4/7/25

ہندوستان کے زمانہ قدیم و وسطیٰ کے کتب خانے، مصنف: بمل کمار دت، مترجم: سرتاج احمد عابدی

 اردو دنیا، مارچ 2025

کتب خانوں کے ارتقا کی تاریخ، تہذیب و تمدن کے ذہنی نشو و نما کا ایک ضروری باب ہے اور لائبریری کے فروغ اور علم کی ترویج میں بہت قریبی رشتہ ہے۔ تحریر اور کتابوں کے ذریعہ تعلیم نے قدرتی طور پر کتابوں کو جمع کرنے اور محفوظ رکھنے کو رواج دیا جس کی وجہ سے کتب خانے وجود میں آئے۔ چونکہ کتب خانوں کا ارتقا اس مفہوم میں کہ محفوظ معلومات کی دستاویزوں اور کتابوں کا وہ خزینہ ہے اور ہمیشہ وسیع پیمانہ پر ان پر علم کا انحصار رہا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس ملک کے تعلیمی نظام پر بھی زمانۂ قدیم سے آخر سولہویں صدی تک جب چھاپہ خانو ںکی ابتدا ہوئی نظر ڈالی جائے اور انیسویں صدی کے آغاز تک کا جب موجودہ تعلیم شروع ہوئی، مطالعہ کیا جائے۔

ہندوستان میں پہلے زبانی تعلیم کا طریقہ رائج تھا جس میں الفاظ کو رَٹ کر یاد کرلیا جاتا ہے، یہ طریقہ برہمن، بدھ، جین اور اسلامی سبھی طریقہ تعلیم میں رائج تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وادیٔ سندھ اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں کھدائی سے جس تہذیب کا پتہ چلا ہے اس میں دو دواتیں ملی ہیں جس میں ایک موہن جوڈارو میں اور دوسری چنہو دارد میں ملی اور ایک بڑی تعداد مہروں کی ملی ہے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ زمانۂ ماقبل تاریخ میں ہندوستان میں فن تحریر سے لوگ واقف تھے۔ لیکن اس تصویری تحریر کو پڑھا نہ جاسکا جو کہ آریہ تہذیب کے عروج تک متروک  ہوگئی ہوگی۔ ’وید اور ویدانگ یعنی اپنشد، برہمن اور ارنائک‘ یقینا ہند آریائی تہذیب کی قدیم ترین دستاویزیں ہیں، لیکن اب تک اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وید جنھیں 2000 قبل مسیح سے 600 قبل مسیح تک کا کہا جاتا ہے، اسی دور میں لکھے گئے یا نہیں اور نہ اس کی کوئی شہادت ہے کہ انھیں دائرہ تحریر میں لایا بھی گیا تھا یا نہیں۔ قرین قیاس یہ ہے کہ انھیں کسی نہ کسی شکل میں تحریر کیا گیا ہوگا۔

کچھ کتبے ایسے ہیں جن کو اشوک اعظم سے قبل کا کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر آثار قدیمہ کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں عہدموریہ سے قبل عام طور سے فن تحریر سے واقفیت نہ تھی۔ اشوک کے کتبات کو جو ہندوستان کے بڑے حصے میں با نٹے گئے کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ تحریر اس قدر ترقی یافتہ ہو ہی نہیں سکتی تھی جب تک یہ صدیوں استعمال میں نہ رہی ہو۔ بہت سے مضامین کی فہرستیں اور دستاویزوں کی فہرستیں اپنشد آشرموں اور بدھ وہاروں میں تعلیم کی طرف اشارہ کرتی ہیں یا پاننی کے عہد میں علم و ادب کا عروج بتاتا ہے کہ کافی تعداد مخطوطات کی ہوگی جنھیں راہب، دانشور، مذہبی مرکزوں میں استعمال کرتے ہوں گے۔

جب ہم چوتھی یا پانچویں صدی عیسوی کے دستاویزی مجموعہ کا خیال کرتے ہیں اور اشوک کے زمانہ میں انتظامی معاملات میں فن تحریر کے بکثرت استعمال کو دیکھتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ کتابیں اس سے زیادہ کثرت سے استعمال ہوتی تھیں جتنا آج کل یقین کیا جاتا ہے یا مذہبی مصنّفین اور راہبوں کے استعمال میں آتی تھیں۔‘‘

بیرات میں جو سنگی کندہ ہے اور جو ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ میں محفوظ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ اشوک نے ایک اجتماع میں راہبوں کو مندرجہ ذیل الفاظ میں مخاطب کیا تھا:

’’میری خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ راہب راہبائیں مندرجہ ذیل مذہبی کتابوں کو توجہ سے سنیں اور ان پر غور کریں۔ ونے، تھارشا، آریہ، اناگت بھیانی، منی گاتھا، مونیہ سوترم، اپاتشیہ پراسنے، اور راہول اوالواد، جو مہاتما بدھ نے غلط بیانی کے متعلق کہی تھی۔ اسی طرح مہاتما بدھ کے پیروؤں کو چاہے وہ مرد ہوں یا عورت کہ انھیں مقدس کتابوں کو دھیان سے سنیں اور ان پر غور کریں۔‘‘

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اشوک کے وقت مہاتما بدھ کے اقوال دائرہ تحریر میں آچکے تھے اور وہ راہبوں کے روزانہ مطالعہ اور ورد میں تھے۔

پانیتی کے عہد میں (چوتھی صدی عیسوی) ادبی کتابیں اور دستاویزیں وجود میں آکر رائج ہوچکی تھی، پانینی گرنتھوں کا ذکر کرتا ہے۔ (iv.3.87,iv.3.116)۔ کئی قسم کے مصنّفین کا تذکرہ ہے، منترکار، پدکار، سوترکار، گاتھا کار، شلوک کار، اور شبد کار (iii.23) کتابوں کو پہچاننے کے اصول جیسے کرت گرنتھ (iv.3 116) اور ادھیکرت، کرت گرنتھ، (iv.3.87) اور کتابوں کو لکھنے کا طریقہ یا تانتر یکتی (iv.3.87) وغیرہ ملتے ہیں۔ کوٹلیہ، چرک اور سسریتا کو بھی کتابیں ترتیب دینے اور لکھنے کا طریقہ معلوم تھا۔

مہابھارت کے زمانہ میں زبانی تعلیم کی سرپرستی کے باوجود مخطوطات پڑھنا رائج تھا۔ مہابھارت کے شانتی پرو میں وششٹھ نے مہاراجہ جنک سے کہا ’’حضور والا (یعنی مہاراجہ جنک) آپ نے ویدوں اور دوسرے شاستروں کو مطالعہ کیا ہے لیکن آپ ان کی اہمیت سمجھنے میں ناکام رہے۔ آپ کے اس مطالعہ سے کوئی نتیجہ نہ نکلے گا۔ جو صرف گرنتھوں کو پڑھتے، لیکن ان کے باطنی معنی اور اہمیت کو نہیں سمجھتے، ان کا مطالعہ بے سود ہے۔ وہ صرف کتابوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، لیکن ان لوگوں کا پڑھنا مفید ہے جو اس کے پوشیدہ مطالب سے آگاہ ہیں اور گرنتھوں کی مدد سے متعلقہ سوالوں کے جوابات دے سکتے ہیں۔

