20/8/25

اردو ادب میں تنقیدی نظریات، مضمون نگار: محمد خواجہ مخدوم محی الدین

 اردو دنیا، اپریل 2025


تنقید کا وجود عالم انسانی کے وجود کے ساتھ ہوا۔ تنقید کے عام معنی اچھے اور برے کی تمیز کرنے کے ہیں۔ انسان تنقید کا شعور لے کر پیدا ہوا۔ یونانیوں نے سب سے پہلے ادب اور تنقید پر روشنی ڈالی اور اس کو معراج کمال تک پہنچایا۔ تنقید کسی ادبی تخلیق میں فن پارے کی خوبیوں کو ظاہر کرنے کا ایک نظریہ ہے۔ تنقید کا اہم کام ادب کی عظمت کا صحیح اندازہ لگانا ہے۔ تنقید بھی ایک تخلیقی عمل ہے جس میں کسی بھی ادبی تخلیق سے حجابات کے پردے اٹھاکر اس کے اقدار کو متعین کرنا ہے۔ نقاد اچھائی اور برائی میں تمیز کرکے ایک نئی چیز کو جنم دیتا ہے، اس لیے اس عمل کو بھی تخلیق قرار دیا گیا ہے۔ تنقید اس تخلیقی قوت کو کہتے ہیں جو ادیب کے پیش کردہ کارناموں کو علاحدہ حیثیت سے دوبارہ پیدا کرنے اور ذہن پر وہی نقش ثبت کرنے کا کام کرتی ہے۔ اردو ادب میں رومانی تنقید، نفسیاتی تنقید، تاثراتی تنقید، جمالیاتی تنقید، مارکسی تنقید اور سائنٹفک تنقید وجود میں آئی۔

دنیا میں سب سے زیادہ حیرت انگیز اور دلچسپ تخلیق ذہن انسانی ہے جس میں سارا خیر و شر سمیٹ کر آگیا ہے۔ ادب و فنون بھی ایک چھوٹے سے ذہن کا کرشمہ ہے۔ خواہ وہ مصوری ہو یا بت تراشی فن تعمیر ہو یا موسیقی اور شاعری لیکن شعر و ادب کو ان تمام فنون پر اس لیے فوقیت ہے کہ اس میں زندگی کا احاطہ کرنے کی سکت زیادہ ہے۔ ادب فنون لطیفہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ ادب ہماری تہذیبی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ادب کی تعریف کے سلسلے میں ناقدین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض ناقدین نے ادب کو صرف جمالیاتی انبساط ہی تک محدود رکھا۔ اسے صرف مسرت کا ذریعہ بنایا۔ ادب پر سب سے پہلے باقاعدہ اظہار مشہور فلسفی افلاطون نے کیا۔ اس نے اپنے زمانے کی تمام ضروریات سے بغاوت کی، اور حقیقت اور حسن کی تلاش میں ایک نئے فطری نظام کو جنم دیا۔ افلاطون کی نگاہ میں خیر اور سچائی ہی اصل حقیقت ہے۔ وہ ادب و شاعری میں بھی حقیقی مقصد کو پورا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

افلاطون کا اہم شاگرد ارسطو نے اپنی کتاب ’بوطیقا‘ میں ادب و شاعری پر تفصیل سے بحث کی اور افلاطون کے نقطۂ نظر پر بحث کی۔

اس طرح ادب میں دو نظریے پیدا ہوگئے ’ادب برائے ادب‘، ’ادب برائے زندگی‘۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے کہا ہے :

’’ادب ایک فن لطیف ہے جس کا موضوع زندگی ہے‘‘۔ اس کا مقصد اظہار، ترجمانی و تنقید ہے۔ اس کا سرچشمہ تحریک احساس ہے۔ اس کا معاون اظہار خیال اور قوت متغیرہ ہے اور اس کے خارجی روپ و حسین ہیئت اور وہ خوبصورت پیرایہ ہائے اظہار ہیں جو لفظوں کی مدد سے تحریک کی صورت اختیارکرتے ہیں۔

اس فن لطیف میں الفاظ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور یہی چیز اس کو باقی فنون لطیفہ سے جدا کرتی ہے ورنہ شدت تاثر اور تخیل کی مصوری اور تخلیق و اختراع کا عمل دوسرے فنون میں بھی ہے۔‘‘

(بحوالہ : ’مباحث‘از ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، ص 22)

ادب دراصل زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے۔ وہ خارجی حقیقتوں کو داخلی آئینے میں پیش کرتا ہے۔ ادب انسانی زندگی کی ایک ایسی تصویر ہے جس میں انسانی جذبات اور احساسات کے علاوہ مشاہدات و تجربات بھی نظر آتے ہیں۔ ’ادب برائے زندگی‘ کا تصور کارل مارکس کے نظریے سے پیدا ہوا۔

ادب زندگی کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ ادب کو زندگی کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ ادب زندگی کا ترجمان اور نقال ہوتا ہے۔

ادب زندگی اور اس کے تجربات کو سمجھنے کا شعور رکھتا ہے۔ بہترین ادب کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اجتماعی خواہشات کی تکمیل کرے۔ ٹین نے کہا ہے کہ :

’’ادب نسل، ماحول، وقت سے مل کر وجود میں آتا ہے۔ ادب کی اس تصریح پر غور کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ادب سماج، ماحول، زندگی، تہذیب اور معاشرت کا عکاس اور ترجمان ہوتا ہے اور اگر کسی تخلیق میں یہ صفات نہیں رہیں تو اس کو بہترین ادب میں شمار کرنا صحیح نہ ہوگا۔‘‘

(بحوالہ :Litrature for a age of Science Hymen and Kelen Spalding-P-10)

ادب کو زندگی کی حقیقتوں کے ساتھ ہی پرکھا جاسکتا ہے اس لیے کہ اس کا زندگی سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہوتا ہے۔ اس زمانے کا ادب زوال پذیر ہوتا ہے، جب وہ زندگی کی حقیقتوں سے دور ہوجاتا ہے۔ اردو ادب میں نئے رجحانات کی ابتدا انیسویں صدی کے آخری حصّے اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہوگئی تھی۔ انیسویں صدی کے آخر میں جس کی وجہ سے ہندوستان ایک نئی کشمکش میں مبتلا تھا۔ اور وہ تھی اس کی تہذیب اور روایات کی کشمکش۔ نئی زبان، نئی تہذیب اور نئی باتوں کو قبول یا رد کرنے کا مسئلہ۔ اس کے ساتھ ہی متوسط طبقے کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی تھی جس کے لیے سرسید، حالی، مولانا محمد حسین آزاد، شبلی اور ذکاء اللہ وغیرہ نے نئی باتوں کو اپنانے کی تحریک شروع کی۔ انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے نئے علوم اور نئی تہذیب کی حمایت کی اور تعلیم کی اہمیت پر زور دے کر بیداری پھیلانے کی کوشش کی۔

ادب میں ہمیشہ مختلف نظریات سرگرم رہے۔ ادب ہمیشہ نظریات کا پابند رہا۔ افلاطون سے لے کر ہیگل تک فرائیڈ اور مارکس تک ادب کسی نہ کسی صورت میں نظریات کا پابند رہا ہے۔ افلاطون اور ارسطو نے جب کائنات اور فنون لطیفہ کو نقل کیا تو دوسرے لوگوں نے صرف شخصیات کا آئینہ، تنقید حیات یا زندگی کا ترجمان کہا تو اپنی نظریات کے تحت ادب کو پیش کرتے رہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ادب کو کسی نظریہ یا فلسفہ کا غلام بنادیا جائے۔ ایسی صورت میں اس کا حسن محدود ہوجائے گا۔ اس کی تخلیق کے لیے ایک آزاد اور کھلی فضا کی ضرورت ہے جہاں اس کے تخیل کی پرواز نہ روکی جائے۔ ادب کو کسی فلسفہ کا غلام بنادینے میں اس کی ادبیت اور افادیت دونوں مجروح ہوتے ہیں۔

ادب کو زندگی کے مسائل سے علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی اس کے مطالبات اور اس کی حقیقتوں سے آنکھ بند کرکے بہترین ادب کی تخلیق ممکن نہیں چونکہ ہر ادیب یا فنکار کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو بہتر سے بہتر بنائے۔ علما نے ادب کی تعریف کرتے ہوئے اسے تفسیر حیات کا نام دیا ہے اور تفسیر بغیر تنقیدی شعور کے ممکن نہیں۔ اس لیے تخلیق کے ساتھ ہی تنقید کا عمل بھی شروع ہوجاتا ہے۔ تنقیدی شعور کے بغیر نہ تو اعلیٰ ادب تخلیق ہوسکتا ہے اور نہ فنی تخلیق کی قدروں کا تعین ممکن ہے اس لیے اعلیٰ ادب کی تخلیق اور ادب کی پرکھ کے لیے تنقید لازمی ہے۔ تنقید کا وجود عالم انسانی کے وجود کے ساتھ ہوا۔ تنقید کے عام معنی اچھے اور برے میں تمیز کرنے کے ہیں۔ جب زمین پر انسان کا وجود ہوا تو اس نے بعض درختوں، پودوں، موسموں، ہواؤں اور پھولوں پھلوں کے سلسلے میں اپنی پسند اور ناپسندی کا اظہار کیا، اور کڑوے اور تلخ پھلوں سے اس کا منہ بدمزہ ہوا، اور اس نے اسے خواب سمجھا ہوگا۔ دوپہر کی گرمی کو دور کرنے کے لیے تناور درختوں کا سہارا لیا۔اس لیے اسے پسند کیا۔ پھولوں کی خوشبو نے اسے معطر کیا تو اسے مسرت محسوس ہوئی۔ کانٹوں نے اسے تکلیف پہنچائی تو ان پر غصہ آیا۔ غرض اس طرح اس نے اچھے اور برے میں تمیز کرنا سیکھا۔ یہیں سے اس کے ذہن میں تنقیدی شعور ہوا اس وقت نہ تو کوئی زبان تھی نہ کوئی تہذیب اس لیے ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ انسان تنقید کا شعور لے کر پیدا ہوا اور جسے تہذیب کے سورج کی گرمی اور روشنی زمین کو سنوارتی اور بناتی گئی۔ ویسے ویسے تنقید کا شعور بھی ارتقا کی منزلیں طے کرتا رہا اور جب تہذیب نے ایک جامہ پہن لیا اور انسان اپنے احساسات کی ترجمانی اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بات چیت کرنا شروع کی تو تنقید نے ایک شکل اختیارکرنا شروع کی۔

