اردو دنیا،اگست 2025
تحقیق
بنیادی طور پرادب کے متن، مصدر اور منبع کی چھان بین،تصحیح اور تعین قدرسے عبارت
ہے۔اس کے شرارے کبھی متن میں واقع ہونے والی ہلکی پھلکی تحریف یااس کی مختلف
نسبت/الحاق سے پھوٹتے ہیں۔ کبھی بنیادی مصدر (Primary source) کی
دریافت سے، کبھی ثانوی مصدر(Secondary source)سے
اور کبھی ثانوی مصدر کے ذریعے بنیادی مصدر تک پہنچنے اوراس کی نئی تفہیم سے۔متن،
مصدراور منبع خواہ بنیادی ہو یا ثانوی، اس کی تلاش، تفتیش، تقابل، تصدیق اور
مطلوبہ حقائق و شواہد یا مواد کی فراہمی میں ادبی موشگافی سے زیادہ علمی ریاضت
کرنا پڑتی ہے۔ اس میں دماغ سوزی کے ساتھ ساتھ جسمانی محنت بھی ہوتی ہے۔ مختلف
کتابوں اور رسالوں تک رسائی حاصل کرنے کے باوجود بسا اوقات کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا
ہوتی ہیں۔کبھی کبھی بعض بنیادی حقیقت کے حصول میں مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے
کہ حوصلہ، لگن اور انہماک نہ ہو تو کام ٹھپ پڑ نے لگتا ہے تاہم اس کٹھن مرحلے
کواستقامت اور سلامتی کے ساتھ طے کرلینا جزوی کامیابی کااشاریہ ہے۔اس کے بعد حاصل
شدہ حقائق یا مواد کی محتاط ترتیب و تدوین، غیر جانبدارانہ تجزیے اور تصریح کی رہ
گزر آتی ہے۔جس کا صاف ستھرا، مدلل اور نتیجہ خیز ہونا لازمی ہے۔تحقیق میں انکشاف یا
بازیافت کی یہی آخری منزل ہوتی ہے۔
حقائق
یا مواد کی ترتیب عموماً دو طریقوں سے ہوتی ہے۔ مطلوبہ حقائق لفظ بہ لفظ نقل کر لیے
جائیں یا ان کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھا جائے مگر مصدر کی نشاندہی کرنا ہر دو
صورت میں لازمی ہے۔ایک دوسرا انداز یہ ہے کہ مصدقہ حقائق (Established facts)کو مصدر کے حوالے کے بغیر بھی پیش کیا جاتا ہے اور ان کی بنیاد پر نتیجہ
اخذ کرلیا جاتا ہے۔ حقائق یا مواد کی ترتیب کا جو بھی طریقہ اپنایا جائے اس میں
تنقیدی بصیرت اور تجزیاتی سوجھ بوجھ کے ساتھ تحقیقی شعور اور انتاجی صلاحیت کی
بھرپور کارفرمائی ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی سطح پر عجلت اور بے احتیاطی برتی
جائے توادبی تحقیق کے نتائج (Findings) نامکمل،
جزوی، گمراہ کن یہاں تک کہ ناقص بھی ہوسکتے ہیںاور نہ صرف تحقیق کو بے معنی اور
مضحکہ خیز بنا سکتے ہیں بلکہ اس کے اصل مقصد کو بھی ختم کر سکتے ہیں۔
اس
سلسلے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ادبی تحقیق میں حاصل شدہ حقائق و شواہد کی تصریحات
اور توجیہات سادہ،سپاٹ، دو ٹوک اور آسان زبان میں پیش کرنا بہتر ہے۔ کیونکہ
آراستہ، اشاراتی اور ایمائی زبان سے تحقیق کے نتیجے کی جامعیت، قطعیت اور معنویت