ہندوستان میں بدھ زمانہ میں تحریر استعمال میں لائی جاتی تھی اور مخطوطات کو کافی پڑھا جاتا تھا۔ تحریر اور سامان تحریر سے متعلق کافی حوالے ملتے ہیں اور ان دو الفاظ یعنی ’سپّم وچیتی‘ کو جٹاکا کے مطالعہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ٹنڈیلا جٹاکا میں فیصلو ںکی ایک کتاب لکھنے کا حوالہ ہے جس میں کہا گیا ہے ’’اس کتاب کی روشنی میں تمھیں مقدمات فیصل کرنا چاہیے۔‘‘ (iii:292) سیتاکیتو جٹاکا سے ہمیں ایک ٹھوس حوالہ ملتا ہے ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخطوطات تھے اور استعمال بھی ہوتے تھے۔ اتفاق سے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مخطوطہ کو کس طرح لپیٹ کر رنگین کپڑے میں اور پالش شدہ اسٹینڈ پر کیسے رکھا جائے۔ (iii.235)۔

آثار قدیمہ اور ادبی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم ہندوستان یعنی چوتھی صدی قبل مسیح سے مخطوطات تحریر کیے جاتے تھے اور مطالعہ کیے جاتے تھے اور یہ مفروضہ بالکل قدرتی ہے کہ اہم علمی مراکز میں اور شخصی تحویل میں مخطوطات کے ذخیرے رہے ہوں گے، ان اہم مراکز میں جو شاہی عطیات سے بھی بہرہ ور تھے ہندوستان کے مختلف حصوں اور بیرونی ملکوں سے طالب علم فاضل استادوں سے تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ جٹاکا میں ایسے دو اہم مرکزوں یعنی ٹکسلا اور بنارس کا حوالہ ملتا ہے۔ جہاں لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے آتے تھے اور یہ بھی یقینی ہے کہ ان مرکزوں کے مخطوطوں اور اصل کتابوں اور تفسیروں کے الگ الگ ذخیرے ہوں گے۔ اب تک آثار قدیمہ نیز بدھ اور برہمن کتابوں سے تحریر کا اور نئی کتابیں لکھنے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اب ہندوستان میں زمانۂ قدیم میں کتب خانوں کی تاریخ مرتب کرنے کے لیے ہمیں چینی سیاحوں کی تصانیف کو دیکھنا ہے وہ سیاح جنھوں نے بدھ مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور مخطوطات نقل کیے۔ فاہیان، ہیوان سانگ اور اٹنگ کی چونکہ ذاتی اور چشم دید شہادت ہیں اس لیے زیادہ مصدقہ مانی جائیں گی اور دوسری شہادتو ںکی توثیق میں مددگار بھی ہوں گی۔

پانچویں صدی عیسوی کے کتب خانے(فاہیان کا بیان)

قدیم ہندوستان کے کتب خانوں کے بارے میں مشہور چینی سیاح فاہیان کا سفری روزنامچہ ایک عام دسترخوان کی حیثیت رکھتا ہے، وہ 399 میں ہندوستان آیا اور اس نے 414 تک قیام کیا۔ اس کی آمد کا مدعا یہ تھا کہ وہ مقدس مقامات کی زیارت کرے اور بدھ مقدس کتابیں جمع کرے تاکہ چینی عبادت خانوں میں بدھ طریقۂ عبادت جاری ہوسکے۔

بہ حیثیت بدھ دیندار کے فاہیان نے شمالی ہند کے اہم بدھ مقدس مقامات کی زیارت کی۔ اس طرح اس کا سفری روزنامچہ بدھ عہدکے ہندوستان کی مختصر مگر صحیح تصویر پیش کرتا ہے۔ فاہیان خشکی کے راستہ کھوتان اور کاشغر ہوتا ہوا ہندوستان آیا۔ مندرجہ دیل سطو رکے ذریعہ اس نے بتایا کہ اس دور میں بدھ لوگ ہندوستان میں مخطوطات کا مطالعہ کرتے تھے:

’’اس نقطہ سے مغرب کی طرف سفر کرو تو لوگ یکساں اور مشابہ ہیں۔ صرف تاتاری زبان جو وہ بولتے ہیں جداگانہ ہے۔ اس کے علاوہ جنھوں نے اپنی خاندانی زندگی ترک کردی ہے (یعنی پجاری اور راہب) وہ ہندوستانی کتابیں پڑھتے ہیں اور ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔‘‘

شمال مغربی ہندوستان یعنی پنجاب اور متھرا سے ہوتا ہوا فاہیان وسطی علاقہ میں داخل ہوا۔ اپنے روزنامچہ میں اس نے وسط ہند کی سماجی مذہبی روایات کو بیان کیا ہے اور خاص طور سے مذہبی عبادت گاہو ںکی دیکھ بھال اور مخطوطوں کے استعمال کا مندرجہ ذیل الفاظ میں ذکر کیا ہے:

’’جب مہاتما بدھ دنیا سے سدھارے تو بادشاہوں اور بزرگوں نے درگاہیں قائم کیں تاکہ راہبوں اور پجاریو ںکو نذریں دی جاسکیں۔ انھیں زمین، مکان اور باغ دیے، آدمی اور بیل دیے تاکہ زراعت کرسکیں اور ان عطیات کی توثیق کے لیے ضبط تحریر میں لے آئے اور ایک کے بعد دوسرے بادشاہوں نے اس روایت کو برقرار رکھا۔‘‘

اس کے علاوہ راہبوں کی زندگی کی دلچسپ تفصیلات ہمیں ذیل کی عبارت سے ملتی ہیں۔ ان مقامات پر جہاں پجاری رہتے ہیں۔ سری پتر کے اعزاز میں پگوڈا بنائے جاتے ہیں اور ملگن و آنند (یعنی آنے والے بدھ) اور ابھیدھرم کے لیے۔ ونے اور سوتر (بدھ مقدس اصول) کے لیے بھی پگوڈا بنائے جاتے ہیں۔ بدھ مقدس کتابوں کی بڑی عزت ہوتی تھی اور عبادت گاہوں میں مذہبی استادوں اور کتاب کی یادگار کے طو رپر استوپ بنائے جاتے تھے۔ استاد اور طالب علم جو ابھیدھرم، ونے اور سوتر وغیرہ کی تدریس سے متعلق تھے ان استوپوں پر نذریں گزارتے۔

اس کے باوجود زبانی تعلیم کی روایت شمالی ہند میں برقرار تھی، اسی لیے فاہیان جب ان مقامات پر گیا تو وہاں کیا مضامین پڑھائے جاتے تھے انھیں تحریری شکل میں حاصل نہ کرسکا۔‘‘

’’فاہیان بنارس سے پاٹلی پتر پہنچا جہاں وہ تین سال ٹھہرا اور سنسکرت (پالی) لکھنا اور بولنا سیکھا اور مختلف مضامین کے جو مخطوطات تھے ان کو نقل کیا۔‘‘

دنے‘ کا جو نسخہ یہاں دستیاب ہوا وہ تفصیلی اور مکمل تھا۔ پاٹلی پترکی عبادت گاہ کی لائبریری سے اس نے ’ابھیدھرم‘ (فلسفیانہ اصولوں کا حصہ) کے اقتباسات لیے جو چھ ہزار پیراگراف پر مشتمل تھے۔ ایک مکمل نقل ’ین‘ (؟) کی۔ ’سوتر‘ کے دو ہزار پانچ سو پیراگراف اور ’دیپلیا پری نروان‘ کے پانچ ہزار پیراگراف نقل کیے۔

واپسی کے وقت وہ تملوک میں دو سال ٹھہرا جو ہگلی کے دہانہ پر ایک بندرگاہ ہے وہاں اس نے چوبیس عبادت گاہوں کا دورہ کیا، جن میں پجاری رہتے تھے اور ’سوتر‘ کی نقل کی اور بدھ بتو ںکے قلمی خاکے تیار کیے۔

