

 اردو دنیا، اکتوبر 2024

اردوادب اور فنِ ریاضی سے بیک وقت شغف رکھنے والے حضرات/شعرا کے لیے فن تاریخ گوئی نہایت عمدہ اور دلچسپ فن ہے۔ یہ فن قدیم بھی ہے اور صرف انہی زبانوں میں رائج ہے جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا فن ہے جس میںہندسہ ’حرف‘ کی قیمت مقرر کرتا ہے اور حرف ’ہندسے‘ کو نہ صرف یادگار بناتا ہے بلکہ اس کی اہمیت و افادیت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ نتیجتاً یہ کہاجاسکتا ہے کہ تاریخ اور علم ہندسہ کا ادغام فنِ تاریخ گوئی کی اساس ہے۔ اس علم سے استفادہ کرتے ہوئے ہم حیات و ممات ، انسانی زندگی کا کوئی اہم واقعہ یا قومی سطح پر رونما ہونے والا کوئی کارنامہ، عمارات کے سنینِ تعمیر، افراد کی پیدائش، مختلف تحریروں کے سنینِ تالیفات و طباعت اور مادّی زندگی کے مختلف شعبوں کی کارکردگی نیز مہتم بالشان واقعات کو تاریخی مادّے کی شکل میں برآمد کرسکتے ہیں جو مرور ایام سے محفوظ رہ کر آسانی سے دماغ پر ثبت ہوجاتے ہیں۔ گویایہ ہمارے گذشتہ لمحات کو چند اعداد میں مقید کردینے کا ایساعمل ہے، جو ماضی کا شاندار حوالہ بھی ہوسکتا ہے اور مستقبل میں کسی اچھے عمل کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔علم بدیع کی اصطلاح میں ’تاریخ‘ اس فن کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی واقعے کا سنہ وقوع کسی لفظ، محاورے، فقرے یا مصرعے کے ذریعے بحساب جمل لگایا جائے۔ تاریخ گوئی کا اصطلاحی مفہوم مولوی نجم الغنی نے بحرالفصاحت میں اس طرح بیان کیا ہے:

’’…اصطلاح میں تاریخ اس کو کہتے ہیں کہ کوئی لفظ یا فقرہ یا عبارت، مصرع یا بیت ایسی تجویز کریں کہ اس کے مکتوبی حروف کے عددوں سے بہ حساب جمل سنہ اور سال کسی واقعہ، شادی یا وفات کے معلوم ہوں یا نکاح خواہ تولد فرزند یا تصنیف کتاب خواہ لڑائی یا بادشاہ کے جلوس یا کسی اور امر کے وقوع کا زمانہ سمجھا جائے۔‘‘

(بحر الفصاحت، مولوی نجم الغنی، مطبع منشی نولکشور لکھنؤ، اشاعت دوم 1927، ص996)

فن تاریخ گوئی ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے مادۂ تاریخ رقم کیا جاتا ہے اور اس کے لیے شعرا نے دیگر اصناف سخن کے مقابلے صنف ’قطعہ‘ کو زیادہ ترجیح دی۔قطعہ کے لغوی معنی ٹکڑے کے ہیں لیکن اصطلاحی معنوں میں یہ ایک صنف شعر ہے،جس میں قوافی کی ترتیب قصیدے یا غزل کے مطابق ہوتی ہے۔ یعنی تمام اشعار کے دوسرے مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں لیکن غزل اور قصیدے کے برعکس قطعہ میں مطلع نہیں ہوتا اور مقطع بھی ضروری نہیں۔ قطعہ کے لیے کم از کم دو شعر کا ہونا ضروری ہے البتہ زیادہ سے زیادہ اشعار کی کوئی حدبندی نہیں۔ پھر بھی غزل کی طرح قطعے کی طوالت بھی دس بارہ شعروں تک ہی مناسب سمجھی جاتی ہے۔ قطعات میں عام طور پر ردیف سے کام نہیں لیا جاتاہے۔ بہرحال ’قطعہ‘ ایک ایسی صنف ہے جس میں تاریخ کہنا دیگر اصنافِ سخن کے مقابلہ زیادہ آسان ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس صنف میں دیگر اصناف سخن کے مقابلے عروضی پیچیدگیاں نسبتاً کم ہیں۔ صنف ’قطعہ‘ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض اوقات مادۂ تاریخ کسی اور صنف میں نظم کیا گیا ہے لیکن عموماً اس پر عنوان ’قطعہ تاریخ‘ ہی لکھ دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی غلطیاں بلند پایہ شعرا کے دیوان و کلیات کے مرتبین نے کی ہیں اور یہ اغلاط مثنوی اور رباعی کے ضمن میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ بہرحال یہ مسلم الثبوت ہے کہ تاریخ گوئی کے سلسلے میں اس صنف کا پلہ دیگر اصناف سخن کے مقابلے بھاری ہے۔ یہ ایسافن ہے جس کے ذریعے بحساب جمل حروف کے بامعنی مرکبات کی عددی قیمتوں اور مادۂ تاریخ کو اعداد کی شکل میں محفوظ کیاجاسکتا ہے۔ ہمارے قدیم تاریخ گو شعرا نے اس فن میں نہ صرف دلچسپ مادوں کی شکل میں ماضی کے جواہر پاروں کو محفوظ کیا بلکہ رباعیات اور قطعات کی شکل میں ان مادوں کو اتنا دلچسپ بنادیا کہ بعض مادے آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں۔ویسے تاریخیں نثر میں بھی رقم کی جاتی ہیں، جس میں ایک لفظ یا جملے سے مادۂ تاریخ نکالا جاتا ہے لیکن جہاں تک مختلف اصناف کی تاثیر کا سوال ہے تو شاعری کی فوری تاثیر مسلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فن تاریخ گوئی کے آغاز سے ہی شعرا، اشعار اور مصرعوں میں موجود حروف و الفاظ سے تاریخیں برآمد کرتے رہے ہیں، اس میں کسی صنف کی تخصیص نہیں ہوتی تھی۔ شعرا نے کبھی مثنوی، رباعی، قطعہ، نظم اور غزل میں مادہ ہائے تاریخ نکالے لیکن جہاں تک صنف قطعہ کا تعلق ہے تو یہ دیگر اصناف کی بہ نسبت مخصوص اوزان و بحور کی قید سے آزاد ہے۔

تاریخ گوئی کے فن، روایت اور اس کے آغاز و ارتقا کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا ممکن نہیں کیونکہ انسانی معاشرہ اتنا قدیم ہے کہ اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ جب علم ہندسہ ایجاد ہوا ہوگا تو دوسری طرف علم تہجی بھی وجود میں آگیا ہوگا، جن کی ترقی یافتہ شکل ابجد ہے، جو تاریخ گوئی کی بنیادی ضروریات کو پوراکرتی ہے۔ یہ فطرتِ انسانی کا بنیادی تقاضا ہے کہ اس کی حیات و ممات اور اس کے کارنامے‘ اس کی زندگی کے بعد بھی برسہا برس یاد کیے جائیں۔ قدیم عمارات پر ہم اکثر سنین دیکھتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عمارت کی تعمیر کی تاریخ لوگوں کو معلوم رہے۔ جب کوئی کارنامہ تاریخ کا حصہ قرار پاتا ہے اور اس کارنامے کو جاوداں بنانے کے لیے انسان کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوتی ہے کہ اس کو قائم و دائم رکھا جائے تب تاریخ گوئی کا وجود ہوتاہے۔ اسلامی دور کے مشہور تاریخی واقعات، فتوحات، سنین پیدائش و وفات، جلوس شاہانہ، تصانیف کتب وغیرہ یہ ایسے کارنامے ہیں جنھیں یادگار بنانے کے لیے قطعے کی صورت دے دی گئی، جس کے ایک ٹکڑے سے اس کی تاریخ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی۔کہاجاتا ہے کہ عربوں نے حروف کے اعداد مقرر کیے ،ان میں شعرگوئی کا بھی وافر رجحان تھا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عربوں ہی نے پہلے پہل تاریخ لکھی:

’’ابجدکے مقررہ کلمات کے متعلق کہاجاتا ہے کہ یہ کلمات حضرت ادریس علیہ السلام کے وضع کردہ ہیں۔ فن تاریخ گوئی عربی اور فارسی سے ہوتا ہوا اردو میں پہنچا اور آج تک رائج ہے…۔‘‘

(سیدہ عندلیب زہرا کانپوری، خاتون پاکستان کراچی(مضمون بعنوان فن تاریخ گوئی) جلد 14، شمارہ3،ص:2)

اس فن کے اصول و قوانین اور شعریات کے سلسلے میں سب سے پہلے حروف ابجد کا تعین ضروری ہے کیونکہ ’ابجد‘ فن تاریخ گوئی کی اساس ہے۔فن تاریخ گوئی میں حروف سے ہندسوں کو برآمد کرنے کے لیے جن بنیادوں کو کام میں لایا جاتا ہے وہ ابجد کہلاتے ہیں ۔ان حرفوں کے اعداد بھی مقرر کیے گئے ہیں جنھیں حسابِ جمل کہاجاتاہے۔بعض لوگ اپنے بچوں کے نام بھی اسی قاعدے کے مطابق رکھتے ہیں جس سے پیدائش کا برس نکلتا ہے۔شان الحق حقی نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے کہ’’ابجد حروفِ تہجی کی وہ ترتیب ہیں جو الف۔ ب۔د سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ابجد کی صورت درج ذیل ہے:

حروف ابجد کے بارے میں مختلف روایات مشہور ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے مخصوص معنی ہیں جس کے مطابق: ’ابجد‘ آغاز کیا، ’ہوز‘ مل گیا، ’حطی‘ واقف ہوا، ’کلمن‘ سخن گو ہوا، ’سعفص‘ اس نے سیکھا، ’قرشت‘ ترتیب دیا گیا، ’ثخذ‘ نگہبانی کی اور ’ضظغ‘ تمام کیا وغیرہ۔بعض لوگوںکاعقیدہ یہ ہے کہ ابوالبشرحضرت آدم علیہ السلام جب جنت الفردوس سے زمین پر آئے تو ایک بہشتی زبان اپنے ساتھ لائے جو اپنی اصل کے اعتبار سے عربی ہی کی ایک شکل تھی، اسی کو ابجد یاخالص عربی زبان کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ ایک قول کے مطابق اباجادنامی بادشاہ کے نام کا مخفف ’ابجد‘ ہے اورباقی سات کلمے اس کے سات فرزندوں کے نام ہیں۔ ایک تصور یہ بھی ہے کہ’ابجد‘ ’مرامر‘ نامی شخص کے آٹھ فرزندوں کے نام ہیں،جبکہ بعض علما نے ان آٹھوں کلمات کو شیاطین کے ناموں سے تعبیر کیا ہے اوربعض نے سلاطین کے ناموں سے جبکہ عین ممکن ہے کہ یہ کلمے بامعنی نہ ہوں اورمحض ابجد کی ترتیب ظاہر کرنے کے لیے استعمال میں لائے گئے ہوں۔

