28/5/25

ماہنامہ شاعر اور افتخار امام صدیقی، مضمون نگار: قمر احمد

 اردو دنیا، فروری 2025

بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی اردو زبان و ادب کے ادبی رسائل کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس دور میں’ اردو ‘، ’نگار ‘، ’ہمایوں ‘، ’نیرنگ خیال ‘، ’ عالم گیر ‘، ’ نقاد‘، ’ صحیفہ‘،’ ساقی ‘، ’ ادب لطیف ‘، ’ سب رس ‘ اور ’شاعر ‘ جیسے موقر رسائل منصہ شہود پر آئے۔ماہنامہ ’ شاعر‘ کا شمار اردو کے ان معدودے چند رسائل میں کیا جا سکتا ہے جو اپنی قدامت اور مقبولیت دونوں اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی مقبولیت کی بنیاد پر بعض تجزیہ نگاروں نے شاعر کو ادبی رسائل کا سرتاج ہی نہیں بلکہ سالارِ کارواں کہا ہے۔ ماہنامہ ’ شاعر ‘ کو علامہ سیماب اکبر آبادی نے غالب کی برسی پر 15 فروری 1930 کو بطور پندرہ روزہ اخبار کی حیثیت سے آگرہ سے جاری کیا۔ دو سال سے بھی کم عرصہ میں ماہنامہ کی صورت اختیار کر گیا۔ مارچ 1932ء تک ’ شاعر ‘ پندرہ روزہ اخبار کی ہیئت میں بیس صفحات پر شائع ہوا، اس کے بعد اپریل مئی کا مشترکہ شمارہ تیس صفحات پر محیط ہے۔’ شاعر‘ کی شروعات ادارہ ’ قصر الادب ‘ کی زیر نگرانی ہوئی جس کو سیماب اکبر آبادی نے1923 میں آگرہ میں قائم کیا تھا۔ حامد اقبال صدیقی لکھتے ہیں:

’’اولاً اسے ہفت روزہ اخبار کے طور پر شائع کرنے کا منصوبہ تھا لیکن غالب کے یوم وفات 15 فروری 1930 کو پندرہ روزہ اخبار شاعر کا اولین شمارہ منظر عام پر آیا، اس کے نگراں خود سیماب اور مدیر ان کے بڑے صاحبزادے منظر صدیقی مرحوم تھے۔ سرورق پر ایک جانب غالب کی تصویر تھی اور دوسری جانب ’ جمعیت الشعراے ہند کا واحد اخبار‘ تحریر تھا اور ساتھ ہی حضرت سیماب کی نظم کا یہ شعر تھا       ؎

پیدا ہوا ہے فکر کی مشکل کشائی کے لیے

 شاعر ہے آوازِ خدا ساری خدائی کے لیے

(حامداقبال صدیقی، سیماب اکبر آبادی، ساہتیہ اکادمی، دہلی 2009، ص 41-42)

 سیماب اکبر آبادی اجمیر شریف سے رسالہ ’فانوس خیال‘ جاری کیا۔ بعد ازاں ادارہ ’ قصر الادب ‘سے ماہنامہ ’’ پیمانہ ‘‘ جاری کیا اور پھر 1929 میں اسی ادارے سے اخبار’ تاج‘ جاری کیا،جس میں ماہنامہ شاعر کے اغراض و مقاصد کو پیش کیا گیا تھا۔عرصہ دراز سے ان کا یہ خواب تھا کہ ایک ایسے ادبی رسالے کا اجرا کیا جائے جو صرف جماعت شعرا  کا متفقہ آرگن ہو جس کے ذریعے مشرقی فن شاعری کو انحطاط کی پستیوں سے نکال کر معراج ترقی پر پہنچایا جا سکے۔ چناچہ ’ شاعر ‘ کے اجرا سے انھوں نے اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ ’ شاعر ‘ کے تعلق سے جو اہم نکات اخبار ’ تاج ‘ میں شائع کیے گئے تھے وہ حسب ذیل ہیں:

.1            ایک آل انڈیا لٹریری کانفرنس کا قیام اور اس کے متعلق انتظامی کوششیں۔

.2            ہندوستان کے تمام شعرا کو ایک رشتۂ تنظیم و اخوت میں منسلک کرنا۔

.3            شاعری کو موجودہ مبتذل انحطاط پذیر حالت سے ابھارنا۔

.4            موجودہ شاعری کو اس قابل بنانا کہ وہ ترقی ِ قوم و ملک کا باعث ہو۔

.5            شعرا  کے حالات و واقعات ہفتہ وار شائع کرنا۔

.6            ایک ایسا ادارۂ اشاعت قائم کرناجو شعرا کے دیوان اور مجموعہ کلام کی طباعت اور اشاعت کر سکے۔

7             شعرا کو گمنامی اور بے قدری کی پستی سے معراج شہرت پر لانا اور ہفتہ وار ان کی غزلیں، نظمیں اور کلام شائع کرنا۔

.8            قدیم اور جدید شاعری کی حمایت کرنا اور فن شریف کو مٹنے سے بچانا۔

مذکورہ نکات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماہنامہ ’شاعر ‘کی اشاعت کا مقصد اردو شاعری کا فروغ اور بالخصوص ہندوستان کے شعرا  کے کلام کی ترویج و اشاعت تھا۔’شاعر ‘نے اپنے ابتدائی دور سے ہی بہت سے شعرا  کو گمنامی اور بے قدری کی پستی سے نکال کر معراج شہرت عطا کی۔ ابتدا معاصر اخبارات و جرائد کی نظر میں ’ شاعر ‘ محض شاعری کا گلدستہ تھا اور ان کا مجموعی ردعمل یہ تھا کہ اس میںنو مشق شعرااور ادبا کی غیر معیاری تخلیقات جمع کر دی جاتی ہیں۔ ’ شاعر ‘ میں نہ صرف ان اعتراضات کا جواب دیا جاتا تھا بلکہ بعض معیاری رسائل و اخبارات میں شائع شدہ تخلیقات کے فنی سقم کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ نئے شعرا کے کلام کی اصلاح بھی کی جاتی تھی۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے اکثر بڑے عروضی شعرا کو دعوت دی جاتی تھی، جن میں جوش ملیح آبادی، حسرت موہانی، اصغر گونڈوی، فانی بدایونی، جگر مرادآبادی، ریاض خیر آبادی، عزیز لکھنؤی، ساغر نظامی اور سیماب اکبر آبادی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ان شعرا کے افکار عالیہ شروع سے ہی ’ شاعر ‘کی زینت بنتے رہے۔’ شاعر ‘ میں آئینے کے سامنے، شاعرانہ معلومات، اصلاح سخن، استفسار اور مشورے، محاکات، معیار اور عام فہم عروض کے مستقل عنوانات کے تحت ان ماہرین اور اساتذۂ فن کے مضامین شائع کیے جاتے تھے۔ ماہنامہ ’شاعر ‘ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس نے ’ مناظمہ ‘ اور ’مناثرہ ‘ کو رواج دے کر ان شعرا میں بھی نثر و نظم لکھنے کا شوق پیدا کر دیا جو صرف غزل کہتے تھے۔اس تعلق سے ’شاعر ‘ کے ایک شمارے میں ’ مناظمہ سے استغفار ‘ کے عنوان سے مدیر نے لکھا ہے کہ:

’’ ابھی ہمارے شعرانظم کہنے کے عادی نہیں ہیں، بعض لوگ نظموں کے اسالیب دیکھنے کے منتظر ہوں گے۔ بعض پہلی مرتبہ نظم اچھی نہ کہہ سکے ہوں گے، اس لیے ہم اس شعبہ کو بدستور جاری رکھتے ہوئے ان تمام شعرا سے جو شاعر کے خریدار ہیں یا شاعر کو کسی نہ کسی طرح دیکھتے ہیں۔ التماس گزار ہیں کہ وہ آئندہ اس خصوص میں پوری توجہ فرمائیں اور جس طرح غزلیں کہنے میں التزام سے کام لیا جاتا ہے اسی طرح نظمیں کہنے میں بھی کشادہ دلی سے کام لیں۔ ان شاء اللہ مناظمہ کی ترویج طبقہ شعرا کے لیے بہت زیادہ مفید اور دلچسپ ثابت ہو گی۔ ‘‘

(ماہنامہ شاعر ممبئی، ہم عصر اردو ادب نمبر 1997، ص 105)

ماہنامہ ’ شاعر ‘ اپنے ابتدائی تقریباً بیس سالوں تک اردو شاعری کی ترویج و ترقی پر زور دیتا رہا۔اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ رسالہ اپنے بانی علامہ سیماب اکبر آبادی کی سوچ کا مظہر تھا۔یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ اگرچہ ’ شاعر ‘ کے بانی سیماب اکبر آبادی تھے لیکن انھوں نے رسالے کی شروعات کے وقت ادارت کے فرائض کی ذمے داری اپنے بڑے بیٹے اور شاعر منظر صدیقی کو دی تھی۔منظر صدیقی نے فروری 1932 تک ادارت کے فرائض بخوبی انجام دیے، اس کے بعد علالت کے سبب وہ دہلی چلے گئے اور ادارت خود حضرت سیماب کے ذمے آگئی اور شریک کار کی حیثیت سے ان کے دوسرے فرزند اعجاز صدیقی رسالے سے وابستہ ہو گئے بلکہ ستمبر 1935 سے وہ باقاعدہ مدیر شاعر بنا دیے گئے۔سیماب اکبر آبادی تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے اور وہیں کراچی میں 1951 کووفات پا گئے۔ سیماب کی وفات کے وقت ان کے چاروں بیٹے منظر صدیقی، اعجاز صدیقی، سجاد صدیقی اور مظہر صدیقی ان کے ساتھ تھے۔ اعجاز صدیقی والد کی رحلت کے بعد ماہنامہ ’ شاعر ‘ کے دفتر کو آگرہ سے کراچی منتقل کرنے کے لیے ہندوستان آ گئے، لیکن وہ واپس پاکستان نہیں جا سکے۔آگرہ میں ان کی طبیعت نہیں لگ رہی تھی اس لیے دوستوں کے مشورے سے 1951 کے آخری مہینوں میں  ماہنامہ ’ شاعر ‘ کے دفتر کو لے کر مع اہل و عیال ممبئی منتقل ہو گئے۔ یہاں سے ماہنامہ ’ شاعر ‘ کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ ممبئی میں یہ شجر سایہ دار پھلتا پھولتا رہا اور اعجاز صدیقی اسے اپنے خون جگر سے سینچتے رہے۔اعجاز صدیقی نے ’ شاعر ‘ کو کامیاب بنانے کے لیے ایک طویل جدوجہد کی اور ہندوستان کی ادبی صحافت میں اسے ایک الگ اور بلند مقام عطا کیا۔ 1935 سے 1978 تک، وہ تقریباً بیالیس سال ماہنامہ ’شاعر ‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔اعجاز صدیقی کی وفات (9فروری 1978)کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے تاجدار احتشام صدیقی کورسالے کا مدیر اعلیٰ مقرر کیا گیااور چھوٹے بیٹے افتخارامام صدیقی معاون مدیر ہوئے۔ تاجدار احتشام صدیقی ماہنامہ ’شاعر ‘ کے بہتر مستقبل کے لیے سعودی عرب چلے گئے اور وہیں 4فروری1981 کو انتقال کر گئے۔ان کی وفات کے بعد ’ شاعر ‘ کی وراثت افتخار امام صدیقی کے حصے میں آئی، جسے انھوں نے آخری دم تک اپنے بھائی نعمان صدیقی اور حامد اقبال صدیقی کے تعاون سے جاری رکھا۔

