فکر وتحقیق، اکتوبر-دسمبر2024
تلخیص
عبدالمجید بھویاں حیا کا شمار اڈیشا کے قدیم شعرا میں
ہوتا ہے۔دیوان مجید ان کے تقدیسی کلام پر مشتمل ہے۔اس نعتیہ دیوان کو اڈیشا کی ادبی
تاریخ میں اولیت کا مقام بھی حاصل ہے۔اس دیوان کی تکمیل 1871 میں ہوئی اور یہ
چھاپہ خانہ منشی نول کشور میں طبع ہوا۔ دیوان مجید 12ابواب پر مشتمل ہے اور اس کے
متون جا بہ جا کرم خوردگی کا شکار ہیں۔ تاہم باقیات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے
کہ آپ ایک پرگو اور طباع شاعر تھے۔ حیا کے بعض اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو
لطف اور امیر سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ لیکن ان کے کلام میں فنی خامیاں بھی موجود ہیں۔
گمان غالب ہے کہ آپ کو اپنے اساتذہ سے باقاعدہ فیض یاب ہونے کا موقع نہیں ملا۔آپ
اڈیشا کے ایک اور صاحب دیوان شاعر امین اللہ چرخی کے ہم عصر تھے۔
کلیدی الفاظ
نعتیہ دیوان، کرم خوردہ، مطبوعہ نسخہ، باقیات، قطعۂ تاریخ،سال
تکمیل،تحقیقی استدلال،گوشوارہ، متنی تحقیق، فنی خامیاں،شرف تلمذ،پیرایۂ
اظہار،مقامی چھاپ،ثقیل لفظیات
————
’آبِ
خضر‘ کے بابِ تذکرہ میں عبد المجید بھونیاں حیا کے متعلق تحریر ہے کہ ’’آپ بالیسر
کے مشہور بھویاں خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جس کا ذکر ڈاکٹر ہرے کرشن مہتاب نے اپنی
’تاریخ اڑیسہ‘ میں بھی کیا ہے۔ اسی خاندان کے پوٹیشور نامی ایک شخص کو راجہ پرشوتم
دیو نے 7اپریل 1483 کو کافی جاگیر عطا کی تھی۔ اس خاندان نے اورنگ زیب کے دورِ
حکومت میں اسلام قبول کرلیا اور اڑیا کی بجائے اردو کو اپنا لیا۔ حتیٰ کہ اس نے
عبد المجید بھویاں جیسے اردو کے نعت گو شاعر کو جنم دیا۔‘‘1؎
اس وقت میرے سامنے ’دیوانِ مجید‘ کا انتہائی کرم خوردہ
مطبوعہ نسخہ (نول کشور ایڈیشن) موجود ہے۔ جس کے صفحہ 60پر مصنف کا پورا نام عبد
المجید خاں تحریر ہے۔
’ جلد اول از کتاب باخطاب
معلی القاب مسمیٰ نعتیہ دیوانِ مجید تصنیفۂ مو عبد المجید خاں المتخلص منفعت الحیا
کی ‘‘2؎ لیکن دیوانِ مجید کے دیباچے میں فدوی حسین نے ’مولوی بھونیہ عبد المجید
خاں‘ لکھا ہے۔
دیباچے کا اقتباس حسبِ ذیل ہے:
’’امابعد
عاجز شکستہ بال فدوی حسین (متوطن) بلیاپال علاقہ ضلع بالیسر بخدمات صاحبان نکتہ رس
معنی و دقیقہ شناس معنوی عرض پردازست کہ عزیز از جان منشی المناشی مولوی بھونیہ
عبد المجید خان المتخلص بہ منفعت الحیا نسخۂ نعتیہ دیوان مجید بعبارت عربی و فارسی
و اردو کہ مضمونش مالامال از فصاحت وبلاغت و قابل پسند ار بابِ ہنر و مقبول نظر
جمہور انام است بخیال شروع از تاریخ اول و اختتام تا تاریخ دوازدہم شہر ربیع الاول
تصنیف و تحریر فرمودہ اند بہ مقتضائے ابیات
؎
میاں عبد المجید اند خوب شعرا
مثل سہل یمن اوتکل ستارا
نثر بر جستہ گفتہ نظر دلچسپ
بدیوان حمد رب نعت نبی را
زدل فدوی حسین اورا دعا کن
جذاک اللہ فی دارین خیرا3؎
دیوانِ مجید کا پیش نظر نسخہ جو کرامت علی کرامت اور حفیظ
اللہ نیولپوری صاحبان کے مطالعے سے گزر کر راقم السطور تک پہنچا ہے، اس کے شروع کے
48صفحات غائب ہیں۔ البتہ ورق گردانی کے دوران دیوان کے صفحہ 75سے ایک بوسیدہ ورق
چپکاہوا ملا۔ جس کے متن کی باقیات کچھ اس طرح ہیں:
’ یارسول آلہ...منتخب نعتیہ
نامی...نسخہ نو مشہور (کرم خوردہ)
ایں مجیدی رسالہ مثلِ دیا
منفعت الحیا نورِ ضیا
چھاپا خانہ منشی نول کشور میں باصد زیب و زینت چھپا‘‘
مذکورہ صفحے کی دوسری جانب بسم اللہ الرحمن الرحیم کے
بعد دیباچہ (فدوی حسین) مع ابیات درج ہیں۔4؎
ڈاکٹر حفیظ اللہ نیولپوری نے اپنی کتاب ’اڑیسہ میں
اردو‘ میں دیوانِ مجید کے دیباچے کا جو اقتباس ’’شیخ مبین اللہ کے مضمون 5؎ کے
حوالے سے پیش کیا ہے، اس میں حیا کے خاندانی سلسلے کو بھونیاں، (بجائے بھونیہ) اور
ابیات کے دوسرے مصرعے میں لفظ ’سہل‘ کو ’سہیل‘ کردیا ہے۔ 6؎ جبکہ ’آبِ خضر‘ میں
پورا نام عبدالمجید بھویاں تحریر ہے7؎ اور میرے خیال میں قدیم املا’بھونیہ‘ کی
بجائے ’بھونیاں‘ ہی درست املا ہے۔
عبد المجید بھویاں حیا کے سالِ ولادت کا استخراج دیوان
کے دسویں باب میں شامل ’سلام‘ کے شعر نمبر 7 یعنی ؎
السلام اے صاحبِ روشن جمال
عمر میری ان دنوں اکتیس سال8؎
اور دیوان کی تکمیل حیا کے ایک قطعۂ تاریخ سے کی گئی
ہے۔ دیوانِ مجید کا وہ صفحہ جس پر قطعۂ تاریخ درج ہے، حد درجہ بوسیدہ ہوچکا ہے۔