تاریخ گوئی کے لیے عربی حروف کو بنیاد قرار دیا گیا ہے اور فارسی و ہندی حروف مثلاً پ، ٹ، چ، ڈ،ڑ،ژ اور گ کو ابجدمیں کوئی مقام نہیں مل سکا لہٰذا فارسی ، ہندی اور اردو کے تاریخ گو شعرا نے اپنے حروف کو ابجد کے ماتحت رکھتے ہوئے متذکرہ بالا حروف (پ، ٹ، چ، ڈ،ڑ،ژ اور گ )کو ان کی مساوی شکل ب، ت، ج، د، ر،ز اور ک کا ہم عدد قرار دیا اور مادہ تاریخ نکالنے کے لیے پہلا اصول یہ قرار پایا کہ تاریخ گوئی کے لیے حروف مکتوبی کا اعتبار کیا جائے گا۔ اس طرح اس اصول کی پوری طرح پابندی کرنے میں تاریخ کہنے میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس فن میں تلفظ سے زیادہ کتابت کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ابجدی کائنات میں بعض حروف ایسے ہیں جن کا مخرج یکساں ہے مثلاًالف اور عین، ت اور ط، ث،س اور ص نیز ز،ذ،ظ،ض وغیرہ۔

اس طرح محض حروف مکتوبی کو اساس بناکر مادہ تاریخ نکالا جائے گا خواہ وہ حروف مکتوبی‘ پڑھنے میں آئیں یا نہ آئیں۔ مثلاً؛ عبدالقوی کا (الف) اگرچہ بولنے میں نہیں آرہا ہے لیکن اس کے عدد شمار کیے جائیں گے کیونکہ یہ مکتوبی حرف ہے۔ اسی طرح عربی کے بعض الفاظ مثلاً ’آمنوا‘ اور بینوا‘ کے آخر میں ’الف‘ اگرچہ پڑھنے میں نہیں آرہا ہے لیکن اس کے بھی اعداد شمار کیے جائیں گے۔ بعض ایسے حروف جن پر تشدید واقع ہوتی ہے،وہ دو مرتبہ پڑھے اوربولے جاتے ہیں، لیکن مکتوبی اصول کے نقطۂ نظر سے انھیں صرف ایک ہی حرف شمار کیا جائے ،جیسے خرّم اور فرّخ میں صرف ایک (ر) کے عدد ہی شمار کیا جائے گا کیونکہ ان کی مکتوبی حالت ایک ہے یعنی ’ر‘ ایک ہی بار تحریر میں آرہا ہے اس لیے انھیں ایک بار شمار کیا جائے گا۔

بعض ہندی حروف جو دو حروف کا مرکب ہوتے ہیں جیسے بھ، پھ، دھ وغیرہ، مکتوبی قاعدے کے مطابق ان کے دو حروف شمار ہوں گے یعنی (بھ) میں ’ب‘ اور ’ہ‘ دونوں شمارکیے جائیں گے۔

الف ممدودہ (آ) کی لفظی ادائیگی (آا) کی صورت میں بنتی ہے لیکن چونکہ لکھنے میں ایک الف شمار کیا جاتا ہے لہٰذا الف ممدودہ اور الف مقصورہ کی قیمتیں یکساں ہوں گی یعنی ان کو ایک ہی عدد شمار کیا جائے گا۔اس سیاق میں اختلافات بھی ہیں، بعض حضرات الف ممدوہ کو دو عدد جبکہ بعض ایک ہی عدد شمار کرتے ہیں۔الف ممدوہ کو دو عدد شمار کرنے والوں کا خیال ہے کہ چونکہ :

1        عربی میں الف ممدودہ میں دو الف ہیں۔

2        فن عروض میں بھی ’آ‘ بروزن ’فا‘ شمار ہوتا ہے۔

3        فارسی کی تمام لغات میں حروف تہجی کے بیان میں الف ممدودہ اور الف مقصورہ کی فصلیں جدا جدا قائم کی گئی ہیں۔

4        الف ممدودہ پڑھنے میں دراز ہوتا ہے جیسے آمدن اور آوردن وغیرہ اس لیے دو عدد شمار کیے جائیں گے۔

 الف ممدودہ کو ایک عدد شمار کرنے والے حضرات اپنے موقف میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ چونکہ:

 حساب جمل میں مکتوبی حروف کو ملفوظی حروف پر ترجیح دی جاتی ہے، لہٰذا ’آ‘ کو ایک ہی عدد شمار کرنا چاہیے۔

تائے مدورہ یعنی گول ’ۃ‘ کا معاملہ سب سے زیادہ نازک ہے۔ تا عربی رسم الخط میں دو طرح سے لکھی جاتی ہے:

1        دراز جیسے ’ت‘ جس کا نام عربی میں تائے مبسوط ہے۔

2        گول جیسے ’ۃ‘ اس کو عربی میں مدورہ، مربوط یا تائے تانیث کہتے ہیں۔

پھر تائے مدروہ’ۃ‘ کو دو طرح سے لکھنے کارواج ہے:

1        تائے مدورہ جو اپنے مابعد حرف سے متصل نہ ہو جیسے توبہ، کعبہ، حجہ، وغیرہ۔ ایسی صورت میں تائے مدورہ کے نقطوں کو حذف کردیا جاتا ہے اور پڑھنے میں ’ہ‘ کی آواز دیتی ہے۔

2        تائے مدورہ موصولہ جو اپنے مابعد حرف سے متصل ہو جیسے توبۃ النصوح، کعبۃ اللہ،حجۃ اللہ وغیرہ۔

 ابجد کے حساسب سے قرشت کی (ت) کے عدد چار سو ہیں جب کہ تائے مدورہ (ۃ) جب کسی مقام پر حالت ہائے ہوز میں تبدیل ہو تو اس کا عدد محض پانچ رہ جاتا ہے۔ اس لیے مورخین نے اپنی اپنی ضرورتوں کے مطابق اس مسئلے کا تدارک کرلیا لیکن بعد میں اس فن کے مستند ماہرین نے جو اصول متعین کیے اس کے مطابق (ت) کے ہر حالت میں چار سو عدد ہوں گے خواہ وہ تائے مدورہ (ۃ) ہو یا تائے قرشت (ت) جیسے مراۃ العروس کی ’ۃ‘ لہٰذا اس کے چار سو عدد لیے جائیں گے البتہ کبھی کبھار تائے مدورہ کو ہائے ہوز(ہ) میں تبدیل کرکے لکھا جاتا ہے جیسے روضہ، جلسہ تو ایسی صورت میں یعنی جب تائے مدورہ کو بشکل ہائے مختفی یعنی بغیر نقطوں کے لکھا جائے تو وہ ہائے ہوز(ہ) ہی شمار کی جائے گی اور اس کے عدد پانچ لیے جائیں گے۔

ہمزہ حروف ابجد کے قبیل سے خارج ہے۔ چونکہ ہمزہ الف کی ہی ایک شکل ہے اس لیے اس کا کوئی عدد نہیں لیا جائے گا۔اس حرف کے بارے میں مورخین میں خاصا اختلاف ہے۔

کھڑا زبر، کھڑی زیر، تنوین، تشدیدوغیرہ کو حروف میں شمار نہیں کیاجاتا لہٰذا ان کے اعداد شمار نہیں کیے جائیں گے۔ کیونکہ یہ حروف نہیں بلکہ حرکات ہیں۔عیسیٰ، موسیٰ ،ذاتہٖ، لغیرہٖ، دفعتاً، یقینا، عزّت، تدبّر وغیرہ پر کھڑا زبر،کھڑی زیر، تنوین اور تشدید کی علامت لکھنے کے باوجود اس کے اعداد کو شمار نہیں کیا جائے گا ۔

زیرمیں خان شاہد اکبرآبادی جو سائل دہلوی کے شاگرد تھے، کا ایک قطعہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ قطعہ مولانا الطاف حسین حالی کی تاریخ وفات نکالنے کے سلسلے میں تخلیق کیا گیا تھا،اس کی خوبی یہ ہے کہ ایک ہی شعر سے ہجری اور عیسوی دونوں سنہ برآمد ہوتے ہیں    ؎

اس قدر برسے ہیں ان کی یاد میں آنکھوں سے اشک

آنکھ میں اشکوں کے جو سوتے تھے سب خالی ہوئے

کیوں نہ ہو شاہد لب تاریخ پر ’مغفور باد

                                                                   1333ھ

جاں نواز اردو ادب میں حضرت حالی ہوئے

                                                                                 1914

بہرحال فارسی اور اردو میں فن تاریخ گوئی حروف ابجدکی مرہون منت ہے ۔ فارسی شعرا اس فن کے ذریعے عرصۂ دراز سے کمالات کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے تھے۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ اس میدان میں بتدریج ترقی کا عمل جاری ہے۔ فارسی شاعری میں کامیابی کے بعد یہ فن برصغیر ہند وپاک میں آیا اور یہاں بھی اس کا آغاز فارسی زبان سے ہی ہوا۔ ہندوستان میں فارسی شعرا کی اتباع میں قطعات تاریخ رقم کرنے کا رواج رہا کیونکہ اردو تاریخ گوئی اصول و قوانین کے سلسلے میں فارسی تاریخ گوئی کی مرہون منت تھی۔ اس طرح اردو زبان نے وسیع پیمانے پر فارسی زبان سے استفادہ کیا اور وہ تمام اصطلاحیں جو فارسی تاریخ گوئی میں رائج تھیں من و عن لے لیں۔ فارسی زبان میں تاریخ گوئی کو زیادہ مقبولیت ملنے کا سبب یہ تھا کہ فارسی کی مخصوص اصطلاحات اور الفاظ و تراکیب کو اعداد کے نقطۂ نگاہ سے برتنا قدرے آسان تھا۔ اس طرح یہ سلسلہ سودا سے شروع ہوکر ناسخ اور ان کے تلامذہ تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ ناسخ اور جرأت اس میدان کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔

اردو زبان کا ابتدائی دور دکنی دور کہلاتا ہے ۔ اس دور میں بھی فارسی کے زیراثر تاریخیں کہنے کا رواج ملتا ہے البتہ ناسخ کے یہاں دو چار تاریخیں اردو میں اور دکنی دور میں چند مثالیں اردو تاریخ گوئی کی بھی مل جاتی ہیں۔سودا کے یہاں بہت کم تعداد میں ہی سہی لیکن فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کے قطعات تاریخ بھی ملتے ہیں۔ سودا کے بعد اساتذۂ دہلی کے طبقۂ متاخرین میں جرأت کے یہاں سب سے زیادہ قطعات تاریخ ملتے ہیں۔ اسی عہد میں قائم چاندپوری، ممنون اور راسخ کے یہاں بھی چند قطعات کا ذکر ملتا ہے۔

