25/7/25

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

 اردو دنیا، مارچ 2025


بیسوی  صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں کئی انقلابات رونما ہوئے۔ ہندوستان میں سیاسی سطح پر تقسیم کا واقعہ پیش آیا۔ تاہم ادب میں بڑی تبدیلیاںواقع ہوئیں۔ اردوادب میں ترقی پسند تحریک، حلقہ ارباب ذوق، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے رجحانات اور نظریات نے ادب میں اسالیب، زبان، موضوعات اور خیالات میں تبدیلیاں پیدا کیں۔  شاعروں اور افسانہ نگاروںکا ایک بڑا حلقہ سامنے آیا اور اپنی تخلیقات سے اردو ادب کے دامن کو وسیع کیا۔

مظہر امام کا شمار جدید غزل گو شاعروں میں کیا جاتا ہے۔ 1943 کے آس پاس تیرہ چودہ سال کی عمر میں اپنی ادبی سفر کا آغاز کیا۔ترقی پسند تحریک کے زیر اثر  اپنے شاعری کی ابتدا کرنے کے ساتھ ہی مظہر امام نے اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ان کے ابتدائی زمانے کے کلام سے ہی ان کے ذاتی محسوسات و جذبات کی شدت اور انفرادی تجربہ اور مشاہدہ ان کے ہم عصروں میں منفرد مقام عطا کرتا ہے۔تقسیم  کے بعد جدید شاعری کے آغاز کے زمانے میں جب ترقی پسندوں کا اثر کم ہوا اور وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت مغربی افکارو  خیال کے اثرات اردو ادب پر پڑنے لگے تو اکثر ادیب اور فنکار اپنی فکر میں تبدیلی محسوس کرنے لگے۔ مظہر امام نے ہر چند کے کسی بھی تحریک یا نظریے سے خود کو کبھی بھی مکمل طور سے وابستہ نہیںکیا۔ ان کے یہاں ہونے والی تبدلیاں ادب کے تقاضوں کی غمازی ضرور کرتی ہیں۔ مظہر امام نے  نہ صرف نئی غزل کے حوالے سے شناخت قائم کی بلکہ اردو میں جو تنقیدی اور تاثراتی نوعیت کے مضامین قلم بند کیے ہیں ان مضامین سے ان کے گہرے مطالعے اور مشاہدے ان کی تخلیقی اور تنقیدی بصیرتوں کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے شاعرانہ اسلوب نگارش نے آنے والے شعرا کو متاثر بھی کیا ہے اور نئی نسل کے شعرا کے کلام میں ان کے اسلوب کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔

مظہر امام نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا افسانہ نگاری سے کی لیکن 1950 کے بعد افسانہ نگاری ترک کر کے شاعری کو اپنے افکار و خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔مظہر امام اپنی ادبی زندگی کے آغاز سے متعلق لکھتے ہیں:

’’میں نے افسانہ نگاری اور شاعری اندازاً تیرہ سال کی عمر میں شروع کر دی تھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں اس وقت کی غزلوں میں اکثر مصرعے ناموزوں ہوتے تھے اور افسانوں میں زبان و بیان کی غلطیوں کے علاوہ بعض اوقات مضحکہ خیز غیرحقیقی واقعات ہوتے تھے۔ البتہ ایک بات شاید دلچسپی کی ہو کہ اس وقت میری شاعری افسانہ نگاری کا محور حسن و عشق نہیں،زندگی کے دوسرے موضوعات تھے اور صرف افسانوں میں ہی نہیں بلکہ اشعار میں بھی جذباتی افلاطونی محبت کا مذاق اڑایا گیا تھا۔‘‘

 (مظہر امام نئی نسل کے پیش رو: مناظر عاشق ہرگانوی، نرالی دنیا پبلی کیشنز، 2003،ص 18 )

اس کے علاوہ مظہر امام کو شاعری کی طرف  مائل کرنے میں اس وقت کے ادبا و شعرا نے بھی اہم رول ادا کیا۔مظہر امام نے چونکہ شاعری کی ابتدا ترقی پسند تحریک کے زمانے میں کی اس لیے ان کے یہاں ترقی پسند تحریک کے اثرات کا ہونا لازمی تھا۔ہر چند کہ مظہر امام نے جدیدیت کے حوالے سے اپنی شناخت قائم کی۔ترقی پسند شاعروں اور دانشوروں نے ادب کو زندگی کی ترجمانی کا وسیلہ قرار دیا۔  غریبوں،مزدوروں کے استحصال کے خلاف آوازاٹھانے کا جذبہ،سرمایہ داروں  اور حاکم طبقوں کی مخالفت اس تحریک اور اس سے منسلک دانشوروں کا اہم کارنامہ تھا۔انھوں نے ادب کو ایک خاص مقصد کے تحت تخلیق کیا،جس نے عوام کے دکھوں کی ترجمانی اور ان کی زندگی کو دردو آلام اور مصائب سے نکال کر خوشیوںکی راہ دکھانا اور تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔

بقول خلیل الرحمن اعظمی:

 ’’ہندوستانی ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں ہونے والے تغیرات کو الفاظ اور ہیئت کا لباس دیں اور ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر لگانے میں ممدو معاون ثابت ہوں۔‘‘

(اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک: خلیل الر حمن اعظمی،ص 32)

سردار جعفری کا خیال ہے کہ :

 ’’اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ ترقی پسند تحریک کا ایک بنیادی کردارہے اور ہماری ساری جدوجہدیہ ہے کہ ہمارا ادب عوامی ادب بنے۔

(ترقی پسند ادب:سردار جعفری، ص11)

مظہر امام کی غزلیہ شاعری کا ذکر ہو چاہے ان کی نظموں کی بات چلے۔ ان کے متاخرین اور پیش رو شعرا اور ناقدین سبھی نے ان کے کلام کے حسن،ان کے دلفریب اسلوب اور فکروفن پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کی انفرادیت کا اعتراف کیا ہے۔

شمس الر حمن فاروقی ان کی شاعرانہ عظمت کے بارے میں رطب اللسان ہیں:

’’مظہر امام کو اپنے لہجے کی انفرادیت ثابت کرنے کے لیے کسی خارجی سہارے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حیات و کائنات سے ان کا رشتہ ہی ایسا ہے کہ اس کا تصور کسی روایتی فکر سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ان کا کرب ان کا تجسس،ان کی برہمی، ان کی بے چارگی، پر تفکرمحزونی ان عناصر کو الگ الگ کر کے دیکھیںتو یہ عصر حاضر کی عمومی فضامیں جگہ جگہ مل جائیںگے۔ لیکن کسی شعری فکر کی انفرادیت نے ان مختلف دھاروں کو یکجاکر کے انھیںاپنے کوزے میں بند کر لیا ہے اور یہی وہ نقشہ ہے جس میں کم تر درجے کے شعرامات کھا جاتے ہیں۔‘‘ ( رابطہ،مظہر امام  نمبرص125)

جدیدیت کے زیراثر وجودی فکر کے تناظر میں مظہر امام کی نظم ’ اشتراک‘ کا مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

’’خیر اچھا ہوا تم بھی میرے قبیلے میں آہی گئے

 اس قبیلے میں کوئی کسی کا نہیں

 ایک غم کے سوا  چہرہ  اترا ہوا  بال بکھرے ہوئے 

  نیند اچٹی ہوئی

  خیر اچھا ہوا تم بھی میرے قبیلے میں آہی گئے

   آئو ہم لوگ جینے کی کوشش کریں ‘‘

  ایک ودسری نظم  بہ عنوان’دھوپ میں ایک مشورہ

اور تم

 اپنے آدرش کی لاش کو

    اجنبی، سرد، جلتی ہوئی رہ گزر سے پرے پھینک کر

اپنا مفلوج غصہ لیے لوٹ آئوگے

 پھر گڑ گڑاتی ہوئی التجا...