شخ مبین اللہ نے اپنے مضمون ’دیوانِ مجید۔ ایک مطالعہ‘ میں مذکورہ قطعۂ تاریخ کو
دیوانِ مجید کے سالِ طباعت کے طور پر پیش کیا ہے۔ جو سراسر غلط ہے۔ قطعۂ تاریخ
حسبِ ذیل ہے ؎
بست ہفتم شہر رمضاں روز دوشنبہ سعید
احد کی دوکّان کا سودا گنج احمد سے خرید
بعد صلوات الفجر بس یعنی الصبح کے وقت
سالِ ہجری کے موافق قفل ایماں کی کلید
یازدہ ماہ ڈسمبر عیسوی تاریخ میں
اے حیا یہ ختم ہے بامنفعت دیواں مجید9؎
………
1871
جیسا کہ مصرعے سے ظاہر ہے کہ یہ قطعہ دیوان کی تکمیل پر
کہا گیا ہے نہ کہ اس کے سالِ طباعت پر۔ دیوان کے سالِ تکمیل (1871) اور مندرجۂ
بالا شعر کے اس مصرع ’عمر میری ان دنوں اکتیس سال‘ کے پیش نظر حیا کا سالِ ولادت
1840 متعین ہوتا ہے۔ ’اڑیسہ میں اردو‘ میں بھی یہی سالِ ولادت تحقیقی استدلال کے
ساتھ تحریر ہے۔10؎ دیوانِ مجید میں اسی قبیل کا ایک اور شعر ملتا ہے۔ جس سے پتا
چلتا ہے کہ دیوان کی تصنیف کے وقت شاعر کی عمر 40سے کم تھی۔ شعر حسب ذیل ہے ؎
فرقتِ سلطانِ دیں میں چہل سے بھی عمر کم
پیرسا معلوم ہوتا ہے جواں عبد المجید11؎
دیوانِ مجید کے ایک شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوانِ
ہٰذا میں مشمولہ قطعاتِ تاریخ کی تعداد تین ہے ؎
یا الٰہی اس کے نیچے منتظم تاریخ تین
سال و ماہ و روزہا اوس مصطفیٰ کے واسطے
دیوان کے جس شکستہ ورق پر سنہ عیسوی اور سنہ عملی پر
قطعات درج ہیں، اسی صفحے پر ایک اور قطعۂ تاریخ (سنہ ہجری قدسی) کی جو کٹی پھٹی
باقیات ملتی ہیں۔ وہ اس طرح ہیں:
…فیض
احمدی انجام و انصرام
…عبد
المجید نعت کا دیواں کیا تمام
… …
1288ھ
دیوانِ مجید 12؍جلدوں
پر مشتمل نعتیہ تصنیف ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ دیوان کا دستیاب نسخہ
شروع کے 48؍صفحات سے عاری ہے۔
لہٰذا صفحہ 49 سے صفحہ 312 تک پھیلے ہوئے متن کی تدریس کا ما حصل یہ ہے کہ دیوانِ
مجید 1871کی تصنیف ہے، جس کا دامن معائب و اسقام سے آلودہ تو ہے ہی ساتھ ہی اس میں
جا بہ جا اڑیسہ (اتکل) کی مقامی بولی اور اڑیا لغات کے نشانات بھی ملتے ہیں۔ تاہم
اتنا ضرور ہے کہ زبان و بیان اور فنی خامیوں کے باوجود یہ دیوان شاعر کی تخلیقی حسیت
اور فکر وخیال کی بو قلمونی کا آئینہ دار بھی ہے۔ ذیل میں دیوانِ مجید میں شامل
مخمس، مسدس، قصیدہ، سلام، ترجمۂ غزل، مثنوی اور مناجات وغیرہ اصناف کا گوشوارہ مع
نمونۂ کلام ملاحظہ فرمائیں۔ ملحوظ رہے کہ یہ گوشوارہ دیوان کے جملہ مشمولات کو محیط
نہیں ہے۔
دیوان مجید۔ جلد1
1 تتمہ
ثانی مصرع بر غزل مولانا کفایت علی کافی،کل اشعار11
2 تعریف
منشی رحمان علی طیش ، کل اشعار9،ص54
طیش کا (کے) اشعار سن کر طیش کہا (کھا)
گرپڑے استاد شاعر طیش کہا(کھا)
3 مخمس
برقصیدۂ دیگر طیش موصوف درصفتِ باری تعالیٰ
؎
مجھے باغِ جنت سے بہتر ہے وہ
ترا کوئے اطہر نبی الورا
حیا ایک ہے بے نوائے وطن
پھرا تو نہ در در نبی الورا
4
تتمہ
مصرعۂ اول برقصیدۂ منشی رحمان علی طیش،
کل اشعار23، ص55تا 56
آپ اپنے سے خدا جب فیض گستر ہوگیا
کن کے فرماتے ہی امرِ حق مقرر ہوگیا
ٹپکا اعضا سے پسینہ بن کے وہ طاؤس رنگ
آیت و تفسیر سے ظاہر یہ اکثر ہوگیا
ہو فضیلت باکرامت سے نہ کیوں کر آدمی
جسمِ خاکی جس کا نورِ حق کا مظہر ہوگیا
5 مخمس
برقصیدہ دیگر منشی طیش موصوف،کل بند20، ص56تا 59
6 مناجات
بوسیلۂ سرکارِ کائنات بدرجۂ قاضی الحاجات، کل اشعار 19 ، ص59تا 60
(یہ
مخمس جلد اول کا اختتامیہ ہے)
دیوان مجید، جلد2
1 قصیدہ
بحرِ طویل،کل اشعار 18، ص71
2 معجزۂ
زندہ شدن پسرِ انصار،کل اشعار21، ص80
3 مخمس
برغزل حاجی منشی خاتم الاشرف خاتم بہراج پوری کٹکی کل بند11،ص81تا82
گرتا قیام کھوج میں چرخِ کہن رہے
تالاش میں وہ شاہ کے سارا زمن رہے
)تلاش(
مخصوص جستجو میں بھی ملکِ عدن رہے
غوّاص بحرِ فکر میں گر غوطہ زن رہے
ہرگز پتا نہ پاوے وہ درِ یتیم کا
4 مخمس
برغزل خاتم بہراج پوری کٹکی کل بند11،ص 83
5 تتمہ
اولا مصرع برغزل ناظم الشعرا شہیدی ؒ،کل اشعار19،ص84
6 مخمس
بر قصیدۂ دیگر شہیدی،کل بند33، ص 85تا 89
7 غزل
در صفتِ شہیدی،کل اشعار11،ص89
8 سلام
متفرقات بطور مناجات، کل اشعار 115 ص89تا
90
السلام اے صاحبِ دنیا و دیں
ہے تجھے صد مرحبا صدآفریں
السلام اے صاحبِ ہر دوسرا
بس مجھے دن رات تیرا آسرا
السلام اے صاحبِ فریاد رس
کون یہ عاصی کا تجھ بن داد رس
السلام اے صاحبِ روشن ضمیر
ہوں ترے ہی ہجر میں دایم اسیر