متاثر ہوسکتی ہے۔ اس میں ابہام اور اشکال بھی ممکن ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ
تحقیق دراصل ادب اور سائنس کا ایک مشترکہ عمل (Literary cum scientific process)ہے۔
اس
ضمن میں یہ نکتہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ بعض حقائق یا متعلقہ معلومات کے دسترس
میں نہ ہونے یا ذہن سے معدوم ہوجانے کی بناپر تحقیق کے زینوں پر قدم لڑکھڑا جانے
کا امکان ہے۔ اردو کی مختلف علمی اور ادبی کتابوں اور مقالوں پر قاضی
عبدالودود،مسعود حسن رضوی ادیب، سیدمحی الدین قادری زور، رشید حسن خاں، نثار احمد
فاروقی، گیان چند جین وغیرہ کے تبصروں اور شاہ عطا الرحمن عطا کاکوی کے ’غلطی ہائے
مضامین‘ میں اس طرح کے سہو اور فروگذاشتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے ایک علمی فریضہ
بھی ادا ہوا ہے اور تحریر کی جامعیت کے دریچے بھی وا ہوئے ہیں۔
مبادیات
تحقیق کے ان نکتوں کے اجمالی تذکرے کے بعد یہاں چند ایسے نمونے پیش کیے جارہے ہیں
جن سے بعض ادبی حقائق دندھلا گئے ہیں۔ نامورمحقق قاضی عبدالودود نے اپنے ایک مقالے
میں غالب کے ہم عصر اردو کے بنگالی ہندو شاعر اور تذکرہ نگار جنم جی متر ارمان کے
متعلق لکھا ہے:
’’۔۔۔۔۔شعرائے اردوکا تذکرہ نسخۂ دلکشا کے نام سے تالیف کیا تھا اور
اس کی پہلی جلد 1870 میں چھپواکر شائع کی تھی۔۔۔۔ ان کے بیٹے بابو راجندرلال
مترعالمانہ مذاق رکھتے تھے لیکن بہ ظاہر اردو سے انھیں دلچسپی نہ تھی۔ تذکرہ کی
دوسری جلد کی طباعت انھوں نے بند کردی۔۔۔۔۔۔۔‘‘1
تذکرے کے مولف ارمان
کا انتقال 1869 میں ہوگیا تھا۔ اس لیے 1870 میں تذکرہ شائع کرنے کا سوال ہی نہیں
اٹھتا ہے۔ مقالے کے متن سے عیاں ہے کہ قاضی عبدالودود نے کلکتہ میں تذکرئہ ’نسخۂ
دلکشا‘ کے مطبوعہ حصے کا مطالعہ کیا تھا۔ اس میں ارمان کے بیٹے راجندر لال متر کا 1970 کا لکھا ہوانوٹ انگریزی
زبان میں موجود ہے جس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ تذکرے کے یہ اوراق 1854 میں چھپ
چکے تھے مگر اسی دوران مولف کی طبیعت خراب ہوئی اور ان کی مسلسل بیماری کے سبب
پورے تذکرے کی طباعت نہ ہوسکی۔ اس لیے غیر مکمل حالت میں چھپے ہوئے اوراق کو پہلے
حصے کے طور پر شائع کیا جارہا ہے۔ 2اس نوٹ کی موجودگی میں اغلب ہے کہ قاضی
عبدالودود کا مذکورہ بیان ان کے ذہن سے بعض حقائق کے معدوم ہونے کاشاخسانہ ہے۔
مشہور
محقق مختا رالدین احمد کی یہ عبارت بھی محل نظر ہے:
’’۔۔۔۔۔اب فورٹ ولیم کالج کی شہرت دور دور پہنچ گئی تھی اور متعدد
شاعر اور ادیب قسمت آزمانے کلکتہ جارہے تھے۔ حیدری بھی قسمت آزمانے نکلے اور 21
رجب 1214ھ بمطابق 19 دسمبر 1799 کوکشتی کے ذریعہ بنارس سے مرشد آباد کی طرف روانہ
ہوئے۔ اس زمانے میں کلکتہ جانے کا غالباً یہی مناسب راستہ تھا۔ ‘‘3