مجھ کو پہچاننے کی نہ کوشش کرو !‘

ڈاکٹر وحید اختر نے لکھا کہ:

’’مظہر امام کی نظمیں سیاست دوراں کو سمجھنے کی کوششوںسے بھی عبارت ہیں اور غم ذات و غم جاناں  کی آئینہ دار بھی۔ وہ آج کے ہر سوچنے والے حساس ذہن کی طرح خود کو اپنے عہد میں اجنبی مانتے ہیں لیکن چونکہ یہی احساس اجنبیت آج کے شعر و ادب کا سب سے اہم موضوع ہے،  اس لیے وہ اپنے ہم عصروں کے درمیان نہیں۔نظمیں ہو ں یا غزلیں دونوں ایک ہی دل و دماغ کی پیداوار ہیں۔‘‘

(زخم تمنا: نئی شاعری کی ایک قابل مطالعہ مثال، ص 85-86)

مظہر امام کی غزلیں جدیدیت اور نئی غزل کے منظر نامے پر  بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کی انفرادیت کی نمایا مثال بھی ہیں اور کسی نہ کسی حد تک مظہر امام کی شہرت و مقبولیت میں اضافے کا سبب ہے        ؎

اب تو کچھ بھی یاد نہیں ہے

ہم نے تم کو چاہا ہوگا

یہ آرزو تھی کہ یک رنگ ہو کہ جی لیتا

مگر وہ آنکھ جو شیطاں بھی ہے فرشتہ بھی

چیخوں کے ازدہام میں تنہا ہے آدمی

اے زندگی بتا کہ کدھر جارہی ہے تو؟

بیٹھیں کچھ دیر مہکتی ہوئی یادو ںکے تلے

شکر ہے آج ذرا کار جہاں بھی کم ہے

مظہر امام کی شخصیت ہمہ گیر ہے۔انھوںنے اردو شعروادب کی جو خدمات انجام دیں، اس کا اعتراف کم وبیش تمام ناقدین نے کیا ہے۔مظہر امام کا شمار یوں تو غزل گو شعرا میں ہوتا ہے مگر انھوںنے نظموں میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ساتھ ہی ساتھ آزاد غزل کاتجربہ کرکے بہت سی آزاد  غزلیں بھی لکھیں۔اس کے علاوہ  مظہر امام نے تنقید کے میدان میں بھی اپنی شناخت قائم کی۔ابتدائی چھ دہایئوں کے طویل سفر میںان کی متعد دتصانیف منظر عام پر آئیں۔ان کی شعری تصانیف میں پانچ کتابیں ہیںجو غزلوں، نظموں، خاکوں اور تنقیدی موضوعات پر مشتمل ہیں۔

زخم تمنا،  رشتہ گونگے سفر کا، پچھلے موسم کا پھول،  بند ہوتا ہوا  بازار،  پالکی کہکشاں کی،اور سات کتابیں جو  نثری  تصانیف پر مشتمل  ہیں:  آتی جاتی لہریں، ایک  لہر آتی ہوئی، اکثر یاد آتے ہیں، آزاد غزل کا منظر نامہ، جمیل مظہری، تنقید نما، نگاہ طائرانہ قابل ذکر ہیں۔مظہر امام کو ان کی مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات ملے۔1987میں ساہتیہ اکیڈمی ایواڈ اور شعری مجموعہ ’ پچھلے موسم کا پھول‘1994،  غالب  ایواڈ برائے  اردو شاعری اہم ہیں۔

مظہر امام نے اپنی شاعری اور نثر کے حوالے سے  جواثاثہ یادگار چھوڑا ہے وہ انھیں  اپنے معاصرین میں نایاب حیثیت عطا کرتا ہے۔ غزل اور نظم میں اپنی  انفرادی شناخت قائم کرنے کے علاوہ آزاد غزل کا تجربہ بھی مظہر امام کا اہم کارنامہ ہے۔ ان کی تنقیدی کتابیں ان کے نظریات، رجحانات ان کی خوبیوں اور خامیوں کو بھی پیش کرتی ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے،ادب کی اہم شخصیات کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔مختصر یہ کہ مظہر امام کی شاعری اور فن اپنی مختلف خوبیوں کی بدولت ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے       ؎

یہ راہِ خار و سنگ مرا انتخاب بھی

جو مرحلے بھی آئے وہ حسب قیاس تھے

 

Nayyar Wahab

  Research Scholar,

V.K.S University Ara-  802302 (Bihar)

Mob.: 9905244346 

mahboobcam@gmail.com

 

 

فراق شناسی ناقدین کے حوالے سے، مضمون نگار: تجمل حسین

 اردو دنیا، مارچ  2025


روایت کی پاسداری اور جدید آہنگ کی آمیزش سے جن شاعروں نے اپنی شاعری کا خمیر تیار کیا۔ان میں فراق، یگانہ اور شاد عارفی کے نام کافی نمایاں ہیں۔ فراق اپنی شاعری میں نئے موضوعات، نئے آہنگ کے ساتھ ساتھ اسلوب کی سطح پر بھی جدت پسند تھے۔ انھوں نے ہندو فلسفہ اور ہندو دیومالا کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے پرو کر غزل کی ایرانی تہذیب میں ہندوستانی فکر و فلسفہ کی خوبصورت آمیزش کی ہے۔ فراق نے اپنی شاعری کے ذریعے نئی نسل کے غزل گوشعرا کی ذہنی رہنمائی کی ہے۔ بقول ابو الکلام قاسمی فراق نے نئی نسل کے لوگوں کی رجحان سازی کی ہے۔ اس لیے فراق کو رجحان ساز شاعر قرار دینا کوئی مبالغہ نہیںہے۔ فراق نے 1950 کے آس پاس شاعری کے منظرنامے پر نمودار ہونے والے شعرا کی ذہنی تربیت کی اور نئی نسل کے شعرا نے ان کے اسلوب کو اپنایا بھی۔ خلیل الرحمن اعظمی، ناصر کاظمی اوراحمد مشتاق جیسے شاعروں کے کلام میں فراق کی ذہنی تربیت اور ان کے اسلوب کا اثر صاف نظر آتا ہے۔ فراق کا ایک شعر ہے         ؎

تیرے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس

کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں

اس شعر میں نئی زندگی کے تقاضے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ غزل کی روایتی شاعری میں پہلو میں ہونا قرب کی علامت اور محبت کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جب کہ فراق پہلو میں ہو کر بھی دور ہونے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں          ؎

ایسی راتیں بھی ہم پہ گزری ہیں

تیرے پہلو میں تیری یاد آئی

 (خلیل الرحمن اعظمی)

پہلو میں ہونا عشق کی انتہا اور وصال کا نتیجہ ہوتا تھا مگر نئے اسلوب نے پہلو میں یاد آنے کے استعارے سے دوری کا احساس اور تنہائی کے خوف کا ایک پیکر تخلیق کیا ہے۔ ابو الکلام قاسمی نے فراق کو عشق کی مختلف کیفیتوں اور عشق کے تجربوں کے بیان کا شاعر قرار دیا ہے۔ محمد حسن عسکری نے کہا ہے کہ فراق نے محبوب کو ایسی معروضی حیثیت دی ہے جو اردو شاعری میں پہلے اسے حاصل نہیں تھی۔ انھوں نے محبوب کو عاشق کی ہستی سے الگ کر کے بھی دیکھا ہے۔ ان کا محبوب ایک کردار ہے اور اس کردار کی نفسیات بھی سیدھی سادی نہیں ہے۔ ایسی ہی پیچ در پیچ ہے جیسے عاشق کی نفسیات۔ یہ بات سچ ہے کہ فراق نے محبوب کی آزاد ہستی کی ترجمانی کی لیکن فراق کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے عشق کی مختلف کیفیات کو اور عشق کے غیر رسمی ارتعاشات کو بھی حسی پیکروں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ ابو الکلام قاسمی لکھتے ہیں:

’’بیسویں صدی کے معاشرے نے احساس کے جن نئے گوشوں کا اضافہ کیا ہے ان کی جھلک فراق کے اشعار میں ضرور دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر آپ شعروں میں فراق کے لہجے کا تعین کریں تو پتا چلتا ہے کہ وہ اپنا لہجہ استفہامیہ رکھتے ہیں اور یہ استفہام بھی خود کلامی کا انداز لیے ہوئے ہے۔‘‘(شاعری کی تنقید،ص:83)