دیوانِ مجید،جلد 3
1 مخمس
بر غزل امیر لکھنوی،کل بند9،ص102
2 مخمس
برغزل خاتم بہراج پوری،کل بند11،ص103
3 سلام
متفرقات بطور مناجات،کل اشعار23،ص105
دیوانِ مجید، جلد 4
1 غزل
بے قافیہ،کل اشعار7،ص112
2 مخمس
برغزل حافظ لطف علی خاں لطف،کل بند23،ص117تا 118
3 دیگر
مخمس برغزل امیر احمد صاحب امیر،کل بند9،ص122تا123
نامۂ اعمال لکھنا کچھ مجھے سختی نہیں
یک قلم سے ہو سیاہی ہے تو پھر تختی نہیں
جب ملی تختی لحد کی ہوش یک لختی نہیں
گور کے (کی) ظلمت سے کم شامِ سیہ بختی نہیں
نور کی حاجت ہے اے صبحِ سعادت الغیاث
4 مخمس
بر غزل خاتم بہراج پوری،کل بند7،ص124
۔ سلام
متفرقات بطور مناجات،کل اشعار13، ص124تا 125
دیوانِ مجید،جلد5
1 ترجمۂ
غزل مولانا شہیدی،کل اشعار9
2 مسدس
بر غزل حکیم ناصر علی، کل بند10، ص139
قمر سے زیادہ جمالِ محمدؐ
مہر سے بھی بیشی جلالِ محمدؐ
سہی قامتِ نونہالِ محمدؐ
مرے دل میں ہے جو خیالِ محمدؐ
لکھوں کیا میں فضلِ کمالِ محمدؐ
عجب لطف ہے درمقالِ محمدؐ
3 مخمس
دیگر بر غزل لطف علی خاں لطف،کل بند14، ص141تا 143
4 سلام
،کل اشعار۔13 ص143
دیوانِ مجید، جلد 6
1 ترجمۂ
غزل شہیدی کل اشعار9،ص 149
2 تتمہ
اولا مصرع برغزل لطف،کل اشعار39،ص150
3 مربع
از طرف مصنف معجزۂ نبیِ اشرف کل
بند22،ص153 تا155
میرا ہے سخن لالۂ بستاں کے برابر
ہے لفظ مرا نرگسِ چشماں کے برابر
ہر نقطہ ہے میرا گلِ ریحاں کے برابر
دیواں ہے مرا روضۂ رضواں کے برابر
ہے بیت میرے مطلعِ انوار کا مونس
ہے مصرعۂ موزوں مرا گلزار کا مونس
ہے نظم و نثر میرا ہر اک یا رکا مونس
ہے میری غزل لعلِ بدخشاں کے برابر
4 مخمس
بطور ترجیع بند بر اک مصرعۂ مولانا جامی،کل بند13، ص155
5 مربع
از طرف مصنف ،کل بند15،ص157
6 تضمین
مخمس بر غزل امیر احمد امیر،کل بند11، ص159تا160
قربان اختراں ہیں تصدق ہیں مہرو ماہ
جن و ملک نثار ہو کہتے ہیں واہ واہ
صدقہ ہوں پہلوان بہادر، قوی سپاہ
کٹتے ہیں مدعی جو میں کرتا ہوں وصفِ شاہ
شمشیر کا زبان سے لیتا ہوں کا م روز
اسرارِ غیبی دیکھوں میں چو کچھ کہ خواب میں
تعبیر اوس کا صاف لکھا ہے کتاب میں
لیکن میں ڈالتا ہوں سدا قرع آب میں
تا فال نیک نکلے زیارت کے باب میں
پہروں میں دیکھتا ہوں خدا کا کلام روز
7 سلام،کل
اشعار13، ص160تا 162
السلام اے صاحبِ اشتر سوار
ہے نہایت یہ اوڑیسہ نابکار
اسلام اے صاحبِ دار السلام
ہے کٹک کا تحت بالیسر مقام
السلام اے صاحبِ نجم الہدا
تھانہ بستہ پرگنہ ہے گڈپدا
السلام اے صاحبِ تاج و نگیں
باپ دادے کا مرے مسکن وہیں
السلام اے صاحبِ معنی متن
تھے بزرگاں میرے پہلے برہمن
السلام اے صاحبِ صدر العلا
اون کی اولادوں سے میں ہوں برملا
السلام اے صاحبِ رتبہ بلند
زیں قبل تھا اک مسلماں شاہ ہند
السلام اے صاحبِ والا جناب
وہ دیا ہے خاں لقب بھونیہ خطاب
دیوانِ مجید،جلد7
1 مطلبی
ترجمہ از غزل فارسی بابا فغانی،کل اشعار7،ص169
2 ترجمہ
از غزل فارسی امیر خسرو،ص 171
3 تتمہ
اولا مصرع برغزل شہیدی،کل اشعار13،ص171
اسمِ اعظم ترا جب تک کہ وہ سنتے ہیں بغور
نہیں ہوتے ہیں پریشاں گل و آئینہ و شمع
ماہِ خورشید سے بڑھ کرکے نکالے اپنا
اس طرح دست و گریباں گل و آئینہ و شمع
شعلہ و عکس و خوشبو کی یہاں کیا ہے بہار
کہتے ہیں سارے سخن داں گل و آئینہ و شمع
4 تتمہ
اولا مصرع، برغزل مولانا کافی، کل اشعار11، ص173
5 تتمہ
اولا مصرع، برغزل لطف، کل اشعار19،ص174
نثر ہوتا تو وہ بے شاہدیں گہنا ہوتا
شاہدِ نظم کی خاطر ہے یہ زیور تعریف
یادگاری سدا رہ جاوے گی یہ نعت سخن
ہم چلے جائیںگے حضرت کی سناکر تعریف
6 توصیف،
لطف علی خاں لطف،کل اشعار9،ص175
7 مخمس
بر غزل لطف علی خاں،کل بند11،ص176تا178
اے بخومو بھلا بتلادو کوئی نیک گھڑی
دیکھنے ملکِ عرب کی مجھے خواہش ہے بڑی
گرچہ یہ ہند سے اوس دیس کی منزل ہے کڑی
اڑ کے آنکھوں میں کبھی خاکِ مدینہ نہ پڑی
چشمِ بے نور نہ اپنی ہوئی بینا افسوس
باحیا جاؤں میں کب روضہ ہدا میں اے لطف
بخت سے اپنے ہی روتا ہوں سدا میں اے لطف
اہلِ دولت کے برابر نہ گدا میں اے لطف
مرگیا ہوں غم محبوبِ خدا میں اے لطف
مرگ سے میرے اک عالم کو ہے کیا کیا افسوس
8 مربع
از مصنف،کل بند 12، ص 178تا 179
ہیں فضائل درود کے اعلا
پڑھتے ہیں جس کو عالمِ بالا
باغ میں سنبل و گل و لالا
بھیجتے ہیں سدا درود شریف
راحتِ جان ہے درود سدا
عظمت الشان ہے درود سدا
حبِّ حبان ہے درود سدا
چشم کا ہے جلا درود شریف
