29/12/25

غیاث احمد گدی: مقامِ فراز کا افسانہ نگار،مضمون نگار: عشرت ظہیر

اردو دنیا،اگست 2025

غیاث احمد گدی (1925-1986) نے اپنی افسانہ نگاری کی شروعات افسانہ ’دیوتا‘ (مطبوعہ ہمایوں، لاہور، ستمبر 1947) سے کی۔ یہ ترقی پسندی کے عروج کا زمانہ تھا۔ انھوں نے اپنے ابتدائی تخلیقی زمانے میں زندگی کی بے توقیری، انسان کی بے ضمیری، بے حسی، سماج اور معاشرے کی مفاد پرستی، نچلے طبقے اور کمزور افراد کے استحصال کو اپنے افسانوں کا موضوع تو بنایا لیکن حصولِ مقصدِ حیات کی بلند آہنگی اور شورانگیز کیفیتوں سے اپنے افسانوں کو دور ہی رکھا اور محض چند برسوں بعد انھوں نے اپنے افسانوں کو جدیدیت کی رنگ آمیزی سے مہمیز کرکے فن اور ہنرمندی سے مملو تجریدی، علامتی اور استعاراتی، تاریخ ساز افسانے رقم کیے۔ غیاث احمد گدی نے اپنے انتالیس سالہ تخلیقی سفر میں فکری و موضوعاتی تنوع اور اسلوب و بیان کی انفرادیت و ندرت کے توسط سے علامتی اور استعاراتی افسانوں کا پرکشش نظام بھی قائم کیا اور افسانہ نگاری کی تاریخ میں اپنی مستحکم اور مضبوط حصہ داری بھی درج کی۔

ان کے تین افسانوی مجموعے طبع ہوکر مقبول ہوئے:

(i)      بابا لوگ (1969) (ii)     پرندہ پکڑنے والی  گاڑی  (1977)       (iii)    سارا دن دھوپ (1985)

اور ایک ناولٹ پڑاؤ (1980) بھی شائع ہوا۔

غیاث احمد گدی کی شخصیت اور فن میں عجیب، دلچسپ اور حیران کن تضاد ہے، یہ نیک خصلت انسان تھے۔ طرز رہائش، گفتگو اور ملنے جلنے کے اعتبار سے سادہ اور سہج تھے۔ اس کے برعکس ان کی تخلیقی دنیا تہہ بہ تہہ پیچیدگیِ حیات اور زندگی کے مد و جزر کی عکاس، پرکشش، جاذب توجہ اور موثر ہے

جس طرح قرۃ العین حیدر کی پہچان انگریزی طرز رہائش، جیمس جوائس اور ورجینا وولف کی طرح جدید ترین ہیئتی تجربوں سے استفادہ کرنے والی تخلیق کار کے طور پر ہوئی، غیاث احمد گدی کے یہاں بھی غیرمنقسم بہار کے غریب عیسائی گھرانوں، یعنی اینگلو انڈین ماحول اور مسلم گوالوں کے ماحول کی عکاسی کا بہترین منظرنامہ اجاگر ہے، لیکن یہ ان کی افسانوی کائنات کا محض ایک مختصر پہلو ہے، جو ان کی افسانہ نگاری کے ابتدائی دور کے افسانوں میں جھلکتا ہے۔

غیاث احمد گدی کے افسانوں کی دنیا میں موضوع، تکنیک دونوں طرح کا تنوع ہے۔ ان کی افسانوی کائنات میں استعاراتی نظام ہر جا جاری و ساری دکھتا ہے۔ معاشرے کی بدحالی، اخلاقی زوال، طبقاتی کشمکش، تہذیبی اقدار کی بے قدری، انسان کی حق تلفی و محرومی، حالات کے جبر، انسان کی داخلی بے چینی، جنس، جسم اور محبت بے شمار موضوعات ان کے دائرۂ خلق کی زینت بنے ہیں، جن میں نئے پن اور جدید رجحان کے باوجود کہانی پن کے عناصر ہیں اور اسلوب کا استعاراتی  اور انوکھا التزام بھی نمایاں ہے۔