افتخار امام صدیقی(1947-2021) علامہ سیماب اکبر آبادی کے پوتے اور اعجاز صدیقی کے فرزند تھے۔ جنھوں نے اپنی پوری زندگی ماہنامہ ’شاعر ‘ کے لیے وقف کر دی۔ ان کی ذات بہت سارے اوصاف کی جامع خوبیوں کی حامل تھی۔ وہ صحافتی، علمی، ادبی، غرض ہر میدان میں ایک انفرادی مقام رکھتے تھے۔ باکمال صحافی و شاعر ہی نہیں با وصف انسان بھی تھے۔ 1981 سے 4اپریل 2021 تک یعنی ان کی وفات تک ماہنامہ ’شاعر ‘ ان کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔اردو کی ادبی صحافت میں بہت کم ایسے مدیران ہیں جنھوں نے چار دہائیوں تک کسی رسالے کی ادارت کے فرائض انجام دیے ہوں۔ان کی وفات کے بعد ماہنامہ ’ شاعر ‘کا مستقبل متاثر ہونے کا اندیشہ کیا جا رہا تھااور جس کا ڈر تھا وہی ہوا، مالی دشواری اور وسائل کی کمی کی وجہ سے جنوری 2022 میں رسالے کو بند کر دیا گیا۔ایک عہد ساز رسالے کا نودہائیوں کے بعد مالی وسائل کے سبب بند ہونا اردو داں طبقے کی بے حسی قرار دیا جا سکتا ہے۔

افتخار امام صدیقی نے جب ماہنامہ ’شاعر ‘ کی ادارت سنبھالی تب ان کے سامنے بھی بہت سے چیلینجز درپیش تھے لیکن انھوں نے ’ شاعر ‘ کو بلا ناغہ اسی آن بان اور شان سے جاری رکھا جس طرح ان کے والد اور دادا مرحوم نے رکھا تھا۔انھوں نے چالیس سال تک بڑی جانکاہی سے اس پودے کی پرورش کی جس کو ان کے دادا مرحوم نے لگایا تھا۔اردو صحافت میں نہ معلوم کتنے اقتصادی بحران آئے مگر اس کی جڑوں کو جنبش نہیں ہوئی۔ اس دوران بہت سے ادبی اور علمی رسالے افق ادب پر طلوع ہوئے اور قلیل عرصے کی زندگی کے بعد چراغ سحری کی طرح جھلملا کر خاموش ہو گئے۔ یہ صرف افتحار امام صدیقی کی پر خلوص کوششوں اور ان کی بے نظیر صحافتی قابلیت اور صلاحیت کا نتیجہ تھا کہ ماہنامہ ’ شاعر ‘ کو ایک طویل عمر نصیب ہوئی جو اس کے کسی ہم عصر رسالے کو میسر نہیں ہوئی۔یہاں تک کہ 2002 میں افتخار امام صدیقی ایک ٹرین حادثے میں بری طرح زخمی ہو کر اپنی دونوں ٹانگوں سے معزور ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد سے مشاعروں میں ان کے لامتناہی اسفار کا سلسلہ ضرور منقطع ہو گیا تھا مگر ماہنامہ ’ شاعر ‘ کی عظمت اور اس کو ترقی دینے کی رفتار میں کمی واقع نہیں ہوئی۔علامہ اقبال نے رسالہ ’ شاعر ‘ کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا تھا:

’’رسالہ’ شاعر ‘ اب مبتدیوں کے مذاق سے گزر کر منتہیوںکے مفاد کا باعث ہوتا جاتا ہے۔خدا اس کی عمر دراز کرے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر صوبہ کے سر شتۂ تعلیم میں ’ شاعر ‘منظور کر لیا جائے۔ خود بھی کوشش کر رہا ہوں، آپ بھی توجہ فرمائیں۔‘‘

(شاعر۔ شمارہ جون 1932، ص 5)

شاید علامہ اقبال کی دعا ’خدا اس کی عمر دراز کرے ‘ قبول ہوئی کہ آج ’ شاعر ‘ کا شمار اردو کے سب سے قدیم ادبی رسائل میں ہوتا ہے جو تقریباً بیانوے سال تک اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دیتا رہا۔ اس طویل مدت میں ماہنامہ ’ شاعر ‘ کے مزاج میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس نے ترقی پسند تحریک کے عروج و زوال کو بھی بہت قریب سے دیکھا تھا اور اس کے بعد جدیدیت کے کمالات کا مشاہدہ بھی کیا تھا۔لیکن ’ شاعر ‘ کی یہ خوبی رہی کہ کسی مخصوص تحریک کا علمبردار نہیں رہا لیکن ہر دور کے بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ ضرور دیتا رہا۔ اعتدال پسندی کو اس نے اپنا شعار بنایا کیوں کہ ’ شاعر ‘ کا مقصد اعلیٰ ادب کی ترویج تھا اس لیے ہمیشہ ادبی معیارات کو اولیت دی۔

ماہنامہ ’ شاعر نے سیاسی اور مذہبی موضوعات سے ہمیشہ گریز کیا۔خالص ادبی و لسانی مواد کو زیر بحث لایا گیا۔’ شاعر ‘ کی کامیابی کا راز شاید اسی میں مضمر ہے کہ اس نے اپنے دامن کو ہمیشہ وسیع رکھا۔ جہاں اس نے نامور قلمکاروں کو اپنے صفحات پر جگہ دی وہیں اردو کی نئی نئی آوازوں اور نئے نئے چہروں کو ادبی دنیا سے روشناس کرایا۔غالباً اردو کا یہ واحد رسالہ ہے جس میں غیر ملکی ادبا اور شعراکی نگارشات دلکش اور منفرد انداز میں شائع ہوتی رہیں۔ان نگارشات سے بین الاقوامی سطح پر اردو کی صورتِ حال کا پتا چلتا ہے۔

ماہنامہ ’ شاعر‘ کی نمایاں ترین خصوصیت اس کے موضوعاتی خاص نمبر ہیں جو اپنے آپ میں بے مثال اور دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ابتدا میںاعجاز صدیقی کی ادارت میں نکلنے والے خصوصی نمبرات میں کار امروز نمبر 1935، آگرہ نمبر 1936، سالنامہ نمبر مئی 1937، افسانہ نمبر 1954، سعادت حسن منٹو نمبر 1955، خاص نمبراپریل1959، غالب نمبر 1969، گاندھی نمبر 1969، ناولٹ نمبر 1971، قومی یکجہتی نمبر1974،  کرشن چندر نمبر1967 اورہم عصر اردو نمبر 1977خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اعجاز صدیقی کے بعد افتخار امام صدیقی نے بہت کم وقت میں اپنی بے حد تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ’ شاعر ‘ کے متعدد متنوع رنگ کے شمارے شائع کر کے ادبی حلقوں میں اعتبار قائم کر لیا۔ان کے یاد گار اور تجرباتی خصوصی شماروں میں ایک شمارہ1980کے نام،خلیل الرحمن اعظمی نمبر 1980،نثری نظم اور آزاد غزل نمبر1983، یگانہ نمبر 1985، اقبال نمبر 1988، افسانہ نمبر 1992 اور ہم عصر اردو ادب نمبر1997 وغیرہ شامل ہیں۔

شاعر ‘ کے ابتدائی خصوصی شماروں میں’سالنامہ نمبر ‘ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شمارہ مئی 1937 میں شائع ہوا جو 525صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا نصف حصہ ’ آگرہ سکول نمبر ‘ کے لیے وقف کیا گیا۔ اس حصے میں 200کے لگ بھگ شاعروں کے کلام کا انتخاب شائع کیا گیا ہے اور کئی شعرا کے حالات زندگی نہایت سلیقے کے ساتھ مرتب کیے گئے ہیں۔اس شمارے میں خواجہ میر علی تبریزی موجد خط نستعلیق کی خوش نویسی کے عکس بھی شائع کیے گئے ہیں۔شمارے میں جدت یہ جلوہ گر ہوئی کہ آگرہ اسکول کے موسس اعلیٰ سیماب اکبر آبادی اپنے تلازمہ کے کلام کی اصلاح جس مہارت اور چابک دستی سے کرتے تھے، اس کے کئی نمونوں کے عکس اس اشاعت میں شامل کیے گئے ہیں۔ آخر میں 112شاعروں کے تذکرے درج ہیں اور ساتھ ہی 105شاعر تصویر کی صورت میں رونق افروز ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں شعرا کی تصویر شاید ہی اب تک کسی شمارے کی زینت بنی ہوں۔

 ہم عصر اردو ادب نمبر ‘ ماہنامہ ’ شاعر ‘ کا سب سے مقبول ترین خصوصی نمبر ہے، جس کی پہلی جلد مئی تا دسمبر 1997 میں منظر عام پر آئی۔یہ جلد 1240صفحات پر مشتمل ہے۔اردو رسائل کی تاریخ میں شاید یہ سب سے زیادہ ضخیم نمبر ہے، جسے اردو شعروادب کا عالمی گائوں بھی کہا گیا ہے۔اس خصوصی نمبر میں آگرہ اسکول، علامہ سیماب اکبر آبادی، معاصر تنقید، مکاتیب، مشاہیر، ہم عصر افسانہ، معاصر اردو شاعری پر پر مغز مقالات اور بہترین شعرا اور نثر نگاروں کی اعلیٰ تخلیقات و نگار شات شائع کی گئی ہیں۔ مزید برآں مختار صدیقی، اوپندر ناتھ اشک، رام لعل اور مالک رام کے خصوصی گوشے بھی شائع کیے گئے ہیں۔شمارے کے اختتام پر اردو شاعروں اور ادیبوں کی ایک ڈائرکٹری بھی دی گئی ہے جس میں غیر ممالک کے ادیبوں اور شاعروں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ مدیر ’ شاعر ‘ افتخار امام صدیقی اس شمارے کے اداریے میں یوں رقمطراز ہیں:

’’اردو شعرو ادب کا یہ کوئی انتخاب نہیں ہے۔ کسی طرح کی کوئی انتھولوجی بھی نہیں ہے۔ یہ کوئی سالانہ جائزہ یا کوئی دس سالہ جائزہ یا پھر پچاس سالہ ادب کا محاکمہ بھی نہیں ہے۔بظاہر اس کا عنوان ’ ہم عصر اردو ادب نمبر ‘ ( اردو شعرو ادب کا عالمی گائوں) ہے اور 1990 کے بعد شعرو ادب کو عمل میں رکھا گیا ہے لیکن ترقی پسندوں اور جدیدیوں کے ادبی کارناموں کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے آزادی ہند اور ہندوستان کی تقسیم کے آس پاس کے شعرو ادب کی بات بھی ہوئی ہے لیکن طے شدہ موضوع کو اس کے میکانکی مضمرات کے ساتھ یا خاص نمبر کے کسی بھی تصور سے الگ ہو کر ’ ہم عصر اردو ادب نمبر ‘ کی تینوں جلدوں کو دیکھنا اور سمجھنا ہو گا۔ ‘‘

(ماہنامہ شاعر، اداریہ، ہم عصر اردو ادب نمبر 1997 ص 25)