9 مخمس
بر غزل امیر لکھنوی،کل بند11، ص179تا181
ابتر تو ہورہے ہیں کہ پوچھو ہوحال کیا
دیوانہ آدمی کا بھلا ٹھیک قال کیا
تعویذ اسمِ لیلیٰ ہے مجنوں کو فال کیا
کھیلے ہوئے ہیں جان پہ ہم دل ہے مال کیا
ہستی ہے ناگوار مٹادے بلا سے عشق
میں خود ہوں زار خوار ہے کیا میرے سامنے
شرمندہ وار عار ہے کیا میرے سامنے
رتبہ میں گنج مار ہے کیا میرے سامنے
محمود کا وقار ہے کیا میرے سامنے
اوس کو ایاز سے ہے مجھے مصطفاسے عشق
10 سلام ،کل اشعار13،
ص181
دیوانِ مجید،جلد 8
1 مثلث
از مصنف،کل بند7،ص 198
سدا رہا ہے معلق وہ نورِ حق کے قریں
سلام تحفۂ احباب ہے شریف تریں
ہے دست الفت محبوب کا سوار سلام
نسیم و باد و صبا کو بھی خوب سمجھا دو
فرشتو خدمتِ عالی میں جلد پہنچادو
کرے ہے صبح و مسا یہ حیا پکار سلام
2 تضمینی
مخمس برغزل خاتم بہراج پوری،کل بند17،ص198
3 سلام،کل
اشعار13،ص200
دیوانِ مجید،جلد9
1 مستزاد
طرزِ دکھنی،ص207
2 غزل
طرزِ دکھنی،ص209
ملحوظ رہے کہ متذکرۂ بالا نگارشات میں نہ دکنی لفظیات
کا کچھ اتاپتا چلتا ہے اور نہ کسی پہلو سے دکنی طرز واسلوب مترشح ہے۔
3 مخمس
برغزل خاتم بہراج پوری،کل بند15، ص210تا212
دلِ لیلیٰ کو کہتا ہوں قسم ہے اب ترے سر کی
نہ مجکو جان کی پروانہ پروا مال اور زر کی
مکیں جب ہوگیا مجنوں تو پھر کیا ہو خبر گھر کی
ملی جب خادمی روح الامیں کو آپ کے در کی
ہمیشہ آتے جاتے کھول کر شہپر مدینہ میں
4 ایں
غزل در حقیقت سوال عارفانہ نکتۂ معرفت،کل اشعار،7ص214
5 مخمس
بر غزل خاتم بہراج پوری،کل بند13،ص220
6 مخمس
دیگر بر غزل طوطیِ ہندوستاں لطف علی خاں لطف،کل بند10، ص222
فرق ہے یکبارگی رنگ و طرب میں آج کل
ماہی ِ بے آب سا دارالحرب میں آج کل
چین یاں جی کا نہیں پوجا پرب میں آج کل
جان سے بیزار ہوں شوقِ عرب میں آج کل
ہند میں کس طرح ہو میرا گزارا ان دنوں
سنگ ریزہ اس عرب کا لعلِ احمر ہے مجھے
ہند یہ ناہند کا ذرہ بھی اخگر ہے مجھے
پڑھنا مکتب میں سبق کا خواہش اکثر ہے مجھے
حلیۂ روئے کتابی اوس کا ازبر ہے مجھے
ہوگیا ہے مجکو(۔۔کرم خوردہ۔۔)ان دنوں
7 بطور
مثلث ایجاد آخری یک مصرع بر غزل لطف،کل بند15،ص223
کباب طائرانِ خلد حوریں لائیں اب آگے
شراب عشقِ احمد کا چڑھا ہے اب نشا مجکو
عجب اک عالمِ مستی
دکھاتا ہے مزا مجکو
8 مسدس
بر غزل سنی دکھنی حیدرآبادی،کل بند9،ص224 تا 226
9 سلام،کل
اشعار13،ص226تا 227
دیوانِ مجید، جلد 10
1 ترجمۂ
غزل جامی،ص 236
متن بڑی حد تک خستہ اور کرم خورد ہے۔
2 قصہ
شبِ معراج،کل اشعار 115،ص239تا 143
بیشتر اشعار کرم خوردہ ہیں
3 مخمس
برغزل خاتم بہراج پوری،کل بند،22،ص243
متن خستگی کا شکار ہے
4 ترجیع
بند بہ شعر سعدی علیہ الرحمۃ،کل بند13،ص246
5 مخمس
بر غزل امیر احمد امیر،کل بند14،ص248
سنتا ہوں ایسے سارے جہاں میں حرم نہیں
جیسا مدینہ شہر ہے ویسا ارم نہیں
پہنچا جو اس حرم کے ارم بیچ غم نہیں
شعلہ جو شمع کا ہے وہ اختر سے کم نہیں
ہر قمقمے پہ ہے مہِ انور کا اشتباہ
6 ترجیع
بند بریک عربی بہ بیماری و وبا بطور مسدس،کل بند9، ص250
7 مخمس کل بند 9، ص252
8 سلام کل اشعار 13، ص
253
(یہ
سلام شاعر کی حالتِ زار کا منظوم اظہاریہ ہے)
السلام اے صاحبِ روشن جمال
عمر میری ان دنوں اکتیس سال
السلام اے صاحبِ حق دیں پناہ
دانت سارے گر گئے بہرِ گناہ
السلام اے صاحبِ حق نیک پے
نوجوانی میں حیا ناچار ہے
دیوانِ مجید، جلد11
1 غزل
عارفانہ ص 264
یہ
غزل کلی طور پر کرم خودرہ ہے
2 تضمین
تتمہ اولا مصرع بر غزل امیر احمد امیر،ص268
3 غزل
بتوصیف شاعر زمن امیر، ص269
4 مربع
بہ احوال...کرم خوردہ...کل بند 21، ص270
5 مسدس
بر فضیلتِ توبہ...کل بند13، ص272
6 مخمس
بر غزل خاتم بہراج پوری،کل بند9، ص274
خوب اپنے کو جو ہشیار ہیں اون سے کہدو
ہجر میں اور جو گرفتار ہیںاون سے کہدو
وصل کے (کی) مے سے جو سرشار ہیں اون سے کہدو
دردِ عصیاں کے جو بیمار ہیں اون سے کہدو
ہیں ہر اک درد کے درمان رسولِ عربیؐ
7 مخمس
برغزل خاتم بہراج پوری،کل بند9، ص276
8 بریک
بیت جامی ترجیع بند، کل بند35،ص277
)اس
مسدس کا ہر بند حروفِ تہجی کی ترتیب میں ہے(
9 سلام،ص284
دیوانِ مجید،جلد 12
1 بہ
مثمن... کل بند 16، ص288
2 بہ
مثنوی تذکرۂ وفات سرورِ کائنات،کل اشعار41، ص291
3 مخمس
برقصیدۂ مولانا صوفی ، ص298
4 مخمس
برغزل کافی مراد آبادی، ص303
5 غزل
فاتحہ۔ قصیدۂ آخری بمستزاد یعنی خاتمۂ کتاب ص307
6 مناجات،
ص309
