31/12/25

چنار بک فیسٹول،شاداب شمیم

اردو دنیا،ستمبر 2025

قومی کونسل براے فروغ اردو زبان اور نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا  کے اشتراک سے سری نگر کے ایس کے آئی سی سی میں ’چنار بک فیسٹیول‘کے دوسرے ایڈیشن کا 2تا 10 اگست 2025کو انعقادعمل میں آیا۔ چنار بک فیسٹیول 2025 میں جہاںاردو سمیت مختلف زبانوں کی کتابوں کی ریکارڈ فروخت ہوئی وہیں مختلف ادبی موضوعات پر مذاکرے، مشاعرے اور ثقافتی پروگرام، بچوں کی ادبی و تخلیقی نشوو نما کے لیے سہ روزہ تربیتی ورکشاپ، ساتھ ہی قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام چلنے والے کمپیوٹر سینٹرز کے اساتذہ کے لیے سہ روزہ فیکلٹی ڈیولپمنٹ پروگرام کا بھی انعقاد کیا گیا۔ان پروگراموں میں سامعین و ناظرین کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔کشمیر سمیت ملک کے مختلف حصوں سے ادبا،محققین وناقدین وغیرہ کی موجودگی نے بھی اس فیسٹیول کو یادگار بنادیا۔ خاص طور پر اسکولی طلبہ و طالبات نے جس ذوق و شوق سے اس فیسٹیول میں شرکت کی اور اس کے مختلف پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس سے اندازہ ہوا کہ خطۂ جموں و کشمیر میں اردو زبان و ادب کے تئیں خصوصاً نئی نسل میں غیر معمولی جذبہ و جنون پایا جاتا ہے اور اس خطے میں اردو زبان کا مستقبل نہایت روشن و تابناک ہے۔

پریس کانفرنس

میلے سے ایک دن قبل یکم اگست کو ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس سے این بی ٹی کے ڈائرکٹر جناب یوراج ملک، قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال، چنار بک فیسٹیول کے چیف کنوینر ڈاکٹر امت وانچو اور محکمۂ اطلاعات و نشریات ، جموں و کشمیر کے ڈائرکٹر جناب نتیش رجوریا نے خطاب کیا اور کہا کہ یہ ایک تاریخ ساز بک فیسٹیول ہے جو خطۂ جموں و کشمیر میں علمی، ادبی و ثقافتی بیداری کی لہر پیدا کرے گا۔ انھوں نے اس کتاب میلے میں ملک بھر کے اہم پبلشرز کی شمولیت کے ساتھ ساتھ اس دوران منعقد ہونے والے رنگارنگ ادبی و ثقافتی پروگراموں کی تفصیلات پر بھی روشنی ڈالی۔

افتتاحی پروگرام (2 اگست 2025)

2 اگست کو  ایس کے آئی سی سی سرینگر کے آڈیٹوریم میں اس بک فیسٹیول کا افتتاح عمل میں آیا۔ میلے کا افتتاح وزیر تعلیم حکومت ہند عزت مآب جناب دھرمیندر پردھان،لیفٹیننٹ گورنر آف کشمیر جناب منوج سنہا، ڈیویژنل کمشنر آف کشمیر وجے کمار ودھور ی اورآئی سی ایچ آر کے چیئرمین پروفیسر رگھویندر تنور اور دیگر اہم شخصیات کے ذریعے ہوا۔افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرتعلیم دھرمیندر پردھان نے کہاکہ آج کی تقریب میں جس جوش وخروش کے ساتھ کشمیر کی عوام خاص طور پر نوجوان شریک ہوئے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔انھوں نے کشمیر کی تاریخی،تہذیبی اور ادبی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری تہذیب اور یہاں کے ساہتیہ کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے تاکہ دوسری جگہوں کے لوگ بھی یہاں کی تہذیب وثقافت سے خاطر خواہ واقف ہوسکیں۔وزیر تعلیم نے نئی تعلیمی پالیسی (NEP2020)کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مادری زبان اور علاقائی ادب کو فروغ دینا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔نوجوانوں کو خاص طور پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ٹیکنالوجی گرچہ ہمارے لیے مفید ہے لیکن اس کا استعمال ضرورت کے مطابق ہی کرناچاہیے اور نوجوانوں کو کتب بینی اور مطالعہ کی طرف زیادہ توجہ دینا چاہیے اس لیے کہ مطالعہ نہ صرف علم میں اضافے کا باعث ہوتاہے بلکہ شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتاہے۔کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے اپنے خطاب میں وادی کشمیر کی قدیم تہذیب،علمی ورثے اور ادبی روایات کو اجاگر کیا،انھوں نے کہا کہ کشمیر صدیوں سے علم و ادب اور تصوف و ثقافت کر مرکز رہاہے اور آج بھی یہاں کے دانشور اورمصنفین اپنی تخلیقات سے دنیا میں روشنی پھیلا رہے ہیں۔انھوں نے کشمیر میں بک فیسٹیول کے انعقاد کو خوش آئند قدم قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس قسم کے ادبی میلوں کے ذریعے نوجوانوں میں مطالعے کا ذوق پیدا کیا جاسکتاہے۔نئی نسل اس دوران منعقد ہونے والے مختلف قسم کے ثقافتی پروگراموں میں شریک ہوکر اپنی ادبی،سماجی اور ثقافتی معلومات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ آئی سی ایچ آر کے چیئر مین پروفیسر رگھوویندر تنورنے کہاکہ کشمیر کی علمی روایت، زبان وادب، فلسفے اور سماجی علوم کی زرخیز تاریخ رہی ہے اور یہاں کے دانشوروں نے ہمیشہ تحقیق و تخلیق کے میدان میں قابل ذکر کارنامہ انجام دیاہے۔انھوں نے چنار بک فیسٹیول کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جلد ہی یہ فیسٹیول بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت قائم کرلے گا۔ این بی ٹی کے چیئر مین پروفیسر ملند سدھاکر مراٹھے نے افتتاحی تقریر کرتے ہوئے کہاکہ چنار بک فیسٹیول صرف کتابوں کی فراہمی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں مختلف النوع ثقافتی پروگرامز بھی شامل ہیںجو شرکا کے لیے علم،تخلیق اور تفریح کا حسین امتزاج پیش کریں گے۔انھوں نے مزید کہاکہ نیشنل بک ٹرسٹ کا مقصد کتابوں کے ذریعے قومی یکجہتی،فکری بیدار ی اورتخلیقی شعور کو فروغ دینا ہے اورچنار بک فیسٹیول اسی مشن کا ایک اہم حصہ ہے۔شکریے کی رسم ادا کرتے ہوئے این بی ٹی کے ڈائرکٹر یوراج ملک نے کہا کہ یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہم مسلسل دوسری بار اس علمی وادبی فیسٹیول کا اہتمام کررہے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہر آدمی پڑھے اورہر ہاتھ میں کتاب ہو۔یہی ہمارا خواب ہے اور اسی مشن کے تحت ہم لوگ کام کررہے ہیں۔ اس افتتاحی تقریب میں مہمانان کے ہاتھوںکتاب ’جموں کشمیر اورلداخ‘ کے کشمیر ی ایڈیشن کا اجرابھی عمل میں آیا۔اس کتاب میں کشمیر کی تاریخ کو مفصل انداز میں بیان کیا گیاہے۔