مذکورہ شمارے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے 1999 میں لندن میں اسے ایک ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔یہ خصوصی نمبر افتخار امام صدیقی کی سات سالہ کاوشوں کا ثمرہ تھا جسے اردو زبان و ادب کا کوئی بھی سنجیدہ قاری کبھی فراموش نہیںکر سکتا۔’ شاعر ‘ کے دیگر خصوصی شماروں میں غالب نمبر، افسانہ نمبر، کرشن چندر نمبر، گاندھی نمبر، ناولٹ نمبر اور خلیل الرحمن اعظمی نمبروغیرہ بھی دستاویزی حیثیت رکھتے ہیںاور اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔خصوصی نمبرات کے علاوہ ’ شاعر ‘ نے 1970 میں پہلی بار گوشوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ اولین کاوش ’ گوشہ راجندر سنگھ بیدی ‘ کی تشکیل سے ہوا۔ اس کے بعد  مختلف قلمکاروں کے تقریباً سو سے زائد خصوصی گوشے  شائع ہو چکے ہیں، جن میں انور خان، نثار احمد فارقی، مشفق خواجہ، احمد ندیم قاسمی، دپتی مشرا، قمر جمالی، جوگندر پال اور پروفیسر مسعود حسین خان کے گوشے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ان خصوصی گوشوں کی ایک اہم خوبی افتخار امام صدیقی کے ادبا و شعرا  سے لیے گئے انٹرویوز ہیںجو ’ فنکار اب بھی مستور ہے‘ کے عنوان سے شائع ہوتے تھے۔افتخار امام صدیقی نے ہی ہندوستان کے اردو قارئین کو ’ اردو کی نئی بستیوں ‘ سے متعارف کروایا۔

ادبی صحافت کی ترقی کا دارومدار اداریوں پر بھی ہوتا ہے۔ اور ماہنامہ ’ شاعر ‘ اپنے بے باکانہ اداریوں کے لیے کافی مشہور ہے۔اس میں لکھے گئے اداریے حالات حاضرہ پر ہوتے ہیں۔ خواہ وہ ادبی حالات حاضرہ ہوں یا سیاسی، عام طور پر ادبی رسائل میں ادبی مباحث کو ہی جگہ دی جاتی ہے۔بقول فرانسیسی فلسفی ژال پال سارتر، جو ادیب سیاسی شعور نہیں رکھتا اور سیاسی حالات ِ حاضرہ سے بے خبر ہو وہ ادیب ہی نہیں ہے۔ ’ شاعر ‘ کے مدیر اعجاز صدیقی ہوں یا ان کے بیٹے افتخار امام صدیقی، دونوں ہی بیدار ذہن کے مالک اور مستقل حالات کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔افتخار امام صدیقی تو ایک نڈر اور بے باک صحافی تھے۔ ’ شاعر ‘ میں لکھے گئے اداریے ان کی شخصیت کے عکاس ہیں۔ انھوں نے بغیر کسی نتائج کی پرواہ کیے ہوئے اداریے تحریر کیے ہیں۔جن موضوعات پر بھی انھوں نے اداریے لکھے، وہ فنی معیارات پر پورے اترتے ہیں۔ ان کے اداریوں سے اردو زبان و ادب کی صورت حال اور فروغ و اشاعت کے علاوہ ادبی منظر نامے کا بھی پتا چلتا ہے۔

مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ ماہنامہ ’ شاعر ‘ اپنی گونا گوں صفات اور خصوصیات کے باعث ہندوستان کے ان چند مایہ ناز اور اہم ادبی رسائل میں شامل ہے، جن کی خدمات کو اردو زبان و ادب اور صاف ستھری و بے داغ صحافت کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ رسالے کو یہ بلندی اور سرفرازی عطاکرنے میں افتخار امام صدیقی کی علمی بصیرت اور ادب شناسی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ماہنامہ ’ شاعر ‘ ایک رسالہ ہی نہیں بلکہ ایک صدی پر محیط داستان ہے جو افتخار امام صدیقی کی وفات کے بعد اپنے اختتام کو پہنچی تو بے جا نہ ہو گا۔

 

Dr. Qammer Ahmed

Lecturer, Vishwa Bharti Womens College,

Rainawari, Srinagar, 190003  (J&K)

Mob: 7006014038

Email: qammerahmed3@gmail.com

 

 

 

27/5/25

اردو کا صوتی ذخیرہ اور صوتی نظام لاثانی ہے، پروفیسر رئیس انور

 اردو دنیا، فروری 2025


خان محمد رضوان:پروفیسر رئیس انور صاحب، یوں تو آ پ کی تحریریں رسالوں میں ایک عرصے سے دیکھ رہا ہوں مگر ذاتی طور پر آپ کے متعلق میری واقفیت کم ہے۔ اپنے بارے میں قارئین کو کچھ بتائیں۔

پروفیسر رئیس انور:  رضوان صاحب، اس مصاحبے کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ دراصل میرا آبائی وطن بہار شریف ضلع نالندہ ہے۔ وہاں کے استھاواں بلاک میں ایک گائوں موہنی ہے جہاں میرے جد امجد جیوٹھلی (ضلع پٹنہ) سے آکر آباد ہوگئے تھے۔ میرے والد مجیب الرحمن مرحوم بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کلکتہ چلے گئے تھے اور فراغت کے بعد وہیں پر یسیڈینسی کالج (جسے اب یونیورسٹی کا درجہ مل گیا ہے۔) میں فارسی کے استاد ہوگئے۔ اسی بناپر میری پیدائش اور رہائش وغیرہ کلکتہ میں تھی۔ محمد جان ہائی اسکول، مولانا آزاد کالج اور کلکتہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ 1978 میں ایم اے کرنے کے بعد ریسرچ میں مشغول ہوگیا۔ جلد ہی 1979میں بھاگلپور یونیورسٹی میں لکچر ر شپ مل گئی مگربہ وجوہ میں نے ایک سال بعد جون 1980 میں جوائن کیا۔ جنوری 1988میں مجھے متھلایونیورسٹی میں ریڈر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔ وہیں میں ترقی پاکر پروفیسر اور صدر شعبہ بھی بنا۔ سنٹرل لائبریری اور لائبریری اور انفارمیشن سائنس کا ڈائرکٹر بھی رہا۔علاوہ بریں بارہ سال تک مولانا آزاد چیئر کا ڈائرکٹر رہا۔ کلکتہ کا ایک خاص ماحول، مزاج اور کلچر ہے جس سے میں متاثر ہوں۔ اس لیے بہار میں مجھے ایڈجسٹ کرنے میں دقت ہوتی رہی ہے۔  مجھے ابھی 2024 میں دوبارہ مولانا آزاد چیئر کے نگراں کے عہدے پر بحال کیا گیا ہے۔

خ  ر : آپ اپنے ہم عصروں پر بھی روشنی ڈالیں۔

ر  ا :           کلکتہ میں غلام نبی، محمد مظفر حسین، فہمیدہ بیگم اور ساجدہ بانو وغیرہ میرے ہم جماعت تھے۔غلام نبی، وکٹوریہ میموریل کلکتہ میں آفیسر ہوگئے تھے۔ مظفرحسین اورنگ آباد (بہار)کے کسی کالج میں استاد تھے جب کہ فہمیدہ اور ساجدہ کلکتہ کے کالجوںمیں تدریس کرتی رہیں۔ سینئر لوگوں میں یوسف ترقی، شمیم انور اور ابوبکر جیلانی تھے۔ یہ لوگ بھی وہیں کالج اور یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ بھاگلپور میں شاداب رضی اور محمد بدرالدین اچھے استاد اور دوست تھے۔دربھنگہ میں ڈاکٹر منصور عمر، ڈاکٹر مظفر مہدی اورڈاکٹر ارشد جمیل میرے اہم رفقا تھے۔ ان سے علم وادب پر نوک جھونک بھی ہوتی تھی۔ معاصرانہ چشمک ایک فطری عمل ہے۔ اگر یہ مثبت، صحت مند اور ادب و تہذیب کے دائرے میں ہو تو اس سے فائدے بھی ہوتے ہیں۔

خ ر:محترم آپ کے وقت میں اردو کے وہ کون سے رسالے تھے جو زبان وادب کی ترویج کر رہے تھے اور سب سے زیادہ آپ کو کس رسالے نے متاثر کیا؟

را:            ہمارے زمانے میں بیسویں صدی، شمع، سریتا اور کھلونا وغیرہ بڑوں اور بچوں میں مقبول تھے اور کلکتہ میں آسانی سے مل جاتے تھے۔ جب میں کالج میں پہنچا تو ماہنامہ آجکل، نیا دور، شاعر اور کتاب پڑھنا شروع کیا۔ بعد میں زبان وادب، پٹنہ اور روح ادب کلکتہ بھی مطالعے میں آیا۔ کالج میں استاذی پروفیسر اعزاز افضل ترقی پسندانہ مزاج رکھتے تھے۔ ’عصری ادب‘ اور’ عصری آگہی‘ ان کے یہاں زیر بحث رہتا۔ یونیورسٹی میں استاذی ظفر اوگانوی ’شب خون‘، ’سوغات‘ اور ’الفاظ‘ کے مندرجات پر گفتگو کرتے۔ استاذی شاہ مقبول احمد اور والد محترم کی توجہ کلاسیکی ادب پر مرکوز تھی۔ اسی بناپر میں کسی خاص ادبی تحریک یا رجحان سے وابستہ نہیں ہوا۔ ہاں سن شعور کو پہنچنے کے بعد’ عصری ادب‘،’ عصری آگہی‘، ’الفاظ‘ اور’ سوغات‘ وغیرہ زیادہ انہماک سے پڑھتا تھا۔

خ  ر:آپ اپنے علمی وادبی کام کی تفصیلات بتائیں۔

ر  ا:           رضوان صاحب میں نے شروعات شاعری سے کی۔ شاید والد محترم اور استاذی اعزاز افضل سے قربت کا اثر تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں افسانے اور ناول بھی پڑھا کرتا تھا۔ اس لیے افسانہ نگاری کی بھی کوشش کی۔ شاعری اور افسانے کلکتہ ریڈیو پر بھی پڑھے۔ رسالے میں بھی چھپوائے۔ اس کے بعد رپورتاژ لکھے پھر مضمون نگاری اور تحقیق کی طرف راغب ہوا۔ غالب کے ایک بنگالی ہم عصر جنم جی مترا ارمان کے دو مخطوطے ’تذکرہ نسخۂ دلکشا‘اور ’منتخب التذکرہ‘ ترتیب دے کر شائع کیا۔ ایک اور کتاب ’جنم جی متر ارمان حیات و خدمات‘ لکھی۔ مضامین کا مجموعہ ’بازیافت پرویز شاہدی‘ مرتب کیا۔ تنقیدی وتحقیقی مضامین، تقریظ، تبصرے، ترجمے وغیرہ لگاتار شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس نوع کی تحریروں کے کئی مجموعے بھی چھپ چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ’بنگال کے اردو تذکرے‘ (2021)اور ’تلمیذ میر: غلام علی راسخ عظیم آبادی‘  (2023)شائع ہوئی ہیں۔

خ  ر: آپ ہندی اور انگریزی زبان کے ادب کے مقابلے میں اردو ادب کو کہاں پاتے ہیں؟

ر ا:دیکھیے اصل میں ادب اپنے ماحول میں پنپتا ہے۔  کسی بھی ملک یا علاقے، اس کے سماج، ا س کے کلچر اور اس کی تہذیب کا عکس ادب میں موجود ہوتا ہے۔ مغربی ممالک کا سماج، وہاں کے جغرافیائی حالات، روزمرہ کی زندگی اور دوسرے معمولات مشرقی ملکوں سے الگ ہیں۔ وہاں کی روز مرہ کی زندگی میں بہت سی ایسی قدریں ہیں جو ہمارے یہاں معیوب سمجھی جاتی ہیں جیسے نام نہاد آزادی، از حد کھلاپن، عریانیت، تصوراتی نراجیت وغیرہ۔ اتنا کہاجاتا ہے کہ وہاں کی تقلید میں یا یوروپی ادب کے اثر سے ہندی اور اردو میں بھی کچھ عناصر داخل ہوئے ہیں اور اس عمل کو Intellectualismکا نام دیا جاتا ہے۔ پھر بھی اردو ہندی کا نثری ادب اپنی الگ اور آزادانہ پہچان بنائے ہوئے ہے۔