فراق نے اپنی شاعری میں عشق کی مختلف کیفیات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ کلیم الدین احمد جیسے سخت گیر نقاد نے فراق کی شاعری میں بہت سارے سقم کی نشاندہی کے باوجود ان کی شاعری کی تعریف کی ہے۔ محمد حسن عسکری فراق کے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ عقیل احمد نے بھی فراق کی شاعری کی تعریف و توصیف بیان کی ہے۔ فراق کا اسطور قائم کرنے میں نیاز فتح پوری کا نہایت اہم رول رہا ہے۔ انھوں نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’یو پی کا ایک نوجوان ہندو شاعر فراق گورکھپوری‘‘ جس میں انھوں نے فراق کی شاعری میں دلکشی، معنی آفرینی اور کیفیت کی نشاندہی کی تھی۔ یہ مضمون 1937 میں شائع ہوا تھا۔ فراق کا اسطور قائم کرنے میں یہ مضمون سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے نیا زفتح پوری کے مضمون کے عنوان کی سخت گرفت کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ جب نیاز فتح پوری فراق کو نوجوان شاعر کے لقب سے نواز رہے تھے اس وقت فراق کی عمر چالیس سے تجاوز کر چکی تھی۔ اسی عمر میں میر نے اپنا پہلا دیوان مرتب کر لیا تھا۔ غالب نے اپنی مشہور غزلیں چوبیس برس کی عمر میں کہی تھیں۔ کیٹس Keats شیلی Shelly بالترتیب پچیس برس اور انتیس برس کی عمر میں فوت کر گئے۔ ان نوجوان شاعروں میں لہجے کے انوکھے پن اور  اسلوب کی جدت کی وجہ سے جو پختگی نظر آتی ہے۔ فراق کی چالیس سالہ نوجوانی کی شاعری میں وہ پختگی نظر نہیں آتی۔ شمس الرحمن فاروقی آل احمد سرور کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ فراق کی شاعری میں ان کی آخری زندگی تک پختگی نہیں آسکی۔ ان کے اسلوب کا تعین اس لیے بھی مشکل ہے کہ فراق نے اپنا کوئی اسلوب متعین نہیں کیا بلکہ وہ ہوا کی طرح بہتے گئے جب کہ میر کے پہلے دیوان میں جو پختگی نظر آتی ہے اور ان کا جو لہجہ متعین ہوتا ہے وہ ان کے چھٹے دیوان میں بھی نظر آتا ہے۔ یعنی میر نے شاعرانہ پختگی اور اسلوب کی ندرت جو اپنی اوائل عمر میں حاصل کر لیا تھا فراق آخری عمر تک بھی وہ پختگی نہ پا سکے اور نہ ہی اسلوب میں اپنی انفرادیت حاصل کر سکے۔ شمس الرحمن فاروقی نے فراق کو اردو غزل کی روایت سے انجان بتایا ہے جب کہ ابوالکلام قاسمی نے فراق کی شاعری اور غزل گوئی کو اردو غزل کی روایت کی توسیع اور تسلسل قرار دیا ہے۔ ابو الکلام قاسمی کہتے ہیں کہ فراق نے غزل کی روایت کی پاسداری کی ہے مگر روایت میں انھوں نے جدید فکر کو شامل بھی کیا ہے۔ اس لیے فراق کے یہاں روایتوں کی تقلید نہیں بلکہ احترام کا جذبہ نظر آتا ہے۔ فراق کی شاعری میں ہندوستانی عناصر کی شمولیت اور ہندو دیو مالا کو اردو کا غزلیہ آہنگ دینے کی بات بھی متواتر دہرائی جاتی ہے حالانکہ شمس الرحمن فاروقی نے اس بات کا انکار کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ فراق کی شاعری کی دوسری صنف کے لیے ہندوستانی عناصر کی شمولیت کی بات کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ ان کی رباعیوں میں اس کی نشاندہی کی جا سکتی ہو مگر غزل میں ہندو دیو مالا اور ہندو فلسفے کی شمولیت سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے مضامین غالب کی شاعری میں بھی ملتے ہیں۔ جب کہ ابو الکلام قاسمی فراق کی شاعری میں ہند اسلامی کلچر کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور فراق کی شاعری میں ہندوستانی عناصر پر اصرار بھی کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ ان کی لفظیات کس حد تک ان کی شاعری کے مزاج کو ہندوستانی ثابت کرتی ہے تو اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ انھوں نے سیاق و سباق سے اپنے لفظوں کا مزاج متعین کرنے اور بعض مشتقات بنانے میں ہندی سے خاصا استفادہ کیا ہے۔ الفاظ کے استعمال سے ہندوستانیت یا ہندو دیو مالا کا تاثر قائم کرنے کا عمل قدیم شعراکی غزلوں میں بھی ملتا ہے مگر اس سلسلے میں فراق کا امتیاز یہ ہے کہ وہ محض لفظ یا اس کے مشتقات تک ہی خود کو محدود نہیں رکھتے بلکہ کبھی کبھی وہ ایسے حسی پیکر تراشتے ہیں جس کے پہلے حصے سے ایک طرف اسلامی روایت کا پس منظر ابھرتا ہے تو دوسری طرف ہندو دیو مالا یا اجتماعی حافظہ پیکر کے کسی دوسرے حسی پیکر کو متحرک کر دیتا ہے ان کا شعر ہے       ؎

سکوت توڑ کہ قم کی صدا ہے تیری صدا

نظر اٹھا کہ ان آنکھوں کا رس ہے سنجیون

یا اسی طرح ان کی غزلوں میں جگہ جگہ ایسے اشعار ملتے ہیں جن کی فضا یا جن کا کوئی نہ کوئی پہلو مقامی سرزمین اور ہندی زبان کی روح سے مربوط اور اس سے کسب فیض حاصل کرتا معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘

(شاعری کی تنقید،ص:86)

یہ سچ ہے کہ فراق نے اپنی شاعری میں ہندی الفاظ کا استعمال کیا ہے اور ان کی غزل میں ہندی اور ہندوستانی عناصر کی منظر کشی ہوئی ہے جیسے ان کا ایک شعر ہے          ؎

چپکے چپکے اٹھ رہا ہے مدھ بھرے سینوں میں درد

دھیمے دھیمے چل رہی ہے عشق کی پروائیاں

فراق نے ہندی الفاظ کو خوبصورتی سے برتا بھی ہے مگر قاسمی صاحب نے ہند اسلامی کلچر کی نمائندگی کرنے والے جس شعر کو نقل کیا ہے یا وہ شعر جس میں عربی کا ایک لفظ استعمال ہوا ہے اور اس کی بنیاد پر فراق کو ہند اسلامی کلچر کا ترجمان یا عکاسی کرنے والا شاعر بتایا ہے۔ وہ دراصل دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابو الکلام قاسمی نے اس نوع کا کوئی دوسرا شعر نقل نہیں کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہند اسلامی کلچر کی عکاسی کے لیے اسلامی تاریخ سے جس قدر واقفیت ہونی چاہیے اور عربی و فارسی زبان پر جس قدر گرفت ہونی چاہیے یہ دونوں باتیں فراق کے یہاں مفقود تھیں بلکہ فراق کی معلومات فارسی میں بالکل سطحی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فراق کی شاعری میں فارسیت نہیں ملتی اور جہاں کہیں انھوں نے بہ تکلف فارسی استعمال کرنا چاہا اس کا مناسب استعمال نہ کر سکے اور فارسی سے گہری واقفیت کے بغیر اسلامی کلچر کی ترجمانی ممکن نہیںہے۔ فراق کی شاعری میں فارسیت کی کمی کی شکایت ایک بار رشید احمد صدیقی نے بھی کی تھی جس پر فاروقی صاحب نے کہا تھا کہ رشید احمد صدیقی نے فراق کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ فراق فارسی الفاظ کے معانی و مفاہیم سے تو باخبر تھے مگر اس لفظ کی خاصیت اور اس کے مزاج سے ناواقف تھے جس کی وجہ سے وہ فارسی کے الفاظ کو پوری توانائی سے برتنے میں ناکام رہے۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں:

’’فراق صاحب کا معاملہ یہ تھا کہ وہ فارسی کے الفاظ اور اس کے لغوی معنی تو اکثر جانتے تھے لیکن ان کی روح اور مزاج سے بے خبر تھے۔ اس لیے انھوں نے فارسی عربی الفاظ کو اس طرح برتا کہ وہ شعر میں اپنا پورا فائدہ نہیں دیتے اور کبھی کبھی تو اس طرح برتا کہ زبان کا مزاج اس کو کبھی قبول نہیں کر سکا۔ ’جلوہ‘ کا استعمال ان کے یہاں ’دیکھو ہو‘ والی غزل کے ایک شعر میں ہے۔ یہاں یہ لفظ شعر کا حسن بڑھانے کے بجائے مفہوم کو خبط کر رہا ہے         ؎

کبھی بنا دو ہو سینے کو جلوؤں سے رشک گلزار

کبھی رنگ رخ بن کر تم یاد آتے ہی اڑ جاؤ ہو

زہے آب گل کی یہ کیمیا ہے چمن کے معجزہ نمو

خزاں ہے کچھ نہ بہار کچھ وہی خار وخس وہی رنگ و بو

میری شاعری کا یہ آئینہ کرے ایسے کو تیرے روبرو

جو تیری ہی طرح ہو سر بسر جو تجھ ہی سے ملتا ہو ہو بہو

وہ چمن پرست بھی ہیں جنھیں یہ خبر ہوئی ہی نہ آج تک

کہ گلوں کی جس سے ہے پرورش رگ خار میں ہے وہی لہو

ان اشعار میں ’کیمیا‘ رنگ و بو، سر بسر، سوز، رنگ نشاط، ایسے الفاظ اور فقرے ہیں جو یا تو پوری طرح کارگر نہیں ہے مثلاً رنگ و بو کیونکہ اس میں اور ’خار وخس‘ میں مناسبت نہیں ہے اور’ سر بسر‘ کیونکہ’ موبہ مو‘ جیسے خوبصورت فقرے کے سامنے’ سربلند‘ نہیں ہو سکتا۔ ’کیمیا‘ جس کا تعلق نمود سے تو ہو سکتا ہے نمو سے نہیں اور’’ سوز و ساز‘‘ جس کا بہار سے اور غم کی بو آنے سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

(فراق شاعر اور شخص،شمیم حنفی،مصطفی بک ٹریڈر، 1983،ص: 64)

