اردو دنیا، مارچ 2025
روایت کی پاسداری اور جدید آہنگ کی آمیزش سے جن
شاعروں نے اپنی شاعری کا خمیر تیار کیا۔ان میں فراق، یگانہ اور شاد عارفی کے نام
کافی نمایاں ہیں۔ فراق اپنی شاعری میں نئے موضوعات، نئے آہنگ کے ساتھ ساتھ اسلوب
کی سطح پر بھی جدت پسند تھے۔ انھوں نے ہندو فلسفہ اور ہندو دیومالا کو اپنی شاعری
میں خوبصورتی سے پرو کر غزل کی ایرانی تہذیب میں ہندوستانی فکر و فلسفہ کی خوبصورت
آمیزش کی ہے۔ فراق نے اپنی شاعری کے ذریعے نئی نسل کے غزل گوشعرا کی ذہنی رہنمائی
کی ہے۔ بقول ابو الکلام قاسمی فراق نے نئی نسل کے لوگوں کی رجحان سازی کی ہے۔ اس لیے
فراق کو رجحان ساز شاعر قرار دینا کوئی مبالغہ نہیںہے۔ فراق نے 1950 کے آس پاس
شاعری کے منظرنامے پر نمودار ہونے والے شعرا کی ذہنی تربیت کی اور نئی نسل کے شعرا
نے ان کے اسلوب کو اپنایا بھی۔ خلیل الرحمن اعظمی، ناصر کاظمی اوراحمد مشتاق جیسے
شاعروں کے کلام میں فراق کی ذہنی تربیت اور ان کے اسلوب کا اثر صاف نظر آتا ہے۔
فراق کا ایک شعر ہے ؎
تیرے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس
کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں
اس شعر میں نئی زندگی کے تقاضے کو محسوس کیا جا سکتا
ہے۔ غزل کی روایتی شاعری میں پہلو میں ہونا قرب کی علامت اور محبت کے استعارے کے
طور پر استعمال کیا جاتا تھا جب کہ فراق پہلو میں ہو کر بھی دور ہونے کا اندیشہ
ظاہر کر رہے ہیں ؎
ایسی راتیں بھی ہم پہ گزری ہیں
تیرے پہلو میں تیری یاد آئی
(خلیل الرحمن اعظمی)
پہلو میں ہونا عشق کی انتہا اور وصال کا نتیجہ ہوتا تھا
مگر نئے اسلوب نے پہلو میں یاد آنے کے استعارے سے دوری کا احساس اور تنہائی کے
خوف کا ایک پیکر تخلیق کیا ہے۔ ابو الکلام قاسمی نے فراق کو عشق کی مختلف کیفیتوں
اور عشق کے تجربوں کے بیان کا شاعر قرار دیا ہے۔ محمد حسن عسکری نے کہا ہے کہ فراق
نے محبوب کو ایسی معروضی حیثیت دی ہے جو اردو شاعری میں پہلے اسے حاصل نہیں تھی۔
انھوں نے محبوب کو عاشق کی ہستی سے الگ کر کے بھی دیکھا ہے۔ ان کا محبوب ایک کردار
ہے اور اس کردار کی نفسیات بھی سیدھی سادی نہیں ہے۔ ایسی ہی پیچ در پیچ ہے جیسے عاشق
کی نفسیات۔ یہ بات سچ ہے کہ فراق نے محبوب کی آزاد ہستی کی ترجمانی کی لیکن فراق
کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے عشق کی مختلف کیفیات کو اور عشق کے غیر رسمی ارتعاشات
کو بھی حسی پیکروں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ ابو الکلام قاسمی لکھتے ہیں:
’’بیسویں
صدی کے معاشرے نے احساس کے جن نئے گوشوں کا اضافہ کیا ہے ان کی جھلک فراق کے اشعار
میں ضرور دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر آپ شعروں میں فراق کے لہجے کا تعین کریں تو پتا
چلتا ہے کہ وہ اپنا لہجہ استفہامیہ رکھتے ہیں اور یہ استفہام بھی خود کلامی کا
انداز لیے ہوئے ہے۔‘‘(شاعری کی تنقید،ص:83)
فراق نے اپنی شاعری میں عشق کی مختلف کیفیات کو بڑی
خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ کلیم الدین احمد جیسے سخت گیر نقاد نے فراق کی شاعری میں
بہت سارے سقم کی نشاندہی کے باوجود ان کی شاعری کی تعریف کی ہے۔ محمد حسن عسکری