اگر ہم قدیم زمانے کے ادب پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یونانی ادب دنیا کاقدیم ترین ادب ہے۔ یونانی قوم نے اس زمانے میں علم و فن اور تہذیب و تمدن میں اپنی معراج کو پالیا تھا۔ جب دنیا جہالت میں تھی، یونان میں علم و حکمت بام عروج پر تھی۔ تنقید اور اس کا معیار بھی سب سے پہلے یونانی ادب میں ملتا ہے اور تنقید کا پہلا اشارہ یونان کے قدیم ترین شاعر ’ہومر‘ کے ہاں ملتا ہے اس نے اپنی تصنیف ’اوڈیسی‘ میں لکھا ہے کہ :

’’اس مقدس مطرب ’ڈیموڈوکس‘ کو بلاؤ کیونکہ خدا نے اسے جیسی گانے کی صلاحیت دی ہے کسی اور کو نہیں دی اس لیے کہ جسے اس کا دل چاہے اس طرح گا کر انسانوں کو خوش کرے۔‘‘(بحوالہ : بوطیقا، ص 3، تمہید)

یونانیوں نے سب سے پہلے ادب و تنقید پر روشنی ڈالی اور اس کو معراج کمال تک پہنچایا۔ پروفیسر بوچر نے افلاطون کی تنقیدی بصیرت کی داد دی، اور افلاطون نے سب سے پہلے فلسفیانہ تنقید پر روشنی ڈالی اور اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس نے لکھا  :

’’افلاطون کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے وسیع اور فلسفیانہ تنقید کا سنگ بنیاد رکھا جو علم و ادب کی روح ہے۔‘‘ (بحوالہ : روح تنقید، ڈاکٹر زور،ص 160)

تنقید پر ارسطو کی کتاب ’بوطیقا‘ سب سے پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب سے نہ صرف تنقیدی رجحانات کا پتہ چلتا ہے بلکہ اصول نقد پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ عزیز احمد نے بوطیقا کی تمہید میں لکھا :

’’جہاں تک خالص تنقید کا تعلق ہے معلم اول کا یہ شاہکار دنیا بھر میں بے مثل ہے۔‘‘

(بحوالہ : بوطیقا ارسطو مترجمہ عزیز احمد، ص 32)

ارسطو نے ادبی فن پاروں کو پرکھنے کے لیے جو اصول معین کیے وہ بے پناہ تنقیدی صلاحیت کا ثبوت ہے رزمیہ المیہ اور طربیہ پر اس نے جس طرح بحث کی ہے وہ تنقید کا بہت بڑا شاہکارہے۔ ارسطو نے پہلی بار المیہ و طربیہ شاعری پر تنقیدی بحث کی، یہ المیہ کو اس لیے پسند کرتا ہے کہ اس سے اخلاق کا درس ہے۔ اس طرح تنقید یونان میں پہلی بار باقاعدہ شکل میں آئی۔

عربی ادب کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اسلام سے پہلے بھی جب تہذیب و تمدن نام کی کوئی چیز کا وجود نہ تھا۔ بہترین شاعری کے نمونے ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے اصول اور قاعدہ بھی مقرر کیے تھے جس کی بنا پر وہ اچھی اور بری شاعری میں فرق کرتے تھے۔وہ شاعری میں طرز بیان کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے۔ ابن رشیق نے اپنی کتاب ’کتاب العمدہ‘ میں جدت اور طرز اور ندرت بیان پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔

’’ادائے ندرت معنی کیلئے نئے انداز نکالنا اور ایک ایک بات کو کئی کئی طرح ادا کرنا شاعرانہ کمال ہے۔‘‘

(اردو تنقید کی تاریخ، مسیح الزماں، ص 10)

اس زمانے میں تنقید کا باقاعدہ وجود نہ تھا لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ اصول نقد موجود تھے۔ مثلاً ابن خلدون نے تنقید کے اس طریقے کو ضروری سمجھا اور لکھا ہے :

’’جب اشعار نظم کرلیں اور فراغت مل جائے تو خود اپنے اشعار پر ناقدانہ نظر ڈالنی چاہیے۔‘‘

(مقدمہ ابن خلدون، ص591)

ایرانی نقادوں نے شاعری کو صرف احساسات کی ترجمانی اور جذبات کی شدت بیان کرنے کا ایک ذریعہ ہی نہیں سمجھا بلکہ انداز بیان کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ ایران کی ابتدائی شاعری میں عروض و ظاہری خوبیوں کو شروع ہی سے زیادہ اہمیت حاصل رہی:

’’شمس قیس رازی نے اس بات سے بحث کی کہ شاعری اور تنقید الگ الگ چیزیں ہیں اس لیے کوئی ضروری نہیں کہ اچھا شاعر اور اچھا نقاد یا اچھا نقاد اچھا شاعر بھی ہو۔‘‘

(شمس قیس رازی کتاب العجم بحوالہ اردو تنقید کی تاریخ مصنف مسیح الزماں)

اس نے پہلی بار تنقید کو فن کی حیثیت سے محسوس کیا۔  سنسکرت ادب بھی دنیا کے قدیم ادب میں شمار ہوتا ہے۔ جس طرح تمام زبانوں میں زبان کی ابتدا شاعری سے ہوئی اسی طرح سنسکرت میں بھی اس کے ابتدائی نقوش شاعری کی صورت میں ملتے ہیں۔ جس طرح تنقید کی باقاعدہ ابتداء ارسطو کی کتاب ’بوطیقا‘ سے ہوئی اس طرح سنسکرت میں بھی تنقیدی شعور کا اندازہ ناٹیہ شاستر سے ہوتا ہے۔اس زمانے میں تنقید میں فن بلاغت، علم بیان معانی اور علم بدیع پر بہت زیادہ زور دیا گیا۔ سنسکرت میں شاعری کے تقریباً وہی اصول نظر آتے ہیں جو یونانی ادب میں نظر آتے ہیں۔ ساہتیہ درپن میں وشواناتھ نے شاعری کی تعریف میں لکھا :

’’وہ کلام جس سے لذت حاصل ہو یعنی جذبات اور لذت کا ہونا شعر کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔‘‘

(ساہتیہ درپن از :وشواناتھ، ترجمہ سالک رام شاستری، ص13)

اس کے علاوہ بھاؤ کو سنسکرت شاعری میں بہت اہم قرار دیا۔ شاعری کے مقصد کے لیے سنسکرت میں بعض شعرا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جس سے ان کے تنقیدی شعور پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً سنسکرت کے مشہور عالم ممٹ نے لکھا ہے :’’شبد ارتھو کا ولیم‘‘یعنی لفظ و معانی ہی شاعری ہے اس لیے لفظ کبھی معانی سے جدا نہیں ہوتا اس طرح ناٹیہ شاستر کے مصنف بھرت نے بہتر شاعری کے لیے سب سے زیادہ اہم رسوں کو بنایا ہے۔

مغربی ادب کا تنقیدی شعور ایک طویل عرصہ تک ارسطو کے بنائے ہوئے تنقیدی اصولوں سے بہت زیادہ متاثر رہا۔ جس کی تحریک ارسطو کی کتاب ’بوطیقا‘ سے ہوئی۔ تنقید کے ارتقاء کی تاریخ میں اٹھارویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کی تیسری دہائی کا زمانہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں تنقید کے تمام بنیادی مسائل سامنے آئے جوکہ آج بھی نظر آتے ہیں۔ اس زمانے میں تنقید کا ایک ایک اہم رجحان نو کلاسکیت سے شروع ہوا جس نے تنقید میں ایک اہم باب کا اضافہ کیا۔ یہ تحریک اٹلی اور فرانس میں سولہویں صدی میں شروع ہوئی۔ یہ تحریک کلاسکیت تحریک سے وراثت میں آئی۔ اس تنقید میں نئے رجحانات کو قبول کیا گیا۔ جوکہ بعد میں رومانی کی شکل میں نمایاں ہوئی۔ نو کلاسکیت تنقید کے عام اصول شائستگی یا ظاہری آرائش عام روایات اور اصول ہیں۔ نو کلاسیکی کے نظریہ کی بنیاد Imitation of Nature پر ہے۔

نوکلاسیکی تنقید کی ارتقا میں جان ڈرائڈن کو اہمیت ہے۔ ڈرائڈن پہلا شاعر ہے جس نے اپنی تحریروں میں نوکلاسکیت کے اصول پیش کیے اس میں شاعری طنز و مزاح ڈرامہ پر تنقیدی مضامین لکھے۔ مختلف اصناف کے ذریعے نوکلاسکیت کے نظریے کو پیش کیا۔ویلک نو کلاسکیت تنقید کا نمائندہ تھا۔

کلاسیکی حقیقت پسندی کے بعد تنقید میں رومانی تحریک کی ابتداء ہوئی۔ یہ ایک رومانی تحریک تھی۔ اس نے تمام پرانے روایات سے بغاوت کی اور ادب کے اصولوں کو ازسرنو ترتیب دیا۔

رومانیت کی بنیاد تصوریت اور ماورائیت پر ہے۔ اسی لیے اس میں میانہ روی کی گنجائش نہیں ہے۔ رومانوی ادیبوں کے یہاں جذباتی انتہا پسندی ہے ان کا احساس بہت شدید اور تصور بہت بلند ہے۔ ہیگل کے فلسفے نے رومانیت کے راستے کو ہموار کرنے میں بڑی مدد دی اس لیے کہ اس کے یہاں بھی تصوریت اور ماورائیت کی بہتاب ہے۔ شوپنہار کا فلسفہ جمالیات اور فلسفہ غم بھی رومانی تصور ہے۔