ملحوظ رہے کہ ’دیوانِ مجید‘ کے صفحہ 49 سے صفحہ 230 تک
نمبر شمار درست حالت میں ہے۔ اس کے بعد کے 82صفحات خستگی کے سبب نمبر شمار سے عاری
ہیں۔ اور ہر صفحے کا متن کیڑوں کی نذر ہوگیا ہے۔ جہاں تک ’دیوانِ مجید‘ کی متنی
تحقیق کا تعلق ہے اس سلسلے میں ’آبِ خضر‘
اور ’اڑیسہ میں اردو‘ میں مشمولہ حیا کے نمونہ ہائے کلام کاتقابل بھی ضروری ہے۔
’آبِ خضر‘ کی تالیف کے وقت ڈاکٹر کرامت علی کرامت نے دیوانِ مجید کے اسی نسخے سے
استفادہ کیا تھا۔ جو اس وقت راقم السطور کے پیش نظر ہے۔ ’آبِ خضر‘ میں عبدالمجید
بھونیاں حیا کے صرف تین اشعار ملتے ہیں13؎ اور یہ اشعار پیش نظر دیوان کے مطابق نہیںہیں
بلکہ ان کے متن میں تالیفی مداخلت نظر آتی ہے۔ ذیل میں ’آبِ خضر‘ اور ’دیوانِ مجید‘
کا متنی فرق ملاحظہ فرمائیں ؎
الف
دکھادو یا رسول اللہ کرم سے روئے نورانی
تپش ہے دل کے تئیں افزوں جگر کو ہے پریشانی
)دیوانِ
مجید،ص264(
الف
دکھادو یارسول اللہ کرم سے روئے نورانی
تپش ہے دل میں اور افزوں جگر کی ہے پریشانی
)آبِ
خضر،ص44(
ب
کلیجہ منہ کو آتا ہے یہاں تک آہ بھرتا ہوں
نہیں تحریر کے قابل ہے میرے جی کی طغیانی
)دیوانِ
مجید،ص264(
ب
کلیجہ منہ کو آتا ہے میں ہر دم آہ بھرتا ہوں
نہیں تحریر کے قابل ہے میرے جذبوںکی طغیانی
)آبِ
خضر،ص،44(
ج
کرو اب حل مشکل عاصیوں کی اے شہہِ عالم
خدا نے دی ہے تم کو بس کلید مشکل آسانی
)دیوانِ
مجید،ص264(
ج
کرو اب عاصیوں کی مشکلوں کو حل شہہِ عالم
خدا نے تم کو بخشی ہے کلید مشکل آسانی
)آبِ
خضر،ص44(
اسی طرح ڈاکٹر حفیظ اللہ نیولپوری کی کتاب ’اڑیسہ میں
اردو‘ میں حیا کا جو کلام شامل ہے ان میں دو جگہ معمولی سا فرق پایا جاتا ہے۔
الف
ہے نمونہ یاں کے دو بھاکے زباں کا اس وجہ
)دیوانِ
مجید، ص151(
الف
نمونہ یاں کے دو بھاکے زباں کا اس وجہ
)اڑیسہ
میں اردو، ص104(
ب
عبث خوف و خطر عصیان کا کرتا ہے خاتم
)دیوانِ
مجید، ص84(
ب
عبث خوف و خطر عصیان کرتا ہے تو خاتم
)اڑیسہ
میں اردو، ص، 104(
’دیوانِ
مجید‘ میں جابہ جا تذکیرو تانیث کی خامیاں، قافیے کا عیب، علامتِ فاعل (نے) کے
فقدان اوزان و بحور اور محاورے کی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ در اصل حیا کا تعلق مشرقی
اڈیشا کے اس مقام سے رہا ہے جہاں بولی جانے والی مقامی اردو، کٹک، سونگڑہ، کرشنانند
پور، محی الدین پور وغیرہ مضافات میں رائج اردو زبان سے قدرے مختلف ہے۔ ساتھ ہی حیا
کے دیوان میں بالیسر کی اڑیا آمیز اردواور خالص اڑیا زبان کے نشانات بھی ملتے ہیں۔
چند مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
z اشک
مژگاں میں ہمارے موتیاں گونتھے ہوئے
اڑیا۔’گُنتھی با‘۔ہندی ’گونتھنا‘ بمعنی پرونا (دیوانِ
مجید،ص،118)
z پورا
بوجھائی ہوچکا میرا یہ چھوٹا بوٹ
اڑیا: ’وجھیئی‘بمعنی بار کرنا۔بوٹ(چھوٹی کشتی)مؤنث
مستعمل ہے (دیوانِ
مجید،ص119)
z پُوڑیں
یہ عاصی کبھی کچھ...الخ
اڑیا: پُوڑیں بمعنی پھر (دیوانِ
مجید،ص151)
z کیا
لکھوں ایٹاریں...الخ
اڑیا: ایٹہارے بمعنی یہاں۔ اس جگہ (دیوانِ
مجید ص،151)
جہاں تک فنی خامیوں کا تعلق ہے یہ شاعر کی فنِ شاعری پر
کمزور گرفت پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ حیا کو اپنی کم مائگی اور کلام میں
در آئے معائب کا احساس تھا۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
ابتدا سے رہتے ہیں دق مجھ سے پھر حضرت عروض
بے وسیلہ سے چلا ہے کہیے کس کا کارِ بھیک
قاعدہ داں بھی نہیں تانیث اور تذکیر میں
جو ملا طبعِ رسا ہی سے یہ سرشار بھیک
)دیوانِ
مجید، ص 17(
عبد المجید بھونیاں حیا انیسویں صدی کی جس دہائی کے
شاعر تھے، اس عہد میں اساتذۂ سخن کی ڈیوڑھیاں اپنے شاگردوں سے آباد ہوا کرتی تھیں
اور دور دراز کے شاگرد خط و کتابت کے ذریعے اصلاح لیا کرتے تھے۔ بہ الفاظِ دیگر اس
عہد کو استادی اور شاگردی کا عہدِ زریں کہا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے حیا بھی کسی
نہ کسی استاد شاعر کے حلقۂ تلامذہ میں ضرور شامل رہے ہوںگے۔ لیکن اس کا ذکر ’آبِ
خضر‘ اور ’اڑیسہ میں اردو‘ جیسے تذکروں میں نہیں ملتا۔ البتہ ’دیوانِ مجید‘ میں ایسے
اشعار ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کو لطف علی خاں لطف اور مولانا امیر
احمد معروف بہ امیر لکھنوی کی رہنمائی حاصل تھی۔ اشعار حسبِ ذیل ہیں ؎
السلام اے صاحبِ جانِ عزیز
ہند میں شعرا ہیں لاکھوں پُر تمیز