                جہاں تک ہندی ادب کا سوال ہے، افسانے، ناول، تنقید وغیرہ بڑے معیاری ہیں مگر شاعری کسی حد تک کمزور ہے۔ اردو شاعری میں جس پائے کے نفیس و نازک احساسات اورجمالیات کا دل کو چھولینے والا اظہار ہوتا ہے اور دلکش اسلوب بھی ہوتا ہے، ہندی شاعری اس سے قدرے دور ہے۔

خ ر: کیا اردو اساتذہ کا معیار کچھ کم ہوا ہے؟ اب اچھے ادیب، نقاد اور شاعر پیدا نہیں ہورہے ہیں؟

ر  ا:تلخ سچائی یہ ہے کہ ہمارے کئی اساتذہ صرف ملازمت کرتے ہیں اور اردوکے استاد بن کر دوسرے کام میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اردو زبان کے مستقبل، طلباکے مستقبل اور تدریس کے فرائض سے انھیں کم سے کم دلچسپی ہوتی ہے۔ طلبا کو نوٹس دے کر سمجھتے ہیں کہ  فرض منصبی ادا ہوگیا۔ زبان وادب کو پڑھنے، اپنے طور پر سمجھنے اور سمجھانے سے بہت کم تعلق رکھتے ہیں۔ بعض اساتذہ تدریس کے بجائے سمینار، سمپوزیم اور جلسوں میں ایسا مصروف رہتے ہیں کہ رزق کے حلال اور حرام کی تمیز ہی نہیں رہتی۔

                جب استاد اور شاگرد کا رشتہ اتنا کمزور ہو۔ تدریس کے تقاضے اور تقدس پامال ہونے لگیں تو ماحول میں بیزاری آنے لگتی ہے۔ ایسے میں درس گاہوں سے اچھے ادیب، نقاد اور شاعر کیسے نکلیں گے۔ آپ ہی سوچیے۔

خ ر: کیا تحقیق و تنقید کا معیار گرا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟

ر  ا:           جامعاتی تحقیق میں یقینا گراوٹ آئی ہے یہ ہر سبجیکٹ میں ہے۔ اس کی وجہ یو جی سی کے بنائے ہوئے اصول و قواعد ہیں جن کے مطابق ریسرچ پیپر اور ریسر چ ڈگری کے لیے مخصوص اضافی نمبر ہیں۔ اسی بناپر باصلاحیت طلبا کے ساتھ ساتھ بے صلاحیت بھی اس کے لیے جگاڑ لگاتے ہیں اور ہم میں سے چند لوگ پیسے کی خاطر پیپر اور تھیس لکھ کر بے صلاحیت یا کم صلاحیت والوں کی سرپرستی کر تے ہیں۔ انھیں لکھ کر دے دیتے ہیں یا نقل کروادیتے ہیں۔ اسے ڈگری کا کمرشیلایزیشن کہنا چاہیے۔ لہٰذا معیار کی گراوٹ میں چند طلبا کے ساتھ ساتھ بعض اساتذہ بھی شریک ہیں۔

خ ر: ادب کی مبادیات کیا ہیں؟ ایک طالب علم یہ کیسے محسوس کرے گا کہ اس فن پارے میں ادبیت ہے یا نہیں ہے؟

ر  ا:یہ بہت مشکل اور سنجیدہ سوال ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے میں یہ واضح کردوں کہ ادب بنیادی طور پر موضوع، اسلوب اور ہیئت کا اٹوٹ، مربوط اور دلکش مجموعہ ہوتا ہے۔ ادب کا مطالعہ کرتے وقت یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس میں جذبہ، احساس یا خیال کیسا ہے۔ اس کی زبان اور اس کا اسلوب کیسا ہے نیز جس ہیئت میں پیش ہوا ہے، اس میں سماکر اس کے تقاضوں کو پورا کررہا ہے یا نہیں۔ یہاں ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آتاہے کہ ایک ہی خیال کو کئی شاعر یا نثر نگار اپنے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں تقابل کا سوال ابھرتا ہے کہ کس فن پارے میں اثر آفرینی ہے۔ کسے پڑھ یا سن کر ہماری حس بیدار ہوجاتی ہے۔ ہمارے شعور میں گرماہٹ پیدا ہوتی ہے۔ آل احمد سرور کی زبان میں مسرت اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ دراصل ادب میں اسلوب کی بڑی اہمیت ہے۔ موضوع یا خیال اسی کے وسیلے سے ہیئت میں ضم ہوتا ہے۔ اس لیے میری نظر میں ادب کی قدر و قیمت کا دار و مدار اسلوب پر ہے۔ میں اسلوب کے سلسلے میں زیادہ نہیں بولوں گا۔ اس کی تعریف و تشریح بڑی پیچیدہ اور بڑی حد تک فلسفیانہ ہے۔ اس میں زبان، تکنیک اور تخلیقی عمل وغیرہ کی بحث شامل ہوجائے گی۔

خ  ر:کیا یہ درست ہے کہ اردو رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہے یا اسے ختم کرنے کی ساز ش رچی جارہی ہے؟

ر  ا:اس میں بہت حد تک سچائی ہے۔ آج کل اردو جاننے والے بلکہ پڑھے لکھے لوگ ہندی سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے اردو کا بنیادی ڈھانچہ دن بہ دن کمزور ہوتا جارہاہے۔ آپ غور کیجیے، اردو الفاظ اور محاورات کس تیزی سے بگڑرہے ہیں یا بگاڑے جارہے ہیں۔ اب معلوم چلا، علمائوں، حالاتوں وغیرہ میڈیا سے ہوتے ہوئے عوام میں رائج ہوتے جارہے ہیں۔  اگر پڑھے لکھے لوگ صحت زبان کا لحاظ نہیں رکھیں گے تو زبان کمزور ہوگی اور ہماری اردو زبان کا اردو تہذیب کا نقصان ہوگا۔

                آسان زبان یاہندوستانی الفاظ پر مشتمل زبان استعمال کرنا اچھا ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اردو میں علاقائی الفاظ بھی کھپائے جاسکتے ہیں مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اردو قواعد، ا س کے اپنے کینڈا اور اس کی اپنی پہچان سے سمجھوتہ کیاجائے۔

خ  ر: کیا مدارس کے فارغین کی وجہ سے آج اردو بچی ہوئی ہے؟ اگر مدرسہ والے نہ ہوتے تواردو میں قابل قدر کام نہ ہوتا؟

ر  ا:یہ جزوی طور پر درست ہے۔ آج کل بہار کے مدرسوں سے جو بچے اردو کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آرہے ہیں، وہ بہت کمزور ہوتے ہیں۔ ان میں ادب کا وہ شعور نہیں ہوتا جو پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔ بہار میں عالم اردوکی سند والے ایم۔ اے۔ اردو میں داخلہ لیتے ہیں۔ ان کا املا اور جملہ بہتر ہوتا ہے مگر شعر وادب اور تاریخ ادب کی سمجھ برائے نام ہی ہوتی ہے۔ ان پر اساتذہ کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔

                جہاں تک قابل قدر کام کا سوال ہے۔ جیسا کام پروفیسر عبدالمغنی، پروفیسر ظفر اوگانوی، پروفیسر ابوالکلام قاسمی، پروفیسر ظفر احمد صدیقی وغیرہ نے کیا ہے جو بہت پہلے مدرسوں سے فارغ ہوئے تھے مگران لوگوں کے بعد ایک گیپ ہوگیا ہے۔

خ  ر:اردو کے مستقبل کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟

ر  ا:           میری سمجھ سے اردو کا مستقبل زیادہ روشن نہیں ہے۔ ایک عرصے سے لپی بدلنے کی بات ہورہی ہے۔ اردوکے کئی اساتذہ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو صحیح زبان نہیں لکھ سکتے ہیں،املا تک غلط لکھتے ہیں۔ پانچ دس منٹ کسی موضوع پر بول نہیں سکتے ہیں۔ میں نے بہار، کے دو مشہور کالج اور دو یونیورسٹی میں تدریس کی ہے اور بہت کچھ دیکھا ہے۔ اردو کے طلبا عام طور پر دستخط یا درخواست کے لیے ہندی کا انتخاب کرتے ہیں۔ اکثر طلبا اردو میں درخواست لکھ بھی نہیں سکتے۔ اب ایسی صور ت میں اردو کے مستقبل کے بارے میں کیا رائے دی جائے۔ میرا ماننا ہے کہ شمالی ہندوستان میں بول چال کی زبان اردو ہے مگر لکھنے کی زبان ہندی ہوگئی ہے۔

خ  ر: اردو رسم الخط ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ غیر تو غیر اپنے بھی اردو رسم الخط کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیا اردوکو اس کے رسم الخط کے بغیر باقی رکھا جاسکتا ہے؟

ر ا:دیکھیے بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو اردو رسم الخط ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ دیوناگری یا رومن لپی میں وہ دم توڑ دیں گے۔ ذ، ز، ض، ظ والے الفاظ تو فنا ہوجائیں گے۔ ان کا صحیح تلفظ ناپید ہوجائے گا۔ یہی حال ’ژ‘ والے لفظوں کا ہوگا۔ دراصل اردو کا صوتی ذخیرہ لاثانی ہے۔ اس کا نظام بھی بڑا جامع اور وقیع ہے۔ اصوات کی ایسی زرخیزی غالباً دوسری کسی زبان میں نہیں ہے۔ صوتی ذخیرے کا دارو مدار لپی پر ہے۔ لپی کی تبدیلی سے یہ بے نظیر ذخیرہ بالکل ختم ہوجائے گا۔ اردوکی ساری دلکشی، چاشنی اور سحر انگیزی مختلف اصوات کی شمولیت اور انضمام سے ہے اور اس معاملے میں بر صغیر کی کوئی زبان اردو کی ہمسر نہیں ہوسکتی۔ دوسری کسی لپی میں ایسی انضمامی توانائی اور تخلیقی سلیقہ مندی نہیں ہے کہ حسن ادا کے ساتھ دوسری زبانوں کے الفاظ کو نیا پیراہن عطا کردے یا دوسری زبانوں کے الفاظ کو صحیح Accentکے ساتھ ادا کرسکے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ زبان اپنی لپی کے ساتھ زندہ رہتی ہے۔ ہمیں عبرانی زبان سے سبق لینا چاہیے۔ قیام اسرائیل سے قبل یہودیوں کا کوئی الگ ملک نہیں تھا مگر اس قوم نے اپنی زبان کو سینہ بہ سینہ محفوظ رکھا اور ملک ملنے کے بعد وہاں اسے رائج کیا۔ اس لیے اردو زبان کو اس کی لپی کے ساتھ ہی زندہ رکھا جاسکتا ہے  ورنہ یہ جس لپی میں لکھی جائے گی، اسی میں ڈھل کر ختم ہوجائے گی۔

خ  ر:اچھا اب یہ بتائیں کہ نئی نسل اردو سے کیوں دور ہوتی جارہی ہے ؟ اسے اردو سے کیسے جوڑے رکھا جاسکتا ہے؟