مرکز شاعری لکھنؤ منتقل ہونے کے بعد ناسخ اور آتش کا زمانہ آیا،جس میں ناسخ کا نام فن تاریخ گوئی کے بنیاد گزاروں میں اس لیے بھی سر فہرست ہے کہ ان کے تلامذہ نے اپنے استاد کی اتباع کرکے ناسخ کا نام روشن کیا۔ ناسخ کے شاگردوں میں وزیر، برق، رشک، بحر،منیر، آباد اور طاہر وغیرہ میں سے اکثر نے تاریخ گوئی میں اہم کارنامے انجام دیے۔ اس وقت کے عظیم مرثیہ گو میر انیس او رمرزا دبیر نے بھی تاریخ گوئی کے سلسلے میں فارسی قطعات پر اکتفا کیا۔ غرضیکہ دبستان لکھنؤ کے طبقۂ متقدمین میں اردو تاریخ گوئی کو اتنا عروج نہ مل سکا جتنا کہ دبستان دہلی کی دوبارہ بحالی پر غالب و مومن کے عہد میں حاصل ہوا۔

غالب اور مومن سے قبل شاہ نصیر دہلوی کے یہاں بھی تاریخیں ملتی ہیں لیکن اکثر و بیشتر تاریخیں فارسی زمین میں ہیں۔ غالب کے یہاں بھی تاریخوں کی کثرت ہے۔ دیوان غالب ’نسخہ عرشی‘ میں اردو قطعات تاریخ کی تعداد چھ ہے۔ حصہ دوم ’نوائے سروش‘ میں دواور حصہ سوم ’یادگار نالہ‘ میں چار، جب کہ ان کے فارسی دیوان میں تاریخوں کی تعداد زیادہ ہے۔ فن تاریخ گوئی کے حوالے سے مومن خاں مومن کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ ان کے یہاں بھی فارسی قطعات کی کثرت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اردو تاریخ گوئی کو بھی نہایت بلند مقام عطا کیا۔ غالب کے بعد ان کے شاگردوں میں میرمہدی مجروح کے یہاں غالب کی نسبت زیادہ قطعات تاریخ ملتے ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر مکمل مصرعوں میں تاریخیں نکالی ہیں۔

1857کی جنگ آزادی کے بعد دہلی اور لکھنؤ کے بہت سے شعرا ریاست رام پور اور حیدرآباد منتقل ہوگئے یہ دور امیرمینائی اور داغ دہلوی کا تھا۔ ان دونوں غزل گو شعرا کے یہاں اردو قطعات تاریخ کی بہتات نظر آتی ہے۔ ان کے بعد اردو میں قطعات تاریخ گوئی کے سیاق میں جن شعرا کا نام سر فہرست ہے ان میں ضامن علی جلال لکھنوی، صفی لکھنوی، دل شاہجہان پوری، ریاض خیرآبادی، جوش ملسیانی، ہادی مچھلی شہری، جلیل حسن جلیل مانک پوری، نسیم لکھنوی، احسن مارہروی، سائل دہلوی، بیخود دہلوی، ولی حیدرآبادی،نفیس لکھنوی، وسیم حیرآبادی، رفعت بریلوی، وجاہت حسین وجاہت جھنجھانوی، مسعود حسن مسعود، حفیظ ہوشیارپوری، شان الحق حقی، عرشی امرتسری،رئیس امروہوی، شاہ لکھنوی وغیرہ شامل ہیں۔ فن تاریخ گوئی کو مولانا الطاف حسین حالی جیسے مجتہد شاعر نے بھی فروغ دیا۔ کلیات نظم حالی میں ان کے قطعات تاریخ کی تعداد سات ہے، جس میں تاریخ دربار قیصری کی طباعت اورمولانا محمد حسین آزاد کی تاریخِ وفات عمدہ مثالیں ہیں ۔ حالی نے غالب کی وفات کی تاریخ جو ان کی مشہور غزل کے شعر سے نکالی ہے،وہ اس طرح ہے:

ناگاہ دی یہ غالب مرحوم نے صدا

سچ ہے کہ خواجہ راہنمائی میں فرد تھا

تاریخ‘ ہم نکال چکے پڑھ بغیر ’فکر

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

1285

آخری شعر سے 2796 کا عدد برآمد ہورہاتھا، لیکن اس میں سے ’فکر‘ کے 300 اور ’تاریخ‘ کے 1211 اعداد منہا کردیے گئے، اب نئی صورت میں1285 کا عدد برآمد ہورہا ہے، جو غالب کا سنہ وفات ہے۔اس طرح حالی نے بعض اعداد نکال کر پھراس میں سے بعض اعدادکو منہا کرکے متعینہ تاریخ برآمد کی ہے،جو قطعات تاریخ کی تکنیک میں نیا اضافہ ہے۔

مصادر مراجع:

1        قطعات ورباعیات، ترکیب بند از غلام رسول مہر، مجلس یادگار غالب لاہور 1969

2        فن تاریخ گوئی اور اس کی روایت، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور1984

3        اردو رباعی: فنی وتاریخی ارتقاڈاکٹر فرمان فتح پوری، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، طبع دوم1982

4        اردو میں قطعہ نگاری، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، پولیمر پبلی کیشنز، لاہور 1975

5        اردو رباعیات، ڈاکٹر سلام سندیلوی، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ، طبع اول 1963

 

Abdul Qavi

Asst Prof. Azeem Memorial

PG College, Biswan

Sitapur- 261201 (UP)

Mob.: 6396932929

 

چریہ پد: بودھ سادھوؤں کی شعری روایت، مضمون نگار: سہیل ارشد

 اردو دنیا، اکتوبر 2024

چریہ پد بودھ سادھوؤں کے صوفیانہ نغمے ہیں جن میں بودھ مذہب کے مہایان فرقے کے فلسفۂ نجات کو شعری پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ بودھ سادھو ان نغموںکو مذہبی تقریبات میں گاتے تھے۔ ان گیتوں میں تشبیہوں، استعاروں اور بودھ مذہب کی مخصوص اصطلاحوں کا فنکارانہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے مذہبی موضوعات پر لکھے گئے یہ گیت ادبی فن پاروں کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ ان گیتوں میں ایک خاص اسلوب کا استعمال کیا گیا ہے جسے سندھیا بھاشا کہا جاتا ہے۔ ان گیتوں میں مرتاضوں کے لیے رہنما اصول اور طریقۂ ریاضت کا بیان ہے۔ تمثیلوںکا استعمال ان گیتوں کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ ان کی وجہ سے چریہ گیتوں میں معنی کی دو سطحیںملتی ہیں۔ ظاہری اور داخلی۔ یہاں دو چریہ پدوں کا اردو ترجمہ پیش ہے۔

(1)

نصف شب کو کنول کھلا

بتّیس یوگینیوں کا تن بد مست  ہو گیا

اودھوتی مارگ میں چاند اترا

مرشد کی رہنمائی میںسہج کا فلسفہ کہتا ہوں

چاند بہتا ہوا نروان میں داخل ہوا

کملینی کمل بہاؤ میں ہے

ورام آنند خالص اور انوکھا

وہی بدھ ہو گیا جو اسے سمجھا

بْھُسکو کہتا ہے میںملن میںسمجھا

مہا سکھ کے کھیل میں ہی سہجانند ہے

(شاعر:بھُسکوپاد)

(2)

جہاں اونچے پربت ہیں وہیں شبری حسینہ رہتی ہے

وہ مور کے پنکھ اور گْنجا پھول کی مالا پہنتی ہے

وحشی شبر،پاگل شبر،شور نہ کر فریاد نہ کر

(میں) تیری گھر والی، نام سہج سندری

مختلف پھول اس پیڑ پر کھِلے ہیں اور پیڑ آکاش چھوتا ہے

شبری تنہا اس دشت میں پھرتی ہے

کان کی بالی پہنتی ہے یہ وجر دھاری

تین دھاتوں کی کھاٹ بچھائی گئی، شبر نے مہا سکھ کا سیج سجایا

عاشق شبر اور شبری نیرا منی نے عشق میں شب بسر کی

دل پان کا پتّہ ہے مہا سکھ کا کافور کھاتا ہے

وہ شونیہ نیرامنی کو حلق میں لے کر مہا سکھ میں شب بسر کرتا ہے

مرشد کی ہدایت کو کمان بناؤ اور اپنے من کو تیر

اور ایک ہی وار میں نروان کو چھید ڈالو

بد مست شبر پہاڑ کی چوٹی پر گْم‘ ڈھونڈوگے کیسے

(شاعر:شبرپاد)

ان گیتوں کی دریافت بنگلہ زبان کے ادیب و محقق پنڈت ہر پرساد شاستری نے 1907میںکی۔ انھیں نیپال کی شاہی لائبریری سے دوسرے مخطوطوں کے ساتھ پچاس چریہ پدوںکا ایک مخطوطہ ملا۔ وہ ایشیاٹک سوسائٹی لائبریری کلکتہ کے شعبۂ مخطوطات سے وابستہ تھے۔ انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں نیپال اور تبّت میں بودھ مذہب سے متعلق سنسکرت مخطوطے اور کتابیں دریافت ہوئیں۔ پنڈت ہر پرساد شاستری کو بنگلہ ادب کی کم مائیگی اور تنگ دامانی کا احساس تھا۔ اس احساس کا اظہار انھوں نے اپنی کتاب ’بودھ گان و دوہا‘ کے دیباچے میںکیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’جس دور میں ہر چہار طرف بنگلہ اسکول قائم کیے جا رہے تھے اور لوگ ودیاساگر مہاشہ کی ورن پریچے، چرتاولی اور کتھا مالا پڑھ کر بنگلہ سیکھ رہے تھے اس دور میں وہ یہی سمجھتے تھے کہ ودیا ساگر مہاشہ ہی بنگلہ زبان کے جنم داتا ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ صرف انگریزی کے ترجمے پڑھتے تھے۔ ان کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ بنگلہ زبان کا اپنا ادب بھی ہے اور اس کی اپنی ایک تاریخ بھی ہے۔ اس کے بعد یہ بھی سننے میں آیا کہ ودیا ساگر مہاشہ کی آمد سے قبل رام موہن رائے اور گُڑے گُڑے بھٹاچاریہ نے بھی بنگلہ ادب کی بہت خدمت کی اور ان خدمات کی دستاویز بھی موجود ہے۔ اسی سلسلے میں رام گتی نیائے رتن مہاشہ کی تصنیف ’بنگلہ زبان کی تاریخ‘ بھی شائع ہوئی۔ اس میںکاشی رام داس، کیرتی باس، کوی کنکن جیسے بنگلہ کے کئی قدیم شعرا کا تذکرہ تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بنگلہ زبان میں تین سو سال قبل کچھ نظمیںلکھی گئی تھیں۔ وہ بھی کچھ خاص اہمیت کی حامل نہیںتھیں۔ وہ زیادہ تر سنسکرت سے ترجمہ شدہ تھیں۔ رام گتی نیائے رتن کی دیکھا دیکھی اور بھی دو چار بنگلہ ادب کی تواریخ منظر عام پر آئیں لیکن وہ سب نیائے رتن مہاشہ کے ہی بنائے ہوئے سانچے میں ڈھلی تھیں۔ ان سب تاریخی حقائق کے باوجود اسّی فی صد افراد کا تصور یہی تھا کہ بنگلہ ایک جدید زبان ہے۔ اس لیے اس میں تمام طرح کے خیالات کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ اس میں ترجمے کے علاوہ کچھ نہیں چل سکتا۔ غور و فکر کر کے کوئی نیا موضوع اس میں پیش نہیںکیا جا سکتا اور اگر لکھا بھی جائے تو نئی بات پیش کرنے کے لیے نئی عبارت آرائی کرنی پڑتی ہے اور اس کے لیے اسے یا تو انگریزی یا پھر سنسکرت کے سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ بہت دماغ سوزی کرنی پڑتی ہے۔ ‘‘        