قومی کونسل کے زیر اہتمام سہ روزہ سی اے بی اے ایم ڈی ٹی پی فیکلٹی ڈیولپمنٹ پروگرام (جموں کشمیر، لداخ، ہماچل پردیش اورپنجاب)کابھی 2 اگست کو  آغاز ہوا۔ اس پروگرام میں استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے قومی کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہاکہ یہ پہلاموقع ہے جب ہم فیکلٹی ممبران کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں یہ ہمارے لیے بڑی خوشی کا لمحہ ہے۔ انھوںنے فیکلٹی ڈیولپمنٹ پروگرام کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگرام اساتذہ کی پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ کرتے ہیں اورانھیں جدید تدریسی تکنیکوں سے روشناس کراتے ہیں۔انھوںنے کہاکہ آج کے دور میں کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی تعلیم صرف فنی شعبے تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ ہرمیدان میں کامیابی کی کنجی بن چکی ہے۔ان کے علاوہ سچن چاندلا (جوائنٹ ڈائرکٹر،نائیلٹ،چنڈی گڑھ)، ڈاکٹر مشتاق احمد لون (رکن گورننگ کونسل ممبر، این سی پی یوایل) اور پروفیسر عارفہ بشری (رکن گورننگ کونسل،این سی پی یو ایل)نے بھی متعلقہ موضوع پر اہم گفتگو کی۔ اس پروگرام کی نظامت نصرت جہاں(آر اے،این سی یو ایل)کی اور شکر یے کی رسم اجمل سعید(اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر،این سی پی یو ایل)نے ادا کی۔

افتتاحی تقریب کے بعد آتھر کارنر میں خسرو فاؤنڈیشن اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے  ایک مذاکرہ بعنوان ’تصوف کی معنویت (امیر خسرو سے شیخ العالم تک)‘ منعقد ہوا، جس کی نظامت ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے کی اورپروفیسر اقبال حسنین (سابق وائس چانسلر کالیکٹ یونیورسٹی)،پروفیسر جی این خاکی (ڈائرکٹر انٹرنیشنل سینٹر فار اسپریچول اسٹیڈیز) اور جناب شانتنو مکھرجی (ڈائرکٹر خسرو فائو نڈیشن)نے موضوع سے متعلق بڑی اہم گفتگو کی او ر اس بات پر زور دیاکہ آج کے دور میں صوفیانہ افکار کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ نفرت اور عدم برداشت کا مقابلہ کیا جاسکے۔اس مذاکرے میں ’عقیدے کی دراریں‘ از پروفیسر اقبال حسنین کا اجرا بھی  عمل میںآیا۔

دوسرا دن (3 اگست 2025)

 فیسٹیول کے دوسرے دن خسرو فائونڈیشن نئی دہلی کے زیراہتمام ایک مذاکرہ بعنوان ’مذہب،ثقافت اور جدیدیت‘ منعقد ہوا۔مذاکرے میں پروفیسرجاوید احمد ڈار (شعبہ پولیٹیکل سائنس،کشمیر یونیورسٹی) نے مذہب، ثقافت اورجدیدیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جدیدیت کو اپنانے کا مطلب اپنی مذہبی یا ثقافتی اقدار سے دستبرداری نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ ہم ان اقدار کو جدید تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہاکہ ہمیں جدیدیت کو سمجھنے کے لیے مغربی کلچر کے حدود سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا کیونکہ حقیقی ماڈرنزم صرف سطحی تبدیلیوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے فکری و عملی سطح پر گہری تبدیلیاں درکار ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر پشکر مشرا(ڈائرکٹر رضا لائبریری، رام پور) نے مذہبی اورثقافتی اقدار کو عصری تناظرمیں سمجھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ جدید دور میں ہمیں اپنی روایات و اقدار کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہم ایک ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکیں اور اس ترقی میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی شمولیت اور ان کی بااختیاری کوبھی یقینی بنانا ضروری ہے۔ نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ الرحمن (کنوینر خسرو فائونڈیشن) نے موضوع کا تعارف پیش کیا اورموجودہ دور میں اس کی اہمیت پر اظہار خیال کیا۔ اس پروگرام میں دو کتابوں ’تلواروں کے سائے میں‘ (مصنف،  ایم جے اکبر، مترجم جلیس اختر نصیری) اور ’اسلام، آمریت اور پسماندگی‘ (مصنف، احمد کورو،مترجم سبزار احمد) کا اجرابھی عمل میں آیا۔

تیسرا (4 اگست 2025)

بک فیسٹیول  کے  تیسرے دن آتھر کارنر میں دو پروگرام ’میرا تخلیقی سفر:مصنفین سے ملاقات ‘قومی اردو کونسل کے زیر اہتما م اور’ادبی جمالیات میں کشمیر کا حصہ‘ قومی اردو کونسل اورشعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقد ہوئے۔میرا تخلیقی سفر پروگرام میں ممتاز شاعرہ وادیبہ ڈاکٹر نصرت مہدی (ڈائرکٹر مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی) اور نامور نقاد اور فکشن نگار پرفیسر غضنفر نے شرکت کی اور اپنے تخلیقی تجربات سے سامعین کو روشناس کیا۔ پروفیسر غضنفر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر زمانے کے کچھ مخصوص تقاضے ہوتے ہیں اور ہرادیب و شاعر پر لازم ہے کہ وہ ادب تخلیق کرتے وقت اس وقت کے تقاضوں اورضروریات کو ضرور مدنظر رکھے۔ انھوں نے نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ ادب ریاضت مانگتاہے،محنت اور مشقت چاہتا ہے  اس لیے جلد بازی سے بچتے ہوئے اپنے تخلیقی سفر میں ریاضت کا عمل جاری رکھیں اور مقصدیت کو مدنظر رکھتے ہوئے زبان و اسلوب کے ساتھ ساتھ مواد پر بھی محنت کریں جبھی آپ ایک اچھے ادیب بن سکتے ہیں اور آپ کی تحریرمیں گہرائی کے ساتھ ساتھ گیرائی بھی آئے گی۔ڈاکٹر نصرت مہدی نے اپنے طویل اد بی سفر کے مختلف مراحل کو سلسلے وار طریقے سے بیان کیا اور کہاکہ مشاہدہ، ذاتی تجربہ اور مطالعہ یہ تینوں چیزیں کسی بھی اچھی تخلیق کے لیے لازم اور ضروری ہیں۔ انھوں نے مزید کہاکہ جمالیاتی شعور ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے ادیب ایک عام سی چیز کو بھی فنی پیرائے میں پیش کرنے کے قابل ہوجاتاہے اور کسی بھی صنف میں نمایاں تخلیق پیش کرسکتاہے۔ اپنی انتظامی ذمے داریوں کے حوالے سے انھوں نے کہاکہ اس کی وجہ سے بعض اوقات تخلیقی خیالات ذہن سے محو ہوجاتے ہیں اورپھر کافی غور کرنے کے بعد بھی وہ ذہن میں نہیں آتے لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم نئے اور غیر معروف شعرا اورادباکو تلاش کرپاتے ہیں اوران کی تخلیقات سے قارئین کو روبرو کراتے ہیں ۔اس پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے سید محمد تحسین منور نے کی موضوع کا جامع تعارف پیش کیا۔

دوسرا پروگرام ’ادبی جمالیات میں کشمیر کاحصہ‘  کے عنوان سے تھا۔  اس میں ڈاکٹر ستیش ومل(ممتاز وادیب، شاعر ومترجم)، پروفیسر ستیہ بھاما رازدان (سابق صدر شعبہ سنسکرت و لسانیات،کشمیر یونیورسٹی) اور ڈاکٹر عرفان عارف (صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج، ریاستی جموں)نے کشمیر کی ادبی روایت، جمالیاتی اقداراور اردو ادب میں جمالیاتی تنقید پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر ستیش ومل نے کشمیری شاعری کی روایات اور اس میں موجود جمالیات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کئی اہم نکات کا ذکر کیا اور صوفی شاعروں کا بطور خاص حوالہ دیا۔انھوں نے کہاکہ کشمیر کا استعمال اردو ادب میں ایک استعارہ کے طورپر ہوتا ہے، شاعروں اور ادیبوں نے یہاں کی فطرت، صوفیانہ روایت اور یہاں کی تہذیب کو اپنی تخلیقات میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیاہے۔ انھوں نے ادبی جمالیات کے مفہوم کو نہ صرف واضح کیا بلکہ اس میں کشمیری تہذیب، ثقافت اور روحانیت کے رنگوں کی آمیزش کو بھی مدلل انداز میں اجاگر کیا۔پروفیسر ستیہ بھاما رازدان نے کہاکہ ادبی جمالیات فلسفہ کی ہی ایک شاخ ہے۔ انھوں نے رس کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔انھوںنے سنسکرت کی روایت کو کشمیر ی روایت سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی، ان کے مطابق ریتی سدھانت میں جمالیات کی جو باریکی پائی جاتی ہے وہی کشمیری ادب میں بھی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر عرفان عارف نے ادبی جمالیات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم تمام اصناف کے فنی اور دیگر لوازمات پر غور کرنے کے بعد ہی جمالیات کا تعین کرسکتے ہیں، فن میں خوبیاں تلاش کرنے کانام ہی اصل میں جمالیات ہے۔اس پروگرام کی نظامت سلیم سالک نے کی۔

قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام سہ روزہ سی اے بی اے ایم ڈی ٹی پی فیکلٹی ڈیولپمنٹ پروگرام (جموں  وکشمیر، لداخ، ہماچل پردیش اورپنجاب)کا اختتامی پروگرام ایس کے آئی سی سی کے آڈیٹوریم میں ہوا۔ اس میں ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی(اسسٹنٹ ڈائرکٹر، اکیڈمک، این سی پی یو ایل) سونیارانی(ایڈیشنل ڈائرکٹر، نائلٹ)، سچن چاندلا (جوائنٹ ڈائرکٹر،نائلٹ) اور اجمل سعید (اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر، این سی پی یو ایل)وغیرہ نے خطاب کیا اور فیکلٹی حضرات سے کہاکہ آپ لوگوں نے جو کچھ سیکھا ہے اسے بچوں کو ضرور سکھائیں تاکہ وہ مستقبل میں کچھ بہتر کرسکیں۔اس پروگرام کی نظامت نصرت جہاں(آر اے،این سی پی یو ایل) نے کی۔

 

چوتھا دن (5 اگست 2025)

چنار بک فیسٹیول کے چوتھے دن قومی اردو کونسل کے زیراہتمام’ڈیجیٹل دنیامیں کتاب کلچر کا فروغ‘ اور قومی اردو کونسل و شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے ’کشمیر کی صوفیانہ روایت‘ کے عنوان سے مذاکرے ہوئے۔ ڈیجیٹل دنیا میں کتاب کلچر کا فروغ میں پروفیسر شافع قدوائی(ممتاز اردو وانگریزی اسکالر)اور پروفیسر محمد مبین (وائس چانسلر کلسٹر یونیورسٹی) نے شرکت کی، پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ کتاب کی حیثیت ایک استاد کی ہے جو ہمیں نہ صرف علم عطا کرتی ہے بلکہ سوچنے، غور کرنے اورسوال کرنے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہے۔ انھوں نے کہاکہ کتاب پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہربار ایک نیا تجربہ،نئی سوچ اور نیا مفہوم پیدا ہوتا ہے، کاغذ کی خوشبو، ورق پلٹنے کی آواز اور ذہنی یکسوئی جوایک کتاب پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے وہ ای بک میں ناپید ہے لیکن موجودہ وقت میں ڈیجیٹل دنیا اور ای کتاب کی بھی اپنی اہمیت ہے کہ اسے کہیں بھی چلتے پھرتے، سفر کرتے اور کسی بھی وقت پڑھا جاسکتاہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا فوکس پڑھنے پر ہونہ کہ کسی اور غیر ضروری چیزوں پر۔ پروفیسیر محمد مبین نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مطالعہ کے بغیر علم میں نہ گہرائی آسکتی ہے اورنہ ہی گیرائی، آج کل طلبہ محنت و مشقت کے بجائے اے آئی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا بہت نقصان ہورہاہے اس سے بچنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ جو چیزیں بغیر محنت کے آتی ہیں ان کی افادیت کی مدت کم ہوتی ہے، اس لیے مطالعے کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔ انھوں نے طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ دیگر اچھی اور معیاری کتابوں کا بھی مطالعہ کریں تاکہ آپ کے علم میں وسعت پیدا ہو اور آپ مختلف موضوعات پر بہتر انداز میں سوچ سکیں۔ اس مذاکرے کی نظامت پروفیسر سیدہ افشانہ(نوڈل آفیسرسی بی سی ایس،کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔

           دوسرا پروگرام ’کشمیر کی  صوفیانہ روایت‘ کے عنوان سے ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر (ڈاکٹر) بشیر بشر(سابق ڈائرکٹر مرکز نور، کشمیر یونیورسٹی) نے صوفی ازم اورکشمیر کی صوفیانہ روایت پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ کشمیر میں رشی روایت اورصوفی روایت بہت قدیم ہے۔انھوں نے شیخ العالم، لل دید اور دیگر صوفیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ ان ہستیوں نے کشمیری سماج کو روحانی بصیرت، اخلاقی تعلیم وغیرہ کا جو درس دیا تھا وہ آج بھی قابل تقلید اورلائق عمل ہے۔ ڈاکٹر غلام نبی حلیم(معروف شاعر و مترجم) نے کہاکہ کشمیر کی روح میں تصوف بسا ہوا ہے اور کشمیری صوفی ازم کا ایک ہی مقصد ہے، وہ ہے بھائی چارہ، یکسانیت اور انسان کو ایک دوسرے کے دکھ درد،خوشی اور غم میں شریک ہونا۔ انھوں نے کہا کہ صوفیانہ وراثت کو برقرار رکھنا اور اس کی تعلیمات کو نئی نسل تک پہنچانا ہماری ذمے داری ہے۔اس مذاکرے کی نظامت ڈاکٹر سجاد حسین وانی (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ لسانیات، کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔ ان مذاکروں میں کثیر تعداد میں سامعین شریک ہوئے۔

پانچواں دن (6 اگست 2025)

بک فیسٹیول کے پانچویں دن قومی اردو کونسل اور شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے دو اہم ادبی مذاکرے ’ثقافتی مکالمہ:اردو تراجم کی روشنی میں‘ اور ’لسانی روابط: اردو پر سنسکرت، فارسی اور کشمیری کے اثرات‘ کے عنوان سے آتھر کارنر میں منعقد ہوئے جبکہ ایک اور مذاکرہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور خسرو فائونڈیشن کے زیر اہتمام’ اردو اور فارسی ادب میں صنفی مساوات کی وکالت‘کے عنوان سے ہوا۔ ’ثقافتی مکالمہ:اردو تراجم کی روشنی میں‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر محمد زماں آزردہ(سابق صدر شعبہ اردو وڈین اسکول آف آرٹس،  لینگویجز و لٹریچر،کشمیر یونیور سٹی) نے ترجمے کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ترجمے میں بنیادی طور پر دو زبانیں شامل ہوتی ہیں اور ہرزبان اپنے ساتھ ایک مخصوص ثقافت،اسلوب اور طرز فکر لے کر آتی ہے،اس لیے کسی بھی ترجمے کے دوران صرف لفظی ترجمہ کافی نہیں بلکہ اس لفظ کے پس منظر کو سمجھنا اور جاننا ضروری ہوتا ہے جس سے یہ لفظ وجود میں آیاہے،تبھی ترجمہ بہتر اور اچھا ہوگا۔انھوں نے مزید کہاکہ علمی نثر کا ترجمہ ادبی نثر کے مقابلے میں آسان ہوتا ہے اس لیے کہ علمی نثر میں عام طور پر تکنیکی اصطلاحات کا چیلنج درپیش ہوتاہے مگر ادبی ترجمہ ایک پیچیدہ عمل ہے کہ اس میں صرف ایک زبان سے دوسری زبان میں مواد کو ہی منتقل نہیں کیا جاتا بلکہ ایک زبان کی تہذیب و ثقافت بھی دوسری زبان میں منتقل کی جاتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاد رمضان(سابق صدر شعبہ کشمیری، کشمیر یونیورسٹی)نے کہا کہ ہر زبان کا ایک محاوراتی نظام ہوتاہے، اگر مترجم اس سے واقف نہ ہو تو وہ کبھی بھی مؤثر اور بامعنی ترجمہ نہیں کرسکتا۔ انھوں نے مزید کہاکہ کشمیر میں ترجمے کی روایت بہت پرانی ہے،کشمیر ی زبان میں لکھی گئی کتابوں اور تحریروں کا ترجمہ دوسری زبانوں میں صدیوں سے ہوتا آرہاہے، یہ تراجم نہ صرف علم و ادب کے تبادلے کا ذریعہ بنے بلکہ انھوں نے مختلف زبانوں اور تہذیبوں کے درمیان پل کا کام بھی کیاہے۔  پروفیسر شمس کمال انجم(ڈین وصدر، اسکول آف اسلامک اسٹڈیز،بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی) نے گفتگوکرتے ہوئے عربی زبان سے اردو میں جو تراجم ہوئے ہیں ان پر تفصیلی روشنی ڈالی اورکہاکہ امرؤ القیس اور متنبی وغیرہ کا ترجمہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوا ہے جس کی وجہ سے عربی زبان کی خوب صورتی اور اس کے ادب سے دنیا بھر کے لوگ واقف ہوئے۔انھوں نے مزید کہاکہ اگر ترجمے کا عمل نہ ہوتا اور مترجم نہ ہوتے تو ہم بہت سی علمی،فکری اور ادبی چیزوں سے ناواقف رہ جاتے۔ اس مذاکرے کی نظامت ڈاکٹر محمد الطاف آہنگر (ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹینس ایجوکیشن،کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔

دوسرا مذاکرہ ’لسانی روابط:اردو پر سنسکرت،فارسی اور کشمیری کے اثرات‘کے عنوان سے منعقد ہوا،جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر نذیر احمد ملک (سابق صدر شعبہ اردو وڈین اسکول آف آرٹس، لینگویجز و لٹریچر،کشمیر یونیورسٹی)نے کہاکہ جب کسی علاقے یا خطے میں دو یا دوسے زائد زبانیں ایک دوسرے کے ربط میں آتی ہیں تو ان کے الفاظ، اسلوب وغیرہ میں لازمی طورپر تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔انھوں نے مزید کہاکہ اردو زبان پر بہت سی زبانوں کے اثرات ہیں لیکن سنسکرت اور فارسی کے اثرات زیادہ ہیں۔ پروفیسر اعجاز محمد شیخ (ماہر لسانیات و صدر شعبہ اردو وڈین اسکول آف آرٹس، لینگویجز و لٹریچر،کشمیر یونیورسٹی) نے کہا کہ اردو زبان پر دیگر زبانوں کے علاوہ کشمیری زبان کے اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ،کشمیری زبان کے مخصوص الفاظ اور لہجے وغیرہ اردو کی بول چال اور ادب میں شامل ہوچکے ہیں اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ کشمیر کے لوگ اردو بولتے ،لکھتے ،پڑھتے ہیں اور یہاں کے اخباروں کی زبان بھی اردو ہی ہے۔ ڈاکٹر جہانگیر اقبال (صدر شعبہ فارسی، کشمیر یونیور سٹی) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اردو برصغیر کی صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب و ثقافت ہے اور کشمیرمیں اردو کا مستقبل روشن اور درخشندہ ہے اس لیے کہ تقریبا ہرگھر میں بچے کشمیری کے بجائے اردو بولتے ہیں ۔ اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر صائمہ جان نے کی۔

تیسرا مذاکرہ بعنوان ’ اردو اور فارسی ادب میں صنفی مساوات کی وکالت‘ تھا۔اس مذاکرے میں ڈاکٹر سید مبین زہرا (ایسوسی ایٹ پروفیسر،دہلی یونیورسٹی)  اور معروف ادبیہ و شاعرہ نسرین حمزہ علی نے موضوع سے متعلق اہم گفتگو کی اور کہاکہ اردو اور فارسی ادب میں خواتین کے مسائل، حقوق اور مساوات کے حوالے سے اچھا خاصا مواد موجود ہے۔عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر وغیرہ نے کھل کر اپنی بات رکھی ہے اور مساوات، صنفی تفریق اور سماجی رویوں پر کھل کر لکھا ہے۔  اس مذاکرے کی نظامت جناب نذیر گنائی نے کی۔ مذاکرے کے آخر میں نسرین حمزہ کی کتاب ’راکھ میں دبی چنگاری‘ اور طہ نسیم کی کتاب ’ترنگا آنچل‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمن (کنوینر،خسرو فاؤنڈیشن) نے شکریے کی رسم ادا کی۔ ان پروگراموں میں طلبہ،اساتذہ اور اردو زبان و ادب سے محبت رکھنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

چھٹا دن (7 اگست 2025)

چنار بک فیسٹیول 2025 کے چھٹے دن قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی اور شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے سہ روزہ تربیتی ورکشاپ بعنوان 'نئی نسل میں ادبی و تخلیقی مہارتوں کی نشوونما' کا افتتاح عمل میں آیا۔اس موقعے پر استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ قومی اردو کونسل کی اولین ترجیحات میں شامل ہے کہ نئی نسل کو وہ تمام مواقع فراہم کیے جائیں جن کے ذریعے وہ اپنے خوابوں کو تعبیر عطا کرسکیں۔انھوں نے کہا کہ اس ورکشاپ کا مقصد نوجوانوں میں چھپی ہوئی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنا اور انھیں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرناہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں اور خیالات کا آزادانہ اظہار کرسکیں۔ ہم نے اس موقعے پر یہ اہتمام بھی کیا ہے کہ کہنہ مشق تخلیق کار نوجوانوں سے براہ راست بات کریں اور انھیں صیقل کریں تاکہ نئے لکھنے والے بہتر طریقے سے اپنی تخلیقات پیش کرسکیں۔ ڈائرکٹر قومی کونسل نے کہا کہ کشمیر میں مجھے اردو زبان کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے، یہاں کے طلبہ جس ذوق و شوق اور سنجیدگی سے اردو زبان پڑھ اور سیکھ رہے ہیں وہ نہایت خوش آئند اور قابل تحسین ہے۔ تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر اعجاز محمدشیخ (صدر شعبہ اردو وڈین اسکول آف آرٹس کشمیر یونیورسٹی) نے تخلیق،تخیل اور فکشن کے باہمی رشتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ادبی تحریر کو مؤثر بنانے کے لیے تخیل کی بلند پروازی بہت ضروری ہے، ان کی گفتگو کا محور تخلیق اورتخلیقیت تھا، انھوں نے کہانی کے ارتقائی سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ کہانی کہنے اور سننے کی جو روایت ہماری تہذیب کا حصہ رہی ہے اسے نئی نسل تک پہنچانا ازحد ضروری ہے۔صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر سید درخشاں اندرابی (چیئرپرسن جموں اینڈ کشمیر وقف بورڈ)نے کہاکہ ایسے ورکشاپس اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے ناگزیر ہیں اور اس طرح کے پروگرام مسلسل ہونے چاہئیں تبھی نئی نسل اردو زبان سے قریب ہوگی اور نئے لکھنے والے پیدا ہوں گے۔انھوں نے مزید کہاکہ آج کی نوجوان نسل خوش قسمت ہے کہ اسے ایسا سازگار ماحول مل رہاہے جس میں وہ اپنے تخلیقی جوہر اور پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھار سکتی ہے۔ انھوں نے اردو زبان کے اساتذہ اور تخلیق کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں،انھیں قبول کریں اور ان کی رہنمائی کریں اس لیے کہ یہی لوگ مستقبل میں بہتر قلمکار بن کر ابھریں گے اور اردو زبان وادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے۔ کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے جناب فیاض دلبر (مشہورآرٹسٹ،شاعر اور فکشن نگار) نے اس ورکشاپس کی افادیت اور اہمیت پر گفتگو کی اور کہاکہ اس قسم کے ورکشاپس میں شرکا صرف سامع یاناظر نہیں ہوتے بلکہ وہ خود اس عمل کا حصہ ہوتے ہیں، اس میں مکالمہ،مشق اور تخلیق کا براہ راست تجربہ ہوتاہے اور ساتھ ہی وہ تخلیق میں حصہ لیتے ہیں،سیکھتے ہیں، سوال کرتے ہیں اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو نئی سمت دیتے ہیں۔ نظامت ڈاکٹر نصرت نبی(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج، گاندربل) اور شکریے کی رسم ڈاکٹر کوثر رسول (اسسٹنٹ پروفیسر، کشمیر یونیورسٹی) نے ادا کیے۔ افتتاحی پروگرام کے بعد اس ورکشاپ کے دو سیشن بھی ہوئے۔ پہلے سیشن میں مشہور ناقد و فکشن نگار پروفیسر غضنفر نے شرکا سے کہانی لکھنے کے طریقے اور تخلیقیت کے لیے کیا چیزیں ضروری ہیں ان پر تفصیلی گفتگو کی،اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر فلک فیروز(اسسٹنٹ پروفیسر،جی ڈی سی) نے کی۔ دوسرے سیشن میں ڈاکٹر ریاض توحیدی نے فکشن کی باریکیوں کے سلسلے میں گفتگو کی اور کہاکہ مشق اور محنت سے ہی آپ ایک اچھے تخلیق کار بن سکتے ہیں۔اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر شاہ فیصل نے کی۔