تنقید میں رومانی تحریک جرمن سے شروع ہوئی تھی جو بہت جلد انگلستان اور فرانس میں پہنچی۔ اس تحریک کو عام کرنے میں ٹین (Taine) اور سینٹ بیو نے سب سے زیادہ کام کیا۔

تنقیدی رجحانات عام طور پر حالات اور واقعات کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔ رومانی تنقید سے جدید تنقید کی ابتداء ہوئی اس لیے کہ اس زمانے میں تنقید میں فلسفیانہ نفسیاتی اور جمالیاتی تنقید پر زور دیا گیا۔ بعض لوگوں نے کسی بھی فن پارے کا معیار اس سے حاصل ہونے والی ذہنی سکون پر رکھا۔ تو بعض نے اس کی سماجی اہمیت پر زور دیا۔ کچھ لوگوں نے سائنٹفک کی ابتداء کی تو کچھ لوگوں نے ادب میں فنی خصوصیات جمع کرکے جمالیات تنقید کی بنیاد ڈالی۔ سائنٹفک تنقید ادیب او فنکار کے تمام پہلوؤں سے بحث کرتی ہے اس میں اس زمانے کے سماجی حالات اور خیالات کا گہرا عکس دکھائی دیتا ہے۔

سائنٹفک کے ابتدائی نقوش ٹین کے یہاں ملتے ہیں۔ حالات و نظریات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تنقید کی راہیں بھی بدلتی گئیں۔ کچھ لوگوں نے ادب کے مطالعہ میں تاریخ کی اہمیت پر زور دے کر تاریخی تنقید کی ابتداء کی جس کے تحت سیاسی و عمرانی اثرات کا بھی مطالعہ کیا۔ اس طرح نفسیاتی اور سوانحی تنقید کا بھی وجود ہوا۔ انیسویں صدی میں تنقید میں بہت سے نئے رجحانات آنے لگے۔ سائنٹفک تنقید نے جن باتوں پر اپنی بنیاد رکھی انہی سے تنقید کی ایک نئی شاخ جمالیاتی تنقید بھی نکلی جس میں جمالیاتی اقدار پر زور دیا:

’’مجنوں گورکھپوری کا بیان ہے جمالیات فلسفہ ہے حسن و فن کاری کا۔‘‘

(تاریخ جمالیات،مجنوں گورکھپوری، ص12)

جمالیاتی تنقید کے اولین نقادوں میں والٹر پیٹر کا نام لیا جاتا ہے۔

تنقید کے اس نظریے میں مسرت اور حسن کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جمالیاتی نقاد کسی بھی فنی تخلیق میں سب سے زیادہ یہ دیکھتا ہے کہ وہ کہاں تک حظ پہنچاتی ہے۔ جمالیاتی تنقید سے ایک شاخ تاثراتی تنقید کی نکلی۔ جمالیاتی تنقید میں جب حد درجہ داخلیت پیدا ہوجاتی ہے تو تاثراتی تنقید بن جاتی ہے۔ تاثراتی تنقید میں صرف ان باتوں پر نگاہ رکھی جاتی ہے کہ کسی بھی ادبی تخلیق کے مطالعے کے وقت ذہن پر کونسا وجدانی اثر طاری ہوتا ہے۔ وہی تاثر اس تخلیق کے اقدار کو متعین کرتا ہے۔

امریکی نقاد اسپنگارن جس نے تاثراتی تنقید کو تخلیقی تنقید کا نام دیا ہے۔ والٹر پیٹر اور آسکر واٹلڈ اسی دبستان کے علمبرداروں میں سے ہے تاثراتی تنقید میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کسی تخلیق کے مطالعے سے نقاد کے ذہن پر کیا اثر پڑتا ہے۔

جدید دور میں ادب میں سماجی نقطۂ نظر پر زور دیا گیا ہے۔ نقاد یہ دیکھتا ہے کہ ادبی تخلیقات میں فنکار نے کس زاویہ سے سماجی مسائل پر روشنی ڈالی۔ اس کا انداز فکر کیا ہے۔ وہ کس طبقے کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس طرح تنقید کا سلسلہ معاشیات، نفسیات، سیاسیات اور دوسرے علوم سے مل گیا۔ تنقید کا کام ادب کی ترجمانی کرنا ہے اور اس کے محاسن اور اقدار کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ جدید تنقید میں ایک باقاعدہ اسکول مارکسی نقادوں کا ملتا ہے جس نے ادب اور سماج کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ مارکسی ناقدین کا خیال ہے کہ ادب کی تخلیق کے لیے دوسرے علوم کا سہارا لینا ضروری ہے۔ ادب زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ سماجی مارکسی تنقید کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ادب اور زندگی کے متعلق اس کی افادیت پر زور دیا ہے۔

جدید تنقید نگاری میں نفسیاتی تنقید کا ایک اہم رجحان ملتا ہے جس کی باقاعدہ ابتدا فرائڈ سے ہوتی ہے اس نظریے کے تحت سب سے زیادہ زور فرد پر دیا جاتا ہے اور ادب کو خالق کی نفسیاتی الجھنوں اور تشنگیوں کی تصویر بنایا جاتا ہے۔ جدید نفسیات کی مقبولیت فرائڈ کی تحریروں خصوصاً اس کے فلسفے تحلیل نفسی سے ہوتا ہے۔ فرائڈ نے خواب کی تعبیر و تشریح کی اور بتایا کہ خواب کی طرح ادب بھی ہماری ناکامیوں کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ نفسیاتی فلسفیانہ،ادبی اور سماجی تحریکوں کا اثر عالمگیر صورت میں ظاہر ہوا ان اور تحریکات نے مشرق اور خصوصیت سے ہندوستانی ادب کو بھی متاثر کیا۔ ہندوستانی سماج کے تنقیدی نظریات میں اس قسم کے تحریکات نظر آتے ہیں۔ ’’سرسید نے سب سے پہلے فکر کو ایک سائنسی نقطۂ نظر دیا اور چیزوں کو پرکھنے کے لیے تنقیدی نظریہ عطا کیا۔ یہ سرسید ہی کی دین تھی کہ تنقیدی شعور نے صدیوں کی راہ ایک جست میں طے کرلی۔ ہم دیکھتے ہیںکہ تنقید ایک دم تذکروں سے نکل کر آب حیات کے دائرے میں آگئی۔ یہ بہت بڑی ترقی تھی۔ دوسرے تذکروں کے مقابلے میں ’’آب حیات‘‘ میں باقاعدہ تنقیدی رجحان اور اصول ملتے ہیں۔ آزاد کا اصول تمثیلی ضروری ہے۔

لیکن انھوں نے اپنے خاص انداز میں شاعری کا تجزیہ کرکے ادبی پرکھ کا ایک نیا طریقہ اور معیار متعین کیا۔ اس ضمن میں آب حیات کے علاوہ نیرنگ خیالات کا مقدمہ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے جس میں بدلتے ہوئے حالات کا شعور ملتا ہے اور ان حالات کے پیش نظر نئی ادبی روایتوں کی تدوین کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ آب حیات کے بعد مقدمہ شعر و شاعری اس سے زیادہ اہم قدم تھا چوںکہ انیسویں صدی کے آخری نصف حصّے میں ہندوستان میں بہت سی نئی چیزیں آئیں بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس زمانے میں پورا نظام حیات بدل گیا۔ اس لیے تنقیدی شعور اور ادبیات میں تبدیلی کا ہونا لازمی تھا جو نئے تنقیدی شعور کی نشاندہی کرتی ہیں۔

اردو ادب میں ابتدائی تنقیدی اشارے تذکروں میں ملتے ہیں۔ تذکروں میں ان تنقیدی اشاروں کی بڑی اہمیت ہے۔ دراصل ہماری جدید تنقید کی بنیاد ہی اشارے ہیں۔ تذکرہ نگار جس شاعر کا ذکر کرتا ہے اس کے کلام پر خود ہی رائے دیتا ہے۔ تنقیدی شعور کا یہ سلسلہ شعرا کے کلام سے تذکروں تک پہنچتا ہے۔ اسے تنقیدی شعور کی ابتدا کا زمانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ تنقیدی شعور کی بہت سی مثالیں شاعروں کے کلام تقریضوں اور خطوط میں مل جاتے ہیں۔ تذکروں کے فوراً بعد آب حیات کا نام آتا ہے۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے جدید تنقیدی خیالات کا اظہار آزاد ہی نے کیا۔ آب حیات میں شاعری کے مختلف موضوعات پر بحث کی۔ اس میں شعرا کے کلام پر تنقید و تبصرہ بھی ملتا ہے۔ آب حیات کی تنقید غیر جانبدارانہ نہیں ہے۔ پھر بھی اسے تنقید سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ آب حیات کو ہم صرف تذکرہ نہیں کہہ سکتے کیوںکہ اس میں اور دوسرے تذکروں کے انداز میں خاصا فرق ہے۔ آب حیات دراصل ہماری پہلی ادبی تاریخ ہے جس میں تذکرے کی خصوصیت اور تنقید بھی ہے۔

مغربی اثرات میں آزاد، حالی، سرسید اور شبلی نے سب کو متاثر کیا۔ یہاں اردو تنقید تعریف و توصیف کے دائرے سے نکل کر سماجی اور نفسیاتی تجزیے کے حدود میں داخل ہوئی۔ ادب میں زندگی اور مقصدیت کا وجود عمل میں آیا۔ جس نے تنقید کو نئے اور زندہ اصول دیے ہیئت اور اسلوب کے ساتھ مواد اور موضوع پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ اس طرح اردو ادب میں رومانی تنقید، نفسیاتی تنقید، تاثراتی تنقید، جمالیاتی تنقید، مارکسی تنقید اور سائنٹفک تنقید وجود میں آئی۔