(بودھ گان و دوہا از پنڈت ہرپرساد شاستری، بنگیہ ساہتیہ پریشد، کلکتہ 2021)

لہٰذا، وہ بنگلہ زبان کی قدیم کتابوں اور مخطوطوں کی تلاش و جستجو میں لگے رہتے تھے۔ نیپال اور تبّت میں بودھ مذہب سے متعلق سنسکرت مخطوطوں کی دریافت سے ان کے دل میں یہ امید بندھی کہ نیپال اور تبّت میں بنگلہ زبان کی کتابیں اور مخطوطے بھی ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، انھوں نے اپنے معاونین کو بنگلہ زبان و ادب کی قدیم کتابوں اور مخطوطوں کے حصول کی اہمیت بتائی اور خود 1897 اور 1898 میں نیپال گئے۔ وہاں انھیں دربار لائبریری سے کئی سنسکرت مخطوطے ملے۔  1907  میں وہ تیسری بار نیپال گئے اور اس بار انھیں بودھ مذہب و ادب سے متعلق چار مخطوطے ملے۔ وہ چار مخطوطے تھے سراہا پاد کا دوہا کوش، کرشنا چاریہ یاکا مہاپاد کا دوہا کوش، چریہ اچریہ پتکا اور ڈاکا رنب  (ڈاکارنب کا معنیٰ بحر حکمت ہے، یہ اپ بھرنش میں بودھ تنتر کی کتاب ہے) پنڈت ہر پرساد شاستری نے ان چاروں مخطوطوںکی زبان کو قدیم بنگلہ زبان قرار دیا اور 1916 میں بنگیہ ساہتیہ پریشد کے زیرِاہتمام ’ہزار برس میں قدیم بنگلہ زبان میں بودھ گان و دوہا‘ کے نام سے ایک ساتھ شائع کیا۔ چریہ اچریہ ٹیکا کو انھوں نے چریہ اچریہ ونشچئے کا نام دیا جب کہ یہ نام مخطوطے میںکہیں درج نہیں تھا۔ یہی چریہ اچریہ ٹیکا پچاس چریہ پدوں کا مخطوطہ تھا۔

چریہ پدوں کے اس مخطوطے کے سرورق پر ناگری رسمِ خط میں ’چریہ اچریہ ٹیکا‘ لکھا ہوا تھا اور اس پرسرخ روشنائی سے تاریخ741بھاد سمبت لکھی ہوئی تھی جس سے عیسوی سنہ 1620-21نکلتا ہے۔ اس سے قیاس لگایا گیا کہ نیپال کی شاہی لائبریری میں اس مخطوطے کو 1620 یا 1621میںمحفوظ کیا گیا تھا۔ مخطوطے کا اندراج نمبر 402تھا۔ چریہ پدوں کے اس مخطوطے میں اصلاً پچاس چریہ پد تھے لیکن اس کے کچھ صفحات غائب تھے۔ اس لیے چریہ پد22کا نصف متن، چریہ پد24، چریہ پد 25 اور چریہ پد 48 کا پورا متن دستیاب نہیں تھا۔ بعد کے دور میں بنگلہ زبان کے محقق پربودھ چندر باگچی نے اسی مخطوطے کا تبّتی ترجمہ دریافت کیا جس میں ان چاروں چریہ گیتوں کا بھی تبّتی ترجمہ موجود تھا۔ لہٰذا، ان ترجموںکی مدد سے ان چاروں نایاب چریہ گیتوںکا بنگلہ متن تیار کر لیا گیا۔

پنڈت ہر پرساد شاستری نے چریہ گیتوں کا جو مخطوطہ نیپال سے دریافت کیا تھا اس میں ہر چریہ پد کے ساتھ اس کی سنسکرت شرح بھی دی ہوئی تھی لیکن مخطوطے پر سنسکرت کے شارح کا نام موجود نہیں تھا۔ پربودھ چندر باگچی کے ذریعے دریافت شدہ تبتی ترجمے اور شرح کے مخطوطے پر ان کے شارح کا نام مُنی دت درج تھا۔ منی دت کی حیات کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ ان کا دورِ حیات تیرھویں صدی عیسوی تھا۔ ان کی سنسکرت شرح میں اس دور کی مختلف کتابوں کے اقتباسات اور مشہور شاعروں کے اشعار کی موجودگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور کے ایک بڑے عالم تھے اور بودھ مذہب اور اس کے فلسفے کا گہرا علم رکھتے تھے۔ نیز فنِ شاعری پر بھی ان کی گرفت مضبوط تھی۔

پربودھ چندر باگچی کے ذریعے دریافت شدہ مخطوطے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بودھ سِدّھوں نے مختلف ادوار میںتخلیق کیے گئے ایک سو نمائندہ چریہ گیتوں کا انتخاب ترتیب دیا تھا۔ اس انتخاب کو چریہ گیتی کوش کہا گیا۔ بودھ مذہب کے عالم اور استاد اچاریہ منی دت نے ان ایک سو چریہ گیتوں میں سے پچاس گیتوںکا انتخاب کر کے ان کی سنسکرت شرح اپنے شاگردوںکی درسی ضروریات کے تحت لکھی تھی۔ انھوں نے اپنی سنسکرت شرح کا نام ’نَرمل گِرا‘ رکھا تھا۔

یہ چریہ گیت اور اس کی سنسکرت شرح بودھ دھرم کے طالب علموں میں بہت مقبول تھی۔ اس لیے بعد کے دور میںطلبہ کی سہولت کے لیے چریہ پدوں اور ان کی سنسکرت شرحوں کو ملا کر ایک مخظوطہ تیار کیا گیا اور اس کی متعدد نقلیں تیار کر لی گئیں۔ ان مخطوطوںکو چریہ گیتی کوش وِرِتّی کہا گیا۔ ان مخطوطوں میں ہر چریہ گیت کے ساتھ اس کی سنسکرت شرح دی ہوئی تھی۔ پنڈت ہر پرساد شاستری نے جو مخطوطہ دریافت کیا تھا وہ اسی چریہ گیتی کوش ورتّی کی ایک نقل تھا۔ مگر پنڈت ہر پرساد شاستری نے اس مخطوطے کا نام اپنی طرف سے چریہ اچریہ ونشچئے رکھا جب کہ مخطوطے پر اس کا نام چریہ اچریہ ٹیکا لکھا ہوا تھا۔

چریہ پدوں میں جو اسلوب و انداز بیان استعمال کیا گیا ہے اسے اچاریہ مُنی دت نے سندھیا بھاشا کی اصطلاح عطا کی۔ جس طرح سندھیا (شام) کے دھندلکے میں اشیاصاف طور پر نظر نہیں آتیں اسی طرح ان چریہ پدوںکا معنی و مفہوم ایک عام قاری پر پوری طرح واضح نہیں ہوتا۔ اس زبان و اسلوب کی وجہ سے چریہ گیتوں میں گہرائی، معنویت، تہہ داری اور تحیّر کا عنصر پیدا ہو گیا ہے اور چریہ گیت صرف مذہبی گیت نہیں رہ گئے ہیں بلکہ انھوں نے اعلیٰ ادبی فن پاروںکا درجہ حاصل کر لیا ہے۔

ہندی اور بنگلہ کے محققین نے ان چریہ پدوںکا دورِتخلیق آٹھویں صدی سے بارہویں صدی عیسوی قرار دیا ہے۔ چریہ پدوں کی زبان بنگلہ، میتھلی، اُڑیا اور آسامی کی ابتدائی شکل ہے۔ بنگلہ زبان کے ماہرین نے چاروں مخطوطوں کی زبان کے لسانیاتی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سراہا پادکادوہا کوش، کانہاپاد کا دوہا کوش اور ڈاکارنب قدیم بنگلہ زبان میں نہیں بلکہ اپ بھرنش میں ہیں اور صرف چریہ پدوں کا مخطوطہ قدیم بنگلہ زبان میں ہے۔ بہر حال، چریہ پدوں میں کسی بھی ایک ہندستانی زبان کی واضح صورت نہ ہونے کی وجہ سے مختلف ہندستانی زبانوں کے ماہرینِ لسانیات نے انھیں اپنی زبان کا اوّلین ادبی سرمایہ قرار دیا۔ مثال کے طور پر میتھلی زبان کے ادیب و محقق جے کانت مشرا نے چریہ پدوں کو میتھلی زبان کی اولین شعری تخلیق قرار دیا جب کہ راہل سنکر تائن اور دھرم ویر بھارتی نے چریہ پدوںکی زبان کو ہندی قرار دیا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ میتھلی زبان کے عظیم ادیب جیوتریشور ٹھاکر نے 1324میں تصنیف کردہ اپنی کتاب ’ورن رتناکر‘ میں ابہٹ بولی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ابہٹ بولی چند اپ بھرنش اور جدید ہندستانی زبانوں بنگلہ، اڑیا، میتھلی اور اسمیا کی ابتدائی مخلوط شکل ہے۔ ابہٹ کی خصوصیات میں الفاظ کے وسط یا آخر میں نون غنّہ اور ’س‘ کی جگہ ’ہ‘ کی آواز کا استعمال ہے۔ چریہ پدوںکی زبان میں یہ خصوصیات نمایاں ہیں۔ بنگلہ زبان کے ماہر لسانیات اور محقق سْنیتی کمار چٹرجی نے چریہ پدوں کی زبان اوراس کے رسمِ خط کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد اسے قدیم بنگلہ زبان قرار دیا ہے۔ ان گیتوں میں قدیم بنگلہ زبان کے عناصر اور اس کی نحوی ساخت نمایاں ہیں۔ نیز ان میں مستعمل کچھ محاورے آج بھی بنگلہ زبان کا حصّہ ہیں۔  انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اس قدیم بنگلہ زبان میں شورسینی اپ بھرنش کا اثر نمایاں ہے۔ تاڑ کے پتوں کا یہ مخطوطہ جس رسمِ خط میںلکھا ہوا ہے وہ جدید بنگلہ خط سے بہت حد تک مشابہ ہے۔ اس رسمِ خط کو کوٹل لپی کہتے تھے جو ہندستان کے مشرقی خطے بشمول نیپال میں ساتویں صدی سے بارہویں صدی کے درمیان رائج تھا۔ کوٹِل رسمِ خط کو ہندی، بنگلہ اور اسمیا کی ابتدائی شکل مانا جاتا ہے۔