یہاں
موصوف سے سہو قلم ہوا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ فورٹ ولیم کالج 10 جولائی
1800 کو قائم ہوا پھر اس کی شہرت حیدر بخش حیدری کے سال روانگی یعنی 1799 میں کیسے
ہوگئی ہوگی۔قیاس ہے کہ موصوف کے ذہن میں جنوری 1799 میں قائم ہونے والا کلکتے کا
اورینٹل سیمنری (Oriental Seminary)رہا ہوگاجسے محمد عتیق صدیقی نے گل کرسٹ کا مدرسہ گردانا ہے۔4
معروف
ادیب سید عبداللہ ایک جگہ رقم طراز ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔فورٹ ولیم کالج نے اردو کو فارسی کی گدی پر بٹھانے کی اگرچہ
بہت کوشش کی لیکن فارسی کا نقش ہر خاص و عام کے دل پر اتنا مضبوط بیٹھا ہوا تھا کہ
انیسویں صدی کے آخر تک فارسی ہی علم و ادب کی زبان سمجھی جاتی رہی اور باقی شعبہ
ہائے علم وادب کی طرح تذکرہ نویسی کی زبان بھی فارسی ہی رہی۔۔۔۔۔۔‘‘ 5
یہ
عبارت رواروی میں لکھی گئی ہے۔برصغیر میں 19ویں صدی کے آخر تک فارسی ایک اہم زبان
ضرور تھی، مگراردو اپنی مقبولیت کے اعتبار سے فارسی کو پیچھے چھوڑ چکی تھی اور علم
وادب کی زبان بن چکی تھی۔ غالب، مومن، انیس جیسے عظیم المرتبت شاعر اور میر امن،
غالب، سرسید، حالی، شبلی جیسے اردو کے رجحان ساز نثر نگاروں کا تعلق انیسویں صدی ہی
سے ہے۔اس عہد میں ان کی ٹکر کے شاعر و ادیب فارسی میں نہیں ملتے ہیں۔ علاوہ ازیں حیدر بخش حیدری کا تذکرہ ’گلشن ہند‘
مرزا علی لطف کا تذکرہ ’گلشن ہند‘ ارمان کے دو تذکرے ’نسخہ دلکشا‘ اور ’منتخب التذکرہ‘
نساخ کا تذکرہ ’سخن شعر ا ‘ کریم الدین کا تذکرہ ’طبقات شعرائے ہند‘ وغیرہ اردو
زبان میں 19ویں صدی ہی میں لکھے گئے۔
اسی
طرح جمیل جالبی سے بھی مبسوط اور مفصل تاریخ ادب اردو لکھنے میں ایک آدھ جگہ چوک
ہوئی ہے۔ان کے ہاں حقائق کا تضاد یا تسامح کے یہ نمونے بھی دیکھے جاسکتے ہیں:
’’اردو
زبان کی پہلی داستان حکیم محمد علی نے جن کا خطاب معصوم علی خاں تھا، کسی تقریب کے
موقع پر محمد شاہ بادشاہ کو سنائی۔ بادشاہ نے اسے پسند کیا اور حکم دیا کہ اسے
اردو عبارت سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ ‘‘6
اب
اس کا تضاد دیکھیے:
’’۔۔۔۔۔یہ(قصہ مہر افروز و دلبر)اردو کی قدیم ترین معلوم داستان ہے۔
‘‘7
تحقیق
کی طرح تنقید بھی ادب سے پوری طرح منسلک اور وابستہ ہے مگر ادب کے حسن و قبح کی
جانچ پرکھ اور جمالیاتی تعریف و تحسین اس کا اصل محور ہے۔ اس میں سادہ اور سلیس
زبان کے ساتھ ساتھ اشاراتی اور دلفریب انداز اظہار کی پوری گنجائش ہے۔ متن، مصنف
اور ادب کے مختلف حقائق کی کماحقہ شمولیت تنقید میں لازمی نہیں ہے۔پھر بھی بعض
نقادوں نے ضمنی طور پر مختلف تاریخی حقائق پیش کیے ہیں اور اس عمل میں کبھی کبھار