اردو میں جمالیاتی و تاثراتی تنقید

جمالیاتی تنقید کا مقصد ادبی فن پاروں میں مسرت و حسن کے اجزا کو تلاش کرتا ہے۔ چونکہ جمالیات فنون لطیفہ کے بارے میں اظہار خیال کرتی ہے اس لیے اس کو فلسفہ فن کہا گیا ہے۔ ادب ایک ایسا فن ہے جس کا کام تخلیق حسن ہے جوکہ دائمی مسرت کا باعث ہوتا ہے اس لیے فنکار کی طرح نقاد بھی اس تخلیق کی ٹکنک میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اردو میں جب ہم جمالیاتی تنقید کی تلاش کرتے ہیں تو ہمیں مختلف نقادوں کے یہاں ایسے رجحانات اور اشارے مل جاتے ہیں جو اردو میں جمالیاتی تنقید و تاثراتی تنقید کی شکل میں ملتی ہے۔ ان نقادوں میں آزاد، شبلی، مہدی افادی، سجاد انصاری، عبدالرحمن بجنوری، اثر لکھنوی، مجنوں گورکھپوری، رشید احمد صدیقی، نیاز فتح پوری اور حسن عسکری کے نام اہم ہیں۔

سائنٹفک تنقید

انیسویں صدی کے درمیان ہی میں ٹین کے تاریخی نظریے کے ساتھ سماجی نظریہ پیدا ہوا جس کی ابتدا مارکسی اور ہیگل نے کی۔ حقیقت میں سماجی رجحان ٹین کے نظریۂ نسل زمانہ اور ماحول پر زور دینے سے شروع ہوا۔

جدید سماجی نظریہ اٹھارویں صدی سے شروع ہوتا ہے۔ مارکسی تنقید کی ابتدا مارکس سے شروع ہوتی ہے۔ ادب انسان کے خیالات و جذبات کے اظہار کا نام ہے اور اس کے خیالات اور جذبات بنیادی تجربات پر ہوتی ہے۔ جب ہم ادب کے لیے یہ بات کہتے ہیں تو اس کا سلسلہ زندگی اور اس کی مادی حالت میں مل جاتا ہے۔ ادب اور فن کا ارتقا خلا میں وجود رکھنے والا خود مختار عمل نہیں ہے ایسی تخلیقات ان ہی روایات اور سماجی ماحول سے وابستہ ہوتی ہے جن میں وہ سانس لیتا ہے۔ جن حالات سے اس کی زندگی دوچار ہوتی ہے۔ ادب کو زندگی کا آئینہ کہا گیا ہے۔ فنکار اپنے طبقہ اور زمانہ کا عکاس ہوتا ہے۔ مارکسی تنقید نہ تو فنی صنعت گری کے خلاف ہے نہ جمالیاتی احساسات اور نہ حسن کے خلاف بہتر مارکسی تنقید ایک اچھے فن پارے میں احساسات کی رفعت جمالیات و تاثرات اور فنی اقدار کے شعور کو بھی دیکھتی ہے۔ جب ہم ان تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر ادبی تخلیق کی پرکھ کرتے ہیں تو وہ صحیح معنوں میں سائنٹفک تنقید بن جاتی ہے۔ سائنٹفک تنقید کے نقادوں میں سب سے اہم نام حالی کا ملتا ہے۔ حالی نے ادب اور سماج کا رشتہ جوڑنے کی کوشش کی۔

انھوں نے سب سے زیادہ مغرب کا اثر قبول کیا۔ ان کے تنقیدی شعور میں وہ پختگی نظر آتی ہے جو اس دور کے دوسرے نقادوں کے یہاں نظر نہیں آتی۔ تاثراتی اور سائنٹفک نقادوں میں اہم نام اختر حسین رائے پوری، سجاد ظہیر، احتشام حسین، اختر انصاری، سردارجعفری، ممتاز حسین، جسارت بریلوی، ظ۔ انصاری، محمد حسن اور قمر رئیس کے ہیں۔

 

Dr. Mohd Khwaja Makhdoom Mohiuddin

Asst. Professor/ Incharge Head Dept of Urdu

Dr. B R Ambedkar Open University

Hyderabad- 500033 (Telangana)

Mob.: 9849402769

maqdoom_siasat@yahoo.com 

18/8/25

پنچ تنتر کے اردو تراجم، مضمون نگار: سید اسرارالحق سبیلی

 اردو  دنیا، اپریل 2025


عالمی ادب میں کچھ کتابیں ایسی لا فانی اور شاہ کار ہوتی ہیں،جن کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ایسی کتابیں اخذ و ترجمے کے توسط سے پورری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں۔ جیسے فارسی میں سعدی کی گلستاں وبوستاں،فردوسی کا شاہ نامہ،مولانا روم کی مثنوی معنوی،عربی میں الف لیلہ ولیلہ اور سنسکرت میں پنچ تنتر وغیرہ۔یہ کتابیں گویا بین الاقوامی سطح پرادبی وعلمی ورثے کا درجہ رکھتی ہیں،اور قوموں کے درمیان علمی وفکری ہم آہنگی کا ذریعہ ہیں۔

ڈاکٹر خوشحال زیدی کے بقول ہندوستان کی بیشتر زبانوں میں ادبِ اطفال کی بنیاد پنڈت وشنو شرما کی ’پنچ تنتر‘ سے پڑی۔وشنو شرمانے اسے جانوروں کی زبانی کہانیوں کی شکل میں پیش کیا۔پنچ تنتر کی تصنیف کا مقصد دلچسپ کہانیوں کے ذریعے اخلاق و حکمت کی تعلیم دینا تھا۔ ڈاکٹر خوشحال زیدی نے ڈاکٹر ہری کرشن دیوسرے کے حوالے سے اس کی وجہِ تصنیف یوں بیان کی ہے:

’’ جنوبی ہندوستان کے روپا نگر میں امر کیرتی راجہ راج کرتا تھا۔اس کے چار بیٹے تھے۔چاروں ہی بے وقوف اور جاہل تھے۔

انھیں پڑھانے کے لیے کئی طریقے آزمائے گئے، مگر سب بے سود ثابت ہوئے۔آخر کاریہ ذمے داری پنڈت وشنو شرما کو سونپی گئی کہ وہ ان راج کماروں کو  راج کاج کے طریقے سکھائیں اور انھیں اخلاقیات کی تعلیم دیں۔وشنو شرما نے جانوروں کی وساطت سے انسانی خصوصیات،سماجی رشتوں اور انسانی پیچیدگیوں کی تشریح و توضیح کی۔یہ کہانیاں اتنی دلچسپ ہیں کہ آج بھی اسی ذوق وشوق سے پڑھی جاتی ہیں۔‘‘1

’’کلیلہ و دمنہ‘ کے مقدمہ میں مذکو ر ہے کہ اس کتاب کو ہندوستان کے فلسفی اور معلم بیدبا نے وقت کے بادشاہ دبشلیم کے لیے لکھا تھا۔جب کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ’پنچ تنتر‘کسی ایک شخص کی تخلیقی کاوش نہیں ہے،بلکہ اس کی جڑیں نامعلوم زمانوں تک قدیم ہندوستان کے اجتماعی لا شعور میں ہیں،اور ’پنچ تنتر‘ ہندوستان کے تین مقبول اور قدیم ادبی فن پاروں:پنچ تنتر،ہِتو اپدیش اور سرت ساگر کا منتخب مجموعہ ہے۔

ڈاکٹر مرضیہ عارف کے بقول ڈاکٹر ہرٹل کا دعویٰ ہے کہ’پنچ تنتر‘آج اپنے حقیقی روپ میں موجود نہیں ہے۔یہ بنیادی طور پر’تانترائیکا‘ نام کی ایک قدیم کتاب کی بعض کہانیوں،داستانوں اور روایتوں کا مجموعہ ہے۔اس کی اصل کتاب دو سو قبل مسیح کشمیر میں تالیف کی گئی تھی،جس کا ایک قلمی نسخہ دکن لائبریری پونا میں محفوظ ہے۔بیش تر ریسرچ اسکالر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اصل کتاب ایک طرح کے سیاسی اور سماجی نصاب کی شکل میں نوعمر شاہ زادوں کے لیے لکھی گئی تھی،لیکن اس کے ضائع ہو جانے کے بعد یادداشتوں کی بنیاد پر از سرِ نو پنچ تنتر مرتب کی گئی۔ اس میں بعض کہانیاں پرانی کتاب کی اور کچھ نئی شامل کی گئی ہیں،جو ظاہر ہے کہ اپنی اصل سے مختلف ہے۔ایک روایت کے مطابق ’’پنچ تنتر‘‘ کو مرتب کرنے والے ودیا پتی کا زمانہ تین سو سال قبل مسیح ہے۔دوسری روایت کے مطابق وشنو کرمان کے سر اس کتاب کو لکھنے کا سہرا بندھتا ہے۔ 

اب رہی بات کہ یہ کس زبان میں لکھی گئی؟بعض لوگوں نے اسے کشمیری زبان میںبتایا ہے،اور اس کا ایک نسخہ دکن لائبریری پونے میں محفوظ بتایا ہے۔بعض نے پراکرت بھی بتایا ہے۔یہ ممکن ہے کہ اس کا ہند کی دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوا ہو۔اسی طرح بیدبا ودیا پتی کا ترجمہ ہو،اور یہ نام کے بجائے صفت ہو،اور اصل نام وشنو شرما یا وشنو کرمان ہو۔