غیاث احمد گدی کے تخلیقی اثاثے اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ معتبر اور تاریخ ساز حیثیت کے حامل ہیں۔ اپنے زمانے میں یہ کافی مقبول بھی رہے۔ رسالوں کی جن اشاعتوں میں، ان کے افسانے شائع ہوتے، وہ رسالے خصوصی اہمیت کے حامل گردانے جاتے۔ آج بھی اردو افسانوں کا کوئی انتخاب ان کے افسانوں کی شمولیت کے بغیر نامکمل اور ناقص سمجھا جاتا ہے۔ گوپی چند نارنگ کا انتخاب کردہ ’آج کی کہانیاں‘، قمر رئیس کے منتخب افسانوں کی مرتب کردہ کتاب ’نمائندہ اردو افسانے‘ اور اطہر پرویز کی کتاب ’ہمارے پسندیدہ افسانے‘ میں ان کے افسانوں کو جگہ دی گئی ہے۔ اس تعلق سے حسین الحق رقم طراز ہیں:

’’غیاث احمد گدی اردو افسانے کا ایک بڑا نام ہے۔ صرف بڑا نام ہی نہیں ہردل عزیز نام بھی ہے۔ ماہنامہ کتاب مرحوم (لکھنؤ) کے ایک سروے کے مطابق کرشن چندر، منٹو، بیدی اور قرۃ العین حیدر کے بعد قارئین نے گدی کو سب سے زیادہ ووٹ دیا۔‘‘

(اردو فکشن ہندوستان میں، از حسین الحق، ص 106)

اوپر ناولٹ ’پڑاؤ‘ کی اشاعت کا ذکر ہوا ہے۔ ان کے افسانوں کے مقابلے میں ناولٹ ’پڑاؤ‘ کی خاطرخواہ پذیرائی نہیں ہوئی۔ جب کہ ان کے مقبول  و معتبر اور معیار ساز افسانوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔

ناولٹ ’پڑاؤ‘ میں پیش کردہ تینوں کرداروں کی فعالیت اور متحرک کارکردگی کو دیکھیں تو بیمار لقوہ زدہ شخص کی ذہنی کشمکش اور اضطراب کاا ظہار حقیقت آمیز نظر آیا ہے۔ سونا کے کردار میں وفاشعاری، مجبوری اور حالات کی ستم ظریفی کے تحت ابھرتی ڈوبتی کیفیتوں کی منظرکشی اہم ہے۔ سونا کا باس مرد کی جبلی نفسانی خواہش کا اسیرہے  اور موقع پرست کردار کے روپ اجاگر ہوا ہے۔ تین کرداروں کی اس کہانی میں غیاث احمد گدی کی زبان، ان کا اسلوب اور اسٹائل کا تنوع، ناول کے قصے کے فکری افق سے ہم آہنگ اور ہم رنگ ہے۔ اگرچہ اس مضمون میں غیاث احمد گدی کے افسانوں کا مطالعہ مقصود ہے۔

 عصری زندگی کے مسائل اور جدید انسان کے گونا گوں داخلی احساسات وتکدر کے موثر پہلوؤں اور موضوعات کی منفرد تصویرکشی اور تکنیک کا تنوع غیاث احمد گدی کی پہچان ہے۔ ان کے افسانوں میں رومان کی صحت مند فضا تو قائم ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ زندگی اور زندگی کی سچائیوں سے گہری وابستگی کا احساس بھی جاگزیں ہے۔ اس تعلق سے ان کے پہلے افسانوی مجموعہ ’بابا لوگ‘ کے پیش لفظ بہ عنوان ’میں اُسے نہیں جانتا‘  میں کلام حیدری تحریر فرماتے ہیں:

’’...غیاث احمد گدی کے افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کس قدر گہری بصیرت، کتنے عمیق مشاہدے اور پرواز خیال پر کتنی قدرت حاصل کرنے کے بعد غیاث احمد گدی میں ڈھل جاتی ہے۔‘‘ (بابالوگ، ص 14)