فاہیان کی تحریروں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پانچویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں فن تحریر اور نقل نویسی سے واقفیت تھی۔ اہم مہایان عبادت گاہوں کے اپنے کتب خانے تھے۔ فاہیان پاٹلی پتر اور تملوک عبادت گاہو ںکے کتب خانوں میں گیا اور اس نے چین کی بدھ خانقاہوں کے لیے مذہبی کتابیں جمع کیں۔

ساتویںصدی عیسوی کے کتب خانے (ہیوان سانگ کا بیان)

فاہیان کے بعد دوسرا اہم چینی سیاح ہیوان سانگ تھا جو 629 سے 643 تک ہندوستان میں رہا یعنی اس کا قیام سولہ سال رہا، اس کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ مشہور زمانہ بدھ زیارت گاہوں کو دیکھے اور مہاتما بدھ نے جو دوسروں کی دست گیری کی اس کے شواہد جمع کرے... مقدس کتابیں جمع کرے اور ہندوستان میں ان علوم کے جو پنڈت ہیں ان سے اصول دین سیکھے اور ان کے معنی و مطالب سمجھے۔

اس کا بیان بہت دلچسپ ہے اور اس زمانہ کی سماجی اور مذہبی حالت کو بیان کرتا ہے۔ وہ شمالی ہند میں 629ء، 645 تک مذہبی ادارو ںکے کتب خانوں کی تاریخ بیان کرتا ہے۔ اس کے بیان میں پہلے ہندوستان کی عام حالت کا ذکر ہے۔ تحریر اور ہندوؤں کے سرکاری ریکارڈ کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے:

’’ان کا طرز تحریر برہما نے ایجا دکیا اور شروع میں 47 حرف بنائے۔ جیسے جیسے چیزیں سامنے آتی رہیں ان حرفو ںکو ملا کر بڑے الفاظ بنائے گئے اور وہ پانی کے چشموں کی طرح پھیلتے چلے گئے اور ان میں جگہ اور مقام کے بدلنے سے تھوڑی تھوڑی تبدیلی آتی گئی۔

اس بیان سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ سنسکرت طرز تحریر استعمال ہوتا تھا اور لوگ کاغذات محفوظ رکھنے کے عادی تھے۔ ذیل کی سطور سے معلوم ہوگا کہ سرکاری ریکارڈ اور کاغذات کی دیکھ بھال ہوتی تھی بلکہ ان کو باقاعدہ محفوظ رکھا جاتا تھا۔ یہ بیان اس طرح ہے:

’’قدیم مخطوطات اور ریکارڈوں کے لیے الگ الگ محافظین ہیں۔ سرکاری اور ملکی کاغذات کو مجموعی طور پر ’نیلو۔پی۔تو‘ کہا جاتا ہے۔ ان کاغذات میں بدنام اور نیک نام لوگوں کا ریکارڈ رہتا ہے اور عوام پر اثرانداز ہونے والی تباہیوں بربادیوں اور خوش آئند حالات کی تفصیل ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ اس کے بیان میں ہمیں برہمن نظام تعلیم کی جھلک ملتی ہے یعنی ویدوں کو بدھ لوگ جنھوں نے برہمن ازم کو قبول کرلیا، کس طرح بذریعہ تحریر دستاویزوں کی شکل میں لائے۔

چینی سیاح سفر کرتا ہواگندھار پہنچا جہاں اس نے ایک ہزار بدھ عبادت گاہوں کو خستہ حالت میں دیکھا۔ پروساپورا یا پسادر کا دہار جسے کنشک نے بنوایا تھا علوم کا مرکز تھا۔ جب سے یہ دہار تعمیر ہوا اس نے غیرمعمولی قابل ہستیاں پیدا کی تھیں جنھوں نے ارہات اور شاستروں کو جنم دیا۔ اس وقت بھی ان کا اثر غالب تھا۔ اسی عبادت گاہ میں ابھیدھرم، کوش شاستر اور وبھاشالن جیسی کتابیں دسوبندھوا اور منورتھ نے تحریر کیں۔ یہ لوگ اسی عبادت گاہ میں تھے اور انھوں نے مشہور کتابیں تحریر کیں۔

اودیان، بولر اور ٹکسلا کو دیکھتا ہوا ہیوان سانگ کشمیر پہنچا۔ اس کی سوانح سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس نے ایک رات جیندر عبادت خانہ میں بسر کی، دوسرے روز وہ شاہی دعوت نامہ پر محل میں داخل ہوا اور وہاں دو سال رہا۔ بادشاہ کشمیرنے بیسوں قابل بھدنتوں کو اس کی مدد کے لیے مقرر کیا اور ا س کو دعوت دی کہ وہ مذہبی کتابوں کو پڑھے اور تفسیر بیان کرے اور بیس خوش نویس دئیے کہ وہ مخطوطات کی نقل کریں اور پانچ خدمت گار دئیے۔ ان سطور سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر کے دربار میں شاندار شاہی لائبریری تھی۔ مخطوطات کو عام طور سے پڑھا جاتا تھا اور ان کے نقل کرنے کا بھی سامان تھا۔

کنشک کی علم دوستی اور مطالعہ کے حوالہ سے وہ کہتا ہے ’’یہ گندھار کا بادشاہ بڑا طاقتور تھا اس کا اثر عالمگیر تھا، اپنے فرصت کے اوقات میں وہ بدھ مقدس کتابیں پڑھتا تھا اور شاہی محل میں ہمیشہ ایک راہب رہتا تھا جو اسے مذہبی مشورہ اور ہدایت دیتا تھا۔‘‘

بادشاہ کنشک بدھ مقدس کتابو ںکی متضاد تفسیروں سے بہت پریشان ہوا اور صحیح تفسیر کے لیے اس نے حکم دیا کہ تمام تر پترکا کتب جمع کرلی جائیں اور تمام بدھ علماء کو مشاورت کے لیے طلب کیا۔ اس مجلس مشاورت نے ایک لاکھ پیراگراف اپدیش شاستر کے مرتب کیے جو سوتر کو مفصل بیان کرتے ہیں۔ ایک لاکھ پیراگراف ونے وبھاشا شاستر کے تحریر کیے جو ونے کی تفصیل دیتے ہیں اور ایک لاکھ پیراگراف ابھیدھرو بھاشا شاستر کے ترتیب دئیے جو ابھیدھرم کی تشریح کرتے ہیں۔ ترتپکا کی  اس تفسیر کے لیے قدیم ترین نسخوں کا عمیق مطالعہ کیا گیا اوراس کے مفہوم اور زبان کو صاف اور واضح بتایا گیا اور اس کو پیروان مذہب اور شاگردوں کے لیے دور دور تک پہنچایا گیا۔ بادشاہ کنشک نے ان کتابوں کو تانبہ کی تختیوں پر کندہ کروایا اور انھیں پتھر کے صندوقوں میں بند کرکے ایک گنبد میں رکھوایا جو اسی مقصد کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔

اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گندھار کے علاقہ میں اہم عبادت گاہیں تھیں۔ یہ وہ مراکز تھے جہاں بدھ علما درس دیتے، نئی کتابیں تحریرکرتے اور اپنی اپنی لائبریریاں رکھتے تھے، اس کے علاوہ درباری وزراء اور امراء بھی اپنی ذاتی لائبریریاں رکھتے تھے۔ ہیوان سانگ شاہ کشمیر کی شاہی لائبریری میں دو سال رہا اور بادشاہ نے بڑی عنایت سے بیس خطاط مخطوطات کو نقل کرنے کے لیے مقرر کے مخطوطات کو پڑھنا اس دور میں عام تھا اور بادشاہ اور رؤسا بھی کسی عالم کی مدد سے ان کو پڑھا کرتے تھے۔ بادشاہ کنشک کا ترپتکا کے نسخوں کو جمع کرنا اور ایک جامع تفسیر کو وجود میں لانا مندرجہ بالا حقائق کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔

مخطوطات تحریر کرنا ان کو جمع کرنا اور ان کو بطور تحفہ دینا ایک دستور بن چکا تھا اور اس سے قبل کے قصوں میں ارہاٹ کا ذکر آتا ہے جب کہ ایک ہاتھی پر مقدس کتابیں لاد کر انھیں مشرقی ہندوستان سے باہر بھیجا گیا۔

سیاح اپنے بیان میں آگے جیتوانہ عبادت گاہ کی تاریخ بیان کرتا ہے جو اس وقت زوال پذیر ہوچکی تھی۔ واٹرس نے مندرجہ ذیل تفصیل اس کے بارے میں چینی نسخہ سے تلاش کی۔

’’جیتوانہ عبادت گاہ جو غالباً نہ زیادہ بڑی تھی نہ اتنی اہم اس کی اچھی طرح دیکھ بھال بھی نہیں کی گئی اور مہاتما بدھ کی حیات ہی میں آگ لگنے سے تباہ ہوگئی۔ سودتا کی موت کے بعد یہ مقام بے توجہی کا شکار ہوا کیونکہ عمارت اور متعلقہ میدان کی نگرانی کے لیے کوئی نہ تھا۔ اس کے بعد ایک نیا وہار تعمیر کیا گیا جو اس سے وسیع تھا لیکن وہ بھی آتش زدگی کا شکار ہوا اور ایک جگہ ہم پڑھتے ہیں کہ یہ جگہ بدھ پجاریوں نے بالکل چھوڑ دی اور بادشاہ کے اصطبل کے طو رپر استعمال ہوئی لیکن بعد میں اس عمارت میں بدھ راہب دوبارہ آئے اور اس کو ازسر نو تعمیر کیا۔ اس عبادت گاہ کے عروج کے ایام میں جیتوانہ بہت بڑا عالیشان ادارہ رہا ہوگا۔ تبلیغ کے لیے کمرے، مراقبہ کے لیے حال، کھانے کے کمرے، راہبوں کے لیے کمرے، غسل خانے، اسپتال، کتب خانے، مطالعہ کے کمرے معہ خوشگوار سایہ دار حوض اور چہار دیواری سب کچھ وہاں موجود تھا۔ لائبریری میں نہ صرف بدھ مقدس کتابیں تھیں بلکہ ویدک، غیربدھ کتب اور فنون و سائنس پر جو ہندوستان میں پڑھائے  جاتے تھے، دوسری کتابیں بھی موجود تھیں۔

مذکورہ بالا بیان سے ظاہر ہے کہ عبادت گاہو ںکی لائبریریوں میں مطالعہ کے لیے کمرے تھے اور ان کے مخطوطات کے ذخیروں میں نہ صرف مذہبی بلکہ دیگر علوم و فنون اور سائنس کے مخطوطات موجود تھے۔ ان عبادت گاہوں کا یہ وسیع المشرب رویہ قدیم ہندوستان کے کتب خانوں کے مقاصد کو پورا کرتا ہے جن میں سے جیتوانہ لائبریری ایک تھی۔

سیاح نے اس کے بعد ویشالی علاقہ میں سویتا پور عبادت گاہ کو دیکھا۔ ’یہاں کی عبادت گاہ دو منزلہ عمارت تھی جس میں چمکدار رنگین بڑے کمرے تھے۔ یہاں اس کو مہایان کتاب بدھ ستوپتکا کا ایک نسخہ ملا۔‘‘

چینی سیاح دورانِ سفر میں جنوبی کوشل (ودھرب یابرار) گیا وہاں اس نے سو عبادت گاہیں بدھ مذہب کی پائیں۔ اُن میں سے ایک فاہیان کبوتر عبادت خانہ تھا جس میں حجرے اور بڑے حال تھے... سب سے بالائی منزل کے ہال میں نگر جن نے ساکیہ منی بدھ کی مقدس کتابیں اور پوساس کی تصانیف رکھیں۔‘‘

سولہ سال قیام کے بعد ہیوان سانگ اپنے وطن واپس آیا اور اپنے ساتھ اور چیزوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد مخطوطا ت کی بھی لایا جس میں 657 الگ الگ کتابیں تھیں اور وہ 520 صندوقوں میں تھیں۔ یہ کتابیں حسب ذیل ہیں:

ستھاویرا واد سوتر، شاستر اور ونے  14کتابیں

مہاسنگھ کا   15 کتابیں

مہی سسکا   22 کتابیں

ساہتیہ       15 کتابیں

کسیاپیا       17کتابیں

سردستی واد 67کتابیں

مہایان سوتر               224 کتابیں

مہایان شاستر             192کتابیں

دھرم گپت               42 کتابیں

ہیوودیا      36 کتابیں

شبدودیا     23 کتابیں

واپس جانے کے بعد بھی ہیوان سانگ نے نالندہ یونیورسٹی کے عہدہ داروں سے تعلقات باقی رکھے اور خط و کتابت جاری رہی۔ چینی سیاح کے مخطوطات کا ایک بنڈل اس وقت ضائع ہوگیا جب دریائے سندھ میں اس کا جہاز تباہ ہوا۔ ہیوان سانگ کے ایک خط میں جو اس نے ستھاویرا پرجنا دیو کو لکھا تھا گم شدہ مخطوطوں کی ایک فہرست تھی اور اس سے درخواست کی تھی کہ وہ ا ن کو نقل کرکے اس کے بھیجے۔

بدھ سیاح نہ صرف چین بلکہ جاپان اور کوریا سے بھی ہندوستان آئے تاکہ بدھ مقدس کتابوں کو جمع کرسکیں اور نقل کرسکیں۔ 629ء سے 671 تک تقریباً 57 سیاح چین جاپان اور کوریا سے ہندوستان آئے اور ان سب کا مقصد یہی تھا کہ مذہبی کتابیں جمع کریں اور نقل کریں۔

ہیوان سانگ کے فوراً بعد کوریا کا ایک سیاح جس کا نام آریہ ورمن تھا ہندوستان آیا۔ وہ ونے اور ابھیدھر کتابوں کا عالم تھا، اس نے نالندہ میں بہت سے سوتر نقل کیے اور اسی دور میں دو اور کوریائی سیاح جن کے نام ’ہووئی نچ اور ٹاؤ ہی‘ تھے نالندہ آئے۔ اول الذکر نے وہاں تعلیم حاصل کی اور بہت سی سنسکرت کتابیں تصنیف کیں۔ اٹسنگ کا قیام جب نالندہ میں تھا ایک روز اسے ہووئی نچ کا کتب خانہ دریافت ہوا جس میں بہت سی چینی زبان اور سنسکرت کی کتابیں تھیں۔ ٹاؤ ہی بھی کئی سال نالندہ میں رہا جہاں اس نے عظیم سواری پر کتابیں پڑھیں اور سوترکے چار سو باب تحریر (یا نقل) کیے۔

655ء میں شہنشاہ ٹا آنگ کے دور حکومت میں وسطی ہند کا ایک سرامن ناوی ملک چین پہنچا جس کے پاس پندرہ سو سے زیادہ مہایان اور مہایان مقدس کتابوں کے نسخے تھے۔

ساتویں صدی کے کتب خانوں سے متعلق اٹسنگ کا بیان

اپنے عظیم پیش روؤں کی شخصیتوں سے متاثر ہوکر ایک اور اہم چینی سیاح جو ہندوستان آیا اس کا نام اٹسنگ تھا اس کا مقصد تھا کہ مقدس ونے اصولوں کے مصدقہ نسخے حاصل کرے اور بدھ مخطوطات جمع  کرے۔  وہ ہندوستان سمندری راستہ سے 627 میں پہنچا اور یہاں تیرہ سال ٹھہرا۔