پنچ تنتر‘ ادبِ عالیہ کا وہ شاہ کار ہے،جس کا ترجمہ فارسی،عربی،ترکی اور عبرانی سمیت دنیا کی تقریباََ پچاس بڑی زبانوں میں ہو چکاہے۔خسرو اول نوشیرواں عادل کے عہدِ حکومت(531-578ء)میں سنسکرت زبان میں لکھی گئی پنچ تنتر کا سب سے پہلا ترجمہ پہلوی زبان میں ماہر حکیم برزویہ نے کیا۔برزویہ نے اصل کتاب پر مزید کہانیوں اور واقعات کا اضافہ کیا،اور کتاب پر ایک مقدمہ لکھا،جس میں اس نے اپنے احوال اور حصولِ کتاب  کے لیے ملکِ ہند کو روانگی،ہند میں قیام اور واپسی کے احوال لکھے ہیں۔ اس پہلوی ترجمے کو عباسیوں کے عہد ِ حکومت میں فارسی نژاد نامور ادیب و انشا پرداز عبد اللہ ابنِ مقفع (106-143 ء)نے ’کلیلہ و دمنہ‘ کے نام سے عربی میں منتقل کیا،اور اس میں مزید چار فصلوں کا اضافہ کیا۔ بقولِ فلپ کے۔ہِتِی ’کلیلہ و دمنہ‘ ہم تک پہنچنے والی قدیم ترین ادبی عربی تخلیق ہے۔اصل سنسکرت اور اس کا پہلوی ترجمہ ناپیدہوجانے کے باعث تمام تراجم کی بنیاد اسی عربی ترجمے پر ہے۔

ابنِ مقفع کے عربی نسخے سے کئی تراجم دوبارہ فارسی میں ہوئے،جن کو سامنے رکھ کر حسین واعظ کاشفی نے’انوارِ سہیلی‘ مدون کی۔جلال الدین اکبر کی ایما پر ابوالفضل نے کلیلہ و دمنہ کے دستیاب نسخوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انھیں سادہ اور عام فہم زبان میں نئی ترتیب کے ساتھ فارسی کا جامہ پہنایااور اس کا نام’’عیارِ دانش ‘‘ رکھا۔

اردو میں عیارِ دانش کے کئی ترجمے ہوئے،لیکن زیادہ شہرت شیخ حفیظ الدین احمد کے ترجمے ’خردِ فردا‘کو ملی، جو 1805 میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے چھپی۔ اسی طرح دکن میں کلیلہ و دمنہ کے کئی تراجم ہوئے۔دکنی زبان کے کئی ادبا،شعرا اور صوفیا نے پنچ تنتر کے مختلف اقتباسات اور کہانیوں کا دکنی زبان میں ترجمہ کیا۔اسی طرح فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس کے تحت محمد ابراہیم بیجا پوری نے 1823 میں فارسی ’انوارِسہیلی‘ کا تر جمہ دکنی زبان میں کیا۔2

دکنی زبان میںپنچ تنتر نے نہ صرف ادب کو کافی فروغ دیا،بلکہ دکنی بیانیہ ادب پر بھی گہرا اثر چھوڑا۔اس نے کہانی سنانے کی مقامی روایت کو تقویت دی،اور اخلاقی سبق کے ذریعے لوگوں کی تربیت کی۔

پنچ تنتر‘ کے اردو مترجمین میں سید حیدر بخش حیدری، ڈپٹی نذیر احمد،محمد حسین آزاد، مولوی ظہیرالدین، مولوی فیروزالدین اور محمد عبد الغفور نساخ کا نام بھی آتا ہے۔

شکنتلا دیوی کی مرتَبہ’پنچ تنتر‘ کا ایک اردو ترجمہ ڈاکٹر اطہر پرویز نے کیا تھا،جو 1963میں اردو گھر علی گڑھ سے شائع ہواتھا۔اس کی زبان بچوں کے لیے بہت آسان اورعام فہم ہے،اور تر جمہ کے بجائے اصل کہانی کا گمان ہوتا ہے۔

عربی ’کلیلہ و دمنہ‘ کا براہ ِ راست اردو ترجمہ حیدرآباد کے ایک عالم و فاضل مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی نے 2011 میں مکمل کیا۔2014  میں یہ ترجمہ دوسو تیس صفحات پر مشتمل قبا گرافکس حیدرآباد نے شائع کیا ہے،جو ہندوستان کے مختلف شہروں کے کتب خانوں میں دستیاب ہے۔

اس ترجمے کا پیش لفظ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ نے تحریر کیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ کلیلہ و دمنہ زبان و ادب کو سیکھنے سکھانے اور حاکم و محکوم کو اپنے اپنے دائرے میں دور اندیشی کی تعلیم دینے میں ایک نمایاں اور کامیاب کتاب ہے۔انہوں نے مترجم کی ان الفاظ میں ستائش کی ہے:

’’ابنِ مقفع کے ادبی شہ پاروں کو اردو کا قالب دینے میں مترجم نے بڑی کوشش کی ہے۔ترجمہ میں امکانی حد تک سلاست و روانی پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے،لیکن ظاہر ہے کہ دوسری زبان میں ادب کا وہی معیار باقی رکھنا جو اس کتاب میں ہے جس سے ترجمہ کیا جارہا ہے،بڑی دقت اور مزاولت کا طالب ہے،تاہم مترجم قابلِ ستائش ہیں کہ انھوں ادب کے اس مرغزار کی سیر کی اور اپنے اردو داں بھائیوں کے لیے اپنی مادری زبان میں اس کی عکاسی کی۔3

جب یہ بات قابلِ تسلیم ہے کہ پنچ تنتر کا اصل نسخہ ناپید ہے،اور اس کا پہلا فارسی ترجمہ ماہر طبیب برزویہ نے کیا جو فارسی اور سنسکرت دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا تھا۔اسی طرح فارسی ترجمہ سے ابنِ مقفع نے عربی میں ترجمہ کیا ہے،جو فارسی کا ماہر انشاپرداز، اس کے اصول وآداب کا واقف کار اور اس پر مکمل قدرت رکھتا تھا۔اس کی مادری زبان فارسی تھی۔اسی طرح وہ پہلوی اور یونانی زبان سے بھی واقف تھا۔وہ دوسری صدی ہجری کے ابتدائی نصف حصے میںبصرہ میں پلا بڑھا۔وہ عربی زبان سے اچھی طرح واقف تھا، اور عربی کا نامور ادیب شمار کیا جاتا ہے۔

آج  جب عربی نسخہ ہی ہمارے سامنے اصلی صورت میں موجود ہے،اور اس کا مکمل اردو ترجمہ بھی موجود ہے تو ہمیں اسی کو بنیاد بنا کربات کرنی چاہیے، جیسا کہ فارسی مترجم برزویہ نے اپنے مقدمہ میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ہندوستانی فلسفی بیدبا نے ہندوستانی بادشاہ دبشلیم کے لیے یہ کتاب لکھی تھی، جو سکندر رومی کے جانشیں کے بعد ملکِ ہند کا بادشاہ بنا تھا،اور اقتدار میں آنے کے بعد نہایت سرکش اور ظلم وستم کا خوگر بن گیا تھا۔بیدبا نے اس کی اصلاح اور اس کو راہِ راست پر لانے کے لیے یہ کتاب ترتیب دی،بلکہ کتاب لکھنے سے پہلے بادشاہ سے ملاقات کرکے اور اپنے علم و حکمت اور اخلاق و آداب سے اس کو متاثر کیا،جس کی بناپر بادشاہ نے اس کو اپنا وزیر مقرر کر لیا،اوربیدبا سے یہ کتاب لکھنے کی خواہش کی۔برزویہ کے مقدمہ میں مذکور ہے کہ دبشلیم بیدبا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:

’’میں چاہتا ہوں کہ تم میرے لیے ایسی فصیح و بلیغ کتاب لکھ ڈالو،جس میں تم اپنے قوائے فکر کو استعمال کرو،جوظاہراً سیاستِ عامہ اور اس کی اصلاح پر مشتمل ہو،باطنی طور پر اس میں بادشاہوں کے اخلاق، ان کے رعایا پر حکم رانی کے انداز،رعایا کی بادشاہ کی تابع داری اور اس کی خدمت گزاری جس سے خود میں اور دیگر لوگ بہت سی ان ہلاکت خیزیوں اورتباہیوں سے بچ جائیں،جس کی ضرورت بادشاہ کے مصائب میں پڑ جانے کے وقت ہوتی ہے۔یہ کتاب میرے بعد سالہا سال یادگاررہے...بیدبا! تم نہایت صائب الرائے اور بادشاہوں کے معاملات میں اطاعت گزار واقع ہوئے ہو۔میں نے یہ چیز تمہارے اندر پرکھ لی ہے۔میری خواہش ہے کہ تم ہی اس کتاب کو ترتیب دو،اس میں تم اپنے قوائے فکرو عمل کو بروئے کار لائو۔اپنے تئیں پوری ان تھک کوشش کرو۔اس سلسلہ کی پوری جدوجہد کرو۔یہ کتاب حقائق، طنزومزاح، لہوولعب اورحکمت و فلسفہ پر مشتمل ہونی چاہیے۔‘‘4

بیدبا نے یہ کتاب اپنے شاگرد کے تعاون سے ایک سال میں مکمل کی۔بیدبا اپنے شاگرد کو کتاب املاء کراتا تھا۔بیدبا اپنے شاگرد کو کتاب کی غرض و غایت بتاتے ہوئے کہتا ہے:

’’ بادشاہ کی شرط کے مطابق اسے تفریح ِ طبع اور علم و حکمت دونوں کا مجموعہ بنادے... وہ اور اس کا شاگرد بادشاہ کے اس مطالبہ پر غورو فکر کرنے لگے۔ان کی عقل نے انھیں یہ رہ نمائی کی کہ ان کا کلام دو جانوروںکی زبان میں ہو۔جانوروں کی گفتگوکو وہ کھیل کود،تفریحِ طبع اور مزاح و مذاق کی جگہ رکھیں۔خود ان دونوں کی گفتگو حکمت ہو۔حکیم اور دانش ور اس کتاب میں حکمت پر توجہ دیں،جانوروں اور مزاح و مذاق کو چھوڑ دیں، اور یہ سمجھ لیں کہ اس کتاب کا مقصود بھی یہی ہے،اور عوام اس کتاب کی جانب دو جانوروں  (لومڑی:کلیلہ اور دمنہ)کی باہم گفتگو سے متعجب ہو کر متوجہ ہوں۔‘‘5

 ان اقتباسات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ بیدبا نے یہ کتاب صرف شہ زادوں اور راج کماروں کے لیے نہیں لکھی تھی،بلکہ تفریحِ طبع کے ساتھ ساتھ بادشاہ اور رعایا کے درمیان خوش گوار تعلقات،اور ایک دوسرے کا پاس و لحاظ رکھنے، علم و حکمت اورفلسفہ و دانش کی باتوں سے اپنے ذہن و دماغ کو روشن و منور کرنے کے لیے لکھی تھی۔اس کی ضرورت نہ صرف شہ زادگان کو،بلکہ حکمرانِ وقت اور عوام و خواص کو بھی ہے۔ مذکورہ اقتباسات اور مقدمۂ کتاب کی روشنی میں ڈاکٹر ہری کرشن دیوسرے اور ڈاکٹر خوشحال زیدی کی باتوں کی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے کہ پنچ تنتر راج کماروں کو راج کاج کے طریقے سکھانے اور انھیں اخلاقیات کی تعلیم دینے کے لیے تصنیف کی گئی تھی۔

یہ اور بات ہے کہ نفسیاتی طور پربڑوں کے مقابلے میں بچے جانوروں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کی یہ دلچسپی دائمی ہے،اور آج تک برقرار ہے۔ آج بھی بچے جانوروں اورپرندوں پر مشتمل کہانیاں، کومکس، کارٹون اور سیریلس بڑی دلچسپی سے پڑھتے،سنتے اور دیکھتے ہیں۔بچوں کی اسی دلچسپی اور شوق وذوق کے پیشِ نظر ہر دور میں پنچ تنتر کی کہانیاں بچوں کے نصاب میں شامل کی جاتی رہی ہیں۔

غرض ’پنچ تنتر‘سنسکرت ادب کی ایسی شاہ کا اور مقبولِ عالم تصنیف ثابت ہوئی کہ اخذ و ترجمہ کے ذریعے جس کے فیض کا سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری ہے،اور اس کے علوم و معارف،فکرو فلسفہ اور حکمت و موعظت سے روشنی حاصل کرنے والوں کا دائرہ زمان و مکاں کی قیود سے آزادوسیع سے وسیع تر ہے۔

حواشی

.1            ڈاکٹر خوشحال زیدی: اوردو میں بچوں کا ادب۔مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی، 1989،ص:154-155، بحوالہ:ہری کرشن دیوسرے۔بچوں کا عالمی ادب۔ماہ نامہ آج کل نئی دہلی، جنوری 1979

.2            ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ:دکھنی نثرپارے۔بحوالہ:ادبِ اطفال کے چند گوشے،از:ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 2021،ص:78

.3            مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔کلیلہ و دمنہ(اردو)پیشِ لفظ۔ قباگرافکس حیدرآباد، 2014، ص:7

.4            مفتی محمد رفیع الدین حنیف قاسمی۔کلیلہ و دمنہ(اردو)۔قبا گرافکس حیدرآباد، 2014، ص:47-48

.5            حوالہ ٔ سابق،ص:49

 

Dr. Syed Asrarul Haque Sabeeli

Asst. Professor & Head,Dept. of Urdu,

Govt. City College(A) Nayapul

HighCourt Road,                                              

Hyderabad-500002  (Telangana)

syedasrarulhaque@gmail.com

 

14/8/25

اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ، مضمون نگار: ابوبکر عباد

 اردو دنیا، اپریل 2025

تقریباً مردوں کے دوش بدوش ہی خواتین نے بھی ناول نگاری کی ابتداکی۔ بس یہی کوئی دس بارہ برسوں کے فاصلے سے، کہ ڈپٹی نذیر احمد نے اپناپہلا ناول مراۃ العروس 1869میں لکھا اور رشیدالنسا نے 1881 میں۔ یہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، تہذیبی اور تعلیمی زوال اور جہالت و توہم پرستی کے عروج کا زمانہ تھا۔ مرد اساس معاشرے میں ہر سطح پر ان کی برتری کا تسلط تھا، خواتین کی حیثیت ثانوی تھی اوران کی تعلیم و تحفظ کی صورت حال مردوں سے کہیں زیادہ بدتر۔ لیکن اس اعتبار سے یہ عہد نیک شگون اور خیر کا حامل قرار پایا کہ اس میں ابھرنے والی بعض سیاسی تحریکوں اور جدید تعلیم کے اثر سے نظام زندگی اور طرز فکر میں مثبت تبدیلیاںآنی شروع ہوئیں، ایک نئے دور کے آغاز کی بنیاد پڑی۔سماجی اور ادبی زندگی کو نئی جہت بخشنے میں اس تاریخی تبدیلی کے آغاز و ارتقامیں سیاسی و سماجی تحریکوں اور قدیم و جدید تعلیم ونظریات کی آمیزش کے فروغ کے ساتھ ساتھ ایک اہم رول فکشن بالخصوص ناولوں کا بھی رہا ہے۔

اس حوالے سے اردو کے ابتدائی ناولوں میں ڈپٹی نذیر احمد کے’ مرأۃ العروس‘، ’توبۃ النصوح‘، ’ایامیٰ‘ اور علامہ راشدالخیری کے’ صبح زندگی‘، ’شام زندگی‘ اور ’شب زندگی‘ وغیرہ کو نمایاں مثال کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ ان ناولوں کی بنیادی جہتوں میں سے ایک جہت عورتوں کی تعلیم وتربیت اور تعظیم و توقیر کی طرف توجہ مبذول کرانااور اصلاح معاشرہ کی کامیابی میںان کے حقوق کی بحالی اور سرگرمی عمل کی شراکت کو یقینی بنانا تھا۔ ان دونوں حضرات کے بعد خواتین کے تعلیمی اور خانگی مسائل پر جن ادیبوں نے بطور خاص توجہ دی ان میں مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد کثیر، قابل ذکر اور لائق تعریف ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں یا کہیے ربع اول میں تعلیم یافتہ خواتین کی ایک ایسی جماعت سامنے آئی جس نے اپنی تحریروں کے ذریعے عورتوں کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے اور ان پر ہونے والی زیادتیوں کی وجوہ کو دکھانے کی کوششیں کیں،ساتھ ہی ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے ایک رجحان پیدا کرنے اور اسے ایک محاذ کی صورت قائم کرنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی۔ اس رجحان سازی کے آغاز میں لاہور سے نکلنے والے ’تہذیب نسواں‘، علی گڑھ سے شائع ہونے والے ’خاتون‘ اور دہلی سے جاری ہونے والے ’عصمت‘ جیسے اخبار و رسائل کی اشاعت وفروغ اور عورتوں کی بعض انجمنوں مثلاً ’مدرسۃ النسواں(1906) وغیرہ کے قیام کو بھی بنظر تحسین و توصیف دیکھنا چاہیے۔ تعلیم بالخصوص مغربی تعلیم کے زیر اثر خواتین کی روایتی سوچ و فکرمیں جدت پیدا ہوئی، انھوں نے قدیم طرز زندگی کا رخ موڑنے کی کوششیں کیںاور جلسوں، سیاسی تحریکوں اور ادبی مشاغل میں حصہ لینا شروع کیا۔ خواتین کی ان تمام جدو جہد کے ذرائع میں سب سے اہم، زیادہ کنونسنگ، دیرپا اور اثر انگیز ذریعہ ناول نگاری قرار پایا، کہ دوسرے تحریکی اور علمی و ادبی وسائل کے مقابلے اس صنف میں دلچسپی، تجسس، ترغیب، تحرک، فکری تنزیہ،ذہنی ترفع اور روحانی آسودگی جیسے عناصر زیادہ اور دیرپا ہوتے ہیں۔ ناول کے یہ وہ عناصر ہیں جوذہنی تبدیلی، انفرادی و اجتماعی شخصیت کی تشکیل،سماج کی تعمیر اور معاشرے کی ترقی میں اپنے کردار مستحکم،متواتر اور موثر طریقے سے ادا کرتے ہیں۔

اردو میں خواتین ناول نگاری کی تاریخ رشید النسا کے ناول ’اصلاح النساء ‘ سے شروع ہوتی ہے۔ رشید النساء کے بعد محمدی بیگم کا نام آتا ہے اور پھر خواتین ناول نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ اس فہرست میں اکبری بیگم، نذر سجاد حیدر،عباسی بیگم،بیگم صغرا ہمایوں، ا۔ض حسن بیگم، بیگم شاہنواز، ضیا بانو،طیبہ بیگم،حجاب امتیاز علی،والدہ افضل علی،صالحہ عابد حسین اور پھر رضیہ سجاد ظہیر، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر وغیرہ سے لے کر آج اکیسویں صدی کے ربع اول تک خواتین ناول نگاروں کا سلسلۃ الذہب موضوعاتی تنوع، اسلوب سازی اورفکری ارتفاع کی روشن مثال کی صورت ناول کی دنیا کوثروت مند بنارہا ہے۔

رشید النساعظیم آباد کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد شمس العلماسید وحید الدین چیف جسٹس تھے اور بھائی ’کاشف الحقائق‘ والے شمس العلما سید امداد امام اثر۔سو، انھیں علمی و ادبی مجلسوں اور مذاکروں اور مشاعروں والا ماحول ملا۔گھر کی الماریاں مختلف علوم و فنون اور متعدد زبانوں کی کتابوں سے آراستہ تھیں اور صحبتیں روشن خیالی اور جدید مباحث سے معمور۔ عورتوں کی تعلیم و اصلاح کا آغاز انھوں نے یوں کیا کہ پہلے تو رشتہ دار لڑکیوں کو گھر میں پڑھانا شروع کیا اور پھر لڑکیوں کا باضابطہ ایک مکتب قائم کیا۔ لہٰذا رشیدالنسا کو بہار میں تعلیم نسواں کا پہلا علمبردار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

 رشید النسا کو ناول لکھنے کا خیال خواتین کی اصلاح کرنے،انھیں غلط رسم و رواج سے نجات دلانے اور ان کی زندگی کو کامیاب اور بامقصدبنانے کے لیے آیا۔ حیرت نہ کیجیے کہ انھوں نے یہ ناول ایک فرضی نام سے چھے مہینے میں مکمل کرلیا تھا لیکن تیرہ برسوں تک ردی کی مانند پڑا رہا۔ جب ان کے لڑکے محمد سلیمان لندن سے بیرسٹر بن کر آئے تو انھوں نے والدہ سے ان کے ناول کے بار ے میں پوچھا :

’’ ۔۔۔ آپ جو کتاب لکھتی تھیں وہ کہاں ہے؟میں نے کتاب نکال کر دے دی۔برخوردار موصوف نے اول سے آخر تک اس کو پڑھ کر کہاکہ نہایت افسوس ہے ایسی عمدہ کتاب اتنی مدت تک وہیں ہی پڑی رہی۔۔۔۔۔ اب اس کو ضرور طبع کرنا چاہیے۔۔۔۔ برخوردار محمد سلیمان نے مطبع قیصری میں خود جاکر چھپنے کے لیے اس کتاب کو دے دیا۔‘‘ (دیباچہ اول (1894)،اصلاح النساء، اشاعت 2000،ص 6،گلشن اقبال، کراچی)

واضح رہے کہ یہ ناول ابتدائی اشاعتوں میں بغیر دیباچے کے والدہ محمد سلیمان کے نام سے شائع ہوتا رہا تھا۔1994کی اشاعت میں اس کا پہلا دیباچہ رشید النسا نے لکھا۔  بعد کی اشاعتوں میں دوسرا دیباچہ ثریا قرنی اور تیسرا سید قیصر امام نے تحریر کیا۔مصنفہ نے ناول کا مقصد یوں بیان کیا ہے جس سے ناول کا موضوع و مافیہ پوری طرح سے نمایاں ہوجاتا ہے:

’’ اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں بڑی عاجزی سے یہ دعا مانگتی ہوں کہ یا اللہ اس کتاب سے میری رشتہ مند لڑکیوں اور ہم وطن اور ملک کی عورتوں کو فائدہ پہنچا۔ اور ان کے توہمات اور ان کے بد خیالات کو رفع فرمااور ان کے برے عقائد کی اصلاح کر۔آمین۔چونکہ اس کتاب میں عورتوں ہی کی اصلاح مقصود ہے اس لیے اس کا نام ’اصلاح النساء‘رکھا گیا۔‘‘ (ایضاً)

رشید النسا کے بعد خاتون ناول نگاروں میں مسز مولوی سراج الدین کا نام گو کہ فراموش کردہ لیکن اہم ہے۔ ان کا ناول ’ناول دکن‘ کے عنوان سے رسالہ ’خاتون ‘کے 1905کے شماروں میں قسط وار شائع ہوا، بالکل پنڈت رتن ناتھ سرشار کے فسانۂ آزاد کی طرح، جوابتداً اودھ اخبار کی اشاعتوں میں1878سے 1879 تک شائع ہوتا رہاتھا۔اس ناول کی تخلیقی فضا اور اس کے کرداروں میں مسز مولوی سراج الدین نے مشرق و مغرب کی تہذیب اور قدیم و جدید تعلیم کے عناصر و اثرات کے امتزاج کو سلیقے سے پیش کیا ہے۔

صغریٰ ہمایوں مرزا کی پیدائش حیدرآباد میں ہوئی۔ والدمعروف سرجن اورنظام حیدر آباد کی فوج میں کیپٹن کے عہدے پر فائزتھے۔  والدہ عربی فارسی کی عالمہ اور ادبی ذوق کی حامل تھیں۔صغریٰ نے گھر پر ہی اردو فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ سولہ سال کی کم عمری میں ان کی شادی مشہور بیرسٹر ہمایوں مرزا سے کی گئی۔ بیگم صغریٰ ہمایوں مرزا نے ہندو مسلم اتحاد،پردہ سسٹم کی خرابیوں، گائے کے ذبیحے پر پابندی اور قومی یونیورسٹی کی ضرورت جیسے موضوعات پر متعدد مضامین، چھے سفرنامے اور چودہ ناول لکھے جن میں سے ’مشیر نسواں‘، ’سرگزشت ہاجرہ‘ اور’ موہنی‘ کو بڑی شہرت ملی۔ انھوں نے حیا نام سے شاعری بھی کی۔ دو جلدوں میں ان کا سفر نامۂ یورپ خاصا اہم ہے۔ انھیں حیدرآباد کی پہلی خاتون ناول نگار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ان کا ناول ’مشیر نسواںیا زہرہ‘ کے نام سے 1906میں شائع ہواجس میں قدیم و جدید تہذیبی زندگی اور انگریزی طرز حیات کی عکاسی کے ساتھ روشن خیالی کے فروغ اور بے جا رسومات سے گریز کو کہانی کے مرکز میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے اپنے ناول ’موہنی‘ میں طلاق اور دوسری شادی جیسے معاملات کوبھی بحث کا موضوع بنایا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ناول کی فضا خاصی پر اسرار، متصوفانہ قسم کی ہے۔

محمدی بیگم دارالعلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ مولوی سید ممتاز علی دیوبندی کی اہلیہ،مشہور ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کی والدہ،رسالہ ’تہذیب نسواں ‘ کی ایڈیٹر اور حافظ قرآن تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہر سے عربی فارسی پڑھی اور پھر انگریزی، ہندی اور حساب سیکھے۔ انھوں نے اپنے رسالے تہذیب نسواں میں جبری نفقہ، طلاق، تعدد ازدواج اور پردہ کی مخالفت میں بہت سے مضامین شائع کیے۔ یوں محمدی بیگم کو ہندوستان کی پہلی مسلم فیمنسٹ اور پہلی خاتون ایڈیٹر کہا جاناچاہیے۔محمدی بیگم نے مختلف موضوعات پر تقریباً درجن بھر کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے تین کو ناول کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ ’شریف بیٹی(1908) چھپن صفحات پر مشتمل چھوٹا سا ناول ہے۔ اہم اور حیرت کی بات یہ ہے کہ خلاف رواج اس قصے یا ناول کامرکزی کردار ایک غریب لڑکی ہے۔ناول میں غریب لڑکیوں کی تعلیم اور سلیقہ شعاری کے حصول کو مرکزی موضوع بنایاگیاہے۔’ ناول ’صفیہ بیگم‘ میں بچپن کی منگنی کے عبرتناک انجام کو دکھایا گیاہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ لڑکپن میںبچوں کے رشتے دراصل لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے زبردستی کی شادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ صفیہ بیگم‘ 1913 میں شائع ہونے والا نوابواب پر مشتمل ننانوے صفحات کا مختصر سا ناول ہے، اس ناول میں بد چلن، جاہل اور ایسے لڑکوں سے شادی کے خلاف والدین کو اکسایا گیا ہے جسے لڑکی پسند نہ کرتی ہو۔ مرکزی کردار صفیہ کی آخری وصیت کے عنوان سے قائم کیے گئے باب کا یہ اقتباس دیکھیے :

’’میری آخری التجا یہ ہے کہ تم اپنی اولاد کے بیاہ شادی میں جان توڑ چھان بین کرو۔ یہ چھان بین جس طرح ذات اور نسب کی کی جاتی ہے اسی طرح علم کی، صحت جسمانی کی، عادات کی، چال چلن کی، مزاج کی، کیفیت کی، اخلاق کی اور سب سے زیادہ لڑکی کی رضامندی کی کی جائے۔ ‘‘

(صفیہ بیگم،دارالاشاعت پنجاب، 1913ص،98)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ناول کا ہر باب کسی نہ کسی شعر سے شروع ہوتا ہے۔بالکل مرزا محمد ہادی رسوا کے ’امراؤ جان ادا‘ کی طرح۔

 والدہ افضال علی کا اصل نام اکبری بیگم تھا۔لیکن مرد اساس معاشرے کے جبر اور تب کی مروجہ روایت کی مجبوری کے باعث انھوں نے اپنا پہلا ناول ’گلدستۂ محبت‘ عباس مرتضیٰ کے فرضی مردانہ نام سے شائع کروایااور بعد میں والدہ افضال علی کے قلمی یا کنیتی نام سے لکھنے لگیں۔ انھوں نے چار ناول لکھے : ’گلدستۂ محبت‘، ’شعلۂ پنہاں ‘، ’عفت نسواں‘ اور ’گوڈر کا لال‘۔ ناول ’گوڈر کالال ‘ کے بارے میںقرۃ العین نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ پہلی بار یہ 1907میں شائع ہوا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :

’’گوڈر کا لال چھپتے ہی دھوم مچ گئی۔بہت جلد اس نے نئی مڈل کلاس مسلم عورتوں کی بائبل کی حیثیت اختیار کرلی۔ لڑکیوں کو جہیز میں دیا جانے لگا۔ اس کے قارئین کونہ یہ معلوم تھا کہ’ والدہ افضال علی‘ کون ہیں اور نہ یہ کہ انھوں نے اس ناول کا پس منظر اور کردار کہاں سے حاصل کیے ہیں۔‘‘

(کار جہاں دراز ہے، ممبئی، 1977،ص،156)

ستائیس ابواب اور سات سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل یہ ایک ضخیم ناول ہے۔پہلے یہ تین الگ الگ حصوں اول، دوم اور سوم کے طور پر شائع ہوا،بعد ازاں تینوں حصے ایک ساتھ شائع ہوئے۔ اس ناول کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اکبری بیگم نے معاشرے میں رائج برائیوں اور گھریلو مسائل کو موضوع بنانے کے علاوہ اس ناول کے ذریعے پردے کی مخالفت کی ہے اور غالباً پہلی بار مسلم لڑکیوں کے لیے مخلوط تعلیم کی وکالت کی ہے۔

نذر سجاد حیدر اردو کے پہلے افسانہ نگار(بعض قول کے مطابق)سید سجاد حیدر یلدرم کی اہلیہ اور مشہور فکشن نگار قرۃ العین حیدر کی والدہ تھیں۔ انھوںنے متعدد مضامین اور مختصر کہانیوں کے علاوہ کئی ایک ناول بھی لکھے ہیں۔یہ آزادی نسواں اور تعلیم نسواں جیسی تحریکوں کی اہم رکن بھی رہی ہیں۔نذرسجاد حیدر کے پہلے ناول ’اخترالنساء بیگم ‘ کو مولوی ممتاز علی نے ‘ نول کشور پریس لاہور سے 1911میں شائع کروایا تھا۔ اس ناول میں جہالت، غلط رسم و رواج اور توہم پرستی کی مخالفت کے ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ماقبل ناولوں کے مقابلے اس ناول کی ہیروئن خاصی ترقی پسند اور روشن خیال ہے چنانچے وہ جگہ جگہ جرأت مندانہ قدم اٹھاتی رہتی ہے۔کہنا چاہیے کہ اس پر سرسید تحریک کا اثر کافی حد تک نمایاں ہے۔اختر النساء بیگم کے علاوہ ان کے چھے ناول : حرماں نصیب، آہ مظلوماں،جاں باز، ثریا، نجمہ ‘اور ’مذہب اور عشق‘ خاصے مقبول رہے ہیں۔ان تمام کو قرۃ العین حیدر نے ’ہوائے چمن میں خیمۂ گل ‘ کے نام سے مرتب کرکے اڑتالیس صفحات کے بے حد معلوماتی دیباچے کے ساتھ یکجا شائع کردیا ہے۔

فخرالنسا بیگم کا نام ان کے ناول ’افسانۂ نادر جہان‘ پر اس طرح لکھا ہوا ہے۔ طاہرہ بیگم الملقبہ بہ نواب فخرالنسا نادر جہاں بیگم۔ دو سو چونسٹھ صفحات پر مشتمل مذکورہ ناول منشی نول کشور لکھنؤ سے 1917میں شائع ہوا۔ اس ناول میں بھی تب کے ادبی رواج کے مطابق غلط رسم و رواج کی مذمت، تعلیم نسواںکی اہمیت، لڑکیوں کی سلیقہ شعاری اور امور خانہ داری کی بحث کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ساتھ ہی مردوعورت کے حقوق اور مساوات کے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ ایک مسلسل ناول ہے جس میں کہیں بھی کوئی فصل یا باب قائم نہیں کیا گیا ہے۔ بیانیے کو کسی حد تک مسجع اور مقفی بنانے کی کوشش کی گئی ہے، تاہم ناول روز مرہ،محاورے اور عمدہ زبان کی آمیزش سے دلچسپ ہوگیا ہے۔

طیبہ بیگم نواب عمادالملک بہادر کی صاحبزادی تھیں، بلگرام میں پیدا ہوئیں، گھر پر ہی ایک مولوی صاحب سے اردو فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی، بعد ازاں حیدرآباد کے اسکول میں مشہور سیاست داں مسزسروجنی نائیڈو کے ساتھ انگریزی وغیرہ کی تعلیم پائی اور پھر 1894میں مدراس یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کرکے پہلی مسلم خاتون گریجویٹ بنیں۔ ڈاکٹر مرزا کریم خان خدیو جنگ بہادر سے شادی کرنے کے بعد آگے کی تعلیم موقوف کردی۔ عورتوںکی تعلیم اور اصلاح معاشرہ کے جذبے کے تحت انھوں نے حیدرآباد میں آٹھ اسکول بنوائے اور’لیڈیز ایسوسی ایشن ‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ انھوں نے ’انجمن خواتین اسلام ‘کا چارج بھی سنبھالا جسے بیگم رقیہ سخاوت حسین نے عورتوں کی تعلیم، آزادی اور ہنر کے حصول کے لیے قائم کیا تھا۔طیبہ بیگم خدیو جنگ نے ہندوستانی لوک کہانیوں اور لوک گیتوں پر بھی کام کیا ہے۔ انھوں نے دو ناول تحریر کیے ہیں: ’حشمت النسا‘ اور ’انوری بیگم‘۔ انوری بیگم کو انھوں نے 1905 میںمکمل کیا تھا اور 1909میں شائع کیا، تاہم اس کی سرکاری اشاعت ان کے انتقال کے بعد 1922میں ہوئی۔ان ناولوں میں بھی تعلیم نسواں اور معاشرتی صورت حال کو مرکزی محور بنایاگیا ہے۔ دونوں ناولوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں حیدرآباد کا رہن سہن، وہاں کی تہذیب و ثقافت،بود وباش اور حیدرآباد کی خواتین کی زندگیاں آئینے کی مانندشفاف نظر آتی ہیں۔

عباسی بیگم مشہور فکشن نگار حجاب امتیاز علی کی والدہ تھیں۔ وہ اپنے عہد کی اہم خاتون مدیر، نظم نگار،مکتوب نگار اور ناول نگار تھیں۔ان کا ناول ’زہرا بیگم‘1929میں شائع ہوا۔اس میں ایک تعلیم یافتہ خاندان کی لڑکی کا فسانۂ درد والم بیان کیا گیا ہے  جسے اس کے والدین نے دولت کی لالچ میں شادی کرکے اسے زندہ درگور کردیا۔عباسی بیگم نے اپنی تحریروں میںسماج بالخصوص مسلم معاشرے کی خرابیوں کو بیان کرکے انھیں دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

حجاب امتیاز علی حیدرآباد کے ایک معزز خاندان کے فرد سید محمد اسماعیل کی صاحب زادی تھیںلیکن ان کی پیدائش 1908میں مدراس میں ہوئی۔یہ ہندوستان کی پہلی اور دنیا کی دوسری مسلم خاتون پائلٹ تھیں۔ان سے دوسال قبل یعنی 1934میں آذربائیجان کی مسلم خاتون زلیخا سید مامدووانے اپنا پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا تھا۔ حجاب کو کم عمری سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ان کی پہلی کہانی نو برس کی عمر میں شائع ہوئی اور انھوں نے اپنا پہلا اور اردو کا اہم رومانی ناول ’ میری ناتمام محبت‘بارہ سال کی عمر میں لکھ لیا تھا۔ پہلے یہ حجاب اسماعیل کے نام سے لکھتی تھیں۔1930میں ان کی شادی اردو کے مشہور ڈرامہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر امتیاز علی تاج سے ہوئی تو حجاب امتیاز علی نام سے لکھنے لگیں۔ حجاب امتیاز علی کا تحریری عرصہ ساٹھ برسوں کو محیط ہے۔ انھوں نے سگمنڈ فرائڈ کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کے اثرات ان کی تحریروں میں نمایاں ہیں، خاص طور سے ان کے ناول ’اندھیرا خواب ‘ اور ’پاگل خانہ‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ان کے یادگار ناولوں میں’ظالم محبت‘، وہ بہاریں یہ خزائیں‘،’موم بتی کے سامنے ‘ اور ’سیاح عورت‘ شامل ہیں۔ حجاب امتیاز علی اپنے رومانی فکشن کے حوالے سے مستحکم اور مستند  شناخت رکھتی ہیں۔ان کی شہرت ڈائری نگار، مکتوب نگار اور مضمون نگارکی حیثیت سے بھی ہے۔ان کے ناول و افسانے کی دنیا ایسی سحرانگیز ہوتی ہے کہ قاری اس میں کھو سا جاتا ہے۔ بالعموم ان کی کہانیاں عورت، رومان، فطرت اور نفسیات کے تانے بانے سے تیار ہوتی ہیں۔ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے اردو ناول کو چند خوبصورت اور یادگار کردار دیے ہیں جیسے: ڈاکٹر گار،سر ہارلی،دادی زبیدہ،روحی، جسوتی اور حبشاں زوناش وغیرہ۔

صالحہ عابد حسین کا تعلق ایک بڑے علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔یہ خواجہ الطاف حسین حالی کی پڑپوتی،ممتاز عالم خواجہ غلام الثقلین کی بیٹی، خواجہ غلام السیدین کی بہن اور معروف دانشور سید عابد حسین کی اہلیہ تھیں۔صالحہ عابد حسین نے سیرت و سوانح، ڈرامے، خطوط، مضامین، تراجم،آپ بیتی،بچوں کے ادب اور افسانوںکے ساتھ ساتھ آٹھ عدد ناول بھی لکھے ہیں : عذرا، آتش خاموش، راہ عمل، قطرہ سے گہر ہونے تک، یادوں کے چراغ، اپنی اپنی صلیب،الجھی ڈور، گوری سوئے سیج پر اور ساتوں آنگن۔ان کے ناولوں میںمشرقی عورتوں کے مسائل، ان کی طرز فکر اور ان کے جذبات و احساسات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ان کے یہاں تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور گھریلو رشتوں کی رنگا رنگی ہے۔ رشید احمد صدیقی کے انشائیوں کی مانند ان کی تحریروں میں بھی علی گڑھ جگہ جگہ سانس لیتا ہوا نظر آتا ہے۔

ان سب کے علاوہ ابتدائی خواتین ناول نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ب۔ سدید(بیاض سحر)، ا۔ ض حسن(روشنگ بیگم)،ضیا بانو(فغان اشرف، فریب زندگی، انجام زندگی)،حمیدہ سلطان مخفی(ثروت آرا بیگم)، بیگم شاہنواز(حسن آرا بیگم)، ظفر جہاں بیگم (اختری بیگم)، خاتون اکرم (پیکر وفا)، فاطمہ بیگم منشی فاضل (صبر کا پھل) اور خاتون (شوکت بیگم) وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ ان سبھوں نے اپنے اپنے وقت میںتعلیمی، اصلاحی، افادی اورمقصدی ناول لکھ کر اردو ناول نگاری کی بھرپور خدمت کی،ایک نئے سماج اور بہتر معاشرے کی تعمیر میںہاتھ بٹایااور فکشن کے فن اور زبان و اسلوب کی توسیع میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔

 

Abu Bakar Abbad

Dept. of Urdu

Delhi University

Delhi- 110007

bakarabbad@yahoo.co.in

 

تازہ اشاعت

اردو ادب میں تنقیدی نظریات، مضمون نگار: محمد خواجہ مخدوم محی الدین

  اردو دنیا، اپریل 2025 تنقید کا وجود عالم انسانی کے وجود کے ساتھ ہوا۔ تنقید کے عام معنی اچھے اور برے کی تمیز کرنے کے ہیں۔ انسان تنقید کا ...