تحقیق کی طرح تنقید میں چند ایسی باتیں ضبط تحریر میں آگئی ہیں، جوتاریخی حقائق
کے برخلاف ہیں۔ مثلاً شہرئہ آفاق نقا د آل احمد سرور لکھتے ہیں:
’’آزاد
اور حالی نے بے قافیہ نظمیں تو نہیں لکھیں...‘‘8
جب
کہ محمد حسین آزاد کی نظم ’جغرافیۂ طبعی
کی پہیلی ‘ اردو کی پہلی بے قافیہ نظم مانی جاتی ہے۔
دوسری
جگہ موصوف نے لکھا ہے :
’’شرر،
اسماعیل، طباطبائی اور عظمت اللہ خاں نے بھی آزاد اور بے قافیہ نظمیں لکھی ہیں۔
‘‘9
ڈاکٹر
حنیف کیفی کی تحقیق کے مطابق ان چاروں میں سے صرف عظمت اللہ خاں نے آزاد نظم لکھی
ہے۔10
اوپر جن محققوں اور
نقادوں کے بیانات نقل کیے گئے ہیں،وہ یقینا ان کے سہو قلم یا بھول چوک کا نمونہ ہیں۔
تلاش کرنے سے اس نوع کی اور بھی مثالیں مل سکتی ہیں مگر یہاں نہ ان مایہ ناز ادیبوں
کی خامیاں گنوانامقصود ہے، نہ ان کی تضحیک یا تنقیص۔دراصل پچھلے زمانے میں ادبی یا
تاریخی حقائق کے اندراج یا ذکر میں قلم کار عموماً اپنے حافظے پر بھروسہ کرلیتے
تھے۔ مصدر اور متن سے رجوع کرنے کا چلن کم تھا۔ رجوع کرنے میں کئی طرح کی مشکلیں
بھی تھیں۔نہ ذاتی سطح پر ہر قسم کی کتابیں اور معیاری رسالے خریدے جاسکتے تھے نہ
نزدیکی کتب خانے میں ہر چیز مہیا تھی۔ خط و کتابت، مواصلات اور رابطے کے دوسرے
وسائل خاصے طولانی تھے۔اس لیے بعض محققوں اور نقادوں کی تحریروں میں اس نوع کے ایک
آدھ جملے پر نظر ٹھہر جاتی ہے۔
یہاںمدعااس
سچائی کی طرف توجہ مبذول کرنا ہے کہ بیسویں صدی کے وسط تک ادبی حقائق و شواہد کی
باضابطہ شیرازہ بندی نہ ہونے یاآسانی سے دستیاب نہ ہونے کے سبب تحقیقی اور تنقیدی
مضامین میں اس طرح کی قابل گرفت باتیں مل جاتی ہیں اور تحقیقی سطح پر ایک مسئلہ بن
جاتی ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی فروگذاشتوں یا تسامحات سے کیسے
نپٹا جائے۔آیا اکیسویں صدی میں تحقیق و تنقید کے لیے بنیادی اور ثانوی مواد حاصل
کرنے کے اسی روایتی طریقے پر عمل کیا جائے اور کتب خانوں،گوگل،ریختہ ڈاٹ کام اور
دوسرے ویب سائیٹ پر دستیاب کتابوں، رسالوں اورمخطوطات کی ورق گردانی کی جائے اور
مطلوبہ مواد اخذ کیا جائے یاسائنس اور ٹکنالوجی کی عصری ترقی سے فائدہ اٹھایا
جائے۔
یہ
درست ہے کہ گوگل (Google)پر اردو
ادب کے تعلق سے کچھ مواد مہیا کرایا گیا ہے اسی طرح ’ریختہ ڈاٹ کام‘ اور ’بزم اردو
لائبریری‘پر بھی بہت سی کتابیں اور رسالے موجود ہیں۔ مگر جتنے مختلف النوع حقائق و
شواہداورمعلومات تحقیقی مقالہ لکھنے کے لیے درکار ہوتی ہیں وہ ایک جگہ پر کہیں بھی
موجود نہیں ہیں، بالخصوص اردو ادب کا علاقائی رنگ قریب قریب مفقود ہے۔ اگر ملک کے
ہرصوبے میں پیش کی جانے والی قابل قدر تخلیقی اور غیر تخلیقی دونوں طرح کی نگارشات