اس اقتباس میں فاروقی صاحب اپنے مخصوص وضاحتی انداز میں فراق کی فارسی الفاظ کے مزاج اور کیفیت سے عدم واقفیت کا اظہار کر چکے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اردو غزل کی روایت میں جو چیز بنیادی حیثیت رکھتی ہے یعنی فارسی اس سے فراق بہرہ مند نہیں تھے تو پھر ہند اسلامی کلچر کی ترجمانی کی بات ہی فارسی سے عدم واقفیت کی بنا پر ختم ہو جاتی ہے کہ ہند اسلامی کلچر کا خمیر ہی عربی و فارسی سے اٹھتا ہے۔ البتہ قاسمی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ فراق نے ہندو تہذیب اور ہندوستانی عناصر کو خوبصورتی سے اردو کے غزلیہ آہنگ میں ڈھالا ہے۔ حالاںکہ دوسرے شعرا نے بھی ہندو تہذیب و ثقافت کو اپنی شاعری میں شامل کیا ہے مگر فراق اس معنی میں اہم ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے الفاظ سے تمام مناظر کو ہندوستانی رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ فراق نے میر کے طرز میں بھی غزلیں کہی ہیںاور خود فراق نے طرز میر کو بڑے شدومد کے ساتھ بیان کیا ہے۔ طرزِ میر میں فراق کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے        ؎

حسن کو اتنا یاد کرو ہو چلتے پھرتے سائے تھے

ان کو مٹے تو مدت گزری نام و نشان کیا پوچھو ہو

کتنی وحشت اتنی وحشت صدقے اچھی آنکھوں کے

تم نہ ہرن ہو میں نہ شکاری دور اتنا کیوں بھاگو ہو

ان اشعار میں طرزِ میر کے نام پر وہی ’آؤ ہو‘،’جاؤ ہو‘ اور ’بھاگو ہو‘ جیسے الفاظ ملیں گے۔ نہ میر جیسی تہہ داری ہے نہ میر کا استعاراتی اسلوب ہے اور نہ ہی میر جیسی کفایت لفظی۔ فراق صاحب معمولی مطالب کے بیان کے لیے بھی بہت سارے الفاظ کا ضیاع کرتے ہیں جن میں بعض دفعہ ربط و تسلسل کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ میر کی شاعری میں دھیمے پن اور استعاراتی نظام سے جو گداز اور کیفیت پیدا ہوتی ہے اس سے فراق کے طرز میر والی شاعری یکسر خالی معلوم ہوتی ہے        ؎

اک شخص کے مر جانے سے کیا ہو جائے ہے لیکن

ہم جیسے کم ہوئے ہیں پیدا پچھتاؤ گے دیکھو ہو   فراق

یہ شعر میر کے اس بے مثال شعر کے طرز میں کہا گیا ہے      ؎

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے

پچھتاؤ گے سنو یہ بستی اجاڑ کے

 اس شعر میں میر شہر دل کہ اجڑنے اور برباد ہونے پر کوئی آہ و فغاں نہیں کرتے ہیں، کسی قسم کے رنج  و الم کا اظہار نہیں کرتے۔ وہ تو یہ بھی نہیں کہتے کہ میرا شہر دل اجاڑ کر تم پچھتاؤ گے۔ بس مطلق دل کے نگر کے اجاڑنے اور برباد کرنے سے منع کر رہے ہیں۔ کیونکہ میر کو اپنے دل کے ٹوٹنے اور شہر دل کے اجڑنے سے کہیں زیادہ ملال اس بات کا ہے کہ معشوق کو پچھتاوا نہیں ہوگا۔ اس لیے میر اپنے دل کے ٹوٹنے کی تکلیف سے بے پرواہ ہو کر ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح معشوق اس پچھتاوے سے بچ جائے۔ اس مضمون میں ایک طرح کی بلندی ہے۔ عشق کے پاکیزہ اور فطری جذبے کی سچی ترجمانی ہے۔ جب کہ فراق کے شعر میں سوائے خود ستائی اور خود نمائی کے کچھ نہیں ہے۔ پہلے مصرعے میں وہ تجاہل عارفانہ سے کام تو لیتے ہیں کہ ایک شخص کے مر جانے سے کیا ہو جائے گا مگر اگلے مصرعے میں ’ہم جس سے کم ہوئے ہیں پیدا‘ کہہ کر خود کو یکتہ روزگار کہنے کا موقع نہیں چوکتے۔جب کہ میر یہ نہیں کہتے کہ میرا دل یا میر کا دل توڑ کر پچھتاؤ گے۔ شمس الرحمن فاروقی نے فراق کی شاعری میں تہہ داری و استعاراتی اسلوب کے فقدان اور ان کی شاعری میں لفظی و معنوی ربط کی کمی پر تنقید کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’جہاں تک استعاراتی اسلوب کا مسئلہ ہے اس کی وضاحت کے لیے اتنا کہنا کافی ہے کہ ایک بار جی کڑا کر کے آپ میر کے کلیات ِغزل کے کوئی چھ صفحے پڑھ لیجئے اور دیکھیے کہ ایک ہی تجربے یا ایک ہی طرح کے تجربے مثلاً معشوق کی سردمہری، عاشق کی نا رسائی، کائنات کا غیر ہمدرد اور اجنبی ہونا کے لیے کتنے استعارے میر نے استعمال کیے ہیں پھر فراق صاحب کے کلیات پر یہی تجربہ کیجیے۔ حقیقت خود ہی کھل جائے گی۔‘‘

(فراق شاعر اور شخص،ص:63)

لیکن ابوالکلام قاسمی فاروقی صاحب کی اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فراق صاحب کے یہاں تشبیہ و استعارے کا خوبصورت نظام موجود ہے جس سے وہ لفظوں کی مدد سے ایک سی امیج بناتے ہیں اور پیکر تراشی کرتے ہیں۔ فراق کے تخلیق کردہ پیکروں میں ان کی انفرادیت نمایاں ہوتی ہے۔ اس لیے قاسمی صاحب فراق کے یہاں موجود تشبیہ و استعارے پر مبنی امیج سازی اور پیکر تراشی کو بنیاد بنا کر فراق کی شاعرانہ حسن کاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر رسمی تشبیہات و استعارات پر مبنی امیج سازی کو اگر فراق کی شاعرانہ حسن کاری کا زاویہ نظر بنا کر نئے سرے سے دیکھا جائے تو ہو سکتا ہے فراق کے مطالعے کا کوئی ایسا تناظر فراہم کر دے جس سے فراق کی شاعری کے تعین قدر کا ایسا وسیلہ ہاتھ آجائے جس کو بہت کم بروئے کار لایا گیا ہے۔

(شاعری کی تنقید،ص:77)

یقینا فراق صاحب کی شاعری کو مختلف اور متعدد زاویہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور تعین قدر کے ان وسیلوں کو بھی بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جو ان کے شاعرانہ نظام کو سمجھنے میں معاون ہو۔

 

Tajammul Husain

Research Scholar JNU

Mob.: 7905623176

Email: Rahatzubeen@gmai.com

 

23/7/25

ارنیسٹ ہیمنگوے، مصنف: سلامت اللہ خاں

 اردو دنیا، مارچ 2025


ارنیسٹ ملرہیمنگوے (Ernest Miller Heming Way)، 21 جولائی 1899 کو شکاگو کے نواحی قصبہ اوک پارک (Oak Park) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ڈاکٹر کلیرنس ایڈمنڈس ہیمنگوے (Clarence Edmonds Hemingway) معالج تھے جنھوں نے شکاگو کے میڈیکل کالج سے ایم، ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی اور اوک پارک میں پریکٹس کرتے تھے۔ ان کو سکے اور ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا لیکن ان کو خصوصی دلچسپی ہر طرح کے شکار اور کھانا پکانے سے تھی۔ ارنیسٹ کی والدہ گریس ہیمنگوے (Grace Hemingway) نے اوک پارک ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کی مدھم سر (Contralto) آواز بہت اچھی تھی، اس لیے ان کے اساتذہ نے ان کی ہمت افزائی کی تھی کہ وہ موسیقی کو اپنا کیریئر (Career) بنائیں اور اوپیرا (Opera) میں حصہ لیں۔ بچپن میں ان کو قرمزی بخار (Scarlet Fever) ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں کمزور ہوگئی تھیں اور تیز روشنی میں ان کے سر میں درد ہوجاتا تھا۔ اسٹیج کی فٹ لائٹ کو بھی وہ برداشت نہیں کرپاتی تھیں۔ وہ اچھے ڈیل ڈول کی خاتون تھیں۔ ان کے نقش و نگار نمایاں اور آنکھیں نیلی تھیں۔ موسیقی سے گہرے شغف کے علاوہ ان کو مذہب سے گہرا لگاؤ تھا اور وہ مقامی گرجا گھر کی سرگرم رکن تھیں اور اس کے فلاحی کاموں میں پرجوش حصہ لیتی تھیں۔ ڈاکٹر ہیمنگوے سے ان کی شادی اکتوبر 1896 میں ہوئی اور شادی کے بعد ڈاکٹر ہیمنگوے اپنی سسرال منتقل ہوگئے جو ان کے والدین کے گھر کے سامنے سڑک کے پار تھی۔ ارنیسٹ ہیمنگوے کی ولادت نانیہال میں ہوئی۔

