29/11/24

رامپور میں تذکرہ نگاری کا اجمالی جائزہ، مضمون نگار: نظام الحسن

 اردو دنیا، نومبر 2024

علم و ادب کے حوالے سے رامپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1774میں  بہ حیثیت روہیلہ ریاست قائم ہونے والا یہ شہر اپنی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں انتہائی روشن اور تابناک منظر نامہ رکھتا ہے۔نواب فیض اللہ خاں بانیِ ریاست رامپور کے زمانے  1774  سے تا حال، علم و ادب کے میدان میں اس شہر نے ایسے گوہر نایاب پیدا کیے ہیں جن کی آب و تاب اور قدر و قیمت کا ایک زمانہ معترف ہے۔

رامپور کے ادبی پس منظر کی جب بھی بات کی جاتی ہے تو عام طور سے اردو شاعری کا ذکر ہوتا ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ دہلی اور لکھنؤ جیسے بڑے شہروں کے بعد رامپور بھی اردو شاعری کا اہم مرکز رہا ہے۔

لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہاں صرف شاعری ہی کو فروغ ملا۔ یہاں علم و ادب کے ہر میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دیے گئے البتہ شاعری کی کثرت رہی اسی لیے شاعری کو نمایاں طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

رامپور میں تذکرہ نگاری کی روایت بھی انتہائی قدیم ہے۔1774سے 1780کے درمیان دو اہم تذکروں کے نام ملتے ہیں جن میں ایک کا تعلق رامپور سے براہ راست ہے اور دوسرے کا بالواسطہ۔ بالواسطہ تکمیل پانے والا تذکرہ مولوی قدرت اللہ شوق کا ’طبقات الشعرا‘ ہے جس کو شوق نے لکھنؤ، بدایوں، آنولہ، بریلی، رامپور1 اور روہیل کھنڈکے دیگر شہروں میں رہ کر مکمل کیا۔چونکہ خصوصی طور سے رامپور میں یہ تذکرہ تکمیل کو نہیں پہنچا اس لیے اس تذکرے کو براہ راست رامپور کا تذکرہ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔لگ بھگ اسی دور کا ایک اہم اور مشہور تذکرہ ’مخزن ِنکات‘ کا زیادہ تر حصہ مصنف نے آنولہ اور رامپور میں رہ کر ہی مکمل کیا ہے۔آنولہ 1774تک ریاست رامپور کا حصہ رہا جو بانیِ رامپور  نواب فیض اللہ خاں کے چھوٹے بھائی نواب محمد یار خاں کی جاگیر میں تھا۔  چونکہ نواب محمد یار خاں امیر انتہائی ادب نواز اور علم دوست شخص تھے اسی لیے ان کے حلقہ احباب میں مولوی قدرت اللہ شوق، قائم چاند پوری، غلام ہمدانی مصحفی اور دیگر مشہور شعراتھے۔قائم نواب کے دربار میں حاضر باش رہتے تھے اور اسی  دوران انھوں نے روہیل کھنڈ اور رامپور کے بہت سے شعراکے احوال اپنے تذکرے میں شامل کیے لیکن اس کے باوجودہم ’مخزنِ نکات‘کو خالص رامپور میں لکھا گیا تذکرہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس کے مختلف مندرجات دہلی، اودھ، اور شاہجہانپور میں رہ کر بھی  قائم نے مکمل کیے تھے۔

چونکہ ریاست روہیلہ کا قیام 1774میں عمل میں آیا اس لیے تذکرے کو رامپور سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔ رامپور میں تحریر شدہ اولین تذکرے کے طور پر ’ہشت خلد‘کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مولف ’تذکرہ کاملان رامپور‘ اور موجودہ  دور کے سینئر اسکالر عتیق جیلانی سالک وغیرہ کی روایت کے مطابق رامپور میں تکمیل پانے والا اولین تذکرہ ’ہشت خلد‘ہے۔اس کے مولف روہیل کھنڈ اور رامپور کے استاد شاعر مولوی غلام جیلانی رفعت ہیں۔

عتیق جیلانی سالک نے تحریر کیا ہے:

’’نجو خاں ولد مستقیم خاں ولد کبیر خاں نے مولوی غلام جیلانی رفعت سے شعرائے اردوکا تذکرہ ہشت خلد مرتب کرانا شروع کیا، غلام جیلانی کی وفات ہو جانے  سے کا م رک گیا۔ نجو خاں نے تسلیم(محمدکبیر خاں تسلیم)، اکرم، عنبر، (عنبر شاہ آشفتہ و عنبر) جیسے علما و شعراکی ذمے داری لگائی کہ تذکرہ مکمل کریں... جب خود نجو خاں جنگِ دو جوڑا 1796 میں شہید ہو گئے اور ان کے بھائی سپہ سالار سنّو خاں کو بھی نواب محمدیار خاںنے محاذ ِجنگ سے واپس بلا لیا تو انھوں نے….اس تذکرہ کو1210ھ/ 1795-96 میں مکمل کیا۔2

اس کے بعد جو دوسرا تذکرہ تحریر کیا گیا اس کے مولف مشہور شاعر مولوی قدرت اللہ شوق ہیں جنھوں نے 1244ھ/1828-29میں ’تکملتہ الشعراالمعروف بہ جام ِجمشید‘تالیف کیا، اس تذکرے میں شعرائے عرب و عجم کے حالات اور کلام کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ دونوں تذکرے فارسی زبان میں ہیں اوررامپور رضا لائبریری میں بہ شکلِ مخطوطات موجود ہیں۔ ایک اور اہم تذکرہ ’تذکرہ شعرائے رامپور‘بھی ہے،اس  کے مولف کپتان جارج فانتوم ہیں۔جارج فانتوم بنیادی طور پر فرانسیسی تھے اور رامپور میں نواب احمد علی خاں رندکے معالج کی حیثیت سے قیام تھا، ان کو فارسی اور اردو  میں غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔ ان کا تذکرہ 1275ھ 1858-59  سے قبل مکمل ہوا تھا۔3

2019میں اردو ترجمہ کی شکل میں اس تذکرے کی اشاعت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی سے ہو چکی ہے۔حالانکہ اس تذکرے میں بھی اردو شعراکے احوال اور کلام کو جمع کیاگیا ہے البتہ مروجہ دستور کے مطابق اس کی زبان بھی گزشتہ دونوں تذکروں کی طرح فارسی ہے جب کہ نمونہ کلام اردو میں ہی درج کیا گیا ہے۔

تذکرہ نگاری کے حوالے سے رامپور میں سب سے سنہری دورکہلانے کا مستحق نواب کلب علی خاں کا ہے۔ نواب خود بھی شاعر تھے اور علم و ادب کے بے حدقدر داں بھی تھے۔ان کے دور میں حکیم وحید اللہ نے ’تذکرہ حکومت المسلین‘ کے نام سے رامپور، ٹونک، کنج پورہ، شاہ جہانپور وغیرہ ریاستوں کی مختصر تاریخ لکھی ہے، اس تذکرے کی زبان اردو ہی ہے اور یہ تا حال مخطوطے کی شکل میں رامپور رضالائبریری میں محفوظ ہے۔ ’تذکرہ حکومت المسلین‘ میں ریاست رامپور کے قیام سے لے کر نواب کلبِ علی خاں کے دور حکومت تک کی تاریخ اور اہم واقعات لکھے گئے ہیں۔

نواب کلبِ علی خاں کے دور کا ہی اہم ترین کارنامہ انتخاب یادگارہے۔ امیرمینائی نے نواب کی فرمائش پر شعرائے رامپور کے حالات اور کوائف جمع کرکے 1879میں یہ تذکرہ ترتیب دیا۔اس تذکرے میں صرف اردو ہی نہیں بلکہ رامپور کے ہندی گو شعرابھی شامل  کیے گئے ہیں جن کی تعداد چار سو پندرہ کے قریب ہے۔ یہ تذکرہ دو طبقات میں تقسیم ہے ایک تو وہ شعراجو نوابین یا ان کے خاندان سے متعلق تھے اور  دوسرے وہ جو عوامی حلقے سے تعلق رکھتے تھے۔عوامی شعراکے مقابلے میں نوابین اور ان کے خاندان کے شعراکے زیادہ تفصیلی حالات اور کلام شامل کیا گیا ہے۔