فراق کے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ عقیل احمد نے بھی فراق کی شاعری کی تعریف و توصیف
بیان کی ہے۔ فراق کا اسطور قائم کرنے میں نیاز فتح پوری کا نہایت اہم رول رہا ہے۔
انھوں نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’یو پی کا ایک نوجوان ہندو شاعر
فراق گورکھپوری‘‘ جس میں انھوں نے فراق کی شاعری میں دلکشی، معنی آفرینی اور کیفیت
کی نشاندہی کی تھی۔ یہ مضمون 1937 میں شائع ہوا تھا۔ فراق کا اسطور قائم کرنے میں یہ
مضمون سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے نیا زفتح پوری کے مضمون کے
عنوان کی سخت گرفت کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ جب نیاز فتح پوری فراق کو نوجوان
شاعر کے لقب سے نواز رہے تھے اس وقت فراق کی عمر چالیس سے تجاوز کر چکی تھی۔ اسی
عمر میں میر نے اپنا پہلا دیوان مرتب کر لیا تھا۔ غالب نے اپنی مشہور غزلیں چوبیس
برس کی عمر میں کہی تھیں۔ کیٹس Keats شیلی Shelly بالترتیب پچیس برس اور
انتیس برس کی عمر میں فوت کر گئے۔ ان نوجوان شاعروں میں لہجے کے انوکھے پن
اور اسلوب کی جدت کی وجہ سے جو پختگی نظر
آتی ہے۔ فراق کی چالیس سالہ نوجوانی کی شاعری میں وہ پختگی نظر نہیں آتی۔ شمس
الرحمن فاروقی آل احمد سرور کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ فراق کی شاعری میں ان کی
آخری زندگی تک پختگی نہیں آسکی۔ ان کے اسلوب کا تعین اس لیے بھی مشکل ہے کہ فراق
نے اپنا کوئی اسلوب متعین نہیں کیا بلکہ وہ ہوا کی طرح بہتے گئے جب کہ میر کے پہلے
دیوان میں جو پختگی نظر آتی ہے اور ان کا جو لہجہ متعین ہوتا ہے وہ ان کے چھٹے دیوان
میں بھی نظر آتا ہے۔ یعنی میر نے شاعرانہ پختگی اور اسلوب کی ندرت جو اپنی اوائل
عمر میں حاصل کر لیا تھا فراق آخری عمر تک بھی وہ پختگی نہ پا سکے اور نہ ہی
اسلوب میں اپنی انفرادیت حاصل کر سکے۔ شمس الرحمن فاروقی نے فراق کو اردو غزل کی
روایت سے انجان بتایا ہے جب کہ ابوالکلام قاسمی نے فراق کی شاعری اور غزل گوئی کو
اردو غزل کی روایت کی توسیع اور تسلسل قرار دیا ہے۔ ابو الکلام قاسمی کہتے ہیں کہ
فراق نے غزل کی روایت کی پاسداری کی ہے مگر روایت میں انھوں نے جدید فکر کو شامل
بھی کیا ہے۔ اس لیے فراق کے یہاں روایتوں کی تقلید نہیں بلکہ احترام کا جذبہ نظر
آتا ہے۔ فراق کی شاعری میں ہندوستانی عناصر کی شمولیت اور ہندو دیو مالا کو اردو
کا غزلیہ آہنگ دینے کی بات بھی متواتر دہرائی جاتی ہے حالانکہ شمس الرحمن فاروقی
نے اس بات کا انکار کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ فراق کی شاعری کی دوسری صنف کے لیے
ہندوستانی عناصر کی شمولیت کی بات کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ ان کی رباعیوں میں اس
کی نشاندہی کی جا سکتی ہو مگر غزل میں ہندو دیو مالا اور ہندو فلسفے کی شمولیت سے
انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے مضامین غالب کی شاعری میں بھی ملتے ہیں۔ جب
کہ ابو الکلام قاسمی فراق کی شاعری میں ہند اسلامی کلچر کی نشاندہی بھی کرتے ہیں
اور فراق کی شاعری میں ہندوستانی عناصر پر اصرار بھی کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جہاں
تک اس بات کا سوال ہے کہ ان کی لفظیات کس حد تک ان کی شاعری کے مزاج کو ہندوستانی