ر  ا:دیکھیے، یہ دور کمر شیلائیزیشن اور ٹیکنالوجی کا ہے۔ تعلیم کا بہت چرچا ہے مگر روایتی تعلیم کی طرف سماج کا کمزور طبقہ راغب ہوتا ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحصیل باعث فخر ہے مگر مہنگی ہے۔ سوائے ہندی کے دوسری دیسی زبانوں کا اسکوپ کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ اردو بھی اس رجحان سے متاثر ہورہی ہے۔ اچھے پرائیویٹ اسکولوں بلکہ کئی سرکاری اسکولوں میں اردو کی تعلیم نہیں ہوتی ہے اور گارجین بڑی خوشی سے بچوں کو انگریزی کے علاوہ ہندی یا دوسری زبان پڑھنے دیتے ہیں۔کہیں کوئی احتجاج یا تحریک نہیں ہوتی۔ان کا اصل مقصد اچھی اور اعلیٰ مروجہ تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے۔

اس صورت حال میں اگر ہمیں اپنے بچوں کو اپنے کلچر، اپنی تہذیب اور اپنے مذہب سے جوڑے رکھنا ہے تو گھر پر محنت کرنا ہوگی۔ اردو تحریک کا نعرہ دینے اور میٹنگ کرکے اخباروںمیں فوٹو چھپوانے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ گھر پر اردو اخبار، رسالے اور کتابیںمہیا کرانا اور بچوں کو انھیں پڑھنے کی ترغیب دینا ہوگی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحصیل کوئی بری بات نہیں مگر اسی کے ساتھ اپنی زبان کی بھی جانکاری رکھنے میں کیا قباحت ہے۔

خ  ر:رئیس انور صاحب میں بہت ممنون ہوں کہ اردو زبان وادب کے حوالے سے آپ سے تفصیلی بات چیت ہوئی اور مختلف موضوعات پر آپ کے خیالات سے آگاہ ہونے کا موقع ملا۔ ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔

 

Dr. Khan Mohd Rizwan

D-307, M.M.I Publisher

Abul Fazal Enclave, Jamia Nagar

New Delhi- 110025

Mob.: 9810862283

afeefrizwan@gmail.com

 

 

26/5/25

اپنشد، ماخذ: قدیم ہندی فلسفہ، مصنف: رائے شیوموہن لعل ماتھر

 اردو دنیا، فروری 2025

لفظ اُپنشد کا ابتدائی مفہوم گرو کے قدموں کے نزدیک بیٹھنا اور اطاعت گزاری کے ساتھ اس کے اپدیش کو سننا تھا۔ چنانچہ مکس ملر اپنشد کی تمہید میں کہتا ہے کہ سنسکرت زبان کی تاریخ اور ذہانت اس بات میں کچھ شبہ باقی نہیں رکھتی کہ ابتدا ً اُپنشد کا مفہوم مجلس تھا اور بالخصوص ایسی مجلس جو شاگردں پر مشتمل ہو اور جو اپنے استاد کے چاروں طرف ادب سے تھوڑے فاصلہ پر جمع ہوں۔ ڈیوسن کا خیال ہے کہ اس لفظ کا مطلب پوشیدہ تعلیم ہے جو پردۂ راز میں دی جاتی ہے اور خود اپنشدوں کی بہت سی عبارتوں سے ان کا ثبوت ملتا ہے۔ مکس ملر کو بھی اتفاق ہے کہ یہ لفظ اپنشدوں میں اس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلیم کو پوشیدہ رکھنے کے لیے بہت سے احکام کی تعمیل کرنی پڑتی تھی اور یہ کہا گیا ہے کہ یہ تعلیم اسی شاگرد یا طالب علم کو دی جائے جو اپنی اعلیٰ اخلاقی پابندی اور نیک خواہشات سے خود کو سننے کا اہل ثابت کرے۔ اپنشدوں کے مشہور شارح شنکراچاریہ نے اس لفظ کو ماخذ ’سد‘ قرار دیا ہے۔ جس کے معنی تباہ کرنے کے ہیں اور یہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جبلی جہالت کو تباہ کرتا ہے اور صحیح علم کے اظہار سے نجات کی طرف لے جاتا ہے لیکن اگر ہم ان بہت سی عبارتوں کا مقابلہ کریں جن میں لفظ اپنشد واقع ہوا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ڈیوسن کے معنی درست ہیں۔ اس بارے میں خصوصی توجہ دی جاتی تھی کہ یہ تعلیم کسی غیرمستحق کو نہ دی جائے تاکہ اس کے بارے میں غلط فہمی اور اس کا غلط استعمال یا بے جا تصرف نہ ہوسکے۔ چنانچہ ’پرشن اپنشد‘ کے قول کے مطابق چھ شاگرد ایک بڑے گرو کی خدمت میں اعلیٰ ترین حقیقت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پہنچتے ہیں لیکن گرو تعلیم دینے سے قبل یہ مشورہ دیتا ہے کہ و ہ ایک سال تک اس کے ساتھ سکونت اختیار کریں۔ بظاہر اس غرض سے کہ ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جائے، تاکہ ان کو تشفی ہوجائے کہ وہ ایسی تعلیم کے مستحق ہیں اور ’کٹھ اپنشد‘ میں جب نچکیتا یہ جاننا چاہتا ہے کہ روحِ انفرادی یا جیو آتما موت کے بعد زندہ رہتی ہے یا نہیں، تویم (موت کا دیوتا) اس وقت تک کوئی جواب نہیں دیتا جب تک کہ اس کم سن طالب علم کے خلوص اور ذہنی قوت کی پوری آزمائش نہیں کرلیتا۔ ست اور آست کی تمیز کے بغیر کسی کو اعلیٰ ترین صداقت کی تعلیم دینے سے گریز کرنے کا طریقہ کچھ ہندوستان میں ہی نہ تھا بلکہ تمام قدیم باشندوں میں سب جگہ پایا جاتا تھا۔

اُپنشدوں کے ادب کا جو کہ نسلاً بعد نسل ہم تک منتقل ہوا ہے، ماخذ کا پتا چلانا کسی قدر دشوار ہے۔ ہندو روایت میں ان کا وہی رتبہ ہے جو ویدک ادب کی دیگر نوع مثلاً ’منتروں‘ یا ’برہمنوں‘ کو دیا گیا ہے۔ ان سب کو حیرت انگیز انکشاف یا ’اشروتی‘ خیال کیا جاتا ہے یعنی یہ ایسی تصانیف ہیں جن کا مصنف کوئی انسانی وجود نہیں ہے۔ اپنشدوں میں ہمیں اِدھر اُدھر ایسے مختصر اور پرمغز بیان ملتے ہیں جن میں ’سوتروں‘ یا ضابطوں کے مخصوص نشان پائے جاتے ہیں اور وہ ادبی مسالہ جس میں وہ مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے ہیں، کچھ اس نہج کا ہے کہ جس سے ان میں محفوظ صداقت کی تشریح اور اس کا تفصیل سے بیان ہوجاتا ہے۔ مزید برآں ان بیانات کو متعدد جگہوں پر اپنشد کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ شروع شروع میں یہ لفظ ’سوتر‘ یا ضابطہ کے لیے استعمال کیا گیا ہو جس میں فلسفہ اپنشد کی اہم صداقت کا لب لباب موجود ہو۔ مثال کے طور پر (تت توام اسی) ’وہ تو ہی ہے‘ پیش کیا جاسکتا ہے جس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ انفرادی روح اور کائناتی روح بنیادی طو رپر بالکل ایک اور یکساں ہے۔ قدیم زمانے میں اسی قسم کے فلسفیانہ سوتروں کا راز گرو اپنے چیلے پر افشا کرتے تھے اور اسی موضوع پر تشریحی تقریریں پہلے ہوتیں تو کبھی بعد میں۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا ان تقریروں نے خاص صورتیں اختیار کرلیں اور ان اپنشدوں کے آغاز کا سبب نہیں، جو اس وقت ہمیں دستیاب ہیں۔ اگرچہ اس وقت تک یہ تحریری شکل میں نہیں لائی گئی تھیں۔ جس طریقے پر کہ اصل عبارت کی نشو و نما ہوئی ہے۔ یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ اس میں فقط ایک گرو کی تعلیم ہی نہیں ہے بلکہ اساتذہ کا ایک سلسلہ ہے اور اس نشو و نما میں قدیم تصورات نئے تصورات سے مل جل گئے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے اس امر کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ ایک ہی اپنشد کی تعلیم میں بعض وقت  مختلف عناصر نظر آتے ہیں۔ ایک زمانے کے ہندوؤں کا قدیم علم و فضل جب اکٹھا اور مرتب کیا گیا تو اپنشد اس صورت میں ’برہمن‘ ادب کے ساتھ تتمہ کے طور پر شامل کیے گئے اور جب یہ ایک ہی صنف میں شامل کیے گئے تو دونوں یکساں قدیم شمار کیے جانے لگے۔ اس طرح ویدوں کے آخر میں واقع ہونے کے سبب اپنشدوں کو ویدانت کے نام سے موسوم کیا جانے لگا۔ قدیم اور مستند اپنشدں کا عہد ٹھیک طور سے معین نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ان کے کسی مصنف کا حوالہ دیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب بدھ سے قبل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ کائنات کی فلسفیانہ تشریح کرنے میں وہ انسان کی اولین جدوجہد کی نمائندگی کرتے ہیں اس لحاظ سے انسانی فکر کی تاریخ میں بہت ہی انمول ہیں۔ وہ تمام نظامات ہاندی فلسفے کے اور بالخصوص ’ویدانت‘ کے اساسی عناصر ہیں۔ وہ تاریخی اہمیت سے بہت آگے ہیں۔اس لیے کہ ان کی نرالی روحانی قوت اور ان کی عالم گیر دل کشی کا عنصر فکر کی ازسرِ نو تعمیر میں اور مستقبل کے لیے زندگی کاازسر نو خاکہ تیار کرنے میں بہت زیادہ اثر پذیر ہے۔

یہ اپنشد بالخصوص جو کافی ضخیم ہیں زیادہ تر مکالموں کے طرز میںہیں۔ ان کا طریقہ استدلال فلسفیانہ کے بجائے شاعرانہ ہے۔ یہ فلسفیانہ نظمیں ہیں جو عام طور پر استعارے اور کنایے کے ذریعے صداقت کا اظہار کرتی ہیں۔ طرز ادا میں بہت زیادہ حذفِ عبارت سے کام لیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تصانیف کی  تفسیر کے لیے وہی شخص مخصوص کیا جاسکتا ہے جو آسانی سے اس کمی کو پورا کرسکے جو موضوع کو پیش کرتے وقت رہ گئی تھی۔