چریہ پدوں کے مخطوطے پر ناگری رسمِ خط میں’چریہ اچریہ ٹیکا‘ لکھا ہوا تھا۔ اس سے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب یہ مخطوطہ تیار کیا گیا تھا اس وقت قدیم بنگلہ رسم الخط رائج تھامگر جب مخطوطہ نیپال کی دربار لائبریری میںمحفوظ کیا گیا تب تک سرکاری زبان ناگری بن چکی تھی۔ اس لیے شاہی لائبریری کے لائبریرین نے اس کا اندراج کرتے وقت اس کی شناخت کے لیے سرورق پر ناگری رسم الخط میں ’چریہ اچریہ ٹیکا‘ لکھ دیا۔ واضح ہو کہ چریہ پد کا مخطوطہ تیرہویں صدی کے اواخر یا چودھویں صدی کے اوائل میںتیار ہوا تھا۔

چریہ پد چونکہ گیت ہیں اور انھیں مذہبی تقریبات میں یا سادھوؤں کے اجتماعات میں گایا جاتا تھا اس لیے مخطوطے میں ہر گیت کے خالق کے نام کے ساتھ اس گیت کے لیے مخصوص راگ کا نام بھی درج ہے۔ ان گیتوں کو جن راگوں سے سجایا گیا ہے ان کے نام درج ذیل ہیں:

راگ پٹ منجری، راگ گبڑا، راگ ارو، راگ گرجری، راگ دیب کِری، راگ دیشاکھ، راگ بھیروی، راگ کامود، راگ دھنسی، راگ رام کری، راگ بھیرب، راگ براڑی، راگ شبری، راگ مْلّاری، راگ مالشی، راگ مانسی گبڑا، راگ کنہو گجری، راگ بنگال اور راگ اندر تال۔

بارہویں صدی میں بنگال کے مشہور سنسکرت شاعر جے دیو نے سنسکرت میں گیت گوبند نامی طویل نظم لکھی جو کئی ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کا ہر باب کسی مخصوص راگ پر مبنی ہے۔ اس میں جن راگوں کا ذکر آیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

راگ مالوگوڑا، راگ منگل گرجری، راگ رام کِری، راگ گرجری، راگ دیشاکھ، راگ بھیربی، راگ دیسی براڑی۔ مندرجہ بالا سارے راگ چریہ پدوں کو بھی گانے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ چریہ گیت بنگال کی ہی قدیم زبان و ثقافت کا حصہ ہیں۔ اس دور میں بنگال میںمذہبی گیتوں کے لیے یہی راگ مستعمل تھے۔ اس کے علاوہ ان گیتوں میں مختلف سازوں کے نام بھی آئے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ چریہ گیتوں کو سازوں کے ساتھ گایا جاتا تھا۔ بینا، کرتال، شنکھ، ڈمرو، ڈھول،نگاڑا،پکھاوج وغیرہ کا ذکر کئی گیتوں میںآیا ہے۔

چریہ پدوں میںمصرعوں کی تعداد عام طور پر دس ہوتی ہے۔ لیکن کچھ چریہ پدوںمیںمصرعوں کی تعداد اٹھارہ، بارہ اور چودہ بھی ہے۔ شبر پاد کے دو چریہ پد اس مجموعے میں شامل ہیں اور دونوں میں مصرعوں کی تعداد چودہ ہے۔ بھُسکو پاد کے بھی دو چریہ پد اس میں شامل ہیں۔ چریہ پد 21میں مصرعوں کی تعداد بارہ ہے جبکہ چریہ پد 43میںمصرعوںکی تعداد صرف 8 ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بودھ شعرا چریہ پدوں میںمصرعوںکی تعداد کی پابندی کو لازمی نہیںسمجھتے تھے۔ ان کا سارا زور مضمون اور خیال کی ترسیل پر ہوتا تھا۔ کانہوپاد بھی مصرعوںکی تعداد کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ ان کا ایک چریہ (چریہ10) چودہ مصرعوں پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا چریہ پد10 مصرعوں پر مشتمل ہے۔

پنڈت ہر پرساد شاستری کی کتاب ’بودھ گان و دوہا‘ نے بنگلہ کے ادبی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ ان مخطوطوں خصوصاً چریہ پدوںکی دریافت نے بنگلہ زبان و ادب میں موجود خلا کو پر کر دیا اور اس کی قدامت کو ثابت کیا۔ اس کتاب کی اشاعت سے بنگلہ زبان و ادب کی تاریخ کی کتابیں فرسودہ قرار پائیں اور بنگلہ زبان و ادب کی تاریخ نئے سرے سے لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ بنگلہ داں طبقے کو بنگلہ ادب کی کم مائیگی کا جو احساس تھا وہ چریہ پدوںکی دریافت سیدور ہو گیا۔ ان کی زبان اور ادبی قدر و قیمت پر تحقیقی و تجزیاتی کام ہونے لگا۔بنگلہ ادب کے محققین اور ماہرینِ لسانیات نے متفقہ طور پر چریہ پدوں کو بنگلہ زبان کا اوّلین ادبی نمونہ قرار دیا۔

ہندستانی ادب خصوصاً بنگلہ ادب میں چریہ پدوںکی اہمیت ان کی مذہبی نوعیت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی قدامت اور شاعری کے اعلیٰ نمونوں کی حیثیت سے ہے۔ ان کی ادبی قدر و قیمت اس لیے بھی ہے کہ ان کی وجہ سے بنگلہ زبان کے ارتقا میں گم شدہ کڑیوں کی بازیافت ممکن ہو سکی۔ چریہ پدوں نے بنگلہ شاعری ہی کو نہیںبلکہ ہندستانی شاعری کو بھی بہت حد تک فکر و اسلوب کی سطح پر متاثر کیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بودھ شاعری کے ان نمونوں سے ہندستان کی بعد کی متاخر شعری روایتوں مثلاً ناتھ شاعری، بنگال کی باؤل شاعری، ویشنو شاعری اور اسلامی صوفیانہ شاعری نے فیض حاصل کیا۔ امیر خسرو، بابا فرید، کبیر، لالن فقیر، میرا بائی و دیگر صوفی شاعروںکی شاعری پر چریہ پدوںکا اثر بیش و کم دیکھا جا سکتا ہے۔

 

Suhail Arshad

Mirza Ghalib Street

Rajabaandh

P. O. Raniganj- 713347 (West Bengal)

Mob.: 9002098517

s_arshad7@rediffmail.com

           

1/11/24

بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی، مضمون نگار: یاسمین رشیدی

 اردو دنیا، اکتوبر2024

بیتال پچیسی کو 1803/1805 میں مظہر علی خاں ولا نے اردو میں منتقل کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ کہانیاں راجا جے سنگھ سوائی،جے نگر کی فرمائش پر سورت تام کبیشور نے سنسکرت سے برج بھاشا میں منتقل کی تھی۔ ڈاکٹر گیان چند جین 1نے ان کا نام سورتی مشر لکھاہے جبکہ گوہر نوشاہی نے صورت نام کیشور2اور جمیل جالبی نے سورت تام کبیشوربتایاہے:

ولا نے لکھا ہے کہ’بیتال پچیسی‘ کو راجا جے سنگھ سوائی کے کہنے سے سورت تام کبیشورنے سنسکرت سے برج بھاشا میں کہا۔3

یہ کہانیاں سنسکرت کی کلاسیکی روایت کتھا سرت ساگر(1063-1081) (سوم دیو) اور برھت کتھا (گناڈھیہ)پراکرت میں لکھی گئی) کا ایک سلسلہ/حصہ کہی جا سکتی ہیں۔گیان چند جین نے اپنی کتاب ’اردو کی نثری داستانیں ‘ میں بارھویں اور چودھویں صدی کے درمیان بیتال پچیسی کے مرتب ہونے کی بات لکھی ہے۔ انھوں نے اس سے پہلے اس قصہ کے شمیندر اورسوم دیو کی کتابوں میں شامل ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔جبکہ سنگھاسن بتیسی کا زمانہ تصنیف انھوں نے تیرھویں صدی یا اس کے بعد کا زمانہ بتایا ہے:

قصوں کا ایک عظیم مخزن گناڈھیہ کی برہت کتھا تھی جو پشاچی پراکرت میں لکھی گئی۔ یہ 500ء سے بعد کی نہیں۔ اب یہ ناپید ہے۔ اس کا آخری یعنی آٹھواں حصہ سنسکرت تراجم کے ذریعے محفوظ رہ گیا ہے۔ ان میں سب سے پہلا بدھ سوامی کا برہت کتھا اشلوک سنگرہ ہے جو آٹھویں نویں صدی عیسوی کا ہو سکتا ہے۔ گیارھویں صدی میں شمیندر نے برہت کتھامنجری کے نام سے مختصر منظوم ترجمہ کیا۔1063-1081کے بیچ سوم دیو نے اپنی مشہور زمانہ کتاب کتھا سرت ساگر لکھی۔بارھویں اور چودھویں صدی کے درمیان بیتال پچیسی مرتب ہوئی۔لیکن اس سے پہلے یہ شمیندر اور سوم دیو کی کتابوں میں بھی شامل تھی۔تیرھویں صدی میں یا اس کے بعدسنگھاسن بتیسی تصنیف ہوئی۔  4

 گیان چند نے اپنی اس کتاب میں ’طوطاکہانی‘ کی چوبیسویں کہانی کا ذکر کیا ہے جو کم و بیش ذرا سے فرق کے ساتھ بیتال پچیسی کی ایک کہانی ہے۔ گوپی چند نارنگ نے بیتال پچیسی کو لوک کہانیوں کے زمرے میں رکھا ہے۔ یہ لوک کہانیاں ادبی روایت میں نہ صرف اہم مقام رکھتی ہیں بلکہ ادب میں ہندوستان کے اس کلچر کی ترجمانی کرتی ہیں جو اس کی مخصوص شناخت سے عبارت ہے۔ ان کہانیوں میں ہندوستان کی مٹی بولتی ہے،ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی ندیاں بہتی ہیں۔ یہ کہانیاں قدیم ہندوستان کے تمدن کا بیانیہ ہیں۔

کہانیوں کی روایت ہندوستان میں بہت پرانی ہے۔ تحریر کردہ کہانیوں سے الگ کہانی سننے اور سنانے کی روایت بھی کافی پرانی ہے۔ علاقائی زبانوں میں مشہور قصے اس لوک روایت کی ترجمانی بھی کرتے ہیں جس کی بوقلمونی کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی۔ عوامی روایت کی نظیر یہ کہانیاں اپنی اصل میں اس تہذیب کی پروردہ ہیں جس کے لیے ہندوستان جانا جاتا ہے۔ بوقلمونی جس کی تہذیبی خصوصیات میں داخل ہے۔ عوامی قصے، سنسکرت کی کتھا روایت، عربی فارسی کہانیوں کے اثرات، ہندوستانی کہانیوں نے ہر اثر کو آتم سات کیا۔ اسے اپنے رنگ میں ڈھالا اور ایک نیا قالب عطا کیا۔