ثابت کرتی ہے تو اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ انھوں نے سیاق و سباق
سے اپنے لفظوں کا مزاج متعین کرنے اور بعض مشتقات بنانے میں ہندی سے خاصا استفادہ
کیا ہے۔ الفاظ کے استعمال سے ہندوستانیت یا ہندو دیو مالا کا تاثر قائم کرنے کا
عمل قدیم شعراکی غزلوں میں بھی ملتا ہے مگر اس سلسلے میں فراق کا امتیاز یہ ہے کہ
وہ محض لفظ یا اس کے مشتقات تک ہی خود کو محدود نہیں رکھتے بلکہ کبھی کبھی وہ ایسے
حسی پیکر تراشتے ہیں جس کے پہلے حصے سے ایک طرف اسلامی روایت کا پس منظر ابھرتا ہے
تو دوسری طرف ہندو دیو مالا یا اجتماعی حافظہ پیکر کے کسی دوسرے حسی پیکر کو متحرک
کر دیتا ہے ان کا شعر ہے ؎
سکوت توڑ کہ قم کی صدا ہے تیری صدا
نظر اٹھا کہ ان آنکھوں کا رس ہے سنجیون
یا اسی طرح ان کی غزلوں میں جگہ جگہ ایسے اشعار ملتے ہیں
جن کی فضا یا جن کا کوئی نہ کوئی پہلو مقامی سرزمین اور ہندی زبان کی روح سے مربوط
اور اس سے کسب فیض حاصل کرتا معلوم ہوتا ہے۔
‘‘
(شاعری
کی تنقید،ص:86)
یہ سچ ہے کہ فراق نے اپنی شاعری میں ہندی الفاظ کا
استعمال کیا ہے اور ان کی غزل میں ہندی اور ہندوستانی عناصر کی منظر کشی ہوئی ہے جیسے
ان کا ایک شعر ہے ؎
چپکے چپکے اٹھ رہا ہے مدھ بھرے سینوں میں درد
دھیمے دھیمے چل رہی ہے عشق کی پروائیاں
فراق نے ہندی الفاظ کو خوبصورتی سے برتا بھی ہے مگر
قاسمی صاحب نے ہند اسلامی کلچر کی نمائندگی کرنے والے جس شعر کو نقل کیا ہے یا وہ
شعر جس میں عربی کا ایک لفظ استعمال ہوا ہے اور اس کی بنیاد پر فراق کو ہند اسلامی
کلچر کا ترجمان یا عکاسی کرنے والا شاعر بتایا ہے۔ وہ دراصل دور کی کوڑی لانے کے
مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابو الکلام قاسمی نے اس نوع کا کوئی دوسرا شعر نقل نہیں
کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہند اسلامی کلچر کی عکاسی کے لیے اسلامی تاریخ سے جس قدر واقفیت
ہونی چاہیے اور عربی و فارسی زبان پر جس قدر گرفت ہونی چاہیے یہ دونوں باتیں فراق
کے یہاں مفقود تھیں بلکہ فراق کی معلومات فارسی میں بالکل سطحی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ
فراق کی شاعری میں فارسیت نہیں ملتی اور جہاں کہیں انھوں نے بہ تکلف فارسی استعمال
کرنا چاہا اس کا مناسب استعمال نہ کر سکے اور فارسی سے گہری واقفیت کے بغیر اسلامی
کلچر کی ترجمانی ممکن نہیںہے۔ فراق کی شاعری میں فارسیت کی کمی کی شکایت ایک بار
رشید احمد صدیقی نے بھی کی تھی جس پر فاروقی صاحب نے کہا تھا کہ رشید احمد صدیقی
نے فراق کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ فراق فارسی
الفاظ کے معانی و مفاہیم سے تو باخبر تھے مگر اس لفظ کی خاصیت اور اس کے مزاج سے
ناواقف تھے جس کی وجہ سے وہ فارسی کے الفاظ کو پوری توانائی سے برتنے میں ناکام
رہے۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں:
’’فراق
صاحب کا معاملہ یہ تھا کہ وہ فارسی کے الفاظ اور اس کے لغوی معنی تو اکثر جانتے
تھے لیکن ان کی روح اور مزاج سے بے خبر تھے۔ اس لیے انھوں نے فارسی عربی الفاظ کو
اس طرح برتا کہ وہ شعر میں اپنا پورا فائدہ نہیں دیتے اور کبھی کبھی تو اس طرح
