29/12/25

اردو میں گیت کی روایت اور میراجی کے گیت،مضمون نگار: علاء الدین خان

اردو دنیا،اگست 2025

اردو شاعری کی بنیاد گیت، غزل اور نظم کی تثلیث پر قائم ہے۔ گرچہ اردو کی اور بھی شعری اصناف ہیں مگر بنیادی طور پر انھی تینوں کو اولیت حاصل ہے۔یہ اصناف نہ صرف یہ کہ انسانی فطرت وجبلت کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب وثقافت، رنگ ونور اور زندگی کے مختلف شیڈس کو بھی پیش کرتی ہیں۔

گیت نغمگی سے معمور نسائی اظہار کا بیانیہ ہے، جس کا رشتہ ملک کی زمین، تہذیب و ثقافت سے بے حد گہرا ہے۔ گیت کا تعلق زمین سے ہے اور زمین کا عورت سے۔ زمین کی صفت میں تغیر پذیری ہے،وہ ہر موسم اور باہری اثرات جذب کرکے خود کو ایک نئے لبادے میں تبدیل کرلیتی ہے۔ لہٰذا عورت کے اندر جو رنگینی، وسعت اور تلون کی صفات پائی جاتی ہیں وہ زمین سے مستعار ہیں۔ زمین باہری اثرات کو جذب کرکے مختلف رنگ اور پھول پودوں کے ذریعہ تتلیوں اور بھونروں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔ ٹھیک اُسی طرح عورت بھی بناؤ سنگھار کے ذریعے مرد کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔ گیت اور زمین کے باہمی رشتے کے بارے میں وزیر آغا لکھتے ہیں:

’’گیت زمین اور جنگل کی پیداوار ہے۔ اس لیے یہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ سامعہ کومتحرک کرتا ہے۔ اسی لیے گیت مزاجاً موسیقی سے ہم آہنگ ہے۔ رقص اس کا ایک اضافی پہلو ہے اور یہ عورت کی مرد کے لیے والہانہ محبت کا اظہار ہے۔ بنیادی طور پر گیت میں مرد مخاطب اور معشوق ہے اور عورت ایک عاشق زار! پھر چونکہ گیت عورت کی طرف سے اظہار محبت کی ایک صورت ہے اس لیے اس میں سوچ اور تخیل کا تحرک نسبتاً کم ہے۔ اس کی جگہ ایک والہانہ جذبے نے لے لی ہے۔ فی الواقعہ گیت عورت کے جسم کی پکار ہے اور اسی لیے اس میں نہ صرف جذبات کی فراوانی ہے بلکہ یہ کسی مثالی یا تخیلی محبوب کے بجائے گوشت پوست کے بت کو اپنی نگاہ کا مرکز بناتا ہے۔‘‘1

گیت اس محبت کا نتیجہ ہے جو مسافر کی آمد، وصال اور چلے جانے کے بعد سوز دل کا لبادہ زیب تن کرلے اور فراق کی آگ میں تپ کرآواز کی شکل میں تبدیل ہو جائے۔ یہاں کالیداس کا مشہور منظوم ڈراما ’شکنتلا ‘کا ذکر گیت کے باب میں ناگزیر ہے۔ یعنی شکنتلا کی راجہ سے ملاقات کے بعد شادی ہوتی ہے،پھر محبت کا بیج انکور کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو راجہ واپس چلا جاتا ہے اور شکنتلا کو بھول جاتا ہے، ہجر کے نتیجے میں شکنتلا کے اندر ایک نوع کی کسک اور بے قراری پیدا ہوتی ہے۔ یہی بے قراری اور کسک گیت کا موضوع قرار پایا۔ یہ گیت باطنی اور خارجی عناصر کا پابند نہیں ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ گیت عورت کے جذبۂ آزادی کا مرہونِ منت ہے۔

گیت شعور ذات سے آشنائی کی پہلی سیڑھی ہے۔عورت اپنی ذات سے واقف ہونے کے بعد اپنے محبوب سے ملنے کے لیے تمام بندشوں اور رکاوٹوں کو توڑ نے کے لیے آمادہ ہوجاتی ہے۔ اپنا گھر باراور زمین کو تیاگ کر پیتم سے ملنا مثبت عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی زمین اور دھرتی کوچھوڑ کر پیتم کے دیس کی باسی بننے اور اُسے اپنانے کے لیے عورت تیار ہوجاتی ہے۔ مگر اس کی بنیادی سرشت میں کسی طرح کی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ تیاگ یا قربانی کا یہی مثبت عمل گیت ہے۔

گیت اپنی دھرتی سے وابستہ تمام عنصر سے معمور ہے۔ گیت چونکہ دھرتی، تہذیب اور معاشرے کی دین ہے اس میں کئی طرح کی آوازیں شامل ہوتی ہیں مثلاً پپیہے کی پیہو، کوئل کی کوک، بلبل کی چہکار وغیرہ۔ بہر کیف گیت نسائی نغمگی اور عورت کے جذبۂ اظہار کا بیانیہ ہے۔ یہ اسی سماج میں نمو پاتا ہے جو تہذیب کے مختلف مدارج طے کرچکا ہو اور روح اور جذبے سے آشنا ہو۔

اگرچہ گیت عورت کے سوزوگداز کا اظہار ہے لیکن مرد نے بھی اظہار محبت کیا ہے۔ مرد کی طرف سے کہے گئے گیت میں بھی نسائی لہجے اور محبت کے ارضی پہلو کو پیش کیا گیا ہے لیکن گیت کے بنیادی مزاج میں قطعی تبدیلی نہیں ہوئی۔

اردو میں گیت کے اولین نقوش امیر خسرو کے یہاں پائے جاتے ہیں اور لفظ ’ریختہ‘ گیت کے معنی میں استعمال کیا جاتا تھا جس میں ہندی، سنسکرت، فارسی اور عربی کے الفاظ بکثرت استعمال ہوتے تھے۔ اس میں گیت کے تمام لوازمات موجود ہیں مثلاً نرم ونازک او رکومل الفاظ،برہ کی تڑپ اور نسائی لہجہ۔ یعنی عورت کی زبان سے عشق ومحبت کے واردات کا بے باکی سے اظہار ہوتا ہے۔ خسرو کا مشہور گیت دیکھیے  ؎

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلش چو عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یہ ابتدائی زمانے کا گیت ہے جس میں فارسی اور ہندی کے الفاظ کا بے حد فنکاری سے استعمال ہوا ہے۔ خسرو کے بعد پندرہویں صدی میں کبیر اور میر ا بائی کا نام گیت کے ضمن میں اہم ہے۔ کبیر نے اپنے گیتوں کے ذریعہ ہندو اور مسلم کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی ہے۔ کبیر کے گیت صوفی تصورات سے معمور ہیں جبکہ میرا بائی کے گیت میں گیت کے تمام عناصر پائے جاتے ہیں۔

اردو گیت کے مزاج میں نازک ولطیف اورکومل الفاظ کے استعمال کی روایت میرابائی کے گیت پر مبنی ہیں۔ گیت کا مزاج اپنی دھرتی سے والہانہ محبت اور اس کے اظہار کے علاوہ وابستگی بھی ہے۔ دکن میں قلی قطب شاہ، وجہی،غواصی، شاہی، برہان الدین جانم اور شمال میں جرأت، انشا اور نظیر اکبر آبادی کے کلام میں گیت کے مزاج کی جھلک ملتی ہے۔

اردو گیت پہلی بار امانت کی اندر سبھا میں پوری طرح جلوہ گر نظر آتا ہے،جس میںخالص ہندوستانی شاعری کی روح کوکرشن اور رادھا کے عشق کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ اندر سبھا کی ساری فضا ہندو دیو مالا سے مستعار ہے۔ اندر سبھا میں پیش کردہ نرمی ونزاکت، کوملتا اور خوبصورتی، ہندوستانی فضا سے ہم آہنگ ہے۔ ان گیتوں میں بھی فراق و وصال کارنگ موجود ہے۔ اندر سبھا میں پہلی بار اردو گیت کی بھرپور پیش کش کی گئی جس کے ڈانڈے دکنی شاعری سے ملتے ہیں۔ اگرچہ اس عہد میں اردو گیت نے شعری صنف کا درجہ تو حاصل کرلیاتھا مگر اس میں ادبی عنصر پیدا نہ ہو سکا۔ آغا حشر کے ڈراموں کے گیت عمومی مزاج کے حامل ہیں۔ امانت اور آغا حشر نے گیت کو ادبی اور انفرادی رنگ دینے کی سعی نہیں کی۔ ان کے پیش نظر عوام کی تفریحی ضروریات تھیں۔

اردو گیت کو مقام ومرتبہ عطا کرنے میں عظمت اﷲ خان (سریلے بول)، اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری نے اہم رول ادا کیا، لیکن اردو گیت کو جس شاعر نے بلند مقام عطا کیا وہ ثناء اللہ ڈار یعنی میرا جی ہیں۔جن کے گیتوں کا سلسلہ میرا بائی کے گیتوں سے ملتا ہے۔ میرا جی کا زمانہ اردو گیت کے لیے بے حد سازگار ثابت ہوا بلکہ اردو گیت نے تحریک کی شکل اختیا رکرلی اور اس صنف کو نئے امکانات سے روشناس کیا۔ میرا جی کے ساتھ قیوم نظر، اندر جیت شرما، آرزو لکھنوی، مجروح سلطان پوری، وقار انبالوی وغیرہ کا نام بطور خاص لیا جاتا ہے۔

میرا جی کے گیت ہندو روایت اور دھرتی پوجا سے معمور ہیں۔ میرا جی کا مزاج ہندو تہذیب وثقافت اور موسیقی سے ہم آہنگ تھا اس لیے ان کے گیتوں میں ہندوستان کی فطرت، فضا، مظاہر، دریا، جنگلات، چرند پرند اور یہاں کے جملہ مظاہر کا بھر پور اظہار ملتا ہے۔ ہندی گیتوں کی روایات اور نرم ونازک الفاظ کے استعمال سے میرا جی نے بھرپور استفاد ہ کرکے اردو گیت کو ہندی کی مٹھاس اور کوملتا سے تازہ دم کیا۔

میرا جی کے دو مجموعے ’میرا جی کے گیت‘ اور گیت ہی گیت‘ ان کی زندگی میں ہی شائع ہوئے۔ گیتوں کا پہلا مجموعہ اور پہلی شعری تصنیف ’میرا جی کے گیت‘ کی اشاعت 1943میں مکتبہ لاہور سے ہوئی، جس میںکل پچاس گیت ہیں۔ اِن پچاس گیتوں میں آٹھ گیت ہندی،سنسکرت اور بنگالی کے شعرامثلاً چنڈی داس، تکارام، ودیاپتی اور رابندر ناتھ کے گیتوں کے تراجم شامل ہیں۔ اِن گیتوں کے علاوہ ایک پیش لفظ اور ’گیت کیسے بنتے ہیں‘ کے عنوان سے میرا جی کی تحریر شامل ہے،جس میں اِنھوں نے گیت کی تشکیل میں داخلی عناصر کو بیان کیا ہے جن سے میرا جی کے گیت معرض وجود میں آئے۔

میرا جی کے گیتوں کے دوسرے مجموعے ’گیت ہی گیت‘ میں کل 60گیت ہیں، جس میں دو رابندر ناتھ ٹیگور کے گیت کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ ان گیتوں کو میرا جی نے 5ذیلی عناوین کے تحت رقم کیا ہے۔’کچھ اپنے من کے‘ کے تحت 10گیت، ’کچھ پرائے دھن کے‘ کے تحت 9گیت،’کچھ موسم کے، کچھ بے موسم کے‘ تحت22گیت، ’کچھ گیت نہیں‘ کے تحت 10، ’بازگشت‘ کے تحت 8اور سنچاری کے تحت ایک گیت جس کا عنوان ہے ’گیتوں کا گیت‘۔

گیت ہی گیت‘ کے پیش لفظ میں میرا جی ان گیتوں کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں  :

’’آخری حصے (یعنی کچھ گیت نہیں) میں گیت کی بعض ایسی صورتوں کے تجربے میں جن میں شاعری کے معین اصولوں سے گریز دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے ان شعوری تجربات کو اسی نظر سے دیکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ پہلا حصہ اپنے من کا گیتوں کا ہے۔ اس حصے میں دو ایک گیت تو ایسے ہیں جو لکھنے والے کی ذاتی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ زندگی جو رسوائی کے باوجود پردے میں ہے۔ باقی ایسے گیت ہیں جو لکھنے والے کے نظریہ حیات پر بلکہ زندگی سے متعلق انداز نظر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دوسرا حصہ یعنی ’پرائے دھن کے گیت‘ ایک ایسے ستارے سے متعلق ہیں جو چند دنوں کے لیے میرے افق پر نمودار ہوا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بعض اجنبی عناصر کے دباؤ سے ٹوٹ کر بکھر گیا۔‘‘2

میرا جی کے گیت میں ہندی فضا اور ہندی شاعری کی تواناروایت ملتی ہے۔بالخصوص اِن کی ابتدائی زمانے کی شاعری میںذات کا اظہار، ہندو دیو مالائی عناصر، ہندی شاعری کا لہجہ اور آہنگ اثرانداز ہوا ہے لیکن اِنھیںاردو گیت میں اس طور برتا ہے کہ اجنبی نہیں معلوم ہوتے۔

ان کے گیتوں کا موضوعاتی کینوس وسیع ہے۔یہ گیت ہجروفراق،جنس، ساون کے جھولے، فلسفۂ عشق، فلسفۂ کائنات اور فلسفۂ زندگی سے متعلق ہیں۔اِن کے گیت غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔عام طور پر گیت میں فکری بالیدگی کم پائی جاتی ہے لیکن میرا جی کے یہاںگیت کے بہت سے شیڈس نظر آتے ہیں۔اِن کے گیتوں میں موضوعاتی تنوع ہے۔ ثناء اﷲ ڈار سے میرا جی تک کا سفر بے حد اہمیت کاحامل ہے۔ثناء اﷲ ڈار کو میرا جی بنانے میں میرا سین سے عشق اور اس محبت کی خاطراپنے آپ کو بدلنا، وہی بھیس بھوسا اختیار کرنا، اپنے آپ میں اہم ہے۔ اِن عناصر کو میرا جی کی شاعری اور گیت سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔

 میرا جی کی زندگی میں ناکامیٔ عشق اورناسازگاریٔ حالات کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوگیا تھا جسے وہ تاحیات پُر نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن کی شاعری میں ابہام، اشارے اورکنائے کا عنصر غالب ہے لیکن اس کے برعکس ان کی تنہائی اور ناآسودگی اور دلی جذبات وکیفیات کا اظہار گیتوں میں پوری طرح جلوہ افروز ہے۔ قیصر جہاں لکھتی ہیں:

’’میرا جی کے گیتوں میں ان کے دل کی دھڑکن سنی جاسکتی ہے کیونکہ ان میں نہ ابہام ہے اور نہ اشارے اور کنائے بلکہ نہایت سادگی اور صفائی سے دلی جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔‘ابہام اور اشارے کنائے صرف آزاد نظم تک ہی محدود ہیں۔ دوسری شعری اصناف میں انھوں نے ایک حساس انسان کی حیثیت سے زندگی کی بہت سی تلخ حقیقتوں کو پیش کیا ہے۔‘‘3

میرا جی کی شخصیت اور زندگی کا بھرپور اظہار اِ ن کے گیتوں میں ہوا ہے۔یہ گیت دیکھیے کہ کس طرح انھوں نے اپنے آپ کوبیان کرنے کی کوشش کی ہے:

پربت کو اک نیلا بھید بتایا کس نے

دوری نے

چاند ستاروں سے دل کو بھرمایا کس نے      

دوری نے

مٹی اچھوتی انجانی لہروں کا ساگر نیارا ہے

دور کہیں بستی سے بن میں سُونا مندر پیارا ہے

قدم قدم پر جیون میں دوری نے روپ نکھارا ہے

 تڑپ، ناامیدی اور فاصلے کے باوجودذہنی طور پر وہ اپنے محبوب سے قریب تر ہیں        ؎

تم ہی ہو اس دل کی ٹھنڈک کہ چاہے تم ہو کتنی دور

کتنی دُور ہو، کتنی دُور؟

گیت میں ساون کو اہمیت حاصل ہے۔ساون کے آتے ہی باغوں اور کھلیانوںمیں جھولے ڈالے جاتے ہیں۔ طرح طرح کے پکوان پکائے جاتے ہیں، بہنوں کو میکے سے تحفے آتے ہیں اور وہ سسرال سے میکے بھائی کے ساتھ جاتی ہیں         ؎

پھر ساون من بھاون آیا

آیا مورا بیر- آیا بیرن مورا رے

پھر ساون من بھاون آیا

پل میں من بستی کو سجایا

ساون آیا ٹوٹا دکھ کا بندھن مورا رے

آیا بیرن مورا رے

ہنسی بہن بھائی سے مل کے

اب دکھ دور ہوئے ہمن دل کے

اب تو کوئی سوچ نہیں اب ساون مورا رے

آیا بیرن مورا رے

میرا جی نے اپنے گیتوں میں فلسفۂ زندگی اور فلسفۂ کائنات کا رمز سیدھے سادھے طریقے سے پیش کیا ہے۔زندگی اور کائنات کی پیچیدگی کو نہایت آسان زبان میںکچھ اس طرح بیان کیا ہے        ؎

          جیون کام کی بہتی دھارا

جیون دھیان کا روپ ہے نیارا

اس کی کیا پہچان

ہم کو

——

جیون کی گنگا ہے گہری

رنگ کئی ہیں بات اِکہری

دیکھ کے دل حیران

ہمارا

زندگی کی بے ثباتی اور موہ مایا کوایک گیت میں اس طرح پیش کیا ہے       ؎

جگ جیون ہے جھوٹی کہانی

جگ میں ہر شے آنی جانی

موہ کا جال بچھا ہے ایسا

اَن مٹ موت کا پھندا ایسا

اس دھوکے سے کیسے نکلیں سوچ تھکے یہ لاکھوں گیانی

جگ جیون ہے جھوٹی کہانی

دکھ سے نجات پانے کا ایک واحد ذریعہ خدا کی یاد ہے۔ اس کی عبادت کرکے دل کو سکون ملتا ہے۔میرا جی لکھتے ہیں           ؎

پل پل تیرا نام جپیں گے

دل میں رکھیں گے منہ سے کہیں گے

سانس یونہی اب پوری کریں گے

داس کو آس تہاری داتا تیری لیلا نیاری

ان کے گیت میں مناظر فطرت، پھول پتے، درخت جنگلات، بارش، دھرتی کے ہر رنگ وروپ کا ذکر بار بار آتا ہے۔ اِن کے گیت کی ایک خوبی دھرتی پوجا ہے یعنی اپنے گیتوں میں دھرتی سے وابستہ تمام مظاہرکاذکرکرتے ہیں        ؎

نیا رنگ ہے/نیا ڈھنگ ہے

نئی صدائیں، نئی پکاریں آئیں

دن آیا ہے، رات نہیں اب

رات کی کوئی بات نہیں اب

چاند کٹورا سات نہیں اب

نازوں کھیلی /نئی نویلی/آئی اکیلی

جیون جیوتی لائی ہے

لائی اوشا/آئی اوشا

میرا جی کے گیت کی ایک خوبی ہندو دیو مالا ئی عناصر ہیں۔ان کی شاعری میں قدیم ہندو اساطیر کا ذکرکثرت سے ملتا ہے۔یہ ذکر میرا جی اپنی تلخیوں کو کم کرنے اور شکست کے احساس سے نجات حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ انھوںنے ’میرا جی کی نظمیں‘ کے دیباچے میں لکھا ہے:

’’ذہنی تلخی کو کم کرنے کے لیے اور اپنی شکست کے احساس سے رہائی حاصل کرنے کے لیے بھی میرا ذہن اپنی ادبی تخلیقات میں مجھے بار بار پرانے ہندوستان کی طرف لے جاتا ہے۔ مجھے کرشن کنہیا اور برندابن کی گوپیوں کی جھلکیاں دکھا کر ویشنو مت کا پجاری بنادیتا ہے۔‘‘4

میراجی کی شاعری میں جنس کی کارفرمائی نظرآتی ہے جس کی وجہ سے وہ بدنام بھی ہوئے لیکن ان کے یہاں جنس کا صحت مند رویہ پایا جاتا ہے۔وہ جنسی عمل کو غیر اخلاقی کے بجائے انسانی محبت کے لیے مثبت رویے کے طور پر دیکھتے ہیں۔اِسے انسانی مسرت کا ذریعہ مانتے ہیں۔بقول رشید امجد:

’’وہ جنس کو ایک قبیح فعل سمجھنے کے بجائے حسن کے گرد جمع اس تہذیبی آلودگی کو صا ف کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مروج اخلاق کی پیداوار ہے۔ جنس کے ساتھ میرا جی کا تعلق سطحی یا اکتسابی نہیں بلکہ ذہنی اور روحانی ہے کیونکہ وہ اسے زندگی اور تخلیق کا ایک لازمی عنصر سمجھتے ہیں۔‘‘ 5

میرا جی کے گیتوں میں بھی جنس کا ذکرہے۔ خاص کر عورت کی زبان میں جب اپنے جذبات واحساسات کا اظہار کرتے ہیں تو اس میں بھی جنسی عنصر نمایاں ہیں         ؎

مجکو یہ بتا سکھی/کس نے لیا شیام نام؟

اے سکھی بتا مجھے/کیسے ملوں گی اسے

نام ہی سے یہ ہوا/موہنی سی کر گیا

جسم نے جب چھوا/کہہ سکھی کہ ہوگا کیا؟

جس جگہ ہے اس کا گھر/اس جگہ کنواریاں

اس کا روپ دیکھ کر/ضبط کرسکیں کہاں!

جنس کے علاوہ میرا جی کے گیت میں ہجر وفراق کی بہت عمدہ عکاسی ملتی ہے۔ ایک گیت ملاحظہ فرمائیے        ؎

بھیج بھیج سندیسے اپنے مجھے ستانے والے

جب تیرا سندیسہ آئے برہ اگن بھڑکائے

ساگر نینوں کا سوکھے من کا سوتا بہ جائے

ساگر نینوں کا سوکھے من کا سوتا بہ جائے

بیتے سکھ سب یاد آجائیں دل چٹکی میں مسلیں

بے بس من کچھ کر نہ سکے اور تڑپ تڑپ رہ جائے

دل کو سکھ دینے والے، دل کو تڑپانے والے

بھیج بھیج سندیسے اپنے مجھے ستانے والے

میراجی کو ہندو مذہب، ہندوستانی موسیقی بالخصوص کلاسیکی موسیقی سے خاص لگاؤ تھا۔کلاسیکی موسیقی کے راگوں سے اچھی واقفیت تھی۔جب کبھی وہ پریشان ہوتے تو اپنے بھائی کامی سے جے جے ونتی سنتے جس سے انھیں سکون ملتا۔میرا جی کے گیت میں بلا کی نغمگی، غنائیت اور موسیقیت پائی جاتی ہے۔شافع قدوائی لکھتے ہیں:

’’میرا جی کے گیت پڑھ کر یقین اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ یہ گیت باقاعدہ دھنوں میں لکھے گئے ہیں۔ گیتوں میں موسیقی کے تقاضوں کا لحاظ رکھنے کے علاوہ میراجی نے بول چال کے اور ہندی کے کومل اور سجل الفاظ استعمال کرکے یہ باور کرایا کہ بول چال کے الفاظ نہ صرف قاری کو تجربے کی جذباتی جہتوں سے روشناس کرتے ہیں بلکہ اسے غوروفکر پر بھی مجبور کرتے ہیں۔‘‘6

میرا جی کوگیت سے خاص لگاؤ تھا۔انھوں نے گیت کہنے کا سفر’ ادبی دنیا‘سے وابستگی کے ساتھ شروع کیا۔ چنانچہ صلاح الدین احمد کے ساتھ ’گیت مالا‘ کے نام سے گیتوں کا انتخاب 1939میں لاہور سے شائع کیا۔اس انتخاب میں میر اجی کا ایک گیت ’سادھو کا گیت‘ کے عنوان سے شامل ہے۔گیت کا یہ سفر بعد میں ’میرا جی کے گیت‘ اور’ گیت ہی گیت‘ کی اشاعت کے ساتھ جاری و ساری رہا۔ جمیل جالبی نے ’کلیات میرا جی ‘میں میرا جی کے گیتوں کی تعداد 135بتائی ہے اور غیر مطبوعہ گیت کو بھی شامل کلیات کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:

’’کلیات کی ترتیب میں زمانی ترتیب کو ترجیح دی گئی ہے مثلاً گیتوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ پہلے اُس مجموعے کے گیت درج کیے گئے جو پہلے شائع ہوئے، اس کے بعد دوسرے مجموعے کے گیت شامل کیے اور اس کے بعد وہ گیت جو کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں۔‘‘7

گیت مالا‘ میں شامل ایک گیت بعنوان ’سادھو کا گیت‘ وقت کی اہمیت، دکھ سکھ،زندگی کی بے ثباتی، دوسروں پر بھروسے کا نتیجہ اور اس سے پیدا نتائج کو بخوبی اس میں پیش کیا ہے       ؎

وقت نہیں ہے میرا پیارے، وقت نہیں ہے میرا

وقت نہیں ہے میرا پیارے

چھایا گھور اندھرا پیارے

مَن کو نہیں سکھ چین کسی کے

سب کو دکھ نے گھیرا پیارے

گیت کا آخری ٹیپ دیکھیے       ؎

آج تلک سب نے یہ دیکھا

کوئی نہیںاس جگ میں اپنا

جس نے کیا اوروں پر بھروسہ

وقت پڑے پر کھایا دھوکا

میرا جی کے انتقال کے کئی برس بعد صلاح الدین احمد نے اپنی مساعی جمیلہ سے میراجی کے وہ مضامین ؍تراجم جو ادبی دنیا میں 1936سے لے کر 1941تک شائع ہوئے تھے انھیں ’مشرق ومغرب کے نغمے‘ کے نام سے 1958میں شائع کیا۔ اس میں فرانس، امریکہ، چین، روس، روما، کوریا،جرمنی،بنگال کے شعرا اور شاعرات پر نثری مضامین ہیں۔

اِس کتاب میںمغرب ومشرق کے شعرا کے تعارف،تبصرے اور ترجمے میں اُن کے گیتوں کا ترجمہ بھی شامل کیا ہے۔ بالخصوص سنسکرت کے شاعر امارو اور میتھلی شاعر ودیاپتی کے ترجمے سے میراجی کی گیت سے دلچسپی،واقفیت اور گہری وابستگی کا پتہ چلتا ہے۔’جہاں گرد طلبا کے گیت‘ میں یورپ کے بارہویں صدی کے خانہ بدوش طلبا کے ذریعے گائے جانے والے 9گیتوں کا تفصیلی ذکرشامل ہے۔مزید یہ کہ امریکہ، فرانس، روس، روم، جرمنی، انگلستان کی تین شاعر بہنیں،ودیاپتی کے گیت اور قدیم ہندوستان کے شاعر اَمارو پر تفصیلی مضامین شامل ہیں جس سے میرا جی کی گیت سے وابستگی اور نثر نگاری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کے تمام مضامین غالباًمیراجی نے 22سے 27سال کی عمر میں قیام لاہور کے دروان لکھے ہیں۔میراجی نے گرچہ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ بلکہ وہ میٹرک فیل تھے لیکن مطالعے کے ذوق وشوق نے ان کے ذہن کو اس قدر بالیدہ بنادیا کہ وہ اتنی کم عمری میں وہ کارنامہ انجام دے گئے جس کے لیے مدت مدید چاہیے۔صلاح الدین احمد ’مشرق و مغرب کے نغمے‘ میں بعنوان ’میرا جی کی نثر‘ میں لائبریری کے ایک رکن بزرگ پنڈت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :

’’ میں نے اپنی پچاس سالہ ملازمت میں کتابوں کے بڑے بڑے کیڑے دیکھے ہیں، لیکن مطالعے کا جو ذوق وشوق میں نے اس لمبے بالوں والے لڑکے میں دیکھا ہے اس کی مثال میرے حافظے میں موجود نہیں ہے۔‘‘8

مطالعے کے اسی جنون نے میرا جی کی تخلیقات میں وہ گہرائی اور گیرائی پیدا کر دی جس نے ا نھیں زندہ جاوید کر دیا اور ان کے گیتوں میں وہ تا ثیر پیدا کر دی جو ان سے قبل عنقا تھی اور یہی میرا جی کی اصل شناخت ہے۔

حواشی

  1.        اردو شاعری کامزاج، ص:174
  2.        پیش لفظ، گیت ہی گیت، میراجی
  3.        اردوگیت کا تنقیدی جائزہ،ص169
  4.        بحوالہ اردو گیت کا تنقیدی جائزہ، قیصر جہاں، ص175
  5.        میراجی فن اور شخصیت،رشید امجد،ص91،اکادمی ادبیات پاکستان،لاہور1986
  6.        میرا جی، شافع قدوائی،ساہتیہ اکادمی، دہلی، ص74، 2001
  7. کلیات میرا جی،جمیل جالبی، ص30،اردو مرکز، لندن1988
  8. شرق ومغرب کے نغمے،ص:13

 

Dr. Allauddin Khan

Asst. Prof., Dept. of Urdu

Rajendra College, Chapra

Mob: 965-663775

Email: drkhan71@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

عربی شاعری میں ہجوگوئی کی روایت،مضمون نگار: شمس کمال انجم

اردو دنیا،اگست 2025 زندگی یہی ہے۔ جینا اسی کا نام ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم۔ کبھی دکھ کبھی سکھ۔ کبھی نشیب کبھی فراز۔ کبھی اچھائی سے سامنا ہوتا ہ...