’’یہ تذکرہ 4 ذی الحجہ 1297ھ مطابق کوتاج المطابع میں  زیور طبع سے آراستہ ہوا۔چونکہ امیر مینائی نے اسے نواب صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لکھا تھااس لیے اکثر عبارت آرائی کا کمال اور مبالغے کا مظاہرہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے شعراکے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ انتخاب یادگار کا دوسرا عکسی ایڈیشن 1982میں اترپردیش اردو اکادمی نے شائع کیاہے۔‘‘4

انتخاب یادگار میں امیرمینائی  نے قدیم تذکرہ نگاروں کی پیروی کرتے ہوئے مسجع و مقفیٰ عبارت لکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس سے تذکرہ کا حسن متاثر ہوا ہے اور تذکرے میں صرف عبارت آرائی کا کمال زیادہ نظر آتا ہے۔ تذکرے کے آغاز سے قبل تمہیدکے طور پر امیر مینائی نے روہیل کھنڈ اور رامپور کی تاریخ بھی درج کی ہے جو محض خانہ پری کہلا سکتی ہے کیونکہ اس میں بیان کردہ اکثر واقعات کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس کے کچھ بعد کے دور میں ایک اہم تذکرہ ’تذکرہ کلیم‘ کے نام سے بھی ترتیب دیا گیا ہے، اس کا آغاز قدرت علی خاں قدرت رامپوری نے کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد منشی عتیق الرحمن کلیم نے ضروری حواشی اور شعراکے کلام اور حالات کا اضافہ کرکے  اس کو مکمل کیا۔ اس میں بھی رامپور کے شعراکے حالات لکھے ہیں۔تا حال یہ تذکرہ مخطوطے کی شکل میں رامپور رضا لائبریری میں محفوظ ہے۔

نواب حامد علی خاں کے عہد حکومت میں رامپور کی نامور علمی و ادبی شخصیت حافظ احمد علی شوق نے ’تذکرہ کاملان رامپور‘ کے نام سے ایک اہم تذکرہ لکھا ہے جو رامپور میں لکھے گئے تذکروں میں سب سے زیادہ کارآمد سمجھا جاتا ہے اور بہت مشہور بھی ہے۔ اس تذکرے میںصوفیاو مشائخ، علما، اطبا، شعرا اور دیگر  اہم شخصیات کے کوائف جمع کیے گئے ہیں۔یہ تذکرہ 1929 میں مولانہ محمد علی جوہرکے ہمدرد پریس دہلی سے شائع ہوا۔ 1986میں خدا بخش لائبریری پٹنہ سے اس کا دوسرا ایڈیشن چند حواشی اور اضافوں کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ اس میں آغاز ریاست رامپور سے نواب حامد علی خاں کے دور کی اکثر اہم شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے، حالانکہ مولف کو اگر متعلقہ لوگوں کا تعاون حاصل ہوتا تو کئی اہم شخصیات شامل ہونے سے نہ رہ جاتیں۔

 تمہید میں خود مولف نے تحریر کیا ہے:

’’مجھے اس کتاب کی تالیف سے کوئی نام آوری مد نظر نہیں ہے  بلکہ ابتدائے عمر سے یہاں کے اہل کمال کے حالات  سن کر یہ خیال دامن گیر ہوا کہ یادگار کے لیے جہاں تک ممکن ہو  بزرگوں کے حالات بہ طور یاد داشت لکھ دوں … چھ سو خط چھاپ کر شہر اور بیرون  جات میں تقسیم کیے تا کہ موجودہ اخلاف اپنے اسلاف       کا حال بتائیں لیکن  میری بدقسمتی دیکھیے کہ دس بارہ صاحبوں کے سوا کسی نے بھی مجھے جواب نہ دیا۔ مجبور ہوکر کتابوں کی ورق گردانی شروع کی اور اہل شہر سے زبانی روایات کو جمع کیا۔ 1914میں  اس کام کو شروع کیا تھا اور آج یہ ہدیہ حاضر خدمت ہے۔‘‘5

اس طرح  معلوم ہوتا ہے کہ احمد علی خاں شوق حسب خواہ حالات جمع نہ کر پا ئے ورنہ تذکرہ ضخیم بھی ہوتا اور  بہت سے اہم لوگ شامل ہونے سے نہ رہ جاتے۔ البتہ تذکرہ جس حالت میں بھی ہے وہ  بھی بہت اہم اور قابل قدر ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور تذکرہ ایسا نہیں ملتا جس میں اس قدر تفصیل  اور کثرت کے ساتھ اہل فضل و کمال کو یکجا کیا گیا ہو۔ رامپور منظرنامہ تاریخ و تہذیب و ادب کی مصنفہ کے بقول:

’’تذکرہ کاملان رامپور حافظ احمد علی خاں شوق کی رامپور سے والہانہ محبت کا روشن ثبوت ہے۔انھوں نے یہ تذکرہ محض ادب دوستی کی غرض سے لکھا یعنی نہ تو والیِ ریاست کے حسب فرامائش  پر اس کی تصنیف کی گئی اور نہ ہی کسی ذاتی غرض کی تکمیل کے لیے۔ اس تذکرے کے وسیلے سے شوق نے بے شمار مشاہیر رامپور کے علمی و ادبی کارناموں کاوہ ریکارڈ محفوظ کر دیا  جو ادبیات رامپور پر کام کرنے والوں کے لیے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘6

رامپور کے آخری فرماں روانواب رضا علی خاں (1930-1947)   کے عہد  اقتدار میں بھی کئی تذکرے لکھے گئے جن میں مولانا محمد علی خاں اثر رامپوری کا تذکرہ ’خم کدہ شعر و سخن‘ ہے۔ یہ تذکرہ در اصل مولانا اثر رامپوری کے شعرائے رامپور پر  ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے انتہائی تحقیق اور عرق ریزی سے تحریر کیے تھے اور جو معارف، نقوش اور دیگر ادبی جرائد میں شائع ہوئے تھے۔عرصے تک یہ تذکرہ گمنامی میں رہا اور مسودے کی شکل میں ادھر ادھر منتقل ہوتا رہا لیکن چند سال قبل مولانا محمد علی خاں اثر کے فرزند ڈاکٹر شوق اثری نے لکھنؤ سے اس کو شائع کر دیا ہے۔اسی دورکا ایک مختصر تذکرہ رازیزدانی رامپوری کا بھی ہے۔ انھوں نے نیاز فتح پوری کے رسالہ’نگار میں ’رامپور کا ماحول شعر و سخن کے نام سے کئی قسطوں میں ایک تفصیلی مقالہ لکھا تھا جس میں رامپور کی شاعری کے ادوار کا تعین نوابین رامپور کے دور حکومت کی نسبت سے کیاگیا ہے۔ یہ مقالہ بہت اہم ہے اور آج بھی دستاویزی حیثیت کا حامل ہے بعد کو یہی مقالہ ’تاریخ ادبیات رامپور ‘کے نام سے شائع ہوا۔

نواب رضا علی خاں کے دور حکومت میں ہی رامپور کے  ایک بزرگ سید شمس الدین نے ’تذکرہ بزرگان رامپور‘ کے نام سے ایک تذکرہ لکھا جس میں رامپور کے مختلف صوفیائے کرام کے حالات درج ہیں۔ اس تذکرہ کا سنہ تالیف 1935 ہے۔حالانکہ یہ ایک مختصر تذکرہ ہے لیکن اپنے موضوع کی اہمیت کے اعتبار سے قابل ذکر ہے۔ اس کے دو نسخے ہیں ایک رامپور رضا لائبریری کے ذخیرہ مخطوطات اور دوسرا صولت پبلک لائبریری رامپور میں۔ لگ بھگ اسی عہد میں حشمت علی خاں رامپوری نے انساب کے حوالے سے ایک تذکرہ ترتیب دیا جس کا نام ’تخصیص الانساب معروف بہ بہار افغانیہ‘ہے۔ بہار افغانیہ میں رامپور کے بہت سے خاندانوں کے تفصیلی حالات اور کوائف اور نسلی سلسلے  درج کیے گئے ہیں۔ بہار افغانیہ کو اپنے موضوع کی مناسبت سے ایک اہم تذکرہ کہا جا سکتا ہے۔