السلام اے صاحبِ من دستگیر
رہنما اوس سے مرے لطف و امیر
)دیوانِ
مجید، ص18(
اے حیا تم خوب
ہو کیا خوب کہتے ہو غزل
رہنما بے شک تمھارے شعر کا احمد امیر
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حیا کو ’لطف و امیر‘ کی
رہنمائی حاصل تھی تو ان کے کلام میں ڈھیروں خامیاں کیوں کر راہ پاگئیں؟ اس کا ایک
پہلو تو یہ ہے کہ لطف و امیر حیا کے ادبی و روحانی پیشوا ضرور رہے ہوںگے لیکن حیا
کو ان سے فیض یاب ہونے کی بیش از بیش مہلت نہ ملی ہوگی۔
چونکہ دیوانِ ہٰذا میں لطف و امیر کے اشعار پر کئی تضامین
(مخمس اور مسدس کی شکل میں) شامل ہیں اور حیا نے ان اصحاب کے تئیں تعلقِ خاطر کا
اظہار بھی کیا ہے لہٰذا یہ بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ لطف و امیر ہی حیا کے
مصلح سخن رہے ہوںگے۔ تاہم حیا کے کلام میں موجود خامیاں اس ’رشتۂ اصلاح‘ کی نفی
کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ہوسکتا ہے شاعر نے اپنے چند کلام پر ان سے اصلاح لی ہو
اور آگے چل کر کسی سبب سے یہ سلسلہ منقطع ہوگیا ہو۔
’دیوانِ
مجید‘ میں جابہ جا ایسے اشعار پائے جاتے ہیں، جن سے شاعر کے طبعی حالات پر روشنی
پڑتی ہے۔ چونکہ شاعر کو اپنی علالت اور لاغری کا احساس تھا اور ان کی زندگی قنوطیت
کی زد میں آچکی تھی۔ لہٰذا بیشتر اشعار میں انہوں نے اپنی دلی کیفیات کا اظہار کیا
ہے ؎
کاہ کے مانند شوقِ یثرب و بطحا میں ہوں
اے صبا بہرِ خدا لے چل تنِ لاغر اوٹھا
جلے کیوں آتشِ دوزخ میں یارو یہ تنِ لاغر
ہے سوزاں رات دن فانوس پر پروانہ تن اپنا
پہونچادے اوس کو روضۂ سلطانِ دیں تلک
لاغر ہے مثلِ کاہ صبا یہ حیا غریب
السلام اے صاحبِ مالک جہاں
میں ہوں یک شاعر ضعیف ناتواں
فرقتِ سلطانِ دیں میں چہل سے بھی عمر کم
پیرسا معلوم ہوتا ہے جواں عبد المجید
یارو احمد سرورِ ہر دوسرا کے غم سے بس
رہ گیا ہے صرف مشتِ استخواں عبد المجید
لاغر ہوں میں اوڑا دے صبا مہرو لطف سے
مجکو حبیبِ خالقِ اکبر کے در تلک
حیا کا دیوان اپنی تمام تر فنی لغزشوں کے باوجود اڈیشا
میں اردو ادب کی تاریخ کا ایک لاینفک جز ہے۔ چونکہ یہ دیوان اڈیشا کی اولین نعتیہ
تصنیف ہے۔ لہٰذا اس کی قدرو اہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ ’دیوانِ مجید‘ میں
ایسے اشعار کی کمی نہیں جو اپنے فضل و کمال اور پیرایۂ اظہار کے سبب توجہ کو انگیز
کرنے کی بدرجہا صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند اشعار حسبِ ذیل ہیں ؎
تابِ خورشید جدائی سے نپٹ ہوں زارزار
کب ملے مجکو ترے دیوار کا سایا عجب
عشق میں یارب نبی کے کرمجھے مرنا نصیب
جگ میں ہوشہرت حیا عاشق نبی کا تھا عجب
ہے مری آنکھوں سے اے شاہِ زمن کا فور خواب
گریہ و زاری سے ہے لیکن بہت مسرور خواب
اے حیا ذکرِ نبیِ پاک میں مشغول رہ
ایک چپ رہنے سے تیرے ہیں درو دیوار چپ
ہم نے لگائی ہے بڑی محنت سے اے فلک
بستانِ دل میں الفت خیرالامم کی شاخ
چرخِ کہن نے مجکو ستایا ہے روزو شب
کاٹو رسول تیغِ کرم سے ستم کی شاخ
سرخیِ خوں سے
جدائی میں دہانِ زخم پر
صاف ہوجاتا ہے شاہا مرہم زنگار سرخ
پوشیدہ مہر ہوتا ہے در لکّۂ سحاب
رخشاں ہے صبح و شام رسالت کا نورِ شمس
درویوزہ خواہ ہوتا ہے خو مہرِ آسماں
چمکے ہے جب نبی کی سخاوت کا نورِ شمس
اے حیا ہے اس جہاں میں شمس اصلی کو زوال
نورِ احمد تا قیامت اول و آخر طلوع
پہونچا دے اے نسیم پیمبر کے در تلک
تارِ خیال ہے مرا سرور کے در تلک
مَل ڈالے چل کے روضۂ اقدس پہ شوق سے
گو نورتن سے تیری حیا ہے یہ بھاری آنکھ
اوس نسیمِ بادِ خوش جاتے ہی ناموسم ہوا
خاک پر برگ و ثمر بادِ خزاں سے گرپڑے
تعزیت انگیز ہو شمس و قمر رونے لگے
آنسوؤں کی طرح تارے آسماں سے گرپڑے
فرقتِ سلطانِ دیں میں اے عزیزانِ جہاں
میرے نالے نے دیا ہنگامۂ محشر اوٹھا
آرزوئے روضۂ اطہر ہے دل میں بے کراں
میرا اب بارے خدایا ہند سے بستر اوٹھا
پروانہ ساں حیا کا ہے مشتاق قلب زار
رخ سے اوٹھا دو سرورِ عالم نقاب اب
دُرفشاں ہوتے تھے جب دنداں ہنسی میں آپ کے
مدح کرتا تھا صدف میں لولوئے لالا شتاب
بے طرح شوقِ زیارت میں ہے قلبِ ناتواں
یاالٰہی تو اوٹھادے ہجر کا پردہ شتاب
خرّمی یہ عشقِ احمد کے ہے باعث روز وشب
کوئی کَس ہوتا نہیں ہے شادو خرم بے سبب
باعثِ ہجر ہمایوں اے شہنشاہِ زماں
بھاگتا ہے احقرِ بے پر سے کوسوں دور خواب
آں شہِ گلگوں قبا یعنی رسول اللہ کی
کفش بردارری کا یارب مجکوہے منظور خواب
زہر نیرنگِ فلک سے اے حبیبِ کبریا
آہ عاصی کا ہمیشہ ہے دہان و کام تلخ
پردۂ غفلت اوٹھادے دل سے میرے یارسول
دے رہی ہے خلق مجکو رات دن دشنام تلخ
’دیوانِ
مجید‘ یوں تو ایک نعتیہ دیوان ہے۔ لیکن اس میں غزلیہ رنگ و آہنگ کے اشعار بھی
ملتے ہیں جو طرز و اسلوب کے اعتبار سے اپنے عہد کے مذاق کے حسبِ حال ہیں۔ اس قبیل
کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
نہیں بھاتا ہے مجکو تیرا نظارہ گلِ خنداں
کہ روز و شب تصور ہے مجھے اوس روئے خنداں کا
آفتاب و ماہ کو کردوں میں صدقے پاؤں پر
دیکھنا گر ہو میسر روئے رخشاں روز وشب
چاک نالوں نے کیا دامن جگر کا صد دریغ
دوجہاں میں کوئی مجھ سا ہے نہ ہوگا تشنہ لب
گلِ مقصود نہ آیا ہے مرے ہاتھوں میں
بوئے امید سونگھاؤں میں تجھے کیا اے مغز
یکبارگی دکھادے رخِ رشکِ آفتاب
ہوں تیغِ ہجر سے ترے میں نیم جان غش
بے وفائی، بے وقاری کا نہ کچھ پوچھو سخن
کیا دکھاتا ہے زمانہ مجکو نقشہ رنگ رنگ
بارید ہے خوں ہر دم نیسان سا آنکھوں سے
میں آپ بھی رورو کر اوروں کو رولاتا ہوں
شرابِ وصل پلا دو شتاب اے صاحب
ہوا ہے دل مرا جل کر کباب اے صاحب
جواب عالمِ رویا میں گرنہ ہو حاصل
حیا مرے گا یہ کہہ کہہ کے بس جواب جواب
میں نے دیوانہ پن اپنا کیا ظاہر جگ میں
قیس کی طرح ہو یارب مجھے تشہیر نصیب
’دیوانِ
مجید‘ میں ردیف ت اور ردیف م میں شاعر کی دو فارسی غزلیں بھی مشمول ہیں۔ چند اشعار
بطورِ نمونہ حسبِ ذیل ہیں ؎
مہرگردوں بر فروغِ عقل تحسیں خوان تست
وصف چوں بلبل غزل خواں از دلِ دیوان تست
باد تند ہجرتت دل میر باید از جہاں
دا ورا اکنوں بیا لطف و کرم شایان تست
قنداز شیریں سخن شدزرد رُواے دستگیر
آفتاب مرتبت رخشاں تہہِ داماں تست
’دیوانِ
مجید‘ کے متن میں املے کا جو فرق نمایاں ہے۔ وہ شاعر کے اپنے عہد اور مقامی چھاپ کی
دین ہے۔ مثلاً اوس کا (اس کا) اونھیں(انھیں) اوسے(اسے) اوٹھے (اٹھے) مجکو (مجھ کو)
بولاتی (بلاتی) سولاتی(سلاتی) پاوے(پائے) جاوے(جائے) اوڑا (اڑا) تجکو(تجھ کو)
داربان(دربان) پہونچا(پہنچا) دیکھاتا(دکھاتا) وغیرہ۔ اسی طرح حیا کے کلام میں جہاں
تشبیہات و استعارات کا حسن پایا جاتاہے وہیں بعض لفظی تراکیب مثلاً موسوی تقریر، طیبی
گل، مسیحِ یقیں، بادام مزاجی، مغزِ خورشید، مجیدی دولت، تنک مغز، بطن الکلب، حرام
النار، وغیرہ شاعر کے تخلیقی اظہار کی بوقلمونی اور طرزِ قدیم سے قدرے ہٹ کر فکری
تازگی کا احساس دلاتی ہیں۔
’دیوانِ
مجید‘ کی متنی تدریس کے دوران ورق ورق ایسے اشعار بھی ملتے گئے جن میں برتے گئے
الفاظ عام قاری کے لیے پیچیدہ اور قدرے ثقیل ثابت ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ذیل میں ان
الفاظ کے معانی درج کیے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں مکمل شعر نقل کرنے کی بجائے ثقیل
لفظوں کے حامل مصاریع پر اکتفا کیا گیا ہے
؎
بدلے شربت کے مجھے لونا اجارہ ہوگیا (لون
سے لونا بمعنی نمکین۔ شورہ)
بجا ہجدہ ہزار
عالم مثالِ اختراں پیدا
)ہجدہ
بمعنی اٹھارہ(
نہ بھول یکدم اوسے ہرگز جگا رکھنا ولادل میں
)ولا
بمعنی محبت و الفت(
جب تپِ غب مجھے چڑھ جاتی ہے ہجراں کی تری
غب بمعنی تپِ نو بتی۔ ایک قسم کا بخار
تو حیا کو دے پلا وصل کی راوق شاہا
)راوق
بمعنی شراب کی صافی(
یہ حال آخر کو جی کا گزرا کہ سر بسنگِ رخام پہنچا
)رخام
بمعنی سنگِ مرمر(
رگِ اکحل پہ اے فصّاد تو نشتر لگا اچھا
)اکحل۔
ایک رگ کا نام جسے ہفت اندام بھی کہتے ہیں(
ہے یہ نیرنگِ دُنی پاؤں حیا کا توڑا
)دُنی
بمعنی دنیا(
قلم ہے مرتبہ قرطاس پر اک بادپا اچھا
)بادپا
بمعنی تیز رفتار(
گرمیٔ عشقِ نبی حق میں بھپارا ہوگیا
)بھپارا
بمعنی بھاپ، جوش دی ہوئی دوا(
قلبِ مس میں کیمیا اکسیرِ صدق
)مِس
بمعنی تانبا۔ روشنائی اورعذر اس کے دوسرے معانی ہیں(
ہے تو سالارِ مشیّم بے گماں یا مصطفی(
)مشیّم
لفظ مشی سے مشتق ہے بمعنی پاپیادہ۔ چہل قدمی(
بجا کے دم کا دمامہ رباب اے صاحب
)دمامہ
بمعنی نقارہ(
عصّات ہوںگے شافعِ محشر سے کامیاب
)عصّات
بمعنی گنہ گار(
سرہووے میرا
عتبۂ اطہر سے کامیاب
)عتبہ
بمعنی چوکھٹ، دہلیز(
بوئے فردوس نہیں بھاتی ہے مجکو اصلا
)اصلا
بمعنی مطلقاً، ہرگز(
لاغر ہے مثل کاہِ صبا یہ حیا غریب
)کاہ
بمعنی کٹی ہوئی سوکھی گھاس(
تابِ خورشید جدائی سے نپٹ ہوںزار زار
)نپٹ
بمعنی سراسر، بالکل(
امید از صعود نہیں دم کوتا ہبوط
)صعود
بمعنی بلندی پر چڑھنا۔ ہبوط بمعنی نیچے اترنا، نشیب(
حدقۂ آنکھوں میں گھر باندھا ہے اشک سرخ خوں
)حدقہ
بمعنی آنکھ کی سیاہی(
اک اشارے سے کیا سبّابہ سے شق القمر
)سبّابہ
بمعنی انگشتِ شہادت(
ہے وجعِ مقاصل کے لیے میری دوا دھوپ
)وجعِ
مقاصل بمعنی جوڑوں کادرد(
زیبق آسا ہجرِ احمد میں تڑپتا ہوں ہمیش
)زیبق
بمعنی پارہ، سیماب۔ہمیش بمعنی ہمیشہ(
پھر رہی ہے کالبد میں میرے نالاں صبح و شام
)کالبد
بمعنی قلب، ڈھانچا(
الفت ہے ہم کو دوحۂ حبِ رسول سے
)دوحہ
بمعنی درخت(
چھپالے اب تو یہ کنجشکِ دل کو دامن میں
)کنجشک۔
ایک مشہور پرندہ(
عالمِ فرحت چو اندرائن ہے صبح و شام تلخ
)اندرائن
بمعنی حنطل۔ ایک کڑوا پھل(
حلقِ بسمل کو ہے جیسا صورتِ قمقام تلخ
)قمقام
بمعنی بڑا چُھرا (
حرزِ جاں ہے ملاء اعلا کا
)ملاء
اعلا بمعنی فرشتے(
ہمامِ خلق ہے صلِّ علیٰ نبی مطلق
)ہمام
بمعنی قوم کا بزرگ و خوش تدبیر سردار(
’دیوانِ
مجید‘ شاعر کے جذبہ و عقیدت کا آئینہ دار ہے۔ اس میں شامل بعض کلام حیا کے جذبہ و
شوق اور قلبی اضطراب کی شدت کو مترشح کرتے ہیں۔ اس کے علی الرغم متعدد اشعار سطحی
قسم کے ہیں اور ان میں فکری آلودگی بھی پائی جاتی ہے۔
آخر میں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اڈیشا میں
اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر کون ہے ؟ اس سلسلے میں محققین کے درمیان اختلاف
رائے پایا جاتا ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ’دیوانِ چرخی‘ کا سالِ طبع (1907) تحقیق
و تفحص کی روسے مستند اور مسلم ہے جبکہ ’دیوانِ مجید‘ کا سنہ طباعت ہنوز معلوم نہیں
ہوسکا۔ شیخ امین اللہ چرخی اردو کے شعرائے متقدمین میں سے غالب، انیس و دبیر، اور
مومن وغیرہ کے ہم عصر تھے۔ ان کی وفات کے 27سال بعد ان کے متبنیٰ فرزند مولوی عبد
الرشید قاصر نے 15؍
اکتوبر 1907 کو رضوانی پریس، کلکتہ سے ’دیوانِ چرخی‘ شائع کیا۔ جواب نایاب ہے۔
البتہ ’دیوانِ چرخی‘ کا ایک قلمی نسخہ قدرے درست حالت میں میری ذاتی لائبریری میں
موجود ہے۔ اس کے حصۂ اول (دیوانِ حمد) کے اختتام پر جو تحریر ملتی ہے اس کی رو سے
اس نسخے کی کتابت جنوری 1870کو پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ تحریر کے آخر میں کاتب کا
نام محمد عبد العزیز جاجپوری درج ہے14؎ اسی طرح عبد المجید بھونیاں حیا کے دیوان
کا سالِ تکمیل انہی کے ایک قطعۂ تاریخ کے اس مصرع ’اے حیا یہ ختم ہے بامنفعت دیوان
مجید‘ کے مطابق 11؍دسمبر
1871نکلتا ہے۔ یعنی ’دیوانِ چرخی‘ کی کتابت کے تقریباً ایک سال بعد دیوانِ مجید کا
قلمی مسودہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اس اعتبار سے یہ دو دواوین اگرچہ زمانی اعتبار
سے ہم عصر ٹھہرتے ہیں۔ لیکن ’دیوانِ چرخی‘ (قلمی نسخہ) کے سالِ کتابت اور ’دیوانِ
مجید‘ کے سنہ تکمیل کے پیشِ نظر امین اللہ چرخی ہی اڈیشا کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر
ثابت ہوتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ’دیوانِ چرخی‘ کا سالِ طباعت (1907) تحقیقی
استناد کی رو سے مسلم ہے جبکہ دیوانِ مجید کا سالِ طبع ہنوز تشنۂ تحقیق ہے۔ اس
نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اولیت کا سہرا امین اللہ چرخی کے ہی سر بندھتا ہے۔
حواشی
1 آبِ
خضر۔ مؤلفہ۔ کرامت علی کرامت۔ مطبوعہ، اگست 1963۔ص166
2 دیوانِ
مجید۔ عبد المجید بھونیاں حیا۔ جلد اول
ص60
3 دیوانِ
مجید۔ دیباچہ از قلم فدوی حسین۔ صفحہ نمبر (کرم خوردہ)
4 دیوانِ
مجید۔ اسی صفحے کی پشت پر دیباچہ تحریر ہے۔ صفحہ نمبر (کرم خوردہ)
5 مضمون،
دیوانِ مجید۔ ایک مطالعہ۔شیخ مبین اللہ(وفات، 7جنوری2024)
مطبوعہ،
ہماری زبان، نئی دہلی۔ شمارہ۔ 22؍ستمبر
1979۔ ص12
6 اڑیسہ
میں اردو۔ حفیظ اللہ نیولپوری۔ مطبوعہ۔ 2001۔ص101
7 آبِ
خضر۔ مؤلفہ۔ کرامت علی کرامت۔ ص44
8 دیوانِ
مجید۔ ص253
9 مضمون،
’دیوانِ مجید۔ ایک مطالعہ‘ شیخ مبین اللہ،مطبوعہ، ہماری زبان۔نئی دہلی، شمارہ، 22؍ستمبر
1979
10 اڑیسہ میں اردو۔
حفیظ اللہ نیولپوری۔ ص102
11 دیوانِ مجید، ص139
12 دیوانِ مجید، صفحہ
نمبر(کرم خوردہ)
13 آبِ خضر،
مؤلفہ،کرامت علی کرامت، ص44
14 دیوانِ چرخی(قلمی
نسخہ)ص 58
Khawar Naqeeb
Editor, Tarweej
Daryapur,P.O-Kood Sungra
Dist.: Cuttack-754221 (Odisha)
Mob.: 7605902971,8093375876
E-mail-khawernaqeeb@gmail.com