کی سافٹ کاپی بنائی جائے۔ ڈیجیٹل فارمیٹ میں وضاحتی کتابیات (Descrptive Bibliograhy)بنائی جائے۔ اسکیننگ، امیجینگ اور او۔سی۔آر۔ کی تکنیک سے کتابوں اور مضامین
کے اہم نکات اور معلومات ترتیب وار اخذ کیے جائیں۔ ان سے منسلک اور متعلقہ سیاسی،
سماجی اور علمی حقائق و شواہد اکٹھا کیے جائیں اور ان کی سائنٹفک شق بندی کی
جائے۔تکنیکی ماہرین کی ہدایت کے مطابق تدریجی لحاظ سے ان کی پی ڈی ایف یا یونیکوڈ
میں ترتیب و تدوین کی جائے۔ اس مرحلے میں لائبریری اور انفارمیشن سائنس کے جدید
,Classification Codificationاور Indexationکے
اصولوں پر عمل کیا جائے۔ اس طرح اردو تحقیق و تنقید کے بنیادی اور ثانوی مصادر،اقتباسات،
حوالہ جات اور دوسری متعلقہ معلومات کا ایک ایسا معتبر، مستند،ہمہ گیر اور ہمہ جہت
خزانہ یا بینک وجود میں آسکتا ہے جسے تکنیکی زبان میں Literary Data Bank، Composite Literary Repository اور
Digital Archive/Curation وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کو قومی
اورصوبائی سطح پر اردو زبان و ادب کی ایک ویب سائٹ بناکر محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
اردو زبان وادب کے مرکزی ادارے اور صوبائی اردو اکادمیوں کے اشتراک سے اس مقصد کے
لیے ایک پروجیکٹ بناکر کام کرنا سود مند ہوگا اور منصوبہ بند طریقے سے متذکرہ علمی
و ادبی حقائق کی ترتیب و تدوین ہوسکے گی اور اردو زبان وادب کا ایک وسیع اور رنگا
رنگ منظر نامہ سامنے آئے گا۔ محققین اورریسرچ اسکالرس بہ آسانی اس سے استفادہ کر
سکیں گے اور قومی،علاقائی اورصوبہ جاتی سطح پر جامعاتی و غیر جامعاتی تحقیق و تنقید
کی صحت اور معیار میں بہتری آئے گی۔
مصادر
- جدید اردو (ماہنامہ ) کلکتہ، مئی، 1941
- تذکرہ نسخۂ دلکشا، مطبوعہ کلکتہ، 1854 /شائع شدہ 1870،اشاعت ثانی، کلکتہ، مئی 1979
- تذکرہ گلشن ہند مولفہ حیدر بخش حیدری، مرتبہ مختا ر الدین احمد، مطبوعہ، دہلی، فروری1967
- گل کرسٹ اور اس کا عہد، ص: 108-114، مطبوعہ دہلی 1960
- شعرائے اردوکے تذکرے اور اردو تذکرہ نگاری کا فن، ص:۲، سید عبداللہ، لاہور، ستمبر 1952
- تاریخ ادب اردو، اٹھارویں صدی (جلد دوم) ص:743، ایجوکیشنل پبلکشنگ ہائوس، نئی دہلی، 2019
- ایضاً، ص: 806
- ادب اورنظریہ ص: 242، آل احمد سرور، لکھنؤ، 1954
- تنقید کیا ہے،ص176، آل احمد سرور، نئی دہلی، مئی 1980
- اردو میں نظم معریٰ اور آزاد نظم، ص:424، حنیف کیفی، دہلی، دسمبر 1982
Prof. Rais Anwer
Maheshpatti, Rajtoli Lane
Darbhanga - 846004 (Bihar)
Mob: 9471642697, 7903767402
rais.anwer4@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں