29/12/25

جدید شاعری اور فرد،مضمون نگار: وحید اختر

 اردو دنیا،اگست 2025

آج اردو ادب میں جدید شاعری کی اصطلاح شاعری کے لیے استعمال ہورہی ہے، وہ شاعری صحیح معنوں میں آزادی کے بعد کے برسوں میں وجود میں آئی اور پچھلے پندرہ سولہ برسوں میں اس کا رنگ و آہنگ بنا اور نکھرا ہے۔ اس دور کی شاعری کو ہم پچھلی شاعری سے علاحدہ اور ممتاز کرسکتے ہیں۔اِس لیے کہ پچھلی شاعری جس نے حالی اور آزاد کی نظموں میں آنکھ کھولی، اقبال جیسے رومانی شاعروں اور جوش کی نظموں میں پروان چڑھی اور ترقی پسند شاعری میں اجتماعی شعور اور سیاسی و سماجی مسائل کے ساتھ پھلی پھولی، آج کی شاعری سے مزاج کے لحاظ سے مختلف تھی۔ حالی سے ترقی پسند تحریک تک پورا زور شاعری کی مقصدیت اور اجتماعی شعور پر رہا لیکن جدید شاعری میں یہ اجتماعی شعور سطح کے نیچے دب گیاہے۔ اب جو چیز نمایاں ہے وہ فرد ہے۔ فرد کی ذات اس کے مسائل اس کی داخلی کشمکش ، اس کی نفسیاتی پیچیدگیاں، کائنات سے اُس کا رشتہ موجودہ معاشرتی ڈھانچے اور زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں سے اس کا تصادم ۔ یہی مسائل ہیں جو جدید شاعری کا مزاج اور لب و لہجہ متعین کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف حصّے کی شاعری میں فرد معاشرے اور اجتماعی تحریکوں میں گم ہوگیا تھا۔ یہ دور سیاسی تحریکوں کا دور تھا۔ ہندوستان کے عوام کی جدوجہدسے آزادی تیز سے تیزتر ہورہی تھی۔ سامراج سے آزادی، معاشی استحصال سے آزادی، اپنے ملک کی تعمیرِ نو کا جذبہ، سیاسی تحریکوں کی بھی منزلِ مقصود تھا اور شعر و ادب کا بھی قبلہ۔ پورے ملک کے سامنے ایک متعیّن مقصد اور منزل تھی۔ اس دور کی شاعری کو سیاسی تحریکوں کا پلیٹ فارم ملا اور انھیں سیاسی تحریکوں نے اُس کے مزاج اور لہجے کی تشکیل کی، مقصدیت، افادیت، سماجی شعور اور سیاسی پروگرام کا تقاضا تھا کہ شاعر براہ راست عام لوگوں سے مخاطب ہو۔ اس ضرورت نے ہماری شاعری کو سماجی شعور کے ساتھ خطیبانہ لہجہ دیا۔ آزادی مل گئی تو بیشتر سیاسی تحریکوں کی طرح مقصدی شاعری کو بھی اپنی منزل مل گئی۔ آزادی کے بعد کے مسائل مختلف تھے۔ دماغوں میں ملک کی  تشکیلِ نو کا نقشہ ضرور تھا، مگر دھندلایا ہوا وہ ’خواب‘ جنھوں نے اب تک رہنمائی کی تھی۔ اپنی تعبیر پاچکے تھے اور جو خواب تشنۂ تکمیل تھے وہ تعبیر کے صحرا میں بھٹک رہے تھے۔ تعمیرِ نو کا کام صبر آزما تھا اور ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک ہماری ذہنی زندگی کئی محسوس و نا محسوس انقلابات سے گزری ہے۔ نیا ذہن بنا نہیں بن رہا ہے۔ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو پُرانے زمانے کے ماتم گسار اور سسکتی ہوئی سماجی، معاشی، اخلاقی اور روحانی قدروں کی لاشوں کے نگہدار ہیں۔ قدیم و جدید فرسودگی ترقی، تعصبات و تغیرات، جہالت اور علم، جنون اور عقل کی آویزش جاری ہے۔ نئی اقدار جنم لے رہی ہیں۔ مگر ابھی ان میں وہ توانائی نہیں آئی کہ وہ اپنے پیروں پہ کھڑی ہوسکیں اور لوگوں کو سہارا دے سکیں، لوگ ایک دوسرے سے دُور ہوگئے ہیں۔ زندگی کی جدوجہد میں ہر ایک اپنا  اعمال نامہ لیے نفسی نفسی پکار رہا ہے۔ ایک طرف زندگی کی از سرِ نو تعمیر ہورہی ہے، دوسری طرف ماضی کا بوجھ گرتی ہوئی تعمیروں کے ساتھ ہمارے سروں پر لدا ہوا ہے۔ ماضی کی فرسودہ اور مردہ اقدار بھی اب تک حال ہی کی گردن پر سوار ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر دو عظیم جنگوں کی زخم خوردہ دنیا برسوں سے سرد جنگ کے اعصابی تناؤ کا شکار ہے، تباہ کن جوہری اسلحوں کی دوڑ اب بھی جاری ہے۔ سائنس کی ترقی کے فاصلوں کو گھٹا دیا ہے۔ زمین کی طنابیں کھنچ گئی ہیں۔ دنیا کے دونوں سرے ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ سیّار و ثوابت پر کمندیں پھینکی جارہی ہیں۔ شمس و قمر اسیر کیے جارہے ہیں، اِسی کے ساتھ وہ خوف جو اسلحوں کی دوڑ اور ایٹمی توانائی کے تباہ کُن امکانات کا پروردہ ہے، آسیب بن کر دل و دماغ پر منڈلا رہا ہے، لیکن صحیح معنوں میں انسان ان کے اختیار میں ہے اور بے بس بھی، سائنس ہمارا مسیحا بھی ہے اور اس کے ہتھیار ہمارے قاتل بھی۔ عقل ہماری زندگی بھی ہے اور ہماری خودکشی بھی۔ علم ہماری آزادی بھی ہے اور ہماری غلامی بھی۔ ماضی ہم سے پیچھے بھی رہ گیا ہے اور ہمارے ساتھ بھی لگا ہوا ہے، حال ہماری دسترس میں بھی ہے اور ہماری آنکھوں سے اوجھل بھی، مستقبل ہمارے قدموں میں بھی ہے اور ہم سے ہراساں بھی، غربت اور بے کاری، بھُوک اور بیماری سے جہاد بھی جاری ہے اور خوف ان کی نئی فصلیں بھی اُٹھا رہا ہے۔ صنعتی اور تکنیکی ترقی نے ہماری زندگیوں کو آسان اور آرام دہ بھی بنا دیا ہے اور ہمیں ایک دوسرے سے دُور بھی کردیا ہے۔ صنعتی سماج ایک بڑی مشین ہے اور افراد اس کے بے جان پرزے۔ لیکن فرد اپنی ذات میں ’عالمِ اصغر‘ بھی ہے۔ وہ اس عالمی انتشار ، بے یقینی اور خوف میں اپنا وجود باقی بھی رکھنا چاہتا ہے اور ایک ایسے سماج کے خواب بھی دیکھتا ہے جس میں فرد کا بھی پورا پورا احترام ہو اور وہ محض مشین کا ایک پُرزہ اورسمندر کا ایک قطرہ نہ سمجھا جائے۔

اِس پس منظر میں بھی جدید شاعری اور اس کے موضوعات و مسائل مزاج اور لہجے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس صدی کی پانچویں دہائی تک اجتماعیت پر اتنا زیادہ زور دیا جاتا رہا کہ شاعری میں فرد کا ذکر اس کے مسائل اور انفرادی ظرفِ احساس و اندازِ فکر کو بُری نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا۔ آزادی کے ساتھ ہمارے ملک میں جو سیاسی اور سماجی تبدیلی آئی اس نے شاعری میں انفرادیت کی لَے کو دبانے کے بجائے اونچا کیا۔ سیاسی تحریکیں ایک منزل تک پہنچ کر اپنا اثر کھو رہی تھیں۔ مقصد حاصل ہوگیا تھا۔ اِس لیے ادب کی مقصدیت اور اجتماعیت پر جو زور دیا جاتا رہا تھا اس کے خلاف ردّ عمل شروع ہوا۔ یوں بھی کسی نئی تعمیر سے پہلے تاریخ میں انسان نے پہلے اپنے آپ کو پہچاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ کائنات کو ذات کے حوالے کے بغیر سمجھا بھی نہیں جاسکتا۔ اوپنشد اور ویدانت ، بدھ مت اور جین مت، عیسائی اور اسلامی تصوّف سب ہی عرفانِ نفس کو عرفانِ حق اور تسخیر کائنات کا پہلا زینہ سمجھتے ہیں۔

 مغرب میں جدید فلسفے کا آغاز بھی نفس کے اسی عرفان کے ساتھ ہوا۔ ڈیکارٹ جو مغرب میں فلسفۂ جدید کا بانی سمجھا جاتا ہے، جب ہر وجود حتیٰ کہ خود کائنات کی حقیقت پر شک کرچکا تو ایک مقام پر آکر اُسے شک کو یقین میں بدلنا پڑا۔ ’’میں فکر کرتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں‘‘ ۔ اثباتِ نفس کے اِسی اعلان سے مغرب میں جدید فلسفے اور سائنس کی تشکیلِ نو کا عظیم الشان کام شروع ہوا۔ آزادی سے پہلے فرد جو نعروں اور چیخوں، تحریکوں اور مجمعوں میں اپنے کو گم کرچکا تھا، اب اپنے آپ کو پہچاننے اور سمجھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس وقت مغرب میں فلسفہ کا سب سے مقبول نظریہ وجودیت (Extentialism) بھی فرد ہی کے داخلی اور موضوعی مسائل کو نقطۂ آغاز مانتا ہے۔ سائنسی فکر کے مقبول ہونے کے ساتھ ہی ادب و فلسفہ میں مجرد عقل پرستی کا رجحان (Anti-intellectualism) بھی کافی مضبوط ہوگیا ہے۔ نتائجیت (Pragmistim) برگسان کا نظریہ ارتقائے تخلیقی، وجودیت فلسفیوں کا اندازِ نظر سب مخالف عقلیت رجحان کے  آئینہ دار ہیں یہ تمام فلسفے تغیّر کو بنیادی حقیقت اور اس پر ان بدلتی ہوئی حقیقت میں نفس انسانی ہی کو وہ محفوظ گوشہ سمجھتے ہیں جس کے آئینہ خانے میں کائنات کی پوری اور سچی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اس لحاظ سے جدید اردو شاعری میں فرد کی ذات پر زور اس ہم عصر فکری اور ادبی رجحان کا ہی ایک جز بن جاتا ہے جو آج ایک عالمگیر حقیقت بن چکا ہے۔

جدید شاعر ی کے معترضین یہ کہتے ہیں کہ آج کا شاعر اپنی ذات کے خول میں بند اور ان کے حصار میں محصور ہے۔ یہ اعتراض سچّائی پر مبنی نہیں۔ فرد اپنے آپ کو معاشرے اور کُل کائنات سے الگ کر ہی نہیں سکتا۔ اس لیے غمِ ذات بھی غمِ جاناں اور غمِ دوراں بن کر رہتا ہے۔ فرق صرف راستے کا ہے۔ پہلے ہماری شاعری براہ راست غمِ جاناں اور غمِ دوراں کی بات کرتی تھی لیکن اس وقت ہمارے شاعروں نے یہ بات فراموش کردی تھی کہ شاعری ہو یا فنِ لطیف اُس کی بنیاد ہمیشہ خالق کی اپنی ذات اُس کے ذاتی تجربات و احساسات اور جذبات ہوتے ہیں، خیال خواہ کتنا ہی بڑا کتنا ہی اہم ،کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو جب تک وہ ذات کی بھٹّی میں سے تپ کر نہ نکلے فن نہیں بن سکتا۔ آج ہماری شاعری برسوں سماجی شعور کا درس لینے کے بعد اتنی بالغ نظر ہوگئی ہے کہ وہ ہر خیال اور ہر تجربے کو انفرادی احساس کی آگ سے گزارنا سیکھ گئی ہے۔ آج کا شاعر بھی اپنے عہد کے سیاسی، سماجی، معاشی، اخلاقی اور روحانی مسائل پر سوچتا اور لکھتا ہے اور شاید زیادہ شدت سے،  زیادہ گہرائی میں جاکر محسوس کرتا ہے لیکن اس کا اندازِ فکر اور طرزِ احساس بیشتر صورتوں میں داخلی اور موضوعی (Subjective) ہوتا ہے۔ اگر شاعر کی نظر وسیع ہو تو وہ قطرے میں دجلہ اور ذات میں کائنات کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔ انسان کی ذات جو تصوف کی اصطلاح میں ’عالمِ اصغر‘ ہے اسی کائنات کا ایک پرتو ہے جس میں ہم رہتے بستے اور جسے حسین تر بنانے کے خواب دیکھتے ہیں، کائنات کے سربستہ رازوں کی عقدہ کشائی کے لیے ذات کے نہاں خانوں سے گزرنا اور نفسی پیچیدگیوں کی بھول بھلیاں میں بھٹکنا ضروری ہے۔ اسی دشتِ ظلمت میں وہ آبِ حیات ملتا ہے جو شاعری کو انفرادیت کی آب و تاب عطا کرتا ہے۔

جدید شاعری میں فرد ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ فرد کائنات اور موجودہ معاشرے سے کٹا ہوا کوئی مجرد تصور ہے۔ وہ گوشت پوست کا زندہ جیتا جاگتا دُکھ جھیلتا، خواب دیکھتا اور خوابوں کی شکست پر نوحہ کرتا ہوا انسان ہے۔ وہ اپنے زخمی خوابوں اور مقتول آدرشوں کو سینے سے لگا کر، ویران آنکھوں کی جھولی پھیلائے در در ان خوابوں، ان آدرشوں کی بقا کی بھیک بھی مانگتا ہے۔ اس کے پاس مثبت اقدار کا ایک واضح تصور ہے۔ وہ دنیا کو حسین تر دیکھنا چاہتا ہے۔ شاعر خواہ کسی مابعد الطبیعاتی نظریے کو مانتا ہو بنیادی طور پر خواب پرست ہوتا ہے۔ ہم سب بہتر زندگی، حسین تر دنیا، انفرادی اور اجتماعی سطح پر سماجی انصاف، نفرت و تعصب کے خاتمے، امن اور آسودہ حالی، محبت اور اعلیٰ قدروں کی بقا کے خواب لیے دل و دماغ میں بساتے اور ان کی پرورش کرتے ہیں۔ خواب پرستی ادب اور شاعری، فلسفے اور فنونِ لطیفہ کا سرچشمہ رہی ہے۔ آج بھی ہے۔ مستقبل کی دنیائیں ماضی کے خوابوں میں ڈھل کر نکھرتی اور سنورتی رہی ہیں۔ یہی خواب جمالیاتی مسرت بھی بہم پہنچاتے ہیں اور عارفانہ بصیرت بھی۔ فن اور ادب کی جمالیاتی اقدار خواب حقیقت اور انسان کے رشتوں کی ہم آہنگی سے پیدا ہوتی ہیں، آج ایک طرف صنعتی اور میکانکی سوسائٹی اور اقدار کے عالمی بحران نے اپنی اعلیٰ قدروں کا واضح تصور اور جمالیاتی مسرت سے بہرہ یاب ہونے کی صلاحیت بڑی حد تک چھین لی ہے، دوسری طرف ہمارے عہد کی سخت گیری اور وقت کے تقاضے خوابوں کو حقیقت کے سامنے لانے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج کا شاعر خوابوں کو حقیقت کی روشنی میں دیکھتا ہے اور حقیقت کو روحانیت کی عینک سے دیکھنے کے بجائے حقیقت پسندی کی آنکھ سے پرکھتا ہے۔ جو کچھ ہمارے لیے مقدس اور محترم ہے وہ بدلتی ہوئی حقیقت اور تجارتی ذہنوں کے لیے محترم نہیں۔ ہمیں اپنے خوابوں کی بقا کے لیے اپنی روح کے اندر بھی سفر کرکے وہ زمین تلاش کرنی ہے جہاں یہ پودے پھل پھول سکیں اور ساتھ ہی ساتھ خارجی حقیقت کو ان خوابوں کے لیے زیادہ سازگار بنانے کا فرض بھی انجام دینا ہے۔ شاید اِسی لیے اردو ہی میں نہیں ساری دُنیا کے ادب میں ایک طرف تو رومانیت کا حصار ٹوٹ رہا ہے۔ دوسری طرف خارجی مسائل کو بھی داخلی اور شخصی محسوسات کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہ تاریخ کا جبر نہیں، بحیثیت فرد فنکار کی آزادی کا سوال ہے۔ آج انسان کی تنہائی کا مسئلہ بھی ایک اہم صورت اختیار کرچکا ہے۔ تنہائی کا یہ احساس مغرب میں صنعتی تہذیب اور اس کی پیدا کی ہوئی مشینی زندگی کا نتیجہ ہے، ہمارے یہاں چونکہ اب تک وہ تہذیب پوری طرح پھیلی نہیں، اس لیے یہ تنہائی کا احساس جو جدید شاعری میں ملتا ہے مصنوعی ہے۔ میں اس اعتراض کو صحیح نہیں سمجھتا۔ یہ احساسِ تنہائی ہماری شاعری کے انفرادی طرحِ احساس کا لازمی نتیجہ ہے۔ جس طرح بین الاقوامی سطح پر خوف نے ایک آسیب بن کر قوموں کو اجتماعی طور پر اپنے تنہا اور بے بس ہونے کا احساس دلایا ہے، اِسی طرح معاشی تبدیلیوں کے ساتھ اقدار کے بحران نے ہمیں ایک طرف تو اپنے ماضی سے کاٹ دیا ہے۔ دوسری طرف حال دھندلکوں کی سی فضا میں لپٹا ہوا ہے اور سامنے مستقبل اپنے تمام روشن امکانات کے باوجود جوہری اسلحوں کے بطن میں چھپی ہوئی عالم گیر موت کے تاریک بادلوں میں چھپا ہوا ہے۔ اس فضا میں شکست اور خوف نے ہر شخص کو اپنے آپ کو تنہا سمجھنے پر مجبور کردیا ہے۔ فنکار خواب پرست ہوتا ہے۔ لیکن آج کی شاعری خوابوں کی شاعری نہیں، خوابوں کی شکست کی شاعری ہے۔ جب خواب گُم ہوجاتے ہیں یا زخمی ہوجاتے ہیں اور انجمنوں میں بھی تنہائی آ دبوچتی ہے۔ تنہائی کا یہ احساس ان خوابوں ہی کا دیا ہوا ہے جو معاشرت کو حسین سے حسین تر دیکھنا اور زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ احساسِ تنہائی مریضانہ کیفیت اور حقیقت سے فرار نہ بنے تو مثبت سمت میں اس معاشرے کی تشکیل کا پہلا زینہ بن سکتی ہے جس میں کوئی انسان اپنے آپ کو تنہا نہ محسوس کرے بلکہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ہوں۔ شاعر کو نہ کہنا پڑے ’’میں تنہا ہوں انسانوں کے اِس جنگل میں۔ خود میں اپنے ساتھ نہیں ہوں۔‘‘ بلکہ سب اس کے ساتھ ہوں اور وہ سب کے ساتھ ہو۔ تنہائی کا یہ احساس بھی ایک طرح سے جدید شاعری کے سماجی شعور، آدرش پرستی اور اعلیٰ اقدار سے لگاؤ ہی کا مظہر ہے۔     

ماخذ: کلیات مضامین وحید اختر (جلد چہارم)، مصنف: وحید اختر، مرتب: ڈاکٹر سرورالہدیٰ، پہلی اشاعت: 2016، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

عربی شاعری میں ہجوگوئی کی روایت،مضمون نگار: شمس کمال انجم

اردو دنیا،اگست 2025 زندگی یہی ہے۔ جینا اسی کا نام ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم۔ کبھی دکھ کبھی سکھ۔ کبھی نشیب کبھی فراز۔ کبھی اچھائی سے سامنا ہوتا ہ...