اردو دنیا، فروری 2025
بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی اردو زبان و ادب کے ادبی رسائل کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس دور میں’ اردو ‘، ’نگار ‘، ’ہمایوں ‘، ’نیرنگ خیال ‘، ’ عالم گیر ‘، ’ نقاد‘، ’ صحیفہ‘،’ ساقی ‘، ’ ادب لطیف ‘، ’ سب رس ‘ اور ’شاعر ‘ جیسے موقر رسائل منصہ شہود پر آئے۔ماہنامہ ’ شاعر‘ کا شمار اردو کے ان معدودے چند رسائل میں کیا جا سکتا ہے جو اپنی قدامت اور مقبولیت دونوں اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی مقبولیت کی بنیاد پر بعض تجزیہ نگاروں نے شاعر کو ادبی رسائل کا سرتاج ہی نہیں بلکہ سالارِ کارواں کہا ہے۔ ماہنامہ ’ شاعر ‘ کو علامہ سیماب اکبر آبادی نے غالب کی برسی پر 15 فروری 1930 کو بطور پندرہ روزہ اخبار کی حیثیت سے آگرہ سے جاری کیا۔ دو سال سے بھی کم عرصہ میں ماہنامہ کی صورت اختیار کر گیا۔ مارچ 1932ء تک ’ شاعر ‘ پندرہ روزہ اخبار کی ہیئت میں بیس صفحات پر شائع ہوا، اس کے بعد اپریل مئی کا مشترکہ شمارہ تیس صفحات پر محیط ہے۔’ شاعر‘ کی شروعات ادارہ ’ قصر الادب ‘ کی زیر نگرانی ہوئی جس کو سیماب اکبر آبادی نے1923 میں آگرہ میں قائم کیا تھا۔ حامد اقبال صدیقی لکھتے ہیں:’’اولاً
اسے ہفت روزہ اخبار کے طور پر شائع کرنے کا منصوبہ تھا لیکن غالب کے یوم وفات 15
فروری 1930 کو پندرہ روزہ اخبار شاعر کا اولین شمارہ منظر عام پر آیا، اس کے
نگراں خود سیماب اور مدیر ان کے بڑے صاحبزادے منظر صدیقی مرحوم تھے۔ سرورق پر ایک
جانب غالب کی تصویر تھی اور دوسری جانب ’ جمعیت الشعراے ہند کا واحد اخبار‘ تحریر
تھا اور ساتھ ہی حضرت سیماب کی نظم کا یہ شعر تھا ؎
پیدا ہوا ہے فکر کی مشکل کشائی کے لیے
شاعر ہے آوازِ خدا ساری
خدائی کے لیے
(حامداقبال
صدیقی، سیماب اکبر آبادی، ساہتیہ اکادمی، دہلی 2009، ص 41-42)
سیماب اکبر آبادی اجمیر
شریف سے رسالہ ’فانوس خیال‘ جاری کیا۔ بعد ازاں ادارہ ’ قصر الادب ‘سے ماہنامہ ’’
پیمانہ ‘‘ جاری کیا اور پھر 1929 میں اسی ادارے سے اخبار’ تاج‘ جاری کیا،جس میں
ماہنامہ شاعر کے اغراض و مقاصد کو پیش کیا گیا تھا۔عرصہ دراز سے ان کا یہ خواب تھا
کہ ایک ایسے ادبی رسالے کا اجرا کیا جائے جو صرف جماعت شعرا کا متفقہ آرگن ہو جس کے ذریعے مشرقی فن شاعری
کو انحطاط کی پستیوں سے نکال کر معراج ترقی پر پہنچایا جا سکے۔ چناچہ ’ شاعر ‘ کے
اجرا سے انھوں نے اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ ’ شاعر ‘ کے تعلق سے جو اہم
نکات اخبار ’ تاج ‘ میں شائع کیے گئے تھے وہ حسب ذیل ہیں:
.1 ایک
آل انڈیا لٹریری کانفرنس کا قیام اور اس کے متعلق انتظامی کوششیں۔
.2 ہندوستان
کے تمام شعرا کو ایک رشتۂ تنظیم و اخوت میں منسلک کرنا۔
.3 شاعری