صاحب زادہ تجمل علی خاں علیگ رامپوری نے کراچی پاکستان سے ’اردو شاعری کا تیسرا اسکول‘ کے نام سے ایک تفصیلی تذکرہ لکھا جس میں ابتدائی دور سے سنہ 2000تک کے اکثر شعرائے رامپور کے حالات اور نمونہ کلام شامل ہے۔اس تذکرے کے کراچی سے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ چونکہ صاحب تذکرہ خود نوابین کے خاندان  کے ہی  ایک فرد تھے اس لیے انھوں نے خاندان نوابین کے شعرا کو ہی نمایاں طور پر پیش کیا ہے البتہ اس تذکرے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رامپورسے 1950  کے بعد ہجرت کرکے جانے والے وہ شعرا بھی شامل ہو گئے ہیں جن کے نام رامپور سے تحریر شدہ تذکروں میں نہیں ملتے۔ اس تذکرے کی اولین اشاعت  1982میں ہوئی تھی جب کہ دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن جوہر اکیڈمی، کورٹ روڈ کراچی پاکستان سے 2001میں شائع ہوا۔ شعراکے نام اور نمونہ کلام کے اضافے کے متعلق مصنف نے خود بھی تحریر کیا ہے:

’’ضمیمہ اردو شاعری کا تیسرا اسکول کی اشاعت ثانی میں شعرائے ذیل کے حالات جو اشاعت اول میں  دستیاب نہ ہو سکے  تھے۔ضمیمہ کی صورت میں شائع کیے جا رہے ہیں۔‘‘7

اضافہ شدہ شعرا میں سید زین العابدین منصور رامپوری، محسن برلاس، انجم شادانی، رضوان عنایتی، بشیر درانی، رحمن خاور، شرر نعمانی، شاہد عشقی، انجم شیرازی رامپوری، سجاد سخن اور محمد ذاکر علی خاں شامل ہیں۔ ان تمام شعراکے احوال رامپور سے متعلق کسی دیگر تذکرے میں نہیں ملتے۔

رامپور کے صاحب لہجہ شاعر ہوش نعمانی صاحب نے شعرا و نثر نگاروں اور چند علماکے تعلق  سے ایک منفرد حیثیت کا تذکرہ ’ادب گاہ رامپور‘لکھا ہے جس میں شامل لوگوں کے حالات کو منظوم  پیرائے میں پیش کیا گیا ہے، اس تذکرے میں شعراہی نہیں بلکہ ہندی کوی اور نثر نگاران رامپور کو بھی جگہ دی گئی ہے جس سے اس تذکرے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔1997میں رامپور رضا لائبریری سے اس کی اشاعت ہو چکی ہے۔

1999 میں ایک تذکرہ ’رامپور کا دبستان شاعری‘ کے نام سے  رضا لائبریری رامپور سے شائع ہوا۔ اس کے مولف رامپور کے مشہور ادیب و شاعر شبیر علی خاں شکیب ایڈوکیٹ ہیں۔ اس میں بھی شاعری کے ادوار کا تعین نوابین  کے دور حکومت کی مناسبت سے ہی کیا گیا ہے۔ حالانکہ بہت سے اہم شعراکے احوال اس تذکرے میں رہ گئے ہیں لیکن پھر بھی اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس تذکرے کا اصل مسودہ جو کافی ضخیم تھا اور رامپور رضا لائبریری میں اشاعت کی غرض سے جمع  کیا گیا تھا وہ کہیں غائب ہو گیا اور پھر مصنف نے دوبارہ میسر شدہ شعراکے کوائف اور کلام کے نمونے جلد از جلد  تیار کرکے پھر سے رضا لائبریری میں داخل کیے جس کی اشاعت ہوئی۔

بقول مصنف:

’’یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ رامپور کا دبستان شاعری کا واحد مسودہ چند سال ہوئے ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی افسر بکار خاص رضا لائبریری کو دیے جانے سے قبل کہیں گم گیا۔خرابی صحت کے پیش نظر دوبارہ لکھنا نا ممکن ہوتا تھا۔ لیکن احباب کے ہمت دلانے پر جس طرح بھی ہو سکا  لکھ کر پیش کر دیا۔جو اب شائع ہو رہا ہے۔‘‘8

ہوش نعمانی کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے  رامپور کے ایک اور کہنہ مشق شاعر ڈاکٹر فرید صدیقی نے بھی’آئینہ رامپور‘ کے نام سے قطعات پر مشتمل ایک تذکرہ چند سال قبل پیش کیا، اس میں شعرا کے علاوہ ادبا، علمااور عام سماجی شخصیات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

تذکرہ نگاری کے حوالے سے ہی میں چند سال قبل سلیم عنایتی اور مشہور شاعر اظہر عنایتی نے مشترکہ طور پر ایک تذکرہ بنام ’دبستان رامپور‘ 2013 میں مرتب کرکے شائع کیا، اس میں رامپور کے ابتدائی دور سے موجودہ دور تک  کے شعراکو شامل کیا گیا ہے۔ البتہ یہ تذکرہ کسی بھی شاعر سے متعلق  تفصیلات سے خالی ہے  کیونکہ اس میں صرف شاعر کا نام، تاریخ پیدائش، تاریخ وفات اور تلمذ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر اس تذکرے میں 191 شعراکو  شامل کیا گیاہے  اور اس تذکرے کا امتیاز یہ ہے کہ دو  ایک شعراکو چھوڑ کر باقی تمام شعرائے رامپور کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ اس طرح سلیم عنایتی کا مرتبہ ایک اور تذکرہ جس میں نمائندہ شعرائے رامپور کے احوال و کوائف جمع کیے گئے ہیں غیر مطبوعہ حالت میں ہے۔اس کے علاوہ ’بقلم خود‘ اور ’تذکرہ شعرا‘ بھی غیر مطبوعہ ہیں جس کے مصنف کا نام عبد اللہ  خالد ہے۔

تذکرہ نگاری  کے متعلق عتیق جیلانی سالک کی کتاب’رامپور شناسی‘ کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے جس میں رامپور کی متعدد علمی و ادبی اور سماجی شخصیات کے کوائف درج کیے گئے ہیں۔ رامپور شناسی کی اشاعت 2012 میں شاہد پبلی کیشنر،کوچہ چیلان، دریا گنج نئی دہلی سے ہوئی ہے اور اس کے مشتملات میں ’امتیاز علی عرشی کے بعض مباحث‘کاظم خاں شیدا، رامپور کا ایک ادبی رسالہ نیرنگ، پدماوت کے اردو تراجم رامپور میں، منے میاں صابر(رامپوری)اور ان کا کلام، دارالسرور میں غالب، قدیم اخبارات اور ریاست رامپور، رامپور کی صحافت پر سرسری نظر، مومن خاں مومن اور روابط رامپور، رامپور کے قدیم آثار اور تہذیبی صورت حال، اردو کے فروغ میں رامپور کا حصہ‘میر مہدی مجروح اور روابط رامپور‘‘ وغیرہ ہیں۔ ان موضوعات پر سیر حاصل معلومات جمع کی گئی ہیں اس کے علاہ شخصیات کے ذیل میں روہیلہ سردار عمر خاں بڑ مچھے، عابد رضا بیدار، شبیر علی خاں شکیب، ڈاکٹر ابن فرید، ہوش نعمانی، ڈاکٹر شوق اثری، بشارت علی خاں فروغ، اظہر عنایتی، پروفیسر حسن احمد نظامی، شبیر علی خاں ضیا، سسٹر آصف جہاں، مولانا فضل حق رامپوری، مولانا عبد السلام خاں رامپوری، مولانا وجیہ الدین خاں، مولانا عبد الحئی وغیرہ پر تفصیلی معلومات درج کی گئی ہیں۔