پیدائش کے وقت وہ تندرست تھے۔ ان کا وزن ساڑھے نو پونڈ اور قد تیئس انچ تھا۔ بچپن میں وہ نہایت لطف اندوزی سے کھاتے، سوتے اور کھیلتے تھے۔ وہ بہت خوش مزاج تھے۔ وہ ناچتے، کودتے اور لکڑی کے گھوڑے پر سوار ہوکر دوڑتے اور شیر کی آواز میں گرجتے تھے۔ رات میں سونے سے پہلے وہ اپنی والدہ کے ساتھ دو زانو ہوکر دعا میں شریک ہوتے تھے، لیکن ایک دو دعائیہ جملوں کے بعد ہی ’آمین‘ کہہ کر بستر پر چڑھ جاتے تھے۔ دو سال سے کچھ کم عمر میں ہی وہ ’ہگ۔ہگ‘ کرتے بھیڑوں کو ہانکتے دیکھے گئے۔ تین سال کی عمر میں یہ پوچھے جانے پر کہ وہ کس چیز سے ڈرتے ہیں، وہ بڑے جوش اور یقین سے چلاتے (Fraid Nothing) یعنی کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔ ان کو سلائی سے بھی دلچسپی تھی اور سلائی کے کمرے میں ان کی والدہ نے ایک پرانی پتلون رکھ چھوڑی تھی جس پر وہ اپنی سلائی کی مشق ستم فرماتے تھے۔ تیسری سالگرہ پر وہ اپنے والد کے ساتھ مچھلی کے شکار پر پہلی مرتبہ گئے۔ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں وہ بغیر کسی مدد کے اپنا لباس تبدیل کرلیتے تھے۔ لکڑی کے گٹوں سے وہ قلعے اور توپیں بنایا کرتے تھے۔ سرکس دیکھ کر آتے تو ہاتھی کی چال کی نقل اتارتے تھے اور بڑے انہماک سے قلابازیاں کھاتے تھے۔ وہ ہر طرح کی کہانی بڑے شوق سے سنتے تھے۔ چڑیوں کی ایک باتصویر کتاب ان کی پسندیدہ تھی جس میں دیکھ کر وہ چڑیوں کو پہچان لیتے تھے۔ وہ ایک نیچر اسٹڈی (Nature Study) گروپ کے بھی ممبر تھے اور اپنے سے بڑی عمر کے لڑکوں کے ساتھ، اپنے والد کے ہمراہ جنگلوں میں جاتے تھے اور جھاڑیوں میں چڑیوں کو پہچاننے اور ان کا نام یاد رکھنے کی سعی کرتے تھے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان کے بچپن کی بیشتر خصوصیات غیرمعمولی حد تک بڑی عمر میں بھی قائم رہیں۔ ان کا یہ قول کہ ان کو کسی چیز کا ڈر نہیں ان کے ضابطۂ عمل کے لیے مشعل راہ رہا اور زندگی کی ہر مصیبت اور افتاد میں وہ اس پرکاربند رہے۔ وہ تمام عمر جرأت، حوصلہ مندی اور قوت برداشت کے حامی رہے جس کی تعلیم بچپن ہی سے ان کے ذہن پر نقش ہوگئی تھی۔ اس طرح فطرت کے خارجی مناظر سے محبت اور سیر و شکر کا شوق ان کو بچپن ہی سے تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے جنگلوں کی وسعت میں، جھیل اور سمندر کی سطح پر، آزادی کا احساس اور اس سے حاصل کردہ مسرت تمام زندگی وہ محسوس کرتے رہے۔ اپنے والد کی طرح وہ کھانے کے شوقین تھے اور بچپن ہی سے مچھلی، جس کو وہ فش کے بجائے ہش (Hish) کہتے تھے، اور شکار کا گوشت انھیں بہت پسند تھا۔ کچے جنگلی پیاز کے سینڈوچ جو ان کے والد نے بنانا سیکھا تھا وہ ہمیشہ ان کو مرغوب رہے۔ جسمانی محنت کے کام وہ نوجوانی کے بعد بالعموم نہیں کرتے تھے، لیکن ان کو ایسے کھیلوں سے دلچسپی تھی جس میں جسمانی مشقت لازمی تھی۔ ان کو تیراکی چہل قدمی، ہائیکنگ (Hiking) سے عمر بھر محبت رہی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ذہن صاف اور جسم صحت مند رہتا ہے۔ وہ ہر کام خوش اسلوبی سے کرنے کے قائل تھے اور ان سب کی تعلیم ان کے والد نے ان کو بچپن میں دی تھی۔ موسیقی کے معاملے میں وہ بچپن ہی سے کمزور تھے اور اپنے والد کی طرح ہمیشہ بے سرے رہے حالانکہ ان کی والدہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ اس فن میں مہارت حاصل کریں، لیکن مصوری، خصوصاً روغنی تصویر (Oil Painting) کی قدرشناسی میں وہ کافی درک رکھتے تھے۔ اسی طرح تخلیقی عمل کا ذوق ان کو اپنی والدہ سے وراثت میں ملا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کا رجحان افسانوی ادب کی طرف تھا جو ان کی والدہ کے لیے ہمیشہ حیران کن رہا۔

گرامر اسکول میں اپنی تعلیم کی ابتدائی منزلیں طے کرنے کے بعد ہیمنگوے ستمبر 1913 میں اوک پارک کے ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ ان کے مضامین الجبرا، لاطینی، انگریزی اور جنرل سائنس تھے۔ وہ انگریزی کے علاوہ بقیہ سبھی مضامین سے خائف تھے۔ لاطینی زبان انھیں اتنی مشکل معلوم ہوئی کہ ان کی والدہ کو ایک نجی اتالیق مقرر کرنا پڑا تاکہ ابتدا صحیح ہو۔ ہیمنگوے کی دلچسپیاں متنوع تھیں۔ وہ فٹ بال ٹیم میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ اسکول آرکیسٹرا کی رکنیت کے لیے چیلو (Cello) پر مستعدی سے مشق کرتے تھے۔ رقص کے ایک اسکول میں اپنی بڑی بہن مارسیلین (Marcvelline) کے ساتھ رقص سیکھنے بھی جایا کرے تھے۔ ایک ہائیکنگ کلب (Hiking Club) کے بھی ممبر تھے اور اکثر سنیچر کو پچیس یا تیس میل کے گل گشت پر جایا کرتے تھے۔ ان کی خصوصی دلچسپی مچھلی کے شکار سے تھی جس کے لیے وہ جھیل مشی گن (Lake Michigan) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعطیلات میں جاتے تھے۔ اس جھیل سے ملی ہوئی ان کے والد کی جائیداد تھی اور اس پر ایک کاٹج بھی تھی جس کا نام ونڈی میر (Windemere) تھا، لیکن ارنیسٹ جھیل کے کنارے خیمہ لگا کر رہتے تھے۔ 1916 میں انھوں نے مکے بازی سیکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ فن شکاگو کے پیشہ ور مکے بازوں سے سیکھا اور یہ کہ ان کی بائیں آنکھ مکے بازی میں لگی چوٹ سے کمزور ہوگئی تھی۔ یہ دونوں من گھڑت کہانیاں تھیں۔ ان کی بائیں آنکھ پیدائشی کمزور تھی اور یہ کمزوری دوسرے بہن بھائیوں میں بھی تھی۔پیشہ ور مکے بازوں سے سیکھنے کا ثبوت نہ دورانِ تعلیم میں کہیں ملتا ہے اور نہ کبھی بعد میں۔ اپنے مضبوط اور جری ہونے کے دعوے میں ہیمنگوے اکثر بے پر کی اڑاتے تھے اور ان جھوٹی کہانیوں کو اتنے اعتماد سے بیان کرتے تھے کہ سننے والے کو یقین آجاتا تھا۔

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہیمنگوے کی صحافتی نوآموزی اور افسانہ نویسی کی ابتدا ان کی طالب علمی کے زمانے میں ہوئی۔ وہ اپنے اسکول سے شائع ہونے والے ہفتہ وار اخبار ٹریپیز (The Trapeze) کے نامہ نگار تھے جس کے لیے آخری سال میں وہ ہر ہفتہ واقعہ نویسی کرتے تھے۔ رسالہ ٹیبولا (Tabula) میں ان کی تین ابتدائی کہانیاں شائع ہوئی تھیں۔ پہلی کہانی ’رنگ کا معاملہ‘ (A Matter of Colour) مزاحیہ کہانی تھی۔ بوڑھے مکے باز باب نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک ہونہار نوعمر مکے باز ڈان کا مقابلہ ایک نیگرو جوسے ہوا۔ ڈان کو فتح یاب کرنے کے لیے ایک مضبوط سویڈ(Swede) کو پردے کے پیچھے ایک کنارے خفیہ طور پر کھڑا کیا گیا تاکہ وہ جو کو موقع پاکر بیس بال کے بلے سے مار کر گرا دے۔ مگر سویڈ نے غلطی سے ڈان کو مارگرایا۔ جب انتہائی خفگی سے باب نے اس کی وجہ پوچھی تو سویڈ نے بتایا کہ وہ رنگ اندھا (Colour Blind) ہے۔ دوسری کہانی ایک امریکی انڈین کی ہے جس کو شبہ ہے کہ اس کے ساتھی نے اس کا بٹوہ چرایا ہے۔ وہ اسے ایک جال میں پھنسا دیتا ہے۔ بعد میں یہ معلوم ہونے پر کہ اس کے بٹوے کی چور ایک گلہری ہے، وہ اپنے ساتھی کو بچانے کے لیے دوڑتا ہے لیکن جنگلی بھیڑئیے اس کا کام تمام کرچکے ہوتے ہیں۔ وہ احساس جرم سے خود کو ریچھ پھنسانے والے جال میں پھنسا دیتا ہے۔ کہانی کے اختتام پرقبل اس کے کہ بھیڑئیے اس پر حملہ کریں، وہ خودکشی کے ارادے سے اپنی رائفل اٹھاتا  نظر آتا ہے۔ تیسری کہانی ایک کتے کی ہے جو اپنے مالک کی ایک قاتل سے انتقال میں مدد کرتا ہے۔ ان تینوں کہانیوں میں کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا بیان ہے۔ ان سب میں باضابطہ پلاٹ ہے اور ان کے بیان میں اپج اور جدت پسندی نمایاں ہے۔ ان کہانیوں اور اخبار کی واقعہ نویسی سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہیمنگوے کا شروع ہی سے رجحان صحافت اور افسانہ نگاری کی طرف تھا۔

II

1917 میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کرنے کے لیے تین راستے اختیار کرنے کے لیے کھلے تھے۔ وہ کالج میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے تھے، جیسا کہ ان کے والد چاہتے تھے۔ وہ عالمی جنگ میں شریک ہوسکتے تھے حالانکہ ان کے والد ان کی نوعمری کی وجہ سے اس کے شدید مخالف تھے۔ یا پھر وہ اپنا پسندیدہ ذریعہ معاش اختیار کرسکتے تھے۔ امتحان کے بعد ہی جون 1917 میں انھوں نے اپنے چچا کے ذریعہ کینسس (Kansas) شہر کے اخبار اسٹار (Star) میں نامہ نگار کی جگہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ستمبر تک وہاں کوئی جگہ خالی ہونے والی نہیں تھی۔ موسم گرما کی تعطیلات میں اپنے والد کے فارم پر کام کرنے کے بعد ہیمنگوے نے بالآخر یہی طے کیا کہ وہ اخبار اسٹار میں کام کریں۔ اوک پارک کی محدود قصباتی زندگی میں وہ پلے بڑھے تھے اور وہاں سے نکل کر وہ اپنے تجربات کو وسعت دینا چاہتے تھے۔ دوسرے یہ خیال بھی تھا کہ اس طرح وہ خاندانی رشتوں اور اس کے دباؤ سے آزاد ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ اب تک انھوں نے صحافت اور افسانہ نگاری کے بنیادی اور ابتدائی اصول عملاً سیکھے تھے اور انھیں بہت کچھ سیکھنا تھا۔ ان مقاصد کے پیش نظر وہ کینس شہر روانہ ہوگئے اور ان کے غمزدہ والد نے ان کو رخصت کیا۔ وہاں پہنچ کر انھیں نامہ نگار کی جگہ پندرہ ڈالر فی ہفتہ تنخواہ پر مل گئی۔ شروع میں ان کو جرائم اور حادثات پر رپورٹ پیش کرنے کا موقع ملا اور وہ برابر پولیس کوتوالی، ریلوے اسٹیشن اور جنرل اسپتال کے چکر لگاتے رہتے تھے۔ اس سے زندگی کے تشدد آمیز اور ناخوشگوار پہلو سے ان کی واقفیت ہوئی اور کچھ مشتبہ اور بدنام لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی جو ناجائز کاروبار کرتے تھے۔

ہیمنگوے تجربہ کار اور پرانے صحافیوں سے برابر دریافت کرتے رہتے تھے کہ وہ کس طرح واقعات معلوم کرتے ہیں اور اسے کس طرح اخبار کے لیے لکھتے ہیں۔ اخبار اسٹار کا طرزِ تحریر کے بارے میں اپنا ہدایت نامہ (Style-Book) بھی تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح توضیحی جملہ لکھنا چاہیے، کس طرح فرسودہ صفت اور توصیفی فقروں سے پرہیز کرنا چاہیے اور کس طرح بیان کو دلچسپ بنانا چاہیے۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کامیاب نامہ نگاری کے لیے یہ ضروری تھا کہ چھوٹے جملے اور مختصر پیراگراف لکھے جائیں۔ توانا اور کارگر زبان استعمال کی جائے۔ الفاظ کی نشست پر نظر رکھی جائے تاکہ بیان کی ہمواری اور اس کا تسلسل مجروح نہ ہو۔ بیان منفی کی بجائے اثباتی ہونا چاہیے تاکہ واقعات کا بیان قطعی اور مطلق ہو۔ اس کے علاوہ اسٹار کے دفتر میں ایک ادبی شعبہ بھی تھا جہاں نئی اور پرانی کتابوں کے اقتباسات اور امریکی و غیر ملکی اخبارات و رسائل سے ایسے ٹکڑے منتخب کیے جاتے تھے جو پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے استعمال کیے جاسکیں۔ اس طرح اسٹار کی نامہ نگاری کے دور میں ہیمنگوے نے فن صحافت کی تعلیم حاصل کی اور ایسی نثر لکھنا سیکھا جو صاف ستھری،صریح اور ابہام سے پاک ہو اور جس میں کم سے کم الفاظ میں مفہوم کی مکمل ادائیگی کی گئی ہو۔ یہ فنی انضباط اور مشق ان کی آئندہ ادبی زندگی کے لیے بہت مفید اور کارگر ثابت ہوئی۔ اس زمانے کے تجربات کی بنیاد پر انھوں نے آئندہ چل کر تین خاکے لکھے جس میں قابل ذکر خاکہ ’حضرات، خدا تمھیں خوش رکھے‘ (God Rest You Merry, Gentlemen) تھا۔

اسٹار کی نامہ نگاری کے زمانے میں وہ جنگ کے بارے میں باتیں کرتے رہتے تھے اور یہ پوچھتے رہتے تھے کہ وہ کس طرح اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی بہن کو ایک خط میں لکھا ’’میں اتنے بڑے تماشے کو بغیر اپنی شرکت کے نہیں گزرنے دوں گا۔‘‘  بالآخر وہ ریڈ کراس (Red Cross) میں بہ حیثیت ایمبولنس ڈرائیور بھرتی ہوگئے اور تین ہفتے کی ٹریننگ کے بعد 23 مئی 1918 کو شکاگو نامی فرانسیسی جہاز سے بوغدو (Bordeaux) کے لیے روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر رات کی گاڑی سے پیرس کے لیے چل پڑے۔ دو دن کے انتظار کے بعد وہ میلان (Milan) پہنچے اور تمام راستے گاڑی کے کھلے دروازے سے باہر پیر لٹکائے گاتے اور ہنستے رہے، جیسے وہ اور ان کے ساتھی سیر و تفریح کے لیے نکلے ہوں۔ میلان کے قریب ایک گولہ بارود کی فیکٹری آتشی دھماکے سے اڑ گئی تھی۔ ہیمنگوے اور ان کے ساتھیوں کا یہ کام تھا کہ پہلے وہ اس آگ کو بجھائیں جو قریب کی لمبی گھاس میں پھیل گئی تھی اور اس کے بعد مرے ہوئے لوگوں کی لاشیں اکٹھا کریں۔ ان مرنے والوں میں سب عورتیں تھیں۔ ہیمنگوے نے اب تک صرف چڑیوں اور چھوٹے جانوروں کا شکار کیا تھا اور انھیں مرا ہوا دیکھا تھا۔ جنگ کا یہ پہلا دہشت انگیز نظارہ تھا جہاں انھوں نے اتنی بہت سی عورتوں کو مردہ دیکھا۔

بہ حیثیت ایمبولینس ڈرائیور ان کا کام زخمی سپاہیوں کو محاذِ جنگ سے پیچھے میدانی اسپتالوں میں لانا تھا۔ ہیمنگوے بہت جلد اس کام سے اکتا گئے جیسا کہ انھوں نے ایک ساتھی کو بتایا کہ ایمبولینس سیکشن سے نکل کر ’وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اس جگہ کو ڈھونڈھ سکتے ہیں یا نہیں جہاں جنگ ہے‘ ان کی یہ آرزو جلد ہی پوری ہوگئی اور وہ ایک گاؤں فوسالٹا (Fossalta) کے پاس ریڈ کراس کی قائم کردہ کینٹٹین (Canteen) پر منتقل ہوگئے۔ یہاں ان کی ملاقات ایک نوعمر پادری سے ہوئی جو فلورنس کے رہنے والے تھے اور جن سے بعد میں ان کی دوستی ہوگئی۔ ان کا کام محاذ جنگ کی خندقوں میں تعینات سپاہیوں کو سگرٹ، چاکلیٹ اور پوسٹ کارڈ وغیرہ بانٹنا تھا اور اس کام میں وہ برابر دشمن کی گولیوں اور بموں کی زد میں رہتے تھے۔ 8 جولائی 1918 کو آدھی رات کے قریب جب وہ خندق میں سپاہیوں کو  سگرٹ وغیرہ بانٹ رہے تھے۔ ہیمنگوے مارٹر (Mortar) کے ایک بم پھٹنے سے  بری طرح زخمی ہوئے۔ قریب ہی ایک زخمی سپاہی پڑا کراہ رہا تھا۔ اپنے زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے زخمی سپاہی کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور چل پڑے۔ وہ پچاس گز گئے ہوں گے کہ ان کے داہنے گھٹنے کی چپنی میں مشین گن کی گولی لگی اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑے۔ وہ پھر اٹھے اور سو گز مزید چل کر کمانڈ پوسٹ (Command Post) پر زخمی سپاہی کو اتارا جو مرچکا تھا اور خود بیہوش ہوگئے۔

وہ بہ دقتِ تمام ایک میدانی اسپتال میں پہنچائے گئے۔ جہاں ان کے پیر سے اٹھائیس لوہے کے ٹکڑے نکالے گئے۔ پانچ دن کے بعد وہ ملانو (Milano) کے اسپتال میں منتقل ہوگئے۔ یہاں ان کے دو بڑے آپریشن ہوئے جس میں ان کے پیر کے تلوے اور گھٹنے کی چپنی سے مشین گن کی گولیاں نکالی گئیں۔ ملانو کے اسپتال ہی میں ان کو اطلاع ملی کہ شجاعت کے لیے سب سے بڑے اطالوی انعام چاندی کے تمغے کے لیے ان کے نام کی سفارش کی گئی جو انھیں جلد ملے گا۔ اسی اسپتال کی ایک امریکی نرس ایگنس حناوان کو رو وسکی (Agnes Hannah Von Kusowsky) سے ہیمنگوے کو شدید محبت ہوگئی لیکن یہ محبت اس تیزی سے پروان نہ چڑھ سکی جتنی کہ وہ چاہتے تھے۔ کچھ تو اسپتال کی عائد کردہ پابندیاں تھیں جو راہ میں حائل تھیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایگنس نے رضا کارانہ اپنی خدمات فلورنس کے ایک اسپتال کو پیش کردی تھیں اور جلد ہی وہ وہاں چلی گئیں۔ ہیمنگوے دوبارہ محاذ جنگ پر گئے لیکن ایک ہفتے کے اندر یرقان میں مبتلا ہوکر ملان اسپتال لوٹ آئے۔ 3؍ نومبر 1918 کو اٹلی اور آسٹریا کے درمیان صلح ہوگئی۔ ہیمنگوے کو معلوم تھا کہ اٹلی میں اب وہ صرف کچھ دن قیام اور کرسکتے ہیں۔ ایگنس نے ہیمنگوے کو برابر ہی صلاح دی کہ وہ امریکہ واپس چلے جائیں۔ اور دبے چھپے الفاظ میں یہ بھی اشارہ کیا  کہ ایک یا دو سال میں ممکن ہے کہ ان کی شادی ہوجائے حالانکہ وہ عمر میں ہیمنگوے سے سات سال بڑی تھیں۔

21 جنوری 1919 کو جب ہیمنگوے واپس وطن لوٹے اور نیویارک میں سمندری جہاز سے اترے تو انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک نامور شخصیت ہوگئے ہیں۔ وہ پہلے امریکی تھے جو اٹلی میں زخمی ہوئے تھے اس لیے ان کے بارے میں امریکی اخباروں میں بڑھ چڑھ کر نشر و اشاعت ہوئی تھی۔ ملک میں ایک نیوز ریل (Newsreel) بھی دکھائی گئی تھی جس میں وہ ملانو کے اسپتال میں پیر پر پلاسٹر چڑھوائے ہوئے ایک پہئے دار کرسی پر بیٹھے ہیں۔ اوک پارک پہنچنے پر ان کا ہیرو جیسا خیرمقدم کیا گیا۔ ان کے اعزاز میں جلسے کیے گئے جس میں انھیں اپنے جنگ کے تجربات بیان کرنے کی دعوت دی گئی۔ لیکن مارچ 1919 میں انھیں ایک شدید جذباتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ایگنس سے ان کی خط و کتابت جاری تھی اور مارچ میں انھوں نے بڑی نرمی سے لکھا کہ ان کو ایک اطالوی افسر سے محبت ہوگئی ہے اور وہ جلد ہی شادی کرنے والی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ شاید ہیمنگوے اس وقت اسے نہ سمجھ سکیں لیکن آئندہ کسی دن شاید وہ انھیں معاف کردیں اور ان کے شکرگزار ہوں۔ اس صدمے سے ہیمنگوے بیمار ہوگئے۔ جب وہ بیماری سے اٹھے تو ان کا یہ کہنا تھا کہ انھوں نے ایگنس کو شراب اور دوسری عورتوں کی مدد سے بھلا دیا ہے لیکن یہ صرف کہنے کی بات تھی اور جھوٹا افسانہ تھا۔ سچائی صرف اتنی تھی کہ بے وفائی کے صدمے سے ان کی محبت کا نشہ ہمیشہ کے لیے اتر گیا تھا کیونکہ جون میں جب ایگنس نے اپنی محبت اور مجوزہ شادی کی ناکامی کی تفصیل خط میں لکھی تو ہیمنگوے نے صرف ہمدردی کا اظہا رکیا اور ان کے مشاغل میں کوئی فرق نہیں آیا۔

وہ افسانہ نگاری کی طرف پھر رجوع ہوئے اور سیر و شکار کے ساتھ لکھنے کی برابر کوشش کرتے رہتے تھے۔ اٹلی میں ان کے پیر کے بارہ آپریشن ہوچکے تھے لیکن وہ اب بھی چلنے میں لنگڑاتے تھے۔ ان کو اندھیرے میں نیند نہیں آتی تھی اور وہ رات میں اکثر بھیانک خواب دیکھتے تھے۔ وہ کچھ دنوں کے لیے شمالی مشی گن میں رہے جہاں ان کا وقت مطالعہ، مچھلی کے شکار اور اپنے مستقبل کے بارے میں غور و فکر یں گزرتا تھا۔ بالاخر یہ بات ان کے ذہن میں صاف ہوگئی کہ انھیں افسانوی ادب کی تخلیق کرنا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کرنا ہے، لیکن جب تک وہ اس قابل نہیں ہوجاتے کہ صرف افسانہ نگاری سے اپنے مصارف پورے کرسکیں، ان کو بہ حیثیت صحافی کام کرنا چاہیے اور اپنے بچے ہوئے اوقات میں ادب کی تخلیق کرنا چاہیے۔ موسم  گرما اور خزاں میں وہ برابر اپنے تجربات کو ضبطِ تحریر میں لانے کی سعی کرتے رہے۔ موسمِ سرما میں وہ کناڈا گئے جہاں ان کا تعارف ٹورانٹو سے شائع ہونے والے روزنامہ اور ہفتہ وار اخبار ٹورانٹو اسٹار ویکلی (Star Weekly) اور اسٹار روزنامہ (Daily Star) کے ایڈیٹر سے ہوا اور انھوں نے کچھ مزاحیہ اور طنزیہ فیچر اس اخبار کے لیے لکھے۔ اس اخبار میں پرلطف اور چٹ پٹے واقعات کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور نامہ نگاروں سے خصوصی تاکید کی جاتی تھی کہ وہ ایسے واقعات لکھیں جن میں انسانی دلچسپی کا پہلو نمایاں ہو۔ اخبار کی اس پالیسی کے پیش نظر ہیمنگوے کی صحافتی تحریروں میں ایک نیا عنصر نمودار ہوا۔ ان کے مضامین اور فیچر کہانی سے قریب تر ہوتے گئے جس میں مکالمہ بھی ہوتا تھا اور ان لوگوں کا مختصر خاکہ بھی جن کے بارے میں وہ لکھتے تھے۔

1920 میں وہ شکاگو لوٹ آئے اور ایک مقامی اخبار میں کام کرنے لگے۔ ان کی ملاقات ایلیزبتھ ہیڈلے رچرڈسن (elizbeth Hidlay Richard-Son) سے ہوئی جو اپنی والدہ کے انتقال کے بعد اپنی ایک ساتھی لڑکی سے ملاقات کے لیے شکاگو آئی ہوئی تھیں۔ بقول یڈلے، ہیمنگوے نے ان کو تین وجوہات کی بنا پر پسند کیا۔ ان کے بال سرخ تھے۔ وہ لمبا گھاگھرا (Skirt) پہنتی تھیں اور وہ اچھا پیانو بجاتی تھیں۔ تین ہفتے بعد وہ سینٹ لوئی (St Louis) لوٹ گئیں لیکن ہیمنگوے سے خط و کتابت ہوتی رہی۔ رفتہ رفتہ ان کی محبت بڑھتی گئی اور 3 ستمبر 1921 کو ان کی شادی ہوگئی۔ ہیڈلے کی عمر اس وقت انتیس سال تھی اور ہیمنگوے سے سات سال عمر میں بڑی تھیں۔ وہ لمبے قد کی صحت مند اور دل کش خاتون تھیں اور اپنے والد مرحوم کے قائم کردہ ٹرسٹ فنڈ سے ان کی دو تین ہزار ڈالر سالانہ کی ذاتی آمدنی تھی۔ شادی کے بعد دونوں نے اٹلی کی سیاحت کا قصد کیا لیکن اس کے لیے صرف ہیڈلے کی آمدنی کافی نہیں تھی۔ ہیمنگوے نے ٹورانٹو اسٹار روزنامہ کو اس بات پر رضامند کرلیا کہ وہ اس کے یوروپی گشتی مراسلہ نگار ہوجائیں اور اپنا ہیڈ کوارٹر پیرس میں رکھیں۔ یہ بھی طے ہوا کہ مراسلہ کے لیے مروجہ شرح پر ان کو رقم دی جائے گی اور سفر خرچ وغیرہ بھی دیا جائے گا جو اس سلسلے میں ہوگا۔ ہیمنگوے کے لیے یہ بات بے حد اطمینان بخش تھی۔ ان دونوں شکاگو میں شیروڈاینڈرسن (Sherwood Anderson) بھی رہتے تھے جن سے ہیمنگوے کی ملاقات تھیں۔ اینڈرسن نے ان کو تعارفی خطوط دئیے اور بتایا کہ پیرس میں دریائے سین کے بائیں کنارے (Left Bank) پر کئی مشہور تارک وطن رہتے تھے۔ وہاں ہیمنگوے بھی رہ کر لکھ سکتے تھے۔ سفر کے انتظامات مکمل ہوتے ہی ہیمنگوے اور ہیڈلے یورپ کے لیے دسمبر 1921 میں روانہ ہوگئے۔

III

پیرس پہنچنے کے بعد 1921 سے 1923 کا زمانہ ہیمنگوے کی ادبی نوآموزی کا دوسرا اور نسبتاً اہم دور تھا۔ اپنی تخلیقات کے صحیح ادبی معیار کو قائم رکھنے کے لیے انھوں نے افسانوی ادب کے ماہر نثرنگاروں کا بغور مطالعہ کیا۔ یہ لکھنے والے ترگینیف (Turgenev)، چیخوف (Chekov)، ٹالسٹائی (Tolstoy) اور دوستووسکی (Dostoevsky)، اسٹنڈہال (Stendhal)، بالزک (Balzac) اور فلابیئر (Flauberi)، مارک ٹوین (Mark Twain)، اسٹیفن کرین (Stephen Crane) اور ہینری جیمس (Henry James)، ٹامس مان (Tomas Mann)، جوزف کونارڈ (Joseph Conard) اور جیمس جوائس (James Joyace) تھے۔ ان تمام لکھنے والوں سے انھوں نے کسی نہ کسی شکل میں کچھ ضرور سیکھا تھا لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ انھوں نے ان میں سے کسی مصنف کی طرزِ تحریر کا تتبع کیا تھا۔ ان کا اسلوب بیان اچھوتا اور بدیع تھا کیونکہ انھوں نے اپنی سعی اور مشق سے نثرنگاری میں ایک نئی راہ نکالی تھی۔ لیکن یہ بات بلاشبہ صحیح ہے کہ ان مشاہیر کی تخلیقات کی مدد سے اور ان کی اعلیٰ مثال کی روشنی میں ہیمنگوے نے اپنے تنقیدی اور جمالیاتی نظریات کی تشکیل کی تاکہ ان کی کسوٹی پر وہ اپنی تخلیقات کا جائزہ لے سکیں۔ دریائے سین کے بائیں کنارے پر رہنے والوں میں ایزراپاؤنڈ (Ezra Pound) اور گرٹروڈاسٹین (Gertrude Stein) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ پاؤنڈ نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کرتے تھے اور ان کی تخلیقات کی اشاعت میں ہرممکن مدد کرتے تھے۔ گرٹروڈاسٹین نہایت سنجیدگی سے ہمیشہ صحیح رائے اور مشورہ دینے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان دونوں کو ہیمنگوے نے اپنی چند نظمیں، کہانیاں اور ایک ناول کا ابتدائی حصہ پڑھنے کے لیے دیا اور ان کی رائے مانگی۔ پاؤنڈ نے ان کی نظموں کو پسند کیا اور ان کی نثر کی تازگی کو سراہا لیکن گرٹروڈ نے بلا کسی جھجھک کے یہ رائے دی کہ ہیمنگوے کے بیان میں جھول اور غیرضروری پھیلاؤ ہے۔ ان کو پوری توجہ سے ازسر نو پھر لکھنا چاہیے۔ وہ خود اس کوشش میں تھے کہ ایسا جملہ لکھ سکیں جو بالکل درست ہو اور اپنے مفہوم سے ہم آہنگ ہو اور لفظی آرائش و سجاوٹ سے پاک ہو۔ اس لیے گرٹروڈاسٹین کی نصیحت کو گرہ سے باندھ لیا۔

اس زمانے میں ٹورانٹو اسٹار اور اسٹار ہفتہ وار کے لیے ہیمنگوے نے صحافتی سرگرمیاں جاری رکھیں اور یورپ کے مختلف ممالک میں سفر کرتے اور گھومتے رہے۔ انھوں نے 1922 میں جینیوا میں منعقد ہونے والی اقتصادی کانفرنس کی رپورٹنگ کی۔ اٹلی میں ابھرتی ہوئی فاشسٹ تنظیم پر مراسلات بھیجے۔ مسولینی سے انٹرویو پر مراسلہ بھیجا۔ وہ اسپین، سوئیزرلینڈ اور جرمنی گئے۔ وہ قسطنطنیہ گئے جہاں انھوں نے یونان اور ترکی کی جنگ میں نامہ نگار کے فرائض انجام دیے۔ اسی طرح انھوں نے لیوذان (Lausanne) اقتصادی کانفرنس اور رُہر (Ruhar) سے متعلق فرانس اور جرمنی کے تنازعہ پر سیاسی تبصرے لکھے، لیکن ان صحافتی سرگرمیوں کے دوران وقفے وقفے سے وہ ہلکی پھکی چیزیں مثلاً پہاڑوں میں مچھلی کا شکار، موسم سرما کے کھیل اور پیرس کا سماجی منظر بھی لکھتے رہے۔ ان تحریروں سے ان کو معقول آمدنی تھی اور اس میں سے وہ کچھ پس انداز بھی کرتے تھے تاکہ وہ جلد صحافت سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنا پورا وقت ادبی تخلیقات پر صرف کرسکیں ۔ اسی دوران ان کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ شکاگو کے زمانے سے اب تک کی غیرمطبوعہ نظموں اور افسانوں کا مسودہ جو مسز ہیمنگوے کے ہمراہ ایک سوٹ کیس میں تھا، وہ سفر کے دوران چوری ہوگیا۔ چند نظمیں اور دو کہانیاں جس میں سے ایک اشاعت کے لیے بھیجی جاچکی تھی، اس حادثے سے بچ گئی تھیں۔ 1923 میں ہیمنگوے نے اس میں ایک کہانی اور کچھ نظموں کا اور اضافہ کیا اور تین کہانیاں اور دس نظمیں (Theree Stories and Ten Poems) کے عنوان سے ان کا یہ ملا جلا مجموعہ شائع ہوا۔

 

ماخذ: ارنیسٹ ہیمنگوے، مصنف: سلامت اللہ خاں، دوسرا ایڈیشن: 1989، ناشر: ڈائرکٹر ترقی اردو بیورو، نئی دہلی۔

 

تازہ اشاعت

اردو اور بھوجپوری کا رشتہ، مضمون نگار: پرواز احمد

  اردو دنیا، اپریل 2025 زبان کی وسعت اور ترقی میں لوگوں کی ہجرت بھی خاص اہمیت رکھتی ہے جس کی ایک باقاعدہ تاریخ بھی موجود ہے۔ چودھویں صدی میں...