کو موجودہ مبتذل انحطاط پذیر حالت سے ابھارنا۔
.4 موجودہ
شاعری کو اس قابل بنانا کہ وہ ترقی ِ قوم و ملک کا باعث ہو۔
.5 شعرا کے حالات و واقعات ہفتہ وار شائع کرنا۔
.6 ایک
ایسا ادارۂ اشاعت قائم کرناجو شعرا کے دیوان اور مجموعہ کلام کی طباعت اور اشاعت
کر سکے۔
7 شعرا
کو گمنامی اور بے قدری کی پستی سے معراج شہرت پر لانا اور ہفتہ وار ان کی غزلیں،
نظمیں اور کلام شائع کرنا۔
.8 قدیم
اور جدید شاعری کی حمایت کرنا اور فن شریف کو مٹنے سے بچانا۔
مذکورہ نکات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
ماہنامہ ’شاعر ‘کی اشاعت کا مقصد اردو شاعری کا فروغ اور بالخصوص ہندوستان کے
شعرا کے کلام کی ترویج و اشاعت تھا۔’شاعر
‘نے اپنے ابتدائی دور سے ہی بہت سے شعرا
کو گمنامی اور بے قدری کی پستی سے نکال کر معراج شہرت عطا کی۔ ابتدا معاصر
اخبارات و جرائد کی نظر میں ’ شاعر ‘ محض شاعری کا گلدستہ تھا اور ان کا مجموعی
ردعمل یہ تھا کہ اس میںنو مشق شعرااور ادبا کی غیر معیاری تخلیقات جمع کر دی جاتی
ہیں۔ ’ شاعر ‘ میں نہ صرف ان اعتراضات کا جواب دیا جاتا تھا بلکہ بعض معیاری رسائل
و اخبارات میں شائع شدہ تخلیقات کے فنی سقم کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ نئے شعرا کے
کلام کی اصلاح بھی کی جاتی تھی۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے اکثر بڑے عروضی شعرا کو
دعوت دی جاتی تھی، جن میں جوش ملیح آبادی، حسرت موہانی، اصغر گونڈوی، فانی بدایونی،
جگر مرادآبادی، ریاض خیر آبادی، عزیز لکھنؤی، ساغر نظامی اور سیماب اکبر آبادی
وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ان شعرا کے افکار عالیہ شروع سے ہی ’ شاعر ‘کی زینت
بنتے رہے۔’ شاعر ‘ میں آئینے کے سامنے، شاعرانہ معلومات، اصلاح سخن، استفسار اور
مشورے، محاکات، معیار اور عام فہم عروض کے مستقل عنوانات کے تحت ان ماہرین اور
اساتذۂ فن کے مضامین شائع کیے جاتے تھے۔ ماہنامہ ’شاعر ‘ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی
کہ اس نے ’ مناظمہ ‘ اور ’مناثرہ ‘ کو رواج دے کر ان شعرا میں بھی نثر و نظم لکھنے
کا شوق پیدا کر دیا جو صرف غزل کہتے تھے۔اس تعلق سے ’شاعر ‘ کے ایک شمارے میں ’
مناظمہ سے استغفار ‘ کے عنوان سے مدیر نے لکھا ہے کہ:
’’
ابھی ہمارے شعرانظم کہنے کے عادی نہیں ہیں، بعض لوگ
نظموں کے اسالیب دیکھنے کے منتظر ہوں گے۔ بعض پہلی مرتبہ نظم اچھی نہ کہہ سکے ہوں
گے، اس لیے ہم اس شعبہ کو بدستور جاری رکھتے ہوئے ان تمام شعرا سے جو شاعر کے خریدار
ہیں یا شاعر کو کسی نہ کسی طرح دیکھتے ہیں۔ التماس گزار ہیں کہ وہ آئندہ اس خصوص
میں پوری توجہ فرمائیں اور جس طرح غزلیں کہنے میں التزام سے کام لیا جاتا ہے اسی
طرح نظمیں کہنے میں بھی کشادہ دلی سے کام لیں۔ ان شاء اللہ مناظمہ کی ترویج طبقہ