قومی اردو کونسل اورشعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے دو مذاکرے بھی ہوئے۔پہلا مذاکرہ ’جدید تکنیکی وسائل اور اردو صحافت: امکانات اور چیلنجز‘ کے عنوان سے تھا۔اس مذاکرے میں ڈاکٹر طارق عبداللہ (پروڈیوسر،ایجوکیشنل ملٹی میڈیا، ریسرچ سینٹر، کے یو)، ڈاکٹر راشد مقبول(میڈیاٹرینر واسسٹنٹ پروفیسر ملٹی میڈیا ریسرچ سینٹر) اور ڈاکٹر روبیلا حسن (ڈین و ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبہ صحافت،اسلامک یونیورسٹی) نے اظہار خیال کیا۔ڈاکٹر طارق عبداللہ نے کہا کہ جب تک اردو زبان انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک رہے گی اس کی معنویت اور افادیت میں کمی واقع نہیں ہوسکتی۔ڈاکٹر راشد مقبول نے جدید ٹیکنالوجی کے مثبت پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی نے اردو صحافت کے منظرنامے میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ان کا کہناتھا کہ کشمیر میں اردو اخبارات کے لے آؤٹ، فونٹس اور طباعتی معیار کے حوالے سے کئی نئے تجربات کیے گئے ہیں جو قابل تحسین ہیں۔ ڈاکٹر روبیلاحسن نے کہاکہ جدید تکنیکی وسائل نے خبر رسانی کو فوری اور مؤثر بنا دیا ہے۔ انھوں نے اے آئی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اردو کی ترویج و ترقی میں اے آئی کلیدی رول ادا کرسکتی ہے۔نظامت ڈاکٹر ناظم نذیر (ایڈیٹر،روزنامہ تعمیل ارشاد، سرینگر) نے کی۔ دوسرا مذاکرہ ’کشمیرمیں لسانی تنوع اور ادبی تخلیق‘ کے عنوان سے تھا۔اس میں پروفیسر شفیق شفیع شوق (سابق صدر شعبہ کشمیری وسابق ڈین اسکول آف آرٹس، لینگویجز ولٹریچر،کشمیر یونیورسٹی)اور پروفیسر نذیر آزاد (مشہور اسکالر وتنقید نگار) نے اظہار خیال کیا۔ مذاکرے میں گفتگو کا مرکزی نکتہ یہ تھاکہ کشمیر محض جغرافیائی اور قدرتی لحاظ سے ثروت مند خطہ نہیں ہے، بلکہ لسانی سطح پر بھی ایک ہم آہنگ اورتاریخی ورثے کا حامل خطہ ہے۔ زبان کے قومی منظر نامے میں بھی کشمیری زبان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جومحض ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ تخلیقی اظہار کی ایک زرخیز زمین بھی ہے۔مذاکرے میں  اس بات پر زور دیاگیاکہ کشمیری زبان کو جدید تکنیکی وسائل سے بھی ہم آہنگ کیا جانا چاہیے تاکہ اس کی رسائی نسل نو تک بآسانی ہو اور اس میں تخلیقی امکانات کو بروئے کار لایا جاسکے۔ اس مذاکرے کی نظامت ڈاکٹر مشتاق احمد وانی(سابق فیکلٹی ممبرشعبہ اردو،بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی) نے کی۔

ساتواں دن (8 اگست 2025)

چنار بک فیسٹیول کے ساتویں دن قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اورشعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے دو مذاکرے ’نئی تعلیمی پالیسی 2020 میں لسانی تنوع:اردو اور کشمیری میں امکانات‘ اور’اردو ادب اور ثقافتی مکالمے میں کشمیری خواتین‘کے عنوان سے منعقد ہوئے۔ پہلے مذاکرے میں پروفیسر شریف الدین پیر زادہ (سابق صدر شعبہ ریاضیات و ڈین اکیڈمک افیئرز،کشمیر یونیورسٹی)،پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد صدیقی (چیف کوآرڈینیٹر،این ای پی،کشمیر یونیورسٹی) اور ماجد زماں (کنٹرولر آف اگزامنیشن،کشمیر یونیورسٹی) نے گفتگو کرتے ہوئے نئی تعلیمی پالیسی کے تناظر میں علاقائی اور مادری زبانوں کی تدریس،ان کے فروغ اور مستقبل کے امکانات و مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ پروفیسر شریف الدین پیر زادہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نئی تعلیمی پالیسی 2020 ملک کے تعلیمی ڈھانچے میں ایک ٹرانسفارمیشن یعنی ہمہ گیر تبدیلی کا پیش خیمہ ہے اگر اس کو طلبہ نے صحیح طریقے سے فالو کرلیا تو یقینا کامیابی ان کے قدم چومے گی۔انھوں نے مزید کہاکہ اس پالیسی میں مادری اور علاقائی زبانوں کو ابتدائی تعلیم کاذریعہ بنانے کا فیصلہ ایک مثبت قدم ہے جو اردو اور کشمیری زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔  انھوں نے مزید کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں اردو اور کشمیری زبانوں کے لیے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔پروفیسر مشتاق احمد صدیقی نے کہاکہ نئی تعلیمی پالیسی کا خاطر خواہ نتیجہ اسی وقت نکل سکتاہے جب اسے اسکولس،کالجز اور یونیورسٹیز میں مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔انھوں نے مزید کہاکہ اس پالیسی میں جس طرح کی تجاویز پیش کی گئی ہیں اگر انھیں عملی طور پر اپنایا گیاتو ہمارے تعلیمی معیار میں یقینا بہتری آئے گی۔ماجد زماں نے کہاکہ نیو ایجوکیشن پالیسی میں کثیر لسانی تعلیم اور مادری زبان میں ابتدائی تعلیم پر زور دینا ایک اہم قدم ہے، کیوں کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے نہ صرف یہ کہ پڑھنے لکھنے اور سیکھنے کی رفتار بڑھتی ہے بلکہ اس سے ثقافتی ورثہ بھی محفوظ رہتا ہے۔ اس مذاکرے کی نظامت ڈاکٹر مشتاق حیدر (استاد شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔

آج کا دوسرا مذاکرہ ’اردو ادب اور ثقافتی مکالمے میں کشمیری خواتین‘ کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر ایاز رسول نازکی (سابق رجسٹرار، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری) نے کہاکہ کشمیر کی ادبی روایت میں روحانیت کی نمائندہ لل دید اور رومانیت کی نمائندہ حبہ خاتون کی مثالیں دونوں سمتوں کی تخلیقی جہات کو واضح کرتی ہیں، بعد میں رخسانہ جبیں اور دیگر شاعرات نے اس روایت کو جاری رکھا تاہم درمیان میں ایک طویل خلا نظر آتاہے۔ محترمہ رخسانہ جبیں (سابق ڈائریکٹر آل انڈیا ریڈیو،سرینگر) نے کہاکہ عابدہ احمد اور شملہ مفتی نے نسائی ادب کو بنیاد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے۔انھوں نے مزید کہاکہ کشمیری خواتین کے ادب میں موضوعات کا ایک متنوع سلسلہ ملتاہے تاہم سماجی جبر اور معاشرتی رویے خواتین کو پوری طرح ابھرنے سے روکتے ہیں۔ ڈاکٹر نگہت سعید قریشی (ممتاز شاعرہ وفکشن نگار) نے کہاکہ شاعری کا تعلق فوری اور جذباتی اظہار سے ہے اس لیے کشمیر میں زیادہ تر خواتین شاعری کی طرف مائل رہی ہیں۔ انھوں نے نسائیت اور تانیثیت کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے کہاکہ نسائیت ایک سماجی اور نوثقافتی تصور ہے جبکہ تانیثیت ایک فکری و سماجی تحریک ہے۔ اس مذاکرے کی نظامت ڈاکٹر کوثر رسول(اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔

 قومی اردو کونسل اور شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے جاری سہ روزہ تربیتی ورکشاپ بعنوان 'نئی نسل میں ادبی و تخلیقی مہارتوں کی نشوونما' کے  تین سیشنز بہت کامیابی کے ساتھ منعقد ہوئے۔ پہلے سیشن کا عنوان ’کہانی میں مکالمہ اور توضیحی عناصر‘ تھا،اس کی اسپیکر ڈاکٹر کوثر رسول(اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی) تھیں، انھوں نے منظر نگاری اور مکالمہ نگاری کے حوالے سے بڑی اہم گفتگو کی۔اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر اویس احمد بھٹ (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو،کشمیر یونیورسٹی) نے۔ دوسرے سیشن کاعنوان ’کہانی کی ساخت اورر اختتام: اپنا بیانیہ کیسے تشکیل دیں‘ تھا۔ اس کے اسپیکر جناب شکیل الرحمن (مشہور شاعر، ناقد) تھے۔ انھوں نے کہانی کی ساخت اور اختتام کے حوالے سے بڑی مفید گفتگو کی۔ اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر اقبال لون (اسسٹنٹ ایڈیٹر،شیرازہ،کلچرل اکیڈمی، جموں وکشمیر) نے کی۔ کا تیسرا اور آخری سیشن ’تخلیقی تحریر کی رہنمائی: آپ کہانی کیسے لکھیں‘تھا۔اس سیشن کے مینٹور مشہور فکشن نگارجناب دیپک بدکی، مشہور شاعر وفکشن نگار جناب مشتاق مہدی اورمعروف ادیب وڈراما نویس جناب غلام نبی شاہد تھے۔ان حضرات نے کہانی کیسے وجود میں آتی ہے اورتخلیقی تحریر کی کیا کیا خصوصیات ہیں ان پر گفتگو کی۔اس سیشن کی نظامت نوجوان شاعر و فکشن نگار ڈاکٹر محمدیوسف وانی نے کی۔ ورکشاپ کے ان سیشنز میں شرکانے دلچسپی کا مظاہرہ کیا اوراخیر میں اسپیکر و مینٹور حضرات سے سوالات بھی کیے جن کا مقررین نے تسلی بخش جواب دیا۔

آٹھواں دن (9 اگست 2025)

9 اگست کو  سہ روزہ تربیتی ورکشاپ بعنوان 'نئی نسل میں ادبی و تخلیقی مہارتوں کی نشوونما'کا اختتام عمل میں آیا۔ اس اختتامی سیشن میں استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ اس ورکشاپ کا مقصد نوجوانوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارنا اور ان کے تخلیقی سفرکو پرواز عطا کرنا تھا۔انھوں نے نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ جو کچھ آپ سوچ رہے ہیں اس پر اعتماد کے ساتھ عمل کیجیے کیونکہ آپ کی سوچ اور آپ کا نقطہ نظر تازہ اوربہتر ہے۔ انھوں نے شرکا سے کہاکہ آپ میں بے پناہ پوٹینشیل موجودہے اور آپ کے درمیان سے ہی کل بڑے لکھنے والے کہانی کار اور تخلیق کار پیدا ہوں گے۔ مہمان خصوصی پروفیسر محمد مبین(وائس چانسلر، کلسٹر یونیورسٹی) نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اچھی تخلیق کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے جب تک آپ اچھے قاری نہیں بنیں گے تب تک آپ اچھے تخلیق کار اور کہانی نویس نہیں بن سکتے۔انھوں نے کہاکہ مطالعہ نہ صرف زبان و بیان میں مہارت پیدا کرتاہے بلکہ تخیل کو بھی جلا بخشتاہے اور نئے خیالات کو بھی جنم دیتا ہے۔ مہمان اعزازی وحشی سعید (ممتاز فکشن نگار و ناقد) کا تحریر کردہ پیغام سلیم سالک (نوجوان ادیب اور ایڈیٹر، کلچرل اکیڈمی،جموں و کشمیر) نے پیش کیا۔ انھوں نے پیغام میں اس ورکشاپ کی تعریف کی اور کہاکہ اس طرح کا ورکشاپ مسلسل ہونا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو سیکھنے اور آگے بڑھنے کے مواقع ملتے رہیں۔ڈاکٹر کوثر رسول (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو،کشمیریونیورسٹی) نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس ورکشاپ میں شرکا نے بڑے ذوق و شوق سے سیشنز میں حصہ لیا  اور کہنہ مشق فکشن رائٹرز سے بھرپوراستفادہ کیا۔ مجھے پوری امید ہے کہ نوجونواں نے جو کچھ سیکھا ہے اس کی روشنی میں وہ اچھی اور بہترین کہانیاں لکھیں گے۔اظہار تشکر ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی(اسسٹنٹ ڈائریکٹر، اکیڈمک، این سی پی یوایل) اورنظامت ڈاکٹر راشد مقبول(اسسٹنٹ پروفیسر، میڈیا ایجوکیشن ریسرچ سینٹر،کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔

 اختتامی اجلاس سے قبل ورکشاپ کی تین نشستیں ہوئیں۔پہلی نشست ’اسٹوری سرکلز‘ میں شرکا کے ذریعے کہانیوں کی گروپ پیشکش ہوئی۔اس سیشن میں مینٹورس ڈاکٹر نذیر مشتاق (مشہور کہانی کار و میڈیکل ڈاکٹر، ممتاز انگریزی فکشن نگار) ڈاکٹر مشتاق برق، مشہور فکشن نگار و ادیب جناب راجا یوسف اور معروف کہانی کار جناب ناصرضمیر شریک ہوئے۔اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر محمد ذاکر (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو،کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔دوسرا سیشن ’افسانے کی بیانیہ تکنیک اور ادبی اسالیب: تخلیقی اظہار،ساخت اور اسلوب نگارش کی عملی رہنمائی‘کے حوالے سے ہوا۔ اس سیشن کے اسپیکرس ڈاکٹر مشتاق حیدر (اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو،کشمیر یونیورسٹی) اور پروفیسر منیجا خان (صدر شعبہ انگریزی، اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی،اونتی پورہ، کشمیر) تھے۔نظامت کے فرائض سلیم سالک نے انجام دیے۔