افسانہ ’بابا لوگ‘ محبت کی وارفتگی، زندگی کی سچائیوں اور سفاکیوں کو فنکاری کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ زندگی کے طمطراق میں گم بے رحم لوگوں کی دنیا میں بڈھا انکل موہوم سی محبت کی شدت میں اپنے آپ کو، ہر لمحہ، ہر آن رسوا اور قربان کیے جاتا ہے۔ یہ افسانہ محبت کی وارفتگی اور جذبے کی شدت، خود سپردگیٔ نگہداشت اور ایثار کے لازوال واقعات کے روشن نقوش بھی ثبت کرتا ہے۔ دشوار گزار راہ میں قدم قدم مسلسل ہزیمت اٹھانے اور رسوائی جھیلنے کے بعد بھی محبت اور رواداری کی راہ کو اختیار کیے رہتا ہے، لیکن بالآخر زندگی کی سفاکیوں سے شکست خوردہ ہوکر سوال کرتا ہے:

’’...تم کِدر میں چلا گیا بے بی... ام تم کو کِدر میں ڈھونڈنے جائے گا... کدر میں؟ یسوع مسیح ام کدر میں جائے گا، بولو... بولو...‘‘ (اقتباس از بابا لوگ، ص 64)

زندگی کی بے بضاعتی اور درد کو ایک نقطے پر سمیٹنے اور پھر اسے کائنات کی وسعت میں محلول کرکے قاری کے دلوں میں، بطور سناٹگی خیمہ زن کرنے کے جوہر کو غیاث احمد گدی نے نہایت کامیابی کے ساتھ افسانہ ’با بے‘ میں برتا ہے۔ افسانے کے کردار بابے کی زندگی کا سناٹا دراصل ہماری معاشرت کا ایک المیہ ہے، جسے ’بابے‘ کے توسط سے اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اس افسانے میں تحلیل نفسی کی تکنیک کو بھی موثر ڈھنگ سے بروئے کار لایا گیا ہے۔ ایک موقعے پر افسانے کا واحد متکلم:

’’...دو تین بار اچک اچک کر شاخ کو تھامنے کی کوشش کی جب بھی ناکام رہا...‘‘ (اقتباس ’بابا لوگ‘، ص 110)

اور پھر چند صفحات کے بعد زندگی کی تفسیر و تعبیر میں کردار سلطانہ کے ذہنی خلفشار کا اظہار یوں ہوتا ہے:

’’زندگی ایک اونچی شاخ تھی، جس تک سلطانہ کے ہاتھ نہیں پہنچ پائے، تو وہ فرش سے اچک اچک کر اسے پکڑنے کے پھیر میں تماشہ بنی ہوئی تھی۔‘‘

(بابا لوگ، ص 113)

اس افسانے میں بابے کے کردار کی تحلیل نفسی سے ہم افسانہ نگار کی بصیرت اور اس کی عمیق گہرائی کو پا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کردار ہے، جس کے بارے میں عموماً لوگوں کا خیال ہے کہ:

’’بابے ایک بدتمیز آدمی ہے۔ لوگوں کی تضحیک کرکے اسے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ جس دن اسے سزا مل گئی، سمجھو کہ بادشاہت ختم...‘‘ (بابا لوگ، ص 108)

لیکن خود بابے کیا ہے؟ بابے کی زبان سے سنتے ہیں:

’’کیا کروں بابو، بڑا سناٹا معلوم ہوتا ہے، بڑی بھیانک چپ... یہ بھری پری دنیا، ایسی خاموش، ایسی سنسان جان پڑتی ہے کہ دم گھٹنے  لگتا ہے۔ سوچتا ہوں، بولوں نہیں، ہنسوں نہیں، تو کہیں یہ سناٹا مجھے نگل نہ لے۔‘‘ (بابا لوگ، ص 133)

زندگی کے سناٹے اور محرومی کو غیاث احمد گدی نے نہایت چابک دستی اور خوبصورتی کے ساتھ بابے کے کردار میں منتقل کیا ہے۔ بابے دراصل ہماری زندگی کی ایک ایسی شام ہے جو ابھی ڈھلی نہیں ہے، مگر اس شام کی تمام تر دلکشی اور خوبصورتی کسی نے نچوڑ ڈالی ہے۔

اردو ادب میں افسانوں کے توسط سے جنس نگاری اور جنس کے حریری پردوں کی نقاب کشائی کے بے شمار نمونے موجود ہیں۔ حسن عسکری، ممتاز مفتی، منٹو، عصمت، بیدی وغیرہ وغیرہ نے سنگ ریزوں بھرے اس موضوع کو لذت کوشی سے پرے یادگار اور انوکھے افسانے دیے ہیں۔ غیاث احمد گدی بھی اس وادیٔ پرخطر سے گزرے ہیں۔ انھوں نے جنس، جسم اور محبت کے توسط سے زندگی کے درد کو اس طرح سمیٹنے کی کوشش کی ہے کہ واردات جنس میں لذت کوشی کی بجائے زندگی کے نشیب و فراز کا گہرا اور سچا احساس ابھر آیا ہے اور احتیاج بدن کے نئے زاویے بھی اجاگر ہوئے ہیں۔ ان کے کئی افسانے اس موضوع کو محیط ہیں۔ مثلاً افسانہ پیاسی چڑیا، افعی اور خانے تہ خانے۔

افسانہ ’پیاسی چڑیا‘ میں ماں اور بیٹی کے رشتے کے تقدس سے محرومی دراصل زندگی کا وہ المناک پہلو ہے جسے جھیلنا للی واٹسن کی تقدیر بن چکی ہے۔ اس افسانے میں للی واٹسن اور مسلمان ڈرائیور دو مستحکم کردار ہیں، جن کے پیچھے ان کی اپنی زندگی کی محرومیاں اور سفاکیاں ہیں۔ ان کرداروں کے پس منظر میں للی کی ماں اور مسلمان ڈرائیور کی بیوی کا کردار بھی متحرک ہے اور زندگی کی ایسی کہانی پیش کرتے ہیں جو روح فرسا بھی ہے اور حقیقت آمیز بھی۔ للی ایک ایسی روح کا استعارہ بن جاتی ہے، جو آلودہ ہوکر بھی پاکیزہ ہے، جو پیاسی ہوکر بھی دوسروں کی سیرابی کا سبب بنتی ہے۔ کہیں جبر کے تحت اور کہیں اپنی مرضی اور ضمیر کی آواز پر، للی لوگوں کی محرومی کو نشاط میں بدلنے، اور پیاس اور تشنگی کو سیرابی میں بدلنے کا کام کیے جانے پر مجبور ہے، بالآخر اس کے اردگرد پھیلے ہوئے لوگ، اس کی روح اور اس کے ضمیر سے امید اور تمناؤں کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتے ہیں اور وہ خود پیاسی چڑیا کی طرح کھڑی کتے کے پلے کو نل سے بوند بوند ٹپکتے پانی سے قطرہ قطرہ اپنی پیاس بجھاتے دیکھتی رہتی ہے، کیونکہ اس کی ممی کو اس کی شدید تشنگی کا احساس ہی نہیں:

’’...ممی تم جانتی ہو، اس دن مجھے بھی بہت پیاس لگی تھی، اور تم نے ٹھنڈے پانی کے قطرے کی بجائے میرے گلے میں جہنم کی آگ انڈیل دی تھی...‘‘

(بابا لوگ، ص 176)

افسانہ ’افعی‘ میں کہانی استعاراتی اسلوب اور نفسیاتی الجھنوں کی دبیز تہوں سے ابھرتی ہے اور مرکزی کردار زہرہ اپنے پیچیدہ رویے اور فکرکے سبب گہرے دھند میں ملفوف دکھتی ہے۔ گویا یہ افسانہ فطری اور نفسیاتی جذبوں میں محلول نفسیات کا ایک پیچیدہ باب ہے،  جسے کھولنا، جس کی تہوں میں اترنا، افسانے کے متکلم کے اختیارمیں نہیں:

’’میں نے محسوس کیا گویا کوئی بڑی پیچیدہ گرہ کھلتے کھلتے پھر الجھ گئی ہو۔ اور زہرہ واقعی زہرہ نہیں تھی، ایک پیچیدہ ریشمی گرہ تھی، وہ گرہ جو کبھی کسی وقت کسی مقام پر بھی کھل سکتی ہے، تو شاید میں اس گرہ کے لیے ناخن تھا جو گرہ کے ایک ایک بل میں گھس کر چبھ کر اسے کھولنے کے لیے بے تاب تھا، بے چین تھا...‘‘

(اقتباس از پرندہ پکڑنے والی گاڑی، ص 106)

افسانے میں تحلیل نفسی کے سہارے زہرہ کی پیچیدہ اور بھید بھری کیفیتوں اور رویوں کو ساحرانہ طرز تحریر کے توسط سے آشکار کیا گیا ہے۔ اوپر پیش کردہ اقتباس کے تناظر میں یہ اقتباس اس کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیتوں کی گرہ کشائی کرتا ہے:

’’...پھر وہ شام بھی آئی جب زہرہ ایک کَسی کَسی سی ریشمی گرہ  تھی اور جس کے کَس بل میں ناخن کی طرح چبھ کر اس گرہ کو کھولتے کھولتے تھک ہارا تھا، وہ آپ ہی کھل گئی۔‘‘  (اقتباس، پرندہ پکڑنے والی گاڑی، ص 109)

کہانی کی تہہ سے زہرہ کا بھائی، سگا بھائی پس منظر سے ابھرتا ہے، جسے وہ اپنا بھائی ہی نہیں بلکہ اپنے وجود کا حصہ سمجھتی تھی۔ زہرہ اس کے تعلق سے اپنی متضاد اور متشدد کیفیتوں کا بھید کھولتی ہے۔ وہ اپنے بھائی انو کے بارے میں، افسانے کے ’میں‘  کے استفسار پر کہتی ہے:

’’ڈس لیا تھا، اس سپولیے نے۔‘‘ یہ کہہ کر ایکاایکی وہ ایک دم سیاہ ہوگئی، نفرت سے اس کا منہ بدنما ہوگیا۔‘‘

(پرندہ پکڑنے والی گاڑی، ص 112)

اس افسانے میں ’پیاسی چڑیا‘ کی للی واٹسن کی طرح زہرہ بھی اپنی تمام تر آلائشوں کے باوجود پاکیزہ دکھتی ہے۔ اس امر کا اشارہ افسانے کی ابتدا میں بھی آشکار ہے۔ جب افسانے کا ’میں‘ پہلی بار گنگا رام اینڈ سنس میں زہرہ کو کپڑے خریدتے وقت آنچل کو سر پر جما کر بے حد معصومانہ انداز میں مسکراتے دیکھ کر پوچھتا ہے:

’’تم مریم ہو۔‘‘

کہانی کی حساسیت اور زہرہ کے کردار کے لطیف فکری زاویے کے اعتبار سے ’افعی‘ غیاث احمد گدی کا نمائندہ اور شاہکار افسانہ ہے۔

خانے تہہ خانے‘ میں افسانہ نگار نے کلا کے کردار میں سحرانگیز کیفیتوں کی رنگ آمیزی کی ہے۔  یہ افسانہ کلا کے اندرونی جذبوں کی موہوم ہلچل سے مزین ہے۔ اس میں کلا، شرت کے ساتھ ہر لمحہ فکر کے دھندلکے میں ڈوبتی ابھرتی نظر آتی ہے۔ افسانے میں کلا کے تعلق سے کسی تیسرے کردار کا وجود ظاہر تو نہیں، لیکن کہانی کی بنت سے ایک نامعلوم اور مبہم سا کردار ڈوبتا ابھرتا دکھتا ہے۔

افسانے کی ابتدا کی یہ عبارتیں اس گمان کو تقویت پہنچاتی ہیں:

’’کلا نے ایک لمحہ کو ہوٹل کی طرف غور سے دیکھا اور زیرلب بولی:

’’یہی وہ جگہ ہے۔‘‘

شرت نے آگے بڑھ کر آہستگی سے اس کے کندھے پرہاتھ رکھ دیا:

تم یہاں آچکی ہو؟‘‘  (پرندہ پکڑنے والی گاڑی، ص 79)

افسانے میں کلا کے اس ہوٹل میں پہلے آنے، یا اس کی زندگی میں کسی اور وجود کے شامل ہونے کے واضح نشان نہیں۔ یوں یہ افسانہ کلا کے جذبوں، مبہم احساسات اور اندرونی پیچیدگی کو محیط ہے اور افسانے کی فضا اسے نفسانی کیفیت کی سرحدوں تک لیے جاتی ہے، لہٰذا یہ خواہش بدن اور جنس کی تہہ بہ تہہ تفسیر و تعبیر کا بہترین بیانیہ ہے۔

انسان کی عظمت رفتہ اور گزرتے دنوں کی رعب دار زندگی کی پرچھائیاں اثاثۂ حیات سی ہوتی ہیں۔ ایسی عظمت، ایسی رفعت بھری زندگی کی بے توقیری اور تذلیل ذات کے کرب اور اذیت کو افسانہ ’اچھی‘ میں نہایت فنکاری کے ساتھ منکشف کیا گیا ہے۔ اس افسانے کے معتبر اور غیاث احمد گدی کے نمائندہ افسانوں میں اہم حیثیت کی توثیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ گوپی چند نارنگ نے اپنے افسانوی انتخاب ’آج کی کہانیاں‘ میںا سے شامل کیا ہے۔

’’یہ بھی کوئی جینا ہے۔ جی چاہتا ہے پنجرے کو پھونک کر کھلے آسمان کی طرف اڑ جاؤں، مگر اس ارادے کی تکمیل اتنی آسان نہیں، زندہ رہنے کی تمنا میں آدمی کو کتنی بار خودکشی کرنی پڑتی ہے اور مرنے تک زندہ بھی رہنا پڑتا ہے...‘‘

مذکورہ اقتباس افسانہ ’دیمک‘ سے ماخوذ  ہے۔ یہ اقتباس زندگی کی سخت جانی، کلفت اور بے رنگیٔ حیات کا پتہ دیتا ہے۔ لیکن افسانے میں ازدواجی زندگی کا سفر اور اس سفر کے جھمیلے تو ساتھ چلتے ہیں۔ بظاہر بے رنگیٔ حیات کے پس پردہ زندگی کی معنویت اور لذت حیات سے بھی افسانے کی کہانی میں افسانے کا ’میں‘ اور اس کی بیوی سعیدہ شرابور ہیں۔ افسانے کی کہانی روزمرہ کی زندگی کی  الجھنوں کی حقیقی اور موثر تصویر پیش کرتی ہے۔ ایک مقام پر افسانے کا ’میں‘ بیوی کے تعلق سے اور اس کی بیوی سعیدہ اپنے شوہر کے تعلق سے ’بے اعتمادی اور امانت داری میں خیانت کے احساس کی مرتکب ہوتی ہے۔ گویا افسانہ یہ توضیح پیش کرتا ہے کہ ازدواجی زندگی ایسے مراحل سے بھی گزرتی ہے، جہاں احساس کے دیمک زدہ ہونے کا خدشہ بھی لاحق ہوتا ہے۔

یہ افسانہ مجموعہ ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ کے علاوہ پروفیسر قمر رئیس کے افسانوی انتخاب ’نمائندہ اردو افسانے‘ اور اطہر پرویز کی کتاب ’ہمارے پسندیدہ افسانے‘ میں بھی شامل ہے، جو اس کی مقبولیت کا اشاریہ ہے۔ افسانہ ’ڈوب جانے والا سورج‘ محبت کی کہانی ہے۔ محبت جذبۂ بے خود ہے۔ اس پر انسان کا اختیار کہاں؟ اکثر گرفتار محبت کو پتہ بھی نہیںہوتا کہ وہ اسیر محبت ہوچکا ہے۔ افسانہ ’ڈوب جانے والا سورج‘ ایسی ہی کیفیت سے مزین ہے۔

’’...زبیدہ نے ایک دفعہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ ’دیکھو، میں کون ہوں؟‘‘

’’دیکھو...، وہ بہت دیر تک چپ رہا، اور زبیدہ کے سوال کو سمجھ نہ  سکا تو اس نے پھر اپنا سوال دہرایا۔

’’بتاؤ نا، میں کون ہوں؟

زبیدہ... اور کون...؟

ہاں۔ ہاں۔ زبیدہ تو ہوں ، لیکن تمھاری کون ہوں؟

’’پتہ نہیں‘‘ پھر اس نے رک کر کہا ’’ماموں کی بیٹی۔میرے ماموں کی بیٹی ہو۔‘‘

’’سو تو ہوں۔ لیکن تمھاری کون ہوں؟‘‘

’’زبیدہ میری کون ہے؟ بڑا مشکل سوال تھا...‘‘

یہ بے نام محبت ایک اسرار ہے، لیکن مضبوط جذبے میں محلول ہے، جب ہی تو وہ زبیدہ کے لیے رفعت سے فجو بننے پر بھی آمادہ ہوگیا ہے۔ افسانہ ’ڈوب جانے والا سورج‘ محبت کی انوکھی اور جذبوں کی سچائی کو عکس ریز کرنے والا اثرانگیز افسانہ ہے۔

افسانہ ’تج دو تج دو‘ میں انسان کے ذہنی انتشار، اور منتشر الخیالی کو استعاراتی و علامتی پیرایۂ اظہار کے توسط سے پیش کیا گیا ہے۔ بے ایمان، مطلب پرست اور اردگرد کے ماحول کی تشویش کن صورت حال سے بیگانہ وضع جینے والوں کی دنیا میں بیدار مغز ’وہ‘ مختلف النوع وسوسوں اور خدشات کے بڑھتے اور پھیلتے سلسلے میں مخبوط الحواس سا کردار ہے جو عصری زندگی کے تناؤ آمیز حالات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے آس پاس کے لوگ، ماحول، جلسہ جلوس، مبہم اور لایعنی آواز تج دو تج دوکی تکرار اور دم کٹے کتے کے ساتھ ساتھ چلنے کے مناظر وقت کے جبر کے اشاریے ہیں، جن سے وہ ہر لمحہ متصادم ہے کہ وہ باضمیر ہے۔ دم کٹا کتا اس کی شخصیت کے دوہرے پن، یا اس کے اندرون کے انسان کی بے چینی کی نمائندگی کرتا ہے۔ ضمیر کی آواز اس کی شخصیت کے بیدار انسان کو ٹوٹنے بکھرنے کی کیفیت میں مبتلا کرتا ہے۔ ایک دن جب اسے چلڈرن پارک کے چبوترے پر لمبے سے پول سے لہراتے ہوئے جھنڈے کے کنارے کچھ سرخ سرخ نظر آیا۔ وہ پریشان ہوگیا۔ اس نے سوچا:

’’...یہ سرخی کہاں سے آئی، یہ سرخی کہاں سے آئی۔ پھریرے کا کنارہ لہو سے تر ہوگیا تھا۔ دفعتاً وہ چونک اٹھا۔

لہو سے کیسے تر ہوگیا؟‘‘

لیکن وہاں موجود دوسرے لوگوں کی نظر میں، یہ واقعہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا:

’’کچھ نہیں یار، کوئی زخمی پرندہ اڑتا اڑتا پھریرے سے الجھ گیا ہوگا۔ لیکن وہ سراسیمہ تھا

افراد کائنات اور اس کی فکر کا یہ بعد دراصل آج کی عصری زندگی کی سچائی بیان کرتا ہے کہ لوگ تشویش کن حالات کو سہل جانتے ہیں، ان سے الجھتے نہیں، کہ وہ حالات کے چپیٹ میں نہیں آئے ہیں، لیکن تقاضائے حیات کی آبیاری میں افسانے کا ’وہ‘ مخبوط الحواس اور انتشار کا شکار ہے۔ ہر لمحہ اس کے اندر کا انسان، اس کا ضمیر اضطراری کیفیت میں مبتلا رہتا ہے کہ ایک دن بصورت دُم کٹا کتا:

’’اس سے تقریباً چمٹا اس کے گال سے اپنے تھوتھنے لگائے تھا اور اس کے آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے اور وہ کتا اس کی گردن کو ہولے ہولے چاٹ رہا تھا...‘‘

غیاث احمد گدی کے افسانوں کے مطالعے کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ ان کے افسانہ ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ کے تعلق سے گفتگو نہ ہو— یہ غیاث احمد گدی کا شاہکار اور معرکۃ الآرا افسانہ ہے۔ مرزا حامد بیگ، غیاث احمد گدی اور ان کے متعلقہ افسانہ کے تعلق سے کہتے ہیں:

’’غیاث احمد گدی لازوال آدرش حقیقت نگار ہے... پرندہ پکڑنے والی گاڑی جیسا شاہکار افسانہ تو کوئی کوئی لکھتا ہے۔‘‘ (اردو فکشن، ص 293)

افسانہ ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ میں غیاث احمد گدی کا مخصوص استعاراتی نظام عروج پر ہے۔ افسانے کی بنت میں جزئیات نگاری کمال درجہ کی حامل ہے— مثلاً:

پرندہ پکڑنے والی گاڑی، گاڑی کھینچنے والے دو لوگ، پرندہ پکڑنے کے لیے بانس، بانس کے سرے پر برش جیسا گچھا جس پر گوند یا اس جیسی چپک جانے والی لیس دار رطوبت، سکے اچھالنے، اور سکے چننے والے، بازار کا منظر، حلوائی، منی بائی، منی بائی کا طوطا۔ افسانہ نگار راوی، دس سالہ بچہ، تتلی، پس منظر میں لڑکے کی بہن لقا، کبوتر— وغیرہ وغیرہ جزئیات کے سہارے افسانے کی عمارت تشکیل پائی ہے اور یوں زندگی کی سفاکی اور وقت کے جبر کو آشکار کیا گیا ہے۔

افسانہ ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ سماجی مسائل پر لکھا گیا شاہکار افسانہ ہے، جس میں غیاث احمد گدی نے مذکورہ جزئیات نگاری کے توسط سے افراد کائنات کی بے حسی، انحراف اور جدوجہد کی سعی سے پرے، حرص و ہوس میں ڈوبے لوگوں کو سکہ چنتے دکھایا ہے۔ لیکن زندگی کے تیور نرالے ہیں، یہ مختلف جہتوں میں سفر کرتی ہے، لہٰذا بے حس معاشرے کے افراد، ظلم و زیادتی کے خوگر اور نیند کے ماتے تھے، وہاں متفکر کہانی کار راوی اور ایک دس سالہ بچہ، جدوجہد اور تحرک کی علامت ہے۔ پرندہ پکڑنے کا عمل دراصل ظلم و استبداد، زندگی کی حقیقی معنویت اور فطری و قدرتی، حیات افروز وسیلوں کو پائمال کرنے کی کوششیں ہیں۔ اس کے خلاف دس سالہ بچہ سینہ سپر ہے کہ اس کی بہن لقوہ کی مریض ہے اور حکیم جی نے دواؤں کے ساتھ لقا کبوتر کے پروں کی ہوا کے لیے کہا ہے۔  مسئلہ یہ ہے کہ پرندہ پکڑنے والے لقا کبوتر کو بھی لے گئے تو پھر کیا ہوگا؟ لیکن بالآخر:

’’بھائی جان لقا کبوتر بھی چلا گیا... اس نے گویا اپنے آپ کو اطلاع دی۔

جب تتلیاں چلی گئیں تو کیا بچے گا شہر میں؟

لیکن زندگی کا کارواں کہاں رکتا ہے۔نیند کے ماتے بے حس لوگوں کی دنیا میں ظلم و استبداد کے خلاف لڑنے اور زخم خوردہ ہونے کے بعد دس سالہ بچہ دیکھتا ہے:

’’عمارت کے دروازے کے اوپر پتھر کا ایک پرندہ سر نہوڑائے بیٹھا تھا...‘‘

(پرندہ پکڑنے والی گاڑی، ص 23)

غیاث احمد گدی نے اپنے افسانے کے اس اختتام میں عمارت پر پتھر کے پرندے کو ایستادہ دکھا کر زندگی کی رمق اور امید کی کرن کی سلامتی کے اشارے دییے ہیں۔ مگر شاید یہاں یہ اشارہ بھی پنہاں ہے کہ اس پتھر کے پرندے میں آب حیات کے چھڑکاؤ سے زندگی کی حرارت لوٹانے کے لیے جان جوکھم میں ڈالنے کے عمل سے تو گزرنا ہی ہوگا—!

 

ISHRAT ZAHEER

House No: 370 A, 4th Floor

Gali No 6 A, Zakir Nagar, Jamia Nagar

New Delhi - 110025

Mob: 9801527481

Email.:ishratzaheer2@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

عربی شاعری میں ہجوگوئی کی روایت،مضمون نگار: شمس کمال انجم

اردو دنیا،اگست 2025 زندگی یہی ہے۔ جینا اسی کا نام ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم۔ کبھی دکھ کبھی سکھ۔ کبھی نشیب کبھی فراز۔ کبھی اچھائی سے سامنا ہوتا ہ...