حال ہی میں رامپور کے سینئر اسکالر اور ادیب و شاعر رضوان لطیف خاں نے دو تذکرے ’تذکرہ سخنوراں‘ اور ’دستک دیے بغیر‘تالیف کیے ہیں۔ تذکرہ سخنوراں کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رامپور کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان میں مقیم بہت سے شعرا و شاعرات کے احوال درج ہیں۔ دوسرا تذکرہ ’دستک دیے بغیر، ایک مشہور مصرع طرح ’دستک دیے بغیر مرے گھر میں آ گیا، پر مختلف شعراکی طبع آزمائی کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے اور اس میں بھی ہندو پاک کے بہت سے شعرا و شاعرات کے احوال و مصرع طرح پر کلام موجود ہے۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ رامپور میں تذکرہ نگاری کے حوالے سے زیادہ تر شاعری  پر  ہی کام  کیاگیا لیکن دیگر موضوعات تصوف، شکاریات، نثر نگاری، صنعت و حرفت کے تعلق سے بھی کئی اہم تذکرے لکھے گئے ہیں۔ تصوف کے متعلق شاہ محمد حسن صابری کا ’حقیقت گلزار صابری‘ معروف تذکرہ ہے جو 1960کے آس پاس ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ رامپور کے شکاری اور شکاریات پر ناصر علی خاں علیگ کا ایک تذکرہ شائع ہو چکا ہے اور اسی موضوع پر رامپور رضا لائبریری نے مشہور افسانہ نگار مسعود الظفر خاں کا تذکرہ بھی شائع کیا ہے۔رضا لائبریری سے ہی صنعت و حرفت پر بھی’تذکرہ ہنر مندان رامپور‘شائع ہو چکا ہے جس کے مولف مشہور ادیب و افسانہ نگار ابن حسن خورشید ہیں۔ اس تذکرے میں بیشتر ایسے ہنر مند شامل ہیں جو یا تو ظروف سازی میں یکتا و یگانہ تھے یا پھر وہ ریاست کے ملازم تھے اور اسلحہ سازی مثلاً چاقو، تلوار، بھالا اور ڈھال وغیرہ بناتے تھے اور اپنے فن میں ایسے مکمل تھے کہ دور دور تک ان کی مشاقی اور مہارت کی تعریف تھی۔

نسبی اور خاندانی تذکروں میں’احوال خاندان مولوی غلام جیلانی خاں‘ مولف ارشاد اللہ خاں چیف جسٹس رامپور’آشیانہ رامپور‘مولف امتیاز اللہ خاں اور ’نقش جمیل‘ مولف محمد طارق خاں جیسے مطبوعہ تذکرے بھی قابل ذکر ہیں۔ یہ تینوں تذکرے ایک ہی خاندان یعنی مولوی غلام جیلانی خاں رسالدار کے احوال و کوائف اور خاندانی سلسلے کے بیان پر مشتمل ہیں۔

فنی تذکرے کے بطور’چہار بیت‘از شبیر علی خاں شکیب ایڈوکیٹ 1994میں خدا بخش لائبریری پٹنہ سے شائع ہوا ہے جس میں رامپور میں چہار بیت گوئی کے فن، چہار بیت گواور چہار بیت خوانوں کے حالات اور منتخب چہار ابیات شامل کی گئی ہیں۔حالانکہ اس سے قبل صبرتسلیمی رامپوری کا اسی موضوع پر ایک تذکرہ ’نوازش رضا‘کے عنوان سے تالیف  کیا جا چکا ہے لیکن وہ بہ شکل مخطوطہ رامپور رضا لائبریری میں محفوظ ہے۔ خدابخش لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر  عابد رضابیدار کی تحریک پر شبیر علی خاں شکیب ایڈوکیٹ نے رامپور کے چہار بیت خواں اور چہار بیت گو شعرا کے حالات انتہائی تلاش و تحقیق کے بعدجمع کیے۔ خدا بخش لائبریری کی جانب سے ہی ’تذکرہ کاملان رامپور‘کی  جلد دوم اور سوئم بھی تیار کی گئی تھی جس میں رامپور کے بیشتر اصحاب کمال کے حالات ہیں لیکن ان دونوں جلدوں کے شائع ہونے کی نوبت نہ آئی بلکہ پروف کاپی کی شکل میں یہ جلدیں رامپور رضا لائبریری اور صولت پبلک لائبریری رامپور میں محفوظ ہیں۔

تاریخی تذکرے کے حوالے سے 2010میں نجّو خان شہید نامی ایک تذکرہ شائع ہو چکا ہے۔جس میں رامپور کے نامور  روہیلہ سردار اور رامپور فوج کے سپہ سالار غلام مصطفٰی خاں عرف نجّو خاں کے حالات، جنگ نجّو خانی 1794 9کا تفصیلی بیان اور نجّو خاں کے خاندان اور اولاد کا تصفیلی ذکر ہے۔

رامپور تاریخ و ادب‘ مولفہ سعود الحسن خاں روہیلہ اور’رامپور منظر نامہ تاریخ و تہذیب و ادب‘بھی تاریخی تذکرہ نگاری کے حوالے سے اہم کتب ہیں۔ ’رامپور تاریخ و ادب ‘  لاہور سے 2012میں شائع ہوا ہے جب کہ’رامپور منظر نامہ تاریخ و  تہذیب و ادب‘ نامی تذکرہ 2019میں آگرہ سے شائع ہوا ہے اس کی مصنفہ سعد یہ سلیم شمسی ہیں جنھوں نے اس تذکرے میں رامپور کی تاریخ، نثر نگاران رامپور کا تفصیلی تذکرہ اور رامپور کے شعرائے کرام کا مختصر تذکرہ اور نمونہ ہائے کلام درج کیے ہیں۔194 صفحات پر محیط یہ تذکرہ کئی لحاظ سے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے قبل رامپور کے نثر نگاروں کا اس طرح با قاعدہ کسی نے تفصیلی تذکرہ نہیں لکھا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں کہا جاتا سکتا ہے کہ رامپور میں تذکرہ نگاری کے حوالے سے کافی اہم  اور قابل قدر کارنامے انجام دیے گئے ہیں بلکہ گزشتہ سطور میں بیان کیے گئے تذکروں کی خاصی اہمیت ہے اور وہ رامپور  ہی نہیں بلکہ بیرون رامپور  کے اہل فضل و کمال  کے لیے  حوالہ جاتی حیثیت رکھتے ہیں۔

محدود رقبہ والی ایک  چھوٹی سی  ریاست رامپور میں تذکرہ نگاری کے حوالے سے اہم  کارنامے  انجام دیے گئے ہیں وہ یقینا ادبی تاریخ میں تعریف و ستائش کے مستحق ہیں۔

حواشی

.1       شعرائے اردو کے تذکرے (نکات الشعرا سے گلشن بیخارتک) ازحنیف نقوی، ص 299،  رامپور کا دبستان شاعری از شبیرعلی  خاںشکیب، ص127

.2       رامپور شناسی از عتیق جیلانی سالک، ص 202 (ناشر:مصنف، رامپور، 2012 )

.3       تذکرہ شعرائے رامپور از جارج فانتوم،ص XIX (اردو ترجمہ مصباح احمد صدیقی2019)،رامپور کے فارسی گو شعرا از ساجدہ شیروانی صفحہ XX(اشاعت 2020 )

.4       رامپور شناسی از عتیق جیلانی سالک، ص 205 (ناشر: مصنف، رامپور، 2012)

.5       تذکرہ کاملان رامپوراز احمد علی خاں شوق، ص 08، (ناشر خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ 1986 )

.6       رامپور منظر نامہ تاریخ تہذیب ادب از سعدیہ سلیم شمسی، سنہ اشاعت:2019، سعدیہ سلیم شمسی، غالب پورہ کلاں نذن سبھاش پارک، ایم جی روڈ، آگرہ، ص62

.7       اردو شاعری کا تیسرا اسکول از تجمل علی خاں  علیگ، ناشرجوہر اکیڈمی آر اے لائن، کورٹ روڈ، کراچی ، پاکستان، اشاعت 2001، ص177

.8       رامپورکادبستان شاعری از شبّیرعلی خاں شکیب، ص10

.9       ایضاً، ص 22

 

Nizamul Hasan

Village Mohabbat Nagar

Tahseel Suar

District: Rampur- 9675221881 (UP)

Mob.: 9675221881

syednizam0096@gmail.com

 

 

تخلیقی تنقید اور سریندر پرکاش کی سحر انگیز افسانہ نگاری، مضمون نگار: ریاض توحیدی

 اردو دنیا، نومبر 2024

ایک نقاد کا کام ہوتا ہے کہ وہ ’جتنا آپ جانتے ہیں ‘ کے ساتھ ساتھ وہ بھی بتائے جتنا آپ نہیں جانتے ہیں۔

ہر قاری کی اپنی مطالعاتی ترجیحات ہوتی ہیں‘ کوئی راست اسلوب کو پسند کرتا ہے اور کوئی علامتی یا استعاراتی اسلوب سے محظوظ ہوجاتا ہے اور ادب میں دونوں کا چلن ہے۔ دراصل معیاری تخلیق سحرانگیز کیفیت کی حامل ہوتی ہے تو شعر و فکشن میں یہ جادوتخیل آمیزتخلیقی فن کاری سے ہی سر چڑھ کر بولتا ہے۔اس ضمن میں ان گنت مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ جیسے غالب کی شاعری میں استعاراتی وتلمیحاتی اور علامتی فن کاری کا یہ سحر، ان کے دیوان کی پہلی ہی غزل ’نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا‘ یا خلیل جبران کے فکشن یا سریندر پرکاش وغیرہ جیسے کئی اور افسانہ نگاروں کے افسانوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ میں جب بھی اس قسم کے تخلیق کاروں کی تخلیق پڑھتا ہوں تو دل و دماغ پرجادوئی کیفیت(Magical Condition) طاری ہوجاتی ہے اور تخلیق کی یہی جادوئی کیفیت فن کاری کہلاتی ہے۔ جس کی طرف غالب نے بھی اشارہ کیاتھا کہ       ؎

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے

جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

سریندر پرکاش(مئی -1930نومبر2002)کا ایک شاہکار افسانہ ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ ایم اے کے زمانے میں پڑھا تھا اور اس کے تخلیقی اسلوب‘علامتی رچاؤ  اور فنتاسی (Fantacy)کے تاثر نے سحر زدہ کردیا تھا۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سریندر پرکاش کا شمار اردو کے بڑے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کی افسانہ نگاری کی فنی خوبی نے ہی انھیں بڑے افسانہ نگاروں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔جیسا کہ معروف فکشن نگار انورسجاد اس بات کا اعتراف کرتے ہیں ـ:

 ’’ ۔۔۔سریندر پرکاش نے 60 کی دہائی سے اب تک نئے افسانے کی تخلیق اور ارتقا میںاہم رول ادا کیا ہے اور اب وہ اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ ‘‘                   

(بحوالہ کتاب سریندر پرکاش ۔شخصیت اور فن :مرتب مظہر سلیم،  ص  390)

شعر میں شعریت اور افسانے میں افسانویت (Fictionality) ہونی چاہیے اور سریندر پرکاش کے افسانوں میں افسانویت جگہ جگہ نظرآتی ہے اور ایک خوبی ان کے بیشتر افسانوں میںیہ نظرآتی ہے کہ ان کاتھیم فی البدیہہ احساس کے ساتھ اس طرح کہانی میں ڈھل جاتا ہے کہ افسانہ کسی قسم کے منطقی انجام (Logical end)کے برعکس قاری کے ذہن کو ایک تحیر انگیز فضا(Haunted Space)کے حوالے کردیتا ہے اور پھر یہ تحیر و  استعجاب کی گرفت قاری کے ذہن کو کافی دیر تک جکڑکررکھ دیتی ہے۔بقول نقاد اور فکشن نگار شمس الرحمن فاروقی:

’’ان ]سریندر پرکاش[ کے افسانے  کے واقعات میں زمانی تسلسل اور نقطۂ آغاز و اختتام نہیں ہے۔یہ کوئی بنا بنایا قصہ نہیں کہتے ‘بلکہ ان کے قصہ کی حرکت گھڑی کے پنڈولم کی طرح آگے اور پیچھے دونوں طرف اس قدر برابر مقدارمیں ہے کہ ٹھہرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

(مجموعہ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم، پیش لفظ، شمس الرحمن فاروقی، ص10)

   اس ضمن میں کئی افسانوں کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔جیسے رونے کی آواز، دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم، رہائی کے بعد ،نئے قدموں کی چاپ، اپنے آنگن کا سانپ، پیاسا سمندر، تلقارمس، بجوکا، سرنگ، آرٹ گیلری، چھوڑا ہوا شہر، تعاقب، بازگوئی، ہم صرف جنگل سے گزر رہے تھے، جمغورہ الفریم، برف پر مکالمہ‘ علامت کے آرپار ، ساحل پر لیٹی ہوئی عورت، بالکنی وغیرہ۔

سریندرپرکاش کے بیشتر افسانوں میںنفسی کشمکش (Psycho-struggle)کی فضاطاری ہے اور کردار جیسے خواب کی دنیا میں چل پھر رہے ہیں اور افسانہ نگار کردار کی تحلیل نفسی(Psycho-analysis)کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فن اور تکنیک کی سطح پر ان کے افسانے ‘اردو کے روایتی افسانے کے فنی اور تکنیکی اسلوب سے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں اور اپنا عمدہ تاثر چھوڑجاتے ہیں۔مثلاً افسانہ ’بازگوئی‘ میں مرکزی کردار، جو کہ صیغہ واحد میں بطورراوی اپنی حاضر کردارنگاری ظاہر کررہا ہے، حال اور ماضی کے فکری ، تہذیبی، علمی اورنفسیاتی انسلاک کی نمائندگی کرتا ہے اور نفسیاتی سطح پر افسانہ نگار کردارکی نفسیاتی باز رسانی (Psychological feed back) کرتا دکھائی دیتا ہے‘ تاہم اس دوران وہ تہذیب و تمدن کے آپسی انسانی رشتے کو اجاگر کرتاہے نہ کہ کردار کی نجی نفسیاتی پیچیدگیوں کو مس کرنے تک محدود رہتا ہے۔ کردار صدیوں پرانے ایک تاریخی شہر کے عجائب گھر میں جاتا ہے تو وہاں پر قدیم زمانوں کے موجود عجیب و غریب رسم الخط کے نسخے اسے حیران کردیتے ہیں لیکن عجائب گھر کا افسر جب اسے ایک شوکیس میں رکھا ہوا پرانا مسودہ دکھاتا ہے اور کہتا ہے کہ کئی ماہر لسانیات اس مسودے کو پڑھنے اور سمجھنے میں سر کھپاتے رہے لیکن کچھ خاص ہاتھ نہ آیا، کیونکہ یہ کوئی پرانی داستان ہے، مرکزی کردار اس مسودے کو غور سے دیکھتا ہے اور پھر اسے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے یہ اسی کی تحریر ہے:

’’ میں اس کی بات غور سے سن رہا تھا اور میری نظریں مسودے پر جمی ہوئی تھیں۔   مجھے وہ تحریر کچھ جانی پہچانی لگی۔۔۔۔پھراس تحریر کے کچھ لفظ تصویروں کی طرح میرے ذہن میں ابھر آئے۔۔۔پھر جیسے صحرا میں کوئی تیز بگولہ اٹھا۔۔۔۔ اور ساری بات آناََفاناََمیرے ذہن میں ایک کلی کی طرح چٹک گئی، وہ میری ہی تحریر تھی۔میں غیر ارادی طور پر چیخ اٹھا۔‘‘                                           

  لیکن یہ حرکت دیکھ کرافسر اس کے تمتماتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتا ہے۔یہ سوچ کر کہ اس قدیم تحریر کو ماہر لسانیات پہچانے میں ناکام ہوئے اور یہ کہہ رہا ہے کہ یہ اسی کی تحریر ہے، افسر اس کی نفسیاتی خوشی دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہتا ہے:

’’ میں آپ کی قدر کرتا ہوں۔اپنے ورثے کو ہمیں اسی طرح اپنانا چاہیے۔‘‘                          

کردار جب افسر کی حیرانی کو بھانپ جاتا ہے تو وہ روانی کے ساتھ تحریر پڑھتا ہے اور افسر حیرت انگیز مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’آپ نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا دیا ہے جناب والا! یہ ہزاروں سال پرانی تحریر آپ پانی          کی روانی کی طرح پڑھ سکتے ہیں۔کیا آپ اس کا مطلب بیان فرمائیں گے؟‘‘                      