تیسرا سیشن’ معاصر اردو فکشن نگاری میں نوجوان تخلیق کاروں کا کردار‘ کے عنوان سے تھا۔اس کے پینلسٹس مشہور ادیب ڈاکٹر عیاش عارف،ڈاکٹر نذیر مشتاق (مشہور کہانی کار و میڈیکل ڈاکٹر)اور مشہور ادیب وناقد جناب شوکت شفیع تھے۔ مذکورہ سیشن کی نظامت مشہور ادیب واسکالر جناب راشد عزیز نے کی۔

قومی اردو کونسل اور شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے آتھر کارنر میں ایک مذاکرہ ’اردو میں ای پبلشنگ‘ کے عنوان سے بھی منعقدہوا۔اس مذاکرے میں ڈاکٹر اعجاز اشرف(ریجنل ڈائرکٹر،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، سرینگر)، جناب جاوید ماٹجی(معروف صحافی و جنرل سکریٹری جموں و کشمیر اردو کونسل) اور ڈاکٹر ادریس احمد (ڈائرکٹر،غالب انسٹی ٹیوٹ،دہلی) نے اظہار خیال کرتے ہوئے اردو زبان میں ای پبلشنگ کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور اس کے مثبت و منفی  اثرات اور اچھے اور برے پہلووں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر اعجاز اشرف نے کہاکہ ای بک کی حیثیت محض فرسٹ ایڈ کی ہے،ان کے مطابق جو لطف اور احساس کتاب کی ورق گردانی میں ہے وہ ای بک سے حاصل نہیں ہوسکتا اس لیے مطالعے کے لیے کتب خانوں کا رخ کریں اور دل لگاکر مطالعہ کریں۔جناب جاوید ماٹجی نے کہاکہ اگر تلاش کے باوجود مطلوبہ کتاب یا مواد دستیاب نہ ہو تبھی آپ ای بک کی طرف رجوع کریں۔انھوں نے مزید کہاکہ ٹیکنالوجی کی سہولت کا فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ کتب بینی کی عادت کو زندہ رکھنا از حد ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں کتاب سے اپنا تعلق برقرار رکھ سکیں۔ ڈاکٹر ادریس احمدنے کہاکہ وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلنا ضروری ہے اور ضرورت کے مطابق ای بک کا استعمال ضرور کرنا چاہیے لیکن لائبریریوں کا رخ کرنا اور کتاب کا مطالعہ کرنا نہ صرف ذہنی ارتقا کا باعث بنتاہے بلکہ تحقیق اور مطالعے کی گہرائی کو بھی بڑھاتا ہے۔ نظامت ڈاکٹر فیضان الحق(پروجیکٹ اسسٹنٹ، این سی پی یو ایل) نے کی۔

نواں دن (10 اگست 2025)

چنار بک فیسٹیول2025 کے آخری دن قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان اور شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے ایک مشاعرے کا انعقاد ہوا،جس میں وادی کشمیر کے نمایندہ شعرا نے خوبصورت کلام پیش کیے۔ مشاعرے میں غزل و نظم کے ذریعے انسانی اقدار، سماجی مسائل اور فطری مناظر کے موضوعات کو دلکش انداز میں پیش کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت کشمیر کے مشہور شاعر رفیق راز نے کی۔ صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مشاعرے میں شریک تمام شعرا نے عمدہ اور معیاری کلام پیش کیا۔ انھوں نے مزید کہاکہ ایسے مشاعرے اور ادبی اجتماعات نہ صرف یہ کہ شعروادب کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اہل ذوق کو باہمی میل جول اور اظہار خیا ل کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ نودنوں تک جاری رہنے والا ادبی و ثقافتی میلہ کامیابی کے ساتھ آج اختتام کو پہنچا۔ انھوں نے کہاکہ جس معیار کے ڈسکورس اور ڈائلاگ کی مجھے امید تھی اسکالرز نے اس سے بڑھ کر علمی،ادبی اور فکری گفتگو کی جس سے سامعین کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے کہاکہ اس فیسٹیول میں نوجوانوں نے جس ذوق و شوق اور دلچسپی کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے اور اس کو کامیاب بنانے میں ان کا اہم کردار ہے۔مشاعرے کی نظامت پرویز مانوس نے کی۔ مشاعرے میں پیش کیے گئے شعرا کے اشعار درج ذیل ہیں:

قطرۂ اشک ہے دورخ کو بجھا سکتاہے

ایسی طاقت ہے کہاں اور کسی پانی میں

(رفیق راز)

عشق تھا آخری امید مگر

عشق کر کے بھی کیا ملا ہے مجھے

  (شفق سوپوری)

میں زندگی کا زخم ہوں

جب بھی کریدو نظم جنتی ہوں

 (شبنم عشائی)

محبت ہم پس دیوار کرتے ہیں

مگر نفرت سربازار کرتے ہیں

(اشرف عادل)

وہ اکثر خواب میں آکر مرے ہمراہ چلتا ہے

مجھے اب نیند میں چلنے کی بیماری نہ ہوجائے

  (شبینہ آرا)

زندگی یہ قید ہے عابد کے زنجیر جیسی

ہے ٹیس یہاں ننھے اصغر کے تیر جیسی

  (کفایت فہیم)

بوسیدہ ہمارے ہیں ضمیروں کے مکانات

کرتے ہیں اثر سنگ ملامت بھی بہت کم 

 (ستیش ومل)

نظروں کے آگے آیا جو چہرہ جناب کا

دیدار ہم نے کر لیا تازہ گلاب کا

  (بشیر چراغ)

کس قدر ہیں پیچیدہ مسئلے محبت کے

بند کیے ہیں اب دل نے داخلے محبت کے

 (پرویز مانوس)

مشاعرے میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی جو ہرشعر پر داد وتحسین سے نوازتی رہی اور مشاعرے کے اختتام پر تالیوں کی گونج اور واہ واہ کی آواز دیر تک جاری رہی۔

 

Md. Shadab Shamim

D-35, Shaheen Bagh, Jamia Nagar

New Delhi- 110025

Mob.: 9643885605

ashadabrampuri@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

وکست بھارت وژن اور مشن،مضمون نگار: عارفہ بشریٰ

اردو دنیا،ستمبر 2025 ہندوستان صرف ایک جغرافیائی قطعۂ ارضی کا نام نہیں، ایک منفردتاریخ اور قابل فخر تہذیب کا نام ہے۔ کم و بیش پانچ ہزار برسو...