شعرا کے لیے بہت زیادہ مفید اور دلچسپ ثابت ہو گی۔
‘‘
(ماہنامہ
شاعر ممبئی، ہم عصر اردو ادب نمبر 1997، ص 105)
ماہنامہ ’ شاعر ‘ اپنے ابتدائی تقریباً بیس سالوں تک
اردو شاعری کی ترویج و ترقی پر زور دیتا رہا۔اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ
رسالہ اپنے بانی علامہ سیماب اکبر آبادی کی سوچ کا مظہر تھا۔یہاں یہ بات بھی واضح
کرتا چلوں کہ اگرچہ ’ شاعر ‘ کے بانی سیماب اکبر آبادی تھے لیکن انھوں نے رسالے کی
شروعات کے وقت ادارت کے فرائض کی ذمے داری اپنے بڑے بیٹے اور شاعر منظر صدیقی کو دی
تھی۔منظر صدیقی نے فروری 1932 تک ادارت کے فرائض بخوبی انجام دیے، اس کے بعد علالت
کے سبب وہ دہلی چلے گئے اور ادارت خود حضرت سیماب کے ذمے آگئی اور شریک کار کی حیثیت
سے ان کے دوسرے فرزند اعجاز صدیقی رسالے سے وابستہ ہو گئے بلکہ ستمبر 1935 سے وہ
باقاعدہ مدیر شاعر بنا دیے گئے۔سیماب اکبر آبادی تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے
اور وہیں کراچی میں 1951 کووفات پا گئے۔ سیماب کی وفات کے وقت ان کے چاروں بیٹے منظر
صدیقی، اعجاز صدیقی، سجاد صدیقی اور مظہر صدیقی ان کے ساتھ تھے۔ اعجاز صدیقی والد
کی رحلت کے بعد ماہنامہ ’ شاعر ‘ کے دفتر کو آگرہ سے کراچی منتقل کرنے کے لیے
ہندوستان آ گئے، لیکن وہ واپس پاکستان نہیں جا سکے۔آگرہ میں ان کی طبیعت نہیں لگ
رہی تھی اس لیے دوستوں کے مشورے سے 1951 کے آخری مہینوں میں ماہنامہ ’ شاعر ‘ کے دفتر کو لے کر مع اہل و عیال
ممبئی منتقل ہو گئے۔ یہاں سے ماہنامہ ’ شاعر ‘ کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ ممبئی
میں یہ شجر سایہ دار پھلتا پھولتا رہا اور اعجاز صدیقی اسے اپنے خون جگر سے سینچتے
رہے۔اعجاز صدیقی نے ’ شاعر ‘ کو کامیاب بنانے کے لیے ایک طویل جدوجہد کی اور
ہندوستان کی ادبی صحافت میں اسے ایک الگ اور بلند مقام عطا کیا۔ 1935 سے 1978 تک،
وہ تقریباً بیالیس سال ماہنامہ ’شاعر ‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔اعجاز صدیقی
کی وفات (9فروری 1978)کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے تاجدار احتشام صدیقی کورسالے کا
مدیر اعلیٰ مقرر کیا گیااور چھوٹے بیٹے افتخارامام صدیقی معاون مدیر ہوئے۔ تاجدار
احتشام صدیقی ماہنامہ ’شاعر ‘ کے بہتر مستقبل کے لیے سعودی عرب چلے گئے اور وہیں
4فروری1981 کو انتقال کر گئے۔ان کی وفات کے بعد ’ شاعر ‘ کی وراثت افتخار امام صدیقی
کے حصے میں آئی، جسے انھوں نے آخری دم تک اپنے بھائی نعمان صدیقی اور حامد اقبال
صدیقی کے تعاون سے جاری رکھا۔
افتخار امام صدیقی(1947-2021) علامہ سیماب اکبر آبادی
کے پوتے اور اعجاز صدیقی کے فرزند تھے۔ جنھوں نے اپنی پوری زندگی ماہنامہ ’شاعر ‘