ویدک ادب پر مشتمل تصانیف میں سے غیرملکیوں کی توجہ سب سے پہلے اپنشدوں پر مبذول ہوئی۔  ان میں سے کئی کتابو ںکا ترجمہ مغلوں کے زمانے میں فارسی میں کیا گیا اور پھر ان کا ترجمہ لاطینی زبان میں کیا گیا اور لاطینی زبان کے ذریعے یورپ میں پہلی مرتبہ ان سے واقفیت ہوئی۔ چنانچہ شوپنہار کو اپنشدوں کا، جنھیں وہ نہایت قابل قدر سمجھتا ہے، علم اسی طرح حاصل ہوا۔ اس نے اپنی مشہور کتاب میں اپنشدوں کے متعلق اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ’’اپنشد کی ہر سطر مستحکم، معین، کامل اور متناسب معنی پیش کرتی ہے۔ ہر ایک فقرے سے عمیق، اصلی، پرجلال خیالات برآمد ہوتے ہیں اور وہ سب ایک اعلیٰ، مقدس اور باوقار اسپرٹ سے چھایا ہوا ہے۔ تمام دنیا میں اصلی اپنشدوں کے سوا کوئی مطالعہ اس قدر مفید اور اعلیٰ نہیں ہے۔ یہ میری زندگی کی تسکین ہے اور یہی میری موت کے وقت وجہ تسلی ہوگا۔‘‘ شوپنہار کے ذریعے اپنشدوں کا مطالعہ جرمنی میں زیادہ ہوا اور سنسکر ت کے مطالعے سے عام دلچسپی بڑھی تو یہ اپنشد دیگر ممالک میں بھی جا پہنچے۔ حالیہ زمانے میں ان کے بے شمار ترجمے راست سنسکرت سے مغربی زبانوں میں کے گئے ہیں اور ان کی تعلیم غیرملکی عالموں کے لیے جاذبِ توجہ رہی ہے۔ فلسفہ اپنشد سے متعلق بہت سی شائع شدہ کتابوں میں سے ڈیوسن کی اعلیٰ درجے کی تصنیف کا ذکر ضروری ہے جو خاص پراز معلومات  ہے اور جس میں اپنشدوں کے مکمل خلاصے یا لب لباب بیان کرنے کے لیے بڑی احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔

اپنشد میں دلچسپی کا مرکز بجائے بیرونی خالق کے اندرونی آتما ہوجاتا ہے، ویدوں کی وحدت پرستی کے میلان کا فطری نشو و نما خداپرستی کی ترقی یافتہ شکل میں ہوسکتا تھا نہ کہ اس نظریے کی طرف کہ ذات ہی اصلی حقیقت ہے اور باقی ہر ایک چیز اس سے بالکل ادنیٰ حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں نہ تو کسی قسم کی عبادت کی جاتی ہے نہ کسی دیوتا اور پجاری کا کوئی تعلق ہی معلوم ہوتا ہے بلکہ ساری تلاش اعلیٰ ترین صداقت کی ہے اور انسان کی حقیقی ذات ہی حقیقتِ عظمیٰ معلوم ہوتی ہے۔ فلسفیانہ فکر کی تاریخ میں یہ سب سے اہم واقعہ ہے کہ ہندو ذہن برہمنی فکر سے اپنشدی خیال کی طرف راغب ہوا اور دلچسپی کا مرکز بیرونی خالق کی بجائے آتما ہوگئی۔ فلسفیانہ حیثیت کا یہ تغیر بے حد دلچسپ ہے اس لیے کہ اپنشدوں میں معروض سے موضوع کی طرف خیال کی تبدیلی کسی فلسفیانہ بحث یا نفس کی دقیق تحلیل سے حاصل نہیں کی گئی بلکہ اس کا تجربہ براہِ راست ادراک سے ہوا ہے اور یہ اذعان جس سے کہ اس صداقت کو سمجھ لیا گیا ہے، کسی بھی مطالعہ کرنے والے پر اپنا اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ سمجھنا تو بالکل خلافِ قیاس ہے کہ طریق ’برہمن‘ کے تصورات سے اپنشدوں میں ’برہمہ‘ کے نظریے کا نشو و نما ہوا ہوگا۔

سب سے قدیم اپنشد نثر میں تحریر ہوئے ہیں اور اپنے طرز ادا میں تقریباً رموز ی کیفیت رکھتے ہیں۔ وہ بسیط، پرمغز اور دل پر اثر کرنے والے ہیں۔ ہم ان کو بار بار پڑھیں تب بھی نہیں تھکتے۔ یہ ہمیشہ تازہ ہیں، ان کا لطفِ عبارت ان کے خیالات کی قیمت سے الگ ہے، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ لفظ اپنشد پوشیدہ اصول یا تعلیم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اپنشد تعلیمات کا منشا یہ تھا کہ رازداری کے ساتھ خلوص سے دریافت کرنے والو ںکو یہ تعلیم دی جائے جو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ خود ایثاری کے جذبے سے متصف ہوں اور جن کی غرض نجات حاصل کرنی ہو اور اس طرح ایک مرتبہ جب اپنشد کی اعلیٰ ترین طرز تحریر کا  طریقہ ظاہر ہوگیا تو وہ مذہبی لوگوں کے لیے خاص دلچسپی اور دل فریبی کا باعث بن گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب سنسکرت میں دوسری نثر و نظم کی تصنیفیں لکھی جانے لگیں۔ تب بھی اپنشدی صورت موقوف نہیں ہوئی۔ اس طرح اگرچہ ابتدائی اپنشد 500 ق م میں لکھے گئے، تاہم ہندوستان میں اسلامی اثر پھیلنے تک وہ اسی طرح لکھے جاتے رہے ہیں۔ ان میں ابتدائی اور اہم ترین وہ ہیں جن کی شرح شنکراچاریہ نے کی ہے۔ ان کے نام ہیں برہد آرنیک، چھاندرگیہ، ابیزیہ، تیتتریہ، ایمن، کین، کٹھ، پرشن، منڈک، ماندوکیہ، اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ الگ الگ  اپنشد ایک دوسرے سے مضمون اور طرزِ بیان میں مختلف ہیں۔ بعض تو وحدتی اصول ذات پر زور دیتے ہیں کہ وہی ایک حقیقت ہے، بعض یوگ کے عمل پر زور دیتے ہیں، بعض شیوا یا وشنو کی عبادت پر زور دیتے ہیں اور بعض فلسفہ یا تشریح بدن پر۔ حسبہ علی الترتیب ان کے نام پڑگئے۔ یہ سب مل کر تعداد میں 108ہیں۔

اپنشد الہامی ویدک ادب کے اختتامی حصے ہیں اور ان کو ویدانت کہا جاتا ہے۔ بالعموم یہ یقین ہے کہ سب سے اعلیٰ حقائق صرف ویدوں کے الہام ہی میں پائے جاتے ہیں۔ عقل کو عام طور پر کم درجہ دیا گیا ہے اور اس کا اصلی استعمال یہ تھا کہ انھیں دانائی کے ساتھ ویدوں کے تصورات کے معنی واضح کرنے کے لیے کام میں لایا جائے۔ یہ خیال کیا گیا ہے کہ حقیقت اور صداقت کا اعلیٰ علم کلیتاً  اپنشدوں میں ظاہر ہوچکا ہے اور عقل کا کام صرف یہ تھا کہ اس کو تجربے کی روشنی میں کھولے اور یہ انتہائی گستاخی سمجھی جاتی تھی کہ کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی فاضل اور لائق کیوں نہ ہو ،وہ اپنی رائے کی سند پر یا اپنی زبردست دلیلوں کی بنا پر صداقت کو بسیط طور پر بیان کرسکے۔ اس کا نظریہ اس وقت تسلیم کیا جاتا جب کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اپنشد اس کی تائید کرتے ہیں۔ اس طرح ہندو فلسفے کے اکثر مذاہب اپنا اصلی فرض یہ سمجھتے ہیں کہ اپنشدوں کی تعبیر اس غرض سے کریں کہ یہ ثابت ہو کہ ان کا بیان کیا ہوا نظریہ ویدانت کے اصول کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح ہر شارح نے اپنے موقعے پر عبادتوں کو خود اپنے نمایاں اصولوں کے موافق بنا کر پیش کیا اور دوسروں کو دبا دیا ان کی تشریح کرکے ان کو رد کردیا لیکن اپنشدی تعبیر کے مختلف نظامات کا مقابلہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ شنکر آچاریہ نے جو تعبیر کی ہے وہ وسیع طور پر ابتدائی اصولوں کے عام مجموعے کی رائے کو ظاہر کرتی ہے، اگرچہ بعض اصول ایسے ہیں جو دوسرے نظامات کے اصولو ںپر ممیز طور پر پردہ ڈالتے ہیں۔ اس طرح ویدانت بالعموم شنکر آچاریہ کی تعبیر سے وابستہ ہے۔ اگرچہ اور بھی نظامات ہیں جو اس امر کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حقیقی ویدانت کے اصول کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن صرف شنکر کے نظام کو ہی نظام ویدانت کہا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اپنشدوں کی جدید تعبیر کرنے والے کا فریضہ ہوجاتا ہے کہ وہ ان شرح کرنے والو ںکی طرف مطلق توجہ نہ دے اور اپنشد کو باضابطہ کتاب نہ سمجھے بلکہ مختلف خیالات کا خزانہ سمجھے جس میں سب متاخر فلسفیانہ تصورات ابھی تک حیرت انگیز انکشاف کی حالت میں ہیں۔ اگرچہ یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ شنکر کا وحدتی اصول یا اس حد تک رسائی بہت سے اپنشدوں کا واحد مضمون ہے۔

جدید تعبیرکرنے والے کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ قدیم تعبیر کرنے والو ںکی پیروی نہ کرکے اپنشدوں کو مستقل طور پر علیحدہ علیحدہ دیکھے اور ان کے معنی متعین کرے لیکن ربط عبارت کا خاص لحاظ رکھے جس میں وہ ظاہر ہوتے ہیں، صرف یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنشدوں میں دوسرے ہندی نظامات کے افکار کے اثرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور اس طرح ان میں افکار کے میلانات کی ابتدائی تحریروں کو پاسکتے ہیں۔

اپنشد کوئی باقاعدہ کتابیں نہیں ہیں جو کسی شخص نے لکھی ہوں، بلکہ وہ خود کلامیوں، مکالموں یا قصوں پر مشتمل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں سادہ مباحث ہیں، لیکن کہیں علم کی شیخی یا منطقی ورزش نہیں، ایک سرسری طور پر پڑھنے والا بھی رشیوں کے جوش، سرگرمی اور صداقت طلبی کو دیکھ کر متحیر ہوجاتا ہے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ایسے استاد کی تلاش میں بڑے شوق سے مارے مارے پھرتے ہیں جو ان کو برہمہ کے طریقے پر تعلیم دینے کے لائق ہو کہ برہمہ کہاں ہے، اس کی نوعیت کیا ہے۔ ان کو اس تصور کی تلاش تھی کہ خارجی عالم کی تعبیر کے تحت ایک غیرمتغیر حقیقت ہے اور وہ عین اس کے مطابق ہے جو انسان کے جوہر میں ہے۔ ’سہمتا‘ کے آخری زمانے میں ایسے لوگ تھے جو عالم کے واحد خالق اور نگرانی کرنے والے کے تصور تک پہنچ گئے تھے اور اس کو مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے۔ مثلاً پرجاپتی، وشواکرما، پرش، برہمہ، لیکن یہ ربانی متصرف ابھی تک صرف دیوتا ہی تھا اور اس دیوتا کی تلاش اپنشدوں میں شروع ہوئی۔ رشیوں نے ابتدا ہی اس خیال کے ساتھ کی کہ اعلیٰ اہتمام کرنے والا جوہر وہ ہے جو انسان اور عالم پر حکمران ہے لیکن اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیا وہ فطر ت کے دوسرے دیوتاؤں کے مطابق ہے یا وہ ایک جدید دیوتا ہے یا کوئی دیوتا ہی نہیں؟ اپنشد اس جستجو کی تاریخ پیش کرتے ہیں اور ان نتائج کا ذکر کرتے ہیں جو حاصل ہوئے۔