جب کردار اس قدیم داستان کے بارے میں بتاتا ہے تو افسر خوش ہوکر عجائب گھر کے سارے عملے کو وہاں پر جمع کرتا ہے۔

اس کے بعد کردار مسودہ اٹھا کر گھر لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ’’ ہزاروں سال پہلے کی اپنی زندگی کا ایک ایک واقعہ میرے دھیان میں آگیا تھا۔‘‘

اردو کے چند اہم افسانے خصوصاً علامتی اسلوب کے حامل افسانے پڑھنے ‘سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جیکف دریدا کی کتاب’ Acts Of Literature‘ اور رولاں بارتھ کی کتاب'The Pleasure Of The Text' کے مباحث بڑے کارآمد نظرآتے ہیں۔دریدا کی کتاب فلسفۂ ردتشکیل (Philosophy of deconstruction)کو بحث بناتے ہوئے ادبی متون کے یک رخی معنی و تفہیم کو چیلنج کرتے ہوئے متن کے لسانی و ثقافتی اور متنوع متون کے آپسی لسانی وتکنیکی اور معنوی و ثقافتی رشتوں کے تنقیدی ڈسکورس کوسامنے لاتی ہے۔472صفحات پر مشتمل یہ کتاب1991میں شائع ہوئی تھی اور اس کی تھیوری نے تنقید میں انقلاب برپا کردیاتھا۔رولاں بارتھ کی کتاب'The Pleasure of the Text' 1973 میں سامنے آئی تھی۔اس کتاب کے لسانی و تنقیدی مباحث اپنی جگہ‘تاہم بارتھ ایک قاری کو متن/تخلیق سے مسرت حاصل کرنے پر زور دیتا ہے کہ کس طرح مطالعہ کرنے کے دوران انسان جمالیاتی مسرت حاصل کرسکتا ہے۔

  دریدا اور بارتھ کی تھیوریز یا کتابوں کا حوالہ اس لیے مناسب لگا کیونکہ سریندر پرکاش کے کئی افسانے لسانی اور فنی طور پر ردتشکیل مطالعے کی عکاسی کرتے ہیں اور قرأت سے لطف اندوز ہونے کا سحر رکھتے ہیں۔ دریدا کی کتاب کے تعارف یا پیش لفظ میں Derek Attridge نے استفہامیہ انداز میں اس کتاب کے مباحث اور کسی بھی تخلیق سے متعلق عمدہ بات کہی ہے کہ’’ کب اورکس طرح ایک نقش/ تحریر ادب بن جاتی ہے اور وجود میں آنے کے بعد یہ کون سا مقام متعین کرتی ہے۔‘‘

''When and how does an inscription become literature  and what takes place when it does.'' (Book:Acts of literature, P.2)

اورمتن کی قرأ ت سے لطف اندوز ہونے سے متعلق رولاں بارتھ نے اپنی کتاب'The pleasure of the text'میںخوبصورت بات کہی ہے :’’ آپ کی تحریر خود ثابت کرکے میرے شوق مطالعہ کو ابھارے۔‘‘

''The text you write must prove to me that it desires me.''

تو اس تعلق سے سریندر پرکاش کے چند اہم افسانوں کے تخلیقی رچاؤ اور فنی ومعنوی خوبیوں کا جائزہ لیں گے تاکہ یہ کچھ حد تک واضح ہوجائے کہ یہ افسانے کیوں خود کو پڑھوانے کی دعوت دیتے ہیں اور دوران مطالعہ کس طرح کی لطافت فراہم کرتے ہیں۔سریند پرکاش کے کئی افسانے پراسرار ماحول کا ایساتخلیقی جہاں معلوم ہوتے ہیں جو قاری کے دماغ کو اس اسرار کے کھوجنے کے لیے فکری گشت پر لگادیتے ہی،جس کی مثال  علامتی و تجریدی افسانہ ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم ‘ہے۔ یہ افسانہ علامتی اسلوب اور تجریدی فکر کا حامل ہونے کے باوجود سریندر پرکاش کی افسانہ نگاری کی پہلی شناخت بن گیا۔

 افسانہ ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ تخیل اور تخلیقی اسلوب کا حامل ایک ایسا دلچسپ افسانہ ہے‘جس کی کہانی میں سحرانگیز فضابندی نظر آتی ہے۔یعنی اس میں تخیل (Imagination) اور تخلیقی فن کاری (Creative artistry) اپنے عروج پر نظرآتی ہے اور جدید افسانوں میں یہ ایک ایسا معیاری افسانہ ثابت ہوا جو آج بھی بڑے شوق سے پڑھا جاتا ہے۔نہیں تو اس دور کے بیشتر افسانے تجریدی پن کی بھینٹ ہی چڑھ گئے۔ اس افسانے کے فارم اور تکنیک کی خوبی اور دلکش بیانیہ پڑھنے والے کو محظوظ کردیتاہے۔معنوی ترسیل میں مشکل ہونے کے باوجود پڑھنے کے بعد قاری پر فکشن کا خوشگوار تاثر چھوڑ جاتا ہے۔رسالہ’تکمیل‘ (بھیونڈی۔ جنوری تا جون 2007) کے ایک انٹرویو میں  انھوں نے اپنے افسانوں کے بارے میں کہا تھا کہ:

’’آج اردو میں تیس سال پہلے کی کہانی لکھی جارہی ہے جب کہ کچھ نیا ہونا چاہے تھا۔میں نے ہمیشہ علامتی کہانیاں لکھیں لیکن وہ سپاٹ نہیں ہیں۔ان میں قاری کو پکڑنے کی طاقت ہے۔نئی بات ہے۔ بڑا مشکل کام ہے علامتی افسانہ لکھنا۔‘‘                                       

واقعی جب ہم ان کے علامتی افسانے پڑھتے ہیں تو ان میں الفاظ و خیالات کا گورکھ دھندہ نظر نہیں آتا اور علامتی افسانہ ہر کس و ناکس کے لکھنے کا کام نہیں ہے اور علامتی نوعیت کا افسانہ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ اگرچہ اپنی ترسیل میں مشکل نظر آتا ہے لیکن ابتدا سے انجام تک قاری کو ضرور پکڑ کررکھتا ہے۔ اس افسانے کی ابتدا نیم داستانی اسلوب میں اس طرح سے کی گئی ہے کہ قاری پہلے ہی خیال سے خوش ہوجاتا ہے کہ کچھ خاص پڑھنے کو مل رہا ہے۔ راوی شروع میں ہی کسی سفر یا ہجرت کرنے کانقشہ یوں کھینچتا ہے:

’’ سمندر پھلانگ کر ہم نے جب میدان عبور کیے تو دیکھا کہ پکڈنڈیاں ہاتھ کی انگلیوں کی طرح پہاڑوں پر پھیل گئیں۔میں ذرا رکا اوران پرنظر ڈالی جو بوجھل سرجھکائے ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے تھے۔ میں بے پناہ اپنائیت کے احساس سے لبریز ہوگیا۔۔۔۔ تب علیحدگی کے بے نام جذبے نے ذہن میں ایک کسک کی صورت اختیار کی اور میں انتہائی غم زدہ‘ سرجھکائے وادی میں اتر گیا۔‘‘                                                                

یہاں پر افسانہ نگار نے روایتی افسانے کی ابتدائی منظر نگاری کے برعکس تکنیکی سطح پر سیدھے قصے کاآغاز واقعاتی اسلوب میں کیا ہے اور قاری کی سوچ کو شروع میں ہی اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوا ہے۔ضمائر کے استعمال ’ہم‘، ’ان‘ سے ظاہر ہے کہ راوی ایک قافلے کی طرف اشارہ کررہا ہے جس کا وہ بھی ایک حصہ ہے لیکن ان سے اپنائیت کے جذبے کے باوجود وہ لوگ اپنی ہی زندگی کے جوکھم جھیلنے میں نظر آتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ لوگ کس بنا پر سفر یا ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور سر جھکائے ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے تھے۔ اب راوی ان لوگوں کی سردمہری دیکھ کر جدا ہونا ہی مناسب سمجھتا ہے اور غم زدہ ہوکر سرجھکائے ایک وادی میں اتر جاتا ہے۔لیکن دوسرے ہی اقتباس میں افسانہ منفی سے مثبت ماحول کی منظر کشی کرتا ہے۔کیونکہ وہ پیچھے مڑکر دیکھتا ہے تو وہ لوگ تھوتھنیاں اٹھائے  اسے دیکھ رہے تھے اور سر ہلاہلا کر اپنی رفاقت کا اظہار کررہے تھے۔ لیکن ان کی گردنوں میں دھات کی گھنٹیاں تھیں، جو کہ ان کی مجبوری و لاچاری کی عکاسی کرتی تھیں یا اپنی تہذیبی و ثقافتی جڑوں سے جڑے رہنے کا اشارہ کرتی تھیں۔ گھنٹیوں کی آواز الوداع الودع کا اشارہ کررہی تھی۔ان لوگوں کی آنکھوں میںآنسو تھے جوجدائی اور اپنائیت کا دکھڑا سنارہے تھے۔

  اب یہاں تک افسانہ ابہام آمیز ماحول میں ایک قافلے کی ہجرت، بے بسی اور اپنوں سے بچھڑنے کا منظر دکھا رہا ہے۔ یہ قدیم دور سے جدید دور کی طرف قدم بڑھانے کا قصہ بھی ہوسکتا ہے اور مجبور ہوکر اپنی زمین سے ہجرت کا درد بھی۔ یہیں سے افسانے کا متن ردتشکیل تھیوری کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔کیونکہ یہاں پر متعین معنی (Fixed meaning) کے بجائے غیر متعین معنی کا لسانی منظر سامنے آرہا ہے۔ایک طرح سے افسانہ ابہامی کیفیت خلق کرکے معنوی تضاد (Semantic paradox) پیدا کررہا ہے اور یہی خوبی افسانے کو تخلیقی رچاؤ کی حامل بنا دیتی ہے۔

اب افسانہ آگے بڑھتاہے اور ہجرت کرنے کے بعد وادی میں داخل ہونے کی منظر نگاری سامنے لارہا ہے۔ یہاں پر ایک چیز دیکھنے کی ہے کہ افسانے کا پلاٹ کہیں پر ٹوٹتا نہیں بلکہ قصہ کردار کے سفر سے آگے بڑھ رہا ہے  اور پھر نیا قصہ جو کہ عنوان ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں سے افسانہ قدیم دور کی زندگی اور جدید دور کی زندگی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ اب کردار جس مکان کی منظر کشی کررہا ہے وہ جدید سہولتوں سے مزین ہے۔ کمرے میں مصنوعی گل دان کی علامت جدید دور کے انسان کی زندگی کے مصنوعی ٹھاٹ باٹ کا اشارہ کررہی ہے کیونکہ فطری زندگی میں زندگی بھی اپنی ہوتی ہے اور احساس بھی اپنا لیکن یہاں پر راوی کہتا ہے :

’’ ہاتھ میرا ہے اس لیے احساس بھی میرا ہے، لیکن گل دان نے میرے احساس کو قبول نہیں کیا۔‘‘      

 زندگی میں جب احساس کاجذبہ ہی ختم ہوجائے تو وہ بے مزہ ہوکر رہ جاتی ہے۔افسانہ مزید آگے بڑھتا ہے اور افسانہ نگار مکان کی منظر نگاری کے دوران کہانی کو مختلف قسم کے پیش منظر شیڈز(Foregrounding shades)دے کر کچھ حد تک ڈرامائی سین کی صورت دیتا ہے جیسے:

’’میں نے اس تصویر کو اٹھا کر دیکھا ‘ایک خوش پوش آدمی گود میں ایک ننھی سی بچی کو اٹھائے بیٹھا ہے اور اس کے کندھے سے کندھا بھڑائے ایک عورت بیٹھی ہے۔ دونوں مسکرارہے ہیں۔‘‘

’’نہ جانے کیوں  مجھے خیال آیا کہ کبھی ایسی ہی تصویر کھنچوانے کے لیے میں بھی بیٹھا تھا اور فوٹو گرافر نے کہاتھا‘ ’’ذرا مسکرایئے!‘‘

ہم تینوں مسکرائے اور فوٹو گرافر نے کہا‘’’ تھینک یو‘‘ اور ہم بیٹھ گئے۔‘‘

 افسانے کا یہ حصہ شعور کی رو (Stream of consciousness)کی عکاسی کررہا ہے کیونکہ راوی احساس کی سطح پر حال کے منظر میں ماضی کی یادکو دہرارہا ہے۔کبھی وہ خود کا شعوری رشتہ سمندر سے جوڑ رہا ہے اور کبھی  سمندر کے کنارے کے کسی شہر کو یاد کرتا ہے۔ افسانے میںمکان یا ڈرائنگ روم ایک ایسی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے جو کردار اور پوری کہانی کے لیے فکشن گیلری بن جاتا ہے کیونکہ افسانے کا بیشتر پلاٹ اسی ڈارئنگ روم کے اردگرد گھومتا رہتا ہے اور ایک طرح سے پورا قصہ ہی ڈرائنگ روم کے اندر ایک اسٹیج کی طرح سامنے آتا ہے۔

 مجموعی طور پر دیکھیں تو افسانہ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ ‘ کا پلاٹ، فن اور تکنیک کی سطح پر توضیحی اسلوب (Expository style) کے بجائے علامتی اسلوب (Symbolic style) پراستوار ہوا ہے اور موضوعاتی طور پر ماضی کے قصے سے شروع ہوکر جدید دور کی زندگی، انسانی رشتوں کی بے مائیگی، مادی وسائل کی آرائش کے باوجود انسان کی تنہائی،  درد وکرب، بوڑھے کی کردار نگاری میں انسانی زندگی کے گزرے ہوئے دور کی اپنائیت، سانپ کی صورت میں انسانی سوچ وفکر میں پھیلا ہوا زہر‘اور انسان کا تنہائی کا کرب جھیلتے جھیلتے مصنوعی زندگی کے بجائے فطری زندگی گزارنے کی طرف روحانی واپسی وغیرہ جیسے کئی موضوعات و مسائل کو فکشنائزکررہاہے، جوکہ تفہیم میں مشکل محسوس ہونے کے باوجود اپنا افسانوی رنگ پوری چمک دمک سے سامنے لارہا ہے اور قاری پڑھنے کے دوران افسانے کے سحر میں کھو سا جاتا ہے، یہ اس افسانے کی ایک اہم تخلیقی خوبی قراردی جاسکتی ہے۔

سریندر پرکاش کے افسانوں کی موضوعاتی جہات متنوع موضوعات و مسائل کی عکاسی کرتی ہیں جس میں قاری کو مختلف رنگ کی سماجی و انسانی اور سیاسی و نفسیاتی تصویریںنظرآتی ہیں۔ سریندر پرکاش کے ایسے ہی افسانوں میں ان کا افسانہ’بجوکا‘ (Scare Crow) بھی شامل ہے جو اردو کے شاہکار افسانوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس افسانے کی فنی خوبیوں میں ایک تو افسانوی کہانی پن موجود ہے اور دوسراکردارنگاری میں علامتی رنگ بصورت بجوکا، ہوری، درانتی، انگریز کا سرخ لباس اور ہیٹ وغیرہ نمایاں ہے اور اسی علامتی رنگ نے افسانے کو فنی طور پر ایک معیار عطا کیا ہے۔ اس افسانے میں فکشن کے روایتی اسلوب یعنی کہانی پن، کا ہی استعمال کیا گیا ہے نہ کہ افسانہ ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ کی جدید تکنیک کا، لیکن اس کے باوجودتنقیدی نقطہ نگاہ سے‘ افسانے کی بنت کاری میں بین المتونیت (Inter- textuality) کے عناصر واضح طور پر نظرآتے ہیں۔ بین المتونیت کا مطالعہ کسی بھی متن میں موجود کسی دوسرے متن(Text)یا کسی بھی ادبی تخلیق میں کسی اور تخلیق ‘چاہے وہ اس سے پہلے وجود میں آئی ہو یا اسی دور سے تعلق رکھتی ہو، کا کوئی خیال، موضوع، تکنیک، اسلوب، کردار وغیرہ کی فنی موجودگی (Artistic Existence) ظاہر کرتاہے۔اس ضمن میں افسانہ ’بجوکا‘ موضوع اور کردار نگاری میں کسان ’ہوری‘ اور استحصال کے جدید سرمایہ دارانہ نظام (Modern Capitalistic setup) بصورت ’بجوکا‘ بین المتن رشتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ چونکہ افسانے کا مرکزی کردار’ہوری‘ بنیادی طور پر پریم چند کے مشہور ناول ’گئودان‘ کے ہیرو سے ماخوذہے جو کہ ناول میں کسانوں پر ہورہے استحصال کی نمائندگی کرتا ہے لیکن افسانے میں اسی کردار کو ملک کی آزادی کے بعد  ’جے کسان کے انقلابی نعرے‘ کے باوجود نئے استعماری نظام کے زیر اثر بصور ت بجوکا اور اس کے انگریزی لباس کا غلام اور مظلوم بن کر دکھایا گیا ہے اور افسانہ نگار کا مقصد واضح ہوجاتا ہے کہ پریم چند کاناول1936 میں جس قسم کی اندوہ ناک صورت حال کو موضوع بنارہا تھا ، اتنے برس بیت جانے اور ملک کی آزادی کے باوجود کسانوں کی وہ صورتحال کسی نہ کسی صورت میں جوں کی توں موجود ہے۔افسانے کی یہی تخلیقی قوت اسے شاہکار افسانے کے زمرے میں شامل کرتی ہے۔افسانے میں بجوکا نہ صرف ہوری کی کمائی ہوئی فصل کا چوتھائی حصے کا دعویٰ دار بن جاتا ہے بلکہ نئے نظام بصورت پنچائیت کے فیصلے کو بھی اپنے حق میں کرواتا ہے:

’’آخر سرپنچ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ہوری کا سارا وجود کانپنے لگا۔اس نے پنچایت کے فیصلہ کو قبول کرتے ہوئے فصل کا چوتھائی حصہ بجوکا کو دینا منظور کرلیا۔۔۔‘‘                          

افسانہ’بجوکا‘ بنیادی طور پر ملک کے جدید اقتصادی نظام پر فنکارانہ طنز (Artistic Irony) ہے، جس کی کہانی کی تخلیقی معنویت (Creative significance) یہ ہے کہ اس میں ایک بے جان (Inanimate) بجوکاکو جاندار (Animate) علامت بنایاگیاہے اورمعاشی و معاشرتی اور سیاسی استحصال کو فن کے پیکر میں ڈھال کر علامتی مقصد(Symbolic goal) کو پورا کیا گیا ہے جس میں افسانہ نگار پوری طرح کامیاب ہوا ہے۔ کیونکہ اس افسانے کے توسط سے جو پیام ترسیل ہوجاتا ہے وہ قاری کے سامنے کھل کر آتا ہے بقول  فیض احمد فیض       ؎

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

مستند فن کار(Genuine Artist) اپنی تخلیق میں خارجی ماحول کے مشاہدے کو داخلی احساس کا حصہ بناکراپنے  فنی تجربے کے ساتھ پیش کرتا ہے‘ جب ہی تو وہ تخلیق اپنی مخصوص فنی صورت اختیار کرجاتی ہے اور پھر وہ فنی سطح پر تصوری حقیقت (Conceptual realism) کی مظہر بن جاتی ہے اور افسانہ تو اس تصوری حقیقت کا ایک ایسا تخلیقی روپ ہوتا ہے جو کہانی کی صورت میں قاری کے حافظے کا حصہ بن جاتا ہے۔ سریندر پرکاش کے کئی افسانے ایک مستند فن کار کے فنی تجربے کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں اور سماجی و نفسیاتی موضوعات و مسائل کے تخلیقی روپ میں تصوری حقیقت کے نمونے بن گئے ہیں،  یہی وجہ ہے کہ یہ افسانے دہائیوں پہلے وجود میں آکر آج بھی قارئین کے حافظے کا حصہ بن چکے ہیں، جن میں ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘، ’بجوکا‘، ’بازگوئی‘ تو خاصے مقبول ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ بھی کئی اور افسانے ہیںجو فن کاری کا عمدہ ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ان میں رونے کی آواز، رہائی کے بعد،نئے قدموںکی چاپ، اپنے آنگن کا سانپ، پیاسا سمندر، تلقارمس، سرنگ، آرٹ گیلری، چھوڑا ہوا شہر ، تعاقب بازگوئی، ہم صرف جنگل سے گزر رہے تھے، برف پر مکالمہ، علامتوں کے آرپار،ساحل پہ لیٹی ہوئی عورت ’بالکنی‘وغیرہ شامل ہیں۔

افسانہ’رونے کی آواز‘ کا افسانوی ماحول اس طرح سے تشکیل دیا گیا ہے کہ جیسے پورا شہر رونے کی چیخ و پکار کا حصہ بن چکا ہے۔چند افسانوں میں اساطیری ماحول بھی نظر آتا ہے جیسے افسانہ’ساحل پہ لیٹی ہوئی عورت‘۔ یہ افسانہ داستانی اسلوب میں تخلیق ہوا ہے۔ اس کے مرکزی کردار ایک شکاری مرگول اور ایک پراسرار سیاہ فام الف ننگی عورت ہیں۔ بنیادی قصہ انھیں دو کرداروں کے اردگرد گھومتا ہے۔مرگول ایک ماہر شکاری ہونے کے باوجود قوت مردمی سے محروم ہوتا ہے لیکن اس سیاہ فام عورت کو دیکھ کر اس کی مردانگی جاگ اٹھتی ہے اور وہ اس کے تعاقب میں ایک غار تک جا پہنچتا ہے لیکن عورت اندھیری غار میں داخل ہوجاتی ہے اور مرگول اندر جانے سے خوف کھاتا ہے اور اسے آواز دے کر باہر سے ہی اپنے عشق کا اظہا ر کرتا ہے۔پھر قصہ آگے بڑھتا ہے اور پتھر مارنے کی شرط پوری نہ ہونے پر اسے مردانگی کے بجائے اپنی بینائی سے محروم ہونا پڑتا ہے جو کہ ایک کالے ناگ کے ڈسنے سے ہوجاتا ہے۔ ’سرنگ‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں کردار کی خارجی اور داخلی کشمکش کی تحیر انگیز کیفیت کو خلق کیا گیا ہے۔ افسانہ ’بازگوئی‘ ایک طویل افسانہ ہے، ایک طرح سے اس افسانے میں دوسرے کئی افسانوں کے چند کردار اور موضوعات کو فنی چابکدستی سے سمیٹ لیا گیا ہے۔

سریندر پرکاش کے چارافسانوی مجموعے دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم (1968)، برف پر مکالمہ (1981)، بازگوئی (1988)، حاضر حال جاری (2002) شائع ہوچکے ہیں۔ان مجموعوں کے بیشتر افسانے تخلیقی پن سے مزین ہیں۔ابتدائی افسانوں کے برعکس اگرچہ بعد کے افسانوں میں علامتی و تجریدی ابہام قدرے کم نظر آتا ہے لیکن پھر بھی ہر افسانہ تخلیقی رچاؤ کا حامل نظر آتا ہے اور بیشتر افسانے کہیں نہ کہیں اپنی علامتی ساخت برقرار رکھے ہوئے ہیں جس سے ان افسانوں کی فنی و تخلیقی اور تکنیکی ندرت بڑھ جاتی ہے اور معنوی ہم آہنگی  (Semantic Coherence) میں استحکام پیدا ہوگیا ہے۔

 

Dr. Reyaz Tauheedi

Wadipora Handwara

Kashmir 193221 (J&K)

Cell:9906834877

drreyaztawheedi777@yahoo.com

 

تازہ اشاعت

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں مشرق کا تصور، مضمون نگار: امیرحسن

  اردو دنیا، جنوری 2025 تجھے ہم شاعروں میں کیوں نا اکبر معتبر سمجھیں بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں اکبر الہ آبادی دنیائ...