کے لیے وقف کر دی۔ ان کی ذات بہت سارے اوصاف کی جامع خوبیوں کی حامل تھی۔ وہ صحافتی،
علمی، ادبی، غرض ہر میدان میں ایک انفرادی مقام رکھتے تھے۔ باکمال صحافی و شاعر ہی
نہیں با وصف انسان بھی تھے۔ 1981 سے 4اپریل 2021 تک یعنی ان کی وفات تک ماہنامہ
’شاعر ‘ ان کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔اردو کی ادبی صحافت میں بہت کم ایسے مدیران
ہیں جنھوں نے چار دہائیوں تک کسی رسالے کی ادارت کے فرائض انجام دیے ہوں۔ان کی
وفات کے بعد ماہنامہ ’ شاعر ‘کا مستقبل متاثر ہونے کا اندیشہ کیا جا رہا تھااور جس
کا ڈر تھا وہی ہوا، مالی دشواری اور وسائل کی کمی کی وجہ سے جنوری 2022 میں رسالے
کو بند کر دیا گیا۔ایک عہد ساز رسالے کا نودہائیوں کے بعد مالی وسائل کے سبب بند
ہونا اردو داں طبقے کی بے حسی قرار دیا جا سکتا ہے۔
افتخار امام صدیقی نے جب ماہنامہ ’شاعر ‘ کی ادارت
سنبھالی تب ان کے سامنے بھی بہت سے چیلینجز درپیش تھے لیکن انھوں نے ’ شاعر ‘ کو
بلا ناغہ اسی آن بان اور شان سے جاری رکھا جس طرح ان کے والد اور دادا مرحوم نے
رکھا تھا۔انھوں نے چالیس سال تک بڑی جانکاہی سے اس پودے کی پرورش کی جس کو ان کے
دادا مرحوم نے لگایا تھا۔اردو صحافت میں نہ معلوم کتنے اقتصادی بحران آئے مگر اس
کی جڑوں کو جنبش نہیں ہوئی۔ اس دوران بہت سے ادبی اور علمی رسالے افق ادب پر طلوع
ہوئے اور قلیل عرصے کی زندگی کے بعد چراغ سحری کی طرح جھلملا کر خاموش ہو گئے۔ یہ
صرف افتحار امام صدیقی کی پر خلوص کوششوں اور ان کی بے نظیر صحافتی قابلیت اور
صلاحیت کا نتیجہ تھا کہ ماہنامہ ’ شاعر ‘ کو ایک طویل عمر نصیب ہوئی جو اس کے کسی ہم
عصر رسالے کو میسر نہیں ہوئی۔یہاں تک کہ 2002 میں افتخار امام صدیقی ایک ٹرین
حادثے میں بری طرح زخمی ہو کر اپنی دونوں ٹانگوں سے معزور ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے
بعد سے مشاعروں میں ان کے لامتناہی اسفار کا سلسلہ ضرور منقطع ہو گیا تھا مگر
ماہنامہ ’ شاعر ‘ کی عظمت اور اس کو ترقی دینے کی رفتار میں کمی واقع نہیں ہوئی۔علامہ
اقبال نے رسالہ ’ شاعر ‘ کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا تھا:
’’رسالہ’
شاعر ‘ اب مبتدیوں کے مذاق سے گزر کر منتہیوںکے مفاد کا باعث ہوتا جاتا ہے۔خدا اس
کی عمر دراز کرے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر صوبہ کے سر شتۂ تعلیم میں ’ شاعر ‘منظور کر
لیا جائے۔ خود بھی کوشش کر رہا ہوں، آپ بھی توجہ فرمائیں۔‘‘
(شاعر۔
شمارہ جون 1932، ص 5)
شاید علامہ اقبال کی دعا ’خدا اس کی عمر دراز کرے ‘
قبول ہوئی کہ آج ’ شاعر ‘ کا شمار اردو کے سب سے قدیم ادبی رسائل میں ہوتا ہے جو
تقریباً بیانوے سال تک اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دیتا رہا۔ اس طویل مدت میں
ماہنامہ ’ شاعر ‘ کے مزاج میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس نے ترقی پسند تحریک
کے عروج و زوال کو بھی بہت قریب سے دیکھا تھا اور اس کے بعد جدیدیت کے کمالات کا
مشاہدہ بھی کیا تھا۔لیکن ’ شاعر ‘ کی یہ خوبی رہی کہ کسی مخصوص تحریک کا علمبردار
نہیں رہا لیکن ہر دور کے بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ ضرور دیتا رہا۔ اعتدال پسندی
کو اس نے اپنا شعار بنایا کیوں کہ ’ شاعر ‘ کا مقصد اعلیٰ ادب کی ترویج تھا اس لیے
ہمیشہ ادبی معیارات کو اولیت دی۔
ماہنامہ ’ شاعر نے سیاسی اور مذہبی موضوعات سے ہمیشہ گریز
کیا۔خالص ادبی و لسانی مواد کو زیر بحث لایا گیا۔’ شاعر ‘ کی کامیابی کا راز شاید
اسی میں مضمر ہے کہ اس نے اپنے دامن کو ہمیشہ وسیع رکھا۔ جہاں اس نے نامور
قلمکاروں کو اپنے صفحات پر جگہ دی وہیں اردو کی نئی نئی آوازوں اور نئے نئے چہروں
کو ادبی دنیا سے روشناس کرایا۔غالباً اردو کا یہ واحد رسالہ ہے جس میں غیر ملکی
ادبا اور شعراکی نگارشات دلکش اور منفرد انداز میں شائع ہوتی رہیں۔ان نگارشات سے بین
الاقوامی سطح پر اردو کی صورتِ حال کا پتا چلتا ہے۔
ماہنامہ ’ شاعر‘ کی نمایاں ترین خصوصیت اس کے موضوعاتی
خاص نمبر ہیں جو اپنے آپ میں بے مثال اور دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ابتدا میںاعجاز
صدیقی کی ادارت میں نکلنے والے خصوصی نمبرات میں کار امروز نمبر 1935، آگرہ نمبر
1936، سالنامہ نمبر مئی 1937، افسانہ نمبر 1954، سعادت حسن منٹو نمبر 1955، خاص
نمبراپریل1959، غالب نمبر 1969، گاندھی نمبر 1969، ناولٹ نمبر 1971، قومی یکجہتی
نمبر1974، کرشن چندر نمبر1967 اورہم عصر
اردو نمبر 1977خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اعجاز صدیقی کے بعد افتخار امام صدیقی نے
بہت کم وقت میں اپنی بے حد تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ’ شاعر ‘ کے متعدد متنوع رنگ
کے شمارے شائع کر کے ادبی حلقوں میں اعتبار قائم کر لیا۔ان کے یاد گار اور تجرباتی
خصوصی شماروں میں ایک شمارہ1980کے نام،خلیل الرحمن اعظمی نمبر 1980،نثری نظم اور
آزاد غزل نمبر1983، یگانہ نمبر 1985، اقبال نمبر 1988، افسانہ نمبر 1992 اور ہم
عصر اردو ادب نمبر1997 وغیرہ شامل ہیں۔
’
شاعر ‘ کے ابتدائی خصوصی شماروں میں’سالنامہ نمبر ‘ کافی
اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شمارہ مئی 1937 میں شائع ہوا جو 525صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا
نصف حصہ ’ آگرہ سکول نمبر ‘ کے لیے وقف کیا گیا۔ اس حصے میں 200کے لگ بھگ شاعروں
کے کلام کا انتخاب شائع کیا گیا ہے اور کئی شعرا کے حالات زندگی نہایت سلیقے کے
ساتھ مرتب کیے گئے ہیں۔اس شمارے میں خواجہ میر علی تبریزی موجد خط نستعلیق کی خوش
نویسی کے عکس بھی شائع کیے گئے ہیں۔شمارے میں جدت یہ جلوہ گر ہوئی کہ آگرہ اسکول
کے موسس اعلیٰ سیماب اکبر آبادی اپنے تلازمہ کے کلام کی اصلاح جس مہارت اور چابک
دستی سے کرتے تھے، اس کے کئی نمونوں کے عکس اس اشاعت میں شامل کیے گئے ہیں۔ آخر میں
112شاعروں کے تذکرے درج ہیں اور ساتھ ہی 105شاعر تصویر کی صورت میں رونق افروز ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں شعرا کی تصویر شاید ہی اب تک کسی شمارے کی زینت بنی ہوں۔
’ ہم عصر اردو ادب
نمبر ‘ ماہنامہ ’ شاعر ‘ کا سب سے مقبول ترین خصوصی نمبر ہے، جس کی پہلی جلد مئی
تا دسمبر 1997 میں منظر عام پر آئی۔یہ جلد 1240صفحات پر مشتمل ہے۔اردو رسائل کی
تاریخ میں شاید یہ سب سے زیادہ ضخیم نمبر ہے، جسے اردو شعروادب کا عالمی گائوں بھی
کہا گیا ہے۔اس خصوصی نمبر میں آگرہ اسکول، علامہ سیماب اکبر آبادی، معاصر تنقید،
مکاتیب، مشاہیر، ہم عصر افسانہ، معاصر اردو شاعری پر پر مغز مقالات اور بہترین
شعرا اور نثر نگاروں کی اعلیٰ تخلیقات و نگار شات شائع کی گئی ہیں۔ مزید برآں
مختار صدیقی، اوپندر ناتھ اشک، رام لعل اور مالک رام کے خصوصی گوشے بھی شائع کیے
گئے ہیں۔شمارے کے اختتام پر اردو شاعروں اور ادیبوں کی ایک ڈائرکٹری بھی دی گئی ہے
جس میں غیر ممالک کے ادیبوں اور شاعروں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ مدیر ’ شاعر ‘
افتخار امام صدیقی اس شمارے کے اداریے میں یوں رقمطراز ہیں:
’’اردو
شعرو ادب کا یہ کوئی انتخاب نہیں ہے۔ کسی طرح کی کوئی انتھولوجی بھی نہیں ہے۔ یہ
کوئی سالانہ جائزہ یا کوئی دس سالہ جائزہ یا پھر پچاس سالہ ادب کا محاکمہ بھی نہیں
ہے۔بظاہر اس کا عنوان ’ ہم عصر اردو ادب نمبر ‘ ( اردو شعرو ادب کا عالمی گائوں)
ہے اور 1990 کے بعد شعرو ادب کو عمل میں رکھا گیا ہے لیکن ترقی پسندوں اور جدیدیوں
کے ادبی کارناموں کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے آزادی ہند اور ہندوستان
کی تقسیم کے آس پاس کے شعرو ادب کی بات بھی ہوئی ہے لیکن طے شدہ موضوع کو اس کے میکانکی
مضمرات کے ساتھ یا خاص نمبر کے کسی بھی تصور سے الگ ہو کر ’ ہم عصر اردو ادب نمبر
‘ کی تینوں جلدوں کو دیکھنا اور سمجھنا ہو گا۔
‘‘
(ماہنامہ
شاعر، اداریہ، ہم عصر اردو ادب نمبر 1997 ص 25)
مذکورہ شمارے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے 1999 میں لندن
میں اسے ایک ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔یہ خصوصی نمبر افتخار امام صدیقی کی
سات سالہ کاوشوں کا ثمرہ تھا جسے اردو زبان و ادب کا کوئی بھی سنجیدہ قاری کبھی
فراموش نہیںکر سکتا۔’ شاعر ‘ کے دیگر خصوصی شماروں میں غالب نمبر، افسانہ نمبر،
کرشن چندر نمبر، گاندھی نمبر، ناولٹ نمبر اور خلیل الرحمن اعظمی نمبروغیرہ بھی
دستاویزی حیثیت رکھتے ہیںاور اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔خصوصی
نمبرات کے علاوہ ’ شاعر ‘ نے 1970 میں پہلی بار گوشوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔
اولین کاوش ’ گوشہ راجندر سنگھ بیدی ‘ کی تشکیل سے ہوا۔ اس کے بعد مختلف قلمکاروں کے تقریباً سو سے زائد خصوصی
گوشے شائع ہو چکے ہیں، جن میں انور خان،
نثار احمد فارقی، مشفق خواجہ، احمد ندیم قاسمی، دپتی مشرا، قمر جمالی، جوگندر پال
اور پروفیسر مسعود حسین خان کے گوشے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ان خصوصی گوشوں کی ایک
اہم خوبی افتخار امام صدیقی کے ادبا و شعرا
سے لیے گئے انٹرویوز ہیںجو ’ فنکار اب بھی مستور ہے‘ کے عنوان سے شائع ہوتے
تھے۔افتخار امام صدیقی نے ہی ہندوستان کے اردو قارئین کو ’ اردو کی نئی بستیوں ‘ سے
متعارف کروایا۔
ادبی صحافت کی ترقی کا دارومدار اداریوں پر بھی ہوتا
ہے۔ اور ماہنامہ ’ شاعر ‘ اپنے بے باکانہ اداریوں کے لیے کافی مشہور ہے۔اس میں
لکھے گئے اداریے حالات حاضرہ پر ہوتے ہیں۔ خواہ وہ ادبی حالات حاضرہ ہوں یا سیاسی،
عام طور پر ادبی رسائل میں ادبی مباحث کو ہی جگہ دی جاتی ہے۔بقول فرانسیسی فلسفی
ژال پال سارتر، جو ادیب سیاسی شعور نہیں رکھتا اور سیاسی حالات ِ حاضرہ سے بے خبر
ہو وہ ادیب ہی نہیں ہے۔ ’ شاعر ‘ کے مدیر اعجاز صدیقی ہوں یا ان کے بیٹے افتخار
امام صدیقی، دونوں ہی بیدار ذہن کے مالک اور مستقل حالات کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے
تھے۔افتخار امام صدیقی تو ایک نڈر اور بے باک صحافی تھے۔ ’ شاعر ‘ میں لکھے گئے
اداریے ان کی شخصیت کے عکاس ہیں۔ انھوں نے بغیر کسی نتائج کی پرواہ کیے ہوئے اداریے
تحریر کیے ہیں۔جن موضوعات پر بھی انھوں نے اداریے لکھے، وہ فنی معیارات پر پورے
اترتے ہیں۔ ان کے اداریوں سے اردو زبان و ادب کی صورت حال اور فروغ و اشاعت کے
علاوہ ادبی منظر نامے کا بھی پتا چلتا ہے۔
مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ ماہنامہ ’ شاعر ‘ اپنی
گونا گوں صفات اور خصوصیات کے باعث ہندوستان کے ان چند مایہ ناز اور اہم ادبی
رسائل میں شامل ہے، جن کی خدمات کو اردو زبان و ادب اور صاف ستھری و بے داغ صحافت
کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ رسالے کو یہ بلندی اور سرفرازی عطاکرنے میں افتخار
امام صدیقی کی علمی بصیرت اور ادب شناسی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ
ماہنامہ ’ شاعر ‘ ایک رسالہ ہی نہیں بلکہ ایک صدی پر محیط داستان ہے جو افتخار
امام صدیقی کی وفات کے بعد اپنے اختتام کو پہنچی تو بے جا نہ ہو گا۔
Dr. Qammer Ahmed
Lecturer, Vishwa Bharti Womens College,
Rainawari, Srinagar, 190003 (J&K)
Mob: 7006014038
Email: qammerahmed3@gmail.com