اس جستجو میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ابھی آرنیکی تصورات اور عبارت کی علامتی صورتوں سے باہر نہیں آئے ہیں ’پران‘ (حیاتی سانس) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی زندگی میں لازمی وظیفہ ادا کرتا ہے اور بہت سے قصے یہ ثابت کرنے کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ وہ دوسرے اعضا مثلاً آنکھ،کان، وغیرہ پر فوقیت رکھتا ہے اور اسی پر سب وظائف کا دار و مدار ہے۔ پران کی فوقیت کے اس اقرار سے اس پر برہمہ کے طور پر مراقبہ کرنا شروع ہوا گویا کہ وہ بہت مفید نتائج برآمد کرنے والا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ’آکاش‘ کی اعلیٰ خصوصیات، ہمہ جائیت اور ازلیت کے باعث اس پر برہمہ کے طو رپرمراقبہ کیا جاتا ہے اور اسی طرح من یا نفس اور آدتیہ یا سورج پر برہمہ کے طور پر غور کیا جاتا ہے۔ پس برہمو کے حاصل کرنے کے لیے ہم ایک سرگرم جستجو دیکھتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اس نصب العین کا تشفی بخش جواب نہیں دے سکا جو برہمہ سے درکار تھا۔ برہمہ کی نوعیت کے صحیح علم تک پہنچنے کے لیے رشیوں کو ایسی بہت ناکامیوں، جدوجہد اور کشمکش سے دوچار ہونا پڑا ہے۔

ویدک شعرا کے دل مرئی ظہور کے دیوتاؤں کی پرستش کے اس قدر طویل مدت سے عادی تھے کہ وہ ایک مثبت اور معین برہمہ کی تلاش میں اس کو ترک نہیں کرسکتے تھے۔ انھوں نے قدرت کی پرجلال قوتوں کی بہت سی علامتوں کی آزمائش کی، لیکن کسی سے اطمینان کلی نہ حاصل ہوسکا، برہمہ کس کے مانند ہے، وہ نہیں جانتے تھے، وہ اپنی روحوں کی گہری طلب میں اس کا دھندلا اور خواب کا سا خیال رکھتے تھے جو مستقل اصطلاحات میں ظاہر نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہی چیز ان کو منزلِ مقصود تک لے گئی کیونکہ وہ بہترین سے کم کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوسکتے تھے جہاں تک انھوں نے آخری حقیقت کو متعین اور ایجابی صورت دینے کی کوش کی، وہ ناکام رہے۔

 

ماخذ: قدیم  ہندی فلسفہ، مصنف: رائے شیوموہن لعل ماتھر،  دوسرا ایڈیشن: 1998، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

21/5/25

فخر ہندوستان دوم، مضمون نگار: انیس الحسن صدیقی

اردو دنیا، فروری 2025


14 جولائی اور 23 اگست 2023 ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے گئے ہیں۔ 14 جولائی 2023 کو فخر ہندوستان ۔اول خلائی جہاز چندریان ۔سوم نے اپنا خلائی سفر شروع کرکے 23 اگست 2023 کو وِکرم لینڈر کو کامیابی کے ساتھ چاندکی سطح  پر اتار دیا تھا۔ وِکرم لینڈر کے اندر سوار خود کار گاڑی پرَگیان نے باہر نکل کر چاند کی سطح کا جائزہ لیا اور چاند کی تصویریں اتار کے ہندوستان روانہ کی تھیں۔ خود کار گاڑی  پر نصب سائنسی آلات نے چاند کی سطح کے متعلق اہم معلومات ہندوستانی سائنس دانوں کو 14 دنوں تک روانہ کی تھیں۔

اب 2 ستمبر کا دن بھی ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھا گیا ہے۔ اس دن ایک اور فخرِ ہندوستان۔ دوم، خلا میں سورج کی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول ،خلائی گاڑی پی۔ ایس۔ ایل۔ وی۔ پر سوار ہماری زمین سے خلائی سفر کے لیے  ہندوستانی وقت کے مطابق ٹھیک 11.30پر کامیابی کے ساتھ روانہ ہوئی۔اس خلائی گاڑی نے پندرہ منٹ میں سورج کی مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔اول کو خلا میں 250 کلو میٹر کی دوری تک پہنچادیا تھا۔ اب یہاںسے آدتیہ ایل۔اول کا خلائی سفر شروع ہوا۔ چند گھنٹوں بعد ہندوستانی خلائی تنظیم کے سائنس دانوں نے خلا میں اپنے رسل و رسائل کے ٹیلی سسٹم کے ذریعے اس مشاہدہ گاہ کو زمین کے گرد 235 x 19,500 کلو میٹر کے ترخیمی مدار میں کردیا۔  اس کے بعد زمین کے گرد5 ستمبر 2023 کو 245 x 20,023 کلو میٹرکے ترخیمی مدارمیں کردیا۔اسی طرح اس کا زمین کے گرد مدار بڑھاتے بڑھاتے اس کو اپنی منزل ایل۔ اول تک125  دنوں میںپہنچادیا جائے گا۔ اس مہم کی خاتون ڈائرکٹر محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی نے بتایا:

’’اسرو کی خلائی مہم سورج کی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول خلا میں ایل۔اول مقام جو ہماری زمین سے 1,50,00,000 کلو میٹر کی دوری پر ہے یعنی چاند کی دوری کا تقریباً چار گنا، اس تک 125دنوں میں پہنچے گی۔ وہاں پہنچ کر وہ سورج کے بالا موسم کا مشاہدہ کرے گی۔ یہ سورج کی مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔اول 1,475 کلو گرام وزنی ہے اور اس پر 7 سائنسی آلات نصب ہیں جو سورج کے بارے میں معلومات ہماری زمین پر اسرو کے خلائی اسٹیشن پر پہنچائیںگے۔ اس خلائی مہم کی تیاری اسرو تنظیم 2006 سے کر رہی تھی۔‘‘

اس سے پہلے اسرو نے سورج کے باہر موسم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنی خلائی مہم کے تحت سورج کی مشاہدہ گاہ سیارچہ اسٹرو سیٹ (Astrosat) کو 2006 میں خلا کے لیے روانہ کیا تھا ۔

دنیا کے سائنس دانوں کی نگاہیں اسرو تنظیم کی اس خلائی مہم اور اس کی خاتون ڈائرکٹر محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی پر لگی ہوئی ہیں۔ کیونکہ یہ پہلا سنہرا موقع ہے کہ ایک خلائی مہم کی ڈائرکٹر ایک  ہندوستانی خاتون سائنسداں ہے۔

کون ہیں محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی؟

محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی 1964 میں شیخ میرن او رسائی تھون بیوی کے کسان گھرانے میں تامل ناڈو کی تحصیل ٹینکاسی کے تحت سین گوٹائی میں پیدا ہوئی تھیں۔ آپ سین گوٹائی میں پلی اور بڑھیں اور وہاں کے ایک اسکول ایس آرایم گورنمنٹ ہائر سیکنڈری  اسکول میں تعلیم پائی۔وہاں سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج آف انجینئرنگ، مقام ترون ویلی، مدورائی کامراج یونیورسٹی کے تحت الیکٹرونکس اینڈ کمیونیکیشنز میں ڈگری حاصل کی۔اس کے بعدآپ نے الیکٹرونکس میں ماسٹر کی ڈگری برلا  انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی، میسرا سے حاصل کی۔

1987 میں اسرو خلائی تنظیم میں، یو آر رائو سیٹلائیٹ پروگرام کے تحت  داخل ہوئیں۔ آپ نے مختلف پروگراموں میں کام کیا اور بحیثیت ایسوسی ایٹ پرو جیکٹ ڈائرکٹر آف ریسور سیسٹ۔ دوم۔ اے  انجام دیا۔ اس کے بعد سے خلائی مشاہدہ گاہ آدِتیہ۔ اول پر مستقل کام کر رہی ہیں۔ آپ کے خاوندبھی ایک انجینئر کے حیثیت سے دبئی میں کام کر رہے ہیں۔ آپ کے فرزند نیدر لینڈ میں ایک سائنس داں کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ آپ کی بیٹی ایک سند یافتہ ڈاکٹر ہیں اور پوسٹ گریجویشن کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

آج کل آپ بنگلور میں اپنی والدہ اور بیٹی کے ساتھ مقیم ہیں اور خلائی مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔ اول کے سائنس دانوں اور تکنیکی ماہروں کی ٹیم کی سربراہ کی حیثیت سے نگرانی کر رہی ہیں۔

بہت سے زیادہ لوگوں نے آپ کے اس پروجیکٹ کو سراہا ہے اور تعریف کی ہے اور بعضوں نے تو ہندوستانی عظیم سائنس داں اے پی جے عبد الکلام کے نقشِ قدم  پر گامزن سائنس داں لکھا ہے جیسا کہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

خلا میں ایل۔اول کا مقام کیا ہے؟

یہ خلا میں سورج اور زمین کے درمیان وہ مقام ہے جہاں خلائی جہاز و مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول خود کو اس مقام پر رکھے گا۔ اس لیے اسرو کے مشن  کے سائنس دانوں نے سورج کا مشاہدہ بغیر کسی رکاوٹ کے کرنے کے لیے خلا میں یہ مقام طے کیا ہے۔ خلا میں اس نقطہ کو Lagrange-1 مقام کہا گیا ہے۔ لیگرینج ایک ماہر ریاضی کا نام ہے جس نے خلا میں سورج اور زمین کے درمیان ایسے پانچ نقطوں کو دریافت کیا تھا۔ اس لیے یہ پانچ نقطے اس کے نام  سے موسوم ہیں۔یہ وہ مقام ہیں جہاں دو خلائی جرم گھومتے اور گردش کر تے ہوئے بڑے اجرام کے مادوں کی قوت کی نفی کرتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی خلائی جہاز سورج اور زمین کے درمیان ان نقطوں پر دونوں اجرام کی کشش کے کھنچائو اور مرکز گریز قوت (Centrifugal force) کے تحت وہیں ٹکا رہے گا اور زمین کے ساتھ ساتھ گھومتا رہے گا۔ سورج اور زمین کے درمیان ایسے پانچ مقام ہیں۔

 خلا میں ایل۔اول مقام ہماری زمین کے ان پانچ نقطوں میں سے پہلا نقطہ ہے جو ہماری زمین سے 1,50,00,000 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ یعنی چاند سے چار گنا زیادہ فاصلے پر۔ اس نقطے پر جو بھی جرم رکھ دیا جائے گا وہ ہمیشہ وہیں پر رہے گا اور زمین کے ساتھ ہی ساتھ سورج کے گرد گردش کرتا رہے گا۔خلا میں اس نقطہ سے سورج کے ہالۂ نور (Halo) کا مشاہدہ آسانی سے بغیر کسی رکاوٹ کے ہوگا۔ اس نقطہ پر سورج اور زمین کی کشش کا کھنچائو یعنی قوت جاذبہ خلائی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول کو ہماری زمین کے ساتھ ہی ساتھ گھماتی رہے گی۔ آج کل خلائی سیارچہ ایس او ایچ او (SOHO) بھی اسی نقطے سے سورج کے ہالۂ نور کا مشاہدہ کر رہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو خلا میں یہ نقطہ خلائی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول کے پارکنگ کی جگہ ہے۔ جہاں سے یہ مشاہدہ گاہ اسرو کے زمین پر خلائی اسٹیشن کو سورج کے ہالۂ نور کی تصویریں مستقل روانہ کرتی رہے گی اور ہمیں ہمیشہ شمسی آندھی کے بارے میں پیشگی اطلاع فراہم ہوتی رہے گی۔

خلا میں ایل۔اول مقام پر مشاہدہ گاہ ایل۔اول کو قائم رکھنے کے کیا فائدے ہیں؟

پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس مقام سے سورج کا مشاہدہ بغیر کسی رکاوٹ کے ہوسکتا ہے یہاں تک کہ سورج گرہن کے دوران بھی۔