اٹسنگ کا سفری روزنامچہ ہمیں عبادت گاہو ںکے کتب خانوں کی تفصیلات پر اہم معلومات فراہم کرتا ہے اور ان سابق معلومات میں جو فاہیان اور ہیوان سانگ نے چھوڑیں اضافہ کرتا ہے۔ چونکہ وہ سمندری راستہ سے ہندوستان آیا اس لیے وہ تمرالپتا کے بندرگاہ پر پہنچا اور اس نے وہاں چار ماہ قیام کیا وہاں اس نے راہبوں کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا اس کے زمانہ میں ایک بھکشو جن کا نام ارہلا متر (راہل متر) تھا عبادت گاہ میں رہتے اور روز رتنا کٹا سوتر کا ورد کرتے تھے جس میں سات سو شعر تھے۔ بھکشو نہ صرف تین مجموعوں کے ماہر تھے بلکہ غیربدھ کتابوں پر بھی انھیں عبور حاصل تھا۔ علمی درس کے درجات اور استاد و شاگرد کے تعلقات کے بارے میں ہمیں اٹسنگ بتاتا ہے کہ طالب علم ونے پتکا پڑھنے کے بعد سوتر اور شاستروں کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس سے کہا جاسکتا ہے کہ اٹسنگ کے زمانہ میں عبادت گاہوں میں مطالعہ کا رواج تھا اور مختلف علوم کے لیے ابتدائی اور بلند پایہ کتابیں موجود تھیں۔

سنگھ کی جائداد اور اس کے استعمال کے بارے میں وہ ذیل کا بیان دیتا ہے:

طبی اشیا کو مقدس اسٹور میں رکھا جانا چاہیے اور وقتِ ضرورت مریضوں کو مہیا کرنا چاہیے۔ قیمتی پتھر اور اس قسم کی دوسری چیزوں کو دو حصوں میں با نٹا جاتا ہے۔ ایک وہ جو پجاریو ںکے استعمال کی ہیں یعنی سنگھکا۔ اوّل الذکر کو مقدس مخطوطوں کی نقل کے لیے یاشیر کے مقام کی آرائش کے لیے خرچ کیا جاتا ہے اور دوسرا حصہ موجود راہبوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ لکڑی کی کرسیاں عام استعمال کے لیے ہیں لیکن مقدس کتابیں اور ان کی تفسیر کو تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ وہ لائبریری میں رکھنے کے لیے ہیں تاکہ سنگھ کے افراد کے مطالعہ میں آسکیں۔ غیربدھ کتابیں بکنے کے لیے ہیں اور اس سے جو روپیہ حاصل ہو وہ پجاریوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔‘‘

اوپر کے بیان سے ہم نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ راہبوں کے ذاتی کتب خانے تھے اور عبادت گاہوں کے بھی کتب خانے تھے جو عمومی استعمال کے تھے۔ اٹسنگ کے بعد بہت سے چینی سیاح ہندوستان آئے ان میں سے ایک ٹاؤلن تھا جو کنگ چاؤ (ہپے) کا باشندہ تھا اس نے تمرالپتا میں تین سال سنسکرت کی تعلیم حاصل کی اور چند سال نالندہ میں قیام کیا تاکہ کوشش کا مطالعہ کرے۔

ٹانگ کو انگ دوسرا سیاح تھا جو سمندر کے راستہ سے اراکان پہنچا۔ اسے بادشاہ کی سرپرستی حاصل ہوئی، اس نے ایک بدھ مندر بنوایا، کتابیں لکھوائیں اور مہاتما بدھ کے بت بنوائے۔ اس کے بعد ہیوان ٹاتمرالپتا پہنچا، وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے نالندہ آیا اور وطن واپس جاتے ہوئے اپنی تمام کتابیں اور ترجمے جن کی تعداد ایک ہزار تھی اپنے ہمراہ لے گیا۔

751ء میں یوکانگ (دھرم دوت) ایک چینی سیاح مشرقی ایشیا ہوتا ہوا کشمیر پہنچا، وہ نالندہ میں دس سال ٹھہرا۔ 790 میں وہ چین واپس گیا اور اپنے ساتھ دس بھومی اور دس بالاسوتر اور دوسری کتابوں کے سنسکرت نسخے لے گیا۔

964ء اور 976ء کے درمیان چین کے شہنشاہ نے ’کی۔نے‘ کی قیادت میں تین سو راہبوں کا ایک وفد ہندوستان بھیجا تاکہ بدھ تبرکات، نشانیاں اور کھجور کی پتیوں پر جو مخطوطات ہیں ان کو تلاش کرے اور حاصل کرے۔

تقریباً 969ء میں ایک ہندوستانی بدھ پجاری چین سے کچھ سنسکرت کتابیں ہندوستان لایا اور پھر سفیر وہاں سے کتب لاتے رہے۔ 960ء میں ہندوستانی پجاریو ںکا ایک گروہ بحری جہاز کے ذریعہ چے گان تک گیا اور بادشاہ کے لیے پیتل اور تانبہ کی گھنٹیاں، بدھ کی مورتی اور کچھ ہندوستانی کتابیں جو ’پی۔لو‘ درخت کی پتیوں (کھجور) پر لکھی تھیں لے گئے۔ دوسرا گروہ مغربی بِن ٹو سے چین 1025-1041 آیا اور فان کتابیں اور تحفے لایا۔

آخری سال یعنی 1053 میں ایک ہندو راہب ہندوستان سے چین آیا۔ چے کییانگ جو مغربی ہند کا سرامن تھا اپنے ساتھیوں کے ساتھ چین آیا اور شاید آخری کتاب چین میں لایا۔

 

ماخذ: ہندوستان کے زمانہ قدیم  و وسطیٰ کے کتب خانے، مصنف: بمل کمار دت، مترجم: سرتاج احمد عابدی، دوسرا ایڈیشن: جولائی 2002، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

3/7/25

گورکھپور کا گوہر نایاب: مسلم انصاری، مضمون نگار: ذاکر حسین ذاکر

 اردو دنیا، مارچ 2025

محی الدین انصاری موسوم بہ مسلم انصاری 1920- 2012کی ولادت گورکھپور کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی تھی۔ان کے والد محمد خلیل انصاری انڈین نیوی میں کیپٹن تھے۔انھوںنے اپنے اکلوتے بیٹے کی ولادت پر شاندار جشن کا اہتمام کیا۔ان کی خوشی قابل دید تھی۔ ان کی تنخواہ بہت اچھی تھی اس لیے مسلم کا پچپن نہایت آرام وآشائس میں گزرا، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب ان کی عمر دس سال تھی ان کے والد کا اچانک انتقال ہو گیا۔ عزیز و اقارب کی بے گانگی اور کہیں سے کوئی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ان کے گھر کی حالت مالی اعتبار سے خستہ ہو گئی۔ ان کی والدہ نے استقامت کا ثبوت دیا اورعزم و حوصلے سے گھر کو چلایا۔ بیٹے کے تعلیمی اخراجات کی عدم ادائیگی کی صورت میں ان کی والدہ نے ان کا داخلہ مقامی انجمن اسلامیہ کے دارالیتامیٰ کے شعبے میں کرایا، جہاں سے مسلم انصاری نے فاضل ادب کی ڈگری حاصل کر کے میدان کارزار میں قدم رکھا۔ انھیں عربی فارسی اور اردو پر عبور حاصل تھا۔ وہ مزید پڑھنا چاہتے تھے مگر اپنے گھر آنگن سے افلاس اور تنگ دستی کے مہیب سائے کو ختم کرنے کے مقصد سے انھوں نے بہرائچ میں مدرسہ اسلامیہ مسعودیہ میں بطور فارسی ٹیچر ملازمت ختیار کر لی۔وہ بچپن سے ہی ذہین اوربے حد حساس طالب علم تھے۔انھیں علم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔قیام بہرائچ کے دوران وہ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ہائی اسکول اور انٹر کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔1946میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھیں جلدہی ریلوے میں ملازمت مل گئی۔ریلوے کی ملازمت سے وہ 1981 میں  سبکدوش ہوئے۔صحیح معنوں میں ان کی ادبی زندگی کی شروعات ان کے ریٹائزمنٹ کے بعد شروع ہوتی ہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد انھوںنے حج کیا اور ان کے زنبیل میں جتنا شعری سرمایہ تھا انھیں شائع کرانا شروع کردیا۔اس دوران انھوں نے ہر سال ایک یا دو شعری مجموعے کی اشاعت کرائی اور دبستان گورکھپور پر بھی کام کرتے رہے۔

مسلم انصاری ایک زود گوشاعرتھے اور ہر موضوع پر شعر کہنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ امیر خسرو کی طرح بہت تیزی سے شعر کہنے والے شاعر تھے۔ اکثر وبیشتر دودواورتین تین زمینوںمیں سعی فرماتے اورشام تک تین چار غزلیںمکمل کر لیتے۔ان کے خیال میں لامتناہی پروازیں پوشیدہ تھیں۔ ان کی فکر میں بلندی اور سوز و گداز تھا۔وہ نکتہ سنج‘ رمز شناس اور دانشورانہ مطمح نظر کے شاعر تھے اور ان کی فطرت میں بے انتہاتندی تھی۔ کائنات کی تبدیلیوںاور معاشرتی نظام پر مسلم انصاری کی گہری نظر تھی۔ ان کے شعری سرمائے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی باریک بینی سے سماجی بناوٹ پر نظر رکھتے تھے۔ایک تو ان کی ذہانت اور دوسری گورکھپور کی ادبی فضا نے انھیں شعروشاعری کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے سولہ سال کی عمر میں شعر گوئی شروع کردی تھی۔بعد میں شاعری ان کے خمیر میں داخل ہو گئی۔ اٹھتے بیٹھے وہ شعری اکتسابات کی فکر میں لگے رہتے۔ ایک وقت ایسا آیا جب وہ شعر نہیں کہتے تھے بلکہ شاعری ان سے خود شعرکہلوانے کے لیے مجبور کرتی تھی۔ان کا سب سے اچھااور قابل قدر مجموعہ’ دیروحرم‘ ہے، جس کی اشاعت چالیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔دیروحرم کا عنوان انھوںنے مندرجہ ذیل شعر سے اخذ کیاہے        ؎

دیروحرم میں بحث ہوئی دل کہاں رہے

آخر یہ فیصلہ ہوابے خانماںرہے

اس وقت وہ حضرت مخمور دہلوی سے شرف تلمذ حاصل کررہے تھے۔دیروحرم کی غزلوں اور قطعات پر مومن اور میر کا براہ راست اثر دکھائی دیتاہے۔مخمور دہلوی کی استادی کا ہی اثر تھا کہ ان کی غزلیں ایک کہنہ مشق شاعر کا پتا دیتی تھیں۔ان غزلوں میں ان کی جوانی کے تجربات کا نچوڑ دکھائی دیتاہے۔ان دنوں ان کے افکار وخیالات میں بے انتہاتازگی وحرارت تھی۔ اس کا اندازہ دیروحرم کی غزلوں سے لگایا جا سکتاہے۔دیروحرم کی غزلوں میں بے انتہاروانی ، ترنم اور پرکیف لطافت کا احساس ہوتاہے۔ ان میں اتنی گرماہٹ اور تازگی ہے، جو ان کے بعد کے مجموعے میں عنقا ہے۔ دیر و حرم میں وہ کیفیاتی تازگی ہے، جوایک تجربے کار آدمی کی فکر میں ہونی چاہیے۔ ان دنوں غلام احمد فرقت کاکوروی سے ان کے شعری مراسم تھے۔ شعری نکات پر ان سے بحث بھی ہوتی رہتی تھی۔

1981میںحج کرنے کے بعد سفر حج کی تفصیلات کا ایک شعری گلدستہ ’ گلہائے حرمین‘ شائع کیا۔یہ بہت اہم کتابچہ ہے، جس میں انھوںنے حج کے  تمام ارکان کو قطعات میں پیش کیاہے۔اس کے بعد اگلے پندرہ سالوں تک ہر سال ان کا ایک شعری مجموعہ منظرعام پر آیا۔ 1986 میں ’تارنفس‘ منظر عام پر آیا۔اس مجموعے میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ اس مجموعے کو انھوں نے اپنے استاد حضرت مخمور دہلوی کے نام معنون کرتے ہوئے انھیں کافی غمناک انداز میں یاد کیاہے۔تارنفس میں ان کی مشہور نظم بھارت شامل ہے         ؎

یہاں کا ذرہ ذرہ مہ جبیں ہے

یہ بھارت کی مقدس سرزمیں ہے

 1987میںان کے دو مجموعے ایک ساتھ شائع ہوئے ایک’ ضرب گل ‘اور دوسرا ’شہر غزل ‘۔ ان مجموعوں میں نظمیں، غزلیں اور قطعات شامل ہیں۔ 1989میں ’شعلہ تر‘کی اشاعت عمل میں آئی۔1990ہائیکو نظموں کا مجموعہ ’مثلث ‘منظر عام پر آیا۔ 1992میں ’حدیث درد‘ 1993میں ’دیوارزنداں‘ شائع ہوا۔ ’ساحل ساحل کی اشاعت  1998 میں ہوئی۔ دیوار زنداں کے دیباچے میں وہ دعواکرتے ہیں کہ ’’ میرے ان شعری مجموعوں کا اگر آپ بغور مطالعہ فرمائیں تو جہاں ان کے بیشتر اشعار میں عصری تقاضو ں کے نقوش اور تصورات ومحسوسات زندگی کے نشانات پائیں گے، وہیں میری سرسری کاوشات کی جھلکیاں اور بسیارگوئی کی پرچھائیاں بھی نظر آئیں گی ‘جو لائق تحسین بھی ہو سکتی ہیں اور قابل نفرین بھی‘ جس کا انحصار آپ کے مزاج اور مذاق پر ہے۔‘‘وہ آگے کہتے ہیں کہ ’’اب تو میں عمر کی اس منزل پر پہنچ گیا ہوں جہاں سے آگے بڑھنے کے لیے ہر قدم سنبھل سنبھل کر رکھنا پڑ رہا ہے۔کیوں کہ طبیعت میں نہ تو وہ پہلی سی جولانی ہے نہ افکارمیں وہ پہلی سی روانی...‘‘

(دیوار زنداں از مسلم انصاری فیضی آرٹ پریس گورکھپور1993، ص 8[دیباچہ کہنے کی باتیں])

 1988 میں ان کا ایک شعری مجموعہ’عکس غالب‘ شائع ہوا۔جس کے ذریعے انھوں نے اردو دنیاکے سامنے اپنی شعریات کا لوہا منوایا۔ عکس غالب مسلم صاحب کی جدت طرازی کا نتیجہ ہے۔ اس مجموعے میں انھوں نے غالب کے 208اشعار کی زمین پر نئے فکر وخیال کے ساتھ نئی غزل کہی ہے۔ انھوں نے کوشش کی ہے کہ ان غزلوں کے خیالات غالب کے خیالات و افکار سے متصادم نہ ہوں۔ انھوں نے دعواکیاکہ یہ مشق، غالب کی ہمسری اور برابری کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف مشق سخن ہے۔یہ بہت انوکھی اور پرکشش پہل تھی۔ اس شعری مجموعے میں کچھ ایسے اشعاربھی ہیں جو کہیں کہیں غالب کے اشعار سے زیادہ معنی خیز اور پر خیال ہیں۔ اس کتاب کو مسلم انصاری نے بہت اہتمام سے شائع کرایا تھا۔ موٹے گلیزڈ کاغذ پر ہر صفحہ رنگین، غالب کا شعر الگ رنگ میں بحروں کا کوئی الگ رنگ اور ان کی غزل مختلف رنگ میں۔جیسے غالب کے دیوان کا پہلا شعر         ؎

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصوری کا

یہ بحر رمل کی غزل ہے۔اس کی تقطیع ہے فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن؍فاعلان

مسلم انصاری نے اسی بحرمیں 6اشعار کی ایک غزل کہہ دی ہے          ؎

راز سربستہ نہ پوچھودہر کی تعمیر کا

اک بہانہ تھا کسی کے حسن کی تشہیر کا

دیدہ و دل نے کہا ماناہے کب تدبیر کا

کیجیے کس منہ سے شکوہ کاتب تقدیر کا

جھینی جھینی سی نگاہیں سمٹا سمٹا سا شباب

ہم نے دیکھا ہے وہ رخ بھی آپ کی تصویر کا

میرے جرم اولیں کو یوں تومدت ہوگئی

ایک ہنگامہ ہے لیکن اب بھی داروگیر کا

لذت عصیاں سے جو اب تک رہے ناآشنا

وہ فرشتے جائزہ لیں گے مری تقصیر کا؟

دیکھیے کیا دن دکھاتاہے یہ حسن اتفات

پھر پیام آیا ہے مسلم اس بت بے پیر کا

ان کی شعری کائنات میں منافقت، بے راہ روی، فریب، بداخلاقی اور حالات حاضرہ جیسے عنوانات پر سیکڑوں اشعار موجود ہیں۔ ان کو الگ الگ زمرے میں شامل کیا جائے تو ان کا انتخاب بیش قیمتی ہو سکتا ہے۔ یہاں ان کی شعری کائنات پر بحث کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ میں چاہتاہوں کہ ان کی غزلوںکے بہترین اشعار کاایک انتخاب قارئین کے لیے پیش کر دیا جائے اور قارئین خود فیصلہ کریںکہ وہ کس پائے کے شاعر تھے       ؎

قفس میں تھے تو کبھی کھل کے ہنس بھی لیتے تھے

اب آشیاں میں تبسم بھی سازگار نہیں

کون قاتل ہے بتادیں گے ملاقات کے بعد

رہ گئے زندہ جو ہم اب کے فسادات کے بعد

جب اپنے شہر لوٹ کے مدت پہ آئے ہم

کتنوں سے اپنے گھر کا پتا پوچھناپڑا

ترے بدن کا تصور بھی کچھ عجیب ساتھا

کہ دوررہتے ہوئے بھی بہت قریب ساتھا

میکدہ کا تو نام ہے بدنام

فتنے اٹھتے ہیں خانقاہوں سے

یوں ترا تیر نظر دل سے پرافشاں نکلا

میراہر تارنفس تاررگ جاں نکلا

دل سے اٹھتاہے پھر دھواں ساکچھ

پھر زمانہ ہے بدگماں ساکچھ

گورکھپور کی تاریخ بہت قدیم ہے،  مگر اس کی شناخت ہمیشہ سمٹی رہی۔ اسے مسلم انصاری نے نمایاں انداز میں پیش کیا۔ دبستان گورکھپور کے ذریعے ہم کورکھپور کے عروج وزوال کی تفصیلات معلوم کر سکتے ہیں۔ دبستان گورکھپوردر اصل تاریخ گورکھپور ہے، جس میں کتنے ہی بیش قیمتی ہیرے موتی اور پوشیدہ قیمتی جواہرات کو قارئین کے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے۔ انھوں نے جو کچھ لکھا اپنے اخذو اکتساب کی بنیاد پرلکھاہے اور کسے کس طرح پیش کرنا ہے اس کا فیصلہ انھوںنے خود ہی کیا ہے۔ مواد کی عدم فراہمی کی صورت میں انھوں نے انتہائی جاں سوزی کے ساتھ اپنے خون جگر سے جس دبستان کی داستان لکھی ہے وہ انتہائی محبوب اور قابل ستائش ہے۔ انھوں نے جن شعرا کے حالات کا ذکر کیا ہے ان کے پس پشت جو کہانیاں ابھرکر سامنے آتی ہیں وہ گورکھپور کے تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی حالات کو بھی منظر عام پر لانے میں کامیاب ہیں۔اس بات کی تائید پروفیسر محمود الٰہی صاحب نے بھی کی ہے۔ ان کے خیال میں۔ ’’گورکھپور کی علمی فنی اور ادبی خدمات کا ابھی تک جائزہ نہیں لیاگیا تھا، مسلم انصاری نے اس فرض سے عہد برآ ہونے کا پروجیکٹ مرتب کیاجو دبستان گورکھپور کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔‘‘ پروفیسر احمر لاری اس بات کو کچھ توسیع کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔’’اردو کے دوسرے علاقوں اور مراکز کے ادبی کارناموں کے بارے میں مستند اور معتبر کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ابھی تک گورکھپور کی جو انیسویں صدی کے اوائل ہی سے اردوزبان وادب کا ایک اہم مرکز رہا ہے، نہ تو کوئی قابل اعتماد ادبی تاریخ لکھی گئی ہے اورنہ ہی یہاں کے قلم کاروں کا کوئی معتبر تذکرہ شائع ہوا ہے۔مجھے اس بات سے بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم انصاری صاحب نے اس کمی کو محسوس کیا، انھوںنے دبستان گورکھپور کے عنوان سے گورکھپور کے قلم کاروں کا ایک ضخیم تذکرہ ترتیب دیا ہے۔‘‘

(دبستان گورکھپوراز مسلم انصاری فیضی آرٹ پریس گورکھپور 1997۔ [سرورق کے بعد پہلا اور دوسرا  فلیپ۔])

دبستان گورکھپور نے گورکھپور کو ادبی افق پر لاکر کھڑاکر دیا۔اسے ایک نئی پہچان دی۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے مسلم انصاری کہتے ہیں۔’’لکھنؤ میں اردو شاعری جب اپنے شباب پر تھی برصغیر ہندو پاک کے تمام ممتاز مشاہیر شعراوادبایہاں کی ادبی محافل کو اپنی شرکت سے نواز چکے تھے اور کلام بلاغت نظام سے عوام کو محظوظ ومستفیض فرما چکے تھے۔‘‘ (دبستان گورکھپور، ص 14)

انھیں گورکھپور کی ادبی اہمیت وافادیت کا خوب اندازہ تھا۔’’الغرض گورکھپور میں ادبی سرگرمیاں ہمیشہ شباب پر رہیں۔ سلاطین اودھ کے دورمیں تو اس کو دبستان کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی، جس کے روح رواں عبرت، عنبر، فانی، حامی، عجیب، ریاض، وسیم، فہیم، عمر، قاصر، ریحان، بدر، قمر وغیرہ جیسے ارباب فکر وفن تھے۔‘‘

(دبستان گورکھپور، ص14)

ڈاکٹر محمد اشرف کا خیال ہے کہ۔ ’’شعر وسخن کے میدان میں درجنوں شعری گلدستے آراستہ کیے اور اس شعبے میں انھیں غیر معمولی مقبولیت بھی ملی ‘لیکن ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل ’دبستان گورکھپور‘جیسی ضخیم کتاب شائع کرکے انھوںنے نثری ادب میں ایک الگ پہچان بھی بنالی، جس میں شہر کی علمی وادبی شخصیتوں کے سوانحی خاکوں اور ان کی تفصیلات پر سیر حاصل بحث کر کے تاریخی کانامہ انجام دیا۔اس سلسلے میں ان کی جتنی ستائش کی جائے ناکافی ہے۔‘‘

(ادبی نشیمن سہ ماہی جرنل لکھنؤ۔دسمبر 2024، فروری 2025 ڈاکٹرمحمد اشرف کا مقالہ ’گورکھپور کی ادبی شخصیتیں :ماضی اور حال کے آئینے میں‘ص 20)

مسلم انصاری نے دبستان گورکھپورمیں گورکھپور کے 269شعرا کا ذکر کیاہے۔اس میں چند نام ان ادیبوں کا بھی ہے،  جنھوںنے شعر وشاعری نہیں کی مگر اپنی نثر اور شخصیت کی تابناکی سے گورکھپور کے ادبی افق کو خوب چکمایا۔ان میں علامہ ابوالفضل احسان اللہ عباسی 1865-1927 ‘قاضی تلمذ حسین 1880-1946، مہدی افادی 1868-1921 اور عبدالقیوم رسا 1896- 1984 کے نام شامل ہیں، انھوںنے اپنی عالمانہ نثر نگاری اورادبی خدمات سے گورکھپور کے ادبی منظرنامے کو خوب روشن کیا۔مسلم انصاری نے اس ضخیم تاریخ میں شعراکے ساتھ ساتھ ان نثر نگاروں کی خدمات کا بہت اہتمام سے ذکر کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے شعرا کا ذکران کے تخلص کے ردیفی ترتیب alphabatical سے کیاہے۔اس کے بھی دو باب متعین کیے۔ پہلے باب میں ان شعرا کا ذکر ہے، جو 1997سے قبل وفات پا چکے تھے اور دوسرے باب میں باحیات شعرا اور ادباکا ذکر ہے، جو گورکھپور میں یا ملک میں کہیں بھی کارہائے نمایا انجام دے رہے ہیں۔گورکھپورکے حوالے سے اردو شعروادب کی ترویج کی تاریخ بیان کرنے کے لیے انھوںنے ایک الگ باب خرچ کیاہے ، جس میں انھوں نے فورٹ ولیم کالج سے لے کر موجودہ گورکھپور کے جغرافیائی، ثقافتی اور تاریخی حصولیابیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔دبستان دلی ، لکھنؤ اور گورکھپور کی تفصیل نیز اس کتاب کے لکھنے کے محرکات کے متعلق انھوںنے حرف درحرف کے باب میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

اس کتاب کی سب سے بڑی اہمیت ان بے نام اور گمنام شاعروں کی بازیابی ہے، جو تاریخ کے دبیز پردے کے پیچھے کہیں روپوش ہو چکے تھے اور ان کی شخصیت پر گرد کی گہری تہہ جم چکی تھی۔ ان کی شخصیت پر جمی گہری پرت کو صاف کر کے انھیں ادبی دنیا سے روشناس کرانا ہی مسلم کا بڑاکارنامہ ہے۔ عام محقق کے لیے ایسے شاعروںپر ایک پیراگراف بھی لکھنا ممکن نہیں ہوتاہے، ایسے میں مسلم انصاری نے ان گمشدہ شعرا کی شخصیت، شاعری اور ادبی خدمات پر بیس سے تیس صفحات تک لکھ ڈالے ہیں۔ ان پر مواد جمع کرنا ان کے پیش نظر کتنا جوکھم adventurousکارنامہ رہا ہوگا اس کا اندازہ لگانا قدرے مشکل نہیں ہے۔ یوں تو اس کتاب میں دو درجن ایسے شعرا ہیں جو زمانے کی گردشوں میں گم ہو چکے تھے۔ مگر دو نام جن کی بازیافت مسلم انصاری نے کی، وہ انتہائی اہم ہیں۔ اول منشی مادھورام مادھو اور دوئم مولوی عبدالرحیم تمنا گورکھپوری موسوم بہ عبدالرحیم دہریہ کے نام نامی شامل ہیں۔

کتاب کے تیسرے باب کو اضافی معلومات کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ دبستان گورکھپور کو مسلم انصاری نے فورٹ ولیم کالج کے ابتدائی دنوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس باب میں فورٹ ولیم کالج، اردو لغت نویسی، اردو بحیثیت سرکاری زبان، یوروپین اور اینگلوانڈین شعرا، گورکھپور کا اصلی نام، اردو کا اولین کارنامہ اردو صحافت، اردو پریس ، اردو ادبی انجمنیں، اردو لائبریریاں،گورکھپور یونیورسٹی، باہمی گھریلو بول چال، اردو زبان وادب کے معاونین، اردو مدارس اور مہانگر کے اعداد وشمارشامل کیے گئے ہیں۔ان موضوعات پر مسلم انصاری نے مختصر مگر جامع معلومات فراہم کی ہے۔ فورٹ ولیم کالج اور اردو کے یوروپین شعرا کی تفصیل بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یوروپین شعرا کے زمرے میں تمام اینگلوانڈین شعرا کا ذکر بہت عرق ریزی سے کیاگیاہے۔ان کے اشعار نمونے کے طورپر دینا بہت بڑی کامیابی ہے۔62 یوروپین شعرا کامختصراً ذکر ہے اورنمونہ کلام بھی دیا گیاہے۔ اسی باب میں مسلم انصاری نے گورکھپور کی اردو صحافت پر بہت جامع معلومات فراہم کی ہے۔ اس میں انھوںنے کل 52اخباروں اور رسائل کا ذکر کیاہے مگر ظاہر ہے کہ ان کی شروعات ریاض خیرآبادی کے اخبار’ ریاض الاخبار‘ سے ہوئی اور اس سلسلے کو انھوںنے ’روزنامہ راپتی‘ پر ختم کیا ہے۔ راپتی کو ساجدی پریس کے مالک حامدعلی انصاری نے 1995میں جاری کیا تھا، لیکن گورکھپور کا اہم ترین اخبار مشرق تھا، جسے حکیم برہم نے 1906میں جاری کیا تھا۔ ایک اہم اخبار اشتراک تھا جسے صحافی، شاعر اور افسانہ نگار ایم کوٹھیاوی راہی نے فراق گورکھپوری کی ایما پر 1967 میں جاری کیا تھا۔اشتراک 8صفحات پر شائع ہوتا تھا۔ اس میں پورے ہفتے کی خبروں کا تجزیہ شامل ہوتا اور شعروشاعری کی ترویج کے لیے خاص صفحات متعین کیے گئے تھے۔

 

Zakir Husain Zakir

Gulshan-e-Haider, Shanti Nagar

Ward No: 10

Distt.: Deoria- 274001 (UP)

تازہ اشاعت

ہندوستان کے زمانہ قدیم و وسطیٰ کے کتب خانے، مصنف: بمل کمار دت، مترجم: سرتاج احمد عابدی

  اردو دنیا، مارچ 2025 کتب خانوں کے ارتقا کی تاریخ، تہذیب و تمدن کے ذہنی نشو و نما کا ایک ضروری باب ہے اور لائبریری کے فروغ اور علم کی ترو...