کچھ کہانیاں ہندوستانی مٹی میں پیدا ہوئیں تو کچھ نے یہاں کی مٹی میں کھیل کر اپنے خدوخال پائے ہیں۔ ان طبع زاد قصوں کہانیوں میں وہ روایات بھی داخل نظر آتی ہیں جو خالص ہندوستانی نہیںبلکہ ہندوستانی روایت سے مل کر ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے، جس میں ہندوستانی روایت بھی ہے اور اس کا مخصوص رنگ بھی۔

تمام انسانی علم ان کہانیوں پر منحصر ہے، جنھیں ماضی کے تجربات کے گرد تشکیل دیا جاتا ہے اور نئے تجربات کی تفہیم و تعبیر پرانی کہانیوں کے معنوی سیاق میں کی جاتی ہے۔5

بیتال پچیسی میں25 کہانیاں ہیںجو بیتال (لاش/ بھوت)راجا بکرماجیت کو سناتا ہے۔بیتال اپنی ہر کہانی کے آخر میں بکرماجیت سے ایک سوال پوچھتا ہے۔جس کا جواب بکرماجیت کی سوجھ بوجھ اور علم و دانش سے عبارت ہے۔یہ کہانیاںہندوستانی مٹی میں سانس لیتی ہیں۔نصائح اوراخلاقی درس ہر کہانی میں موجود ہے۔ برسوں کے انسانی تجربات و مشاہدات کو پیش کرتی یہ کہانیاں زندگی اور اس کے رمز کا بیانیہ کہی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر پندرھویں کہانی میںراجکمارکہتا ہے: ’’برکش چھایا کرتے ہیںدوسروں کے اوپر اور آپ دھوپ میں بیٹھتے ہیں۔پھولتے پھلتے ہیں پرائے واسطے۔بھلے لوگوں اور برکشوں کا یہی دھرم ہے۔جو یہ دیہہ غیر کے کام نہ آوے تو اس شریر سے کیا پروجن ہے۔مثل مشہور ہے کہ جوں جوں چندن کو گھستے ہیں، توں توں دونی سگندھ دیتا ہے۔‘‘

اکیسویں کہانی میں ایک مثال کچھ یوں ہے کہ ’’بدھ بنا بدّیاکسی کام کی نہیں۔بلکہ بدیا سے بدّھ بڑھ کر ہے اور بُدّھ ہین اسی طرح مرتے ہیں جیسے سنگھ کے ِجلانے والے موئے۔‘‘ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عقل کے بنا علم کسی کام کا نہیں ہوتا۔علم و حکمت کی اسی طرح کی کئی باتیں ان کہانیوں میں موجود ہیں۔ ایک کہانی میں اچھے لوگوں کی پہچان یوں بیان کی گئی ہے:

اتم لوگ جو ہیں سو پران جانے سے بھی اپناسُبھاؤ نہیں چھوڑتے۔انھیں کسی نے بھلاکہا تو کیا اور بُرا کہا تو کیا۔دولت رہی تو کیا جو نہ رہی تو کیا۔ابھی مرے تو کیا اور پھر مرے تو کیا۔جو لوگ نیاؤ کی ریت سے چلتے ہیں کچھ ہو اور راہ پر پاؤں نہیں دھرتے۔غرض جس کی شریر میں اپکار نہ ہو اس کا جینا نرپھل ہے۔ 6

قدیم ہندوستانی سماج بیتال کی کہانیوں میں نمایاں ہے۔ کہاوتیںاور محاورے بھی اپنے مخصوص سماج کی عکاسی کرتے ہیں۔بیتال پچیسی کی کہانیاں قدیم ہندوستانی سماج اور ہندوستانی تہذیب و تمدن کی کہانیاں ہیں۔ سولھویں کہانی میںدھوماوتی کی خوبصورتی کا بیان دیکھیے:

حسن ایسا گویا اندھیرے گھر کا اجالا۔آنکھیں مرگ کی سی،چوٹی ناگنی سی۔بھویں کمان کی سی۔ناک طوطے کی سی۔بتیسی موتی کی سی لڑی۔ہونٹھ کندوری کے مانند،گلا کپوتھ کا سا،کمر چیتے کی سی،ہاتھ پاؤں کومل کنول کے سے،چندرمکھی چمپک برنی، ہنس گنی،کوکل بینی۔جس کے روپ کو دیکھ اندر کی اپسرا بھی لجائے۔ 7

ہندو دیومالااورتہذیب و ثقافت کامخصوص رنگ ان کہانیوں میں موجود ہے۔اخلاقی درس سے پُر یہ کہانیاں ایک ایسے معاشرے میں سانس لیتی ہیں جہاں ہر شخص کسی مخصوص طبقے کی نمائندگی کرتا ہے اور سماج نے اس طبقے کی خصوصیات طے کر رکھی ہیں۔ایک مثال دیکھیے:

راجہ نے کہا جیموت باہن ذات کا چھتری ہے۔اسے جی دینے کا ابھیاس ہو رہا ہے۔اس سے اسے جان دینی کچھ کٹھن نہ معلوم دی۔ 8

یعنی چھتری کے لیے اپنی جان دینا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ یہ خوبی ان کے گروہ سے وابستہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ خوبیاں کسی اور میں نہیں ہو سکتیں۔پندرھویں کہانی میںسنکھ چوڑ کا کردار مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

ہر فرداپنے گروہ/ طبقے کے مطابق مختلف خصوصیات کا حامل نظر آتا ہے۔مثلاراجا کو کیسا ہونا چاہیے،راج دھرم کیا ہے، عورت،مرد، سیوک کا دھرم کیا ہونا چاہیے۔ جہاں سیوا کے دھرم کویوگ دھرم سے بھی مشکل قرار دیا گیا ہے وہیںاسجّن سوامی کی سیوا کو برا بھی کہا گیا ہے۔ غرض کہ ہر شخص کی خصوصیات سماج/شاستروں نے طے کر رکھی ہے اور اس پر کھرا نہ اترنے کی صورت میں وہ لعن طعن کا مستحق ہے۔ برا کرنے والوں کا برا انجام اور اچھا کرنے والوں کا اچھا انجام گویا ان کہانیوں کا اخلاقی درس ہے۔

ہندوستانی پس منظر میں لکھی یہ کہانیاں زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کرتی ہیں۔قدیم ہندوستانی سماج کے راجا مہاراجا کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگی اور سماج کا عکس بھی ان کہانیوں میں موجود ہے۔ہندو تہذیب و معاشرت کا مخصوص رنگ ان کہانیوں میں نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ قصہ در قصہ کی تکنیک بیتال پچیسی کی کہانیوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔تمام کہانیاں بیتال سناتا ہے۔ آخر میں راجا کی بہادری اور سوجھ بوجھ سے خوش ہوکر راجاکو جوگی کی حقیقت اور اسے مارنے کا طریقہ بھی بتا دیتا ہے۔

بیتال پچیسی کا ابن آدم کا کیا ہوا ترجمہ مظہر علی خاں ولا کے نول کشور پریس سے شائع شدہ نسخے، وقار عظیم کے ترتیب کردہ نسخے اورگوہرنو شاہی(مرتبہ)والے نسخے سے کافی مختلف ہے۔ کئی جگہ کہانی اور واقعہ میں تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔مثال کے طور پر پہلی کہانی کو ہی لے لیں۔ابن آدم والے ترجمے میں کہانی کے آخر میںپدماوتی کے والدین کی موت کا ذکر ہے اور بیتال کا سوال بھی اسی پر مبنی ہے۔جبکہ باقی  نسخے میں پدماوتی کے والدین کی موت کا ذکر نہیں ہے۔ اور والدین بھی ابن آدم والے ترجمے سے الگ ہیں۔گوہر نوشاہی،وقار عظیم والا نسخہ نول کشور پریس والے نسخے سے قریب ہے لیکن ابن آدم والے ترجمے میں کم و بیش ہر کہانی تبدیل نظرآتی ہے۔مترجم کے مطابق:

 مراٹھی زبان کے مذکورہ بالا نسخے،ایک ہندی و انگریزی نسخے اور چند تحقیقی و تنقیدی کتب سے استفادہ کرکے میں نے ان قصوں کو حالیہ اردو زبان کا حسین پیرہن عطا کرنے کی سعی کی ہے۔ 9

ممکن ہے مراٹھی زبان میں انھیں یہ کہانیاںاسی صورت میں ملی ہوں۔زبان و بیان کی بات کریں تو ’اردو وانے ‘کے عمل میںکہانیوں کا پس منظر،قدیم ہندوستانی تہذیب جو بیتال پچیسی کی کہانیوں کی خصوصیت ہے، فوت ہو گئی ہے۔علم و حکمت کی وہ باتیں جو برسوں کے انسانی تجربے کے بعد سماج میں رواج پاتی ہیں،جن سے انسان کے تجربے اور علم و حکمت کا پتہ چلتا ہے، اور جو بیتال پچیسی کی کہانیوں کی ایک نمائندہ خصوصیت کہی جا سکتی ہیں، انھیں بھی ابن آدم نے اپنے ترجمے سے باہر رکھا ہے۔ یہ ترجمہ مظہر خاں ولا والی بیتال پچیسی سے بہت دور نظر آتا ہے اورشاید اپنی الگ شناخت قائم کرنے کے چکر میں اپنی شناخت سے ہی محروم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو:

اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی فضا ثقیل اردو کی تاب نہیں لا سکتی۔کیوں کہ ان میں سنسکرت عہد کی تہذیب کا بیان ہے جس کے لیے آسان زبان ہی زیادہ مناسب ہے،ایسی زبان جس میں نہ زیادہ عربی فارسی ہو نہ اجنبی سنسکرت۔10

 بیتال پچیسی کے اسلوب بیان کے بارے میں جمیل جالبی ر قمطراز ہیں:

’’بیتال پچیسی‘‘اردو زبان میں ہندوستانی کلچر کے اردو روپ،اپنے طرز ادا، لفظیات، تشبیہات، استعارے اور تلمیحات کی وجہ سے منفرد ہے۔یہاں نہ صرف ہندو اور مسلم کلچر بلکہ اردو اور ہندی زبانیں خلوص وفراخدلی کے ساتھ ایک دوسرے سے گلے مل رہی ہیں۔اس سے اسلوب بیان کا ایک نیا امکان ابھرتا ہے… ’مادھونل‘ اور’بیتال پچیسی ‘جس زبان میں لکھی گئی ہے وہ ایسی ہی زبان میں پیش کی جانی چاہیے تھی۔11

شاید یہی وجہ ہے کہ ابن آدم کے ترجمہ میں کہانیوں کے اعتبار سے فضا اور اسلوب بیان ان- فٹ معلوم ہوتے ہیں۔رہی سہی کسرکہانیوںکے درمیان ان کے فوٹ نوٹ نے پوری کر دی ہے۔مثال کے طور پراگر کہانی میںکسی دیوی کی پوچا کا ذکر ہے تو وہاں ان کا فوٹ نوٹ ملے گاکہ:اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔اسی طرح کے کئی نوٹ ترجمے میں موجود ہیں۔ چند مثالیں:

1        اسلامی عقیدے کے مطابق مرنے کے بعد انسان دنیا میں نہیں آتابلکہ عالم برزخ میں رہتا ہے۔

2        مردہ جسم میں داخل ہو کر کوئی روح مردہ جسم کو زندہ نہیں کر سکتی۔

3        غیر اللہ کے لیے قربانی شرک ہے۔

4        اسلام میں شراب حرام ہے۔

5        صرف سلیمان علیہ السلام ہی کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کی بولی سمجھنے کا علم عطا کیا تھا۔

حالانکہ کتاب کے پیش لفظ میںانھوں نے لکھا ہے کہ’’اس ترجمے سے کسی مذہب و عقیدے کی تبلیغ قطعی مقصود نہیں بلکہ تفریح مہیا کرنا ہے۔‘‘12جبکہ ان کے نوٹس کا بیانیہ ان کی اس بات کے برعکس ہے۔کسی ادبی نوعیت کی کتاب میں اس طرح کے نوٹ شامل کر کے اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرنا کم از کم میری سمجھ سے پرے ہے۔

سنگھاسن بتیسی کی بات کریں توبیتال پچیسی کی طرح ہی یہ کہانیاں بھی سنسکرت اور برج بھاشا کے راستے اردو میں آئیں۔جسے للو لال اور کاظم علی جوان نے اردو کا جامہ پہنایا۔سہیل بخاری لکھتے ہیں:

اس کی بنیاد سنسکرت کے ایک قصے پر رکھی گئی ہے۔1631ء میں عہد شاہ جہانی میں سندرداس کوی نے اس قصے کو سنسکرت سے برج بھاشا میں منتقل کیا تھا۔ برج بھاشا کے نسخے سے للو لال جی اور کاظم علی جوان نے مل کر 1804میں اردو میں ترجمہ کیا۔13

پرکاش مونس نے سنگھاسن بتیسی کے تین سنسکرت نسخوں کا ذکر کیا ہے جن کے مصنف نا معلوم ہیں۔ انھوں نے 1633میںان کہانیوں کے سنسکرت سے برج بھاشا میں منتقل ہونے کی بات کہی ہے۔

سنسکرت سنگھاسن بتیسی کو سندرداس کوی نے 1633ء کے لگ بھگ برج بھاشا کا جامہ پہنایا۔ سندرداس گوالیار کا برہمن تھا اور شاہ جہاں کے دربار میں باریاب تھا۔14

سنگھاسن بتیسی کی پہلی کہانی کچھ اسی انداز میں سیکھ دیتی ہے کہ قسمت کا لیکھا مٹتا ہے نہ ٹلتا ہے۔ اس لیے انسان کو کسی بھی حالت میں گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے کہ اوپر والا جب چاہے اس گھمنڈ کو پاش پاش کر سکتا ہے۔ بڑے بڑے راجا مہاراجا بھی اس سے نہیں بچ پائے۔ بنیادی طور پر یہ کہانیاں حکایات کہی جا سکتی ہیں۔ جس میں زندگی اور اس کے متعلقات کا بیان ملتا ہے۔ زندگی کو کس طرح جئیں کہ رہتی دنیا تک اور مرنے کے بعد بھی لوگ یاد کریں۔

سنگھاسن بتیسی کا مرکزی کردارراجا بھوج اور راجہ بکرم کو کہا جا سکتا ہے۔بنیادی کہانی کچھ یوں ہے کہ راجا بھوج جب سنگھاسن پر بیٹھنا چاہتا ہے اس کے چاروں اطراف موجود پتلیاں اسے ایسا کرنے سے روکتی ہیں اور ہر پتلی اسے بکرماجیت کے مختلف کارناموں کی ایک کہانی سناتی ہے۔متعدد کوششوں اور 32 کہانیاں سننے کے بعد بھی راجا بھوج سنگھاسن پر نہیں بیٹھ پاتا اورآخر کارمجبورہو کر سنگھاسن دوبارہ وہیںگڑوا دیتا ہے جہاں سے نکالا گیا تھا۔اور راج کاج چھوڑ کر بیراگ لے لیتا ہے۔

 راجا بکرم کا کردار ہندوستانی لوک کہانیوں میں ایک آدرش کردار ہے۔ جس کا راج اور انصاف دور دور تک مشہور تھا۔ سنگھاسن بتیسی کی دوسری کہانی دراصل بیتال پچیسی کی بنیادی کہانی ہے۔ سنگھاسن بتیسی کے کچھ قصے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بیتال پچیسی میں بھی ملتے ہیں۔یہاں بھی راجا بکرم ہیرو کی بھومیکا میں موجود ہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ یہ کہانیاں اس لوک روایت کا حصہ ہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں اور گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اس کی معنویت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ دنیا کے مکر و فریب کو جس طور پر راجا بھر تری نے محسوس کیاتھااور اپنا راج تج کر جنگل کی راہ لی۔ وہ اب بھی قائم ہے۔ دنیا شاید اب بھی ایسی ہی ہے۔ جس پر اس دنیا کی حقیقت کھل جائے وہ جنگل کی ہی راہ لے۔

 بیتال پچیسی کے بنیادی قصے کا مختصراً ذکر سنگھاسن بتیسی کی ایک کہانی میں کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہاں بیتال کا ذکر صرف ایک لاش کے طور پر ہوا ہے جو سرس کے درخت سے لٹکی ہوئی ہے جسے بکرماجیت جوگی کی لاش کے ساتھ دیوی کو بھینٹ چڑھاتا ہے۔

 سنگھاسن بتیسی کے تمام قصے راجا بکرماجیت کی شجاعت اور سخاوت کے مختلف واقعات ہیں۔ جو اس سنگھاسن کے چاروں طرف موجود پتلیاں راجا بھوج کو سناتی ہیں۔ جس پر راجا بکرم بیٹھا کرتا تھا اور جو اس کے راج کی بھویتا کی ایک مثال کہی جا سکتی ہے۔

راجہ بکرم کو یہ تخت راجا باہوبل نے دیا تھا۔ اور باہوبل کو راجا اندر نے۔ اس سنگھاسن میں جڑے جواہرات بکرم کے راج اور خود اس کے اندر موجود خوبیوں کا بیانیہ کہے جا سکتے ہیں۔ تخت کے ہر طرف بیٹھی ہوئی آٹھ پتلیاں راجا بکرم کی خصوصیت کہی جا سکتی ہے کہ ہر پتلی راجا بھوج کو راجا بکرم سے جڑا ایک ایسا واقعہ سناتی ہے جس میں راجا بکرم کے اوصاف کا بیان ہوتا ہے۔

ہر پتلی کے ہاتھ میں کنول کے پھول کا ہونا ہندوستانی اساطیر میں کنول کے پھول کی اہمیت اور معنویت کو واضح کرتا ہے۔کنول کا پھول ہندو دیومالا میں خوبصورتی، خوشحالی اورزرخیزی کی علامت مانا جاتا ہے۔ پتلیوں کی خوبصورتی کا بیانیہ بھی ہندوستانی نسائی جمالیات کی طرف اشارہ ہے:

پتلیاں بن کر ایسی کھڑی ہوئیں کہ گویا ابھی بولتی ہیں۔آنکھیں ہرن کی سی،کمر چیتے کی سی،پاؤں کا یہ انداز جیسے ہنس کی چال جنھوں نے صورت ان کی دیکھی اپنی آنکھوں کی پتلیوں میں جگہ دی۔15

 پتلیوں کا راجا بھوج کا راجا بکرم سے موازنہ کرنا اور انھیں تخت پر بیٹھنے کے لائق قرار نہ دیناگویا اس بات کا اعلان ہے کہ کلجگ میں راجا بکرم جیسی صفات والا کوئی نہیں۔جیسا کہ کہانی میں ذکر ہوا ہے کہ ’راجا بکرما جیت کی برابری ’اندر ‘بھی نہیں کر سکتا‘۔

اس تخت پر وہی بیٹھ سکتا ہے جو بکرماجیت کے جیسی خوبیاں رکھتا ہو۔ زیادہ تر واقعات راجا بکرم کے سخی، فیاض ہونے کی کہانی سناتے ہیں، جو دان دکشنا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ مشکلات سے حاصل کی گئی چیزیں بھی یوں دان میں دے دیتا ہے جیسے وہ اس نے دینے کے لیے ہی حاصل کی تھی۔ مشکلیں زندگی کا حصہ ہیں۔ جو ان کے ساتھ جینا جانتا ہو دراصل وہی زندگی کوصحیح معنوں میں جیتا ہے۔ ہر رشتہ ایک موہ مایا ہے۔ جو انسان کو باندھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دولت، دوست، احباب یہ سب وہ بندھن ہیں جو انسان کو موہ مایا میں لپت کر کے صحیح راہ سے بھٹکا سکتے ہیں۔ لیکن جو اس مایا کو توڑ کر زندگی اور اس کے معنی کو سمجھتا ہے دراصل وہی اس تخت پر بیٹھنے کے قابل ہے۔

 بکرماجیت کا کردار ایک مثالی کردار ہے جو ہر طرح کے اوصاف کا مجموعہ ہے۔ ایسے کردار قدیم قصے کہانیوں میں شاید اس لیے جنم لیتے ہیں کہ حقیقی زندگی میں ان کا ہونا مشکل ہے۔ انسان کی ادھوری خواہشات کسی نہ کسی روپ میں سامنے آتی ہی ہیں۔

ہر پتلی کا ایک نام ہونا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ راجا بکرم کی ہر خوبی یکتا ہے۔ جیسے ہر فرد دوسرے سے مختلف ہوتا ہے حالانکہ سب کے دو آنکھیں، دو کان، ایک ناک اور ایک منھ ہی ہوتے ہیں۔ راجا بکرما جیت کی ہر خوبی ایک فرد کی خوبی کے مماثل ہے اور ایک فرد کی تشکیل میں مختلف خوبیاںکا ملنا بعید از قیاس نہیں۔

’’جو شخص اپنا غصہ نہ مار سکے اس کا یہی حشر ہوتا ہے اور غصہ کرنے کے بعد وہ بہت پچھتاتا ہے۔ ‘‘اس طرح کی کئی باتیں لوک کہانیوں کا حصہ ہیں۔ ہم آج بھی زندگی کی انھیں قدروں کو سن کر،پڑھ کر، محسوس کر کے بڑے ہوتے ہیں۔ گویا ان کہانیوں کی معنویت میں کوئی کمی نہیں آئی کہ آج بھی زندگی ان قدروں سے خالی نظر آتی ہے۔ اور ایسی کہانیوں کی ضرورت آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ اب وہ دادی، نانی کی کہانیوں کا چلن کم ہو گیا ہے کہ شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی نے ہماری کہانیوں کو بھی لیل لیا ہے۔

ان کہانیوں میں عوامی محاوروں کا بھی خوب استعمال ہوا ہے۔ جس سے عوامی زندگی کی ایک تصویر قاری کے سامنے آتی ہے۔

منشی نول کشور پریس سے شائع شدہ سنگھاسن بتیسی کے دواردو ترجمے میری نظر سے گزرے۔ دونوں میں کئی جگہ پر تبدیلی نظر آتی ہے۔ پروفیسر احمد صدیق مجنوںگورکھپوری کی تالیف کردہ کاپی میں واقعات میں کچھ تبدیلی نظر آتی ہے۔ یوں بھی معلوم ہوتا ہے کہ اردو کے کچھ اشعار اور الفاظ کا غیر ضروری استعمال کر کے نثر تبدیل کرنے کی کوشش میں کئی ایسی چیزیں چھوٹ گئی ہیں جن کا ذکر متن میں ہونا چاہیے تھا۔ بطور مثال دسویں کہانی میں جس راج کنیا کا ذکر ہوا ہے جس کا بیان پہلے کیا جا چکا ہے اس کا راجا کو اس بات کے لیے شکریہ ادا کرناکہ اس کی وجہ سے اس کی شادی ہوئی اور وہ اپنے باپ کی اس شرط سے چھوٹی۔اس کا بیان مجنوںگورکھپوری والی کاپی میں سرے سے غائب ہے۔ اس طرح کی کئی تبدیلیاں ہیں۔ زبان کو سلیس بنانے کے نام پر کی گئی یہ تبدیلیاں کہیں کہیں کھٹکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ’رتی‘ کی جگہ لفظ ’ستانا ‘استعمال کرنا۔ میری ناقص فہم میں توستانا اور رتی دو مختلف لفظ ہیں،جن کے معنی بھی کافی مختلف ہیں۔لیکن رتی کی جگہ رتی استعمال کرنے میں کیا قباحت ہے؟جبکہ سیاق و سباق کے اعتبار سے بھی ’رتی‘لفظ کا استعمال ہی درست معلوم ہو۔

سنگھاسن بتیسی میں انسان کے جانور میں بدلنے کے قصے بھی ہیں۔اس کے علاوہ سنگھاسن بتیسی کے قصوں میں ہندوستانی اساطیر کا اثر بھی دکھائی دیتا ہے۔ شیو، پاروتی اور دوسرے دیوتائوں کا ذکر کئی بار آتا ہے۔ انسان اور دیوتا کا رشتہ آدم و حوا کی تخلیق جتنا پرانا ہے۔ انسان دیوتا کو پوجتا ہے اور دیوتا انسان کا ہی ایک روپ ہے۔ قدیم زمانے میں بادشاہوں کو دیوتا ماننے کا عقیدہ اس کی طرف ایک اشارہ ہے۔ یہ عقیدہ تھا کہ بادشاہوں کو وہ طاقت حاصل ہے جس کے بنا پر وہ اپنی رعایا کو پالتا پوستا ہے۔ یہ طاقت عام انسان کو حاصل نہ تھی۔ عام آدمی کی اپنے بادشاہ سے اسی قسم کی توقعات وابستہ تھیں جو انسان کو دیوتائوں سے ہوتی ہے۔ راجا بکرم کا کردار اسی عقیدے کی ایک مثال کہا جا سکتاہے۔ ان سے مدد مانگنے آنے والے لوگوں کی یہ توقع کہ راجا بکرم ان کے سارے دکھ دور کر دے گا اس کی مثال ہے۔ متن میں کئی دفعہ راجا بکرم کو ’اندر ‘سے بھی بڑا دانی کہا گیا ہے ایک ایسا راجا جس کا مقابلہ خود اندر بھی نہیں کر سکتاجو خود King of the Godsکہلاتا ہے۔

 اس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بکرماجیت کا کردار کس قدر گُنی اور گیانی تھا۔ اس کے دان پُن کا بیانیہ سنگھاسن بتیسی میں ہے جبکہ اس کی سوجھ بوجھ کے واقعات(کچھ جوابات کو چھوڑ کر) بیتال پچیسی میں بیتال کو دیے گئے جوابات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ہر تہذیب میں اخلاقی کہانیاں اور پندو نصائح کی کتھائیں جنم لیتی رہی ہیں۔ راجا بکرم کے مختلف واقعات بیان کرتی یہ پتلیاں جو دراصل ست یگ سے کلجگ میں آئیں ہیں۔ان کے بقول اس یگ میں راجا بکرم جیسا کوئی نہیں اس لیے جب جب راجا بھوج اس تخت پر بیٹھنے جاتا ہے وہ سامنے آکر اس کا راستہ روکتی ہیں۔ گویا یہ تخت ست یگ کی اچھائیوں کاپرتیک کہا جا سکتا ہے۔ کہانیوں کے توسط سے جو درس دیا گیا ہے وہ کم و بیش آج بھی اسی صورت میں زندہ ہے۔ مرنے کے بعد کوئی کچھ بھی اپنے ساتھ نہیں لے جاتا بلکہ اس کے اچھے کام ہی دنیا میں یاد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کے خیال آج بھی اخلاقی کہانیوں میں زندہ ہیں۔ اور ہمیں بچپن میں پڑھائے جاتے ہیں۔ پتلیوں کے ذریعے سے اخلاقی درس دینا جو بے جان ہوتی ہیں۔ گویا انسان کو غیرت دلانا ہے۔ بے زبان جانوروں کے ذریعے سنائی گئی کہانیاں بھی اسی زمرے میں رکھی جا سکتی ہیں۔ بکرماجیت کے اوصاف بے زبان پتلیوں کے ذریعے سے کہلانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس تخت پر کسی اور کا بیٹھنا نا ممکن ہے کیونکہ کوئی اور ان اوصاف کا اہل نہیں جو راجا بکرم میں تھی۔ آدمی کو غیرت دلانے اور سبق حاصل کرنے کے لیے شاید اس سے بہتر کوئی خیال نہ ہو۔ شاید اسی لیے راجا بھوج کو روکنے کے لیے پتلیوں کا بول اٹھنا معنی خیزبھی ہے۔کسی نے سچ ہی کہا ہے ’دنیا افسانہ ہے‘ اور ہم سب اس افسانے کے مختلف کردار۔

قصہ مختصریہ کہ بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی قدیم ہندوستانی رسم و رواج کی عمدہ عکاسی ہی نہیں کرتی ہیں، بلکہ اخلاقی درس کے باب میں بھی اس کی اپنی سی اہمیت ہے۔ گیان چند جین ان متون کو ہندو تہذیب کے نام پر قبول کرتے ہیں :

اردو میں ہندو تہذیب کے نمونے بہت کم ہیں۔ بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی جیسی کتابیں شوکت پارینہ کی ایک جھلک دکھاتی ہیں۔ان سے ہند قدیم کی شادابی کا حال معلوم ہوتا ہے۔کہانیوں میں کسی قسم کے غم روزگار کا ذکر نہیں شاید یہ عصر کی شادابی نہیں بلکہ مصنف کی مستی،غفلت اور فراری ذہنیت کا نتیجہ ہو۔16

بلاشبہ گیان چند جین کی باتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس نوع کے متن کو پڑھتے ہوئے اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ یہاں آداب معاشرت میں شامل قدریں، جنسی تعصبات، صنفی امتیازات اور سب سے بڑھ کر پدر سری  نظام کے بیانیہ کی تمام تر سیاسی تدبیریں یوں ہی نہیں ہیں، ان کی اپنی منطق ہے اور اس منطق کو توڑنا اور انسان کو اس کے مرتبے کے ساتھ دیکھنے کا رویہ ہی عصری قرات کو با معنی بنا سکتا ہے۔گویا کہ کوئی بھی سادہ اور اکہری قرات گمراہ کن ہو سکتی ہے، اس لیے کسی بھی متن کو اس کی سیاسیات سے الگ کرکے پڑھنا ادبی مطالعات کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہوسکتی۔

حواشی

1        گیان چند جین:اردو کی نثری داستانیں،اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ:1987،ص:370

2        گوہر نو شاہی(مرتبہ):بیتال پچیسی از مظہر علی خاں ولا، مجلس ترقی ادب،لاہور:1965،ص:17

3        ڈاکٹر جمیل جالبی:تاریخ ادب اردو(جلد سوم)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی:2007،ص:515

4        گیان چند جین:اردو کی نثری داستانیں،اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ:1987،ص:38

5        ناصر عباس نیر: مابعد نوآبادیات،اردو کے تناظر میں، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس،2013،ص:57

6        مظہر علی  خاں ولا: بیتال پچیسی،نول کشور پریس، 1939، لکھنؤ،ص:23

7        پروفیسر سید وقار عظیم (ترتیب نو):بیتال پچیسی،(ترجمہ) مظہر علی خاں ولا،اردو اکیڈمی سندھ، کراچی: 1987،ص: 63

8        مظہر علی خاں ولا:بیتال پچیسی،نول کشور پریس، لکھنؤ: 1937، ص:47

9        ابن آدم (مترجم):بیتال پچیسی،رحمانی پبلی کیشنز، مہاراشٹر:  2013، ص:7

10      گیان چند جین:اردو کی نثری داستانیں،اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ:1987،ص:383

11      ڈاکٹر جمیل جالبی:تاریخ ادب اردو(جلد سوم)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی:2007،ص:515،521

12      ابن آدم (مترجم): بیتال پچیسی، رحمانی پبلکیشنز، مہاراشٹر: 2013، ص:7

13      ڈاکٹر سہیل بخاری: اردو داستا ن (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ)، مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد:1987،ص :134

14      ڈاکٹرپرکاش مونس: اردو ادب پر ہندی ادب کا اثر، اترپردیش  اردو اکادمی،لکھنؤ:1978،ص:372

15      سنگھاسن بتیسی، نول کشور پریس،لکھنؤ:1953،ص:5

16      گیان چند جین:اردو کی نثری داستانیں،اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ:1987،ص:383

 

Dr. Yasmeen Rashidi

Assistant Professor, T.P College

BNMU,

Madhepura - 852113 (Bihar)

Cell.: 9968549837

rashidiyasmeen@gmail.com

 

تازہ اشاعت

تاریخ گوئی: فن اصول اور روایت، مضمون نگار: عبد القوی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 اردوادب اور فنِ ریاضی سے بیک وقت شغف رکھنے والے حضرات/شعرا کے لیے فن تاریخ گوئی نہایت عمدہ اور دلچسپ فن ہے۔ یہ فن...