دوسرا فائدہ یہ ہے کہ خلا میں  ایل۔اول  مقام سورج اور ہماری زمین کے درمیان کے فاصلہ کا ایک فیصد ہے۔ اس لیے مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر نصب تمام سائنسی آلات سیدھے سورج کا مشاہدہ آسانی سے کر سکیں گے۔

تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس مشاہدہ گاہ پر نصب سائنسی آلہ وی ایل ای  سی سورج سے خارج شدہ مادے کا آسانی سے مشاہدہ کر سکے گا۔

چوتھا فائدہ یہ ہے کہ اس مقام پر مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔ اول کا کم سے کم ایندھن خرچ ہوگا۔

خلا میں اس مقام سے تمام سائنسی مقاصد پورے ہوں گے۔  مثلااس مشاہدہ گاہ کے ذریعے ہمارے سب سے قریب ستارہ یعنی سورج کا گہرا مطالعہ ہو سکے گا یعنی کس طرح سورج کی ریڈیشن، گرمی، سورج سے بھر پور ذرات کا خارج ہونا اور ان کا کتنا اثر ہماری زمین کے مقنا طیسی علاقے پر ہوتا ہے۔ اس مشاہدہ گاہ پر نصب آلات سورج کی بالا فضا کی تہہ جس کو  لونی فضا (Chromosphere)کہا جاتا ہے یعنی سورج کے آس پاس کی فضا پر چھایا ہوا گیس کا غلاف ہے جو کرۂ ضیائی اور سورج کے ہالہ کے درمیان واقع ہے۔ اس کا مطالعہ آسانی سے ہو سکے گا۔ نخزِ مائیہ (Plazma) اور مقنا طیسی علاقے جو سورج کے ہالہ سے خارج ہوا مادہ کہلاتا ہے (Coronal mass ejection)کا بھی ہمارے سائنس داں مطالعہ کر سکیں گے۔ سورج کے ہالہ کا مقنا طیسی علاقہ اور سورج کی فضا کا بھی مطالعہ کیا جائے گا۔

سائنس دانوں کو بہت عرصہ پرانا پوشیدہ راز بھی معلوم ہو سکتا ہے کیونکہ اتنا زیادہ چمکدار سورج کے ہالہ کا درجۂ حرارت 10,00,000 سینٹی گریڈ ہے جب کہ سورج کی سطح کا درجۂ حرارت صرف 5,500 سینٹی گریڈ ہے۔ ایسا کیوں؟ یہ سائنس دانوں کو سورج پر ذرات کی رفتار بڑھنے کے عمل کے اسباب جو شمسی آندھی کی رہنمائی کرتے ہیں ان کو بھی سمجھنے میں مدد کرے گا۔

اس شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر نصب آلہ ویلیک (VLEC) کا میکینزم ہے کہ جس کے ذریعے چمکدار دکھائی دینے والی روشنی بند ہوجاتی ہے اور صرف وہ روشنی جو سورج کے ہالہ سے آرہی ہے جانچی جاتی ہے۔ یہ آلہ سورج کے ہالہ کا مطالعہ کرنے کے لیے بہت ہی قلیل وقفہ کے لیے کھلے گا یعنی صرف 5 ملی سیکنڈ۔ تب ہی سورج کے ہالہ کے بارے میں معلومات ہو سکتی ہیں۔ انسانی آنکھ سورج کے ہالہ کو نہیں دیکھ سکتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ سورج کے موسم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

اس لیے کہ سورج بھی کائنات میں دوسرے ستاروں کی طرح ایک ستارہ ہے جو ہماری زمین سے سب سے قریب ستاروں میں سے ایک ہے۔ یہ ستارہ ہماری زمین سے 14,96,00,000کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ سورج کا اپنا نظامِ شمسی ہے جس کے تحت اس کے گرد 8 سیارے گردش کر رہے ہیں جن میں ہماری زمین جس پر ہم اور آپ بستے ہیں ،سورج سے تیسرا سیارہ ہے۔ اس سیارہ پر ہی زندگی موجود ہے۔ باقی کے پانچ سیاروں پر زندگی یا زندگی کے آثار ابھی تک نہیں پائے گئے ہیں۔ سورج کی گرمی کے ذریعے ہی اس زمین پر سورج کے مزاج پر موسم منحصر ہیں۔سورج ، دہکتی آگ کا ایک گولہ ہے۔ اس میں ہائیڈروجن گیس بذریعہ کیمیائی رد عمل Fusion ہیلیم گیس میں تبدیل ہو رہی ہے۔اس تبدیلی کے ذریعے سورج میں مستقل آگ بھڑک رہی ہے۔

سورج پر آگ اتنی شدید ہے کہ جس کی تپش کے ذریعے ہماری زمین پر زندگی موجود ہے۔یہی نہیں بلکہ اس کی شدید تپش کے ذریعے ہماری زمین پر طوفان، سیلاب وغیرہ بھی آتے ہیں۔ یہ سب ہماری زمین کے موسم پر اثر کرتے ہیں۔ سورج سے شمسی آندھی تو ہمارے بجلی پیدا کرنے کی گرڈ اور سیارچوں پر بری طرح اثر کرتی ہے۔ سورج کے موسم کے بارے میں ہمیں پیشگی اطلاع کے ذریعے ہی ہم اپنی بجلی کی گرڈ اور سیارچوں کو بچا سکتے ہیں۔ اس سائنسی دور میں ان خطرات سے بچائو کرنے کے  لیے ہمیں سورج کے موسم کے بارے میں پیشگی اطلاع کی شدید ضرورت ہے۔ یہ پیشگی اطلاع سورج کی مشاہدہ گاہ ایل۔اول ہی دستیاب کرا سکتی ہے۔

شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر کون کون سے سائنسی آلات نصب ہیں؟

شمسی مشاہدہ گاہ  ایل۔اول پر 7 سائنسی آلات نصب ہیں۔ ان سائنسی آلات کی سورج کی شدید گرمی سے حفاظت کے لیے شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول کا ڈھانچہ بہت ہی زیادہ طاقتور اسٹیل کے آمیزہ سے بنایا گیا ہے۔ یہ اسٹیل کا آمیزہ نہ صرف دیر پا قائم رہنے والا ہے بلکہ خلا میں شدید درجہء حرارت کو برداشت  کر سکتا ہے۔ اسی لیے شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر نصب تمام سائنسی آلات  باوجود سورج کی شدید گرمی کے بحفاظت اپنا کام کرتے رہیں گے۔

1             سب سے خاص آلہ’دکھائی دینے والی خارج ہوئی لائن ہالہ گراف‘  (Visible Emission Line Cornograph)   یعنی (VLEC) جو کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرو فزیکس کے ذریعے ڈیزائن کیا گیا ہے اور جو سب سے زیادہ اہم سورج کے ہالہ کا سب سے نچلا حصہ اوپر کی طرف کا مطالعہ کرنے میں مدد کرے گا۔ یہ آلہ سورج کے ہالہ کی تصویر کشی کر سکتا ہے یعنی سورج کے نصف قطر کا 1.05گُنا۔ابھی تک کسی بھی نصب آلہ نے  اتنا قریب سے سورج کے ہالہ کی تصویر کشی نہیں کی ہے۔

2             آلہ شمسی الٹرا وائلٹ تصویر کشی دوربین(Solar Ultraviolet Imaging Telescope) یعنی (SUIT) ۔ 

یہ آلہ انٹر یونیورسٹی سینٹر برائے اسٹرو نامی اینڈ فزیکس (IUCAA) کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔ یہ آلہ الٹرا وائلٹ روشنی کو پکڑے گا اور شمسی کرہ ٔلون کی تصویر کشی کرے گا۔سورج سے خارج ہوئی روشنی کی توانائی کے فرق کا مطالعہ کرنے میں یہ آلہ مدد کرے گا۔

3             آلہ قلیل شمسی توانائی ایکسرے طیف پیما (The Solar Low Energy X-Ray Spectrometer)  یعنی SoLEXS)) اور زیادہ توانائی ایل۔اول، ذرات ایکسرے طیف پیما (HEL1OS) یہ آلہ ، آر۔ راو  سیٹلائٹ سینٹر نے تیار کیا ہے  جو کہ سورج کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کا ایکسرے کرنے میں مدد کرے گا۔

4             آلہ دی آدتیہ شمسی آندھی ذرات تجربہ(The Aditya Solar Wind Particle Experiment)  یعنی (ASPEX) یہ آلہ شمسی آندھی کے بارے میں پیشگی اطلاع دے گا۔

5             آلہ پلازمہ انالائزر برائے آدِتیہ (Plazma Analyser Package for Aditya)  یعنی (PAPA) یہ آلہ اسرو کے فزیکل ریسرچ لیبا ریٹری کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔ اس آلہ کے ذریعے شمسی آندھی اور تونائی کے آیونز کا مطالعہ کیا جائے گا۔

6             آلہ ہیلیو (HELIO)  یہ آلہ سورج کی فضا کا مشاہدہ کرے گا۔ خاص طور پر کرۂ لون (Chromosphere) اور سورج کا ہالہ۔

7             آلۂ میگ(MAG) یہ آلہ سورج کی مشاہدہ گاہ ایل۔ اول کے سورج کی طرف کے حصہ پر نصب ہے۔ یہ آلہ مقناطیسی علاقہ کا سینسر ہے۔ اس آلہ کو  لیبا ریٹری برائے الیکٹروآپٹکس سسٹم (LEOS) نے تیار کیا ہے۔ یہ آلہ بین سیاروی قدر (Magnitude) اور زمین کے گرد مقناطیس کی سمت ناپے گا۔

مستقبل میں ہندوستانی خلائی اسرو تنظیم کے مزید خلائی پروگرام آنے کی امید کی جا رہی  ہے۔

وہ بچے و بچیاں جو اس مضمون کا مطالعہ کر رہے ہیں، وہ ابھی سے اپنی زندگی میں عظیم سائنس داں،تکنیکی ماہر، اسٹروناٹ و ایرو انجینئر وغیرہ بننے کی تیاری شروع کردیں۔اس کے لیے آپ کو اپنے اسکول میں مضامین ریاضی،سائنس، بایو لوجی، فزیکس پر زیادہ سے زیادہ دھیان دینا ہوگا۔

حوالہ جات

1             کتاب ’خلا میں ہندوستانی پروگرام کی جھلکیاں‘، مصنف : انیس الحسن صدیقی، شائع 2018، ناشر : قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان،وزارتِ ترقی انسانی مسائل، حکومت ہند، فروغِ اردو بھون، FC-33/9، انسٹی ٹیوشنل ایریا، جسولہ، نئی دہلی۔ 110025

2             خلائی اسرو تنظیم کی ویب سائٹ:

                http:www.isro.org/

3             مضمون،’چاند پر قدم، نظر سورج پر‘(Feet on Moon, eyes on Sun)، مصنف : انوننا دت، شائع : دی انڈین ایکسپریس،نئی دہلی ایڈیشن، بتاریخ 29 اگست

4             مضمون: ’’سورج کے نزدیک: آدِتیہ ایل۔اول مشن اور اس کے مقاصد ’’،(The Sun up close: Aditya l-1 mission and its objectives) ، مصنف: انجلی مرار، شائع ، دی انڈین ایکسپریس،نئی دہلی ایڈیشن، بتاریخ 2 ستمبر، 2023

 

A. H. Siddiqui

679, Sector-22-B

Gurugram- 122015 (Haryana)

Mob.: 9654949434

تازہ اشاعت

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

  اردو دنیا، مارچ 2025 بیسوی   صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں ک...