برتا کہ زبان کا مزاج اس کو کبھی قبول نہیں کر سکا۔ ’جلوہ‘ کا استعمال ان کے یہاں
’دیکھو ہو‘ والی غزل کے ایک شعر میں ہے۔ یہاں یہ لفظ شعر کا حسن بڑھانے کے بجائے
مفہوم کو خبط کر رہا ہے ؎
کبھی بنا دو ہو سینے کو جلوؤں سے رشک گلزار
کبھی رنگ رخ بن کر تم یاد آتے ہی اڑ جاؤ ہو
زہے آب گل کی یہ کیمیا ہے چمن کے معجزہ نمو
خزاں ہے کچھ نہ بہار کچھ وہی خار وخس وہی رنگ و بو
میری شاعری کا یہ آئینہ کرے ایسے کو تیرے روبرو
جو تیری ہی طرح ہو سر بسر جو تجھ ہی سے ملتا ہو ہو بہو
وہ چمن پرست بھی ہیں جنھیں یہ خبر ہوئی ہی نہ آج تک
کہ گلوں کی جس سے ہے پرورش رگ خار میں ہے وہی لہو
ان اشعار میں ’کیمیا‘ رنگ و بو، سر بسر، سوز، رنگ نشاط،
ایسے الفاظ اور فقرے ہیں جو یا تو پوری طرح کارگر نہیں ہے مثلاً رنگ و بو کیونکہ
اس میں اور ’خار وخس‘ میں مناسبت نہیں ہے اور’ سر بسر‘ کیونکہ’ موبہ مو‘ جیسے
خوبصورت فقرے کے سامنے’ سربلند‘ نہیں ہو سکتا۔ ’کیمیا‘ جس کا تعلق نمود سے تو ہو
سکتا ہے نمو سے نہیں اور’’ سوز و ساز‘‘ جس کا بہار سے اور غم کی بو آنے سے کوئی
تعلق نہیں۔‘‘
(فراق
شاعر اور شخص،شمیم حنفی،مصطفی بک ٹریڈر، 1983،ص: 64)
اس اقتباس میں فاروقی صاحب اپنے مخصوص وضاحتی انداز میں
فراق کی فارسی الفاظ کے مزاج اور کیفیت سے عدم واقفیت کا اظہار کر چکے ہیں جس سے
پتہ چلتا ہے کہ اردو غزل کی روایت میں جو چیز بنیادی حیثیت رکھتی ہے یعنی فارسی اس
سے فراق بہرہ مند نہیں تھے تو پھر ہند اسلامی کلچر کی ترجمانی کی بات ہی فارسی سے
عدم واقفیت کی بنا پر ختم ہو جاتی ہے کہ ہند اسلامی کلچر کا خمیر ہی عربی و فارسی
سے اٹھتا ہے۔ البتہ قاسمی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ فراق نے ہندو تہذیب اور
ہندوستانی عناصر کو خوبصورتی سے اردو کے غزلیہ آہنگ میں ڈھالا ہے۔ حالاںکہ دوسرے
شعرا نے بھی ہندو تہذیب و ثقافت کو اپنی شاعری میں شامل کیا ہے مگر فراق اس معنی میں
اہم ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے الفاظ سے تمام مناظر کو ہندوستانی رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔
فراق نے میر کے طرز میں بھی غزلیں کہی ہیںاور خود فراق نے طرز میر کو بڑے شدومد کے
ساتھ بیان کیا ہے۔ طرزِ میر میں فراق کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
حسن کو اتنا یاد کرو ہو چلتے پھرتے سائے تھے
ان کو مٹے تو مدت گزری نام و نشان کیا پوچھو ہو
کتنی وحشت اتنی وحشت صدقے اچھی آنکھوں کے
تم نہ ہرن ہو میں نہ شکاری دور اتنا کیوں بھاگو ہو
ان اشعار میں طرزِ میر کے نام پر وہی ’آؤ ہو‘،’جاؤ
ہو‘ اور ’بھاگو ہو‘ جیسے الفاظ ملیں گے۔ نہ میر جیسی تہہ داری ہے نہ میر کا
استعاراتی اسلوب ہے اور نہ ہی میر جیسی کفایت لفظی۔ فراق صاحب معمولی مطالب کے بیان
کے لیے بھی بہت سارے الفاظ کا ضیاع کرتے ہیں جن میں بعض دفعہ ربط و تسلسل کا بھی
فقدان ہوتا ہے۔ میر کی شاعری میں دھیمے پن اور استعاراتی نظام سے جو گداز اور کیفیت
پیدا ہوتی ہے اس سے فراق کے طرز میر والی شاعری یکسر خالی معلوم ہوتی ہے ؎
اک شخص کے مر جانے سے کیا ہو جائے ہے لیکن
ہم جیسے کم ہوئے ہیں پیدا پچھتاؤ گے دیکھو ہو فراق
یہ شعر میر کے اس بے مثال شعر کے طرز میں کہا گیا
ہے ؎
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاؤ گے سنو یہ بستی اجاڑ کے
اس شعر میں میر شہر دل کہ
اجڑنے اور برباد ہونے پر کوئی آہ و فغاں نہیں کرتے ہیں، کسی قسم کے رنج و الم کا اظہار نہیں کرتے۔ وہ تو یہ بھی نہیں
کہتے کہ میرا شہر دل اجاڑ کر تم پچھتاؤ گے۔ بس مطلق دل کے نگر کے اجاڑنے اور
برباد کرنے سے منع کر رہے ہیں۔ کیونکہ میر کو اپنے دل کے ٹوٹنے اور شہر دل کے
اجڑنے سے کہیں زیادہ ملال اس بات کا ہے کہ معشوق کو پچھتاوا نہیں ہوگا۔ اس لیے میر
اپنے دل کے ٹوٹنے کی تکلیف سے بے پرواہ ہو کر ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح
معشوق اس پچھتاوے سے بچ جائے۔ اس مضمون میں ایک طرح کی بلندی ہے۔ عشق کے پاکیزہ
اور فطری جذبے کی سچی ترجمانی ہے۔ جب کہ فراق کے شعر میں سوائے خود ستائی اور خود
نمائی کے کچھ نہیں ہے۔ پہلے مصرعے میں وہ تجاہل عارفانہ سے کام تو لیتے ہیں کہ ایک
شخص کے مر جانے سے کیا ہو جائے گا مگر اگلے مصرعے میں ’ہم جس سے کم ہوئے ہیں پیدا‘
کہہ کر خود کو یکتہ روزگار کہنے کا موقع نہیں چوکتے۔جب کہ میر یہ نہیں کہتے کہ میرا
دل یا میر کا دل توڑ کر پچھتاؤ گے۔ شمس الرحمن فاروقی نے فراق کی شاعری میں تہہ
داری و استعاراتی اسلوب کے فقدان اور ان کی شاعری میں لفظی و معنوی ربط کی کمی پر
تنقید کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جہاں
تک استعاراتی اسلوب کا مسئلہ ہے اس کی وضاحت کے لیے اتنا کہنا کافی ہے کہ ایک بار
جی کڑا کر کے آپ میر کے کلیات ِغزل کے کوئی چھ صفحے پڑھ لیجئے اور دیکھیے کہ ایک
ہی تجربے یا ایک ہی طرح کے تجربے مثلاً معشوق کی سردمہری، عاشق کی نا رسائی،
کائنات کا غیر ہمدرد اور اجنبی ہونا کے لیے کتنے استعارے میر نے استعمال کیے ہیں
پھر فراق صاحب کے کلیات پر یہی تجربہ کیجیے۔ حقیقت خود ہی کھل جائے گی۔‘‘
(فراق
شاعر اور شخص،ص:63)
لیکن ابوالکلام قاسمی فاروقی صاحب کی اس بات سے متفق نہیں
ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فراق صاحب کے یہاں تشبیہ و استعارے کا خوبصورت نظام موجود ہے
جس سے وہ لفظوں کی مدد سے ایک سی امیج بناتے ہیں اور پیکر تراشی کرتے ہیں۔ فراق کے
تخلیق کردہ پیکروں میں ان کی انفرادیت نمایاں ہوتی ہے۔ اس لیے قاسمی صاحب فراق کے یہاں
موجود تشبیہ و استعارے پر مبنی امیج سازی اور پیکر تراشی کو بنیاد بنا کر فراق کی
شاعرانہ حسن کاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ضرورت
اس بات کی ہے کہ غیر رسمی تشبیہات و استعارات پر مبنی امیج سازی کو اگر فراق کی
شاعرانہ حسن کاری کا زاویہ نظر بنا کر نئے سرے سے دیکھا جائے تو ہو سکتا ہے فراق
کے مطالعے کا کوئی ایسا تناظر فراہم کر دے جس سے فراق کی شاعری کے تعین قدر کا ایسا
وسیلہ ہاتھ آجائے جس کو بہت کم بروئے کار لایا گیا ہے۔
(شاعری
کی تنقید،ص:77)
یقینا فراق صاحب کی شاعری کو مختلف اور متعدد زاویہ نظر
سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور تعین قدر کے ان وسیلوں کو بھی بروئے کار لانے کی ضرورت
ہے جو ان کے شاعرانہ نظام کو سمجھنے میں معاون ہو۔
Tajammul Husain
Research Scholar JNU
Mob.: 7905623176
Email: Rahatzubeen@gmai.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں